اگر ہم وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ جنگوں کے بدلتے ہوئے طریقہ کار یا ( Generations) کو دیکھیں تو لڑی جانے والی جنگوں کو پانچ مختلف جنریشنز میں تقسیم کیا جاتا ہے-
فرسٹ جنریشن وار فئیر میں دو گروہوں کے مابین جنگ صنعتی انقلاب سے پہلے تیروں، تلواروں اور گھوڑوں کے ذریعے ایک بہت بڑے میدان میں لڑی جاتی تھی-
سیکنڈ جنریشن وار فئیر کا دور صنعتی انقلاب کے بعد شروع ہوتا ہے جب بندوقیں اور توپیں استعمال ہونا شروع ہوئی اور ان کے نشانہ میں درستی (Accuracy) بڑھ گئی- اس دور میں اپنی ظاہری شناخت کو چھپانے (Camouflage) کی تکنیک بہت زیادہ استعمال ہونا شروع ہوئی-
اسی طرح تھرڈ جنریشن وار فئیر میں مزید جدت اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہوا- جنگوں میں فضائیہ اور نیوی کو کلیدی حیثیت حاصل ہوئی اور میزائل ٹیکنالوجی کی مدد سے دور سے دشمن پر وار کیے گئے- جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے رفتار اور سرپرائز کے عناصر شامل ہوئے- دشمن کے خلاف گوریلا (Guerilla) کاروائیاں بھی بہت شدت سے شروع ہوئی-
فورتھ جنریشن وار فئیر میں نان سٹیٹ ایکٹرز، پراکسیز اور سفارت کاری (Diplomacy) کے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جس کی مثال سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ ہے-
ففتھ جنریشن وار فئیر یا ہائبرڈ وار فئیر میں جنگ لڑنے کا روایتی طریقہ کار یکسر تبدیل ہو چکا ہے اب جنگ میدان میں لڑنے کی بجائے اذہان میں لڑی جاتی ہے- اس جنگ کو ’’Virtual war‘‘یا’’War on people before waging war on country ‘‘بھی کہا جاتا ہے-
اس جنگ کے ذریعے عام عوام کو ذہنی طور پر ریاست کے خلاف بددل (Demoralized) کر کے ریاست کی بنیادوں کو اندرونی طور پر کھوکھلا کیا جاتا ہے- اس جنگ کے اہم ہتھیار سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ فیک نیوز، ڈس انفارمیشن اور پروپیگنڈا کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ ریاست مخالف مواد کو مربوط انداز میں ریاست کے اندر پھیلایا جاتا ہے ، وٹس ایپ گروپس ، فیس بک پیجز اور گروپس ، ٹویٹر ہیش ٹیگ ، یو ٹیوب پہ جعلی مواد اور اس طرح کی کئی دیگر ٹیکنیکس استعمال ہوتی ہیں - ایک منظم حکمت عملی اور مربوط طریقہ کار سے اس عمل کو سر انجام دیا جاتا ہے- ہائبرڈ وار فیئر کے ذریعے خصوصاً نوجوان نسل کو ریاست اور ریاست کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے تاکہ انہیں اپنی ہی ریاست کے خلاف استعمال کیا جاسکے-
ففتھ جنریشن وار فئیر کے بدلتے ہوئے ہتھیار :
حال ہی میں یورپ کے ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز کی روک تھام کیلیے قائم ای یو ڈس انفولیب ( EU Disinfo Lab) نامی ادراے نے اپنی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے کہ کس طرح بھارت 15 سالوں سے ’’سری واستوا گروپ ‘‘ نامی نیٹ ورک کےذریعے فیک نیوز اور پروپیگنڈا پھیلا کر پاکستان کو عالمی سطح پر بد نام کرنے کی کوششیں کر رہا تھا-
زیر نظر مضمون میں ہم اسی تناظر میں اور اس کے علاوہ ففتھ جنریشن وار فئیر کے بدلتے ہوئے چند اہم ہتھیاروں کا ذکر کریں گے -
جعلی این جی اوز کا قیام:
اس رپورٹ کی روشنی میں جعلی این جی اوز کا کردار بے نقاب کیا گیا ہے کہ کیسے بھارت کم از کم 10 جعلی این جی اوز کا استعمال کر کے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی کاروائیوں اور فیصلہ سازی پر اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر براہ راست اثر انداز ہو رہا تھا- ان این جی اوز کو اقوام متحدہ کی کاروائیوں میں براہ راست رسائی حاصل تھی- بھارت انہی این جی اوز کے ذریعے برسلز اور جنیوا میں عالمی سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی کو متاثر کر رہا تھا-
فیک نیوز کی تشہیر کے نئے ہتھکنڈے:
الیکٹرانک، پرنٹ اور خصوصاً سوشل میڈیا کے مختلف (Tools) کے ذریعے ایک منظم طریقہ کار اور گٹھ جوڑ سے فیک نیوز کی تشہیر کر کے اسے آگے پھیلایا جاتا ہے-آج کل فیک نیوز کو پھیلانے کا طریقہ واردات کچھ اس طرح ہے کہ سب سے پہلے سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹرپر ایک منظم حکمت عملی سے ٹویٹس کی جاتی ہیں- پھر ان ٹویٹس کو بنیاد بنا کر وی لاگ ( Vlog) کر کے خبر بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جاتی ہے (اس سلسلے میں ڈس انفولیب کی رپورٹ میں بھارت کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی اے این آئی کا فیک نیوز ایجنسیز کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا گیا ہے) اسی طرح مخصوص ٹرینڈز بنا کر سوشل میڈیا پر اس موضوع پر بحث شروع کروا دی جاتی ہے- جس سے ریاست کے اندر ایک ہیجان سی کیفیت پیدا کی جاتی ہے- جیسے اکتوبر 2020ء کے اختتام پر پاکستان کے شہر کراچی میں ’’سول وار‘‘ کا پروپیگنڈا پھیلا گیا تھا جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے اور پروپیگنڈا ناکام ہوا-
جعلی شناخت کا استعمال:
جعلی معلومات اور پروپیگنڈا پھیلانے کیلئے ففتھ جنریشن وار فئیر کے اہم ہتھکنڈوں میں دوسروں کی شناخت چرا کر یا جعلی شناخت اپنانا بھی شامل ہے- انڈین کرونیکلز کے نام سے شائع کردہ اس رپورٹ میں 116 ممالک میں 750 سے زائد جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے فیک نیوز پھیلائی گئی تھی-
ان نیوز سائٹس کے ایڈیٹر اور صحافی بھی جعلی تھے جن کا اصل میں کوئی وجود نہیں تھا لیکن ان کے نام سے خبریں اور تبصرے شائع کئے جاتے تھے- اسی طرح غیررجسٹرڈ این جی اوز کے ذریعے اور حوالے سے بھی خبریں بنائی اور پھر شائع کروائی جاتیں تھیں- یہ جعلی آؤٹ لیٹس این جی اوز اور مخبر اداروں کے حوالے سے خبریں اور رپورٹیں شائع کرتے تھے جنہیں غیر فعال ہوئے بھی عرصہ گزر چکا تھا-
مثلاً ڈس انفولیب کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا یہ جعلی نیٹ ورک پروفیسر لویس بی سوہان کی جعلی شناخت کو استعمال کر رہا تھا- پروفیسر لویس 2006ء میں مر گئے تھے لیکن تحقیق میں یہ انکشاف کروایاکہ پروفیس لوئیس بی سوہن کا نام 2007ء میں یو این ایچ آر سی کے ایک سیشن میں شرکت کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا- 2011ء میں واشنگٹن میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں بھی ان کا نام بطور مہمان شامل تھا اور وہ تقریب بھی سری واستوا گروپ سے منسلک ایک ادارے نے ہی منعقد کرائی تھی-
جعلی تھنک ٹینکس اور اداروں کا قیام:
جعلی ریسرچ ادارے اور تھنک ٹینکس کا استعمال بھی ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا- ان جعلی تھنک ٹینکس کے ذریعے فیک نیوز کی بنیاد پر ایک تجزیہ سامنے لایا جاتا پھر اس کے بعد ان پر دوسرے جعلی خبر رساں ادارے تبصروں کا سلسلہ شروع کرتے تھے- ان تبصروں تجزیوں کی بنا پر بھارتی ٹی وی چینلز میں جھوٹا پروپیگنڈا پھیلایا جاتا تھا- ان جعلی تھنک ٹینکس کی رپورٹس اور میڈیا معلومات کی بنیاد پر بھارتی عالمی شہرت یافتہ اخبارات ان خبروں کو خوب کوریج دیتے حتی کہ ادارتی نوٹ بھی لکھے جاتے تھے-
مثلاً جس طرح بھارت نے ’’ای یو کرانیکل‘‘کے نام سے ایک جعلی یورپی ادارہ قائم کیا ہوا تھا جس کے تحت یورپی پارلیمان کے ممبران کے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کی بنیاد پر انٹرویوز اور مضامین شائع کروائے جاتے اور عالمی سطح پران جعلی معلومات کو پھیلا کر پاکستان مخالف تشہیر کی جاتی تھی-
بین الاقوامی دارالحکومتوں میں احتجاجی مظاہرے :
بین الاقوامی برادری میں توجہ حاصل کرنے کیلئے اہم ممالک کے دارالحکومتوں میں فیک اور جعلی این جی اوز، تھنک ٹینکس اور اداروں کی جانب سے احتجاج اور مزید بحث و تقاریر کا اہتمام کروایا جاتا تھا- ان احتجاجی مظاہروں میں ان لوگوں کو لایا جاتا جن کو اس بات کا بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ ہم یہاں کس مقصد کے لئے احتجاج کر رہے ہیں- ان فیک مظاہروں کی تقاریر کو بین الاقوامی نشریاتی اداروں کا حصہ بنا کر عالمی برادری کو کافی عرصہ تک بیوقوف بنایا جاتا رہا -
نفرت انگیز گفتگو :( Hate speech)
ففتھ جنریشن وار فئیرایسی جنگ ہے جس کی کوئی سرحد نہیں اس لئے اس جنگ کے تحت مذہبی سطح پہ جنگ بھڑکانے کیلئے حساس معاملات پہ نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے-
نفرت انگیز تقاریر اور بیانات بھی ففتھ جنریشن وار فئیر کا ایک اہم ہتھیار ہیں- اس ہتھیار کے ذریعے باقاعدہ سازش کے تحت مقدس مذہبی شخصیات اور دیگر مذہبی مقدسات کی شان میں گستاخانہ بیانات، تحریر و تقریر اور خاکوں کے ذریعے خصوصاً مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے- یہ سارا پروپیگنڈا ایک منظم طریقے سے پھیلا کر معاشرے میں اسلاموفوبیا کو ترویج دی جاتی ہے جس سے معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے- نفرت انگیز مواد کی وجہ سے مغرب میں کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں- پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ مباحث میں بھارت نے اسی طرح کی ٹیکنیک اختیار کی جس کی بھینٹ پاکستان میں موجود سادہ لوح دینی نمائندے چڑھے اور ملک ایک انتہائی بھیانک بحران سے دو چار ہوتے ہوتے بچا، اس بحران سے بچانے کا سہرا بلا شک و شبہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں بالخصوص آئی ایس آئی کو جاتا ہے -
سفارتکاری اور اقتصادی محرومیت:
ففتھ جنریشن وار فئیر میں سفارتکاری کو بطور ہتھیار پروپیگنڈا پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے- مثلاً کسی مخصوص پروپیگنڈا کی تشہیر و ترویج کے لئے سفارتکاری کے میدان میں کسی خاص ملک کے خلاف ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دے کر اس ملک کو بد نام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- جس کا حتمی نتیجہ اس ملک پر اقتصادی پابندیوں کا نفاذ ہوتا ہے- سفارت کاری کے ذریعے اس ملک کو عالمی سطح پر بد نام اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس ملک کی عوام میں اقتصادی محرومیت کے جذبات کو پھیلا دیا جاتا ہے جس سے ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے- مثلاً اس بات کے واضح ثبوت ہے کہ بھارت عالمی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے پاکستان پرایک مخصوص بیانیہ کےتحت بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور FATFکے پلیٹ فارم کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر استعمال کر کے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی کوشش کرتا چلا آ رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا ہے-
بھارت پاکستان کو اقتصادی خوشحالی سے محروم کرنے لئے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور( CPEC )کےخلاف بھی مسلسل پروپیگنڈا پھیلا رہا ہے تاکہ اس گیم چینجر پروجیکٹ کو ناکام بنایا جا سکے- گزشتہ ماہ پاکستان واضح اور ناقابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پر ایک ڈوزئیر عالمی برادری کے سامنے لا چکا ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ بھارت کیسےپاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث تھا اور بھارت کی اس سازش کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے کہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کیلیے بھارتی وزیر اعظم کےسرپرستی میں ایک خصوصی سیل کام کر رہا تھا- اس منصوبےکوعملی جامہ پہنانے کےلیے بھارت 80 ارب روپے خرچ اور تقریباً 700 افراد کی ’’Militia‘‘ تیار کر چکا ہے-
مالی معاونت اور سر پرستی:
عام اور سادہ لوح عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکانے کے لئے مالی معاونت اور ان کی بیرونی سرپرستی ہمیشہ سے ایک اہم جنگی ہتھیار رہا ہے لیکن ففتھ جنریشن وارفیئر کے تناظرسے ایسے ہتھکنڈوں میں زہر اور بھی بڑھ جاتا ہے- اس تناظر میں چونکہ دشمن اپنی ملکی افواج سے زیادہ مخالف ریاست کے اقتصادی محرومیت کے شکار باشندوں کو ہی استعمال کرتا ہے اسلئے ان پر بھاری سرمایہ کاری کی جاتی ہےجس کے نتیجے میں افرادی قوت باآسانی میسرآجاتی ہے- پھر اسی افرادی قوت ہی سے ملک میں تخریبی کاروائیاں کروائی جاتی ہیں-
بھارت پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار کے تحت پوری طرح حملہ آوار ہو چکا ہے- جس کا ہدف بلوچستان، سی پیک، آبی وسائل، قومیت پرستی، فرقہ واریت، سیکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانا شامل ہیں- حال ہی میں حکومت پاکستان کی جانب سے قومی، بین الاقوامی میڈیا، این جی اوز، سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی مفادات کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تحقیقات کا حکم دیا گیا-
کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنی والی ریاست پاکستان کے وفادار، باشعور اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے یہ ہم پر لازم ہے کہ ہر پلیٹ فارم خصوصاً سوشل میڈیا پر دشمن کے زہریلے پراپیگنڈے کو بے نقاب کیا جائے -بغیر تصدیق شدہ اور بے بنیاد معلومات کو آگے پھیلانے سے گریز کیا جائے اور اسی طرح کسی ایسی مہم اور سازش کا حصہ نہ بنا جائے جو قومی و ملکی سلامتی اور مِلّی وقار کے خلاف ہو-
٭٭٭