ثقافتی جنگ اور جوانانِ اسلام کی ذمہ داریاں

ثقافتی جنگ اور جوانانِ اسلام کی ذمہ داریاں

ثقافتی جنگ اور جوانانِ اسلام کی ذمہ داریاں

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جون 2021

ہمارے اوپر ایک تہذیبی جنگ مسلط ہے- اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی مسائل قوموں میں رہتے ہیں جن کیلیے لڑنا پڑتا ہے- لیکن اُن سے بھی زیادہ باریک تہذیبی و تمدنی مسائل ہوتے ہیں جن کے ساتھ لڑنے کیلیے ایک متبادل ہتھیار اور سوچ کی ضرورت ہوتی ہے-مثلاًان چالیس پچاس سالوں میں جب ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کی، ذرائع ابلاغ عام ہو گئے تو کس طریقے سے ہمارے اسلامی تہذیب و تمدن کے اوپر مغربی اور بھارتی کلچر کی یلغار آن پڑی-لیکن افسوس! ہمارے پاس اس کی کوئی تیاری نہ تھی کہ ہم اپنے کلچر کا دفاع کر سکتے-آج جس طرح بے حیائی، فحاشی و عریانی کا طوفان ہمارے سروں پر مسلط ہے اور المیہ یہ ہے کہ اگر اس کے خلاف بات کی جائے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی بیکورڈ ( backward ) دنیا سے تعلق رکھتے ہیں-

یاد رکھیں! آج تک جو کچھ ہم نے دیکھا یہ ایک بڑے شر کا پیش خیمہ تھاجبکہ شر نے اِس کے بعد آنا ہے- یہ تو محض اُس شر کے لانے کے لئے میدان ہموار کیا گیا ہے کہ جس وقت وہ بڑا شر وقوع پذیر ہو اِس قوم میں تہذیبی طور پر اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ اس کی مخالفت و مذمت کر سکے-یعنی برائی کو برائی کہنے کی ہمت نہ ہو-

یاد رکھیں! کلچر قوموں کے عقائد سے پھوٹتا ہے اور کلچر پر سمجھوتہ کرنا اپنے عقیدے اور نظریہ پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے -مثال کے طور پر ابھی نیو ایئر کے موقع پر ایک مقتدر بین الاقوامی ادارے نے اپنے سال نو کے اہداف بیان کیے اور سال نو کے اہداف دیکھ کر عقل ٹھکانے آگئی کہ ہمارا ملک اب آنے والے ایک دو سالوں میں کس جانب دھکیلا جائے گا-

اس ادارے کے مطابق سال 2020 میں ان کے تین بڑے احداف ہیں :

  1. ہم جنس پرستی ( same sex marriage ) کو ساری دنیا میں لیگل کیا جائے گا؛ اس پر وہ یہ کہتے ہیں کہ  ہم نے 123ممالک میں لیگل کروالی ہے جبکہ 68ممالک رہتے ہیں ان میں بھی اس ایک سال میں ہم جنس پرستی كو لیگل کروانا ہے اور جو  ممالک رہتے  ہیں  ان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہے جبکہ ہندوستان  اسے لیگلی قبول کر چکا ہے-
  2. اسقاطِ حمل (abortion) کو لیگل کرنا
  3. سزائے موت  ( death penalty ) کو ختم کرنا-

ان میں سے ایک ایک مسئلے کو ڈسکس ( discuss ) کیا جا سکتا ہے لیکن اس پہلے چند معروضات بیان کرنا چاہوں گا-اپنے اردگرد کا جائزہ لیں کہ کس طرح INGOs اور بعض دیگر ممالک کے سفارت خانے اِس میں متحرک ہیں-مثلاًاس کی لابنگ (lobbying )، فنڈنگ ( funding )، اس پر رائے عامہ ہموار کرنے کیلیے خاص کر اردو زبان میں لٹریچر (literature)  ترتیب دلوایا جا رہا ہے، افسانے، ناول اور  کالم لکھوائے جا رہے ہیں، فلمیں بنائی جارہی ہیں اور اس برائی  کو بہت بڑے پیمانے پر پوری قوم میں پھیلایا جا رہا ہےتا کہ لوگوں کی ذہن سازی کی جائے اور لوگوں میں اس برائی کو برائی کہنے کا جذبہ ختم کیا جائے-

اس پر BBC اور کئی عالمی اداروں کی رپورٹس موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ پاکستان میں زیرِ زمین متحرک ہیں اور بین الاقوامی اداروں سے جو اس کو سپورٹ  کرتے ہیں ان سے رابطہ میں  ہیں -اب بظاہر انسان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر دنیا کے  123 ممالک اس کو قبول  کر چکے اور اگر ہم بھی اس کو قبول کر لیں تو ہمارے اوپر کیا قباحت لا حق ہو گی؟

خدارا! قرآنِ کریم اور سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے فرامین میں غوطہ زنی کریں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ہماری تہذیب و تمدن کو کس شرم و حیا کی اساس پہ استوار فرمایا-

امام طبرانی، امام ابو نعیم الاصفہانی اور امام بیہقیؒ نے سیدنا عبد اللہ ابن مسعودؓ کی روایت سے ایک طویل حدیث مبارک نقل فرمائی ہے-آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہوگا-

’’أَنْ يَكْتَفِيَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ،

ایک مرد دوسرے مرد پر اکتفاء کرے گا (یعنی زنا کرے گا) اور ایک عورت دوسری عورت پر اکتفاء کرے گی (یعنی عورت، عورت کے ساتھ زنا کرے  گی)‘‘-

یہ عالمی ادارے جو 2020 کے اپنے اہداف بتارہے ہیں کہ ہم جنس پرستی کو دنیا میں لیگل کیاجائے-جبکہ  آقا کریم (ﷺ) نے آج سے ساڑھے چودہ سو برس پہلے یہ فرما دیا کہ جب بے حیائی کے ایسے فتنے طلوع ہوں تو یاد رکھو یہ آثار قیامت میں سے ہوگا -

امام ابو عبد الله نعيم بن حماد المروزی (المتوفى: 228ھ) ’’کتاب الفتن‘‘ میں روایت کرتے ہیں :

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں  کہ :

’’لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَسَافَدَ النَّاسُ فِيْ الطُّرُقِ كَمَا يَتَسَافَدُ الدَّوَابُّ يَسْتَغْنِي الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ ‘‘

’’قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے سے راستوں میں جفتی ہوں گے(یعنی بدکاری کریں گے) جس طرح جانور ایک دوسرے سے جفتی ہوتے ہیں اور مرد مردوں کے ذریعے (شہوت  سے) مستغنی ہوں گے اور عورتیں  عورتوں کے ذریعے (شہوت سے) مستغنی ہونگی‘‘-

گویا آقا کریم (ﷺ) کے فرمان اقدس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے احترام انسانیت سے گر کے جانوروں، چوپایوں گدھوں، کتوں اور اس طرح کے باقی جانوروں کی اخلاقیات پرآ گرے گا اور اس کی نظر میں شرم و حیا،  پردہ و حجاب بیکار ہو گا- ہم جنس پرستی کو برائی نہ سمجھا جائے گا-

امام ترمذی، امام ابن ماجہ اور دیگر آئمہ کرامؒ نے حضرت جابرؓسے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ :

’’إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِىْ عَمَلُ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘

’’اپنی امت کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہےوہ قومِ لوط کا عمل ہے (یعنی ہم جنس پرستی) ‘‘-

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

وَلَعَنَ اللهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ

اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی جنہوں نے قومِ لوط والا عمل کیا

وَلَعَنَ اللهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ

اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی جنہوں نے قومِ لوط والا عمل کیا

وَلَعَنَ اللهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ ‘‘[1]

اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی جنہوں نے قومِ لوط والا عمل کیا‘‘-

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَلْعُوْنٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘[2]

’’ملعون ہے ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جس نے قومِ لوط  والا عمل کیا‘‘-

اگر ہم قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں جھانک کر دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے کی کوئی ایسی بات نہ تھی جو رسول اللہ (ﷺ) کی نگاہ مبارک سے پوشیدہ ہو- ایک ایک بات اورہر ایک فتنہ کو میرے نبی کریم (ﷺ)   نے اپنی امت کی رہنمائی کے لیے بتا دیا -

اسلامی عقیدہ کے اس پہلو کو کتاب اور سنت سے بیان کرنے کا مدعا یہ تھا کہ ہم اپنی ثقافتی اقدار ( cultural value ) کو جانیں کہ ہماری تہذیب و ثقافت کیا ہے؟ ہماری تہذیب کے اجزاء کیا ہیں؟ جس تہذیب کی بنیاد پر ہم قوم ایک کہلاتے ہیں!!!

دنیا میں اقوام کو کن باتوں سے الگ قوم شمار کیا جاتا ہے؟ اس پر کئی تھیوریز (theories) ہیں بعض نظریہ سازوں (theorists ) نے چار اور بعض نے چھ اجزائے ترکیبی بتائے ہیں جن کے جمع ہونے سے ایک قوم بنتی ہے- وہ چھ اجزاء درج ذیل ہیں:

  1. مشترکہ علاقہ (common territory)
  2. مشترکہ رنگ و نسل( common race )
  3. مشترکہ مذہب ( common religion )
  4. مشترکہ زبان ( common language)
  5. مشترکہ تاریخ ( common history )
  6. مشترکہ ثقافت( common culture)

اس لئے جب ہم خود کو مسلمان کہہ کہ اقوامِ عالم سے ممتاز ’’ایک قوم‘‘ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا مذہب، ہماری تاریخ،زبان اور ثقافت ایک ہے اور ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے  کہ وہ اپنی تہذیب کا دفاع کرے- جس وقت کشمیر، فلسطین اور  برما میں مظالم ہوتے ہیں تو ہم بہت احترام کے ساتھ  عالمی اداروں کے اعداد و شمار کو پیش کرتے ہیں لیکن جب وہ اپنی دولت اور لوبنگ فورسز (lobbying forces) کے ذریعے  ہماری تہذیب و ثقافت کو کچلنے کی کوشش کریں گے تو اس کے سامنے اپنے عقیدے اور کلچر (culture) کی وضاحت کرنا اور اس کے خلاف قانونی جنگ لڑنا ہمارا قانونی و قومی حق ہے-

انسانی حقوق کا عالمی اعلانیہ جو کہ (UDHR  )کے نام سے مشہور ہے؛ 1948ء میں تمام اقوامِ عالم نے اسے قبول کیا- اس میں انسانوں کیلئے 30بنیادی انسانی حقوق تسلیم کیے گئے جن میں ’’UDHR‘‘ کا ’’Articles-27‘‘ دیکھیں جو ’’Right to culture ‘‘ ہے کہ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے کلچر کو اختیار کرے اور اسے محفوظ بنائے- ’’International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights‘‘ جو 1966ء میں تسلیم کی گئی، اس کا ’’Articles 1‘‘ اور ’’Article 15‘‘ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اقوام اپنے کلچر کو اختیار کرنے میں بھی آزاد ہیں اور اس کو محفوظ کرنے کا بھی حق رکھتی ہیں-

 ایک اصطلاح ہے ’’ورثہ‘‘ (heritage) جس کو دو اقسام میں  استعمال کیا جاتا ہے-

  1. Tangible heritage
  2. Intangible heritage

’’Tangible heritage‘‘قابلِ لَمس،  مادی یا ٹھوس اجزا پہ مشتمل، یعنی چھوئے جا سکنے والا ورثہ وہ ہوتا ہے جس کو ہاتھوں سے چھوا جاسکے، جیسے بادشاہی مسجد، یا عجائب خانوں میں پڑی صدیوں پرانی اشیاء-جبکہ ’’Intangible heritage‘‘ ناقابلِ لمس،  غیر مادی اجزا پہ مشتمل ایسا ورثہ جسے ہاتھوں سے چھوا نہ جا سکے، وہ بھی  قوم کی ثقافت ہوتی ہے، جو چھوئے جا سکنے والی اشیا پہ تو مشتمل نہیں ہوتی لیکن مختلف دیگر صورتوں میں موجود ہوتی ہے،  مثلاً: اقدار، اخلاق، نظریے، اعتقادات، روایات اور ایسی دیگر چیزیں - انہیں پوری دنیا تسلیم کرتی ہے-

’’Convention for The Safeguard of the Intangible Cultural Heritage ‘‘اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ دنیا میں اقوام کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی ثقافت کا دفاع کرے اور کسی ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ دوسری قوم کی ثقافت میں مداخلت کرے اور طاقت کے زور پہ اسے ختم کرنے کی کوشش کرے-

اس لئے بحیثیت  مسلمان قوم کے ہمارا یہ قومی و دینی فریضہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کا ہر قیمت پر دفاع کریں-خاص کر جب بات فحاشی  و عریانی سے متعلق  ہو تو ارشادِ ربانی ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘[3]

’’بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘-

یعنی وہ لوگ لعنت و عذاب کے مستحق ہیں جو فحاشی و عریانی کو فروغ دے کر ہماری ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کریں-

اس لئے میری اپنے یوتھ فیلوز کو یہ دعوت ہوگی کہ وہ اپنے حقیقی مسائل پہ غور کریں  اور اپنی ثقافت کو محفوظ بنائیں- اگر آج ہم اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کے لیے کھڑے نہیں ہونگے تو کل ہماری نسل شرم و حیاء اور عزت و وقار سے محروم کردی جائے گی-کیونکہ کوئی ایک اکیلا آدمی یا طبقہ اسلام کی اس اساس کا دفاع نہیں کرسکتا بلکہ اسلام کی ثقافت کا دفاع پوری اُمت کی ذمہ داری ہے کہ امت اپنی اسلامی ثقافت کے دفاع کے لیے متحد ہوجائے-جیسا کہ حکیم الامت فرماتے ہیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
 نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

اس لئے یاد رکھیں! ہمیں مل کہ اپنی ثقافت کا دفاع کرنا ہے- مثلاًجہاں طاقت کی ضروت ہو وہاں طاقت کے ذریعے، اور جہاں محبّت کی ضرورت ہو وہاں محبّت کے ذریعے-

عموماً آج کل ایک بحث کو زبانِ زد عام لایا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے یا محبت کے ذریعے؟اگر بخوبی غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سوال میں ہی خامی ہے-

کیونکہ اگر کہا جائے کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے-تو پھر مجاہدین اسلام کی جدو جہّد پہ شک  و شبہ بھی کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ جس طرح انہوں نے غزوہ بدر، اُحّد، خبیر،مکّہ، خندق، یرموک، اجنادین، نہاوند، مدائن، شام اور دمشق وغیرہ میں کفار کو ناکوں چنے چبوائے ہیں-اسی طرح اگر کہا جائے کہ اسلام محبت سے پھیلا ہے تو پھر حضور داتا علی ہجویری، خواجہ مُعین الدین اجمعیری، سلطان العارفین سلطان باھو اور دیگر اولیاء کرامؒ کی خدمات میں شک کا شبہ کیسے ہو سکتا ہے-

یاد رکھیں! الله نے جسے جو ہنر دیا تھااُس نے اپنے اس ہنر سے اسلام کو پھیلانے اور اسلام کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا-معماروں نے مساجد کی تعمیر کے ذریعے، سالاروں نے جہاد میں فتوحات کے ذریعے، قاریوں نے قرأتِ قرآن کے ذریعے، واعظوں نے وعظ کے ذریعے، شاعروں نے شعر کے ذریعے،محققین نے تحقیق کے ذریعے، خطاطوں نے اسمائے الٰہی و اسمائے محمد(ﷺ) اور قرآن کی کتابت کے ذریعے، صوفیاء نے محبت اور اخلاق کے ذریعے،خانقاہوں نے بھوکوں کو کھانا کھلا کر اور  دکھی دلوں کی ڈھارس بندھانے کے ذریعے اور متکلمین نے عقلی، علمی اور فلسفیانہ دلائل کے ذریعے، قاضیوں نے عدل و انصاف کے ذریعےاسلام پھیلایا- مُبلغینِ اسلام نے دنیا کے کہسار، صحراء، میدان چھان کر کونے کونے اور چپے چپے میں الله اکبر! کی صدائیں بلند کر کے اسلام پھیلایا اور سیاست دانوں نے اپنی عملی تدبیروں کے ذریعے اسلام کو پھیلایا-

الغرض! جہاں جو ضرورت تھی وہاں وہ کردار ادا کیا گیا جہاں ضرورت پیش آئی صوفی مجاہد بن گئے اور مجاہد صوفی بن گئے یعنی یہ ضرورت پر منحصر تھا کہ ضرورت کس چیز کی ہے- ضرورت کے پیش نظر مجاہد صوفیاء کا روپ دھار لیتے اور ضرورت کے پیش نظر صوفیاء مجاہد کا روپ دھار لیتے ہیں -اس لئے یہ سوال ہی غلط ہے کہ اسلام کس چیز سے پھیلا ہے- اللہ پاک اور رسولِ پاک (ﷺ) کے عشاق و محبین نے ہر ممکنہ طریقہ سے اسلام کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے –بزبانِ حکیم الامت:

گاہ باشد کہ تہِ خرقہ زرہ می پوشند
عاشقاں بندۂ حال اند و چناں نیز کنند

’’کبھی خرقہ  کے نیچے زرہ  بھی پہن لیتے ہیں کہ اہل محبت عشق کے تضاضوں کے مطابق چلتے ہیں‘‘-

 میرے بھائیو! اس  وقت اجتماعی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے-کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو اس  وقت سیاسی اور اقتصادی طور پر کئی  جنگوں کے درمیان گھری  ہوئی ہے-اگر آج ہم اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے تو ہم ایک  مردہ قوم ہونے کی نشانی ہیں-جیسے اقبال کہتے ہیں!

تیرا تن روح سے نہ آشنا ہے
عجب کیا! آہ تیری نارسا ہے
 تن بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے

خدارا! اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں  کیونکہ جب ہم ’’لا الہ الا الله محمد رسول الله ‘‘ پڑھتے ہیں تو ہم ایک عہد کرتے ہیں اور ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ ہم اس عہد سے وفا کریں کیونکہ ارشادِ ربانی ہے:

’’بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی فَاِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ‘‘[4]

ہاں جو اپنا وعدہ پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے (اس پر واقعی کوئی مؤاخذہ نہیں) سو بے شک اﷲ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے‘‘-

جو لوگ وعدوں سے روگردانی کرتے ہیں قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے ان لوگوں پر وعید فرمائی ہے-آقا کریم (ﷺ) کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ:

حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ كَانَ مُنَافِقًا

جس میں چار باتیں ہوں وہ منافق ہے

یا جس میں چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کا اتنا ہی حصہ ہےیہاں تک کہ اسے چھوڑ دے

  1. إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ

جب بات کرےگا تو جھوٹ بولےگا

  1. وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ

اور جب وعدہ کرے گاتو خلاف ورزی کرےگا

  1. وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ

اور جب معاہدہ کرے گاتو توڑ دےگا

  1. وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ‘‘[5]

 اورجب  جھگڑا کرےگاتوگالیاں دےگا

اس لئے ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم خود کو علاماتِ نفّاق سے پاک کریں-کیونکہ جو قوم کلمہ طیبہ پڑھ کر اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے وعدہ کرے  اور پھر اس وعدے کا پہرہ نہ دے تو ایسی قوم کا مقدر ذلت کے سوا کچھ نہیں-

اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں اس سوچ کو پیدا کریں کہ ہم نے ہر قیمت پر الله اور اس کے رسول (ﷺ) سے کئے گئے وعدہ کو نبھانا ہے؛ اور اگر  کوئی ثقافت یا  تہذیب طاقت اور پروپیگنڈا کے ذریعے ہمیں مسمار کرنا چاہے تو ہمارا یہ ملی و دینی فریضہ بنتا ہے کہ اس کے مقابل اپنے قانونی اور انسانی حق کے ساتھ ایک مضبوط چٹان ثابت ہوں-اگر آپ غیر سرکاری تنظیموں کے طریقہ واردات سے باخبر ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تعلیم ، کلچر اور آزادی جیسے خوبصورت نعروں کی آڑ میں کیا کچھ کیا جا رہا ہے ، فحاشی و عریانی کے فروغ ، فحاشوں اور فحشاؤوں کی تعداد میں اضافے پہ  تیسری دنیا کے ممالک میں اتنی خطیر رقم صرف کی جا رہی ہے کہ ریاستوں کو ان رقوم کے سامنے بے بس کر دیا جاتا ہے، ساتھ قانون سازیاں ایسی کروانے پہ مجبور کیا جاتا ہے جو نہ صرف عام عوام بلکہ اچھے بھلوں کی سمجھ سے بڑی واردات ہوتی ہے- بندہ ناچیز کا یہ بیان کرنے کا مدعا یہ ہے کہ ایک اجنبی ثقافت طاقت اور دولت کے بل بوتے پہ دنیا پہ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے مقابلے میں آج ہمیں اپنی اسلامی ثقافت کی ترویج اور دفاع کی زبردست ضرورت ہے -ہم بحیثیت ایک قوم کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے  کوئی ہماری روحوں کو پامال کر سکے-

اقبال ؒنے ہمیں یہ بتایا ہے کہ کسی قوم کی خودی، غیرت اور حمّیت کو کچلنا ہو تو اس کا ایک نسخہ لُردِ فرنگی نے ایجاد کیا ہے-لُردlord کو کہتے ہیں-یعنی برطانوی lords نے ایک نسخہ ایجاد کیا ہے کہ :

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر

یعنی جب فرنگی تہذیب کی مرضی کا نظامِ تعلیم اور تعلیمی ادارے قائم ہو جائینگے تو وہ جدھر ہماری خودی کو موڑینگے، ہم بآسانی مڑ جائیں گے کیونکہ اس وقت ہمارے وجود میں حق کے لئے کھڑے ہونے کی سکت نہیں رہے گی-اس لئے آج ہمیں اس اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے جو ہمیں قرآن مجید اور آقا کریم (ﷺ)  نے سکھائی ہے-آج ہمیں اپنی اساس اور ثقافت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا پہرہ دار ہمیں آقا کریم (ﷺ) نے  بنایا-

٭٭٭


[1](مسند احمد بن حنبل)

[2](شعب الایمان)

[3](النور:19)

[4](آل عمران :76)

[5](صحیح بخاری، كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر