شرفِ اِنسانیت کے مدارج

شرفِ اِنسانیت کے مدارج

بنیادی اصول ہے کہ جس چیز سے اُنس و محبت ہو اُس کا ذکر عزت اور شرف سے کیا جاتا ہے- انسان کی دینی اور اُخروی زندگی میں بھی اور دنیا کے تمام معاملات میں بھی ہر ایک چیز کے کچھ آداب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے مقرر کر دیے گئے ہیں- اس لیے ان تمام چیزوں کا تعارف ایک  نمایاں شرف رکھتا ہے کیونکہ وہ شرف اسے بارگاہِ الٰہی سے عطا ہوتا ہے-

مثلاًایک بچہ ہم عمر بہن بھائیوں سے بے تکلف رہتا ہے لیکن اپنے والدین کا ادب اِس لئے کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کا جو مقام بنایا ہے، جب اُس بچے کو وہ مقام سمجھایا گیا تو اُس بچے میں حفظِ مراتب کا یہ شعور پیدا ہوا -

 دوسری مثال: ایک بچہ اپنے ہم عمر یا کم عمر دوستوں سے جس  طرح بلا جھجک اور بلا تکلف مخاطب ہوتا ہے اُس طرح وہ اپنے استاد سے مخاطب نہیں ہو تا کیونکہ اُس بچے کو استاد کا ادب سمجھایا گیا ہے-

اسی طرح جب معاشرہ تشکیل پاتا ہے تو عہدے کے اعتبار سے بعض شرف طے ہو جاتے ہیں- مثلاً دو دوستوں میں جس قدر بھی بے تکلفی ہو لیکن اُن میں سے ایک دوست صاحب جج اور دوسرا وکیل ہے تو  ڈرائنگ روم میں بے تکلفیاں مارنے والا دوست کمرہء عدالت میں تکریم کا پابند ہے – کمرہء عدالت میں جج کے منصب کے احترام کی خلاف ورزی نہ اس کا والد کر سکتا ہے نہ بھائی، نہ  دوست -کیونکہ معاشرے کو اُس منصب کا ادب سمجھایا گیا ہے-

 اسی طرح جب کسی  عقیدہ یا مذہب  سے تعلق رکھا جاتا ہے تو وہاں بھی بعض شخصیات دینی اور روحانی اعتبار سے قابل احترام ہوتی ہیں-کیونکہ با اعتبارِ علمی اور بااعتبار روحانی انہوں نے اپنے کردار کی قوت سے اپنا شرف ثابت کیا ہوتا ہے-اس لئے ان کا احترام ان کے پیروکاروں میں جاری و ساری رہتا ہے کیونکہ اُن کے اساتذہ اورشیوخ نے اُن شخصیات کا احترام اُن کے ماننے والوں کوسمجھایا ہوتا ہے-

مورخین ،مفسرین، محدثین، تابعین (رح) نے فضائل و مناقب پہ مکمل ابواب رقم اور نقل فرمائے-مثلاً سیّدنا رسول اللہ  (ﷺ) کی عظمت  و فضیلت، آپ (ﷺ) کے اہل بیت اطہار و صحابہ کرام (رض) کے فضائل و مناقب، آپ (ﷺ) کی امت اور اِس امت کے صالحین کا شرف- یہی وجہ ہے کہ  ان سب ذوات مقدسہ کا ادب اور امتیازی مقامات ہمارے دلوں میں راسخ ہیں-

ایک ہستی ایسی بھی ہے جس کا شرف و احترام خود رب کائنات نے اپنی پاک کتاب میں بیان فرمایا ہے اوروہ ہستی ’’انسان‘‘ ہے-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَالتِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِ ۙ؁ وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ ۙ؁ وَ ہٰذَا  الْبَلَدِ الْاَمِیۡنِ ۙ؁ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ  اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[1]

’’انجیر کی قسم اور زیتون ،اور طور سینا ،اور اس امان والے شہر کی ،بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا‘‘-

اصول ہے کہ جب کوئی صاحبِ اقتدارکسی کو کوئی چیز تفویض کر دیتا ہےپھر صاحبِ اقتدار کے علاوہ کسی کا کوئی اختیار نہیں رہتا کہ وہ تفویض کردہ چیزاُس سے چھین سکے -مثلاً حکومت وقت کسی معاہدے یا اعلیٰ ترین خدمت کے عوض کسی کو کچھ رقم  یا جائیداد عطا کرتی ہے تو ماسوائے حکومت کے اُس سے وہ رقم یا جائیدادکوئی چھین نہیں سکتا-

اے بندگانِ خُدا! انسان کو کلی شرف اور تاجِ کرامت حکومتِ وقت یا سرکاری عہدے پہ فائز کسی صاحبِ اقتدار نے نہیں دیا بلکہ خود رب ذوالجلال نے اپنی پاک بارگاہ سے عطا فرمایا ہے-خدا کی بارگاہ جس کو شرف عطا فرما دے اس سے وہ شرف چھینا نہیں جا سکتا اور اگر کوئی اس شرف کو چھیننے کی کوشش بھی کرے تو وہ  ذات خود اپنے عطا کردہ شرف کی حفاظت فرماتی ہے-

تاریخ بھری پڑی ہے کہ جب بھی وقت کے فرعونوں، نمرودوں اور شدادوں نے انسان  کی تقدیس و تعظیم کا یہ شرف چھینا چاہاتواللہ تبارک و تعالیٰ نے بذریعہ نبوّت، وحی اور الہام انسان کےشرف کی حفاظت فرمائی- اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی کہ مَیں نے جسے عزت و احترام عطا فرمایا ہے تم میں سے کوئی بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ انسان کے اِس شرف کو چھین سکے-

یاد رکھیں! انسان امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا رعایا، گورا ہو یا کالا، حاکم ہو یا محکوم، دنیا اسے ادنیٰ کہے یا اعلیٰ اُس کے انسان ہونے کا شرف کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ یہ شرف اسے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے-لہٰذا اس کے عہدوں، دولت، رنگ و نسل ، علاقہ شناخت اور تمام عزتوں سے بالا وہ عزت ہے جو شرف انسانی کے ناطے عطا ہو جاتی ہے- اس ناطے سے قومی، نسلی، صوبائی، علاقائی، لسانی، سماجی، سیاسی اور کسی بھی تفاخر کی بنیاد پر دنیا کے کسی بھی انسان کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اپنے سے کمتر و ادنیٰ تصوّر کر ے-

انسان کی عزت و عظمت محض خاکی وجود ہی کی نہیں ہے بلکہ انسان کی ہر حالت وکیفیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے اس شرف کو برقرار رکھا ہے- مثلاً اس کائنات کی تخلیق سےقبل جب موجودات اور مخلوقات نہ تھے  اُس وقت بھی قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے انسان کو ایک امتیازی رتبہ کے ساتھ قائم رکھا تھا-

 جب یہ مخلوقات اور موجودات اپنی ہیئت و صورت اختیار کرنے کی جانب جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جملہ ارواح میں روحِ انسان کو ایک امتیازی شرف کے ساتھ رکھا تھا- جب وجود کی تخلیق ہوتی ہے اُس وقت بھی رب ذوالجلال ارشاد  فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو تمام مخلوقات میں سے امتیازی شرف کے ساتھ پیدا فرمایا-پھر جب اس زمین پہ  اُتارا، اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو تمام مخلوقات پر ایک شرف عطا فرمایا- جب زمین پہ آنے کے بعد انسان کی روح نکلتی ہے تو موت اور برزخ کے درمیان کا جو مرحلہ ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف کو قائم کیا- اسی طرح جب انسان کوحشر میں اٹھایا جائے گا وہاں بھی انسان کے شرف انسانی کو قائم رکھا جائے گا-

یہ دین، دینِ رحمت ہے  کیونکہ دین نے انسان کو اس کے مقام و شرف سے آگاہ کیاتھا جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص اپنی بارگاہ عالیہ سے عطا فرمایا تھا، انتہائی افسوس ! ہم نے اس شرف انسانی کو اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ہے-ہم نے فرقہ وارانہ مباحث میں ان نفوس قدسیہ کی تربیت کو بھلا دیا ہے جنہوں نے ہمیں بندوں کی بندگی سے آزاد کیا،مقامِ انسانیت سے روشناس کروایا جس کی بدولت ہم خدا کے مقرّب ٹھہرتے ہیں-

آج ہرجانب مختلف فرقہ واریت، نظریات اور مفادات کے محافظ تو موجود ہیں لیکن انسان کے شرفِ انسانیت کا محافظ ملنا محال ہے-جبکہ  دین اسلام کا اولین پیغام ہی یہ تھا کہ عظمتِ انسانی کو قائم کیا جائے انسانیت کی توقیر و تکریم کو قائم کیا جائے - انسان کے اُس رتبے کو قائم کیا جائے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بارگاہ  مبارک سے اس کو عطا فرمایا ہے-

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں جس عظیم ترین مخلوق سے وابستہ کیا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہر قدم و ہر لمحہ میں اس مخلوق کے محافظ اور اس کی عظمت و توقیر کے علم بردار بن جائیں کیونکہ انسان کی عظمت کو قائم کرنا نہ صرف وقت کے علماء، مبلغین، اولیاء اورانبیاء کا فریضہ رہا ہے  بلکہ خود رب ذوالجلال نے حضرت انسان کے وقار کا دفاع فرمایا ہے-

لہذا! انسان کی تخلیق سے قبل اور بعد کے جو مراحل بیان کئے گئےہیں قرآن کریم و سنت مبارکہ کی روشنی میں بطور حوالہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں-

تخلیق سے قبل انسان کاشرف:

تخلیق سے قبل انسان کے  شرف کو قرآن پاک یوں بیان کرتا ہے:

’’هَلْ أَتٰى عَلٰى الْإِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُورًا‘‘[2]

’’بے شک آدمی پرایک وقت وہ گزرا کہ کہیں اس کا نام بھی نہ تھا‘‘-

یہ آیت کریمہ انسان کو بذات خود اس تخیل کی جانب لے کر جاتی ہے کہ جب میرے وجوداور عزت و احترام کا کوئی گواہ نہ تھا، حتیٰ کہ  جب میں کوئی قابل ذکر چیز بھی نہ تھا اُس وقت بھی بارگاہِ پروردگار میں مَیں قابل عزت تھا-یعنی  جب موجودات اور مخلوقات بھی نہ تھی اُس وقت بھی خالقِ کائنات نے انسان کے شرف و احترام کو قائم رکھا ہوا تھا-

قرآن مجید کے الفاظ ’’حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ‘‘قابل غور ہیں- ’’حِيْن‘‘ سے مراد لامحدود زمانہ اور وقت ہےاور ’’دَھر‘‘سے مراد بھی زمانہ ہے-

امام ابو الحسن علی بن محمد الماوردی (رح)علماءِ متقدمین اور علم التفسیر کے آئمہ میں شمار ہوتے ہیں- آپ اپنی تفسیر میں ’’حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ‘‘کی تشریح کرتے ہوئےلکھتے ہیں :

’’أَنَّ الْحِيْنَ الْمَذْكُوْرَ هَاهُنَا وَقْتٌ غَيْرُ مِقْدَارٍ وَّ زَمَانٌ غَيْرُ مَحْدُوْدٍ‘‘[3]

 (حضرت ابن عباس (رض)کا قول ہے )یہاں جو (حین) کا ذکر کیا گیا ہے  وہ مقدار کے بغیر وقت  ہے اور غیر محدود زمانہ ہے‘‘-

یعنی ایسا زمانہ ہے جس کی طوالت کا کوئی حساب نہیں ہے- انسان کی سوچ اور فہم اُس وقت کی مقدار ماپنے سے قاصر ہے-امام ابن منذر کا قول ہے  کہ:

’’إِنَّ مِنَ الْحِيْنِ حِيْنًا لَا يُدْرَكُ‘‘

’’ حین "ایسا وقت ہے جس کی مدت کا کوئی ادراک نہیں ہو سکتا ‘‘-

 پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا:

’’وَ اللهِ مَا يَدْرِيْ كَمْ أَتٰى عَلَيْهِ حَتّٰى خَلَقَهُ اللهُ تَعَالٰى‘‘[4]

’’اللہ کی قسم وہ نہیں جانتا کہ اس پر کتنی مدت گزری یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے تخلیق کیا‘‘-

’’حِيْن‘‘ یعنی  مدت کا غیر معین ہونا دو اعتبار سے انسان کا شرف ہے-ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ انسان کی مدت کا بھی تذکرہ فرما رہا ہے اور دوسرا یہ کہ ’’حِيْن‘‘  کے اعتبار سے انسان  کا یہ پہلو لامحدود ہے-

’’دَھر‘‘ کے متعلق حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’لَا تَقُوْلُوا  خَيْبَةَ الدَّهْرِ، فَإِنَّ اللّهَ هُوَ الدَّهْرُ‘‘[5]

’’یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامرادی- کیونکہ زمانہ تو اللہ ہی ہے ‘‘-

یعنی زمانہ اور وقت کو برا نہ کہو  اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی سخت لفظ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دھر اور زمانہ ہے-

امام قرطبی (رح)’’تفسیر القرطبی‘‘ میں ’’دَھر‘‘  کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

’’وَ قَدِ اسْتَدَلَّ بِهَذَا الْحَدِيْثِ مَنْ قَالَ: إِنَّ الدَّهْرَ مِنْ أَسْمَاءِ اللهِ وَ قَالَ: مَنْ لَمْ يَجْعَلْهُ مِنَ الْعُلَمَاءِ اسْمًا إِنَّمَا خَرَجَ رَدًّا عَلَى الْعَرَبِ فِي جَاهِلِيَّتِهَا، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَعْتَقِدُونَ أَنَّ الدَّهْرَ هُوَ الْفَاعِلُ، فَكَانُوا إِذَا أَصَابَهُمْ ضُرٌّ أَوْ ضَيْمٌ أَوْ مَكْرُوهٌ نَسَبُوا ذَلِكَ إِلَى الدَّهْرِ فَقِيلَ لَهُمْ عَلَى ذَلِكَ لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ،  أَيْ إِنَّ اللّهَ هُوَ الْفَاعِلُ لِهَذِهِ الْأُمُورِ الَّتِي تُضِيْفُونَهَا إِلَى الدَّهْرِ فَيَرْجِعُ السَّبُّ إِلَيْهِ سُبْحَانَهُ، فَنُهُوا عَنْ ذَلِكَ.  وَ دَلَّ عَلَى صِحَّةِ هذا ما ذكرناه  قَالَ اللّهُ تَعَالٰى: يُؤْذِيْنِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ: وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الْأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‘‘[6]

اس حدیث پر استدلال کرتے ہوئے کہا گیا کہ دھر بھی اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے’’اور جن علماء نے اسے اللہ کا اسم نہیں بنایا تو انہوں نے اس اسم کو صرف عربوں  کی زمانہ جاہلیت کی تردید میں  (اللہ کے اسماء میں سے) خارج کیا  ہے کیونکہ ان کا اعتقاد تھا کہ دھر ہی فاعلِ (حقیقی) ہے، پس جب انہیں کوئی مصیبت،  تکلیف یا ناپسندیدہ بات پہنچتی تھی تو وہ اسے زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے-اسی بنا پر انہیں کہا گیا کہ زمانے کو گالی نہ دو بے شک اللہ ہی دھر ہے-یعنی ان امور کا فاعلِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے جسے تم  الدھر یعنی زمانے کی طرف منسوب کرتے ہو ، کیونکہ یہ گالی اللہ سبحانہ کی طرف جاتی ہے-اور جو کچھ ہم نے ذکر کیا (کہ الدھر اللہ کا اسم ہے) ، اس حدیث سے کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے کہ وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور میں ہی الدھر ہوں، میرے ہاتھ میں امور ہیں، دن رات کو میں تبدیل کرتا ہوں‘‘-

تو اس لحاظ سے انسان نے ’’دہر‘‘ کے ساتھ ایک غیر معینہ مدت اور لامحدود زمانہ گزارا ہے جس کی کیفیت کا اندازہ صرف مالکِ کائنات ہی جانتا ہے - انسان کی روح کی ازلی پاکیزگی کا تصور صوفیائے کاملین نے اسی زمانہ سے ملا کر بیان کیا ہے - مثال کے طور پہ؛ حضرت سلطان العارفین قدس اللہ سرہ اپنے ابیات میں فرماتے ہیں :

کن فیکون جداں فرمایا اساں بھی کولے ہاسے ھُو
ہکے ذات صفات ربے دی آہی ہکے جگ ڈھنڈیاسے ھُو
ہکے لامکان، مکان اساڈا ہکے آن بتاں وچ پھاسے ھُو
نفس پلیت پلیتی کیتی باھُو، کوئی  اصل پلیت تاں ناسے ھُو

’’لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا‘‘ کی تفسیر میں امام یحیٰ بن سلام کا قول ہے  کہ :

’’لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُوْرًا فِي الْخَلْقِ ، وَإِنْ كَانَ عِنْدَ اللهِ شَيْئًا مَّذْكُوْرًا ‘‘[7]

’’وہ تخلیق کے اعتبار سے مذکور نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک شئے مذکور تھا- (تبھی تو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس وقت کا بھی باقاعدہ تذکرہ  کیا)‘‘-

انسان کا تخلیق ظاہری سے پہلے عالمِ ارواح کا شرف: 

خلقتِ روح کے وقت جو انسان کو شرف عطا فرمایا گیا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس وقت انسان کی محبت میری بارگاہ میں اس قدر قابل دیدتھی کہ وہ میری تمام مخلوقات میں منفرد و ممتاز تھی-جس کو قرآن  کریم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

’’إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ أَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ أَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ط إِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا‘‘[8]

’’ بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی  آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئےاور آدمی نے اٹھالی بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے‘‘-

حضرت مُقاتل بن حیّان (تابعی) (رض)سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ عز وجل نے جب اپنی مخلوق کو تخلیق فرمایا تو جن و انسان، آسمان، زمین  اور پہاڑ (ان) سب کو جمع فرمایا-آسمان سے ابتداء فرمائی اور ان پر اپنی اطاعت  کی امانت پیش فرمائی-اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا: (اے آسمانو!) کیا تم اس امانت کو قبول کرتے ہو، میں تجھے  جنت میں فضل  و عزت اور ثواب عطا کروں گا-انہوں نے کہا کہ ہم اس امر کی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہم میں طاقت ہے، لیکن ہم تیرے اطاعت گزار رہیں گے-پھر یہ امانت زمینوں پر پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم یہ امانت قبول کرتی ہو تاکہ میں تمہیں جنت میں فضل و عزت عطا فرماؤں-زمینوں نے بھی عرض کیا کہ اے ہمارے رب ! اس کا ہم میں صبر نہیں ہے اور نہ ہی ہم طاقت رکھتے ہیں لیکن جس کام کا تو ہمیں حکم دے گا اس میں ہم تیری نافرمانی نہیں کریں گی-پھر پہاڑوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے بھی اس طرح کہا-پھر آدم کو پیش کیا گیا  اور کہا کہ کیا تم اس امانت کو قبول کرو گے اور اس کی رعایت کا حق ادا کرو گے؟’تو آدم نے عرض کیا کہ میرے لئے  اس کے بدلے تیری بارگاہ سے کیا ملے گا؟

قَالَ: يَا آدَمُ، إِنْ أَحْسَنْتَ وَأَطَعْتَ وَرَعَيْتَ الْأَمَانَةَ فَلَكَ عِنْدِي الْكَرَامَةُ وَالْفَضْلُ وَحُسْنُ الثَّوَابِ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَصَيْتَ وَلَمْ تَرْعَهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا، وَأَسَأْتَ فَإِنِّي مُعَذِّبُكَ  وَمُعَاقِبُكَ، وَأُنْزِلُكَ النَّارَ، فَقَالَ قَدْ رَضِيتُ رَبِّ وَ تَحَمَّلْتُهَا‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ؛ اے آدم(انسان) اگر تم نے احسان کیا، اطاعت کی اور امانت کی حفاظت کی تو تیرے لئے عزت و کرامت اور جنت میں حسنِ ثواب ہےاور اگر تو نے نا فرمانی کی اور اس کی رعایت کا حق ادا نہ کیا اور برائی کی تو پھر میں تجھے عذاب دوں گا، سزا  دوں گا اور تجھے آگ میں ڈال دوں گا-انسان نے فرمایا:اے میرے رب! مَیں  متفق  و راضی ہوں اورمیں نے اسے(خوشی سے) قبول کر لیا‘‘-

’’اس وقت اللہ تعالیٰ نے ارشاد  فرمایا کہ میں نے یہ امانت تیرے حوالے کی-یہ وہ  فرمان  مبارک ہے کہ انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا، بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے-

يَقُولُ: ظَلُومًا لِنَفْسِهِ فِي خَطِيئَتِه جَهُولًا بِعَاقِبَةِ مَا يَحْمِلُ مِنَ الْأَمَانَةِ[9]

’’حضرت مُقاتل فرماتے ہیں؛ وہ اپنے نفس کی خطاؤں میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے ، اور جو امانت اس نے اٹھائی ہے اس کے انجام سے جاہل ہے‘‘-

اندازہ لگائیں! استعارۃً دیکھیں تو آسمان بلندی اور وسعت کا استعارہ ہے - پہاڑ مضبوطی اور طاقت کا استعارہ ہے- زمین تنوع ، رنگ برنگیت، کثرت اور گہرائی کا استعارہ ہے- یہ تمام صفات امانت کا بوجھ اٹھانے سے عاجز آگئیں مگر انسان نے اسے قبول کر کے ثابت کر دیا کہ یہ اپنی صلاحیتِ روحانیہ کے اعتبار سے بلندی و وسعت میں آسمان سے زیادہ ہے ، مضبوطی و طاقت کے اعتبار سے پہاڑوں سے زیادہ ہے اور تنوع، رنگ برنگیت، کثرت اور گہرائی کے اعتبار سے زمین سے زیادہ ہے -

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان جس وقت قابل ذکر شے بھی نہ تھا اس وقت بھی مَیں اس سے محبت کرتا تھا اور آج جب اس میں اپنی روح پھونک کر قابل قدر شے بنایا ہے تو میری امانت کا بوجھ اس نے اٹھا لیا ہے-یعنی بارگاہِ رب ذوالجلال میں  جو انسان کا شرف  ہے وہ شرف نہ تو آسمان، نہ پہاڑ اور نہ ہی زمین لے سکی -یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ کل کائنات  کے اوپرانسان کا جو شرف ہے وہ اس بارِ امانت کی وجہ سے ہے-اس لئے ہماری سوچ اورعقل انسان کی عزت و تحریم کا احاطہ نہیں کرسکتی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو ہر زمانے کے لئے عطا فرما رکھی ہے -

تخلیق کے حوالے سے انسان کا شرف :

قرآن کریم ہر زمانے میں انسان کی عزت و تکریم کی گواہی دیتا ہے- خلقت کی تخلیق میں بھی انسان کو مقامِ انفرادیت عطا ہوا ہے- یعنی خلقت میں باقی اشیاء کا دورانیہ اور انسان کی تخلیق کے دورانیہ  میں بہت زیادہ فرق ہے-قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں کائنات کی تخلیق کے دورانیہ کو بیان کیا گیا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ‘‘[10]

’’آسمان  و زمین  اور جو کچھ  ان کے درمیان  ہے  ان کو  چھ(6)  دن  میں بنایا  ‘‘-

یعنی اس پوری کائنات کو محض چھ دنوں میں پیدا کر دیا لیکن جو انسان کی تخلیق ہے اُس کو دورانیے میں بھی اللہ تعالیٰ نے عزت عطا فرمائی اور اس کی تخلیق کی ہیئت اور صورت میں  بھی اللہ تعالیٰ نے اس کو امتیاز عطا فرمایا-

امام قرطبی، علامہ محمود آلوسی، امام ابن ابی سعود اور متعدد آئمہ کرام (رح)نے ’’اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ ‘‘[11] کی تفسیر  میں لکھا ہے کہ:

’’أنَّهٗ خُلِقَ مِنْ طِيْنٍ فَاَقَامَ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً ثُمَّ مِنْ حَمَإٍ فَاَقَامَ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً ثُمَّ مِنْ صَلْصَالٍ فَاَقَامَ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً فَتَمَّ خَلْقَهٗ بَعْدَ مِائَةٍ وَّعِشْرِيْنَ سَنَةً ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ الرُّوْحُ‘‘[12]

’’انسان کو گیلی مٹی سے بنا کر چالیس سال رکھا گیا، پھر گوندھی مٹی میں چالیس سال رہا، پھر کھنکتی مٹی میں چالیس سال رہا، پھر اس کی ایک سوبیس سال کے بعد تخلیق مکمل ہو گئی پھر اس میں روح پھونکی گئی‘‘-

گویا 120 برس کا عرصہ محض انسان کے ظاہری وجود کی تخلیق کے اوپر اللہ تبارک وتعالیٰ نے گزارا ہے اور باقی زمین اور آسمان کے درمیان جتنی مخلوقات ہیں ان کو از روئے قرآن محض چھ دنوں میں تیار کر دیا-120برس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس وجود میں روح کو پھونکا-

انسان کے جسدِ خاکی کا شرف:

علامہ محمود آلوسی لکھتے ہیں کہ:

’’مَرَّتْ بِهٖ اَرْبَعُوْنَ سَنَةً قَبْلَ اَنْ يُّنْفَخُ فِيْهِ الرُّوْحُ وَ هُوَ مَلْقًى بَيْنَ مَكَّةَ وَ الطَّائِفَ‘‘[13]

’’انسان کے وجود میں روح داخل کرنے سے پہلے یہ مکہ اور طائف کے درمیان چالیس سال پڑا رہا‘‘-

اللہ تعالیٰ جو ہر شے پر قادر ہے،وہ جب  ارادہ فرماتا ہے تو عدم سے ہست اور ہست سے عدم وجود میں آجاتا ہے لیکن  وہ بتانا یہ چاہتا ہے کہ مَیں نے جسے اپنا نائب اور خلیفہ چنا، مَیں نے اسے ہر ہر کیفیت میں باقی تمام اشیاء سے انفرادی اور امتیازی مقام عطا فرمایا- یعنی اگر مَیں نے ا سے پنی بارگاہ میں رکھا تو بھی سب سے امتیازی حیثیت عطا کی، اگر اسےتخلیق فرمایا تو اس کے تخلیق کرنے کی مدت بھی باقی مخلوقات سے ممتاز کر دی-

بدقسمتی سے! دشمنی اور عداوت میں انسان کو جس طرح گالم گلوچ اورغلط القاب سے دھتکارا جاتا ہے،اسی انسان کے متعلق رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اسے جتنا عزیز رکھو گے مَیں  تمہیں اُتنا اپنے قریب کروں گا-

صوفیاء کرام کے دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات ہیں  اور ہر آدمی کی عقل و فکر اس قابل نہیں کہ ان کی حکمت کو سمجھ سکے-حضرت ابراہیم بن ادہم (رح)کا ایک بہت دلنشیں واقعہ ہے جس کا متعدد صوفیاء کرام نے اپنی  کتب میں تذکرہ نقل کیا-اس واقعہ کی باریکی، لطافت اور نزاکت کو سمجھیے!

’’حضرت ابراہیم بن ادہم (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک فرشتہ فہرست بنا رہا تھا- مَیں نے اُس فرشتے سے پوچھا کیا لکھ رہے ہو- اُس نے کہا کہ مَیں اللہ کے دوستوں کی فہرست بنا رہا ہوں- تو پوچھا اے ملک! کیا میرا نام بھی اس میں شامل ہے؟ اُس کے دوستوں میں میرا نام لکھ دینا کیونکہ میں نے جو خدا کی بندگی کی ہے اس کا تو علم نہیں کہ حق ادا کیا ہے یا نہیں-لیکن مَیں نے کبھی خدا کی مخلوق کو نہیں ستایا -اس لئے میرا نام خدا کی مخلوق کے دوستوں میں لکھ دینا -فرماتے ہیں کچھ عرصے بعد میں نے اسی فرشتے کو دیکھا وہ پھر ایک فہرست بنا رہا تھا- مَیں نے کہا اے ملک! کس کی فہرست بنارہے ہو- کہنے لگا: اللہ کے دوستوں کی-فرمایا میرا نام بھی اس میں ہے؟ تو اس نے کہا اے ابراہیم تمہارا نام اللہ نے اپنے بندوں سے محبت کی وجہ سے سر فہرست رکھوا دیا ہے‘‘-

بزبانِ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ:

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

اس لیے جو خدا کے بندوں سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی اپنی بارگاہ میں امتیازی مقام عطا فرماتا ہے-

فرشتوں سے سجدہ کروا کر انسان کو شرف عطا کرنا:

جو مسلمان کلمہ پڑھتے ہیں ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘اس کا پہلا حصہ ہے ’’لا الہ الا اللہ‘‘، ’’کوئی بھی نہیں ہے عبادت کے لائق مگر اللہ‘‘- یعنی سوائے اللہ کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں ہے اور عبادت میں عظیم ترین جزو سجدہ ہے- سوائے رب ذوالجلال کے کسی کو بھی سجدہ کرنا مطلقاً حرام اور شرک عظیم ہے- لیکن خداکی ذات کے علاوہ اُس کے حکم سے اگر اُس کے مقرب فرشتوں نے کسی کو سجدہ کیا ہے تو وہ فقط  ابو الانسان وجودِ آدم (ع)کو سجدہ کیا ہے-اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ  سٰجِدِیْنَ‘‘[14]

’’پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں  اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لئے سجدے میں گرنا‘‘-

مزید ارشادِ ربانی ہے:

’’ وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ ز ق وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ‘‘[15]

’’اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا- سوائے ابلیس کے، منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا‘‘-

یعنی جس نے وجودِآدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے صف ملائکہ سے باہر نکال دیا-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا  لِاٰدَمَ صلے ق فَسَجَدُوْٓا  اِلَّآ  اِبْلِیْسَ ط لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ‘‘[16]

’’اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا‘‘-

اب انسان کی صورت پر توجہ دیجئے! اللہ تعالیٰ نے جس صورت کی جانب ہاتھ اٹھا کر لعنت کرنے کو منع کیا ہے لیکن ہم بد قسمتی سے یہ فعل اکثر سر انجام دیتے ہیں-اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت کو جو شرف عطا فرمایا ہے اسے امام حاکم نے یوں نقل  کیا ہے:

’’حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛

’’وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَرْنَاكُمْ‘‘ قَالَ : خُلِقُوْا فِيْ أَصْلَابِ الرِّجَالِ، وَصُوِّرُوْا فِيْ أَرْحَامِ النِّسَآءِ‘‘[17]

’’اور ہم نے تمہیں تخلیق کیا، پھر صورت عطا کی، فرمایا؛ انسانوں کو مردوں صلبوں میں تخلیق کیا اور عورتوں کی رحموں میں صورت بخشی‘‘-

انسان کا شکم مادر میں شرف:

اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

’’ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ‘‘[18]

’’وہی ہے کہ تمہاری تصویر بناتا ہے ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے‘‘-

انسان کے اہتمام خلقت پر غور کیجیے! ایک ایک لمحے پر رب تعالیٰ نے انسان کے لئے خاص اہتمام فرمایا ہے -یعنی جس طرح کوئی بارات تیار ہوتی ہے اس میں شریک ہونے والا ہر فرد اپنی استطاعت اور ذمہ داری کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا ہے-لیکن پوری بارات میں جس کے حسن و زیبائش پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اسے دولہا یا دلہن کہتے ہیں اور پوری بارات کے تمام تر معاملات و اہتمام دلہا اور دلہن کے لئے ہوتے ہیں- کیونکہ وہ دلہا اور دلہن اس محفل و بارات  کی وجہ ہوتے ہیں-اسی طرح جب اللہ تعالیٰ انسان کو اتنی زیبائی و خوشنمائی عطا کرے، اس کی پیدائش و خلقت اور عزت و عظمت کے اوپر اتنا اہتمام کرے تو از روئے قرآن و سنت یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کل مخلوقات انسان کے گرد باراتی کی حیثیت رکھتی ہیں -

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اَللہُ  الَّذِیْ جَعَلَ  لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ‘‘[19]

’’اللہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین ٹھہراؤ بنائی اور آسمان چھت  اور تمہاری تصویر کی تو تمہاری صورتیں اچھی بنائیں اور تمہیں ستھری چیزیں روزی دیں‘‘-

یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے  جس نے  انسان کےلئے زمین کو قرار فرمایا، آسمان کو چھت بنایااور انسان کی صورت کو کل کائنات میں سے سب سے احسن بنایا- کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم سید الانبیاء، خاتم النبیین، وجۂ تخلیق کائنات (ﷺ)کو صلبِ آدم (ع)  اور بنی نوع انسان میں سے پیدا فرمایا-یہی وجہ ہے کہ جس مخلوق میں آقا کریم (ﷺ) تشریف لائے وہ مخلوق کائنات کی افضل ترین مخلوق قرار پائی-

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’خَلَقَ  السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَ صَوَّرَکُمْ  فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ ۚ وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ‘‘[20]

’’اس نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے اور تمہاری تصویر کی تو تمہاری اچھی صورت بنائی؛ اور اسی کی طرف پھرنا ہے‘‘-

امام نجم الدین کبریٰ (رح)انہی آیات کی تاویل میں فرماتے ہیں:

’’وَ تَصْوِیْرُہُ فِی الرِّحْمِ بِنَفْسِہٖ‘‘[21]

’’رحم میں انسان کو خود صورت عطا فرمائی ‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان سے محبت اور اس کی عظمت کےاظہار کے لئے خود اس کی صورت کو بنایا-

امام طبری (رح)حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کا قول نقل کرتے ہیں:

’’يَعْنِيْ آدَمَ خَلَقَهٗ بِيَدِهٖ‘‘[22]

’’یعنی (اللہ تعالیٰ نے) آدم  کو اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا‘‘-

امام عبد الرزاق (رح) ’’مصنف عبد الرزاق‘‘، امام ابن حبان (رح) ’’صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ‘‘  اور امام بخاری(رح)’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث پاک رقم کرتے ہیں کہ’’ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا :

’’ خَلَقَ اللهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا ‘‘-

جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں  کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا- آدم (ع)نے کہا السلام علیکم ! فرشتوں نے جواب دیا، و علیکم السلام ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم (ع) کے سلام پر ” ورحمۃ اللہ “ بڑھا دیا-

 فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلٰى صُوْرَةِ آدَمَ،

’’پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا حضرت آدمؑ کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا ‘‘-

اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد وقامت کم ہوتا گیا-اب تک ایسا ہی ہوتا رہا  ‘‘-

اندازہ لگائیں کہ رب تعالیٰ نے انسان کو اور بالخصوص اس کی صورت کو کس قدر عزت و شرف سے نوازا ہے-

انسان کا صفاتِ الٰہیہ کا مظہر ہونا:

امام قرطبی (رح)اسی حدیث پاک کے تناظر میں فرماتے ہیں کہ:

لَیْسَ لِلّٰہِ تَعَالیٰ خَلْقٌ اَحْسَنُ مِنَ الْاِنْسَانِ ،فَاِنَّ اللہَ خَلَقَہٗ حیًّا عَالِمًا، قَادِرًا مُرِیْداً مُتَکَلِّماً، سَمِیْعًا بَصِیْراً، مُدَبِّراً حَکِیْمًا ھٰذِہٖ صِفَاتُ الرَّبِّ سُبْحَانُہٗ وَعَنْھَا عَبَّرَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ،وَوَقَعَ الْبِیَانُ بِقَوْلِہٖ :’’اِنَّ اللہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ‘‘

’’اللہ پاک کے ہاں انسان سے بڑھ کر ئی حسین مخلوق نہیں پس بے شک اللہ پاک نے اس کو حی، عالم، قادر، مرید، متکلم، سمیع، بصیر، مدبر، حکیم بنایا ہے(اور) یہی صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں اور انہی کے بارے بعض علماء نے تعبیر کیا اور اللہ پا ک کا فرمان مبارک بھی ہے: بے شک اللہ پاک نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ‘‘ -

یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت بھی اپنے نور سے مزین فرمائی اور صفات میں بھی اپنی صفات میں سے عطا فرمائی ہیں-یہ وہ شرف و امتیاز ہے جو انسان کو اُس وقت عطا ہوا جب اس کو خلقت، صورت اور صفات عطا ہو گئیں-گویاانسان تصور ہی نہیں کر سکتا کہ یہ جو چلتے پھرتے انسان جنہیں ہم کبھی حقیر سمجھتے ہیں، اس انسان کو اللہ تعالیٰ نے کتنی عزت و عظمت عطا فرمائی ہے-

تخلیق  کے بعد انسان کا شرف:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا‘‘[23]

’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی‘‘-

قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

’’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ بِحُسْنِ الصُّوْرَةِ وَ الْمِزَاجِ الْعَدْلِ وَاِعْتِدَالِ الْقَامَةِ وَ التَّمَيُّزِ بِالْعَقْلِ وَ الْاِفْهَامِ بِالنُّطْقِ وَ الْاِشَارَةِ وَ الْخَطِّ وَ التَّهَدِىِّ إِلَى اَسْبَابِ الْمَعَاشِ وَ الْمَعَادِ وَ التَّسَلُّطِ عَلَى مَا فِى الْأَرْضِ بِاَنْ سَخَّرَ لَهُمْ سَائِرَ الْأَشْيَاءِ وَ الْتَّمَكُّنِ مِنَ الصَّنَاعَاتِ وَ اِتِّسَاقِ الْأَسْبَابِ وَ اَنْ يَّتَنَاوَلَ الطَّعَامَ بِيَدِهٖ إِلَى فِيْهِ بِخِلَافِ سَائِرِ الْحَيْوَانَاتِ‘‘[24]

’’ ہم نے اولاد آدم کو عمدہ صورت، معتدل مزاج، معتدل اقامت، عقل کی تمیز،   بولنے، اشارہ کرنے  اور لکھنے کی صلاحیت(کافہم) عطا کر کے فضیلت دی ہے- نیز اسبابِ معاش و معاد کی طرف ہدایت ، زمین پر پیدا ہونے والی ہر چیز پر تسلط عطا کر کے تمام اشیاء ان کے لئے مسخر کرکےصفتوں پر قدرت اور اسباب کے استعمال پر قدرت دے کر بھی فضیلت دی ہے اور جانور کے برعکس حضرت انسان کواپنی خوراک ہاتھ سے اٹھا کر منہ کی طرف لے جانے سے اسے فضیلت بخشی‘‘-

یعنی سماج میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بے مثال مخلوق بنایا ہے- مطلقاً اولادِ آدم کو تاجِ کرامت عطا فرمادیا ہے- انسان کے لئے خشکی  اور پانی کو پھیلا دیا اور اِس کی شان کے لائق طیب رزق عطا فرمایا- گویا اگر انسان پاک رزق کو چھوڑ کر نا پاک رزق کی جانب جاتا ہے تو یہ انسان کے رتبے کی توہین ہے-کیونکہ کل کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں انسان سب سے اشرف ہے-باقی مخلوقات کو پہلے اور انسان کو سب سے آخر میں اسی لئے پیدا کیا تا کہ تمام مخلوقات انسان کے مقام و شرف کی گواہ ہوں-

انسان کا باطنی شرف

علامہ روزبہان بقلی شیرازی(رح) لکھتے ہیں  کہ تکریم ِانسانیت کی دو  قسمیں ہیں:

1-کرامت ِ ظاہری                 2-   کرامتِ باطنی

کرامتِ ظاہری:

وَ لَھُمْ کَرَامَۃُ الظَّاہِرِ، وَ ھِیَ تَسْوِیَۃُ خَلْقِھِمْ، وَ ظَرَافَۃُ صُوْرَتِھِمْ، وَحُسْنُ فِطْرَتِہِمْ، وَجَمَالُ وُجُوْہِہِمْ،حَیْثُ خَلَقَ فِیْھَا السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَلْسِنَۃَ، وَ اِسْتِوَاءَ الْقَامَۃِ، وَ حُسْنَ الْمَشْیَ  وَالْبَطْشَ، وَ اسْتَمَاعَ الْکَلَامَ وَ التَّکَلُّمَ بِاللِّسَانِ، وَ الرُّؤْیَۃَ بِالْبَصَرِ وَ جَمِیْعُ ذٰلِکَ مِیْرَاثُ فِطْرَۃِ آدَمَ الَّتِیْ صَدَرَتْ مِنْ حُسْنِ اصْطِنَاعِ صِفَتِہِ الَّذِیْ قَالَ: ’’خَلَقْتُ بِیَدَیَّ

’’اور ان  کے لئے ظاہری عزت بھی ہے یعنی  ان کی تخلیق کا تسویہ اور  ان کی صورتوں کی ظرافت، حسین فطرت اور ان کے چہروں کو جمال عطا فرمایا-اس حیثیت سے کہ اس میں سماعت، بصارت، زبان اور صحیح قد و قامت  تخلیق کی -چلنے اور پکڑنے کی خوبصورتی اور کلام کا سننا اور زبان سے کلام کرنا اور آنکھوں سے دیکھنا  اس میں تخلیق فرمائے اور یہ تمام چیزیں فطرت آدم کی میراث ہیں اور یہ اللہ پاک کی صفتِ حُسنِ صنعت سے صادر ہوئی ہیں جو اللہ پاک نے ارشاد فرما یاہے(خَلَقْتُ بِیَدَیَّ) کہ مَیں نے اس کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ‘‘-

کرامتِ باطنی:

’’وَ لَھُمْ کَرَامَۃُ الْبَاطِنِ، وَھِیَ الْعَقْلُ وَ الْقَلْبُ  وَ الرُّوْحُ وَ النَّفْسُ وَالسِّرُّ، وَفِیْ ھٰذِہِ الْجُنُوْدِ خَزَآئِنُ رَبُوْبِیَّتِہٖ فَالنَّفْسُ مَعَ جُنُوْدِ قَہْرِہٖ، وَ الْعَقْلُ مَعَ جُنُوْدِ لُطْفِہٖ، وَ الْقَلْبُ مَعَ جُنُوْدِ تَجَلّٰی صِفَاتِہٖ، وَ الرُّوْحُ مَعَ جُنُوْدِ تَجَلّٰی ذَاتِہٖ،  وَالسِّرُّ مُسْتَغْرِقٌ فِیْ عُلُوْمِ اَسْرَارِہٖ، فَالْکُلُّ مُکَرَّمَۃٌ بِکَشُوْفِ الصِّفَاتِ مِمَّنْ لَہٗ اسْتِعْدَادُ رُؤْیَۃِ الصِّفَاتِ، وَ مَنْ لَہُ اسْتِعْدَادُ رُؤْیَۃِ الذَّاتِ فَھُوَ فِی مُشَاہِدَۃِ الذَّاتِ‘‘

’’اور ان کے لئے  باطن کی تکریم بھی ہے اور یہ  عقل و قلب اور روح و نفس اور سِرّ ہیں اور ان لشکروں ( عقل و قلب اور روح و نفس اور سر)میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے خزانے  ہیں-پس نفس اللہ پاک کے قہر کے لشکروں کے ساتھ ہے اور عقل اللہ پاک کے لطف کے لشکروں کے ساتھ ہے اور قلب اللہ پاک کی صفاتی تجلی کے لشکروں کے ساتھ ہےاورروح اللہ پاک کی ذاتی تجلی کے ساتھ ہے اور سر اللہ تعالیٰ کے اسرارکے علوم میں مستغرق ہےاور یہ تمام صفات کے پردوں  کے ساتھ ان کے لئے مکرم ہیں جو رؤیتِ صفات کی  استعداد  رکھتے ہیں جو ذاتِ باری تعالیٰ کی رؤیت کی استعداد رکھتے ہیں وہ مشاہدہ ذات میں غرق ہیں‘‘-

روح کے نکلنے کے بعدجنازہ کا  شرف:

اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف کو کبھی بھی اس کے وجود سے زائل نہیں فرمایا-حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ:

’’مَرَّ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ (ﷺ) وَقُمْنَا بِهِ‏.‏ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهَا جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ‏.‏ قَالَ‏ إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا‘‘[25]

’’ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی کریم (ﷺ)کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے-پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ(ﷺ)! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا-آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو‘ ‘-

اندازہ لگائیں! کہ وہ شخص جو حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پہ ایمان نہیں رکھتا، آپ (ﷺ) کی دعوت کو جھٹلاتا ہے پھر بھی آقا کریم (ﷺ) اس کے جنازہ کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور فرمایامحض یہ یہودی نہیں بلکہ تمہارے سامنے کسی بھی انسان کا جنازہ گزرے تو انسان کی میت کے احترام میں تم پر لازم ہے کہ کھڑے ہو جایا کرو-

حضرت ابو سعید خدری (رض)سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم (ﷺ)نے  ارشادفرمایا کہ :

’’إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا، فَمَنْ تَبِعَهَا فَلَا يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ‘‘[26]

’’جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ چل رہا ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے ‘‘-

گوکہ معذور، مریض اور مسافر کو رعایت حاصل ہے لیکن جملہ انسان جو استطاعت رکھتا ہو چاہے بچہ ہو یا بوڑھا، امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل، مسلمان ہو یا غیر مسلم، سب کے لئے آقا کریم (ﷺ) نے حکم فرمایا کہ جب بھی کسی انسان کا جنازہ جاتے ہوئے دیکھو اس کو عزت و احترام کے ساتھ  رخصت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و احترام کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا تھا-

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ :

’’جب میرے والد شہید کر دیئے گئے تو میں ان کے چہرے پر پڑا ہو کپڑا کھولتا اور روتا تھا-دوسرے لوگ تو مجھے اس سے روکتے تھے لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) کچھ نہیں فرما رہے تھے-آخر میری چچی حضرت فاطمہ (رض) بھی رونے لگیں تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا  کہ:

’’تَبْكِينَ أَوْ لَا تَبْكِينَ مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ‘

’’تم لوگ روؤ یا چپ رہو-جب تک تم لوگ میت کو اٹھاتے نہیں ملائکہ تو برابر اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں ‘‘-

یعنی تاجدارِ کائنات خاتم النبیین (ﷺ) نے انسان کے جَسد سے روح نکلنے اور قبر میں جانے تک انسان کا تقدّس اور احترام قائم کیا-یہی وجہ ہے کہ جب کوئی جانور یا پرندہ مرجائے تو اس کے تعفن و بدبو سے بچنے کے لئے اس کو کسی بھی جگہ دفن کر دیا جاتا ہے مگر نشان نہیں لگایا جاتا - لیکن جہاں انسان کو دفنایا جاتا ہے وہاں باقاعدہ نشاندہی کی جاتی ہے تا کہ کوئی بھی ذی شعور اس مقام کی توہین اور بے حرمتی نہ کر سکے- کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اشرف المخلوق کا وجود اُس مٹی میں دفن ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کے مرنے کے بعد برزخ سے لے کہ محشر تک اُس کی یہ تعظیم قائم فرمائی ہے-

حضرت ابوبکر الکلابازی (رح)جو مقدمین علماء میں  شمار ہوتے ہیں، فرماتے ہیں کہ:

’’{سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ} [الجاثية: 13]، فَأَرَادَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُحِلَّ الْمُؤْمِنَ فِي جِوَارِهِ، وَيُنْزِلَهُ دَارَ كَرَامَتِهِ،  وَيَهَبَ لَهُ مِنْ مُلْكِهِ، وَيَجْعَلَهُ بَاقِيًا بِبَقَائِهِ مَلِكًا لَا يَفْنَى مُلْكُهُ، حَيًّا لَا يَمُوتُ أَبَدًا لَا يَزُولُ،  يُحِلُّ عَلَيْهِ كَرَامَتَهُ، وَيُلَذِّذُهُ بِرُؤْيَتِهِ، وَيُكْرِمُهُ بِالنَّظَرِ إِلَيْهِ،  وَحَكَمَ عَزَّ وَجَلَّ بِهَذِهِ الْكَرَامَةِ فِي الدَّارِ الْآخِرَةِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَهُوَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيْهِ فَلِذَلِكَ لَمْ يَكُنْ لَهُ بُدٌّ مِنَ الْمَوْتِ لِيَصِلَ إِلَى هَذِهِ الْكَرَامَةِ الْجَلِيلَةِ، وَ الرُّتْبَةِ السَّنِيَّةِ، وَالدَّرَجَةِ الرَّفِيعَةِ،[27]

’’اللہ تعالیٰ نے آسمانون اور زمینوں میں جو کچھ ہے وہ تمہارے لئے مسخر فرمایا‘‘-اللہ عزوجل نے ارادہ فرمایا کہ مومن کو  اپنے قرب جوار میں جگہ دے اور اسے اپنی کرامت کے گھر میں اتارےاور اسے اپنے ملک میں سے عطا فرمائےاور اسے اپنی بقا سے باقی بنائے اور ایسا بادشاہ بنائے جس کی بادشاہی فنا نہ ہو، ایسا زندہ کرے کہ اسے کبھی بھی موت نہ  آئے ، وہ کبھی ختم نہ ہو- اللہ تعالیٰ اس کو اپنے شرف میں مقام عطا فرماتا ہے، اس کو اپنی رویت کی لذت عطا فرماتا ہے اور اس کی طرف نظر کرم فرماتا ہےاور اللہ عز وجل نے اس کی یہ عزت آخرت میں موت کے بعد رکھی ہے-اللہ عزوجل اپنے قول کو تبدیل نہیں فرماتا  -اس لئے ان عظیم کرامات اور بلند مراتب، اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لئے انسان کے لئے موت لازم  و ضروری ہے ‘‘-

یعنی موت انسان کے وقار کو کم نہیں کرتی بلکہ انسان نے اس دنیا میں اپنے شرف اور امتیاز کی محافظت کی ہو تو انسان کی موت اسے رب کے اور بھی قریب کر دیتی ہے-جس کی بدولت اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رؤیت ، جنت میں اعلیٰ مقام  اور روز محشر عزت و شرف سے نوازتا ہے-

جنت میں انسان کا شرف:

حضرت سعید  بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے  حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ملاقات کی-حضرت ابوہریرہ  (رض)نے فرمایامَیں  اللہ پاک سے سوال کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں اکٹھا کرے -حضرت سعید  بن مسیب  (رض)نے پوچھا کیا اس میں بازار ہوں گے؟ حضرت ابوہریرہ  (رض)نے فرمایا:ہاں! مجھے اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا کہ :

’’أَنَّ أَهْلَ الجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوهَا نَزَلُوا فِيهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ، ثُمَّ يُؤْذَنُ فِي مِقْدَارِ يَوْمِ الجُمُعَةِ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا فَيَزُورُونَ رَبَّهُمْ، وَيُبْرِزُ لَهُمْ عَرْشَهُ وَ يَتَبَدَّى لَهُمْ فِي رَوْضَةٍ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ، فَتُوضَعُ لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ وَمَنَابِرُ مِنْ لُؤْلُؤٍ، وَ مَنَابِرُ مِنْ يَاقُوتٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ زَبَرْجَدٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ ذَهَبٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ فِضَّةٍ، وَ يَجْلِسُ أَدْنَاهُمْ وَ مَا فِيهِمْ مِنْ دَنِيٍّ عَلَى كُثْبَانِ المِسْكِ وَ الكَافُورِ،  مَا يَرَوْنَ أَنَّ أَصْحَابَ الكَرَاسِيِّ بِأَفْضَلَ مِنْهُمْ مَجْلِسًا-قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ  وَ هَلْ نَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ:«نَعَمْ»  قَالَ: «هَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ؟ قُلْنَا: لَا. قَالَ:  كَذَلِكَ لَا تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ [28]

’’جنتی جب بازاروں میں داخل ہوں گے تو اپنے اعمال کی فضیلت کے مطابق اس میں اتریں گے پھر دنیاوی جمعہ کے دن کے برابر وقت میں آواز دی جائے گی تو یہ لوگ اپنے رب کی زیارت کریں گے-ان کے لیے ان کا عرش ظاہر ہوگا اور اللہ پاک باغاتِ جنت میں سے کسی باغ میں تجلی فرمائے گا- جنتیوں کے لیے منبر بچھا ئے جا ئیں گے جو نور،موتی،یاقوت،زمرد،سونے اور چاندی کے ہوں گے اور ا ن میں ادنیٰ درجے کا جنتی بھی مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہو گا-حضرت ابو ہریرہ (رض)  کہتے ہیں میں نے عرض کیا  یا رسول اللہ (ﷺ) کیا ہم اللہ رب العزت کو دیکھیں گے آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: ہاں!-کیا تم لوگوں کو سورج یا چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تردد ہوتا ہے-ہم نے عرض کی نہیں-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرما یا اس طرح تم لوگ اپنے رب کے دیکھنے میں  بھی تردد میں مبتلا نہیں ہو گے‘‘-

یعنی انسان دنیا میں آۓ یا جنت میں جاۓ، انسان اپنے وجود اور روح کی خِلقت سے قبل ہو  یا بعد  ہو،اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر مقام پہ اپنے خلیفہ و نائب  کی عزت وتکریم کو مُسلّم طور پر قائم فرما دیا ہے-اس لئے ہر انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ انسانوں کے مقام و شرف کو قائم کرکے سنتِ الٰہی کو پورا کرے کیونکہ انسان کے وقار کو قائم کرنا خوداللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت ہے-

جہاں ہم اپنے مقدمات، نظریات اور عقائد کا دفاع کرتے ہیں وہاں ہمیں  اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ انسان کی حرمت کا بھی دفاع کرنا چاہیے-کیونکہ اسلام کا بنیادی اور اولین درس بھی یہی ہے اور جو انسان کی عزت و تکریم کو قائم کرتا ہے وہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے اور خداکے فیصلے کی تائید اور توثیق کرتا ہے-جس کی بدولت اس روئے زمین  میں اللہ تعالیٰ اُس کے وجود کو سرا پا رحمت  و ہدایت بنا دیتا ہے اور تمام مخلوق کے دلوں میں اُس کی محبت قائم فرما دیتا ہے-

اس لیے بطور انسان یہ ہمارا اولین فریضہ ہے کہ انسان کے وقار کو قائم کیا جائے- بالخصوص وہ احباب جو طریقِ صوفیاء سے خود کو منسوب کرتے ہیں ان پر یہ تعلیم تو بطور فریضہ عائد ہوتی ہے- کیونکہ آج جس زمین پہ ہم  ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘کی صدائیں بلند کر کے شمع توحید منور کرتے ہیں یہ ان بزرگانِ دین کے قدموں، محنت اور تعلیمات کی بدولت ہے جنہوں نے یہاں محبت و اخوت، بھائی چارہ اور عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے لوگوں کے دلوں کو منور کیا اور انسان کی عزت و تکریم کو قائم کیا -

لہٰذا! اگر ہم اہلِ ایمان  اور عاشقِ رسول (ﷺ) ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں تو ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود کو رسمی زنجیروں سے آزاد کریں جو ہماری جہالت نے ہم پر جکڑ رکھی ہیں-کیونکہ یہ ہمارے جھوٹے تعصبات کے باعث ہے کہ آج  دین رحمت پہ دہشت گردی اور شدت پسندی کا دھبہ (Label) لگا دیا گیا ہے-اس لئے آج ہمیں بنیادی انسانی اقدار کو پیدا کرنے کی ضرورت ہےجو اقدار  اللہ تعالیٰ اور رسول کریم (ﷺ) نے ہمیں عطا کی ہیں-کیونکہ ہمارا تعلق کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو  لیکن تمام انسانوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام انسان اولادِ آدم ہیں اور اولادِ آدم کو اللہ تعالیٰ نے کرامت کا تاج پہنایا ہے-کسی کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کر دہ عزت و تکریم کا تاج اولادِ آدم  کے سر سے اتارے-

سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کی قیادت میں اصلاحی جماعت کے مبلغین جو امن کی سفید دستاریں اپنے سروں پر سجائے گلیوں، کوچوں، مساجد اور  گرد و نواع میں یہی دعوت دے رہے ہیں کہ الله تعالیٰ نے ہمیں جو عزت عطا کی ہے ہم اس عزت کو قائم کریں-

آخر  میں یہی دعوت دینا چاہوں گا کہ آئیے!اللہ تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے دین رحمت کے عملی پیکر بن جائیں-ہمارے کرداروں سے انسانیت کے احترام اور محبت کی خوشبو آنی چاہیئے- کیونکہ یہ پیغام تشدد، نفرت اور فرقہ پرستی سے پاک ہے اور مقامِ انسانیت کوقائم کرنے کا پیغام ہے جو سنتِ الٰہی ہے-اس لئے جتنا وقت آپ نکال سکتے ہیں نکال کر اصلاحی جماعت کے مبلغین کے ساتھ چل کر اس پیغام کو خود بھی سیکھیں تاکہ آپ لوگوں تک بھی اس پیغام کو پہنچا سکیں تاکہ لوگ صحیح معنوں میں اپنے رب کی جانب راغب ہوکر اور اس کی رضا و خوشنودی کو پالیں-اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو!

٭٭٭



[1](التین:1-4)

[2](الدھر:1)

[3](النکت و العیون)

[4](تفسیر روح المعانی)

[5](صحیح بخاری/ صحیح مسلم/ سنن ابی داؤد)

[6](صحیح بخاری، کتاب التوحید)

[7](تفسیر قرطبی / تفسیر النکت و العیون)

[8](الاحزاب:72)

[9](تعظیم قدر الصلاۃ)

[10](الأعراف:54)، (يونس:3)، (هود:7)،  (الفرقانّ:59)، (السجدة:4)، (ق:38)، (الحدید:4)

[11](الدھر:2)

[12](تفسير القرطبی / تفسیر روح المعانی / تفسیر أبی السعود)

[13](تفسیر روح المعانی)

[14](سورۃ ص:72)

[15](البقرۃ:34)

[16](الاعراف:11)

[17](المستدرك على الصحيحين)

[18](آلِ عمران:6)

[19](مومن:64)

[20](التغابن:3)

[21](تاویلات نجمیہ، ج:4، ص:94-95)

[22]( تفسیر طبری)

[23](الاسراء:70)

[24](تفسیر مظہری، سورۃ الاسراء زیر آیت:70 )

[25](صحیح بخاری، کتاب الجنائز)

[26](صحیح بخاری، کتاب الجنائز)

[27](بحر الفوائد)

[28](سنن الترمذی، ابواب  صفۃ الجنۃ)

(سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب صفۃ الجنۃ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر