اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے زیرِ اہتمام ملک بھر میں ہونے والے تمام علمی، تحقیقی ، تربیتی اور اصلاحی تقاریب کا مقصد فقط یہ ہوتاہے کہ ہم اپنی ظاہری اور باطنی اصلاح حاصل کر کے خشوع و خضوع سے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی کر سکیں اور خاتم النبیّین امام الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی کامل محبت و اطاعت کر سکیں-
مومن کی زندگی کا نقطۂ معراج بھی یہی ہے کہ وہ اپنے حبیبِ مکرّم (ﷺ) کی صفتِ رحمت کا عملی پیکر اور عملی نمونہ بن جائے تاکہ اُس کے وجود سے اللہ کی مخلوق کیلئے رحمت، امن اور محبت کے چشمے پھوٹتے ر ہیں کیونکہ آقا کریم (ﷺ) تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں-
مومن صفتِ رحمت کا عملی پیکر اُس وقت بنتا ہے جب وہ ظاہراً اور باطناً آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لے اور اس کا دل ہر وقت حضور نبی کریم (ﷺ) کے عشق و محبت میں تڑپتا رہےجیسا کہ حکیم الامت علامہ اقبال ؒفرماتے ہیں:
عقل و دل و نگاہ کا مُرشدِ اوّلیں ہے عشق |
یعنی اگر آقا کریم (ﷺ) کی ذات کا عشق مومن کے عقل و دل اور نگاہ کو نصیب ہو جائے تو مومن اپنے ایمان کی معراج کو جا پہنچتا ہے اور اگر عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) نصیب نہ ہو تو پھر شرع ودِیں بُت کدۂ تصوّرات بن کے رہ جاتے ہیں -جس سے رنگین بیانیاں تو اخذ کی جا سکتی ہیں لیکن انسان کا دل جو نورِ ایمان سے حرارت حاصل کرتا ہے اُس لذّتِ جاودانی سے محروم ہو جاتا ہے-
سرکار دو عالم (ﷺ) کے عشق کا راستہ آپ (ﷺ) کے ادب وتعظیم سے طے ہوتا ہے اور آقا کریم (ﷺ) کا ادب بندے کے وجود میں اُس وقت پیدا ہوتا ہےجب اس کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان و عظمت کی معرفت نصیب ہوتی ہے کیونکہ انسان خود کو اُس وقت جھکاتا ہے جب وہ سامنے والے کی عظمت و جلالت سے واقف ہوتا ہے-اس لئے جو مومن ہے وہ اپنی ذات کو آقا کریم (ﷺ) کے ادب میں جھکائے رکھتے ہیں جبکہ منافقین کی علامت میں سے ہے کہ وہ آقاکریم (ﷺ) کے ادب میں جھجھک محسوس کرتے ہیں-
متفق علیہ حدیث مبارک ہے جسے امامِ بخاریؒ نے ’’کتابُ الصلح ‘‘ میں اور امامِ مسلمؒ نے ’’کتاب الجہاد‘‘ میں نقل فرمایا ہے :
’’حضرت انسؓ نے فرمایا کہ حضورنبی کریم (ﷺ) سے عرض کی گئی کہ اگر آپ (ﷺ) عبد اللہ بن اُبی کے پا س تشریف لے جائیں (تو اچھا ہوتا ) ، پس حضور نبی کریم (ﷺ) ایک دراز گوش(حِمارِ مبارک) پہ سوار ہو کر اس کی جانب روانہ ہوئے اورمسلمان بھی آپ (ﷺ) کے ساتھ روانہ ہوئے اوروہ زمین شَور والی تھی، جب حضور نبی کریم (ﷺ) اس کے قریب پہنچے، توا س نے کہا:
إِلَيْكَ عَنِّى ، وَاللّٰهِ لَقَدْ آذَانِىْ نَتْنُ حِمَارِكَ .
’’ میرے پاس سے ہٹ جاؤ !اللہ کی قسم !تمہارے گدھے کی بدبُو مجھے تکلیف دے رہی ہے‘‘-
پھر ان ہی میں سے ایک انصاری نے کہا !
وَاللهِ لَحِمَارُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) أَطْيَبُ رِيْحًا مِّنْكَ
’’ اللہ کی قسم !رسول اللہ (ﷺ) کےدراز گوش کی بُو تجھ(منافق)سے زیادہ خوشبودار ہے‘‘-
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن اُبی نے تکبر اور منافقت میں آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ مبارک کا ادب نہ کیا جبکہ صحابہ کرامؓ کے قلوب عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے سرشار اور لبریز تھے-
امام بیہقیؒ ’’السنن کبریٰ‘‘ میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’كَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) لَيَقْرَعُونَ بَابَهُ بِالْأَظَافِيرِ
’’صحابہ کرامؓ رسول اللہ (ﷺ) کے درِ اقدس پہ اپنے ناخنوں سے دستک دیتے تھے‘‘-
زمانہ قدیم میں عموماً کسی گھر کے دروازے پہ الٹے ہاتھ کی دو یا تین انگلیوں سے اونچی دستک دی جاتی ہےتاکہ صاحبِ خانہ کو علم ہوجائے کہ دروازے پہ کوئی ملنے والا آیا ہے جبکہ صحابۂ کرام () کے تقوٰی اور ادب کی انتہاء یہ تھی کہ وہ اپنے ناخنوں سے درِ مصطفٰے کریم (ﷺ) پہ دستک دیا کرتے تھے -پس معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ کے دلوں میں قرآن مجید نے حضور نبی کریم (ﷺ) عظمت و رفعت اس قدر اجاگر کر دی تھی کہ ان کا اس پر کامل یقین تھا کہ دنیاوی و اخروی کامیابی فقط و فقط محبت اور ادبِ مصطفےٰ (ﷺ) میں ہے- یہی وجہ تھی کہ ان کے وجود آقا کریم (ﷺ) کے ادب و تعظیم کے پیکر تھے کیونکہ قرآن مجید نے بار ہا کئی مقامات پہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی جو رفعتیں اور عظمتیں بیان کی ہیں ان کی نہ تو کوئی حد ہے اور نہ وہ کل کائنات کے کسی بھی اعداد و شمار میں آسکتیں ہیں- ان مقامات میں سے یہاں چند مقامات ذکر کرنا چاہوں گا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل نے رسول اللہ (ﷺ) کو مبالغہ در مبالغہ رفعتیں اور عظمتیں عطا فرمائی ہیں-
مقام ِ اول :إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّـآ اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ‘‘[1]
’’اے محبوب (ﷺ)بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں‘‘-
کوثر سے مراد حوضِ کوثر بھی ہے، نہرِ جنت بھی ہے، آقا کریم (ﷺ) کی عطرت اور آل بھی ہے، آپ (ﷺ) کی اُمت کی کثرت بھی ہے اور اس اُمت کے اعمال اور ان کے اجر و ثواب کی کثرت بھی ہے- لیکن کوثر کا ایک اور مفہوم یہ بھی ہے کہ کوثر سے مراد کل کائنات کی خیر ہے-
امام طبری ’’تفسیر طبری‘‘ میں حضرت قتادہؓ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حضرت قتادہؓ نے’’کوثر‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ:
هُوَ الْخَيْرُ الْكَثِيْرُ ’’اس سے مراد ’’خیرِ کثیر‘‘ہے‘‘-
حافظ ابن کثیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں حضرت مجاہدؓ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
حضرت مجاہدؓ نے فرمایا :
’’هُوَ الْخَيْرُ الْكَثِيْرُ فِيْ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ‘‘
’’اس سے مراد دنیا اورآخرت کی خیرِ کثیر ہے ‘‘-
شیخ ابن منظور افریقیؒ فرماتے ہیں:
’’وَالْكَوْثَرُ ‘‘اَلْكَثِيْرُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ‘‘[2]
’’اور کوثر کامطلب ہے ہر چیز سے کثیر‘‘-
گویا اللہ عزوجل نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو کُل کائنات کی خیر عطا فرمائی ہے -اس لئے جسے خیر کی طلب ہو وہ درِ مصطفےٰ (ﷺ) سے وابستہ ہوجائے-
امام فخر الدین رازیؒ ’’تفسیرکبیر‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک ’’إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اَلْهِبَةُ هِيَ الشَّيْءُ الْمُسَمَّى بِالْكَوْثَرِ، وَهُوَ مَا يُفِيْدُ الْمُبَالَغَةَ فِي الْكَثْرَةِ‘‘
’’اَلْهِبَةُ (عطاء)سے مراد وہ شے ہے جس کو کوثر کے نام سے موسوم کیاگیاہے اوریہ کثرت میں مبالغے کا فائدہ دیتی ہے ‘‘-
یعنی کسی چیز کو کثرت یا اکثر کہنا یہ بذات خود ایک مبالغہ ہے-جیسا کہ امام فخر الدین رازیؒ ’’تفسیر کبیر‘‘ میں ایک اور مقام پہ فرماتے ہیں :
’’فَهَهُنَا الْكَوْثَرُ وَإِنْ كَانَ فِيْ نَفْسِهٖ فِيْ غَايَةِ الْكَثْرَةِ لَكِنَّهٗ بِسَبَبِ صُدُوْرِهٖ مِنْ مَّلِكِ الْخَلَائِقِ يَزْدَادُ عَظْمَةً وَّكَمَالًا‘‘
’’پس یہاں کوثر اگرچہ فی نفسہٖ کثرت کے انتہا کے معانی میں ہےلیکن جب ا س کا صدورتما م مخلوقات کے بادشاہِ (حقیقی) کی طرف سے ہو رہا ہے تو اس (کےمعانی) میں عظمت اور کمال اور بڑھ جاتی ہے ‘‘-
یعنی کوثر کا لفظ اگر کوئی بشر کہے تو تب بھی یہ مبالغہ در مبالغہ ہے لیکن جب کل کائنات کا خالق خود فرمائے کہ ہم نے کوثر عطا فرمائی تو اُس سے عظمت و رفعت اور بلند ہوجاتی ہے- لہٰذا حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان و عظمت اس قدر بلند ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ہے-
مثلاً جب انسان کسی چیز کے جمال کی تعریف کرتا ہے تو اسے جمیل کہتا ہے-لیکن جب اس کے جمال میں مبالغہ کرنے لگے تو اسے اجمل کہے گا-اسی طرح جب کوئی چیز تعداد و مقدار میں بہت زیادہ ہوجائے تو اس کو کثیر کہتے ہیں اور جب اس کی کثرت میں مبالغہ کیا جائے اس کو اکثر کہیں گے اور ’’اکثر ‘‘ بذات خود مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی مبالغہ در مبالغہ ہے- اس لئے جب اس کو ’’فَوْعَلْ‘‘ کے وزن پہ کوثر کہا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اے حبیب (ﷺ)ہم نے آپ کو اکثر سے بھی بڑھ کے کوثر عطا فرمائی، یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی شان مبالغہ در مبالغہ بلند فرما دی ہے-
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان کو بیان فرمایا ہے وہ انسانی عقل سے ماوراء ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محدود انسانی عقل کے مطابق نہیں بلکہ اپنی لامحدود شان وعظمت کے مطابق آقا کریم (ﷺ) کو رفعتیں اور عظمتیں عطا فرمائی ہیں-
مقام دوم: ’’وَ اِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ‘‘
سورۃ القلم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ‘‘[3]
’’اور بے شک آپ(ﷺ) کیلئے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا‘‘-
امام سمعانیؒ ’’تفسیر القرآن‘‘ میں ’’وَ اِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ أَيْ: غَيْرَ مُنْقَطِعٍ وَيُقَالُ: غَيْرَ مَحْسُوْبٍ‘‘[4]
’’یعنی نہ ختم ہونے والااورکہاجاتاہے کہ جس کا حساب نہ لگایاجاتاہو-(جس کا شمار نہ کیاجاسکتا ہو)‘‘
حافظ ابن کثیر اسی آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’أَيْ: بَلْ لَكَ الْأَجْرُ الْعَظِيْمُ وَالثَّوَابُ الْجَزِيْلُ الَّذِيْ لَا يَنْقَطِعُ وَلَا يَبِيْدُ‘‘
یعنی: بلکہ آپ (ﷺ) کیلئے بہت عظیم اجر ہے اور عظیم ثواب ہے جو نہ کبھی ختم ہو گا اورنہ پرانا-
اب یہاں قرآن مجید کے دوسرے مقام سے سوال اٹھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے لیے فرمایا:
’’اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍط‘‘[5]
’’مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ انہیں بے حد ثواب ہے‘‘-
یعنی انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مومنین کا اجر بھی شمار سے باہر بیان ہوا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو جو انعام عطا فرمایا ہے وہ کس طریق سے اجرِ غیر ممنون ہے؟
یاد رکھیں! عبادت و ریاضت کے مطابق اجر عطا ہوتا ہے کیونکہ اس امت کے جو زہاد، اصفیاء اور ساجدین گزرے ہیں وہ بھی رب کریم کے حضور سجدے میں وہی تسبیح پڑھتے ہیں جو آقا کریم (ﷺ) سجدے میں پڑھتے تھے-یعنی جو شخص جس قدر خشوع وخضوع سے عبادت و ریاضت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مطابق ہی اس کواجر عطا فرماتا ہے-لیکن اللہ تعالیٰ نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کی عبادت و ریاضت کو جومقام و انعام عطا فرمایا ہے وہ کسی اولیاء، اصفیاء اور حتٰی کہ انبیاء ؑ کو دیئے جانے والے اجر سے بڑھ کے ہے-لہٰذا اللہ تعالیٰ نے درجۂ قبولیت اور درجۂ قربت کے اعتبار سے جو اجرِ غیر ممنون مصطفےٰ کریم (ﷺ) کو عطا فرمایا وہ بشر کے اجر سے ورا الورٰی ہے-
قرآن مجید میں غوطہ زنی کر کے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کو کسی بھی جہت یا پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ آقا کریم (ﷺ) کی شان اور عظمت کی نظیر کائنات کی کسی مخلوق میں موجود نہیں ہے-
مقامِ سوم: ’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘
اسی طرح سورہ القلم چوتھی آیت میں ارشادِ ربانی ہے:
’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘[6]
’’اور بے شک آپ(ﷺ) عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ‘‘-
’’العظیم‘‘اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے-جیسا کہ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں :
’’وَالْعَظِيْمُ الَّذِيْ قَدْ كَمُلَ فِيْ عَظَمَتِهٖ‘‘[7]
’’اورعظیم وہ ہے جو اپنی عظمت میں مکمل ہو‘‘
شیخ منظور ابن منظور افریقیؒ جو لغت اور فصاحت و بلاغت کے مشہور و معروف امام مانے جاتے ہیں،فرماتے ہیں کہ:
’’(عَظُمَ) مِنْ صِفاتِ الله عزَّ وَجَلَّ اَلْعَلِيُّ العَظِيْمُ ويُسبِّحُ الْعَبْدُ رَبَّهٗ فَيَقُوْلُ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ اَلْعَظِيْمُ الَّذِيْ جاوَزَ قَدْرُهٗ وَجَلَّ عَنْ حُدُوْدِ الْعُقُوْلِ حَتَّى لَا تُتَصَوَّرُ الْإِحَاطَةُ بِكُنْهِهٖ وَ حَقِيْقَتِهٖ‘‘[8]
’’اللہ عزوجل کی صفات میں سے ہے’’اَلْعَلِيُّ العَظِيْمُ‘‘ اور بندہ جب اللہ پاک کی تسبیح بیان کرتا ہے تو کہتا ہے ’’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمِ‘‘اورعظیم وہ ہوتا ہے جس کی قدر (و منزلت) حدسے بڑھ جائےاورعقو ل کی حدود سے بلند ہوجائےیہاں تک کہ اس کی کنہ اورحقیقت کا احاطہ ممکن نہ ہو‘‘-
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق مبارک کو ’’ عظیم‘‘ فرمایا ہے-تو یہ عظیم صفت خداوندی ہے جو آپ (ﷺ) کو عطا فرمائی گئی ہے،گویا صفات ِ خداوندی کو محض عقل کی بنیاد پر نہیں سمجھا جاسکتا-
یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو اخلاق کا وہ درجہ اور معیار بخشا ہے کہ جہاں تمام انسانی عقول کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے وہاں سے بھی کہیں آگے آپ (ﷺ)کے اخلاق کا آغاز ہوتا ہے-گویا حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق کا مقام عقل کے ادراک سے بھی ماورا ہے-
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے اخلاق عالیہ کثرت میں مبالغہ کے متعلق امام احمد ابن حنبلؒ ایک قول نقل کرتے ہیں کہ:
’’حضرت سعد بن ہشام بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں اُم المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی کہ اے ام المؤمنین ! ہمیں رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق کے بارے میں بتائیں تو آپؓ نے ارشاد فرمایا :
’’كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ،أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ، قَوْلَ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ: ’’وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ‘‘
’’آپ (ﷺ) کے اخلا ق قرآن ہیں کیاتم نے قرآن پاک میں اللہ پاک کافرمان مبارک نہیں پڑھتے ہو:’’اور بے شک آپ (ﷺ) عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘-[9]
غور کیجیے! کہ قرآن کریم میں حیاتِ انسانی یا علومِ کائنات کی فقط کوئی ایک جہت تو بیان نہیں ہوئی- اسی مقدمے کو متعدد آئمہ و مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے کہ جب انسان قرآن مجید میں غوطہ زنی کرتا ہے تو علومِ کائنات کی تمام جہتوں کے متعلق جتنے بھی علوم ہیں قرآن اس کو ہر اک علم سے متعارف کرواتا ہے-
گویا اس حدیث پاک کی رو سے قرآن مجید حضور نبی کریم (ﷺ) کا اخلاق ہے-کیونکہ الحمد سے و الناس تک مکمل قرآن مجید حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق عالیہ کو بیان کرتا ہے-لہٰذا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی علوم سموئے ہیں، ان علوم کی جتنی بھی اعلیٰ صفات ہیں وہ تمام آقا کریم (ﷺ) کے اخلاق کی خیرات ہیں-اس لئے جیسے جیسے علوم ترقی کرتے جائینگے، ویسے ویسے حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق کا معجزہ نمایاں سے نمایاں ہوتا چلا جائے گا-
فقیہ قاضی امام ابوالفضلؒ فرماتے ہیں کہ:
’’لَاخِفَاءَ عَلَى مَنْ مَّارَسَ شَيْئًا مِّنَ الْعِلْمِ أوْ خُصَّ بِأَدْنَى لَمْحَةٍ مِّنَ الْفَهْمِ بِتَعْظِيْمِ اللّهِ قَدْرَ نَبِيِّنَا (ﷺ) وخُصُوْصِهٖ إيَّاهُ بِفَضَائِلَ وَ مَحَاسِنَ وَ مَنَاقِبَ لَا تَنْضَبِطُ لِزِمَامٍ وَتَنْوِيْهِهٖ مِنْ عَظِيْمِ قَدْرِهٖ بِمَا تَكِلُّ عَنْهُ الْأَلْسِنَةُ وَ الْأَقْلَامُ‘‘[10]
’’اللہ تعالیٰ اس کو توفیق عطافرمائے اورسیدھے راستے پہ گامزن رکھےاس شخص پہ کچھ پوشید ہ نہیں جس کو اللہ پاک نے علم میں تھوڑی سے مہارت عطا فرمائی ہےیا تھوڑی سے سمجھ بوجھ عطافرمائی ہےکہ اللہ پاک نے ہمارے نبی مکرم (ﷺ) کو بڑی قدر و منزلت عطافرمائی ہے اورآپ (ﷺ) ایسے فضائل ومحاسن اورمناقب کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں اور آپ (ﷺ) کے مرتبہ جلیلہ کو اتنا بلند فرمایا ہے کہ لوگوں کی زبان اور قلم (اسے لکھنے اور بیان کرنے سے) قاصر ہیں ‘‘-
معجزات کی کئی اقسام ہیں-لیکن علما ءکرام حضور نبی کریم (ﷺ) کے بالخصوص 6 قسم کے معجزات بیان کرتے ہیں :
- بعض وہ ہیں جو حضور نبی کریم (ﷺ) سے پہلے گزشتہ نبیوں اور امتوں نے دیکھے-
- بعض وہ ہیں جو ولادت پاک سے پہلے والدہ ماجدہ اور عرب بلکہ دنیا نے دیکھے -
- بعض وہ ہیں جو ولادت پاک کے وقت دیکھے گئے-
- بعض وہ ہیں جو آپ (ﷺ) کے بچپن شریف میں دیکھے گئے-
- بعض وہ ہیں جو ظہور نبوت کے بعد سے وصال مبارک تک دیکھے گئے-
- بعض وہ ہیں جو بعد ِوصال سے قیامت تک دیکھے جائیں گے-
گویا اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کے اخلاق عالیہ کو اس قدر عظمت و رفعت بخشی ہے کہ آپ (ﷺ) کا اخلاق آپ(ﷺ) کی ولادت باسعادت سے قبل بھی معجزے کی صورت میں جاری رہا اور تمام حیاتِ مبارکہ کے بعد قیامت تک معجزے کی صورت میں جاری رہے گا-اس لئے کُل کائنات کے علوم کی اعلیٰ صفات سرکار دو عالم (ﷺ)کے اخلاق کی عطا ہیں-
امام فخر الدین رازیؒ نے اس نکتہ کی کمال عقدہ کُشائی کی ہے- فرماتے ہیں:
’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo وَلَمَّا كَانَ ذَلِكَ دَرَجَةً عَالِيَةً لَمْ تَتَيَسَّرْ لِأَحَدٍ مِّنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلَهٗ لَا جَرَمَ وَصَفَ اللّهُ خُلُقَهٗ بِأَنَّهٗ عَظِيْمٌ‘‘
اور بے شک آپ(ﷺ) عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)اور یہ عظیم مقام ومرتبہ آپ (ﷺ) سے پہلے انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبیؑ کو میسر نہ تھا، بلاشبہ اللہ پاک نے آپ (ﷺ) کے اخلاق کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہی عظیم ہیں‘‘-
اوراس میں ایک اورباریک نکتہ ہےاوروہ یہ ہے جو اللہ پاک کا فرمان ہے:’’لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ‘‘ اس میں ’’عَلىَ‘‘کا کلمہ استعلاء کیلیے ہے یعنی بلندی اور غلبے کیلئے-
فَدَلَّ اللَّفْظُ عَلىَ أَنَّهٗ مُسْتَعْمِلٌ عَلَى هَذِهِ الْأَخْلَاقِ وَمُسْتَوْلٍ عَلَيْهَا، وَأَنَّهُ بِالنِّسْبَةِ إِلَى هَذِهِ الْأَخْلَاقِ الْجَمِيْلَةِ كَالْمَوْلَى بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْعَبْدِ وَكَالْأَمِيْرِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمَأْمُوْرِ‘‘[11]
’’اور’’عَلىَ‘‘کا لفظ اس بات پہ دلالت کرتاہے کہ آپ (ﷺ) ان اخلا ق پہ مستعمل اور حاکم ہیں اور آپ (ﷺ) کی نسبت اخلاقِ حسنہ کی طرف ایسے جیسے مولیٰ کی نسبت غلام کی طرف اور امیر کی نسبت مامور کی طرف ہوتی ہے‘‘-
جتنے بھی اوصاف ہیں ان کا اپنا ایک حسن ہے مثلاً صداقت ہے، وعدہ وفائی ہے، امین ہونا ہے یہ اوصاف جس آدمی میں بھی آجائیں تو اس آدمی کا معیار بڑھ جاتا ہے- لیکن امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ مبارک کا مسئلہ اس طرح نہیں ہے- جس وصف کی نسبت بھی آقا کریم (ﷺ) سے ہوتی ہے تو اس سے آقا کریم (ﷺ) کی شان میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس وصف کو عزت مل جاتی ہے-
مثلاً اگر کسی شخص میں اخلاق ہے تو وہ اس وجہ سے معتبر ہے- لیکن جب اخلاق کا معاملہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی پہ آیا تو پھر اُصول یہ ہوگیا کہ اخلاق اس لئے معتبر ہے کہ یہ وصفِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے-اسی طرح یہی اصول دیگر اوصاف پہ بھی صادق آئے گا-
مقام چہارم: ’’وَ لَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنے حبیبِ مُکرّم (ﷺ) کی عظمت و رفعت کو اس قدر بلند شان سے بیان فرمایا ہےجس کی کوئی حد بھی شمار میں نہیں آتی-
’’ وَ لَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo ‘‘[12]
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کیلئے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے ‘‘-
مفتی بغداد علامہ سید محمود آلوسی (المتوفى: 1270ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :
اللہ پاک نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو جو نبوت، شفاعت وغیر ہ جیسے کمالات عطافرمائے ہیں-
’’وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنَ الْكَرَامَاتِ السَّنِيَّةِ الَّتِيْ لَا تُحِيْطُ بِهَا الْعِبَارَاتُ وَتَقْصُرُ دُوْنَهَا الْإِشَارَاتُ بِمَنْزِلَةِ بَعْضِ الْمُبَادِءِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمَطَالِبِ ‘‘[13]
’’ان عمدہ (لاجواب)کرامات کے علاوہ (اللہ پاک نے آپ (ﷺ) کو وہ فضائل وکمالات عطافرمائے ہیں) جس کی عبارات احاطہ نہیں کرسکتی اور اشارات ان کے سامنے بنیادی مطالب تک پہنچنے سے بھی قاصر ہیں ‘‘-
یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے حبیب مکرم (ﷺ) اس کائنات میں جتنے لوگ بھی پیدا ہوئے اِنہیں اِن کے اعمال کے مطابق اِسی دنیا میں اِن کا صلہ ملتا گیا- لیکن آپ (ﷺ) کو جو عظمتیں اور رفعتیں عطا ہوئیں ان کا سلسلہ کبھی اختتام پذیر نہیں ہوگا-جو وصف آقا کریم (ﷺ) کو عطا ہوا اس میں کبھی نقص آئے گا نہ انقطاع آئے گا بلکہ وہ وصف ہر لحظہ پہلے سے بھی زیادہ روشن اور بلندہوتا جائے گا-
کائنات میں جو وقت (Time)ہے اس کی گھڑیوں اور ساعتوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کس لمحے میں شروع ہوا اور کس لمحے میں ختم ہوگا-یعنی یہ وقت آج تک چل رہا ہے اور بزبانِ قرآن ایک نیا جہاں شروع ہوگا جو کبھی ختم نہیں ہوگا- اندازہ لگائیں! کہ اللہ رب العزت نے آقا کریم (ﷺ) کی شان کو یہ عظمت و رفعت عطا کی ہے کہ ہر لمحہ آپ (ﷺ) کی شان بلند سے بلند تر ہوتی جائے گی جس کا کوئی کنارہ یا حد موجود ہی نہیں ہے-اس لئے آپ (ﷺ) کے ظاہری و باطنی کمالات انسانی عقل میں کبھی بھی نہیں سما سکتے -البتہ انسان آقا کریم (ﷺ) سے محبت، اطاعت و اتباع اور ادب و تعظیم، بکثرت درود پاک کا نذرانہ اور بکثرت و بامبالغہ ذکرِ عظمتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے ذریعے اِن کمالات سے فیض کی خیرات حاصل کر سکتا ہے-
مزید قابل غور بات یہ ہے کہ کائنات کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ اللہ عزوجل ہر کمال کو زوال عطا فرماتا ہے-یعنی آج کوئی جوان ہے تو کل بوڑھا ہوجائےگا-اسی طرح چاند اور سورج اپنے عروج پر پہنچ کر زوال کا شکار ہوتے ہیں لیکن جب حضور نبی کریم (ﷺ) کا ذکر خیر ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اپنے حبیب کیلئے الگ اصول جاری فرماتا ہے یعنی ہر کمال کو زوال ہے لیکن آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کو کمال ہی کمال ہے- بلکہ ہر آنے والی گھڑی پہلے سے بھی افضل ہے-
مقام پنجم:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا‘‘[14]
بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے-
’’لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا‘‘[15]
’’تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو‘‘
ابو الفضل القاضی عياضؒ ان آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں:
حضرت ابن عباسؓ اللہ تعالیٰ کے فرما ن مبارک ’’تُعَزّرُوْهُ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
تُجِلُّوهُ یعنی آپ (ﷺ) کی تکریم کرو -
امام مُبَرّد اللہ پاک کے فرمان مبارک ’’تُعَزّرُوْهُ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
تُبَالغُوْا فِيْ تَعْظِيْمِهٖ[16]
حضور نبی کریم (ﷺ) کی تعظیم میں مبالغہ کرو-
علامہ شہاب الدین خفاجی حنفی مصریؒ شرح شفاء شریف میں فرماتے ہیں کہ:
’’حضورنبی کریم (ﷺ) کے صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے ’’تُعَزّرُوْهُ‘‘ کا ’’تُجِلُّوهُ‘‘ کیا- (حضور نبی کریم (ﷺ) کی تعظیم کرو) ’’تجلوہ‘‘ باب افعال سے ہے اس کا مجرد جلال ہے- جلال کے معانی بلند رتبہ ہونے میں انتہاکو پہنچنا،اسی لیے یہ ’’رب‘‘ سے خاص ہے پس کہاجاتاہے ’’ذوالجلال ولاکرام‘‘جیساکہ یہ بات اما م راغب نے کی، ام مبَرّدْ نے کہا جو تفسیر اورعربیہ کا شیخ ہے کہ ’’تُعَزّرُوْهُ‘‘ کا معانی یہ ہے کہ حضورنبی کریم (ﷺ) کی تعظیم میں مبالغہ کرو،اما م مبرد کی یہ تفسیر حضرت ابن عباسؓ کے قول مبارک کے موافق ہے یہ تفسیر اس قول سے خاص نہیں جیساکہ وہم کیا گیا‘‘-[17]
ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ :
فقیہہ قاضی امام ابو فضلؒ فرماتے ہیں:
’’لَاخِفَاءَ عَلَى مَنْ مَّارَسَ شَيْئًا مِّنَ الْعِلْمِ، أَوْ خُصَّ بِأَدْنَى لَمْحَةٍ مِّنَ الْفَهْمِ، بِتَعْظِيْمِ اللّهِ قَدْرَ نَبِيِّنَا (ﷺ) وَ خُصُوْصِهٖ إِیاَّهُ بِفَضَائِلَ وَ مَحَاسِنَ وَ مَنَاقِبَ لَا تَنْضَبِطُ لِزِمَامٍ، وَتَنْوِيْهِهِ مِنْ عَظِيْمِ قَدْرِهِ بِمَا تَكِلُّ عَنْهُ الْأَلْسِنَةُ وَالْأَقْلَامُ‘‘[18]
’’یہ بات اس شخص پر بالکل مخفی نہیں جس کو ذرہ بھر علم سے لگاؤ ہےیا فہم کے ادنی لمحہ سے مخصوص ہے (یعنی اس کو تھوڑی بہت فہم ہو تو وہ سمجھ جائے گاکہ)اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور نبی کریم (ﷺ) کے مرتبہ اور شرف کو معظم کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا کریم (ﷺ) کواتنے فضائل و محاسن اور مناقب سے مخصوص فرمایا کہ رب کی جدو جہد کرنے والا حصر نہیں کرسکتا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور نبی کریم (ﷺ) کے قدر عظیم کو اتنا بلند کیا کہ لوگوں کی زبان اور قلم (اسے لکھنے اور بیان کرنے سے) قاصر ہیں ‘‘-
امام قاضی عیاضؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’وَكانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمْاً، حَارَتِ الْعَقُوْلُ فِيْ تَقْدِيْرِ فَضْلِهٖ وَخَرِسَتِ الْأَلْسُنُ دُوْنَ وَصْفٍ يُّحِيْطُ بِذَلِكَ، أَوْ يَنْتَهِيْ إِلَيْهِ‘‘[19]
’’اے حبیب مکرم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کا آپ (ﷺ) پر بڑا فضل ہے اس کا اندازہ کرنے سے عقلیں حیران ہیں اور زبانیں گنگ ہیں، اس وصف سے پہلے جو ان کا احاطہ کرے یا ان تک پہنچے‘‘-
اہل علم تو اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن بدقسمتی سے منظم فرقہ وارِیّت اور مادیت پرستی کی انتہا کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں گرد پڑتی جا رہی ہے جس کے باعث وہ آقا کریم (ﷺ) کے ظاہری و باطنی معجزات و کمالات کو قبول کرنے سے قاصرہیں -اس لیے جب بھی خاتم النبیین محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی ذات گرامی کی عظمت و رفعت کا مطالعہ کرنا ہو تو دل سے فرقہ وارِیّت و مادیت کی گرد و غبار صاف کرکے آپ (ﷺ) سے نسبت قائم کی جائے-کیونکہ:
آئینۂ دل صاف ہو تو شفا ملتی ہے |
قاضی عیاض مالکیؒ نے جب ’’بتعریف حقوقِ مصطفےٰ (ﷺ)‘‘ لکھی تو علماء کرام نے کہا یہ کتاب نہیں ہے فی الحقیقت یہ شِفا ہے- کیونکہ یہ دلوں کے اوپر پڑے ہوئے وسوسوں کے حجابات اور گرد وغبار کو صاف کرکے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات سے بندہ مومن کا تعلق خالص کر دیتی ہے- اسی طرح امام شہاب الدین قُسطلانیؒ کی کتاب ’’المواہب اللدنیۃ ‘‘ہے- یہ کتب سیرت مبارکہ کے بنیادی ماخذ ہیں جن سے انسان کے ایمان کو جِلا ملتی ہے -
بد قسمتی کی انتہا! کہ آج سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کا مطالعہ شرق تا غرب صرف ایک جہتِ سیاسی تک محدود کیا جا رہا ہے اور مسلمین آقا کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کی اُس معرفت سے محروم ہیں جو صدیوں تلک اس اُمت کے دل کوعشق کی حِدت، حرارت اور تپش بخشتی رہی-
یہ بھی حقیقت ہے کہ زمانے کی موجودہ صورتحال میں اس بات کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہے-کیونکہ کالونیئل دور سے آج تک جومذہبی اور سیاسی تحریکیں چلتی رہیں اور جو مذہی و سیاسی لٹریچر تشکیل دیا گیا وہ مکمل طور پر آقا کریم (ﷺ) کی سیرت مبارکہ کے فقط سیاسی پہلو پہ تھا-اس سے بڑھ کر اُمت کی ستم ظریفی و ندامت کیا ہےکہ وہ خود کو اسلام کی فقط سیاسی پیروکار سمجھتی ہے-
یاد رکھیں! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے کُل خیر کے چشمے پھوٹے ہیں- ریاست و سلطنت اور عدالتوں وقضا میں خیر بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کی خیرات ہے-اس لئے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی ہمارے لیے سیاسی اُفق پہ اُس وقت کامل ہے جب ہم قرآن مجید پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے آپ (ﷺ) سے اپنا تعلق پہلے ایمان و شفاعت کا اور بعد میں سیاست کا رکھیں-یعنی آقا کریم (ﷺ) سے ہمارا تعلق فقط سیاسی پہلو کی بنیاد پہ نہ ہو جیسا کہ جدید سیرت نگاروں کا اُصول بن چکا ہے-بلکہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کامل معرفت حاصل کرنے لئے اس سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں جو برطانوی غلامی سے پہلے ہمارے آباؤ اجداد نے مرتب کیے تھے- مثلاً
v مدارج النبوۃ از شاہ عبد الحق محدث دہلوی( ؒ)
v الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰے (ﷺ) از قاضی عیاض مالکی(ؒ)
v المواہب اللدنیۃ از امام قُسطلانی(ؒ)
v دلائل النبوۃ از امام بیہقی (ؒ)
آقا کریم (ﷺ) کی سیرتِ مبارکہ پہ لکھی گئی یہ کتب مِلّت کا وہ سرمایہ ہیں جو ان کے دلوں کو عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے جِلابخشتا ہے-
امام قُسطلانیؒ فرماتے ہیں :
’’وَلَوْ بَالَغَ الْأَوَّلُوْنَ وَالْآخِرُوْنَ فِيْ إحْصَاءِ مَنَاقِبِهٖ لَعَجَزُوْا عَنْ اِسْتِقْصَاءِ مَا حَبَّاهُ الْكَرِيْمُ بِهٖ مِنْ مَّوَاهِبِهٖ‘‘[20]
’’پس اگر سب اگلے اور سب پچھلے مل کر حضور نبی کریم (ﷺ) کے مناقب شمار کرنے میں مبالغہ کریں تو ان فضائل و کمالات کے ضبط کرنے سے عاجز ہوں گےجو مولیٰ کریم نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو عطا فرمائے ہیں‘‘-
یہی بات ان تمام آئمہ دین کے ہاں نظر آتی ہے جن کے دلوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمت سے معمور فرما دیا تھا- یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے دلوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ معرفت اس قدر موجزن تھی کہ وہ ہر چیز پہ سمجھوتا کر لیتے تھے مگر ادبِ مصطفےٰ (ﷺ) کے اوپر وہ کبھی سمجھوتا نہیں کرتے تھے-
یہ حقیقت ہے کہ جب آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ کا ادب دل میں پیدا ہوجائے تو الفاظ، زبان، قلم اور حرکات و سکنات خود بخود مؤدب ہوجاتی ہیں -
امام بخاریؒ نے جہاں یہ حدیث مبارکہ بیان کی کہ جب کعبہ شریف کے سامنے آقا کریم (ﷺ) نماز ادا فرما رہے تھے تو قریش نے آپ (ﷺ) کو اذیت پہنچانے کے لئے اونٹ کی اوجڑی لا کر آپ (ﷺ) پر رکھ دی- تو معلوم ہوتے ہی سیدۃ النساء خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ تشریف لے گئیں اور اس اوجڑی کو آپ (ﷺ) سے ہٹایا-تب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ الفاظ تین مرتبہ استعمال فرمائے کہ یا اللہ قریش کو پکڑ لے! -صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ جن بدبختوں نے یہ شرارت کی تھی ہم نے انہی سات سرداروں کو بدر کے کنویں میں مردار پایا-
لیکن افسوس! کہ جہاں آقا کریم (ﷺ) نے دعا فرمائی تو وہاں ترجمہ نگاروں نے یہ ترجمہ کیا کہ آقا کریم (ﷺ) نے کفار کے لئے ’’بددعا‘‘ فرمائی-یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آقا کریم (ﷺ) نے بد دعا فرمائی تو اُردو لغت میں لفظ ’’بد‘‘ کو برائی پر محمول کیاجاتا ہے، یعنی بری دعا فرمانا- برائی واجبُ الاطاعت تو نہیں ہے تو پھر آقا کریم (ﷺ) کی اس دعا پہ کیسے لبیک کہا جائے؟
لہٰذا حضور نبی کریم (ﷺ) نے بد دعا نہیں فرمائی بلکہ آپ (ﷺ) نے انُ کے لیے دعائےِ ضرر فرمائی-کیونکہ نبی کی کوئی دعا، بد دعا ہو ہی نہیں سکتی ،وہ چاہے کسی کے عذاب ہی کی دعا کیوں نہ ہو- لیکن یہ نکتہ فقط اُس وقت کُھلتا ہے جب دل آقا کریم (ﷺ) کے ادب و تعظیم سے لبریز ہو اور آپ (ﷺ) کے تمام ظاہری و باطنی فضائل و شمائل پہ ایمان لے آئے-اس لئے بندے پر لازم ہے کہ وہ آقا کریم (ﷺ) کی ظاہری و باطنی معرفت حاصل کرے- جیسا کہ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
بمصطفےٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست |
’’اپنے آپ کو مصطفےٰ کریم (ﷺ) تک پہنچادے کیونکہ سارے کا سارا دین آپ (ﷺ) ہیں-اگر تم آپ (ﷺ) تک نہ پہنچے تو (تمہارا) سارے کا سارا عمل بولہبی یعنی بے دینی ہے‘‘-
امام قُسطلانیؒ مزید فرماتے ہیں:
يَعْنِىْ أَنَّ الْمدَاحَ وَإِنِ انْتَهَوْا إِلىٰ أَقْصَى الْغَايَاتِ وَالنِّهَايَاتِ لَا يَصِلُوْنَ إِلىٰ شَأوُهٗ، إِذْ لَا حَدَّ لَهٗ‘‘[21]
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات شریفہ کی طرف جس شرف کی چاہے نسبت کر اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے علُوِّ قَدر کی طرف جس تعظیم و رفعت کا ارادہ کرے منسوب کر کیونکہ ہر بلند سے بلند قول کے لئے با ب واسع پائےگاکیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے فضائل کی کوئی ایسی ہی انتہاء نہیں‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) کا ادب قرآن مجیدنے سکھایا ہے-یعنی الحمد سے و الناس تک قرآن کریم مسلمان کو تلقین کرتا ہے کہ آقا کریم (ﷺ)کے سامنے کیسے بیٹھو، کیسے مخاطب کرو، کیسے کلام کرو-
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انبیاء کرامؑ کو ان کے اسم گرامی سے پکارا ہے یعنی یا آدم، یاموسٰی ، یا عیسٰی وغیرہ جبکہ فقط چار مقام پر آقا کریم (ﷺ) کا اسم مبارک ’’محمدؐ‘‘ اور ایک مقام پر ’’احمدؐ‘‘ذکر فرمایا -لیکن جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو پکارا حضور کے شرف رسالت، شرف نبوت یا دیگر صفات سے پکارا- یعنی ’’یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ ‘‘، ’’یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ‘‘،’’یٰٓاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ‘‘-خالق کائنات تو بے نیاز ہے جیسے چاہے پکارے، کلام کرے-لیکن وہ ہمیں ہر لمحہ اپنے محبوب کریم (ﷺ) کا ادب سکھا رہا ہے-
سورۃ الحجرات کی پہلی چھ آیات کے متعلق قاضی عیاضؒ نے ’’شفا شریف‘‘ میں لکھا ہے کہ امام مالک بن انس ؓ کا قول ہے کہ اس میں تین طبقات کا بیان ہوا:
- اللہ تعالیٰ نے جن کو تلقین وتنبیہ فرمائی ہے -
- اللہ تعالیٰ نے جن کی تحسین فرمائی ہے-
- اللہ تعالیٰ نے جن کی مذمت فرمائی ہے -
جن کو تنبیہ کی اُن کے متعلق فرمایا کہ: میرے حبیب مکرم (ﷺ)کے دربار میں اپنی آوازوں کو نیچا رکھو اور آپ (ﷺ) کو ایسے مخاطب نہ کرو جیسے عام لوگوں کو مخاطب کرتے ہو -
جن کی تحسین کی ان کے متعلق فرمایاکہ:یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے حبیب(ﷺ) کے دربار میں اپنی آوازوں کو پست کر دیا تو ہم نے ان کے دلوں کو تقوٰی کے لیے خالص کر دیا-یعنی فقط ادب و تعظیمِ مصطفےٰ (ﷺ) کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقوٰی کے لئے خالص کر دیا-
جن کی مذمت کی ان کے متعلق فرمایا کہ : یہ لوگ میرے حبیب مکرم(ﷺ)کے دَر پر آکر اونچی آواز میں بات کرتے ہیں- اکثر کو یہ عقل و شعور ہی نہیں ہے کہ یہ کس بارگاہ کے دربار میں کھڑے ہیں-اس لئے ان کے تمام اعمال غارت ہو جائیں گے اور ان کو خبر بھی نہیں ہوگی-
امام بخاریؒ ’’صحیح بخاری‘‘ میں صحابہ کرامؓ جو آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں ادب وتعظیم کے پیکر تھے،کہ متعلق لکھتے ہیں کہ :
حضرت عروہ بن مسعودؓ اسلام لانے سے قبل صلح حدبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ کی طرف سے ثالث بن کر آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضرہوئے- صحابہ کرامؓ کاادب اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے- جب یہاں سے واپس اپنی قوم کی طرف گئے اور کہا اے لوگو! اللہ کی قسم!میں بادشاہوں کے پاس گیا، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس گیا ہوں- اللہ کی قسم! میں نے ہر گز نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کی اس کے لوگ اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا محمد (ﷺ) کے اصحاب سیدنا محمد (ﷺ) کی کرتے ہیں-پھر اس نے اپنا آنکھوں دیکھا حال سنانا شروع کیا:
’’وَاللّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلاَّ وَقَعَتْ فِىْ كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهٗ وَ جِلْدَهٗ وَ إِذَا أَمَرَهُم اِبْتَدَرُوْا أَمْرَهٗ وَ إِذَا تَوَضَّأَ كَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَى وَضُوْئِهٖ وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهٗ ، وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَّهٗ‘‘[22]
’’جب بھی حضرت محمد (ﷺ) لعاب مبارک پھینکتے ہیں تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی مرد کے ہاتھ میں ہی جاتا ہے-پس وہ اس لعاب کو اپنے چہرے اور اپنے بدن پر ملتے ہیں اور جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تووہ سب تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضوء فرماتے ہیں تو ان کے وضوء کا بچا ہوا پانی لینے کے لئے اس طرح جھپٹتے ہیں کہ گویا ایک دوسرے کو قتل کردیں گےاور جب آپ (ﷺ) گفتگو فرماتے ہیں تو ان کے سامنے وہ سب اپنی آوازوں کو پست کردیتے ہیں اور ان کی تعظیم کیلئے ان کو نظر بھر کر نہیں دیکھتے‘‘-
سبحان اللہ! حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس سے اس قدر اُنسیت و محبت کا یہ انتہائی درجہ صحابہ کرامؓ کو قرآن مجیدنے سکھایا تھا-
میرے دوستو! تکرار کے ساتھ حضور نبی کریم (ﷺ) کا ذکر مبارک کرنا عامۃ الناس کے لئے باعثِ ہدایت ہے-تاکہ کسی بھی طریق سے آقا کریم (ﷺ) سے ہماری وہ محبت قائم ہوجائے جو صحابہ کرام و اہل بیت اطہارؓ، آئمہ و مجتہدین، محدثین و مفسرین اور صوفیاء کاملینؒ نے قائم کی-
آخر میں قارئین کی توجہ ایک اہم مسئلہ جو ہماری بقاء کا مسئلہ ہے، کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا کہ پاکستان ایک سیاسی حادثہ نہیں تھا بلکہ پاکستان مسلمانانِ ہند کیلئے گنبد خضراء کا فیضان اور آقا کریم (ﷺ) کا عطیہ ہے-ہمارے آباؤ اجداد نے اسے قربانیاں دے کر حاصل کیا اور آج تک اس مملکت خداداد کی تکمیل کیلئے کشمیری مسلمان قربانیاں دے رہے ہیں-اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں ؟اس کا واضح اور سادہ سا جواب یہ ہے کہ جنازہ کے وقت کوئی کشمیری جسد خاکی ایسا نظر نہیں آئے گا جو سبز ہلالی پرچم میں نہ لپٹا ہوا ہو- یعنی کشمیریوں کی تڑپ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہے-اس لئےیہ مملکتِ عظیم ان کی قربانیوں کی بدولت قائم و دائم ہے-
یاد رکھیں! عصر حاضرمیں اس قدر بڑے انتشار پھوٹے کہ جس کے سامنے عراق، لبنان، شام، تیونس کی مضبوط آرمی نہ ٹھہر سکی- وہی انتشار اس مملکت پاکستان میں بھی بپا ہوا لیکن پاکستان میں صوفیانہ فکر کی تربیت، بہادر افواج، ہماری سیکورٹی کے دیگر اداروں اور قوم کی قربانیوں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس انتشار سے نجات دی-
یہ بات بھی ذہن نشین رہےکہ دورِ حاضر میں جنگ بندوق، توپ، ٹینک، فائٹر جہاز اور میزائل سے نہیں ہوتی بلکہ اسمارٹ فون، سوشل میڈیااور ڈس انفارمیشن کے ذریعے سے ہوتی ہے-میری تمام اہلیان پاکستان کو یہ گزارش ہے کہ 5th جنریشن وار میں دشمن کی آگ کا ایندھن نہ بنیں بلکہ اپنے ملک کی سالمیت، استحکام اور بقاء کا پہرا دیں- اس لئے اپنے سینوں میں دولت ایمان اور یقین کو زندہ رکھیں کہ پاکستان اللہ تعالیٰ نے قائم رکھنے کیلئے بنایا ہے اور پاکستان نے ہی مستقبل میں حضور رسالت مآب (ﷺ) کے دین کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنا ہے- پاکستان سے وفا گنبدِ خضرٰی سے وفا ہے-
سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد علی صاحب(دامت برکاتہم العالیہ) کا یہی پیغام اور دعوت ہے کہ آؤ! عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) سے اپنے دل فروزاں کر لو-اپنے دلوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت و تعظیم کو وہ مقام دو کہ تمہارا مقام بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بلند ہو جائے-کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا ادب سببِ تقویٰ ہے-
تمام خواتین و حضرات کو یہ دعوت پیش کی جاتی ہے کہ آئیں اور اس تحریک کے شانہ بشانہ عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کے پیغام کو عام کریں-اُس تربیت کو حاصل کریں جو انسان کے ظاہر و باطن کی پاکیزگی عطا کرتی ہے -
٭٭٭
[1](الکوثر:1)
[2](لسان العرب)
[3](القلم:3)
[4](تفسیر القرآن)
[5](التین:6)
[6](القلم:4)
[7](الأسماء والصفات للبيہقی)
[8](لسان العرب:باب :عظم)
[9](مسند احمد بن حنبل)
[10](الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے(ﷺ)
[11](مفاتیح الغیب:زیر آیت:القلم :4)
[12](الضحیٰ:4)
[13]( روح المعانی)
[14](الفتح:8)
[15](الفتح:9)
[16](الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے(ﷺ)
[17]( شفاء شریف اردو،جلد دوم ،ص:29)
[18]( شرح الشفا: الجزء الأوّل، المقدمہ )
[19]( الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے (ﷺ)
[20](المواهب اللدنيۃ)
[21](المواهب اللدنیۃ)
[22](صحيح البخارى، کتاب الشروط)