سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرہٗ) کو پردہ فرمائے ہوئے 13برس بیت گئے-محفلیں ان کی دی ہوئی فکر سے اور دل ان کی یاد سے آج بھی فروزاں ہیں-اہل عرفان دوسروں کے سینے کرودھ اور نوبھ سے پاک کرکے یاد الہٰی کی طرف مائل کرتے ہیں-وہ ہستیاں جو اپنی زندگی نیک اور اعلیٰ مقاصد کے لئے صرف کرتی ہیں ان کی موت، حیات ابدی اور شعور سرمدی سے ہمکنار ہوتی ہے-آپ(قدس اللہ سرہٗ) اس دور کے عظیم اور منفرد روحانی رہبر تھے جنہوں نے لاکھوں زندگیوں کے اندر انقلاب برپا کیا اور دل کی بے آباد دنیا کو نور ایمان اور اسم اللہ ذات سے منور کیا- انسان کو انسانیت اور اصلاح معاشرہ کا درس دیا اس پاکیزہ انقلابی روحانی نظام کو قائم کرنے کے لئے آخری دم تک کوشاں رہے -آپ (قدس اللہ سرہٗ) نفس سے آزادی دلا کر جام عشق الہٰی پلاتے تھے-آپ (قدس اللہ سرہٗ) کی محفل سے بوجھل اور منتشر خیال لوگوں کو نئی منزل کا پتہ ملتا-آپ (قدس اللہ سرہٗ) کی شیریں زباں اور سادہ الفاظ سے لوگوں کو گہری رمز کی باتیں اور عرفان کے موتی ملتے- سننے والے کا قبلہ نہ صرف درست ہو جاتا بلکہ اپنی منزل مقصود کا تعین کر لیتا اور انسان اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ اخروی نجات کے لئے راہ مستقیم پر چلنے کا لازوال پیغام لے کر اٹھتا-آج کل آوارہ مزاجی،منافقت اور دین سے دوری کا غلبہ ہے ایسے ماحول میں دین اور ایمان کے چراغ روشن کرنا کوئی معمولی بات نہیں -اللہ اور اس کے پاک محبوب ﷺ سے والہانہ محبت بھی ہر ایک کے نصیب میں نہیں- ایسے پر فتن دور میں اللہ پاک اور سرکار دوعالم (ﷺ) کی محبت کو دلوں میں موجزن کرنا آپ (قدس اللہ سرہٗ) ہی کا خاصہ تھا-زبانی جمع خرچ اپنی جگہ لیکن دنیا میں علم عرفان کے موتی لٹانے والے کم اور دوکانداری چمکانے والے زیادہ ہیں ہمارا مزاج بن چکاہے کہ اپنے گوناگوں مسائل کے حل کے لئے خود اللہ کے سامنے جانے سے کتراتے ہیں اور یہ کام ہم نے پیروں فقیروں کی تحویل میں دے دیا ہے-وہی حضرات مسئلہ کے حل کے لئے موزوں ہیں-آپ (قدس اللہ سرہٗ) ایسے رہبر نہیں تھے جن کے آستانے پر چڑھاوے دے کر حاضری ہوتی ہو بلکہ آپ (قدس اللہ سرہٗ) کے دروازے شیعہ،سنی، وہابی،دیوبندی،بریلوی سب کے لئے کھلے تھے-آپ (قدس اللہ سرہٗ) اپنے جد امجد کی تعلیمات ’’چہ مسلم، چہ کافر ،چہ زندہ ،چہ مردہ، چہ با نصیب ،چہ بے نصیب‘‘ پر عمل پیرا تھے یعنی چاہے کافر ہے یا بے نصیب، ولیٔ کامل اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قُوّت سے اُن کے دِل کی دُنیا کو تبدیل کر دیتا ہے - آپ (قدس اللہ سرہٗ) کے ہاں ہر مسلک کے لوگ موجود ہوتے-کبھی ایسی بات نہ کی جو فساد برپا کرنے والی ہو - آپ (قدس اللہ سرہٗ) اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے نہ صرف داعی تھے بلکہ زندگی کو نئے اقدار اور سوچ کو نئے زاویے عطا فرماتے - اس خاکی فرش نشین انسان کو لامکاں کی خبر دی، ظلمات ارضی کے دامن میں حکمت، معرفت کی کہکشاں نمودار کی -آپ (قدس اللہ سرہٗ) نے علم عرفان کے ابدی نور سے عہد حاضر کو روشن کیا اور آپ(قدس اللہ سرہٗ) کی آواز طالب حق کے لئے جینے کا پیغام بنی-جیسے حضرت علامہ اقبال () نے فرمایا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں![1] |
اس شعر کی تفسیر آپ (قدس اللہ سرہٗ) کی محفل میں نہ صرف نظر آتی بلکہ معرفت الہٰی کا سمندر بہتا ہوا نظر آتا- آپ (قدس اللہ سرہٗ) کی زندگی روحانی فیض کا مرکز تھی-یہ فیض ان کی زندگی میں بھی جاری تھا اوررحلت فرمانے کے بعد بھی جاری ہے-دنیا بھر میں آپ کے چاہنے اور ماننے والے موجود ہیں- آپ (قدس اللہ سرہٗ) تا وقت ِحیات امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان اور اسم اللہ ذات کی تعلیمات سے روشناس کرانے میں کوشاں رہے- اسی لئے آپ (قدس اللہ سرہٗ) کا دعوت ِتبلیغ میں کردار برصغیر پاک و ہندسمیت تمام عالم اسلام میں اپنی مثال آپ ہے-بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرہٗ) بچپن سے ہی درس و تدریس و تبلیغ اور اطاعت مرشد سے منسلک رہے اصل مقصد معرفت، علم و عرفان کے نور کو پھیلانا تھاجو ہمیشہ پیش نظر رہا-انسانیت کو صراط مستقیم کی ایسی روشنی عطا فرمائی جو تا قیامت بھٹکے ہوؤں کو رہنمائی فراہم کرتی رہے گی اور اس روشنی کو پھیلانے کا فریضہ آج بھی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ادا کر رہی ہے-بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرہٗ) بہت کم بولتے ، دھیمے لہجے اور عجز و انکساری کے ساتھ گفتگو فرماتے، شیخ عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرہٗ) ،حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرہٗ) ،سید سلطان محمد بہادر علی شاہ (قدس اللہ سرہٗ) اور دیگر صوفیاء کرام کی تعلیمات اور قرآن مجید تفسیر( نور العرفان) کا درس دیتے-بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرہٗ)ہوس جاہ، حب مال ، طلب منصب، منفعت،قرب شاہی اور ذوق خودنمائی سے ہمیشہ دور رہے-
آپ (قدس اللہ سرہٗ) کا مشن تبلیغ اسلام اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ حق پر لانا تھا- آپ (قدس اللہ سرہٗ)لوگوں کو شریعت، نماز،روزہ کی پابندی، جھوٹ ، غیبت سے توبہ اور رزق حلال کمانے پر زور دیتے-محفل میں شریک لوگوں کو نماز اور کثرت سے دور پاک پڑھنے کی تلقین فرماتے-ہر شخص جو بھی آپ (قدس اللہ سرہٗ) سے ملنے آتا اس کا ہر طرح سے خیال رکھتے ضرورت مندوں کی ضرورتیں خاموشی سے پوری فرماتے، نہایت موضوع طریق سے مہمان نوازی فرماتے اور تنظیمی ساتھیوں اور ان کے اہل و عیال کی تین مرتبہ خیریت دریافت فرماتے-خلفاء کو مہمان کے آرام،قیام و طعام کا حکم فرماتے-عصر سے مغرب بلکہ رات دس گیارہ بجے تک لوگوں کے مسائل دریافت اور دعا فرماتے-رات کو خود لنگر خانہ کا دورہ اور ایک ایک مہمان سے آرام کا پوچھتے –حضور سلطان الفقر (قدس اللہ سرہٗ) کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ آپ (قدس اللہ سرہٗ) کی شخصیت کا معترف ہونا بجائے خود ایک تعارف ہے اہل فکر و نظر جب اپنی توجہ فکر سلطان الفقر (قدس اللہ سرہٗ)پر مرکوز کرتے ہیں تو خود کو صراط مستقیم پر موجود پاتے ہیں کیونکہ آپ (قدس اللہ سرہٗ)کی مجلس میں شامل ہونا دانشور طبقے کے لئے طرہ امتیاز تصور ہوتا تھا-بانی اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرہٗ) ان اولیائے کرام کے سرخیل اور امام ہیں جنہوں نے اسلام کے لئے شبانہ روز جدوجہد کی فکری انتشار کو اتحاد میں ڈھالنے کی سعی اور وحدت ملی کے لئے فکر سازی کی-
اس دور میں صد شکر ہے کہ ہمارے پاس فکر سلطان الفقر (قدس اللہ سرہٗ)کی صورت میں ایک ایسا سائبان میسر آ چکا ہے جس پر چل کر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں-درحقیقیت ایک عظیم روحانی انقلاب کے لئے آپ (قدس اللہ سرہٗ)کی تعلیمات میدان فکر و عمل تیار کر چکی ہیں یہ محض عقیدت کی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے –
اس وقت قوم کو آپ (قدس اللہ سرہٗ)کی تعلیمات اور فکرپر عمل کرنے کی ضرورت ہے، فی زمانہ یہ واحد فکری نسخہ ہے کہ ہر مکتب فکر اور فقر کے لئے یکساں طور پر تجویز کیا جا سکتا ہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اقوال حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ) مدارس ، سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے نوجوانوں میں یکساں طور پر قابل قبول اور مقبول بھی ہے اہل فکر کا یہ ایک مشاہدہ ہے کہ جس نوجوان کی رغبت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ)فکرکی طرف ہو جائے وہ اپنی گروہی اور مسلکی جھگڑوں سے باہر نکل آتا ہے- فرقہ واریت ،دہشت گردی کے اس دور میں فکر سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ) دنیا کے لئے ایک آسمانی تحفہ سے کم نہیں اتحاد ،تنظیم اور یقین کا ولولہ پیدا کرنے کے لئے مختلف مکتبہ فکرکو متحد رکھنے کے لئے فکر ِباھو آپ (قدس اللہ سرہٗ)ایک نظریاتی اساس کا کام دے سکتی ہے-سلطان الفقر ششم بانی اصلاحی جماعت(قدس اللہ سرہٗ)جیسی ہستیوں کا وجود معاشرے کے لئے پروردگار کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے -ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نعمت سے فائدہ کس طرح اُٹھایا جائے ؟ اللہ نہ کرے ہم اپنے پانی، زمین اور موسم جیسی نعمتوں کی طرح اس نعمت کی بھی نا قدری کے مرتکب ٹھہریں-قوم میں وحدت کا شعور پیدا کرنے کے لئے ہر سکول ،مدرسہ،کالجز،یونیورسٹیوں میں صوفیاء کرام بالخصوص حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ)کی تعلیمات کو رائج کردیا جائے ورنہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے-حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ)کی تصانیف کو سکولوں اور لائبریوں کا حصہ بنایا جائے تو مسلمانوں میں ایک فکر پیدا کی جاسکتی ہے- حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ)کی تعلیمات نظم ہو یا نثر قوم کے لئے درحقیقت ’’افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر‘‘ کا سامان لئے ہوئے ہیں-
٭٭٭