یہ درست ہے کہ الفاظ انسان کی شخصیت اور خیالات کی عکاسی کرتے ہیں- انسان جن الفاظ کا انتخاب کرتا ہے وہ اس کی شخصیت کو تعمیر کرنے میں بڑا اہم کردار نبھاتے ہیں- الفاظ کا محتاط استعمال ہمیں دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور اپنی شخصیت کو بہتر طور پر پیش کرنے میں مدد دیتا ہے- جب ہم الفاظ کا صحیح انتخاب کرتے ہیں تو ہم نہ صرف اپنے خیالات کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں بلکہ سننے والوں پر مثبت اثر بھی ڈالتے ہیں- اس لیے الفاظ کی اہمیت کو سمجھنا اور ان کا صحیح استعمال کرنا زندگی میں کامیابی اور مثبت تعلقات کے لیے اہم ہے-
انسان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ چند لمحوں میں ہی سامنے والے کے چہرے کی رنگت اور اس کے تاثرات کو تبدیل کر سکتے ہیں- خوشی کو غصے، غصے کو غم، غم کو مسکراہٹ اور مسکراہٹ کو آنسوؤں میں- جہاں الفاظ شہد سے زیادہ میٹھے ہوتے ہیں وہیں تلوار سے زیادہ گہرے زخم بھی دے جاتے ہیں-
کسی اداس انسان سے اگر محبت کے دو میٹھے بول کہے جائیں تو اس سے اس کی اداسی دور ہو سکتی ہے- کوئی مشکلات سے لڑ رہا ہو تو اسے حوصلہ دینا، اس کے بُرے وقت میں اس کی اچھائیوں کا ذکر کرنا، اس کی تعریف کرنا، اس کے ذہن و دل پر متاثر کن عمل ثابت ہوتا ہے جس سے وہ مشکل حالات سے بخوبی لڑسکتا ہے-
اسی طرح کسی خوش انسان کو ایسے الفاظ کہہ دینا جو بہت سخت اور تُند ہوں تو چند لمحوں ہی میں اس کا مزاج خراب ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ دل بُری طرح ٹوٹ جائے جبکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تلخ کلامی برسوں بلکہ پوری زندگی بھی انسان بھول نہیں پاتا-زبان ہی ہے جس سے ادا ہونے والے الفاظ انسان کو عزت بھی بخشتے ہیں اور یہی الفاظ اسے ذلیل و رسوا بھی کرتے ہیں-
ماں باپ کے کہے جانے والے الفاظ ان کی اولاد کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں- دوست کے کہے جانے والے الفاظ زندگی کا سہارا اور بھروسہ ثابت ہوتے ہیں، استاد کا شاگرد کے لیے ادا کئے جانے والے الفاظ اس کی حوصلہ افزائی اور مستقبل میں اس کی کامیابی ثابت ہوتے ہیں- اسی طرح ہر رشتے میں الفاظ بڑی اہمیت کے حامل ہیں-
مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ الفاظ کی طاقت کے متعلق کہتےہیں:
“Words and magic were in the beginning one and the same thing, and even today words retain much of their magical power.”[1]
’’الفاظ اور جادو شروع میں ایک ہی چیز تھےاور آج بھی الفاظ اپنی جادوئی طاقت کو برقرار رکھتے ہیں‘‘-
مولانہ رومیؒ فرماتے ہے:
این زبان چون سنگ و هم آهن وش است |
’’یہ زبان پتھر اور لوہے کی طرح سخت ہے، اور جو کچھ زبان سے نکلتا ہے وہ آگ کی طرح جلاتا ہے‘‘-
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے |
حضرت سلطان باھوؒ کا فرمان مبارک ہے:
سَو ہزار تِنہاں تُوں صَدقے جہڑے مُنہ نہ بولن پھِکّا ھو |
حضرت سلطان باھُوؒ ان سالکوں اور طالبان ِ مولیٰ کی تعریف فرما رہے ہیں جومصائب و آلام کے وقت نہ صرف صبر کرتے ہیں بلکہ زبان کوشکوہ ٔ رنج و الم جیسی بیہودہ و لغو گفتگو سے پاک رکھتے ہیں اور ہمیشہ حق سچ بات کہتے ہیں-آپؒ نے اپنے کلام مبارک میں جہاں نفس کو انسان کا بہت بڑا دشمن قرار دیا ہے وہاں اس کی آماجگاہوں کو شمارفرماتے ہوئے اس کی پہلی آماجگاہ زبان کو قرار دیا ہے-جیساکہ آپؒ ’’عین الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’آدمی کے وجود میں نفس کے چار گھر ہیں، پہلا گھر زبان ہے جس کو وہ لہو و لغو سے آلودہ رکھتا ہے‘‘-
’’کلید التوحید خورد‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ :
’’صاحب ِنفس ِامارہ کی صورت کو اِس سے جاننا چاہیے کہ وہ تُرش رُو و بدخُو ہوگا - جو بات کرے گا جہالت کی کرے گا چاہے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو یعنی اُس کی گفتگو میں قہر ، غضب اور غصّہ ہو گا ‘‘-
اللہ جل شانہُ کا اپنے بندے سے تعلق بھی قرآن مجید فرقان حمید میں الفاظ کے ذریعہ ہی ہے، اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے بندے سے کلام کیا-
کہیں محبت، کہیں عبرت، کہیں حکمت، کہیں جلال تو کہیں خوف- پھر کہیں بہت امید اور کہیں اپنی رحمت کا اظہار کیا ہے - اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو ایسے الفاظ میں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام سیدھا دل پر تاثیر کرتا ہے-
اللہ پاک نے نرم لہجے کو بہت پسند فرمایا ہے اور متعدد دفعہ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
’’وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا‘‘[2]
’’اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا ‘‘-
’’وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْہُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْہَا فَقُلْ لَّہُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا‘‘[3]
’’اور اگر تم (اپنی تنگ دستی کے باعث) ان (مستحقین) سے گریز کرنا چاہتے ہو اپنے رب کی جانب سے رحمت (خوش حالی) کے انتظار میں جس کی تم توقع رکھتے ہو تو ان سے نرمی کی بات کہہ دیا کرو‘‘-
’’وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَہُمْط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ‘‘[4]
’’اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں، بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقینا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘-
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘[5]
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘-
’’ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ‘‘[6]
’’آپ (ﷺ)اللہ کی رحمت سے ان کے لیے نرم مزاج ثابت ہوئے اگر آپ (ﷺ)ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ(ﷺ) کے پاس سے منتشر ہوجاتے‘‘-
اللہ پاک نے اپنے کامیاب مؤمنین کی نشانی بتاتے ہوئے ارشادفرمایا :
’’وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo‘‘ [7]
’’اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں‘‘-
لیکن قرآن مجید میں ایک مقام ایسا بھی ہے جو نہایت حیران کن ہے- جب حضرت موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم ہوا:
’’ اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی‘‘[8]
’’فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو انتہائی مشکل کام کا حکم دیا- فرعون جیسے جابر اور ظالم بادشاہ کی طرف بھیجا جبکہ وہاں جا کر اللہ کا پیغام دینا بہت کٹھن امتحان تھا- ظاہر ہے کہ جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کلام کے ذریعہ کرتے ہیں لیکن جب ہمارا مقصد کسی کو خاص دعوت دینا ہو تو اس کا طریقہ مختلف ہوتا ہے- ہم سامنے والے کے ذہن کو سمجھ کر بات کرتے ہیں لیکن یہاں مد مقابل فرعونِ مصر ہے ،اس امرِ ربی پر سیدنا موسیٰ ؑ نے اللہ سے عرض کی:
’’ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ وَ احْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْیَفْقَہُوْا قَوْلِیْ ‘‘[9]
’’اے میرے رب میرا سینہ کھول دے اور میرا کام آسان کر اور میری زبان سے گرہ کھول دے کہ میری بات سمجھ لے‘‘-
یہاں ایک سرکش بادشاہ کو حق کی دعوت دینا تھی تو دعوت کا بہت سا دار و مدار لفظوں کا تھا اسی لئے سیدنا موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے زبان کی مہارت چاہی-لیکن اس کے آگے آنے والی آیت رونگٹے کھڑے کردیتی ہے- اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان جاری اس مکالمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اِذْہَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی فَقُوۡلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی ‘‘[10]
’’فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے سو اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے‘‘-
یہ آیت کریمہ قابل غور ہے- اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو گیا- فرعون کون ہے؟ فرعون وہ ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، جس نے بنی اسرائیل کے پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کو قتل کروانے کا حکم دیا، جو خدا کا منکر، اپنے نفس کا غلام اور ظالم تھا- جس کی بہت وسیع حد تک بادشاہی پھیلی ہوئی تھی- ایسے شخص کی جانب اللہ پاک نے اپنے لاڈلے اور پیارے پیغمبر حضرت موسیٰؑ کو بھیجا اور ساتھ نصیحت فرمائی کہ اس سے نرمی سے بات کرو-
فرعون کی نافرمانی، ہٹ دھرمی اور خدائی دعوؤں کے باجود اللہ پاک نے حضرت موسیٰؑ کو اس سے نرمی سے بات کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ کہ شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے- اندازہ لگائیں! ہم اپنی زندگی میں والدین، اولاد، شوہر، بیوی، ساس، بہو، بہن، بھائی، دوست، رشتہ دار، استاد، شاگرد، ملازم میں سے جس بھی رشتے کو نبھا رہے ہیں یا جس بھی منصب پر فائز ہیں ذرا اس آیت کو اب اپنی زندگی پر لاگو کر کے دیکھیں تو ہمارے سامنے چند سوال رونما ہوتے ہیں: ہم نے کتنے دل توڑے؟ کتنے رشتے برباد کیے؟ کتنوں کی تذلیل کی؟ کس کے احساسات کو ٹھیس پہنچائی؟ کتنوں کی حوصلہ شکنی کی؟ ہمارے اندر غصہ، بے صبری شدت، برداشت کی کمی آخر کیوں ہے؟ کیوں ہم جلد بازی میں دوسروں کی توہین کر دیتے ہیں؟ کیوں ہم رشتوں میں ایک دوسرے کو موقع نہیں دے پاتے؟ کیا ان کا گناہ یا قصور یا غلطی فرعون سے بڑھ کر ہے؟ الغرض! کہ یہ آیت ہر اس مسلمان کے لیے ہے جو بھلائی کی نیت رکھتا ہو، اپنی اور باقیوں کی اصلاح چاہتا ہو-
ہمیں ہمارے پیارے پیغمبر حضور نبی رحمت(ﷺ) کے اسوہ حسنہ سے اس بات کا سبق ملتا ہے کہ ہر رشتے اور تعلق میں نرمی برتنی چاہئے- آپ(ﷺ) نے اپنے ہر رشتے اور ہر منصب میں اس کا ثبوت دیا- آپ(ﷺ)کا اندازِ بیان سب سے زیادہ نرم اور مؤثر ہوتا- حضرت ہند بن ہالہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ :
’’حضور نبی اکرم(ﷺ) بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے، آپ (ﷺ) طویل سکوت فرمانے والے (یعنی خاموش طبع) تھے، آغازِ کلام اور اُس کا اختتام دہن مبارک کی جانبوں اور کناروں سے ہوتا (یعنی ہر کلمہ کی ادا ئیگی مکمل طور پر ہوتی)- حضور نبی رحمت (ﷺ) کا کلامِ اقدس مختصر مگر جامع الفاظ پر مشتمل ہوتا، نیز کلمات میں باہم مناسب فاصلہ ہوتا (تاکہ سامعین اچھی طرح سُن اور سمجھ سکیں اور یاد رکھ سکیں)، الفاظ نہ ضرورت سے زیادہ ہوتے اور نہ اتنے مختصر کہ بات ہی واضح نہ ہو آپ(ﷺ) نہ سخت مزاج تھے اور نہ کسی کی تذلیل کرتے‘‘-
اِس حدیث پاک کو امام ترمذی نے ’’الشمائل المحمدیہ‘‘ میں اور ابن حبان، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے-
’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث پاک میں اُم المؤمنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
”اللہ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی کرنے پر وہ سب کچھ عطا کرتا ہے جو سختی کرنے پر عطا نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور چیز پر عطا کرتا ہے“-
شریح کہتے ہیں کہ میں نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے صحراء و بیابان (میں زندگی گزارنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نےفرمایا:
’’رسول اللہ (ﷺ) ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے، آپ (ﷺ)نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی اور مجھ سےارشاد فرمایا: ”عائشہ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے“-[11]
جریر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول(ﷺ) کو ارشادفرماتے ہوئے سنا:
”جو شخص نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم کردیا گیا“- [12]
فتح مکہ کے وقت حضرت عکرمہ (رضی اللہ عنہ)نے اسلام قبول کیا تھا-اس موقع پر رسول اللہ(ﷺ) نے حضرت عکرمہ (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں ارشاد فرمایا :
’’عکرمہ تمہارے پاس مومن کی حیثیت سے آ رہا ہےلہذا اس کو بُرا نہ کہو اور اس کے والد (ابو جہل) کو بھی بُرا نہ کہو‘‘-[13]
ابوجہل جو قریش کا سردار تھا اس نے اپنی زندگی میں مسلمانوں کو بہت اذیت پہنچائی تھی- حضور نبی کریم (ﷺ) کی بھی طرح طرح سے ایذا رسانی کرتا رہتا تھا اس کی موت کے بعد جب اس کا بیٹا عکرمہ مسلمان ہوا تو آقا کریم (ﷺ) نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سےارشاد فرمایا کہ عکرمہ کو برا نہ کہنا یعنی اس کے ماضی سے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہنا کہ جس سے اس کو برا لگے یا وہ شرمسار ہو بلکہ ساتھ یہ بات بھی بیان فرمائی کہ اس کے باپ یعنی ابو جہل کو بھی برا نہ کہنا کیونکہ اس طرح حضرت عکرمہ (رضی اللہ عنہ) کو تکلیف پہنچ سکتی ہے- قابل غور بات یہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو اس حد تک محتاط رہنے کا حکم فرماتے کہ ابو جہل جیسے دشمن کیلئےبھی الفاظ کا چناؤ نرمی سے کیا جائے -
الفاظ کے انتخاب میں احتیاط اور سوچ بچار ضروری ہے- ان کا اثر صرف سننے والے کی موجودہ حالت پر نہیں بلکہ طویل مدتی طور پر اس کی سوچ اور شخصیت پر بھی پڑتا ہے- یہی وجہ ہے کہ آقا کریم(ﷺ) کی تعلیمات اور قرآن کی ہدایات کے مطابق، ہمیں اپنے الفاظ میں نرمی، محبت اور غور و فکر کا خیال رکھنا چاہیے- جدید نفسیات بھی اس بات پر زور دیتی ہے کہ شگفتہ کلامی، نرم گویائی شخصیت کو نکھارتی ہے اور کشش پیدا کرتی ہے-
آج ماہرینِ نفسیات کو پڑھا جائے تو وہ شیریں کلام کی اہمیت کو بہت اجاگر کرتے ہیں- بلکہ بچوں کی نفسیات پر کام کرنے والے اکثر ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ باہمی رابطہ، تعلق اور گفتگو کی مہارت کو بہتر بنایا جائے اور محبت بھرا انداز اپنایا جائے- اس سے بچوں کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کے دل میں اعتماد، محبت اور حفاظت کا احساس پروان چڑھتا ہے- اس طرح کی پرورش سے بچوں کی ذہنی اور جذباتی صحت کو فروغ ملتا ہے، جس سے وہ زندگی میں زیادہ کامیاب اور خوشحال ہو سکتے ہیں-
دورِ حاضر میں نرم گفتاری اور شیریں کلامی کا فقدان شدت اختیار کر چکا ہے- سوشل میڈیا سمیت ہر جگہ لوگ ایک دوسرے کو طنز و تنقید کا نشانہ بناتے، عزتیں اچھالتے اور حوصلہ شکنی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں- الفاظ کی تاثیر کو ہم نے نظرانداز کردیا ہے، ایک دوسرے کو برے القابات اور ناموں سے پکارنا ، مذاق اڑانا، گالم گلوچ اور فحش زبان کا استعمال عام بات شمار کی جاتی ہے- ایک دوسرے سے میٹھے بول سننے کے لئے لوگ ترس گئے ہیں- صلاحیت اور اچھائیوں کو سراہا نہیں جاتا جس کے باعث نوجوانوں میں بے یقینی ، احساس کمتری، مایوسی اور ذہنی امراض بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ جس عظیم مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ اسے بھول گیا ہے اورجہاں بہت سے عناصرانفرادی اور اجتماعی زوال کا باعث بن رہے ہیں وہیں ایک وجہ لفظوں کا غلط استعمال بھی ہے-
٭٭٭
[1]Sigmund Freud, Introductory lectures on psychoanalysis
[2](البقرۃ:83)
[3](الاسراء:28)
[4](الاسراء:53)
[5](الاحزاب:70)
[6](آلِ عمران: 159)
[7](المؤمنون:3)
[8](طہٰ :24)
[9](طہٰ : 25-28)
[10](طہٰ : 43-44)
[11](سنن ابی داؤد، كتاب الجہاد)
[12](صحیح مسلم ، باب فضل الرفق)
[13](المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث:5057)