انسانی مزاج کی کئی پرتیں اور جہتیں ہیں، یہ ایک ایسا مرکب ہے جس میں بہت سے عناصر شامل ہیں-ان عناصر کا تجزیہ ماہرین اپنی اپنی مہارت کی روشنی میں کر کےنتیجہ اخذ کرتے ہیں-کبھی انسان کو متشدد بتایا جاتا ہے،کبھی ہونہار، کبھی امن پسند اور صلح جو، تو کبھی جھگڑالو و غاصب، کئی نیک و پارسا اور کبھی اعلیٰ و ارفع-یہ تمام رویے انسانی نفسیات کا اظہار ہیں،اگر ہم غور کریں تو انسان دو طرح کے عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے ایک خیر اور دوسرا شر-کچھ چیزیں خیر کا اظہار ہوتی ہیں اور کچھ شر سے جنم لیتی ہیں، خیر اور شر کی تعریف انسانی نقطہ ہائے نظر کی روشنی میں مختلف ہو سکتی ہیں یعنی ایک انسان جس چیز کو خیر سمجھتا ہے دوسرا بھی اسے خیر ہی سمجھے یہ ضروری نہیں-خیر اور شر دونوں طرح کا مادہ انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے اور بیک وقت پایا جاتا ہے-اگر خیر و شر کے انسانی پیمانے کو نظر میں رکھا جائے تو ہر انسان اپنے قول سے زیادہ اپنے افعال کی وضاحت پیش کر کے اپنے آپ کو دائرہ ِ خیر میں ثابت کرنے کی کوشش ضرور کرے گا کیونکہ انسان فطری طور پر کم از کم اپنے لئے خیر اور بھلائی کو پسند کرتا ہے-خیر و شر کو ماپنے کا سب سے بہترین ذریعہ اور پیمانہ وہ قوانین ہیں جو اللہ رب العزت نے انسان کو زندگی گزارنے کے لئے عطا کیے ہیں جن کا منبع قرآن و حدیث ہیں-اب جو اعمال و افعال اللہ رب العزت اور رسولِ خدا(ﷺ) کے احکامات کی بجا آواری میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف لے جائیں گے وہ خیر اور جو(معاذ اللہ) ان کی مخالفت یا نافرمانی کی صورت میں ہوکر ان سے دور لے جائیں گے، شر کہلائیں گے-
خیر و شر کے مابین ایک واضح اور دوٹوک لکیر کھینچ دی گئی ہے، جیساکے ہم دائیں طرف والے اعمال کو خیر سے اور بائیں طرف والوں کو شر سے منسوب کرتے ہیں یعنی دائیں طرف والے اعمال اللہ اور اس کے حبیب (ﷺ) کی طرف لے جانے والے ہیں اور بائیں طرف والے ان سے دور- اب کچھ اعمال اس واضح لکیر کے دونوں اطراف سے نزدیک ہیں، مثال کے طور پر ’’طلاق‘‘، طلاق ایک حلال اور جائز کام ہے لیکن خیر و شر کے مابین لکیر کے نزدیک ہے جسے دین نے نا پسند فرمایا ہے-اسی طرح ارادہِ گناہ شر کی علامت ہے لیکن اس ارادے سے باز آ جانا اور توبہ کر لینا انسان کو خیر کی طرف لے آ تا ہے-جیسے ایک انسان مسلمان، پھر اہل ایمان، پھر مومن، عارف معارف کے مراتب طے کرتا ہوا قربِ الہٰی میں فاصلہ کم سے کم کرکے قربِ خاص میں جگہ پاتا ہے اور ایک کافر، کفر اور منافقت سے مظہرِ شیطان تک پہنچ جاتا ہے-یعنی جتنا خیر و شر کے مابین لکیر یعنی سرحد سے فاصلہ برقرار رکھے گا تو اسی تناسب سے اللہ تعالیٰ سے قریب یا بعید ہونے کا فاصلہ بھی بڑھتا اور گھٹتا رہے گا-ایسے درجنوں اعمال ہیں جو کہ ان خیر و شر کے زمرہ میں آتے ہیں جن کی فہرست طویل ہے، آج کا موضوع ایک ایسا فعلِ بدہے، جو کسی بھی جگہ پائی جانے والی تمام برائیوں کی جڑ ہے- میری مراد ’’جھوٹ‘‘ سے ہے-
جھوٹ کیا ہے؟ چھوٹی سے چھوٹی غلط بیانی، بڑے سے بڑے فراڈ،سب جھوٹ ہے-سب سے بڑا جھوٹ اللہ رب العزت کے ساتھ ایسی بات منسوب کر کے کہنا جو اس نے کبھی نہ فرمائی ہو-اسی طرح حدیثِ رسول (ﷺ) کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ ایسی بات سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی جانب منسوب کرنا جو آپ نے نہ فرمائی ہو- قول و افعال کے جھوٹ یا جھوٹ کی جتنی بھی اقسام ہیں ان کو پہچاننے کے لئے ایک ایسا کلیہ اختیار کرنا چاہیئے جو اپنی ضد سے پہچانا جائے، جیسے سچ-تو سچ اور جھوٹ ایک دوسرے کی ضد ہیں، سچائی کے خلاف خبر پھیلانا، یعنی سچ جس کی اجازت نہ دے وہ کام سر انجام دینا جھوٹ ہے- جھوٹ ایسے ہی ہے جیسا کہ تمام برائیوں کو ایک عمارت میں بند کر کے تالا لگا دیا جائے، تو اس تالے کی چابی جھوٹ ہے-جب ہم جھوٹ بولتے ہیں اور معاشرے میں جھوٹ پروان چڑھتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس عمارت کا صدر دروازہ جھوٹ بولنے کے باعث کھل گیا ہو اور ان برائیوں نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو-
’’جھوٹ‘‘ نے ہمارے معاشرے کو اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ آج ہماری معاشرتی اقدار تباہی کے دہانے پر ہیں -جھوٹ کے باعث بہت سے خاندانی نظام تہہ تیغ ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں-چاہے ہم اساتذہ میں ہوں یا والدین میں، اہل علم و فضلیت بنے بیٹھے ہوں یا مبلغ، جھوٹ نے ہمارا احترام مٹی میں ملا دیا ہے-آج ہمارے معاشرے میں جھوٹ اتنا سرایت کر گیا ہے کہ جھوٹ بول کر احساس بھی نہیں ہو تا کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے-گو کہ اس ’’جھوٹ‘‘ کو خود جھوٹے سے جھوٹا بندہ بھی اپنے لئے نا پسند کرتا ہے-یعنی ایک جھوٹا آدمی جو خود مسلسل جھوٹ بولتا ہے، اگرکوئی دوسرا آدمی اپنا وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے اس سے بھی جھوٹ بول کر فراڈ کر جائے تو وہ جھوٹا آدمی بھی اس کو برا منائے گا اور ہر جگہ واویلا کرتا پھرے گا کہ میرے ساتھ فراڈ ہو گیا-اندازہ لگائیں!جھوٹ اتنی بری چیز ہے کہ خود جھوٹا شخص بھی اسے ناپسند کرتا ہے تو اللہ رب العزت کی ذات کتنا نا پسند کرتی ہوگی؟
فقط اس بات سے اندازہ کر لیں کہ ایک ماں اپنی اولاد پر کبھی بھی لعنت نہیں کرتی جبکہ اللہ تعالیٰ جو ستر ماؤں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے وہ جھوٹوں پر اپنی لعنت بھیجتا ہے-قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر جھوٹ کی مذمت میں آیات کا نزول ہوا جن میں جھوٹوں پر لعنت کے ساتھ ساتھ ان کو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے-
’’اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ‘‘[1] |
|
’’بے شک جھوٹی افترا پردازی (بھی) وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں‘‘- |
’’اِنَّ اللہَ لاَ یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّار‘‘[2] |
|
’’یقینا اﷲ اس شخص کو ہدایت نہیں فرماتا جو جھوٹا ہے، بڑا ناشکرگزار ہے‘‘- |
کبائر گناہ میں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی اور جھوٹ شامل ہیں- یعنی جھوٹ خیر و شر کے مابین سرحد سے شیطان کی جانب اور شر کی جانب نزدیک اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کی طرف سے بہت دور ہے-جھوٹ اتنا نقصان دہ اور برا فعل ہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) نے جھوٹ کا ذکر شرک کے ساتھ بیان فرمایا ہے-اب اگر جھوٹ اور سچ کا موازنہ کیا جائے تو حدیثِ رسول (ﷺ) ہےکہ:
’’حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ)بیان فرماتےہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق فجور(گناہ) کی طرف لگاتا ہے اور گناہ، آگ کی طرف لے جاتے ہیں- کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتا ہے حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے- سچائی اختیار کرو کیونکہ سچائی نیکی کی راہنمائی کرتی ہے اور نیکی یقیناًجنت کی طرف لے جاتی ہے- انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے‘‘-[3]
جھوٹ منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک ہے-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے‘‘[4]-
اب جھوٹ کو کامل طور پر سمجھنے کے لئے سچ کی بات کی جائے تو سچ ایک ایسی عظیم شے ہے جس کی بنیاد پر اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی شخصیت اور سیرت کی بنیاد کھڑی ہے-اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ(ﷺ) کا لقب صادق اور امین تھا-آپ (ﷺ) نے زندگی میں حق سچ کے علاوہ کچھ نہیں بولا اور اس بات کا اقرارآپ(ﷺ) کے دشمن بھی کرتے تھےاور برملا کرتے تھے-آپ(ﷺ) نے جب اہل قریش کو پہلی دعوت دی تو فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کی اوٹ میں دشمن کا لشکر کھڑا ہے تو کیا میری بات کو مانو گے، کسی کو جھٹلانے کی جرأت نہیں ہوئی-کیوں---؟ کیونکہ ان کے سامنے حضور(ﷺ) کی چالیس سالہ زندگی صدق بیانی پہ تحقیق شدہ تھی ،اس لئے ان سب نے کہا کہ ہم یقین کر لیں گے-
اسی طرح حضرت ابو سفیان(رضی اللہ عنہ) کے اسلام لانے سے پہلے جب روم کے بادشاہ نے آپ(ﷺ) کے متعلق سوال کیا کہ تم میں سے جس آدمی نے نبوت کا دعوی کیا ہے کیا اس نے کبھی جھوٹ بولا؟ تو آپ (رضی اللہ عنہ) کا جواب تھا کہ نہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا-تو جان لینا چاہیئے کہ سچ انبیاء کی وراثت و نشانی ہے، جبکہ جھوٹ و کذب، نبوت کا عدو بلکہ اس کی ضِد ہے-جب آپ (ﷺ) نے وصال فرمایا تو کئی شیاطین صفت لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا جن کو کذاب کہا جاتا تھا، کہا جاتا ہے اور ہمیشہ کذاب کہا جاتا رہے گا-جن کی سرکوبی کی گئی تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جھوٹ جہاں سچ کی ضد (الٹ) ہے وہیں نبوت کی ضد (الٹ) بھی ہے-
اس مختصر بیانیئے میں مقصد فقط اس امر کی طرف توجہ مبذول کروانا تھا کہ ہم جھوٹ سے اجتناب کریں-کیونکہ بحیثیت فرد جھوٹ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور اگر اس عمل کو مزید جاری رکھا گیا تو ہمیں مزید نقصان بھی اٹھانا پڑے گا-راقم نے کسی بھی طور پر افراد یا معاشرے کو اس فعل میں ملوث یا اس کا عادی شمار نہیں کیا بلکہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے کہ اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں اور اندازہ کر لیں کہ کیا ہم سچ پر مبنی معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں یا جھوٹ میں لتھڑے ہوئے معاشرے میں؟؟؟
جھوٹے اور سچے معاشرے کو پرکھنے کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ جھوٹے معاشرے میں سچ بولنا مشکل اور سچے معاشرے میں جھوٹ بولنا مشکل ہو گا -اگر ہم سچ پر مبنی معاشرے میں زندہ ہیں تو کیا ہی بات! اور اگر نہیں ہر طرف جھوٹ کا دور دورہ ہے تو آئیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ معاشرے میں موجود جھوٹ اور سچ میں ہماری طرف سے کتنا حصہ ہے؟ اگر ہمارا حصہ جھوٹ میں زیادہ ہے تو ہمیں اس کو مان لینا چاہیئے کہ ہم ایک جھوٹے معاشرے میں زندہ ہیں کیونکہ معاشرہ ہمارا ہی عکس ہوتا ہے-جھوٹے معاشرے کو سچے معاشرے میں تبدیل کرنے کا واحد حل فقط اور فقط سچ ہی ہے- اگر ہم سچا معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں سچ کے دامن کے ساتھ اپنے آپ کو باند ھ لینا ہو گا اوریاد رکھیئے کہ سچ بولنا انسان ہمیشہ سچے لوگوں کی صحبت سے ہی سیکھتا ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سچے لوگوں کے ساتھ شامل ہونے کا حکم فرمایا ہےکہ:
سچ ہمیں سچے لوگوں سے ملے گا- جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ‘‘[5] |
|
’’اور سچے لوگوں کےساتھ ہوجاؤ ‘‘- |
٭٭٭
[1](النحل:105)
[2](الزمر:3)
[3](سنن ابی داؤد، کتاب الادب)
[4](صحیح بخاری، حدیث:6095)
[5](التوبہ:119)
انسانی مزاج کی کئی پرتیں اور جہتیں ہیں، یہ ایک ایسا مرکب ہے جس میں بہت سے عناصر شامل ہیں-ان عناصر کا تجزیہ ماہرین اپنی اپنی مہارت کی روشنی میں کر کےنتیجہ اخذ کرتے ہیں-کبھی انسان کو متشدد بتایا جاتا ہے،کبھی ہونہار، کبھی امن پسند اور صلح جو، تو کبھی جھگڑالو و غاصب، کئی نیک و پارسا اور کبھی اعلیٰ و ارفع-یہ تمام رویے انسانی نفسیات کا اظہار ہیں،اگر ہم غور کریں تو انسان دو طرح کے عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے ایک خیر اور دوسرا شر-کچھ چیزیں خیر کا اظہار ہوتی ہیں اور کچھ شر سے جنم لیتی ہیں، خیر اور شر کی تعریف انسانی نقطہ ہائے نظر کی روشنی میں مختلف ہو سکتی ہیں یعنی ایک انسان جس چیز کو خیر سمجھتا ہے دوسرا بھی اسے خیر ہی سمجھے یہ ضروری نہیں-خیر اور شر دونوں طرح کا مادہ انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے اور بیک وقت پایا جاتا ہے-اگر خیر و شر کے انسانی پیمانے کو نظر میں رکھا جائے تو ہر انسان اپنے قول سے زیادہ اپنے افعال کی وضاحت پیش کر کے اپنے آپ کو دائرہ ِ خیر میں ثابت کرنے کی کوشش ضرور کرے گا کیونکہ انسان فطری طور پر کم از کم اپنے لئے خیر اور بھلائی کو پسند کرتا ہے-خیر و شر کو ماپنے کا سب سے بہترین ذریعہ اور پیمانہ وہ قوانین ہیں جو اللہ رب العزت نے انسان کو زندگی گزارنے کے لئے عطا کیے ہیں جن کا منبع قرآن و حدیث ہیں-اب جو اعمال و افعال اللہ رب العزت اور رسولِ خدا(ﷺ) کے احکامات کی بجا آواری میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف لے جائیں گے وہ خیر اور جو(معاذ اللہ) ان کی مخالفت یا نافرمانی کی صورت میں ہوکر ان سے دور لے جائیں گے، شر کہلائیں گے-
خیر و شر کے مابین ایک واضح اور دوٹوک لکیر کھینچ دی گئی ہے، جیساکے ہم دائیں طرف والے اعمال کو خیر سے اور بائیں طرف والوں کو شر سے منسوب کرتے ہیں یعنی دائیں طرف والے اعمال اللہ اور اس کے حبیب (ﷺ) کی طرف لے جانے والے ہیں اور بائیں طرف والے ان سے دور- اب کچھ اعمال اس واضح لکیر کے دونوں اطراف سے نزدیک ہیں، مثال کے طور پر ’’طلاق‘‘، طلاق ایک حلال اور جائز کام ہے لیکن خیر و شر کے مابین لکیر کے نزدیک ہے جسے دین نے نا پسند فرمایا ہے-اسی طرح ارادہِ گناہ شر کی علامت ہے لیکن اس ارادے سے باز آ جانا اور توبہ کر لینا انسان کو خیر کی طرف لے آ تا ہے-جیسے ایک انسان مسلمان، پھر اہل ایمان، پھر مومن، عارف معارف کے مراتب طے کرتا ہوا قربِ الہٰی میں فاصلہ کم سے کم کرکے قربِ خاص میں جگہ پاتا ہے اور ایک کافر، کفر اور منافقت سے مظہرِ شیطان تک پہنچ جاتا ہے-یعنی جتنا خیر و شر کے مابین لکیر یعنی سرحد سے فاصلہ برقرار رکھے گا تو اسی تناسب سے اللہ تعالیٰ سے قریب یا بعید ہونے کا فاصلہ بھی بڑھتا اور گھٹتا رہے گا-ایسے درجنوں اعمال ہیں جو کہ ان خیر و شر کے زمرہ میں آتے ہیں جن کی فہرست طویل ہے، آج کا موضوع ایک ایسا فعلِ بدہے، جو کسی بھی جگہ پائی جانے والی تمام برائیوں کی جڑ ہے- میری مراد ’’جھوٹ‘‘ سے ہے-
جھوٹ کیا ہے؟ چھوٹی سے چھوٹی غلط بیانی، بڑے سے بڑے فراڈ،سب جھوٹ ہے-سب سے بڑا جھوٹ اللہ رب العزت کے ساتھ ایسی بات منسوب کر کے کہنا جو اس نے کبھی نہ فرمائی ہو-اسی طرح حدیثِ رسول (ﷺ) کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ ایسی بات سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی جانب منسوب کرنا جو آپ نے نہ فرمائی ہو- قول و افعال کے جھوٹ یا جھوٹ کی جتنی بھی اقسام ہیں ان کو پہچاننے کے لئے ایک ایسا کلیہ اختیار کرنا چاہیئے جو اپنی ضد سے پہچانا جائے، جیسے سچ-تو سچ اور جھوٹ ایک دوسرے کی ضد ہیں، سچائی کے خلاف خبر پھیلانا، یعنی سچ جس کی اجازت نہ دے وہ کام سر انجام دینا جھوٹ ہے- جھوٹ ایسے ہی ہے جیسا کہ تمام برائیوں کو ایک عمارت میں بند کر کے تالا لگا دیا جائے، تو اس تالے کی چابی جھوٹ ہے-جب ہم جھوٹ بولتے ہیں اور معاشرے میں جھوٹ پروان چڑھتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس عمارت کا صدر دروازہ جھوٹ بولنے کے باعث کھل گیا ہو اور ان برائیوں نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہو-
’’جھوٹ‘‘ نے ہمارے معاشرے کو اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ آج ہماری معاشرتی اقدار تباہی کے دہانے پر ہیں -جھوٹ کے باعث بہت سے خاندانی نظام تہہ تیغ ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں-چاہے ہم اساتذہ میں ہوں یا والدین میں، اہل علم و فضلیت بنے بیٹھے ہوں یا مبلغ، جھوٹ نے ہمارا احترام مٹی میں ملا دیا ہے-آج ہمارے معاشرے میں جھوٹ اتنا سرایت کر گیا ہے کہ جھوٹ بول کر احساس بھی نہیں ہو تا کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے-گو کہ اس ’’جھوٹ‘‘ کو خود جھوٹے سے جھوٹا بندہ بھی اپنے لئے نا پسند کرتا ہے-یعنی ایک جھوٹا آدمی جو خود مسلسل جھوٹ بولتا ہے، اگرکوئی دوسرا آدمی اپنا وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے اس سے بھی جھوٹ بول کر فراڈ کر جائے تو وہ جھوٹا آدمی بھی اس کو برا منائے گا اور ہر جگہ واویلا کرتا پھرے گا کہ میرے ساتھ فراڈ ہو گیا-اندازہ لگائیں!جھوٹ اتنی بری چیز ہے کہ خود جھوٹا شخص بھی اسے ناپسند کرتا ہے تو اللہ رب العزت کی ذات کتنا نا پسند کرتی ہوگی؟
فقط اس بات سے اندازہ کر لیں کہ ایک ماں اپنی اولاد پر کبھی بھی لعنت نہیں کرتی جبکہ اللہ تعالیٰ جو ستر ماؤں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے وہ جھوٹوں پر اپنی لعنت بھیجتا ہے-قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر جھوٹ کی مذمت میں آیات کا نزول ہوا جن میں جھوٹوں پر لعنت کے ساتھ ساتھ ان کو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے-
’’اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ‘‘[1] |
|
’’بے شک جھوٹی افترا پردازی (بھی) وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں‘‘- |
’’اِنَّ اللہَ لاَ یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّار‘‘[2] |
|
’’یقینا اﷲ اس شخص کو ہدایت نہیں فرماتا جو جھوٹا ہے، بڑا ناشکرگزار ہے‘‘- |
کبائر گناہ میں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی اور جھوٹ شامل ہیں- یعنی جھوٹ خیر و شر کے مابین سرحد سے شیطان کی جانب اور شر کی جانب نزدیک اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کی طرف سے بہت دور ہے-جھوٹ اتنا نقصان دہ اور برا فعل ہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) نے جھوٹ کا ذکر شرک کے ساتھ بیان فرمایا ہے-اب اگر جھوٹ اور سچ کا موازنہ کیا جائے تو حدیثِ رسول (ﷺ) ہےکہ:
’’حضرت عبداللہ ابن مسعود ()بیان فرماتےہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق فجور(گناہ) کی طرف لگاتا ہے اور گناہ، آگ کی طرف لے جاتے ہیں- کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں مبالغہ کی حد تک پہنچ جاتا ہے حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے- سچائی اختیار کرو کیونکہ سچائی نیکی کی راہنمائی کرتی ہے اور نیکی یقیناًجنت کی طرف لے جاتی ہے- انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے‘‘-[3]
جھوٹ منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک ہے-حضرت ابوہریرہ ()سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے‘‘[4]-
اب جھوٹ کو کامل طور پر سمجھنے کے لئے سچ کی بات کی جائے تو سچ ایک ایسی عظیم شے ہے جس کی بنیاد پر اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی شخصیت اور سیرت کی بنیاد کھڑی ہے-اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ(ﷺ) کا لقب صادق اور امین تھا-آپ (ﷺ) نے زندگی میں حق سچ کے علاوہ کچھ نہیں بولا اور اس بات کا اقرارآپ(ﷺ) کے دشمن بھی کرتے تھےاور برملا کرتے تھے-آپ(ﷺ) نے جب اہل قریش کو پہلی دعوت دی تو فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کی اوٹ میں دشمن کا لشکر کھڑا ہے تو کیا میری بات کو مانو گے، کسی کو جھٹلانے کی جرأت نہیں ہوئی-کیوں---؟ کیونکہ ان کے سامنے حضور(ﷺ) کی چالیس سالہ زندگی صدق بیانی پہ تحقیق شدہ تھی ،اس لئے ان سب نے کہا کہ ہم یقین کر لیں گے-
اسی طرح حضرت ابو سفیان() کے اسلام لانے سے پہلے جب روم کے بادشاہ نے آپ(ﷺ) کے متعلق سوال کیا کہ تم میں سے جس آدمی نے نبوت کا دعوی کیا ہے کیا اس نے کبھی جھوٹ بولا؟ تو آپ () کا جواب تھا کہ نہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا-تو جان لینا چاہیئے کہ سچ انبیاء کی وراثت و نشانی ہے، جبکہ جھوٹ و کذب، نبوت کا عدو بلکہ اس کی ضِد ہے-جب آپ (ﷺ) نے وصال فرمایا تو کئی شیاطین صفت لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا جن کو کذاب کہا جاتا تھا، کہا جاتا ہے اور ہمیشہ کذاب کہا جاتا رہے گا-جن کی سرکوبی کی گئی تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جھوٹ جہاں سچ کی ضد (الٹ) ہے وہیں نبوت کی ضد (الٹ) بھی ہے-
اس مختصر بیانیئے میں مقصد فقط اس امر کی طرف توجہ مبذول کروانا تھا کہ ہم جھوٹ سے اجتناب کریں-کیونکہ بحیثیت فرد جھوٹ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور اگر اس عمل کو مزید جاری رکھا گیا تو ہمیں مزید نقصان بھی اٹھانا پڑے گا-راقم نے کسی بھی طور پر افراد یا معاشرے کو اس فعل میں ملوث یا اس کا عادی شمار نہیں کیا بلکہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے کہ اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں اور اندازہ کر لیں کہ کیا ہم سچ پر مبنی معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں یا جھوٹ میں لتھڑے ہوئے معاشرے میں؟؟؟
جھوٹے اور سچے معاشرے کو پرکھنے کا عمدہ طریقہ یہ ہے کہ جھوٹے معاشرے میں سچ بولنا مشکل اور سچے معاشرے میں جھوٹ بولنا مشکل ہو گا -اگر ہم سچ پر مبنی معاشرے میں زندہ ہیں تو کیا ہی بات! اور اگر نہیں ہر طرف جھوٹ کا دور دورہ ہے تو آئیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ معاشرے میں موجود جھوٹ اور سچ میں ہماری طرف سے کتنا حصہ ہے؟ اگر ہمارا حصہ جھوٹ میں زیادہ ہے تو ہمیں اس کو مان لینا چاہیئے کہ ہم ایک جھوٹے معاشرے میں زندہ ہیں کیونکہ معاشرہ ہمارا ہی عکس ہوتا ہے-جھوٹے معاشرے کو سچے معاشرے میں تبدیل کرنے کا واحد حل فقط اور فقط سچ ہی ہے- اگر ہم سچا معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں سچ کے دامن کے ساتھ اپنے آپ کو باند ھ لینا ہو گا اوریاد رکھیئے کہ سچ بولنا انسان ہمیشہ سچے لوگوں کی صحبت سے ہی سیکھتا ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سچے لوگوں کے ساتھ شامل ہونے کا حکم فرمایا ہےکہ:
سچ ہمیں سچے لوگوں سے ملے گا- جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ‘‘[5] |
|
’’اور سچے لوگوں کےساتھ ہوجاؤ ‘‘- |
٭٭٭