حضرت کعب بن مالک ؓ نے فرمایا: مَیں غزوہ تبوک کے علاوہ کسی غزوہ میں بھی رسول اللہ (ﷺ) سے پیچھے نہیں رہا- البتہ غزوہ بدر میں پیچھے رہ جانے والوں میں سے کسی پر بھی آپ (ﷺ) نے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا-رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمان، قریش کے قافلے کو روکنے کے ارادے سے روانہ ہوئے تھے-حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان کے دشمنوں کے درمیان اچانک مقابلہ کروایا اور جب ہم نے اسلام کا عہد کیا تھا اس وقت رسول اللہ (ﷺ) کے پاس عقبہ کی شب مَیں بھی حاضر ہوا تھا-گو کہ مسلمانوں میں شرکاءِ بدر کی وقعت بہت زیادہ ہے لیکن میں شب عقبہ کی حاضری کے بدلہ میں اور کوئی فضیلت پسند نہیں کرتا-
پس میراواقعہ یہ ہے کہ جب میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہ (ﷺ) سے پیچھے رہ گیا تھا، اس وقت میں جس قدر قوی اور خوشحال تھا اس سے پہلے کبھی اس قدر قوی اور خوشحال نہیں تھا-اس وقت جہاد کے لئے میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں جو اس سے پہلے کبھی کسی جہاد کے وقت میرے پاس نہیں تھیں-رسول اللہ (ﷺ) سخت گرمی میں جہاد کی غرض سے دور دراز سفر کیلئے صحرا میں کثیر دشمنوں سے مقابلہ کرنے کیلئے روانہ ہوئے، آپ نے مسلمانوں پر پورا معاملہ واضح فرمادیا تھا-تاکہ وہ دشمنوں سے جہاد کیلئے پوری تیاری کرلیں-
آپ (ﷺ) نے مسلمانوں کو اپنے ارادہ سے آگاہ کر دیا تھا، اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کسی رجسٹر میں مسلمانوں کی تعداد کا اندراج نہیں تھا-حضرت کعب ؓ نےفرمایا: بہت کم کوئی ایسا شخص ہوگا جو اس غزوہ سے غائب ہونے کا ارادہ کرے اور اس کا یہ گمان ہو کہ بغیر اللہ کی وحی نازل کرنے کے آپ (ﷺ) سے اس کا معاملہ مخفی رہے گا-جب درختوں پر پھل آگئے اور ان کے سائے گھنے ہوگئے میں اس وقت پھلوں اور درختوں میں مشغول تھا اور رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمان جہاد کی تیاری میں تھے-مَیں ہر صبح جہاد کی تیاری کا سوچتا اور واپس آجاتا، میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا اور یہ سوچتا کہ میں جس وقت جانے کا ارادہ کروں گا، جاسکوں گا-مَیں یہی سوچتا رہا، حتیٰ کہ مسلمانوں نے سامانِ سفر باندھ لیا اور ایک صبح رسول اللہ (ﷺ) مسلمانوں کو لے کر روانہ ہو گئے ، میں نے ابھی تیاری نہیں کی تھی، مَیں صبح کو پھر گیا اور لوٹ آیا اور میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکا-میں یونہی سوچ بچار میں رہا، حتیٰ کہ مجاہدین آگے بڑھ گئے اور جنگ شروع ہوگئی اور مَیں یہی سوچتا رہا کہ مَیں روانہ ہو کر ان کے ساتھ جا ملوں گا- کاش میں ایسا کر لیتا، لیکن یہ چیز میرے مقدر میں نہیں تھی-
رسول اللہ (ﷺ) کے تشریف لے جانے کے بعد مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا کہ میں جن لوگوں کے درمیان چلتا تھا یہ صرف وہی لوگ تھے جو نفاق سے متہم تھے، یا وہ ضعیف لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے جہاد سے معذور رکھا تھا-
رسول اللہ (ﷺ) نے مقامِ تبوک پہنچنے سے پہلے میرا ذکر نہیں کیا، جس وقت آپ (ﷺ)مقامِ تبوک میں صحابہ کرام ؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ﷺ) نے فرمایا: کعب بن مالک کو کیا ہوا؟ بنوسلمہ کے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ) ! اس کو دو چادروں اور اپنے پہلؤوں کو دیکھنے نے روک لیا-حضرت معاذ بن جبل ؓ نے فرمایا: تم نے بُری بات کہی ہے-بخدا! یا رسول اللہ (ﷺ) ہم اس کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتے -ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ آپ (ﷺ) نے ایک سفید پوش شخص کو ریگستان سے آتے ہوئے دیکھا-رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: تو ابو خیثمہ ہوجا، تو وہ ابو خیثمہ انصاری ہوگیا-یہ وہی شخص تھے جنہوں نے ایک صاع (4 کلوگرام) چھوارے صدقہ کئے تھے تو منافقین نے انہیں طعنہ دیا تھا-
حضرت کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ (ﷺ) تبوک سے واپس آ رہے ہیں تو میری پریشانی پھر تازہ ہو گئی، میں جھوٹی باتیں بنانے کے لئے سوچنے لگا اور یہ سوچنے لگا کہ میں کل حضور (ﷺ) کی ناراضگی سے کیسے بچوں گا؟ اور اپنے گھر کے اصحاب رائے سے اس سلسلہ میں مشورہ لینے گا-پھر جب مجھے یہ بتایا گیا کہ رسول اللہ (ﷺ) عنقریب تشریف لارہے ہیں تو میرے ذہن سے وہ سب جھوٹے بہانے نکل گئے اور میں نے جان لیا کہ میں کسی (جھوٹی) بات سے کبھی نجات نہیں پاسکوں گا-
پھر میں نےسچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا، صبح کو رسول اللہ (ﷺ) تشریف لے آئے اور آپ (ﷺ) جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے-جب حضور (ﷺ) معمول کے مطابق لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو جو لوگ غزوہ تبوک میں نہیں گئے تھے وہ آ کر عذر پیش کرنے لگے اور قسمیں کھانے لگے-یہ لوگ 80 سے زیادہ تھے-
رسول اللہ (ﷺ) نے ظاہری اعتبار سے ان کے عذر کو قبول کر لیا،ان سے بیعت لی، ان کے لئے استغفار کیا اور ان کے باطنی معاملہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا-حتیٰ کہ جب مَیں نے آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام پیش کیا تو آپ (ﷺ) مسکرائے جیسے کوئی ناراض مسکراتا ہے- آپ (ﷺ) نے فرمایا: آؤ- میں آکر آپ (ﷺ) کے سامنے بیٹھ گیا، آپ (ﷺ) نے فرمایا: تمہارے نہ آنے کی کیا وجہ ہے؟ کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! اللہ کی قسم! اگر میں آپ کے علاوہ کسی دنیا دار کے پاس بیٹھا ہوتا تو مجھے معلوم ہے کہ میں کوئی عذر پیش کر کے اس کی ناراضگی سے بچ جاتا، کیونکہ مجھے کلام پر قدرت عطا کی گئی ہے-
لیکن بخدا! مجھے معلوم ہے کہ اگر میں نے آج آپ (ﷺ) سے کوئی جھوٹی بات کہہ دی حتیٰ کہ آپ (ﷺ) اس سے راضی ہو بھی گئے تو عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گااور اگر میں آپ (ﷺ) سے سچی بات کہوں تو آپ (ﷺ) مجھ سے ناراض ہوں گے اور بے شک مجھ کو سچ میں اللہ تعالیٰ سے حسن عاقبت کی امید ہے-بخدا! میرا کوئی عذر نہیں تھا اور جس وقت میں آپ (ﷺ) کے پیچھے رہ گیا تھا تو مجھ سے زیادہ خوش حال کوئی نہیں تھا، رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بہر حال تم نے سچ بولا ہے-لہذا یہاں سے اٹھ جاؤ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ فرما دے-
میں وہاں سے اٹھا اور بنو سلمہ کے لوگ بھی اٹھ کر میرے پاس آئے، انہوں نے مجھ سے کہا: بخدا! ہم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گناہ کیا ہو، کیا تم سے نہیں ہو سکتا تھا کہ تم رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے اس قسم کا عذر پیش کرتے جس طرح دیگر نہ جانے والوں نے عذر پیش کیے تھے- تمہارے گناہ کیلئے رسول اللہ (ﷺ) کا تمہارے لئے استغفار کرنا کافی تھا-
حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ بخدا! وہ مجھ کو مسلسل ملامت کرتے رہے-حتیٰ کہ مَیں نے یہ ارادہ کیا میں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس دوبارہ جاؤں اور اپنے پہلے قول کی تکذیب کردوں-
پھر میں نے ان سے پوچھا کیا کسی اور کو بھی میرے جیسا معاملہ پیش آیا ہے-انہوں نے کہا دو اور شخصوں نے بھی تمہاری مثل کہا ہے ان سے بھی حضور (ﷺ) نے وہی فرمایا ہے جو تم سے فرمایا تھا-میں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا وہ مرارہ بن ربیعہ عامری اور ہلال بن امیہ واقفی ہیں-انہوں نے مجھ سے ان دو نیک شخصوں کا ذکر کیا جو غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے، وہ میرے لئے نمونہ (Ideal) تھے-جب ان لوگوں نے ان دو صاحبوں کا ذکر کیا تو میں اپنے پہلے خیال پر قائم رہا اور رسول اللہ (ﷺ) نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے گفتگو کرنے سے منع فرما دیا جو آپ (ﷺ) سے پیچھے رہ گئے تھے-
پھر مسلمانوں نے ہم سے اجتناب کر لیا اور ہمارے لئے اجنبی ہوگئے ، حتیٰ کہ زمین بھی میرے لئے اجنبی ہوگئی ، یہ وہ زمین تھی جس کو میں پہلے سے جانتا تھا، ہم لوگوں کو اسی حال پر 50 راتیں گزر گئیں، میرے دو ساتھی تو خانہ نشین ہوگئے تھے ، وہ اپنے گھروں میں ہی پڑے روتے رہتے تھے لیکن ان کی بہ نسبت میں جوان اور طاقتور تھا، میں باہر نکلتا تھا، نمازوں میں حاضر ہوتاتھا اور بازاروں میں گھومتا تھا، مجھ سے کوئی شخص بات نہیں کرتا تھا-میں رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں آتا اور نماز کے بعد جب آپ (ﷺ) اپنی نشست پر بیٹھتے تو میں آپ (ﷺ) کو سلام عرض کرتا اور میں اپنے دل میں سوچتا کہ آیا حضور (ﷺ) نے سلام کا جواب دینے کے لئے اپنے ہونٹ مبارک ہلائے یا نہیں-پھر میں آپ (ﷺ) کے قریب نماز پڑھتا اور نظریں چُرا کر آپ (ﷺ) کو دیکھتا، سو جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ (ﷺ) میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ (ﷺ) کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ (ﷺ) مجھ سے اعراض کرتے-
حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی بے رخی زیادہ بڑھ گئی تو میں ایک روز اپنے چچازاد حضرت ابو قتادہ ؓ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا، وہ مجھ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے، میں نے ان کو سلام کیا-بخدا انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا-میں نے ان سے کہا: اے ابوقتادہ ؓ ! میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم کو علم ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتا ہوں، وہ خاموش رہے-میں نے دوبارہ ان کو قسم دے کر سوال کیا، وہ پھر خاموش رہے-میں نے پھر ان کو قسم دی تو انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو زیادہ علم ہے-میری آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے، میں نے دیوار پھاندی اور واپس آگیا-
ایک دن میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا تو اہل شام کا ایک شخص مدینہ میں غلہ بیچنے کے لئے آیا تھا، وہ کہہ رہا تھا کہ کوئی ہے جو مجھے کعب بن مالک سے ملا دے-لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آیا اور اس نے مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا، میں چونکہ پڑھا لکھا تھا اس لئے میں نے اس کو پڑھا اس میں لکھا تھا:’’ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر ظلم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ذلت اور رسوائی کی جگہ میں رہنے کے لئے پیدا نہیں کیا-تم ہمارے پاس آجاؤ، ہم تمہاری دلجوئی کریں گے‘‘- میں نے جب یہ خط پڑھاتو میں نے کہا یہ بھی میرے لئے ایک آزمائش ہے، میں نے اس خط کو تنور میں پھینک کر جلا دیا-
حتیٰ کہ جب 50 میں سے 40 دن گزر گئے اور وحی رکی رہی تو ایک دن رسول اللہ (ﷺ) کا ایک قاصد میرے پاس آیا، اس نے کہا رسول اللہ (ﷺ) تم کو یہ حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ ہو جاؤ، میں نے پوچھا آیا میں اس کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا نہیں بلکہ تم اس سے علیحدہ ہو جاؤاور اس کے قریب نہ جاؤ-
حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے میرے دو ساتھیوں کے لئے بھی یہی حکم بھیجا-پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی حکم نازل فرمائے-
حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ: پھر حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا: یارسول اللہ (ﷺ)! بے شک حضرت ہلال بہت بوڑھے ہیں اور ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہے-کیا آپ اس کو ناپسند کرتے ہیں کہ میں ان کی خدمت کروں-آپ (ﷺ) نے فرمایا نہیں لیکن وہ تم سے مقاربت نہ کرے- ان کی بیوی نے عرض کیا: بخدا! وہ تو کسی چیز کی طرف حرکت بھی نہیں کرسکتے اور جب سے یہ معاملہ ہوا ہے بخدا! وہ اس دن سے مسلسل روتے رہتے ہیں-
مجھ سے میرےبعض گھروالوں نے کہا تم بھی رسول اللہ (ﷺ) سے اسی طرح کی اجازت لے لو، کیونکہ رسول اللہ(ﷺ) نے حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی کو ان کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی ہے-میں نے کہا : میں اس معاملے میں رسول اللہ (ﷺ) سے اجازت نہیں لوں گا، مجھے پتا نہیں کہ اگر میں نے اجازت طلب کی تو رسول اللہ (ﷺ) اس معاملہ میں کیا فرمائیں گےاور میں ایک جوان شخص ہوں- پھر میں اسی حال پر دس راتیں ٹھہرا رہا، پھر جب سے رسول اللہ (ﷺ) نے ہم سے گفتگو کی ممانعت کی تھی، اس کو 50 دن گزر چکے تھے-
حضرت کعب کہتے ہیں کہ50 روز کے بعد ایک صبح کو میں اپنے گھر کی چھت پر صبح کی نماز پڑھ رہا تھا،اورمیں اسی حال میں بیٹھا ہوا تھا جس کا اللہ عزوجل نے ہمارے متعلق ذکر کیا ہے کہ مجھ پر میرا نفس تنگ ہوگیا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی تو اچانک میں نے سلع پہاڑ کی چوٹی سے ایک چلانے والے کی آواز سنی، جو بلند آواز سے کہہ رہا تھا، اے کعب بن مالک! بشارت ہو (مبارک ہو) –
حضرت کعب بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ: میں اسی وقت سجدہ میں گرپڑا اور میں نے جان لیا کہ اب کشادگی ہو گئی-پھر رسول اللہ (ﷺ) نے صبح کی نماز پڑھنے کے بعد لوگوں میں اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے-پھر لوگ آکر ہم کو مبارک باد دیتے تھے -پھر میرے ان دو ساتھیوں کی طرف لوگ مبارک باد دینے کیلئے گئے-
ایک شخص گھوڑا دوڑاتا ہوا میری طرف روانہ ہوا اور قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے پہاڑ پر چڑھ کر بلند آواز سے مجھے ندا کی اور اس کی آواز گھڑسوار کے پہنچنے سے پہلے مجھ تک پہنچی- جب میرے پاس وہ شخص آیا جس کی بشارت کی آواز میں نے سنی تھی، میں نے اپنے کپڑے اتار کر اس شخص کو پہنادیے-بخدا! اس وقت میرے پاس ان کپڑوں کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی اور میں نے کسی سے عاریۃً کپڑے لے کر پہنے-
پھر میں رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہونے کے قصد سے روانہ ہوا، ادھر میری توبہ قبول ہونے پر فوج در فوج لوگ مجھ کو مبارک باد دینے کے لئے آرہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ قبول کرنا مبارک ہو-جب میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ (ﷺ) مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ(ﷺ) کے اردگرد صحابہ کرام بیٹھے ؓ تھے، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ جلدی سے اٹھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی-بخدا! مہاجرین میں سے ان کے علاوہ اور کوئی نہیں اٹھا تھا، حضرت کعب ؓ ، حضرت طلحہ ؓ کو نہیں بھولتے تھے-
حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو سلام کیا تو خوشی سے آپ (ﷺ) کا چہرہ چمک رہا تھا اور آپ (ﷺ) فرما رہے تھے مبارک ہو، جب سے تم کو تمہاری ماں نےجنا ہے، اس سے زیادہ اچھا دن تمہارے لئے نہیں آیا-میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ) ! یہ (قبولیتِ توبہ) آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، آپ (ﷺ) نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جب رسول اللہ (ﷺ) خوش ہوتے تھے تو آپ (ﷺ) کا چہرہ اس طرح منور ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہو-
حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ ہم اس علامت کو پہچانتے تھے-انہوں نے فرمایا کہ جب میں آقا کریم (ﷺ) کے سامنے بیٹھاتو میں نےعرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! میں اپنی توبہ کی خوشی میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں -رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: اپنے لئے کچھ مال کو رکھ لو وہ تمہارے لئے بہتر ہے-میں نے عرض کیا: میں اپنے اس مال کو رکھ لیتا ہوں جو خیبر میں ہے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ)! اللہ تعالیٰ نے مجھے صدق کی وجہ سے نجات دی ہے اور اب میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنی باقی زندگی میں ہمیشہ سچ بولوں گا-
حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ بخدا! مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں میں سے کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی وجہ سے اس طرح سزا میں مبتلا کیا ہو اور جب سے میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس بات کا ذکر کیا تھا اس وقت سے لے کر آج تک میں نےجھوٹ نہیں بولا، اور آئندہ کے لئے بھی مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا-تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں:
’’لَقَدْ تَّابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْۢ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ طاِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘[1]
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی، مہاجرین اور انصار پر رحمت کے ساتھ رجوع کیا جنہوں نے سختی کے وقت نبی کا ساتھ دیا-اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل اپنی جگہ سے ہل جائیں -پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی بے شک وہ ان پر نہایت مہربان بے حد رحم فرمانے والا ہے‘‘-
’’وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ط حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ط ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا ط اِنَّ اللہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ‘‘[2]
’’اور اس نے ان تین شخصوں کی توبہ (بھی) قبول فرمائی جن کا معاملہ موخر کردیا گیا تھا حتیٰ کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور خود ان کی جانیں بھی ان پر تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یہ یقین کرلیا کہ اللہ کے سوا ان کی کوئی جائے پناہ نہیں ہے پھر ان کی توبہ قبول فرمائی تاکہ وہ توبہ پر قائم رہیں بیشک اللہ بہت توبہ قبول فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘-
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘[3]
’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور (ہمیشہ) سچوں کے ساتھ رہو‘‘-
حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت اسلام کی نعمت دی ہے اس وقت سے لے کر اللہ تعالیٰ نے میرے نزدیک مجھے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں دی کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سچ بولا کیونکہ میں نے آپ (ﷺ) سے جھوٹ بولا ہوتا تو میں بھی اسی طرح ہلاک ہو جاتا جس طرح وہ لوگ ہلاک ہوگئے جنہوں نے جھوٹ بولا تھا-جب اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی تو جتنی ان جھوٹوں کی مذمت فرمائی کسی اورکی اتنی مذمت نہیں فرمائی-جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’سَیَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَکُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْہُمْ ط فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمْ ط اِنَّہُمْ رِجْسٌ ز وَّمَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ‘‘[4]
’’جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان (کی بد اعمالیوں) سے اپنی توجہ ہٹائے رکھو-تو تم ان کی طرف التفات نہ کرو-بے شک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ ان کے کاموں کی سز اہے‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا
’’یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ ج فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْہُمْ فَاِنَّ اللہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ‘‘[5]
’’وہ تم کو راضی کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے سو اگر تم ان سےراضی ہو(بھی)جاؤ-تو بے شک اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں سے راضی نہیں ہوگا‘‘-
حضرت کعب ؓ نے فرمایا کہ ہم لوگوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کر دیا گیا تھا جن لوگوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے قسمیں کھائیں تھیں تو رسول اللہ (ﷺ) نے ان کا عذر قبول کر لیا تھا،اوران سے بیعت بھی لی تھی، اور ان کے لئے استغفار کیا تھا- رسول اللہ (ﷺ) نے ہمارے معاملہ کو مؤخر کر دیا تھاحتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کا فیصلہ کر دیا-جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ‘‘
’’اور اس نے ان تین شخصوں کی توبہ (بھی) قبول فرمائی جن کا معاملہ موخر کردیا گیا تھا -
اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غزوہ تبوک میں جو پیچھے رہ گئے تھے اس کا ذکر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قسم کھانے والوں کی بہ نسبت ہمارے معاملہ کو مؤخر کیا گیا تھا -[6]
(سلام ان پاکیزہ روحوں پر جن کو اللہ پاک نے سچ کے ساتھ خاص فرما دیا-)
٭٭٭
[1](التوبہ:117)
[2](التوبہ:118)
[3](التوبہ:119)
[4](التوبہ:95)
[5](التوبہ:96)
[6](صحیح مسلم، کتاب التوبہ)