کیا کوئی ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کی لاش کی کھال کھینچ کر اس کا گوشت نوچ کر کھانے کی سکت رکھتا ہو - اگر جواب ’’ہا ں‘‘ہے تو مزید بات اس کے لئے بے معنی ہے اور اگر جواب ’’نہیں‘‘ہے تو جان لیں کہ شاید ہم ایسا دن میں کئی مرتبہ کرتے ہیں؛ مراد غیبت کرنے سے ہے- قرآن پاک میں ستارالعیوب نے بیان فرمایا ہے کہ :
’’وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ‘‘[1] |
|
’’ اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو ‘‘- |
غیبت کیا ہے ؟: کسی مسلمان کو ذلیل او رسوا کرنے کے لئے اس کی پیٹھ پیچھے اس کا وہ عیب بیان کرنا ، جو اس میں موجود ہو؛ یہ غیبت ہے، اور اگر اس کے متعلق ایسا عیب بیان کیا جائے جو اس میں موجود نہ ہو تو وہ بہتان ہے-
’’حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ:
’’ رسول اللہ(ﷺ)نے پوچھا:کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں- آپ (ﷺ)نے فرمایا: تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے کہ اس کو برا محسوس ہو-عرض کیا گیا کہ حضور کا کیا خیال ہے، اگر میرے بھائی میں واقعی وہ برائی موجود ہو- فرمایا: اگر اس میں وہ برائی موجود ہو جس کا تو ذکر کر رہا ہے تو تُو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں جس کا تُو نے ذکر کیاہے تو تُو نے اس پر بہتان لگایا‘‘[2]-
حضرت ماعز اسلمی (رضی اللہ عنہ) ( جن کو اعترافِ زناکے بعد رجم کر دیا گیا تھا) کے اصحاب میں سے دو شخص نبی ِ رحمت(ﷺ) کے پاس آئے اور ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ :
’’دیکھو اس شخص (حضرت ماعز اسلمی (رضی اللہ عنہ) پر اللہ پاک نے پردہ رکھا تھا لیکن اس نے اپنی جان خود نہیں بخشی، حتی کہ اسے کتے کی طرح سنگسار کر دیا گیا ، حضور پاک (ﷺ) نے دونوں کو کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپ(ﷺ) روانہ ہوئے حتی کہ ایک مردہ گدھے کے پاس سے گزرے، آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ فلاں فلاں کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں ہیں یا رسول اللہ(ﷺ)- آپ(ﷺ) نے فرمایا آؤ اور اس مردہ گدھے کو کھاؤ، انہوں نے کہا : یا نبی اللہ (ﷺ) اس کو کون کھائے گا ؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی عزت پامال کی وہ اس مردہ کھانے سے زیادہ سخت تھی- قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے ! وہ تواب جنت کے دریاؤں میں غوطے لگا رہا ہے‘‘-[3]
اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کی مثال مردار کھانے سے دی ہے، کیونکہ جس طرح مردار کا گوشت کھایا جائے تو اسے اس کا علم نہیں ہوتا ، کہ اس کا گوشت کھایا جا رہا ہے اسی طرح جس شخص کا پیٹھ پیچھے عیب بیان کیا جا رہا ہو اس کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اس کا عیب، پسِ پشت بیان کیا جا رہا ہے-اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پامال کرنا بھی گھناؤنا اور کریہہ عمل ہے، کسی مسلمان کی جب غیبت کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حلقہ احباب میں اس کو رسوا کیا جارہا ہے جس سے اس کی عزت گھٹ رہی ہے، جبکہ حضور اکرم(ﷺ) نے جس طرح ایک مسلمان کے جان و مال کو دوسروں پر حرام کیا ہے اسی طرح مسلمان کی عزت اچھالنے کو بھی حرام قرار دیا ہے-
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:
’’بے شک اللہ تعالی نے تمہاری جانوں کواور تمہارے مالوں کوا ور تمہاری عزتوں کو ایک دوسرے پر حرام کر دیا ہے جیسے آج کے دن، اس مہینہ میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے‘‘-[4]
نیز آیت مبارکہ میں مردہ بھائی کے گوشت کی فصیح مثال شاید اس لئے بھی دے دی گئی کہ ہمارے اذہان کو جنجھوڑنا مقصود تھا تاکہ ہم اپنے شعور، تحت الشعور اور لا شعور تک میں اس بات کو اس طرح راسخ کر لیں کہ غیبت جیسے کبیرہ گناہ سے دور رہیں- بقول اقبالؒ افسوس کہ:
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر |
حضور اکرم (ﷺ) نے غیبت کو سخت ناپسند فرمایا، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمارا مقصود دوسرے بھائی کی اصلاح کرنا ہے تو اُس کا بہتر طریقہ یہ نہیں ہے کہ اُس کی پُشت پیچھے اُس کی عیب جوئی کر کے خود کو گناہگار کیا جائے-بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس کسی کو کسی دوسرے بھائی کی کوئی ادا یا حرکت و سکنت بُری لگتی ہے تو اُس بھائی کو لوگوں کے ہجوم سے الگ کریں اور پہلے معذرت کرتے ہوئے کہیں کہ اگر اُسے بُری لگے تو دِل میں رنجش نہ رکھے، اُس کے بعد اس کو اس کی ناپسندیدہ ادا یا حرکت و سکنت پہ مطلع کریں کہ ایسا نہ کیا جائے تو بہتر ہے-یہ تو ہے ایک درست طریقہ ، جبکہ کسی کو آگاہ کئے بغیر یا حتیٰ کہ کر کے بھی پیٹھ پیچھے غیبتیں نہیں کرنی چاہئیں -
غیبت کرنے پر عذاب الٰہی کی وعیدیں :
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اکرم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’جب مجھے معراج کروائی گئی تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن پیتل کے تھے اور وہ ان ناخنون سے اپنے چہرے اور سینے کو نوچ رہے تھے- میں نے پوچھا اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور اور ان کی عزتین پامال کرتے تھے‘‘[5]-
حضرت مستَوْرَد (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:
’’جس شخص نے کسی مسلمان کا گوشت کھایا - اللہ تعالی اس کو اتنی ہی دوزخ کی آگ کھلائے گا‘‘-[6]
’’آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں- تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو- یاد رکھو! اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے‘‘[7]-
حضرت ابو سعید اور حضرت ابو جابر (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:
’’غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)نے عرض کی، یا رسول اللہ (ﷺ) غیبت زنا سے سخت گناہ کیسے ہو گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ایک آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور غیبت کرنے والے کی مغفرت اس وقت تک نہیں ہوتی جس کی غیبت کی ہو جب تک وہ اس کو معاف نہ کردے‘‘[8]-
غیبت کا کفارہ :
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ:
’’ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لئے استغفار کرو جس کی غیبت کی ہے‘‘[9] -
عبداللہ بن مبارک نے کہا:
’’جب کوئی شخص کسی کی غیبت کرے تو اس کو نہ بتائے لیکن اللہ سے استغفار کرے‘‘[10]-
کچھ صورتوں میں عیب بیان کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں آتا جیسا کہ شعبہ نے کہا کہ:
’’ شکایت کرنے کے لیے اور لوگوں کو ضرر سے بچانے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے‘‘[11]-
ابن عیینہ نے کہا:
’’تین صورتوں میں عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے (1) ظالم حکمران (2) جو شخص لوگوں کے سامنے اللہ کی نافرمانی کرتا ہو اور ( 3) وہ بدعتی جو لوگوں کو اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہو ‘‘[12]-
اس ضمن میں احادیث و اکابرین کے اقوال بہت زیادہ ہیں لیکن مقصود صرف یاد دہانی ہے کہ غیبت سے بچا جائے- ہم چاہتے نہ چاہتے، جانے انجانے میں اس موذی مرض میں مبتلا ہیں اور گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن اس سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں ہم اپنا نقصان کر تے ہوئے رضائے الہی و رضائے مصطفےٰ (ﷺ) سے دوری اختیار کر رہے ہیں- ہمیں اپنی زبان اور اپنے الفاظ کا محاسبہ کرنا ہو گا، ان پر قید لگانی ہو گی، تاکہ ہم اس گناہ سے بچ سکیں- غیبت کی واضح مذمت کے باوجود ہم لوگ اس قبیح فعل میں بڑی تعداد میں، بری طرح ملوث ہیں- اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں- ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے یا جو بات (غیبت) وہ کر رہے ہیں اس کو غیبت کے زمرے میں گردانتے ہی نہیں اور یہ فرق کرنے سے قاصر ہیں کہ غیبت کیا ہے - کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غیبت کو گناہ سمجھتے ہیں اور اس کی نوعیت سے بھی واقف ہیں لیکن تربیت کی کمی یا کسی دوسری وجہ کے باعث اسے چھوڑنے سے معذور ہیں - زیرِ نظر گزارشات کا مقصد فقط یہ ہے کہ اپنے اندر غیبت سے متعلق حساسیت کا شعور پیدا کر کے رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر اس مرض سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی جائے-
٭٭٭
[1](الحجرات:12)
[2]( صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2589)
[3](سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:4428)
[4]( صحیح بخاری، رقم الحدیث:1742)
[5]( سنن ابی داؤد، رقم الحدیث : 4878)
[6]( سنن ابی داؤد، رقم الحدیث : 4881)
[7](سنن ابی داؤد، کتاب الادب)
[8](مشکوٰۃ شریف، رقم الحدیث:4874)
[9](شعب الایمان، رقم الحدیث:6368)
[10](شعب الایمان، رقم الحدیث:6366)
[11](شعب الایمان، رقم الحدیث:6372)
[12](شعب الایمان، رقم الحدیث:6374)
کیا کوئی ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کی لاش کی کھال کھینچ کر اس کا گوشت نوچ کر کھانے کی سکت رکھتا ہو - اگر جواب ’’ہا ں‘‘ہے تو مزید بات اس کے لئے بے معنی ہے اور اگر جواب ’’نہیں‘‘ہے تو جان لیں کہ شاید ہم ایسا دن میں کئی مرتبہ کرتے ہیں؛ مراد غیبت کرنے سے ہے- قرآن پاک میں ستارالعیوب نے بیان فرمایا ہے کہ :
’’وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ‘‘[1] |
|
’’ اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو ‘‘- |
غیبت کیا ہے ؟: کسی مسلمان کو ذلیل او رسوا کرنے کے لئے اس کی پیٹھ پیچھے اس کا وہ عیب بیان کرنا ، جو اس میں موجود ہو؛ یہ غیبت ہے، اور اگر اس کے متعلق ایسا عیب بیان کیا جائے جو اس میں موجود نہ ہو تو وہ بہتان ہے-
’’حضرت ابو ہریرہ ()سے روایت ہے کہ:
’’ رسول اللہ(ﷺ)نے پوچھا:کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں- آپ (ﷺ)نے فرمایا: تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے کہ اس کو برا محسوس ہو-عرض کیا گیا کہ حضور کا کیا خیال ہے، اگر میرے بھائی میں واقعی وہ برائی موجود ہو- فرمایا: اگر اس میں وہ برائی موجود ہو جس کا تو ذکر کر رہا ہے تو تُو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں جس کا تُو نے ذکر کیاہے تو تُو نے اس پر بہتان لگایا‘‘[2]-
حضرت ماعز اسلمی () ( جن کو اعترافِ زناکے بعد رجم کر دیا گیا تھا) کے اصحاب میں سے دو شخص نبی ِ رحمت(ﷺ) کے پاس آئے اور ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ :
’’دیکھو اس شخص (حضرت ماعز اسلمی ( ) پر اللہ پاک نے پردہ رکھا تھا لیکن اس نے اپنی جان خود نہیں بخشی، حتی کہ اسے کتے کی طرح سنگسار کر دیا گیا ، حضور پاک (ﷺ) نے دونوں کو کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپ(ﷺ) روانہ ہوئے حتی کہ ایک مردہ گدھے کے پاس سے گزرے، آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ فلاں فلاں کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں ہیں یا رسول اللہ(ﷺ)- آپ(ﷺ) نے فرمایا آؤ اور اس مردہ گدھے کو کھاؤ، انہوں نے کہا : یا نبی اللہ (ﷺ) اس کو کون کھائے گا ؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ ابھی جو تم نے اپنے بھائی کی عزت پامال کی وہ اس مردہ کھانے سے زیادہ سخت تھی- قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے ! وہ تواب جنت کے دریاؤں میں غوطے لگا رہا ہے‘‘-[3]
اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کی مثال مردار کھانے سے دی ہے، کیونکہ جس طرح مردار کا گوشت کھایا جائے تو اسے اس کا علم نہیں ہوتا ، کہ اس کا گوشت کھایا جا رہا ہے اسی طرح جس شخص کا پیٹھ پیچھے عیب بیان کیا جا رہا ہو اس کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اس کا عیب، پسِ پشت بیان کیا جا رہا ہے-اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پامال کرنا بھی گھناؤنا اور کریہہ عمل ہے، کسی مسلمان کی جب غیبت کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حلقہ احباب میں اس کو رسوا کیا جارہا ہے جس سے اس کی عزت گھٹ رہی ہے، جبکہ حضور اکرم(ﷺ) نے جس طرح ایک مسلمان کے جان و مال کو دوسروں پر حرام کیا ہے اسی طرح مسلمان کی عزت اچھالنے کو بھی حرام قرار دیا ہے-
حضرت عبداللہ بن عمر () سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:
’’بے شک اللہ تعالی نے تمہاری جانوں کواور تمہارے مالوں کوا ور تمہاری عزتوں کو ایک دوسرے پر حرام کر دیا ہے جیسے آج کے دن، اس مہینہ میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے‘‘-[4]
نیز آیت مبارکہ میں مردہ بھائی کے گوشت کی فصیح مثال شاید اس لئے بھی دے دی گئی کہ ہمارے اذہان کو جنجھوڑنا مقصود تھا تاکہ ہم اپنے شعور، تحت الشعور اور لا شعور تک میں اس بات کو اس طرح راسخ کر لیں کہ غیبت جیسے کبیرہ گناہ سے دور رہیں- بقول اقبال ()افسوس کہ:
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر |
حضور اکرم (ﷺ) نے غیبت کو سخت ناپسند فرمایا، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمارا مقصود دوسرے بھائی کی اصلاح کرنا ہے تو اُس کا بہتر طریقہ یہ نہیں ہے کہ اُس کی پُشت پیچھے اُس کی عیب جوئی کر کے خود کو گناہگار کیا جائے-بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس کسی کو کسی دوسرے بھائی کی کوئی ادا یا حرکت و سکنت بُری لگتی ہے تو اُس بھائی کو لوگوں کے ہجوم سے الگ کریں اور پہلے معذرت کرتے ہوئے کہیں کہ اگر اُسے بُری لگے تو دِل میں رنجش نہ رکھے، اُس کے بعد اس کو اس کی ناپسندیدہ ادا یا حرکت و سکنت پہ مطلع کریں کہ ایسا نہ کیا جائے تو بہتر ہے-یہ تو ہے ایک درست طریقہ ، جبکہ کسی کو آگاہ کئے بغیر یا حتیٰ کہ کر کے بھی پیٹھ پیچھے غیبتیں نہیں کرنی چاہئیں -
غیبت کرنے پر عذاب الٰہی کی وعیدیں :
حضرت انس بن مالک ()سے روایت ہے کہ رسول اکرم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’جب مجھے معراج کروائی گئی تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن پیتل کے تھے اور وہ ان ناخنون سے اپنے چہرے اور سینے کو نوچ رہے تھے- میں نے پوچھا اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور اور ان کی عزتین پامال کرتے تھے‘‘[5]-
حضرت مستَوْرَد ()بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:
’’جس شخص نے کسی مسلمان کا گوشت کھایا - اللہ تعالی اس کو اتنی ہی دوزخ کی آگ کھلائے گا‘‘-[6]
’’آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں- تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو- یاد رکھو! اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے‘‘[7]-
حضرت ابو سعید اور حضرت ابو جابر () بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:
’’غیبت زنا سے زیادہ سخت گناہ ہے، صحابہ کرام ()نے عرض کی، یا رسول اللہ (ﷺ) غیبت زنا سے سخت گناہ کیسے ہو گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ ایک آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور غیبت کرنے والے کی مغفرت اس وقت تک نہیں ہوتی جس کی غیبت کی ہو جب تک وہ اس کو معاف نہ کردے‘‘[8]-
غیبت کا کفارہ :
حضرت انس بن مالک () سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ:
’’ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لئے استغفار کرو جس کی غیبت کی ہے‘‘[9] -
عبداللہ بن مبارک نے کہا:
’’جب کوئی شخص کسی کی غیبت کرے تو اس کو نہ بتائے لیکن اللہ سے استغفار کرے‘‘[10]-
کچھ صورتوں میں عیب بیان کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں آتا جیسا کہ شعبہ نے کہا کہ:
’’ شکایت کرنے کے لیے اور لوگوں کو ضرر سے بچانے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے‘‘[11]-
ابن عیینہ نے کہا:
’’تین صورتوں میں عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے (1) ظالم حکمران (2) جو شخص لوگوں کے سامنے اللہ کی نافرمانی کرتا ہو اور ( 3) وہ بدعتی جو لوگوں کو اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہو ‘‘[12]-
اس ضمن میں احادیث و اکابرین کے اقوال بہت زیادہ ہیں لیکن مقصود صرف یاد دہانی ہے کہ غیبت سے بچا جائے- ہم چاہتے نہ چاہتے، جانے انجانے میں اس موذی مرض میں مبتلا ہیں اور گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن اس سے زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ اپنی روزمرہ کی گفتگو میں ہم اپنا نقصان کر تے ہوئے رضائے الہی و رضائے مصطفےٰ (ﷺ) سے دوری اختیار کر رہے ہیں- ہمیں اپنی زبان اور اپنے الفاظ کا محاسبہ کرنا ہو گا، ان پر قید لگانی ہو گی، تاکہ ہم اس گناہ سے بچ سکیں- غیبت کی واضح مذمت کے باوجود ہم لوگ اس قبیح فعل میں بڑی تعداد میں، بری طرح ملوث ہیں- اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں- ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے یا جو بات (غیبت) وہ کر رہے ہیں اس کو غیبت کے زمرے میں گردانتے ہی نہیں اور یہ فرق کرنے سے قاصر ہیں کہ غیبت کیا ہے - کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غیبت کو گناہ سمجھتے ہیں اور اس کی نوعیت سے بھی واقف ہیں لیکن تربیت کی کمی یا کسی دوسری وجہ کے باعث اسے چھوڑنے سے معذور ہیں - زیرِ نظر گزارشات کا مقصد فقط یہ ہے کہ اپنے اندر غیبت سے متعلق حساسیت کا شعور پیدا کر کے رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر اس مرض سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی جائے-
٭٭٭
[1](الحجرات:12)
[2]( صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2589)
[3](سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:4428)
[4]( صحیح بخاری، رقم الحدیث:1742)
[5]( سنن ابی داؤد، رقم الحدیث : 4878)
[6]( سنن ابی داؤد، رقم الحدیث : 4881)
[7](سنن ابی داؤد، کتاب الادب)
[8](مشکوٰۃ شریف، رقم الحدیث:4874)
[9](شعب الایمان، رقم الحدیث:6368)
[10](شعب الایمان، رقم الحدیث:6366)
[11](شعب الایمان، رقم الحدیث:6372)
[12](شعب الایمان، رقم الحدیث:6374)