خالق کائنات ’’جمیل‘‘ہے اور ’’جمال‘‘ کو پسند فرماتا ہے- اس نے کائنات کو ایک منظم و متوازن میزان پر پیدا کیا ہے جو اس کے جمال کی مظہر ہے- اس نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا، اپنے اوصاف سے متصف فرما یا، اسے اپنا خلیفہ قرار دیا اور اس کے لئے زمین و آسمان کو خوب صاف ستھرا بنایا- انسان کی رہنمائی کے لئے اپنے خاص بندے مبعوث فرمائے جن میں سید الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) نے ہر جہت کو مدنظر رکھتے ہوئے وحیٔ الٰہی کی روشنی میں انسانوں کی مکمل تربیت کا اہتمام فرمایا -
آپ (ﷺ) کی سیرت اس بات کی شاہد ہے کہ آپ (ﷺ) ہمیشہ پاک، صاف، ستھرے اور مطہر رہتے، بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی پاک صاف اور خوشبو میں بسا دیکھنا چاہتے تھے- آپ(ﷺ) کی طبیعت مبارک میں اتنی نفاست تھی کہ آپ(ﷺ) پراگندگی کو بھی پسند نہ فرماتے- صاف ستھرے رہنے، غسل کرنے، پاک و صاف کپڑے پہننے، مسواک کرنے، خوشبو لگانے، بالوں کو بنانے، داڑھی میں کنگھی کرنے، مسواک کرنے، اپنے گھر،صحن، راستوں کی صفائی ستھرائی سے متعلق متعدد احادیث مبارکہ موجود ہیں ان کو یہاں لکھ کر مضمون کو طول دینا مقصد نہیں بلکہ اس امر کی جانب توجہ مبذول کروانا مقصود ہے جس کی ارزانی ہمارے ملکی نظام اور قومی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے-
پاکیزگی (صفائی) ایمان کا حصہ ہے ایسی معروف حدیث ہے کہ تقریباً ہر مسلمان اس سے واقف ہے، خود اور اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ، سیرتِ رسول(ﷺ)کی روشنی میں ہم پر فرض ہے لیکن ہم نے لباس زیست کو الٹا پہن رکھا ہے- ہم جو اُمتِ محمدی(ﷺ) ہیں جن کے دین کی بنیاد میں صفائی و طہارت ہے ہم بحیثیت قوم اپنی اس اساس سے کہیں دور گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں، ہماری فضاء مکدر ہے، ہمارے راستے گندگی سے اٹے ہیں- ہمارے دریا دنیا کے گندے ترین دریاؤں میں شمار ہوتے ہیں- دریائے راوی کے پاس دنیا کا گندہ ترین دریا ہونے کا ’’گولڈ میڈل‘‘ ہے-
شہر بھر کی غلاظت، گندگی اور سیوریج اسی دریا میں گرتی ہے جس سے پانی کا رنگ گدلا نہیں بلکہ کالا ہو جاتا ہے، یہ بات فقط دریائے راوی تک محدود نہیں جس بھی دریا کا نام لیں، شہری آبادی کے نزدیک اس کا حال دیکھ لیں- لگ بھگ ایک جیسا ہی ملے گا یہ معاملہ صرف دریاؤں تک محدود نہیں بلکہ کھڑے پانی کے قابل استعمال ذخیرے جیسے ڈیم اور جھیلیں بھی ہم سے محفوظ نہیں- اسلام آباد کے نزدیک خان پور ڈیم ہے جس سے راولپنڈی اور اسلام آباد کو گھریلو استعمال کے پانی کی ترسیل کی جاتی ہے اس میں ہوٹلوں کی گندگی ، فضلہ اور جانوروں کی باقیات تک کو ڈال دینے کا انکشاف ہوا جس کے باعث ضلعی انتظامیہ کو اس کے خلاف ایکشن لینا پڑا-
ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق اسلام آباد کا لٹریسی ریٹ پاکستان بھرمیں سب سے زیادہ ہے اس زیادہ لٹریسی والے شہر اسلام آباد میں موجود راول ڈیم کا حال بھی باقی جگہوں سے مختلف نہیں ہے- سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ کیا آقا پاک(ﷺ) کا امتی ہونے کے باعث یہ رویے ہمیں زیب دیتے ہیں؟ وہ تمدنی شعور (Civic Sense)، وہ معاشرتی آداب، وہ سلیقہ و تہذیب، جو ہمارے نبی مکرم (ﷺ)کا اسوہ ہے کیا وہ ہمارے لئے راہنمائی نہیں ہے؟
اب اگر ساحلوں کی بات کی جائے تو ساحل گندے ترین ہیں جہاں پلاسٹک کی بوتلیں، سگریٹ کے فلٹرز، ٹافیوں، چاکلیٹ اور چپس کے ریپرز کا ایک انبار آنے والوں کا منہ چڑانے کو تیار ہوتا ہے -امکان ہے کہ ان باتوں کو پڑھ کر کوئی پاکستان کے پاس 1046 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے صاف ستھرے ساحل اور کچھ سیرگاہیں اور شہری آبادی کا کچھ پوش حصہ دکھانے کی کوشش بھی کریں تاکہ پاکستانی قوم کا مثبت تاثر ابھارا جا سکے ، ان سے میں یہ گزارش کروں گا کہ یہ ساحل اور علاقے ابھی ہماری پہنچ سے باہر ہیں- اگر ہماری عادات نہ بدلیں اور یہ جگہیں بھی ہماری دسترس میں آ گئیں تو ان کے حالات بھی ان علاقوں جیسے ہی ہوں گے جو اکثر ہمارے مشاہدے میں رہتے ہیں- سمندر کے پانیوں میں کمرشل پولیوشن اور گندگی کا ذکر یہاں دانستہ نہیں کیا جا رہا،کیونکہ یہاں صفائی ستھرائی سے متعلق قومی نفسیات کے انفرادی پہلو پر روشنی ڈالنا مقصود ہے-
اب اگر مکدر فضاؤں کا مرثیہ پڑھیں تو گزشتہ برس کی گئی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے پانچ گندے ترین شہروں میں پاکستان کا لاہور پہلے اور پشاور پانچویں نمبر پر تھا- امسال ہوئی رینکنگ میں 25 شہر شامل ہیں لیکن ہمارے شہراپنی پوزیشن پر ’’مستحکم‘‘ ہیں - لاہور کی فضائی گندگی کو سموگ، فصلوں کو جلانے، گاڑیوں کے ایندھن، فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھویں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اور ایک کمزور دلیل کے طور پر پڑوسی ملک میں فصلیں جلانے کے باعث اور ان کی فضائی آلودگی کو ہمارے شہرمیں داخل ہونے کی وجہ قرار دینے کی آوازبھی کان میں پڑتی ہے لیکن راولپنڈی اور پشاور کے تو پڑوسی ملک کوسوں دور ہیں وہاں پر ہم کیا وجہ بیان کریں گے؟ حقیقت حال یہی ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو ریاستی سطح پر کوئی جامع اور ٹھوس پالیسی موجود ہے اور نہ ہی اس طرف توجہ دی جا رہی ہے -
|
یہ تو اجتماعی سطح پر ہمارا رویہ تھا لیکن انفرادی طور پر اپنے گھر، گلی، محلے، نالیوں اور سیوریج سسٹم کاجائزہ لیں تو بھی نتائج مایوس کن ہیں- نالیاں مٹی، پلاسٹک اور لفافوں سےاٹی پڑیں ہیں،گلیوں میں گھروں کا کوڑا کرکٹ بکھرا ہے،گٹر ابل رہے ہیں، گندہ پانی تعفن پھیلا رہا ہے، نماز اور سکول کے لئے جانا مشکل ہو جاتا ہے اس پر مستزاد کہ اگر بارش ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ، کوڑے دان پہلے تو موجود نہیں اگر چنیدہ چنیدہ شہروں میں موجود بھی ہیں تو ہم ان میں کوڑا پھینکنے کی تکلیف کرنی کی بجائے ان سے باہر پھینکنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں کہ کوئی کوہ ہمالیہ سرکرلیا ہے- پھر وہاں سے کوڑا اٹھانے والے سرکاری اور نجی اہلکار کھلی گاڑیوں میں اس کوڑے کو لے جاتے ہیں جس سے فضا میں تعفن پھیلتا ہے ، لیکن اس کوڑے کرکٹ کو بہت سے دوسرے ممالک کی طرح توانائی کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ بڑی چھوٹی کچرہ کنڈی کی صورت میں شہر سے کچھ فاصلے پر پھینک دیا جاتا ہے، یہ تو چھوٹی سی سطح پر انتظامی اقدامات کی ایک جھلک تھی- گندگی پھیلانے کے حوالے سے ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ چلتے چلتے ہم کھاتے جاتے ہیں اور چھلکے وغیرہ راستے میں بکھیرتے جاتے ہیں- شاعرسے معذرت اور محبت کی جگہ گندگی؛
گندگی ہمارا حوالہ رہی ہے |
جہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں اپنی باقیات اور نشانیاں وہیں چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور اس بات کا ادراک تک نہیں کرتے ہم گندگی پھیلا رہے ہیں ، جو قدرے باشعور ہیں وہ قیاس کرتے ہیں کہ یقیناً صفائی والا عملہ یہاں سے یہ گند اٹھا لے گا ، چاہے وہاں صفائی کرنے والا عملہ تعینات ہو بھی یا نا ہو- سڑکوں تک پر چلتی گاڑیوں سے کولڈ ڈرنک کے ٹین اور بوتلیں باہرپھینک دینا ہمارے لئے معمولی بات ہے،اور ہاں بات صرف کولڈ ڈرنک کے ٹین اور پلاسٹک کی بوتلوں تک محدود نہیں ہے اس مد میں ہم ایسے خود کفیل ہیں کہ چلتی گاڑیوں سے پھلوں کے چھلکے تک بھی سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ یہ کسی موٹر سائیکل یا سائیکل والے کے لئے حادثے کا باعث بھی بن سکتے ہیں،لیکن چونکہ ہم نے راستوں میں کانٹے نہ بکھیرو والی حدیث سن رکھی ہے تو ہم اس گندگی کو کانٹے سمجھتے ہی نہیں اور ہمارا تخیل صرف جھاڑیوں اور کانٹوں سے بھری ٹہنی کی طرف ہی جاتا ہے، اس سے آگے مثبت قیاس کرنے سے عموماً گریز ہی کرتے ہیں-
ان تمام باتوں کے باوجود صفائی ستھرائی پر بھاشن دینے میں ہم اول نمبر پر ہیں، ہمارے منبر و محراب سے جسمانی صفائی اور مساجد کی صفائی کا تذکرہ اکثر اور روحانی صفائی کا تذکرہ شاذ و نادر سننے کو مل جاتا ہے لیکن صاف ستھرے معاشرے، شاہراہوں، گزرگاہوں، پگڈنڈیوں، گلی، محلے، سیر گاہوں ، دیہاتوں، قصبوں ،شہروں اور ملک کو صاف ستھرا رکھنے کا درس سال میں ایک آدھ بار ہی سننے کو ملتا ہے- ہم آقا کریم(ﷺ) کے ان ارشادات مبارکہ کو شاید بھول ہی گئے ہیں جن میں آپ (ﷺ) نے راستوں کو آلودہ کرنے سے منع فرمایا ہے -
مندرجہ بالا سطور صفائی کے تناظر میں ہماری قومی نفسیات کی ہلکی سے تصویر کشی کرتی ہے- اگر انتظامی تناظر میں اس امر کا جائزہ لیا جائے تو قومی سطح پر پالیسی کا فقدان اور جہاں پالیسی موجود ہے اس کے اطلاق کے ناپید ہونے کے باعث ملک کے بڑے شہروں کے پوش علاقوں کو چھوڑ کر باقی شہر اور قصبے گندگی سے اٹے پڑے ہیں- ایسے ہی گندے پانی اور فیکٹریوں کے گندے پانی کی ری سائیکلنگ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں-یہی گندگی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی موجب ہے- لیکن حکومت کے کان پر اس مسئلہ کو لے کر جوں بھی نہیں رینگ رہی- اس موضوع پر ابھی بہت سے پہلو تشنہ ہیں جن پر سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے لیکن ہمیں سوچنا یہ ہے کہ حضورنبی کریم (ﷺ) کا امتی ہونے کے ناطے سیرت رسول(ﷺ) کی روشنی میں صفائی ستھرائی کے حوالے سے ہمارا کردار کیا ہے-
آپ(ﷺ)کو تو بکھرے ہوئے بال تک پسند نہ تھے ، آپ(ﷺ) نے لہسن اور پیاز کھا کرمسجد میں آنے سے منع فرمایا کہ اس سے منہ سے بدبو آتی ہے لیکن ہم نے اپنے گلی محلوں کو تعفن زدہ کر رکھا ہے- ہم نے تو کسی کو حوالہ دینا ہو کسی کو کسی جگہ کا پتہ بتانا ہو تو کہتے ہیں میاں گھر کے پاس کوڑے کا ڈھیر ہوگا-
سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم نے سیرتِ رسول(ﷺ)کے اس صاف ستھرے ، روشن اور معطر پہلو کو اپنی زندگی کا شعار انفرادی اور حکومتی سطح پر بنایا ہے، یا ہم اس سے برعکس جی رہے ہیں-
سوچنا یہ ہے کہ کیا ہماری وجہ سے گندگی تو نہیں پھیل رہی ، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے سے گندگی کو دور کرنے کے لئے کوئی اقدام کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو سیرت رسول(ﷺ) ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے ؟ اور اگر ہاں! تو سیرت کی روشنی میں ہم اسے مزید بہتر کیسے کر سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ خالق کائنات ’’جمیل‘‘ہے اور ’’جمال‘‘ کو پسند فرماتاہے-
٭٭٭