"رنگِ ثباتِ دوام" جانشینِ سلطان الفقر(ششم) کا معیارِقیادت اور نیا زمانہ

"رنگِ ثباتِ دوام" جانشینِ سلطان الفقر(ششم) کا معیارِقیادت اور نیا زمانہ

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی اکتوبر 2016

(نوٹ: یہ حضور مرشد کریم حضرت سلطان محمد علی صاحب کی "گوادر آف روڈ ریلی" 2016ء میں شاندار کامیابی پر صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کی طرف سے سوشل میڈیا پہ جاری کردہ صوتی بیانیہ کی ٹرانسکرپشن ہے)-

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کچھ امور اٹل ہوتے ہیں، کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھنے کے لئے صدیاں بیت جاتی ہیں- جن لمحوں میں آج ہم زندہ ہیں ہمیں ایک لیڈر شپ کی تلاش تھی- قیادت کا دارومدار سوزِ جگر پر ہے اگر یہ ایک مرتبہ پیدا ہوجائے تو پھر اس کو زوال نہیں- ایسی قیادت جہاں بھی جاتی ہے وہاں اپنا آپ منواتی ہے-

حضور مرشد کریم حضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی "گوادر آف روڈ ریلی" 2016ء میں شاندار کامیابی پر تمام دوستوں اور محبت کرنے والوں کو دلی طور پہ صدہا کروڑہا مبارک عرض کرتا ہوں  اور صاحبزادہ سلطان محمد بہادر عزیز صاحب کو بھی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے سی کیٹگری (C-Category) میں اوّل پوزیشن حاصل کی- اِس موقع کی مناسبت کو غنیمت جانتے ہوئے تمام ساتھیوں کو اِس بات کی بھی دلی مبارکباد کہ ہمیں اتنی شاندار لیڈر شپ عطا ہوئی ہے، جو کسی بھی میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور اللہ تعالیٰ نے اُسے ہر میدان میں کامیابی عطا کی ہے- اگر میرے سامنے میرے مرشد کریم سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ اور میرے مرشد کریم حضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا رول ماڈل نہ ہوتا تو مَیں زندگی بھر یہ نہ جان پاتا کہ لیڈر شپ کیا ہوتی ہے؟ اِن شخصیات کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ لیڈر شپ کیا ہوتی ہے-

آپ حضور مرشد کریم حضرت سلطان محمد علی مدظلہ الاقدس کی قیادت کے اوصاف کی چار پانچ چیزوں کو اپنے سامنے رکھ کر تجزیہ کریں، اُن میں ریلیوں میں پوزیشنیں حاصل کرنا ضمنی طور پر ہے- جیپ ریلی صرف ایک کھیل ہے لیکن اگر آپ یہ دیکھیں کہ جو لوگ 1995ء سے اِس میدان میں موجود ہیں اور بھر پور کوششیں، گاڑیاں تیار اور اخراجات کر کے میدانوں میں آتے ہیں اور اب تک اِن برسوں میں انہوں نے کوئی مقابلہ بھی نہیں چھوڑا جبکہ اِس کے برعکس حضور مرشدِ کریم نے شائد تین چار ریلیز میں حصہ لیا اور آپ نے جب اس کو باضابطہ ایک گیم سمجھ کر اس میں شرکت کی تو لوگ حیران رہ گئے کہ وہ شخصیت جنہوں نے دوسری مرتبہ پاکستان کے سب سے بڑے موٹر سپورٹس ایوینٹ "چولستان" میں حصہ لیا تو انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی اور "چولستان" کے چیمپئن بنے- (چولستان کے چیمپئن کو اس سال کا پاکستان کا چیمپئن شمار کیا جاتا ہے)-

اصل مقصد یہ کھیل نہیں بلکہ بات صوفیاءکے طریقِ تبلیغ کی ہے کہ جیسے خواجہ معین الدین اجمیری (رحمۃ اللہ علیہ ) کو تبلیغ میں دشواری کا سامنا ہوا تو انہوں نے اس وقت کی ضرورت کے مطابق قوالی کو اپنا کر لوگوں کو اپنے قریب کیا- پھر آپ کی صحبت و قربت کی تاثیر سے ان کے دلوں میں اسلام کی محبت جاگزیں ہوتی گئی- اصل جذبہ دین اور ملکِ پاکستان کی خدمت ہے اور جس پلیٹ فارم سے بھی یہ خدمت کرنے کا موقعہ ملے وہ احسن طریقے سے کی جاسکے-

اس کھیل کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس گیم میں جو حسنِ کمال (perfection) دکھائی دیتا ہے، حضور مرشد کریم کے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی موجود ہے-

حضرت سلطان محمد علی صاحب کی یہی قیادت (Leadership) "مسلم انسٹیٹیوٹ" کی ہر پالیسی اور پروگرام میں نظر آتی ہے- آپ اس انسٹیٹیوٹ کے موسسِ اعلیٰ (Founding Father) ہیں اور "مسلم انسٹیٹیوٹ" آپ ہی کے آئیڈیاز، آئیڈیالوجی اور وژن کی پیروی (follow) کرتا ہے- آپ کی قیادت کے اعلیٰ معیار کو اس لحاظ سے بھی پرکھا جا سکتا ہے-

کسی بھی خانقاہ سے اس طرح کے انسٹیٹیوٹ کا قیام اکیسویں صدی میں ہوا ہے لیکن صرف اتنا کہنے سے بات بہت محدود ہو جاتی ہے- اس ادارہ کے قیام کو عالمی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ اس ادارہ کا قیام اس وقت انسانی سماج، دنیائے انسانیت، دنیائے اسلام اور پاکستان کی ضرورت ہے- علاوہ ازیں جس طرح کی تحقیق، نقطہ نظر، فکر اور مستقبل کی جس طرح کی تیاری کی امتِ مسلمہ، پاکستان اور عالمِ انسانیت کو اس وقت ضرورت ہے اس پر "مسلم انسٹیٹیوٹ" اپنا موثر کردار ادا کر رہا ہے اور دنیائے اسلام کا سب سے معتبر اور بڑا آن لائن ڈیبیٹنگ فورم "دی مسلم ڈیبیٹ" اس کی ایک زندہ مثال ہے جس کے متعلق پرنسٹن یونیورسٹی آف امریکہ، آکسفورڈ یونیورسٹی آف یو کے، شکاگو یونیورسٹی آف امریکہ، لندن سکول آف اکنامکس اور دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے سینئر سکالرز نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”دی مسلم ڈیبیٹ بالکل غیر جانبدار اور بہت پرفیکٹ ڈیبیٹنگ فورم ہے اور اس فورم سے یہ اطمینان ملا ہے کہ مسلم دنیا میں اس نوعیت کے تھنک ٹینک (Think Tank)بھی موجود ہیں"- یہ بھی دراصل حضور مرشد کریم کی لیڈر شپ کی پرفیکشن ہے جو انسٹیٹیوٹ اور ڈیبیٹنگ فورم میں دکھائی دیتی ہے- اسی طرح نئے شائع ہونے والے سہ ماہی تحقیقی رسالہ  مسلم پرسپیکٹوز (MUSLIM PERSPECTIVES) کے حوالے سے دیکھیں تو ابھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ جرنل اس وقت پاکستان، کسی ملک یا کمیونٹی کا سب سے اچھا تحقیقی مجلہ (Research Journal) ہے لیکن اس بات پر یقین ہے کہ ان شاءاللہ تعالیٰ جس لیڈر شپ کے زیرِ سایہ یہ کام ہو رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ ایک دن یہ ریسرچ جرنل بھی نہ صرف پاکستان کے بہترین ریسرچ جرنلز میں شمار ہوگا بلکہ دنیائے اسلام میں بھی اس کا ایک بلند مقام ہوگا- اسی طرح ماہانہ میگزین "مرآة العارفین انٹرنیشنل" گزشتہ سترہ برس سے بغیر کسی تعطل کے ہر ماہ مسلسل شائع ہو رہا ہے جو پاکستان کا ایک بہت بڑا مذہبی، نظریاتی، روحانی، فکری، تحقیقی اور علمی مجلہ ہے- یہ بھی اُسی قیادت کی سرپرستی میں شائع ہو رہا ہے جس کے ہاں کسی بھی شعبہ میں پرفیکشن سے کم کوئی معیار نہیں رکھا جاتا- شعبہ تعلیم جو پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے- جس کے بارے میں ہمارے قائد محترم، قائدِ اعظم محمد علی جناح (رحمۃ اللہ علیہ ) نے فرمایا تھا کہ:-

"دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیمی میدان میں مطلوبہ پیش رفت کے بغیر ہم نہ صرف اقوامِ عالم سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہمارا نام و نشا ن بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے"- (26 September 1947 Karachi)

حضور مرشد کریم نے اس میدان میں بھی مشاہدہ کیا کہ اس مادی دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں مساوی نظامِ تعلیم کو عام کیا جائے چنانچہ آپ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے "ایس بی گرائمر سکول" کی صورت میں ملک بھر میں ایک ایسا نظام تعلیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے کہ جس کے اہداف درج ذیل ہوں گے:-

٭ طلباءکو بچپن سے ارتقائی نشونما، اہم تقریبات میں مؤدبانہ شرکت اور بنیادی نظریات کا شعور پیدا کرکے معاشرے کا ایک قیمتی فرد بنانا-

٭ طلباءکی بچپن ہی سے فطرتی خصوصیات کو اجاگر کرنا بالخصوص بچوں کی نفسیاتی رجحانات کے مطابق ان کی ابتدائی تعلیم میں ربط قائم رکھنا-

٭ طلباءکو بچپن ہی سے دنیا کی کامیاب شخصیات سے متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ کامیابی کے اصولوں سے آگاہ کرنا-

٭ طلباءکو بچپن ہی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ سے آگاہ رکھنا تاکہ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے جائزے کی صلاحیت ابتداءہی سے ترقی کرے-

٭ طلباءکو بچپن ہی سے اصلاحِ معاشرہ کی تربیت دینا تاکہ ان کی قائدانہ صلاحتیں اجاگر ہو سکیں اور وہ مستقبل کے معمارِ قوم بن سکیں-

٭ طلباءکی بچپن ہی سے ذہنی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی و غیر نصابی تربیت کرنا تاکہ ان کی فکر و عمل میں ہم آہنگی مضبوط ہو-

ان مقاصد کے حصول کے لئے "ایس بی گرائمر سکول" سسٹم بھی ان شاءاللہ تعالیٰ ایک ایسا فطرتی ماحول پیدا کرے گا جس میں خوش مزاج، قابلِ اعتماد اور اپنی مدد آپ کرنے والے تعلیم یافتہ افراد تیار ہو کر معاشرے کی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکیں گے- یہاں بھی آپ کی قیادت ہی اپنا مرکزی کردار ادا کر رہی ہے- گیراج کی بیسمنٹ کے دو چھوٹے چھوٹے کمروں سے شروع ہونے والے اس سکول کی اس برس مزید پانچ برانچیں شروع کر دی گئی ہیں اور انشا اللہ آنے والے چند ہی برسوں میں ملک کے طول و عرض میں قوم کی علمی و تربیتی خدمت میں یہ ادارہ ایک اہم کردار ادا کرے گا - اس کا سلوگن بھی حضور مرشد کریم کی اعلیٰ رُوحانی بصیرت کی گواہی دیتا ہے کہ :Knowledge for Wisdom

اسی طرح دینی تعلیم کی اشاعت و ترویج کے لئے دربارِ عالیہ پر موجود "دار العلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھُو" جب سے آپ کی قیادت کی نگرانی میں آیا ہے آپ نے وہاں پر پاکستان کے نامور دینی اداروں سے "متخصّص فی الفقہ" اور محنتی اساتذہ مقرر فرمائے جس سے نہ صرف طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ اس مدرسہ میں پہلی مرتبہ تنظیم المدارس کی طرف سے امتحانی مرکز بھی قائم کیا گیا جس سے علاقے کے دیگر مدارس کے طلبہ نے پہلی مرتبہ یہاں آکر تنظیم کے امتحانات میں شرکت کی- اس مدرسہ میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روحانی تعلیمات کے درس کا اہتمام، تمام طلبہ بمع اساتذہ پر تہجد کی پابندی جیسے امور سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ کی لیڈر شپ کے تحت تیار ہونے والے علمائے کرام ظاہری زہد و تقویٰ کے ساتھ ساتھ روحانی دولت سے بھی سرفراز ہوں گے- اس مدرسہ کی لیہ،  بھکر اور خوشاب میں شاخیں قائم ہو کر درس و تدریس کا آغاز کر چکی ہیں اور مستقبل قریب میں ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی اس کی شاخیں قائم ہوں گی- آپ کے معیارِ قیادت کے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے-

اسی طرح "اصلاحی جماعت اور عالمی تنظیم العارفین" کی مثال دی جا سکتی ہے کہ عصرِ حاضر میں جس پسِ منظر (background) کی نمائندگی (representation) کرتے ہوئے اس تنظیم نے اپنی غیر جانبداریت کو برقرار رکھا ہے،  یہ اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اس عقیدے اور فکر سے وابستہ لوگ تو اس سے محبت اور خلوص رکھتے ہی ہیں لیکن اس جماعت نے پاکستان کے ایک عام آدمی بالخصوص نوجوان نسل، جو اس کنفیوژن کا شکار تھی کہ کونسا مکتبہ فکر درست ہے اور کس مکتبہ فکر کی جانب جانا چاہئے، انہیں بھی اس جماعت نے روحانی، فکری، علمی، مذہبی، فکری تحرک (motivation) دیا اور زندگی گزارنے کا ایک بہترین طریقہ اور صحیح توازن پر مبنی معاشرے کا تصور دے کر ان کے وجود سے شدت، تشدد، تعصب اور نفرت کو ختم کیا- یہ سب ثمرات ایک زندہ جاوید اور انتہائی باکمال صاحبِ نگاہ قیادت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہیں-

اگر آپ اس روحانی علمی تحریک سے ہٹ کر ثقافتی میدان میں فنِ تعمیرات کو دیکھیں، چاہے وہ آستانہ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز (رحمۃ اللہ علیہ) پر کشمیر ہاؤس ہو، جوناگڑھ ہاؤس ہو، فلسطین ہاؤس ہو، دربارِ عالیہ کا مرکزی اجتماع گاہ ہو، لنگر خانے ہوں، "نوری مسجد حق باھُو" ہو جو آستانہ عالیہ حضرت سلطان عبدالعزیز (رحمۃ  اللہ علیہ) پہ زیرِ تعمیر ہے، چاہے دیگر زیرِ تعمیر شعبہ جات ہوں، چاہے "کلورکوٹ" اور "جوہر آباد" میں مدارس کی تعمیر ہو یا ملک بھر میں دیگر بے شمار مقامات ہوں، ان تعمیرات میں ایک پوری ثقافت آنکھوں میں چھلک جاتی ہے جو دیکھنے والے کو دورِ حاضر سے نکال کر قرونِ وسطیٰ (medieval period ) میں لے جاتی ہے جہاں "قرطبہ "نظر آتا ہے، "الحمرہ" دکھائی دیتا ہے، "تاج محل" نظر آتا ہے، وسطی ایشیا کی بڑی بڑی عمارات نظر آتی ہیں، استنبول کی "مسجدِ سلیمانیہ" نظر آتی ہے، مسجد "سلطان احمد" نظر آتی ہے، "بادشاہی" مسجد نظر آتی ہے وغیرہ وغیرہ- جہاں آپ کو اس طرح کی ثقافت کے دیگر نمایاں پہلو نظر آتے ہیں، حضور مرشد کریم کی لیڈر شپ آپ کو یہ وژن بھی عطا کرتی ہے کہ جب آپ وہاں جائیں گے تو ایک ایسے ہی ماحول میں کھو جائیں اور یقیناً سوچیں گے کہ ہر باریکی اور ہر نفاست کو چن کر ایک جوہر اور ہیرے کی طرح ایسے تراشا گیا ہے جیسے ایک صراف تراشتا ہے- یہ پرفیکشن بھی اس لیڈر شپ کا کمال ہے کیونکہ اگر پرفیکشن نہ ہو تو یہ کمالات ان میں پیدا ہی نہیں کیے جاسکتے-

اسی طرح آپ گھڑ سواری کے حوالے سے پرکھ لیجئے- اس وقت الحمد للہ پاکستان کے بہترین گھوڑے جو پاکستان میں یہاں کی روائتی "ٹورا چال" یعنی ہائی سٹیپ واک (traditional high step walk) میں آج تک جس مقابلہ میں بھی گئے ہیں وہاں وہ اوّل رہے- خاص طور پر مستانہ اور نگینہ کی جوڑی (pair) نے پاکستان میں ایک تاریخ رقم کی ہے- بڑے بڑے تازی دار، جن کے گھرانے صدیوں سے تازی داری میں، گھوڑے پالنے اور اس شوق میں طاق و منفرد آ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایسا شوق ہم نے کبھی نہیں دیکھا- کُلے رنگ کے گھوڑے یعنی پیلو مینو ہارسز (palomino horses) کا کمبینیشن، بلیک ہئیرز (black hairs) کے ساتھ اور وائیٹ ہئیرز (white hairs) کے ساتھ، وائٹ کلر کے گھوڑوں کا کمبینیشن، گرے کلر کے گھوڑوں کا کمبینیشن، بلیک کلر کے گھوڑوں کا کمبینیشن، ان تمام باتوں میں وہی پرفیکشن نظر آتی ہے جو دیگر تمام شعبہ جات میں نظر آتی ہے-

اسی طرح نیزہ بازی میں الحمد للہ پاکستان کی 2016ء میں سیلیکٹ ہونے والی انٹرنیشنل ٹیم میں پاکستان رینجرز کی نگرانی میں میرٹ کے مقابلوں کے ذریعے  کُل چھے لوگ منتخب کئے گئے جن میں سے تین کا تعلق"سلطانیہ حیدریہ اعوان کلب" سے تھا جس کی سرپرستی حضرت سلطان محمد علی صاحب فرماتے ہیں- اسی طرح ہارس ڈانسنگ (horse dancing) میں وہی پرفیکشن نظر آتی ہے-دراصل یہ لیڈر شپ کا کمال ہے کہ وہ جس شعبہ اور میدان میں ہو، وہ اس میدان میں پرفیکشن سے کم کسی کوالٹی کو تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اس کا معیار پرفیکشن ہوتا ہے-

ایک اور اہم پہلو نوجوانوں کی تربیت کے حوالے سے ہے- حضور مرشد کریم کی اپنے سٹاف، اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں اور اپنے ادارے میں کام کرنے والوں کی تربیت ہے - یہ تربیت  آپ کو جلسہ گاہ کے پنڈال میں نظر آئے گی، پنڈال کی کار پارکنگ میں نظر آئے گی، لوگوں کو بٹھانے کے لئے لانے والے کارکنوں میں نظر آئے گی اور وہ مجمع کے منتشر ہوتے وقت نظر آئے گی- چاہے یہ نوجوان سیکیورٹی پہ کھڑے ہوں، چاہے ان کا یونیفارم ہو، چہرے کی مماثلت (face resemblance) ہو یا دیگر جتنی بھی چیزیں ہوں تمام کارکنوں میں وہی تربیت نظر آتی ہے-

پھر اخلاقی میدان میں ان لوگوں کی ایسی تربیت ہوئی ہے کہ ان میں کسی جگہ پر آپ کو کوئی خامی نظر نہیں آئے گی- آپ سوشل میڈیا کے مختلف پیجز، مختلف اکاؤنٹس کا تجزیہ کریں- عموماً لوگ سوشل میڈیا پر گالیاں دیتے ہیں، اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں، اپنی منفی سوچ (negativity) کا اظہار کرتے ہیں، اپنے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا آپ دکھاتے ہیں کہ ہم کس طرح کی تربیت سے نکل کر آئے ہیں- مجموعی طور پر ہمارے معاشرے میں مثبت صلاحیت (positive energy) کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے نیگٹو انرجی کی زیادہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے- لیکن اگر دیگر افراد نے نیگیٹو انرجی کا بھی مظاہرہ کیا ہے تو اس لیڈر شپ کے تربیت یافتہ نوجوانوں نے کس ہمت اور حوصلے سے ان کو برداشت کیا ہے، ان منفی سوچ رکھنے والے لوگوں کی بدزبانی، بدکلامی، حد سے بڑھی ہوئی آواز  اور نامناسب لفظوں کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ ان کا جواب مہذب طریقے سے سلجھے ہوئے الفاظ کے ساتھ دیا- یہ سب کچھ بھی اس لیڈر شپ کی رہنمائی اور تربیت کی بدولت ہے- یہی تربیت آپ کو لنگر خانے میں، کھانا تقسیم کرتے، برتن سمیٹتے اور کھانا اٹھاتے ہوئے نظر آتی ہے- لوگوں کے آنے جانے، ان کے اٹھنے بیٹھنے کے ڈسپلن میں نظر آتی ہے-

یہ بات بڑے فخر سے کہی جاسکتی ہے کہ ہم اس دور میں زندہ ہیں جس دور میں بانی اصلاحی جماعت  سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ  تشریف لائے اور جس دور میں جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب موجود ہیں-

یہ سب وہ باتیں ہیں جن کا تعلق دنیاوی چیزوں سے ہے- جو دنیاوی طور طریقے (worldly manners )سے منظم (manage) کی جاتی ہیں- اگر روحانی جہت (spiritual dimension) میں بات کی جائے تو جس باکمال منصب پہ بانی اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ کی شخصیت جلوہ افروز دکھائی دیں، دنیا اس کی مثال دینے سے قاصر ہے- خاص طور پر آپ (رحمۃ اللہ علیہ) نے جس انداز میں روحانیتِ قرآن کو منکشف فرمایا، عام لوگوں کے سینوں کی کشادگی اور شرح ِ صدر فرمائی، ان پہ علمِ دین کو منکشف کیا، تصورِ اسم اللہ ذات کی دعوت دی، جس طرح خود آپ (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی زندگی کے نمونہ عمل کو پیش کیا آج اسی طرح جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کی صورت میں وہ تمام باتیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ چاہے روحانی تربیت کی بات ہو، تلقین کی بات ہو، زندگی میں اطمینان کی بات ہو، تزکیہ نفس کی بات ہو، تصفیہ قلب کی بات ہو، آپ کی ایک نگاہ آج بھی دلوں کی زندگیوں کو اور انسا ن کی سوچ کے دھارے کو تبدیل کر دیتی ہے-

ان تمام باتوں کو دیکھتے پرکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر میرے سامنے لیڈر شپ کا یہ رول ماڈل موجود نہ ہوتا تو شاید لیڈر شپ پہ بہت سی کتابیں پڑھ کر بھی میں یہ نہ سمجھ پاتا کہ لیڈر شپ کیا ہوتی ہے، لیڈر شپ اپنے کاموں میں پرفیکشن کیسے پیدا کرتی ہے اورہر میدان میں کامیاب کیسے ہوتی ہےیہ جیپ ریلی تو صرف ایک ایونٹ (event) ہے، مجھے امید ہے کہ یہ لیڈر شپ جس بھی میدان میں ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ کامیابیاں ان کے قدم چومے گی- جہاں تک جیپ ریلی کا تعلق ہے تو یہ ایک صحت افزا ایکٹیویٹی ہے اور اپنی سوسائٹی کے ساتھ ایک بہترین میل جول (interaction) ہے- یہ سوسائٹی کے ان لوگوں تک حُسنِ کلام ، حُسنِ عمل اور حُسنِ اخلاق کے ذریعے  اپنی دعوت اور پیغام لے جانے کا ایک ذریعہ ہے جو عمومی طور پہ آپ کے وعظ و تقاریر سننے نہیں آتے- اس طرح کی سرگرمیاں ان تک پیغام پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں- اس کے ساتھ ساتھ یہ اس اصل چیز کی طرف اشارہ بھی ہے کہ جہاں صلاحیت ، تابندگی اور اندر کی روشنی ہوتی ہے وہ جس میدان میں بھی چلے جائیں ہمیشہ سرخرو ہوتے ہیں-

ایسی مثالیں ہمیں اپنے اسلاف کی تاریخ سے ملتی ہیں کہ اگر انہوں نے سفارت کاری کی تو دنیا ان کی سفارت کی مثالیں دیتی ہے، انہوں نے سپہ سالاری کی تو دنیا ان کی سپہ سالاری کی مثالیں دیتی ہے، انہوں نے حکومت کی تو دنیا ان کی حکومت کرنے کی مثالیں دیتی ہے، انہوں نے تعمیرات کیں تو دنیا ان کی تعمیرات کی مثالیں دیتی ہے، انہوں نے کتب لکھیں تو دنیا آج تک ان کی کتب کی نقالی کرتی چلی آرہی ہے، انہوں نے تقاریر کیں تو دنیا ان کے فنِ خطابت کی مثالیں دیتی ہے، انہوں نے شاعری کی تو دنیا ان کی وسعتِ کلام اور فصاحت و بلاغت  کی مثالیں دیتی ہے، انہوں نے لباس پہنے تو دنیا ان کی نفاست کی مثال دیتی ہے- الغرض وہ ہر میدان میں، ہر جگہ پر منفرد اور نمایاں نظر آتے ہیں- وہ بھیڑ میں بھی ہوں تو تنہا دکھائی دیں - وہ دنیا کے جس میدان میں قدم رکھتے ہیں تو یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ اگر اندر کی صلاحیت ہو تو تھوڑا علم اور تھوڑا تجربہ بھی اس چیز میں کامیابی حاصل کرنے میں مانع نہیں ہو سکتا- اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں توفیق دے کہ آج ہمارے لئے بہترین راستہ اور بہترین ذریعہ کونسا ہے-

آخر میں گزارش ہے کہ مجھے اس زمانے پہ فخر ہے جس زمانے میں یہ دو عظیم ہستیاں حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ  اور حضرت سلطان محمد علی صاحب جلوہ فرما ہوئیں اور مجھے ان لوگوں پر، ان شخصیات پر بھی فخرہے جو ان سے منسلک ہیں- مجھے ان لمحات پر ناز ہے جو انہوں نے بیتائے، مجھے اس مقام پر فخر ہے جو مقام ان سے منسوب ہوا اور جس مقام کو ان کے قدم چھونے کا موقع ملا- اس لئے یہ لیڈر شپ میرا فخر (pride) تھا، ہے اور رہے گا- وقت یہ ثابت کرے گا کہ جو امور وہ سر انجام دیں وہ دنیا میں امر ہو جاتے ہیں-

ان تمام گزارشات کا خلاصہ اقبال کا وہ فلسفہ ہے جو انہوں نے اپنی طویل نظم "مسجدِ قرطبہ" میں بیان کیا ہے کہ: -

سلسلہ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب صیرفی کائنات

 اس نظم کا آخری بندیہ ہے کہ:-

اوّل و آخر فنا، ظاہر و باطن فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فنا

لیکن جس چیز کو فنا نہیں، جس چیز نے مٹنا نہیں، جو چیز ہمیشہ نظر آتی رہے گی اس کے بارے میں کہتے ہیں:-

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پہ حرام

یہ امور اٹل ہوتے ہیں، ان لمحوں کو دیکھنے کے لئے صدیاں بیتتی ہیں جن لمحوں میں آج ہم زندہ ہیں اور یہ چیز چونکہ سوزِ جگر سے آتی ہے اس لئے یہ ہمیشہ رہتی ہے، یہ جہاں بھی جاتی ہے وہاں اپنا آپ منواتی ہے کہ:

"مَیں وہ طاقت نہیں جسے دنیا آزماتی ہے بلکہ مَیں وہ طاقت ہوں جو لوگوں کی سمجھ اور ان کی دانست سے بالاتر ہے جس کو دنیا سمجھنے سے قاصر ہے"-

ایک وقت آئے گا کہ جو بات اس فقیر نے کہی ہے، جو لفظ اس فقیر کی زبان و قلم سے جاری کئے گئے ہیں دنیا ان کی صداقت کی گواہی دے گی ان شاءاللہ تعالیٰ- آخر میں اس بات کا پھر سے اعادہ کرتا ہوں کہ مجھے اپنی قیادت اور اپنی لیڈر شپ پہ فخر ہے اور مجھے اپنے آپ پر اس لئے فخر ہے کہ میں ایسی زندہ اور تابندہ قیادت کی خدمت (serve) کرتا ہوں اور یہی میرا سرمایہ حیات اور میرا سب سے بڑا فخر ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر