صدیوں کے تسلسل کے ساتھ انسانی معاشرہ جس مضبوط بُنیاد پہ کھڑا ہے اُس کا بُنیادی ستون خاندان ہے- خاندان کی کئی اکائیاں ہیں جن میں ایک اہم اکائی رشتۂ ازدواج ہے جسے شادی کا بندھن بھی کہتے ہیں- دُنیا کے ہر خطے میں شادی کے موقع پر مخصوص رسو م و رواج کو پورا کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے اگر کسی بھی خطے میں ہونے والی شادی کے رسوم و رواج پورے نہ کے جائیں تو شادی کو ادھورا سمجھا جاتا ہے- شادی کے کچھ لوازمات بہت ضروری ہیں جن کے ادا کرنے سے مذہبی طور پر شادی مکمل ہوتی ہے -
مثلاً: اِسلام میں نکاح یعنی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول، ہندوں کے ہاں ور مالا، منگل سوتر پہنانا اور آگ کو پاک اور پوتر مان کر اس کے گرد چکر لگانا، عیسائیوںکا چرچ جا کر پادری کے پیچھے شادی کے بندھن میں بندھنے کے لئے کلمات کو دہرانا جس میں ایک دوسرے کو میاں اور بیوی کے طور پر قبول کرنا وغیرہ شامل ہیں- ایسے ہی ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ ایسے لوازمات ضروری ہیں جن کی انجام دہی سے شادی مکمل ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوازمات بھی ہیں جو کہ مذہبی یا معاشرتی طور پر ضروری نہیں ہیں لیکن ان کی انجام دہی ان ضروری عوامل سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے کہ اگر ان کو ادا نہ کیا تو شادی مکمل نہیں ہو گی-
اگر ہم پاکستانی معاشرے کی بات کریں تو یہاں جو بے مقصد رسومات خاص طور پر انجام دی جاتی ہیں ان میں تیل، مہندی، مایوں، جوتی اترائی، پلّو پکڑائی خاص طور پر قابل ذکر ہیں- اس کے ساتھ ساتھ وافر، غیر ضروری اور ناقابلِ برداشت جہیز کا دینا- اگر غور کیا جائے تو ان رسومات کے بغیر بھی شادی کی انجام دہی ممکن ہے لیکن افسوس کہ اب ان کے بنائ ۹۹ فیصد شادیاں نہیں ہوتیں چاہے قرض لے کر ہی ان رسومات کو ادا کیا جائے، لیکن کیا ضرور جاتا ہے-
بحیثیت مسلمان ہمیں شادی یا نکاح کو آسان سے آسان تر بنانا چاہیے کیونکہ نبی آخر الزاماں ﴿w﴾ کا حکم اور اسلام کی منشائ بھی یہی ہے- لیکن معاشرہ اس برائی میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ ان غیر ضروری اور بے جا اصراف سے بھر پور رسومات کی ادائیگی کے بغیر شادی ہونا ممکن نہیں ہوتی اگر کوئی صاحب فہم و فراست ان رسومات کے خلاف آواز اٹھائے تو بہت سے غریب خاندان جو ان رسومات کی بجا آوری کی سکت نہیں رکھتے اور ایسے بہت سے باشعور افراد جو ان رسومات کو غیر ضروری سمجھتے ہیں وہ چاہنے کے باوجود بھی ان رسومات کی مخالف آواز میں اپنی آواز نہیں ملا سکتے- کیونکہ ان پر خاندان کی جانب سے دبائو اور برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی مجبوری کی بنا پر اس بے جا اصراف سے بھر پور رسومات کی انجام دہی کرنا پڑتی ہے- ان رسومات میں سے جہیز وہ رسم ہے جس پر اخراجات سب سے زیادہ اٹھنے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں عصرِ حاضر میں جہیز کی رسم انفرادی نہیں اجتماعی معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے-
جہیز کی شرعی حیثیت :
جہیز کوسنت قرار دینے کے لئے اکثر جس بات کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ سیدہ، طیبہ، طاہرہ، خاتونِ جنت ﴿k﴾ کے نکاح کے موقع پر سید ِکائنات ﴿w﴾ کا آپ ﴿k﴾ کو سامان عنائت کرنے کا واقعہ ہے- بعین ہی آپ ﴿w﴾ کی ازواجِ مطہرات ﴿l﴾ بھی اپنے ساتھ جہیز کے نام پر کوئی سامان نہیں لے آئیں ما سوائے اُم المومنین حضرت اُم حبیبہ ﴿k﴾ کے، جن کا نکاح سرور کونین ﴿w﴾ کے ساتھ حبشہ کے فرمانروا نے پڑھایا اور حضور اکرم ﴿w﴾ کی جانب سے مہر کی رقم ادا کرنے کے ساتھ حضرت اُم حبیبہ ﴿k﴾ کو حبشہ کی روایات کے مطابق سامان اور تحائف پیش کئے جس کو جہیز کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اسلام میں جہیز دینا یا لینا لازم ہے- نیز حضرت اُم حبیبہ ﴿k﴾ کامہر جو چارہزاردرہم تھا وہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے مقرر نہیںکیا تھا بلکہ نجاشی نے مقرر کیا تھا-
﴿سنن ترمذی، رقم الحدیث : ۷۱۱۱ - سنن ابوداوْد، رقم الحدیث : ۶۰۱۲ - سنن نِسائی، رقم الحدیث:۹۴۳۳- مسنداحمد، ج:۱، ص:۰۴، المستدرک ،ج:۲، ص:۲۷۱، جامع الاصول، رقم الحدیث:۲۸۹۴﴾
اسی طرح خاتون جنّت ﴿k﴾ اور حضرت علی المرتضیٰ ﴿h﴾ کے موقعۂ نکاح پر جو سامان دیا گیا اس کی روداد کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد حضرت علی ﴿h﴾ کی سر پرستی آنحضور ﴿w﴾ نے کی کیونکہ حضرت علی ﴿h﴾ آنحضور ﴿w﴾ کے زیر کفالت تھے لہذا ضروریات کو پورا کرنا بھی حضور ﴿w﴾ نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا- زیر کفالت ہونے کے باعث آپ ﴿w﴾ حضرت علی ﴿h﴾ کو اپنے ساتھ رکھتے اور ان کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے اور ہر طرح کی دیکھ بھال فرماتے یہاں تک کہ جب حضرت علی ﴿h﴾ جوان ہو گئے تو آپ ﴿w﴾ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح بھی حکم الہی کے تحت آپ ﴿h﴾ کے ساتھ کر دیا اور جب رخصتی کا وقت آیا تو بہ طور سر پرست ضروریات زندگی کے لئے چندچیدہ چیدہ اشیائ کا انتظام بھی آپ نے کیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ:-
’’ سید کائنات ﴿w﴾ نے حضرت علی ﴿h﴾ سے قبل از نکاح دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ ہے انہوں نے جواب دیا کہ ایک گھوڑا اور ایک زرہ میرے پاس مو جود ہے- آپ ﴿w﴾ نے فرمایا گھوڑا تو تمہارے لئے ضرورت کی بہت اہم چیز ہے البتہ ذرہ بیچ کر اس کی قیمت لے آئو- حضرت علی ﴿h﴾ نے اپنی ذرہ فروخت کر دی اور رقم لے کر آپ ﴿w﴾ کی خدمت میں حاضر ہوئے- آپ ﴿w﴾ نے حضرت بلال ﴿h﴾ اور حضرت انس ﴿h﴾ کی والدہ اُم سلیم ﴿k﴾ اور کو یہ رقم گھریلو ضروریات کے انتظام کے لئے کو عنایت کی‘‘- ﴿شرح امام زرقانی علی المواہب اللدنیہ﴾
ایک اور روایت میں آتا ہے:-
مجاہد بیان کرتے ہیںکہ حضرت علی ابنِ ابی طالب﴿h﴾ نے فرمایارسول اللہ ﴿w﴾ نے مجھے لوہے کی ایک زرہ عطا فرمائی تھی- آپ ﴿w﴾ نے اس زرہ کے عوض میرا حضرت فاطمہ(رض) سے نکاح کردیا اور فرمایا یہ زرہ فاطمہ کے پاس بھیج دو بہ خدا اس کی قیمت چار سو اور کچھ درہم تھی‘‘-
﴿مسند ابو یعلی رقم الحدیث :۹۹۴، مسنداحمد،ج:۱،ص:۰۸﴾
حضرت بلال ﴿h﴾ اور اُم سلیم ﴿k﴾ نے درج ذیل چیزیں، سونے کے لئے بان کی ایک چار پائی، کھجور کی پتیوں سے بھرا ہو اچمڑے کا گدا، پانی کے دو مشکیزے اور چکی کا انتظام کیا- یہی وہ کل سامان تھے جس کو آپ ﴿w﴾ نے حضرت علی ﴿h﴾ کی رقم سے انتظام فرمایا- اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ حضرت فاطمہ ﴿k﴾ کو جو اشیائ ِضرورت عطا کی گئیں وہ آپ ﴿w﴾ نے اپنی طرف سے نہیں دیں بلکہ زوجین کی وقتی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آنحضور ﴿w﴾ نے حضرت علی ﴿h﴾ ہی کی رقم سے اس کا انتظام فرمایا تھا اور کیوں نہ فرماتے جب کہ آپ ﴿w﴾ ہی دونوں طرف سے مربی اور بچپن سے پرورش کرتے چلے آرہے تھے-
اسلام دین فطرت ہونے کے باعث انسانوں کے لئے باعث رحمت اور آسانیاں پیدا کرنے والا ہے لیکن اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرے میں جہیز کی روایت کو سنت کے نام پر لازم نہیں قرار دیا جا سکتا، لیکن جہیز کو بالکل شرعی طور پر ناجائز بھی نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ ہر شادی کے موقع پر صورتحال مختلف ہوتی ہے اس کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے- موجودہ وقت میں صورتحال یہ ہے کہ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے سے پہلے عورت کی دیانتداری، حسن و جمال، اخلاق و سیرت اور علم و تقویٰ کے شرف و قرابت کو پس پُشت ڈال کر عقدِ نکاح میں اُس صنفِ نازک کو ترجیح دی جاتی ہے جہاں سے بے تحاشا جہیز کی صورت میں بے محنت مال ٹھال حاصل ہونے کی توقع ہو-
ایسا رشتہ جو مال و دولت کی بنائ پر وجود میں آئے یا جو رشتہ محض چند قیمتی اشیا کی بنیاد پر قائم ہوا ہو اس پر کیسے پیار اور محبت کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے؟ وہ تعلق جو کہ خالصتاً نفسیاتی و روحانی ہو اُس کی بنیاد محض مال ٹھال کے لالچ پر رکھنا کسی سمت سے درست نہیں- اس ضمن میں ہمارے اسلاف نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی، اس کا اندازہ ان کے قول و فعل سے ہوتا ہے جس کے مطابق امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:-
’’ یہ چیز نہایت مذموم ہے کہ مرد عورتوں کی دولت پر نظر رکھے اور زیادہ جہیز کی لالچ کریں، ایک اور جگہ فرمایا کہ نکاح، نکاح ہونا چاہیے نہ کہ تجارت و جوا‘‘-
﴿احیائ علوم، ج:۲، کتاب آداب نکاح ، ص:۶۵﴾
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:-
’’جب کوئی نکاح کرنے والا شخص یہ معلوم کرے کہ اس کی بیوی کیا لائی ہے ﴿جہیز کا سامان اور دولت﴾ تو یہ سمجھ لو کہ وہ شخص چور ہے‘‘-
﴿احیائ علوم، ج:۲، کتاب آداب نکاح ، ص:۶۵﴾
اَسلاف کے اقوال سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں جہیز کی نہ کوئی اصلیت ہے نہ حقیقت، بلکہ یہ معاشرے کے لئے ایک ناسور ہے جو معاشرے کو کھو کھلا کرتا چلا جا رہا ہے- کیونکہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو محبت اور شفقت کے اظہار کے لئے اشیائ ضرورت دیں اور بیٹی یا بہن خود بھی ماں باپ سے فرمائش کا پیدائشی حق ہے اگرچہ اس کو مطالبے کے وقت اپنے ماں باپ کی حیثیت کا خیال رکھنا چاہیے- یہ ایک الگ معاملہ ہے مگر یہ کہ ہونے والا داماد اور ان کے گھر والوں کو کہاں سے حق پہنچتا ہے کہ وہ لڑکی یا ان کے والدین سے جہیز طلب کریں یا کسی قسم کا نامناسب و ناروا سوال کریں-
یہ مہذب قسم کی بھیک ہے جس کو رسم و رواج کا لبادہ پہنا کر ہمارا معاشرہ قبول کر رہا ہے-
معاشرتی اثرات :
جہیز کسی نہ کسی صورت میں تقریبا تمام دنیا میں مختلف رسوم و رواج کے ساتھ موجود ہے- اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پرانی تہذیبوں میں بھی رسم جہیز کے شواہد ملتے ہیں- اسی طرح ماضی قریب میں چین، افریقہ اور امریکہ میں جہیز دینے کا کلچر صاف نظر آتا ہے- موجودہ دور میں امریکہ اور یورپ میں تو یہ رسم تقریباً متروک ہو چکی ہے لیکن جنوبی ایشیا، ایران، ترکی، افغانستان، سنٹرل ایشیا، مراکش وغیرہ میں ابھی بھی مختلف رسوم ورواج کے ساتھ جاری ہے- جہیز کہیں لڑکے والوں کی طرف سے دیا جاتا ہے اور کہیں لڑکی والوں کی طرف سے پاکستان میںدونوں روایات موجود ہیں لیکن ثانی الذکر کا چرچا زیادہ ہے- جہیز کے نام پر کی گئی ڈیمانڈ کو پورا کرتے غریب آدمی کی کمر دہری ہو جاتی ہے بعض اوقات جہیز نہ ہونے کی بنا پر غریب کی بیٹی کے سر میں چاندی واضح ہو جاتی ہے لیکن معاشرہ میں چھپے اس درد کا مداوا کرنے کو کوئی تیار نہیں-
ایشئین اکنامک اینڈ فنانشل ریویو کے مطابق کے مطابق ’’ 57.8%مڈل کلاس، لوئر کلاس16.8% اور ایلیٹ کلاس 25.5% جہیز لینے اور دینے کی پریکٹس میں مشغول ہے- پاکستان میں تقریبا 95.5% شادیوں میں جہیز کا لین دین کیا جاتا ہے‘‘- لیکن میرے ذاتی خیال میں یہ عدد پچانوے کی بجائے ننانوے ہونا چاہئے-
جہیز کی روایت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور جہیز میں دی جانے والی اشیائ میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے- اس کے ساتھ ساتھ ان اشیائ کی نمائش کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اہل محلہ اور رشتہ داروں کو بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ جہیز میں دیے جانے والے سامان کو دیکھ لیں اس کام میں عموما خواتین زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں اور نسبتا ً ان کا رجحان اور یاداشت گھریلو استعمال کی چیزوں اور کپڑوں کے پرنٹ اور کلر وغیرہ کے بارے میں تیز ہوتی ہے کہ کب، کہاں اور کس موقع پر کس نے کیا چیز لی یا پہنی تھی-
اس کو ذہن میں رکھ کر خواتین اپنی بیٹیوں کو یا لڑکیاں خود زیادہ جہیز کا مطالبہ کرتی ہیں کہ کم از کم فلاں سے تو زیادہ سامان ہونا چاہیے- آخر خاندان اور معاشرے میں ہماری عزت ہے اپنی ناک کو اونچا کرنا کے لئے بوڑھے باپ اور جوان بھائی کی کمر کتنی جھک رہی ہے جہیز کے مطالبے پورا کرنے کے لئے سود ی قرضے تک اٹھانے سے گریز نہیں کیا جاتا اور پھر ان سودی قرضوں کو ادا کرنے کے لئے عمریں بیت جاتی ہیں، لوگوں کو اپنے گھر گروی رکھنے پڑتے ہیں مگر یہ موذی عذاب پیچھا نہیں چھوڑتا-
وراثت اور جہیز :
جہیز لینے دینے کے معاملات میں صرف عورتوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اس شریکہ داری میں مرد حضرات بھی کسی سے کم نہیں ہوتے بلکہ شہ دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر اتنا جہیز فلاں نے دیا تھا تو ہم ان سے زیادہ دیں گے وغیرہ وغیرہ- اس کے ساتھ ساتھ وراثت جو کہ ایک شرعی حق ہے عورت کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے اس بنیادی اور ضروری بلکہ فرض عمل کی ادائیگی کے لئے نہ تو کوئی روایت بنی اور نہ ہی کوئی جذبہ جاگا بلکہ اگر کوئی شخص خشیت الٰہی کو مدنظر رکھ کر اپنی بیٹیوں بہنوں کو جائیداد میں حصہ دیتا ہے تو خاندان کے سب سیانے بشمول عورتیں اس کو سمجھانے پہنچ جاتے ہیں کہ بھائی یہ کیا کام کر رہے ہو، ایسا مت کرواپنے پاوں پر کلہاڑی مت مارو اور خاندان میں نئی روایات کی داغ بیل مت ڈالو-
اگر تمھیں زیادہ ہی شوق ہے عورتوں کو حصہ دینے کا تو جہیز کی مقدار میں اضافہ کر دینااس طرح جو تم نے وراثت میں دینا ہے وہ جہیز میں دے دو اس طرح جہیز آہستہ آہستہ وراثت کا نعم البدل بن گیا- پہلے تو بیٹی کے ذہن میں دوران تربیت سوشیالوجی کی اصطلاح میں ’’پدر سری‘‘ معاشرے کے اصول و ضوابط کے تحت یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اس نے جائیداد میں حصہ نہیں لینا لہذا وہ ’’اچھی بیٹی‘‘ بن کرخود ہی اپنے حصے سے دستبردار ہو جاتی ہے- دوسرے حصے میںاگر کوئی بیٹی یا بہن جرأت کر کے وراثت میں اپنا حصہ طلب کر ہی لے تو اس کا سوشل بائیکاٹ کردیا جاتا ہے - ساتھ ہی یاد کروایا جاتا ہے کہ شادی کو موقع پر تمھیں جو اتنا جہیز دیا گیا تھا وہ اسی لئے تھا کہ وراثت میں تمھارا حصہ نہیں ہو گا-
اس دبائو میں آ کروہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہو کر پھر ’’راہ راست‘‘ پر آجاتی ہے اور خاندان بھی اسے صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے کے مصداق معاف کر دیتا ہے- یوں اس سے تعلقات بحال ہو جاتے ہیں لیکن اتنی احتیاط البتہ ضرور برتی جاتی ہے کہ خاندان کی کم عمر لڑکیوں کو اس کی صحبت سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ ان کے دیدوں کا پانی خشک نہ ہو یعنی وہ وراثت میں اپنے حق کی بات نہ کریں- اس کے بعد بھی اگر کوئی بیٹی یا بہن نہ مانے اور حق وراثت کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کے لئے تیار ہو تو اس کو جائیداد میں حصہ تو مل جاتا ہے لیکن وہ اِس حق کو پانے کی کیا سزا پاتی ہے اور اُس بیچاری پہ کیا بیتتا ہے یہ وہی محسوس کر سکتی ہے- عموماً معاشرے میں یہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے-
اِس بہاؤ میں اچھے برے سب کو رگڑ دینا مناسب نہیں ہوگا، یہاں اُن نیک طینت اور با انصاف لوگوں کو ضرور خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہئے جو خاندان کے طعنے جھگڑے سہہ کر بھی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو لازماً حقِّ وراثت دیتے ہیں- شاید ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں اچھائی نام کی کوئی چیز موجود ہے- معاشرے کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ باقی لوگ بھی اُن سے سیکھ سکیں- کیونکہ جتنا زیادہ مثبت رویّہ کا پرچار کیا جائے گا لوگ اتنا زیادہ مثبت سوچ کو اختیار کریں گے-
لیکن یہاں یہ حقیقت ذہن سے نہیں نکالنی چاہئے کہ ایسے اچھے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے- یہ اندازہ اِ س امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کل زمین کی ملکیت کا صرف 1% حصہ خواتین کے نام ہے باقی خواتین کو یا تو وراثت میں حصہ سرے سے ملتا ہی نہیں یا جہیز کے نام پر ٹرخا دیا جاتا ہے-
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آ یا ہے کہ بوقت شادی جہیز طلب کیا جاتا ہے یا شادی کے کچھ عرصے کے بعد لڑکی کو اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دیا جاتا ہے کہ اگر اس گھر میں رہنا ہے تو اپنے والد سے فلاں فلاں چیز مانگو یہ بھی جہیز کی ہی ایک قسم ہے- اس مانگ کو اگر ہم ’’جبری بھیک‘‘ اور مانگنے والے کو ’’ غیرت سے ناآشنا بھکاری‘‘ کہیں تو بے جا نہ ہوگا-
جہیز نہ دینے کے نقصانات:
جہیز دینے سے جہاں معاشرے میں ایک ابتری کی سی صورتحال درپیش ہے اسی طرح جہالت کے باعث جہیز نہ دینے کے بھی چند نقصانات ہیں- سب سے پہلے تو جس لڑکی کو ماں باپ جہیز نہ دے سکیں اس کے اپنے دل میں اپنی نا قدری کا احساس جاگتا ہے، جذباتی طور پر وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق وہ خواتین جن کو ماضی میں اپنے ماں باپ سے جہیز نہیں ملا ہوتا وہ اپنی بیٹیوں کو زیادہ جہیز دینا چاہتی ہیں اس سے اپنے کمی کے احساس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں- جو لڑکیاں زیادہ جہیز کے ساتھ میکے سے سسرال رخصت ہوتی ہیں ان کو عموماً عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس جو لڑکیاں زیادہ جہیز کے ساتھ رخصت نہیں ہو پاتیں ان کو سسرال میں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے-
حتی کہ بہت سی خواتین ظلم سہتے سہتے اتنی تنگ پڑ جاتی کہ خود کشی کر بیٹھیں اور بہت سی خواتین کو قتل تک کروا دیا گیا- ایسے بہت سے کیس روزانہ کی بُنیاد پہ منظر عام پر آ تے رہتے ہیں اور رجسٹرڈ بھی ہو تے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن تک متعلقہ محکموں یا اداروں کی رسائی ممکن نہیں ہو سکی- پاکستان میں ہر سال تقریبا دو ہزار خواتین کم جہیز لانے کی وجہ سے موت کا سامنا کرتی ہیں-
(Subhani, D., Imtiaz, M., & Afza, S. (2009). To estimate an equation explaining the determinants of Dowry)
ملک میں ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے والدین اپنی بیٹیوں کی جان کی حفاظت کی خاطر بھی انہیں زیادہ جہیز دیتے ہیں-
اِسی طرح ایسے سفید پوش لوگ جن کی بیٹیوںکا رشتہ دولت مند خاندان میں رشتہ ہو جائے تو وہ اپنی عزت و سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے بھی زیادہ مقدار میں اور زیادہ قیمتی جہیز دیتے ہیں اُس کے لئے اُنہیں چاہے قرض لینا پڑے یا اپنی کوئی ملکیّت وغیرہ بیچنی پڑے-
اصلاح احوال اور جہیز سے نجات کے لئے تجاویز:
٭ فرمان ِ رسول ﴿w﴾ ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے- آج اگر ہم مغربی معاشروں کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں سے جہیز دینے اور ڈیمانڈ کرنے کی رسم اس طرح غائب ہوئی ہے کہ جیسے وہاں کبھی تھی ہی نہیں- ہماری ناقص رائے میں اس کی وجہ مغرب میں تعلیم کا عام ہونا ہے، سروے رپورٹس کے مطابق مغرب میں یونیورسٹیز اور لائبریریز کی تعداد ہمارے مقابل بہت زیادہ ہے اگر ہم ان کے اس اچھے چلن کو اپنا لیں تو حدیثِ رسول ﴿w﴾ کی روشنی میں بھی کوئی مضائقے والی بات نہیں-
لہٰذا اپنے معاشرے کو اس بیمار ذہنیت سے بچانے کے لئے ملک میں تعصبات اور دوہرے معیارات سے پاک تعلیم کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے- اس لئے اصلاحِ احوال کے لئے تعلیم کا عام ہونا لازم ہے تاکہ ہر آدمی خود داری کا سبق سیکھ لے اور اپنے پاوں پر خود کھڑا ہو اور کسی پر اضافی بوجھ نہ بنے، اپنے گھر کو خود بنائے اور سنوارے، نہ کہ کسی کی بہن، بیٹی کا شوہر ہونے کی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سسرال والوں کو بلیک میل کرے- مواخاتِ مدینہ کے موقعہ پہ انصاری صحابہ کرام نے مہاجرین صحابہ کرام ﴿رضوان اللہ علیہم اجمعین﴾ کو کیا کچھ پیش نہیں کیا تھا مگر اُنہوں نے کہا کہ :-
’’ہمیں بازار کی راہ دِکھاؤ، ہم اپنے ہاتھ سے محنت کر لیں گے‘‘-
٭ معاشرے سے جہیز سے خلاصی کے نیک اور بلند مقصد کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خانقاہی نظام اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ عام آدمی شیوخِ طریقت کی عزت و اکرام کرتے ہیں اور ان کی بات ماننا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں- لہٰذا خانقاہی نظام سے وابستہ افراد کو اس رسم کے خلاف پرزور تحریک چلانے کی ضرورت ہے- الحمد للہ دربار عالیہ سُلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو(رح) رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت خاص رکھنے والی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین اس تحریک کی داغ بیل ڈال چکی ہے اور اِس موضوع پہ بڑے پیمانے پہ انفرادی تربیّت کا اہتمام کیا گیا ہے-
٭ یہ ذمہ داری معاشرے کے ہر طبقہ کے افراد جن میں وکلائ ، علمائ، فنکار، صحافی اور اساتذہ وغیرہ شامل ہیں- ان کو جہیز کے خلاف مستقل بنیادوں پر تحریک چلانے کی ضرورت ہے چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر ہو یا بڑی سطح پر، معاشرے کو اس تحریک کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ہم جہیزکے عفریت سے جان چھڑا سکیں- صدیوں سے مروج اس بے جا رسم کے خاتمہ یقینا اتنی آسانی سے نہیں ہو گا لیکن اگر ہم اس کے خاتمے کے لئے خلوص کے ساتھ کمرِ ہمت باندھ لیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ مددِ خدا شامل نہ ہو اور اس طرح ہم کچھ عرصے میں اپنی آنے والی نسلوں کو اس بے جا رسم سے نجات دلا سکیں گے-
یاد رہے کہ جو لوگ بھی جہیز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ان کو وہ تمام پہلو مدنظر رکھنے ہوں گے جن کو بنیاد بنا کر جہیز نہ لے کر آنے والی لڑکیوں کو ذہنی اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے- ان باہمت لڑکوں اور ان کے خاندانوں کو اپنا دل کھلا اور ذہن وسیع کرنے ہوں گے اور ایسی بہادر خاتون جو جہیز نہ لا کر ایک نئی اور عمدہ مثال قائم کرنے چلے گی اس کی ہر سطح پر مدد کرنا ہو گی اور یقیناً اس کی روک تھام کا زیادہ اثر اِس بات میں ہو گا کہ لڑکے کے گھر والوں کی طرف سے جہیز نہ لینے کا اعلان و اعلام کیا جائے، کیونکہ قرینِ انصاف بھی یہی ہے- خاص کر معاشرے کے صاحبِ ثروت و خوشحال لوگ اگر اس کی روایت ڈالیں گے تو سفید پوش اور کم ثروت کے لوگوں کے لئے تقلید آسان ہو جائے گی-
٭ اگر جہیز کی بُرائی کو چھوڑ کر نکاح کو آسان نہ کر دیا گیا تو معاشرہ مزید بے راہروی کا شکار ہو جائے گا لہٰذا اسلامی جمہوریّہ پاکستان کی حکومتوں کو چاہیے کہ جہیز کی روک تھام کے لئے قوانین واضح کرے اور ان کا نفاذ بھی کرائے- حکومت کو معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے ایک خاص مؤثر سکیم کا اجرا کرنا چاہیے کہ جو ان معاشرتی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ان سے جڑی دوسری معاشرتی برائیوں کے تدارک کا کام سر انجام دیں-
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہیز ایک شہری کا ذاتی معاملہ ہے اِس لئے حکومت مداخلت نہیں کر سکتی- اُن کے لئے عرض ہے کہ شادی کا وقت اور طعام، یہ دونوں بھی تو شہریوں کے ذاتی معاملات ہیں مگر سنگل ڈش کا قانون اور رات دس بجے تک شادی کی تقریب بہر صورت ختم کرنے کا قانون بھی تو موجود ہیں اور حکومت شہریوں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے- لہٰذا اصلاحِ عوام اور نامعقول و فضول روایات و رسومات کے خاتمے کے لئے اگر حکومت ایسے معاملات میں مداخلت کرے گی تو اس سے عام شہریوں کا بھلا ہی ہو گا-
٭ صاحبان علم و شعور کو چاہیے کہ وہ جہیز اور جہیز جیسی دوسری بے جا رسموں کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ جہیز کی رسم پر اور اس ذہنیت پر کہ جس میں سمجھا جاتا ہے کہ جہیز کے بنا