سفر ِ معراج النبی (ﷺ)

سفر ِ معراج النبی (ﷺ)

 13 اپریل کا دن دو وجوہات کی بناء پر انتہائی بابرکت اور مبارک ہے کیونکہ آج کے دن شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز (رح) کا وصال مبارک ہوا اور آج ہی کے دن مرشد کریم سلطان الفقر بانئ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی (رح) کی قائم کردہ تحریک کا سالانہ عالمی اجتماع ہوتا ہے- جس میں دنیا بھر سے لوگ ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں- آج کا دن اسلامی تاریخ کے مطابق 26رجب ہے اور رات 27 رجّب کی ہوگی جسے عرفِ عام میں معراجِ شریف کی رات کہا جاتا ہے-کیونکہ اس رات خاتم النبیین محمدِ مصطفےٰ (ﷺ) زمین سے سفر فرما کر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں صدرۃ المنتہیٰ سے آگے اپنی معراج کے لئے تشریف لے گئے-بقول علامہ محمد اقبالؒ:

رہِ یک گام ہے ہمّت کے لیے عرشِ بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات

عصر حاضرمیں بے شمار دھندلاہٹ اورغفلت سے بھر پور خیالات پھیل رہے ہیں جس کے باعث عالمِ اسلام اضطراب اور بے یقینی کا شکار ہے- اس لئے ہم پہ لازم ہے کہ قرآن کریم و سنت مبارکہ کی روشنی میں اپنی بنیادوں کا جائزہ لیں اور اپنے عقائد کی مضبوط عمارت قائم کریں-

قرآن کریم و سنت مبارکہ کی روشنی میں آج ہم سفرِ معراج سے اپنے عقائد کے بنیادی اور لطیف نتائج اخذ کریں گے- کیونکہ تقریباً ساڑھے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی جب رب المرجب کی ستائیسویں شب آتی ہے تو خاتم النبیین (ﷺ) کے دیوانےجوش و جذبے سے بھرپور اس رات کا پرتپاک استقبال کر کے برکاتِ معراجِ النبی (ﷺ) کو امت کے دلوں میں جاگزین کرتے ہیں -یہ خوشی اس لئے ہے کہ آج کی شب خالقِ کائنات نے کُل عالمِ انسانیت میں سے ہمارے آقا کریم (ﷺ) کو یہ عظمت و فضیلت عطا فرمائی کہ وہ اپنے رب کی بارگاہ میں روبرو حاضر ہو کر ملاقات فرمائیں-

آقا کریم (ﷺ) کی عظمت و فضیلت کی خوشی منانے کا جواز کیا ہے؟

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰت وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ‘‘[1]

’’بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں، اللہ کی کتاب میں- جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں-یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو ‘‘-

امام بغوی(رح) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’مہینوں میں سے چار حرمت والے ہیں اوروہ رجب، ذوالقعدہ ،ذوالحجہ اور محرم ہیں ‘‘-[2]

یعنی اِن مہینوں میں خود کو فتنہ و فساد اور رب کریم کی نافرمانیوں میں مبتلا کر کے ان مہینوں کے تقّدُس کو پامال نہ کرنا-

حضرت ابی بکرہ (رض) حضور نبی کریم (ﷺ) سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’بے شک زمانہ گھوم کراپنی اصل حالت پر آ گیا ہے، جیسے اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدافرمایا تھا، سال کے بارہ مہینے تھے، چار مہینے حرمت والے تھے-تین مہینے پے درپے ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب‘‘-[3]

یعنی وقت اورمہینے تو سارے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں لیکن ان میں سے چار مہینوں کو شرف اور بزرگی کے لحاظ سے مختص اور متعین فرمادیا -چونکہ وہ مالک حقیقی ہے اس لئے وہ جس کو چاہے شرف و فضیلت عطا فرما دے-

امام ابو حاتم (رح) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم (رض) اللہ پاک کے اس فرمان مبارک ’’فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ أَنْفُسَكُمْ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :

’’ظلم: اللہ پاک کی نافرمانیوں کے عمل اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ترک کرنے کا نام ہے‘‘-[4]

معاصی اور ترکِ اطاعت تو ہر جگہ، ہر وقت، ہر لمحہ اور ہر حال میں ہی منع ہے، تو پھر ان چار مہینوں کو مختص کیوں کیا جا رہا ہے؟

امام ابو حیان اندلسی (رح)اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

حضرت قتادہ اورفراء (رض) فرماتے ہیں کہ :

’’(گناہوں سے رکنے) کو چارحرمت والے مہینوں کی طرف لوٹایا گیا ہےاوران میں مظالم سے روکا گیا ہے ان مہینوں کو عزت بخشنے کیلئےاور ان (مہینوں کی) تعظیم و تکریم کیلئے خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے-حالانکہ ہر دورمیں ظلم سے منع کیا گیا ہے‘‘-

امام ابن جریر ابو جعفر الطبری(رح)اسی آیت کے تحت حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’تمام مہینوں میں گناہ کرنے کے بعدان میں سے چار مہینوں کو خاص کیا گیا ہے اور ان کو حرمت والا بنایا ہے اور ان کو حرمت والابناکر تعظیم عطافرمائی ہےاوران میں گناہ کرنے کو بڑاگناہ قراردیاہے اوران میں عمل صالح کی طرف رغبت اور بڑے اجر کی بشارت دی ہے ‘‘-

گویا اللہ تعالیٰ وقت کے جس حصے کو مختص فرما دیتا ہے اُن مخصوص اوقات کی خاصیت و نوعیت ہی بدل جاتی ہے، جس طرح12 مہینوں میں سے یہ چار مہینے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح اِن چار مہینوں میں سے بعض ایام بھی خصوصی اہمیت رکھتے ہیں - جس طرح قرآن مجید میں ’’ سُورة القدر ‘‘ میں ارشاد باری تعالیٰ فرمایا :

’’اِنَّآ اَنْزَلَنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِo وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِo لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لاخَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍo تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ ۚ مِنْ کُلِّ اَمْرٍoسَلٰمٌ قف ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ‘‘

’’بے شک ہم نے اسے (قرآن) شب قدر میں اتارا-اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر-شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر-اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں،اپنے رب کے حکم سے ہر کام کیلئے-وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ‘‘-

یعنی شبِ قدر فضیلت و برکت ا ور اجرو ثواب کے اعتبار سے ہزار مہینوں سے افضل ہے کیونکہ اس رات فرشتے اور روحِ الامین اپنے رب کے حکم سے خیرو برکت کے ہر عمل کے ساتھ اترتے ہیں-

دن اور راتیں تو سب اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں لیکن انوار، برکات اور مبارک واقعات کی مناسبت سے عزت و تکریم عطا کرنے کی تلقین خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عطا فرمائی ہے-

اوقات کی تخصیص کو سمجھنا لازم ہے- سارا دن نماز کی حالت میں رہیں لیکن فرض نماز خاص وقت میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے، سارا سال بیت اللہ کا طواف کریں لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہو سکتا ہے-اس لئے دنوں کو بعض فضلیتوں کے ساتھ مخصوص کر دینا کوئی غیر شرعی عمل نہیں ہے بلکہ برکت کے حصول کے لئے وقت کو متعین کیا جاتا ہے- مثلاًسارا سال ظلم نہ کریں، لیکن ان چار مہینوں میں ظلم نہ کرنا زیادہ افضل ہے، سارا سال روزے رکھیں لیکن رمضان کے روزے رکھنا زیادہ افضل ہے، جس وقت چاہیں نیکی کریں لیکن کسی خاص دن کی مناسبت سے نیکی کرنا زیادہ افضل ہے-سارا سال میلاد منائیں لیکن بارہ ربیع الاول کے دن میلاد منانا زیادہ افضل ہے کیونکہ وہ دن آقا کریم (ﷺ) کی ولادت کے ساتھ مخصوص ہے-

حضرت ابو وائل (رض) سے روایت ہے کہ :

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) لوگوں کو ہر جمعرات کے دن نصیحت فرماتے تھے- تو ایک شخص نے کہا: اے ابو عبد الرحمٰن! مَیں چاہتاہوں کہ آپ ہرروز نصیحت کیا کریں-آپ (رض) نے فرمایا:

’’لیکن مجھے جو چیز اس سے باز رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ میں تمہیں ملال اور اکتاہٹ میں مبتلاکرنے کو ناپسند کرتا ہوں اورمیں نصیحت کرنے میں تمہاری اس طرح حفاظت اور رعایت کرتاہوں جس طرح نبی پاک (ﷺ) اکتاہٹ اور ملال کے خدشہ سے ہماری حفاظت اور رعایت فرمایا کرتے تھے ‘‘-

اب درس، ذکر، وعظ و نصیحت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے جب چاہیں جہاں چاہیں محفل قائم کی جاسکتی ہے لیکن حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) کےمقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جمعرات یومِ برکت ہے-

دنوں کی تخصیص دو طرح سے ہے: ایک تعیین شرعی اور دوسرا تعیین عرفی-

 تعیین شرعی: وہ دن ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)نے متعین کیا ہو-جیسےنمازِ جمعہ، رمضان اور حج کے ایام وغیرہ-

تعیین عرفی: وہ دن ہےجس کوخیر و برکت کے حصول اور نیکی کے فروغ کے لئے مخصوص کر دیا جائے- جیسے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کا لوگوں کو وعظ و نصیحت کے لیے جمعرات کا دن مقررکرنا، یہ ایامِ عرفی ہے- اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وعظ و نصیحت کا کا م دوسرے ایام میں جائز نہیں بلکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کا جمعرات کا دن مقرر کرنا لوگوں کی سہولت کیلئے تھا -

 اسی طرح سوئم، چالیسواں، برسی،محفلِ میلاد یا سیدنا شیخ غوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ)کو ایصال ِ ثواب کرنے کے لیے جیسے گیارھویں شریف یا نفلی صدقہ اور خیرات کیلئے مسلمانوں کا اپنی سہولت کے لیے دن مقرر کرنا، اسی طرح نکا ح یا دعوتِ ولیمہ یا ختمِ بخاری یا دستارِ فضیلت کے لیے تاریخ مقرر کرنا یہ تعیینِ عرفی ہے، اوریہ جائز ہے اور یہ عمل ِ صحابہ سے ثابت ہے- اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہےکہ یہ کام دوسری تاریخوں میں جائز نہیں ہیں-

یہی وجہ ہے کہ معراج النبی (ﷺ)رجب المرجب میں پورے جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہے کیونکہ یہ اس دن کے ساتھ خاص ہے-رجب کی فضیلت کے متعلق حدیث پاک ہے کہ:

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’ إِنَّ رَجَبَ شَهْرُ اللّهِ‘‘[5]

’’بے شک رجب اللہ پاک کامہینہ ہے ‘‘-

حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’رَجَبٌ شَهْرُ اللهِ تَعَالٰی، وَشَعْبَانُ شَهْرِيْ، وَ رَمَضَانُ شَهْرُ أُمَّتِيْ‘‘[6]

’’بے شک رجب اللہ پاک کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے‘‘-

امام احمد بن حنبل اور امام بیہقی (رح)روایت کرتے ہیں:

’’حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو رسول اللہ (ﷺ) ارشاد فرماتے:

’’اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘[7]

’’اے اللہ ہمارے لیے رجب اورشعبان میں برکت عطافرمااورہمیں رمضان تک پہنچا‘‘-

یعنی رب کریم ہمیں اتنی مہلت دے کہ ہم رمضان کو اپنی صحت و سلامتی میں پائیں تا کہ عباداتِ رمضان،تلاوتِ قرآن، نوافل و سجدہ و خیرات کی کثرت سے ہم تیرا مزید قرب پا سکیں-اس لیے آقا کریم (ﷺ) رجب کیلئے بطورِ خاص دعا فرماتے اور اسی ماہِ رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو اپنی بارگاہ کی معراج عطا فرمائی-

سوال یہ ہے کہ اگر معراج کا مقصد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ مُبارک کی حاضری مقصود تھی تو کیا مکۃ المکرمہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں تھی ؟ وہ تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو پھر ایک سمت کو متعین کرکے اس کی جانب جانا چہ معنی دارد ؟

 جبکہ خود اس  ذات کا فرمان ہے کہ:

 وَلِلهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ‘‘ [8]

’’اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے تو تم جدھر منہ کرو ادھر وجہ اللہ (خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ) ہے‘‘-

تو پھر آپ (ﷺ) کا ایک متعین سمت کی طرف اس ذات کی ملاقات کیلئے تشریف لے جانا اس میں کیا حکمت ہے؟

سَفرِمعراج دو حصوں پر مشتمل ہے:

  1. زمینی سفر (مکتہ المکرمہ سے بیت المقّدس تک)
  2. آسمانی سفر

آسمانی سفر کے دو حصے ہیں :

                      I.          مسجد اقصٰی سے سدرۃ المنتہیٰ تک

                    II.          سدرۃ المنتہی سے بارگاہِ رب العلٰیٰ تک

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’میرے گھرکی چھت کو کھولاگیا اس حال میں کہ میں مکہ میں تھا’پس حضرت جبرئیل (ع) آئے ،اورمیر ا سینے کو کھولا پھر اس کو آب ِ زم زم سے غسل دیا پھر حضرت جبرائیل (ع) سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت و ایمان سے بھرا ہوا تھا-پس اس نے ا س کو میر ے سینے میں انڈیل دیا،پھر حضرت جبرائیل (ع)نے سینے کو بند کردیا ‘‘-[9]

شرحِ صدر کے بعد آقا کریم (ﷺ) کہ جبرئیل براق لائے، مَیں براق پہ سوار ہوا اور ہم مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ کی جانب چل پڑے-جیسے قرآن یوں بیان کرتا ہے:

’’سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰـتِنَاط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo‘‘[10]

’’پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے‘‘-

یعنی مسجد اقصیٰ اور مسجدِ حرام کے گردونواح کو اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی ہے-

ذہن نشین رہے! کہ اگر ایک نکتہ سمجھ میں آجائے تو بہت سی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں -اس لئے آقا کریم (ﷺ) کے واقعہ معراج میں نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک‘‘-

یعنی اس واقعہ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکی کو اور ہر عیب سے پاک ہونے کو بیان کیا- حالانکہ رب کریم براہِ راست بھی حکم فرما سکتا تھا کہ ’’مَیں لے کہ گیا اپنے بندے کو‘‘ یا وہ جس طرح چاہتا کلام کرتا- مگر واقعہ کے بیان سے قبل اللہ تعالیٰ نے نکتہ فرمایا کہ مَیں ہر عیب سے پاک ہوں-

امام حاکم ’’المستدرک‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ:

’’حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نےرسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِاقدس میں ’’سبحان اللہ‘‘ کی تفسیر کے بارے میں عرض کیا، تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:’’اللہ پاک کا ہر عیب سے پاک ہو نا مرادہے ‘‘-[11]

’’سُبْحٰنَ‘‘ کے کلمہ سے یہ دعوٰی کیا گیاہے کہ اللہ تعالی ٰہرعیب ونقص،کمزوری اوربے بسی سے پاک ہے،اس کے لیے دلیل کی ضرورت تھی،کیونکہ کوئی دعویٰ دلیل کے بغیر قابلِ قبول نہیں ہواکرتا ،بطورِ دلیل ارشادفرمایا:’’ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ وہ ہے، جس نے اپنے محبوب بندے (ﷺ) کو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اتناطویل سفرطے کرایا اوراپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں اورآیات بینات دکھائیں-

جو ذات اتنے طویل سفر کواتنے قلیل وقت میں طے کراسکتی ہے، واقعی اس کی قدرت بے پایاں،اس کی عظمت بیکراں ہے اوراس کی کبریائی کو کمزوری اوربے بسی نہیں- تو جس واقعہ کواللہ تعالیٰ نےاپنی سبحانیت کی دلیل کے طورپر ذکر فرمایاہے، وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوسکتا بلکہ کوئی اہم، عظیم الشان اورمحیرالعقول واقعہ ہو گا- اس لیےمعراجِ جسمانی کا انکارکرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور سبوحیت کی ایک قرآنی دلیل کو منہدم کرنا ہے-

علامہ سعد الدين التفتا زانی الشافعی (المتوفى: 793ھ) لکھتےہیں:

’’تحقیق نبی پاک (ﷺ) کی معراج کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے-مگریہ کہ اس بات میں اختلاف ہے کہ (کیامعراج مبارک) حالت نیند میں ہوئی یا بیداری کے عالم میں اورصرف روح کے ساتھ یا جسم کے ساتھ اورصرف مسجد اقصی ٰ تک یا آسمان تک (ان باتوں میں اختلاف ہے) ‘‘-

یہ سب بیان کرنے کے بعد علامہ تفتازانی فیصلہ کن انداز میں عقیدہ اُمت بیان فرماتے ہیں:

اور حق بات یہ ہے کہ آپ (ﷺ) نے مسجد اقصی ٰتک بیداری کے عالم میں اپنے جسم مبارک کے ساتھ سفرفرمایااورا س پر قرآن مجید کی شہادت اوردوسری صدی اور اس کے بعدکے علماء کا اجماع ہے -اوراس کے بعد آسمان تک کا سفر آحادیث ِ مشہورہ سے ثابت ہے اور منکر بدعتی ہے -[12]

امام ابن ابی العزالحنفی الدمشقی (المتوفى: 792ھ) لکھتے ہیں:

آپ (ﷺ) نے اسراء عالم بیداری میں اپنے جسم ِ اقدس کے ساتھ فرمایا اور اس بات پر استدلال اللہ پاک کا فرمان مبارک ہے:

{سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰى}

’’اور عبد جسم اورروح کے مجموعہ سے عبارت ہے-جس طرح انسان جسم اور روح کے مجموعے کا نا م ہےاور یہ مطلق طور پر معروف ہے اور یہ صحیح ہے-پس اسراء اس مجموعہ کا نام ہے اور یہ عقلاً ممتنع بھی نہیں ہے اور اگر (بفرض ِ محال)بشرکا اوپر چڑھنامحال ہوتا تو فرشتوں کا نزول بھی بعید از قیاس ہوتااورایسی بات (معاذ اللہ) انکارِ نبوت کی طرف لے جاتی ہے اوروہ کفر ہے ‘‘-[13]

یعنی اگر رب کے حکم سے ایک فرشتے کی نورانیت آسمان سے زمین پہ اترنے میں رکاوٹ نہیں ہے تو رب کے حکم سے نبی کی بشریت بھی آسمان پہ جانے پہ رکاوٹ نہیں ہے-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ‘‘

’’(اے حبیب مکرم (ﷺ)!) اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظّارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کیلئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے‘‘-

یعنی اس واقعہ کو آزمائش کے ساتھ ساتھ ایمان کا منہج بنا دیا- یہی وجہ ہے کہ جس نے جھٹلایا وہ ابوجہل بن گیا اور جس نے مانا وہ صدیق اکبر بن گیا-

ابو الحسين ابن ابی يعلى (المتوفى: 526ھ) ’’ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:

’’ وَهِيَ رُؤْيَا يَقْظَةٌ ،لَا مَنَامٌ‘‘[14]

’’اوریہ رؤیابیداری کے عالم میں تھا عالمِ نیند میں نہ تھا ‘‘-

ابو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبہ الدينوری (المتوفى: 276ھ) اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’یعنی آپ (ﷺ) کو اسرٰی کی رات دکھایاگیا- اللہ پاک ارشادفرماتے ہیں کہ اس کے ذریعے لوگوں کی آزمائش کی گئی تو انہوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ (ﷺ) ایک رات میں بیت المقدس تشریف لے جائیں اورپھر آپ (ﷺ) واپس تشریف لے آئیں ؟ تو انہوں نے انکار کیااوراللہ پاک نے ایک قوم کی بصیرت میں اضافہ فرمایا ان میں سے ایک حضرت ابوبکر (رض) ہیں اوراسی (تصدیق ) کی وجہ سے آپ (رض) کو صدیق کے اسم مبارک سے موسوم کیاگیا ‘‘-[15]

امام جلال الدين السيوطی (المتوفى: 911ھ) لکھتے ہیں:

’’اللہ پاک کے اس فرمان مبارک سے استدلال کیاگیاہے جس نے کہا کہ ’’اسراء‘‘ (معراج) عالم نیند میں ہوئی کیونکہ رؤیا نیند کے عالم میں ہوتی ہےاوررؤیا عالم ِ بیداری میں بھی ہوتی ہے-تواللہ پاک کےاس فرمان مبارک سے رد فرمایا: ’’اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ‘‘،’’اور عالم ِ خواب میں رؤیت سے نہ اس سے کسی کی آزمائش ہوتی ہے اورنہ کسی کی تکذیب کی جاتی ہے‘‘-[16]

یعنی اگر واقعۂ معراج عالمِ نیند کی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم نے اس واقعہ کو صاف لوگوں کے لئے آزمائش بنایا ہے کیونکہ عالمِ خواب پہ کسی کی آزمائش اور تکذیب ممکن ہی نہیں ہے- پس معلوم ہوا کہ واقعۂ معراج آقا کریم (ﷺ) کے عالمِ بیداری میں پیش آیا ہے-

معروف شارحِ بخاری امام ابن بطال القرطبی البکری (المتوفى: 449ھ) لکھتے ہیں:

’’حضرت ابن ِ عباس (رض) نے اللہ پاک کے اس قول مبارک ’’وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِيْ أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ‘‘ کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں کہ:

’’یہ ظاہری مبارک آنکھوں سے رؤیت ہے جو رسول اللہ (ﷺ) کو اس رات کرائی گئی جس رات آپ (ﷺ) بیت المقدس تشریف لے گئے اوریہ عالم ِنیند میں رؤیت نہ تھی ‘‘-[17]

امام ابو الليث السمرقندی (المتوفى: 373ھ) لکھتے ہیں:

حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ :

’’أمَا إنَّهَا رُؤْيَا عَيْنٍ يَقْظَةً لَيْسَتْ بِرُؤْيَا مَنَامٍ‘‘[18]

’’جہاں تک کہ رؤیت کا تعلق ہے یہ آپ (ﷺ) کو ظاہری مبارک آنکھوں سے ہوئی نہ کہ نیند کی حالت میں‘‘-

امام طبری (المتوفى: 310ھ) اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’اورہم نے جو آپ (ﷺ) کو دیدارکرایا جس رات ہم آپ (ﷺ) کورات کے وقت مکہ سے بیت المقدس تک لے گئے-(یہ نہ تھا )مگرلوگوں کیلیے آزمائش -یہ ان لوگوں کیلیے ایک آزمائش تھی جو اسلام سے پھر گئےجب ان کو آپ (ﷺ) کی اس رؤیت کے بارے میں بتایاگیاجس کا آپ (ﷺ) نے مشاہد ہ فرمایا اوراہل ِ مکہ میں سے مشرکین کیلئے آزمائش اس طرح کہ رسول اللہ (ﷺ) سے جو سننے کی وجہ سے ان کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ ہوگیا ‘‘-

علماء و آئمہ دین بیان کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی کہ کون کون اللہ تعالیٰ کی صفت سبحان اور مصطفےٰ کریم (ﷺ) کی عظمت و رفعت پر یقین رکھتا ہے اور کون کون اس حقیقت کا انکار کرتا ہے-

امام جلال الدین سیوطی’’إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’{ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ }اہل مکہ کے لیے آزمائش اس طرح بنا کہ جب ان کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انہوں نے اس کی تکذیب کی اور ان میں سے بعض ارتداد کا شکار ہو گئے ‘‘-[19]

امام خازن لکھتے ہیں:

’’اور جب آپ (ﷺ) نے لوگوں سے اس بات کا ذکر فرمایا توان میں سے بعض نے انکار کردیااورجھٹلادیا-پس یہ لوگوں کے لیے آزمائش تھی اور(اس کے برعکس) مخلص لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوگیا‘‘-[20]

حضرت ابن عباس (رض)سے ہی روایت ہے کہ:

’’اگر آپ (ﷺ) کو روح کے ساتھ بغیر جسم کی معراج ہوتی اور یہ رات کا سفر عالمِ خواب میں ہوتا تو قریش آپ (ﷺ) کے قول مبارک میں سے اس کی تکذیب نہ کرتے-کیونکہ وہ مطلق رؤیا کا انکار نہیں کرتےتھے-اور نہ ہی وہ اس چیز کا انکا رکرتے جو سال کی مسافت تک خواب میں دیکھا جاتا ‘‘-

شارحِ بخاری امام بدر الدين عینی الحنفی (المتوفى: 855ھ) لکھتے ہیں :

’’إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ‘‘  اور رؤیا میں ان کیلئے یہ آزمائش تھی کہ ایک جماعت ارتداد کا شکا ر ہوگئی اورانہوں نے کہا کہ حضور پاک (ﷺ) کس طرح ایک رات میں بیت المقدس تک تشریف لے گئے ‘‘-[21]

یعنی اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو انہیں تسلیم کرنے میں تردد نہ ہوتا-

ملا علی قاری (رح)لکھتے ہیں :

مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابن ِ عباس (رض) سے روایت ہےآپ (رض)  فرماتے ہیں کہ:

’’ایک عظیم الشان چیزحضور نبی کریم (ﷺ) کو عالم ِ بیداری میں اپنی ظاہری مبارک آنکھوں سے دکھائی گئی اورکیونکہ قر یش نے اس کا انکار کر دیا اور اسلام لانے والوں میں سے ایک جماعت پھر گئی جب اس کو انہوں نے جمع کیااوریہ انکار اس وقت ہوتا ہے جب یہ رؤیت عالم ِ بیداری میں ہو ‘‘-[22]

ان تمام متکلمین، محدثین اور مفسرین کی عبارات کے خلاصہ کے طورپر قاضی محمد بن عبد الله ابو بكر بن العربی المالكی(المتوفى: 543ھ) فرماتے ہیں:

حضرت عبد اللہ ابن عبا س(رض)سے اللہ پاک کے اس فرمان مبارک ’’وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِيْ أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ‘‘ کے بارے میں ایک قول نقل کیا گیا ہے:

’’یعنی اگر معراج عالم خواب کا واقعہ ہوتا تو کوئی اس سے فتنہ میں مبتلا نہ ہوتا اور کوئی اس کا انکارنہ کرتا-کیونکہ اگر کو ئی شخص اپنے آپ کو خواب میں دیکھے کہ وہ آسمانوں کو چیرتا ہو ا اوپر جا رہا ہے یہا ں تک کہ وہ کرسی پرجا کر بیٹھ گیا اور اللہ پاک نے اس سے کلا م فرمایا تو اس خواب کو کبھی مستبعد اورخلاف ِ عقل قراردے کر اس کا انکا رنہیں کیا جاتا ‘‘-[23]

گویا قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور دیگر تمام مفسرین و محدثین کی روایات سے یہ ثابت ہوا کہ رب ذو الجلال نے آقاکریم(ﷺ) کے جسدِ اقدس کو عالمِ بیداری میں اپنی معراج عطا فرمائی کیونکہ اگر واقعۂ معراج عالمِ خواب کا قصہ ہوتا تو کبھی بھی مشرکین کے لئے آزمائش نہ بنتا-

امام مسلم اور متعدد آئمہ کرام نے اس حدیث پاک کو روایت کیا ہے کہ :

حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَرَرْتُ عَلٰى مُوْسٰى لَيْلَةَ أُسْرِىَ بِىْ عِنْدَ الْكَثِيْبِ الأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّى فِى قَبْرِهٖ‘‘[24]

’’جس رات مجھے معراج کروائی گئی میرا حضرت موسیٰ (ع) پر کثیب احمر کے پاس گزر ہوا اس وقت وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ‘‘ -

اس روایت سے دو مسئلے معلوم ہوئے:

1-فراستِ مصطفےٰ کریم (ﷺ)

یعنی آقا کریم (ﷺ) کی نگاہ مبارک کے سامنے کوئی چیز حجاب نہیں ہے-

2-حیات انبیاء (ع)بعد ازموت

امام بیہقی (رح) لکھتے ہیں:

’’حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِيْ قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ

’’انبیاء کرام (ع) اپنی قبور میں حیات ہیں اور نماز پڑھتے ہیں‘‘-

 امام ہیثمی ،’’مجمع الزوائد ‘‘، میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى وَالْبَزَّارُ، وَرِجَالُ أَبِي يَعْلَى ثِقَاتٌ‘‘

’’اس کو ابو یعلی اور بزاز (رح) نےروایت کیا ہے اور ابو یعلی کے راوی ثقہ ہیں ‘‘-

فلسفۂ حیات النبی(ﷺ):

حیات النبی(ﷺ) کےمسئلہ کو سمجھنے کیلئے ایک بنیادی بات کا سمجھنا از حد ضروری ہے؛ اور وہ یہ  کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضور نبی کریم(ﷺ) کے نور مبارک کو تخلیق فرمایا- حدیث مبارکہ ہے:

’’پس تحقیق حضرت عبد الرزاق(رح) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) میرے ماں باپ آپ (ﷺ)پر قربان ہوں، مجھےاس چیز کے بارے میں خبر دیجئے ،جس کواللہ پاک نے ہر شئے سے قبل پیدا فرمایا ہے؟ تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’اے جابر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا - پھر اللہ پا ک نے اس نور کو جہا ں چاہا وہاں تک لے گیا اور اُس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت تھی نہ دوزخ اور نہ ملک، نہ آسمان تھا اور نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند اور نہ جن و انس تھے‘‘-[25]

امام جلال الدین سیوطی اور ملا علی قاری (رح)نے نقل کیا ہے:

حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ‘‘[26]

’’سب سے پہلے اللہ پاک نے میرے نور کو پیدا فرمایا‘‘-

علامہ انور شاہ کشمیری اسی حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’حضور پاک(ﷺ) کے فرمان مبارک (أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ إلخ)اور بعض روایات میں ہے کہ ’’تمام مخلوقات میں سے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نبی پاک (ﷺ) کے نور( کو پیدا فرمایا)‘‘-اس روایت کو امام قسطلانی (رح) نےامام حاکم (رح)کےطریق کے ساتھ مواہب میں ذکر فرمایا ہے اور نور کی حدیث کو باب کی حدیث پر ترجیح دی ہے‘‘-[27]

ان تمام روایات سے یہ واضح ہوا کہ ہر شئے سے قبل حضور نبی کریم(ﷺ) کے نور مبارک کو تخلیق فرمایا گیا اس کے بعد مخلوق کو پیدا فرمایا گیا -گویا کہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان واسطہ حضور پاک (ﷺ) کی ذات کا ہے-

حضرت ابن عباس (رض)فرماتے ہیں کہ:

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (ع)کو وحی فرمائی اے عیسیٰ! حضرت محمد(ﷺ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو حکم دوکہ وہ آپ (ﷺ) پر ایمان لے آئیں -کیونکہ اگر حضرت محمد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں آدم (﷤) کو پید ا نہ فرماتا اور اگر حضرت محمد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں جنت اور دوزخ کو نہ پیدا فرماتا ‘‘ - [28]

شیرِ خدا سیدنا علی المرتضیٰ (﷜) نے رسول اللہ (ﷺ) سے اور رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ سے روایت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’يَا مُحَمَّدُ وَعِزَّتِيْ وَجَلَالِيْ لَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ أَرْضِيْ وَلَا سَمَائِيْ‘‘[29]

’’اے محمد(ﷺ)! مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! اگر آپ (ﷺ) نہ ہوتے تو اپنی زمین و آسمان کو پیدا نہ فرماتا‘‘-

یعنی اس کائنات کی تمام مخلوقات آقا کریم (ﷺ) کے واسطے سے ظہور میں آئیں-

 شاہ عبدالحق دہلوی (رح)’’مدارج النبوۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’بدانکہ اول مخلوقات و واسطہ صدور کائنات و واسطہ خلق عالم و آدم، نور محمد است ‘‘

جان لو کہ پہلی مخلوق، کائنات کے ظہور کا واسطہ اور تمام عالم اور حضرت آدم (ع) کے پیدا کرنے کا سبب نورِ محمدی (ﷺ) ہے-

مولانا جلال الدین رومی (رح) ’’مثنوی‘‘میں ایک مثال دیتے ہیں کہ:

اگر دیوار کے ایک طرف سورج ہوتو سایہ دیوار کی دوسری طرف ہوگا- اب دیوار کا سایہ ہر ایک کو نظر آرہا ہے، سایہ کا وجود نظر آرہا ہے اور لوگ سائے کے گھٹنے اور بڑھنے سے بھی واقف ہیں- لیکن معلوم یہ کرنا ہےکہ سائے کا وجود کس کی وجہ سے قائم ہے-اگر دیوار کو ہٹا دیا جائے تو کیا سایہ اپنا وجود قائم رکھ سکے گا؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سایہ اپنا وجود قائم رکھنے میں دیوار کا محتاج ہے گویا سائے کے ’’ہست‘‘ یا ’’نابود‘‘ ہونے کا انحصار دیوارپر ہے دوسرے لفظوں میں سائے کی موت و حیات کا انحصار دیوار پر ہے-

صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ یہ کائنات سایہ کی مثل اور یہ سایہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی وجہ سے قائم ہے- گویا کہ تمام مخلوق اپنا وجود قائم رکھنے میں آقا کریم (ﷺ) کی محتاج ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) اپنا وجود قائم رکھنے میں مخلوق کے محتاج نہیں ہیں-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ ‘‘[30]

’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا فرمایا‘‘-

گویاموت بھی مخلوق ہے اور زندگی بھی مخلوق ہے- یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو زندگی اور موت کی تخلیق سے بھی قبل پیدا فرمایا- لہٰذا آقا کریم (ﷺ) اپنی زندگی کے لیے حیاتِ دنیا کی احتیاج نہیں رکھتے بلکہ ہر مخلوق اپنا وجود رکھنے میں نورِ مصطفےٰ (ﷺ) کی محتاج ہے-

گویا جب حضورنبی کریم (ﷺ) ہر شئے سے قبل ہیں تو آپ (ﷺ) کی نبوت بھی ہر شئے سے قبل ہے-

امام ترمذی نے روایت فرمایا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رض)نے عرض کی :

یارسول اللہ (ﷺ) آپ پر نبو ت کب واجب ہوئی؟

تو آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا :

’’وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالجَسَدِ‘‘[31]

(مجھ پر نبوت اس وقت واجب ہوئی جب) آدم(ع) روح اور جسم کے درمیان تھے‘‘-

امام حاکم(رح) فرماتے ہیں:

’’(صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ) پر نبوت کب واجب ہوئی؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا (مجھ پر نبوت اس وقت واجب ہوئی جب) آدم (ع) تخلیق اور اس میں روح پھونکے جانے کے درمیان تھے‘‘-[32]

حضرت عبد اللہ بن شقیق (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کی:

’’یا رسول اللہ(ﷺ) آپ کب کے نبی ہیں؟ تو آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایامیں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم (ع) روح اور جسدکے درمیان تھے‘‘-[33]

امام طبرانی کی روایت ہے کہ حضرت عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنِّي عَبْدُ اللّهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِيْنَتِهٖ‘‘[34]

’’بے شک میں اللہ کا بندہ اس وقت سے خاتم النبیین ہوں جب آدم (ع) کا وجود اپنی مٹی میں گوندھا ہوا تھا‘‘-

یعنی ابھی آقا کریم (ﷺ) کی ظاہری پیدائش مبارک کا مرحلہ نہیں آیا، مگر آقا کریم (ﷺ) اپنی آنکھوں سے حضرت آدم (ع)کے جسد و روح کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں-

لہٰذا! واضح ہوا کہ آپ (ﷺ) کی نبوت بھی سب سے اول ہے-باقی تمام مخلوق کی طرح موت اور حیات بھی مخلوق ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی امت میں شامل ہے- تمام مخلوقات کا وجود حضور نبی کریم (ﷺ) ہی کی وجہ سے ہے-

حضرت سُلطان بَاھو (رح) کا نظریہ حیات النبی ():

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(﷫) ’’عین الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’سن! اگر کوئی شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات کو مردہ سمجھ بیٹھے تو اُس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے‘‘-[35]

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (رح) ’’عقلِ بیدار‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’تمام اُ مت کی حیات و زندگی اور تمام محبت جو ہر ایک اُمتی کے مغز و پوست میں جاری و ساری ہے اُس کا دارو مدار حیات النبی (ﷺ) کے عقیدے پر ہے-جو کوئی حیات النبی (ﷺ) کا قائل نہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مردہ سمجھتا ہے اُس کے منہ میں مٹی، دنیا و آخرت میں اُس کا منہ کالا، وہ شفاعت ِ محمد رسول (ﷺ) سے محروم ہے‘‘-[36]

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (رح) ’’کلید التوحید  کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’حیاتُ النبی (ﷺ) کے اعتقاد کا سبق اہل ِعرب (اہل حجاز) سے سیکھو کہ وہ حرمِ پاک میں روضۂ رسول (ﷺ) کے دروازہ پر آکر اِلتماس کرتے ہیں: ’’اے سید الا برار زندہ نبی (ﷺ) بارگاہ ِ اِلٰہی سے ہمارا فلاں کام کروا دیں‘‘-اوراُن کے سوال کا جواب اُنہیں مشروحاً مل جاتا ہے اور اُن کے یقین و اعتبار کے باعث اُن کا کام بھی ہو جاتا ہے- جسے حیات النبی (ﷺ) کا اعتبا ر نہیں وہ ہر دو جہان میں ذلیل و خوار ہے‘‘-

مزید فرماتے ہیں:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو ا ور اُس کاسرمایۂ اِیمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو‘‘-[37]

حضرت سلطان باھو (رح)کے یہ فرامین آقا کریم (ﷺ) کی شان و عظمت کو بیان کرتے ہیں -جبکہ آقا کریم (ﷺ) کے غلاموں کا یہ مرتبہ ہے کہ :

نام فقیر تنہاں دا باھوؒ قبر جِنہاں دی جِیوے ھو

یعنی جس نبی کے غلاموں کی قبریں زندہ ہوں تو اس نبی کی حیاتِ جاودانی پہ شبہ و تشکیک کہاں روا ہے؟

اب آئیے! واقعۂ معراج کے اگلے حصے کی جانب، جہاں حضور نبی کریم (ﷺ) کی بیت المقدس میں تشریف آوری ہوئی اورآپ (ﷺ) نے جمیع انبیاء و رسل (ع)کی امامت کروائی-امام نسائی ’’سنن نسائی‘‘ میں حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت انس بن مالک (رض) کا بیان ہےکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: میرے پاس ایک جانور لایا گیا ،جو گدھے سے بڑا اورخچر سے چھوٹاتھا،جہاں تک نگاہ پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھامیں اس پرسوارہوااور میرے ہمراہ جبریل (ع) تھے-چنانچہ میں رات کے وقت چلا، جبریل (ع) نے عرض کی:

’’(یا رسول اللہ (ﷺ) اتریں اورنماز ادافرمائیں -مَیں نے ایساہی کیا-جبریل (ع) نے عرض کی، کیا آپ (ﷺ) جانتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے نماز کس جگہ ادا فرمائی ہے؟آپ (ﷺ) نے مدینہ طیبہ میں نماز ادا فرمائی ہے اور یہ آپ (ﷺ) کی ہجرت گاہ ہے-پھر عرض کی، (یارسول اللہ (ﷺ) اتریں اور نماز ادا فرمائیں-چنانچہ میں نے نمازپڑھی -جبریل (ع) نے عرض کی:کیا آپ (ﷺ) جانتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے نماز کس جگہ ادا فرمائی ہے ؟آپ (ﷺ) نے طورِ سینا ءپر نماز پڑھی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسی ٰ(ع) سے کلام فرمایا- جبریل (ع) نے پھر عرض کی (یا رسول اللہ (ﷺ) اتریں اورنماز ادا فرمائیں-پس مَیں نے نمازاداکی-جبریل (ع) نے عرض کی، کیا آپ (ﷺ) جانتے ہیں ،کہ آپ (ﷺ) نے نماز کس جگہ ادا فرمائی ہے ؟آپ (ﷺ) نے بیت لحم میں نماز اداکی ہے ،جہاں عیسی ٰ(ع)پیدا ہوئے تھے-پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا،وہاں تمام انبیاء(ع) اکٹھے کیے گئے-جبریل (ع) نے مجھے آگے جانے کی درخواست کی حتی کے میں نے تما م انبیاء (ع) کی امامت کروائی (یعنی تمام انبیاء(ع)کا امام بنا)-پھر مجھے پہلے آسمان پر لے جایا گیا‘‘-

گویا جس مقام کو کسی پاک و طیب ہستی سے نسبت ہو جائے اس مقام پہ جانا، اس کی زیارت کرنا اور وہاں نماز ادا کرنا آقا کریم (ﷺ) کی شب معراج کے معمولات میں سے ہے-

لہٰذا! تعصب اور غفلت کے پردوں کو خود سے دور کریں اور آثارِ مصطفےٰ(ﷺ) کی زیارت اوران کے توسل سے برکت حاصل کریں -

یاد رکھیں!بیت المقدس معراج کے زمینی سفر کی انتہاء ہے اور آسمانی سفر کی ابتداء ہے گویا کہ بیت المقدس کو سفر معراج میں مرکز ی حیثیت حاصل ہے- یہ آسمانی اور زمینی سفرکا مرکزی نکتہ ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں نبوت ورسالت جمع ہے- اس لئے جو کم فہم مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کی مسجدِ اقصیٰ سے محبت پہ اعتراض کرتے ہیں وہ یقیناً اہل ایمان کے مسجد اقصیٰ سے قائم رشتے سے بے خبر ہیں-بزبانِ احمد ندیم قاسمی:

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا

یہی وجہ ہے کہ مسلمان مسجد اقصٰی کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور اس پہ اپنا دعویٰ کرتے ہیں -کیونکہ سفر معراج میں مسجد اقصٰی کو شرف حاصل ہوا کہ آقا کریم (ﷺ) نے وہاں جملہ انبیاء (ع)کی امامت کروائی-

اللہ تعالیٰ کی تمام آسمانی زمینی کل کائنات میں دو مقام ایسے ہیں جہاں تمام انبیاء و رسل (ع) جمع ہوئے؛ اور اِن دونوں جگہوں پر حضور رسالت مآب (ﷺ) کی عظمت و رفعت کو اجاگر کرنا مقصود تھا -

پہلا مقام: عالمِ ارواح ہے جس کی ترجمانی حضرت امیر خسرو نے کیا خوب کی ہے:

خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسروؔ
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

’’اے خسروؔ کل جہاں میں تھا وہاں خدا خود میر مجلس تھا جبکہ محمد (ﷺ)شمع محفل تھے‘‘-

دوسرا مقام: بیت المقدس ہے- جس میں بزم سجی ہوئی ہے اوردولہا آج بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے انتظار میں تمام انبیاء و رسل (ع) منتظر ہیں-

اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ہے :

اَلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ

’’ (مَسجد اقصی وہ ہے)جس کے اِردگردہم نے برکت رکھی ہے ‘‘-

امام رازی، امام خازن، امام ثعلبی، امام بغوی اور کئی مفسرین (ع) ’’اَلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهٗ‘‘کی تفسیر میں یہ لکھتے ہیں:

’’اس کو مبارک کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ یہاں پر انبیاء کرام(ع)سکونت پذیر رہے اور اس میں فرشتوں اور وحی کے اترنے کی جگہ ہے‘‘-[38]

امام قرطبی ’’تفسیرقرطبی‘‘ میں فرماتے ہیں  کہ ’’اَلَّذِيْ بَارَكْنَا حَوْلَهٗ‘‘ کی تفسیر میں ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ:

بِمَنْ دُفِنَ حَوْلَهٗ مِنَ الْاَنْبِيَاءِ وَ الصَّالِحِيْنَ، وَ بِهٰذَا جَعَلَهٗ مُقَدَّسًا.

’’اس (بیت المقدس) کے اردگرد انبیاء کرام (ع) اور صالحین کرام مدفون ہیں اور اسی وجہ سے اس کو مقدس کہا گیا ہے‘‘-

گویا جہاں انبیاء اور صالحین کی قبور ہوں  وہاں اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا نزول ہوتا ہے-

بیت المقدس کی شان کو اللہ تعالیٰ نے سورہ التین کی آیاتِ بینات ’’وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِۙ وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ‘‘ میں بھی بیان کیا ہے-

امام ابن جریر طبری، امام ابن ابی حاتم الرازی،  قاضی محمد ثناء الله پانی پتی، امام جلال الدين السيوطی اور متعدد مفسرین کرام (ع) فرماتے ہیں کہ ’’الزَّیْتُوْن‘‘ سے مراد بیت المقدس ہے-

’’تفسیرابن أبی حاتم ‘‘میں ہے:

’’حضرت ابن ِ عباس (رض) اللہ پاک کے اس فرمان ’’وَالتِّيْنِ‘‘  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’یہ نوح (ع) کی مسجد ہے جو جودی پہاڑ کی چوٹی پر بنائی گئی ہےاورزیتون سے مراد ’بیت المقدس‘ہے‘‘-

’’تفسیر  مظہری ‘‘ میں ہے:

حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ :

’’وَالزَّيْتُوْنِ مَسْجِدُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ‘‘

’’اورزیتون سے مراد ’بیت المقدس‘کی مسجد ہے‘‘-

گویا رب کریم نے اپنی پاک کتاب میں انبیاء(ع) کی قسمیں اٹھائی ہیں-بیت المقدس کی اہمیت و فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے- یہی وجہ ہے کہ اہل تقوٰی کے دل بیت المقدس کی محبت  سے لبریز ہیں-

اب آ ئیں! سدرۃ المنتہیٰ پہ جو مقامِ جبریل  ہے-علامہ اسماعيل حقی الحنفی (المتوفى: 1127ھ) ’’تفسیر روح البيان ‘‘ میں  لکھتے ہیں :

’’وہ (سدرۃ المنتہی ٰ) حضرت جبرائیل (ع) کا مقام ہے اورجب حضورنبی کریم(ﷺ)نے عرش کی جانب عروج فرمایا تو حضرت جبرائیل (ع) وہیں رہ گئے -اور حضر ت جبریل  (ع)نے عرض کی اگر میں ( اُنگلی) کے ایک پور کے برابر بھی قریب ہواتو جل جاؤں گا‘‘-

علامہ نظام الدین الشافعی نیشا پوری‌ فرماتے ہیں:

’’پسں سِدرۃُ المنتہی وہ مقام ہے جس سے آگے فرشتے نہیں جا سکتے اور نہ کسی کو یہ علم ہے کہ سدرۃ المنتہی کے ماوراء کیا ہے؟ اور شہداء کی ارواح بھی یہاں تک جاتی ہیں‘‘-[39]

یعنی سدرۃ المنتہیٰ سے آگے جو بھی مقام ہے  وہ صرف بلانے والے اور وہاں جانے  والے کو علم ہے-کیونکہ اس مقام تک ملائکہ اور شہداء کی ارواح تک کی بھی رسائی نہیں ہے-کیونکہ اس مقام کی تپش اس قدر زیادہ ہے کہ جبرائیل امین عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ(ﷺ)! اگر انگلی کے ایک پور کے برابر بھی آگے ہوا تو میرے پَر جل  جائیں گے-گویا یہ وہ مقام ہے جہاں ملائکہ کا سردار بھی رک گیا لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) اپنے جسدِ اقدس کے ساتھ وہاں سے بھی آگے تشریف لے گئے-

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ نبی نور ہے یا بشر؟ ناچیز کے نزدیک یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے-کیونکہ سوال  تب پیدا ہوتا ہے جب نورانیت  اور بشریت کا ایک وجود میں جمع ہونا ایک دوسرے کی ضد ہو-جبکہ از روئے قرآن  یہ ثابت ہے کہ اللہ جس کو چاہے اس کے وجود میں نورانیت اور بشریت کو یکجا کر سکتا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہِمْ حِجَابًاقف فَاَرْسَلْنَـآ اِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا‘‘[40]

’’پس انہوں (سیدہ مریم (ع) نے ان (گھر والوں اور لوگوں) کی طرف سے حجاب اختیار کر لیا  تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبریل) کو بھیجا سو (جبریل) ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا‘‘-

غور فرمائیں! جب اللہ تعالیٰ  نے  ایک نوری فرشتہ  کو نورانیت سے بشری روپ میں زمین پر بھیجا تو کسی نے اعتراض نہیں کیا لیکن جب وجۂ تخلیق کائنات خاتم النبیین (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے نورانیت و بشریت کا منبع بناکر بھیجا تو اعتراض کیوں ؟ گویا عشقِ مصطفےٰ(ﷺ)رب کریم کی خاص توجہ اور فضل سے  نصیب ہوتاہے-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی‘‘[41]

’’(زمین کی) اسی (مٹی) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوسری مرتبہ (پھر) نکالیں گے‘‘-

امام بغوی، امام ابو عمر یوسف اور علامہ بدر الدین  عینی (رح)اسی آیت کی تفسیر میں ایک قول نقل کرتے ہیں کہ :

حضرت عطاخراسانی (رح) فرماتے ہیں کہ:

’’بے شک فرشتہ چلتاہے اوراس جگہ سے مٹی اٹھاتا ہے، جس میں انسان کودفن کیا جاتاہے، پھروہ (فرشتہ) اس  کو نطفہ  کے ساتھ ملاتا ہے پس اس  کی تخلیق مٹی اور نطفہ سے ہوتی ہے‘‘-[42]

امام حكيم ترمذی (المتوفى: 320ھ) حدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ:

’’حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک دن حضور پاک (ﷺ) ایک ایسی قبر کے پاس گزرے   جو کھودی جا رہی تھی  ، آپ (ﷺ) نے فرمایا:

’’یہ کس کی قبر ہے ؟ عرض کی گئی ،ایک حبشہ کے رہنے والے شخص کی ہے، توآپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا،  لَا إِلَه إِلَّا اللهُ اپنی زمین وآسمان سے چلا یہاں تک کہ اِس مٹی میں  دفن کیا گیا جس (مٹی) سے اس کی تخلیق ہوئی‘‘-[43]

امام حكيم ترمذی (المتوفى: 320ھ)  ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ:

’’جب  آدم (ع) کی مٹی زمین سے لی گئی تو زمین نے اللہ پاک کی بارگاہ اقدس میں آہ و زاری کی‘‘-

تو اللہ پاک نے اس کو ارشادفرمایا:

’’بے شک میں عنقریب اس (آدم (ع) کو تیری طرف لو ٹاؤں گا پس جب انسان مر جاتا ہے تو اُس شخص کی اُس جگہ پر تدفین کی جاتی ہے جس سے اس کی مٹی ہوتی ہے‘‘-[44]

گویا یہ اصول واضح ہوا کہ جس آدمی کی مٹی جہاں سے اٹھائی جاتی ہے اس کی میت وہیں پہ دفن کی جاتی ہے-

متفق علیہ  حدیث مبارکہ ہے اور محدثین کرام نے اس موضوع پہ مکمل ابواب رقم اور نقل کئے ہیں-

حضرت عبد اللہ بن زید المَازِنِيِّ(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اشاد فرمایا:

’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جوجگہ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ‘‘-[45]

امام احمد ابن حنبل،  امام ابن ابی شیبہ اور امام ابو یعلی  الموصلی (رح) نےصحابیٔ رسول  حضرت ابو سعید خدری (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ :

’’حضرت ابو ہریرہ (﷜) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَا بَيْنَ قَبْرِيْ وَمِنْبَرِيْ رَوْضَةٌ مِّنْ رِّيَاضِ الْجَنَّةِ‘‘[46]

’’میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جوجگہ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ‘‘-

ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں  اسی حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:

امام  مالک (رح) فرماتے ہیں کہ:

’’حدیث اپنے ظاہر پر باقی ہے اورروضہ اقدس کا حصہ جنت سے نقل کیا گیا ہے، اورعنقریب اسی (جنت) کی طرف لوٹایا جائے گااوریہ باقی زمینوں کی طرح نہیں ہے جو فنا ہو تی ہے اورختم ہوجا تی ہے‘‘-

امام ابن ِحجر (رح) فرماتےہیں:

اوریہ اکثر کا نظریہ ہے اوریہ اب  بھی حقیقی طورپر جنت کا حصہ ہے-[47]

یعنی روضۂ رسول (ﷺ) جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے جسے رب تعالیٰ کے حکم سے زمین  پر قائم کیا گیا ہے اور روزِ قیامت  یہ باغ دوبارہ جنت میں اپنی جگہ رکھ دیا جائے گا- گویا جسدِ مصطفےٰ (ﷺ) کی مٹی جنت کی مٹی سے اٹھائی گئی ہے -اس لئے روزِ قیامت ساری دنیا تباہ ہو جائے گی لیکن جس حصے کو آقا کریم (ﷺ) نے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ  قرار دیا ہے وہ تباہ نہیں ہوگا- لہٰذامسئلہ تب  درپیش ہوتا ہے جب کم فہم جسدِ مصطفےٰ (ﷺ)  کی تشکیل کو اپنے وجود کی تشکیل سے ماپتے ہیں- کیونکہ فرقہ مجسمہ جیسی گمراہی اس وقت پیدا ہوتی ہے  جب انسان  قرآن میں بیان ہوئے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کو اپنے ہاتھ اور چہرے کی مثل سمجھے یا دیگر تفصیل جو تجسیم کے قائلین کو درپیش ہے- یہ اہلِ تجسیم فرقہ مجسمہ کے اُسی اصول کے تحت وجودِ مصطفےٰ (ﷺ) کو اپنے وجود کی مثل سمجھے-

اس لئے آقا کریم (ﷺ) اگر اپنے بشری وجود کے ساتھ سدرۃالمنتہی سے عروج فرما کر عرش العلیٰ کی جانب جاتے ہیں تو اس میں تعجب فقط اُن کے لئے ہے جو وجودِ مصطفےٰ (ﷺ) کی تشکیل کو اپنے وجود کی  مثل سمجھتے ہیں-اس لئے اگر کوئی وجودِ مصطفےٰ (ﷺ) کی نورانیت کا اپنی مادیت سے موازنہ کرے گا تو بالیقین گمراہی اس کا مقدر ہوگی-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ؁ فَکَانَ قَابَ قَوْسَینِ  اَوْ اَدْنٰی‘‘[48]

’’پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا- پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم (ﷺ) میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘-

امام بخاری(رح)’’ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہےکہ:

’’وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَتَدَلّٰى حَتّٰى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰى‘‘[49]

’’اور جباررب العزت آپ (ﷺ) کے قریب ہو احتی کہ وہ آپ (ﷺ) سے دوکمانوں کی مقدار قریب ،بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوا ‘‘-

قاضی عیاض مالکی (رح) لکھتے ہیں کہ :

حضرت حسن بصری (رح) سے روایت ہے کہ :

’’اللہ پاک اپنے عبدِ خاص سید نا محمد (ﷺ) کے قریب ہوئے (تاکہ) آپ (ﷺ) کا عظیم مرتبہ، بلند درجہ اور آپ (ﷺ) کی معرفت کے انوار اور اللہ تعالیٰ کے غیب اوراس کی قدرت کے اسرار کے مشاہد ہ کوظاہر کیا جائے‘‘-[50]

امام  فخر الدین رازی (رح)’’فَکَانَ قَابَ قَوْسَینِ  اَوْ اَدْنٰی‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

’’پس جب دوسردار ایک دوسرے سے معاہد ہ کرلیتے ہیں تو وہ دونوں اپنی کمانیں نکالتے اور ایک کمان کو دوسرے ساتھی کی کما ن سےملاتے‘‘-[51]

یعنی ایک سردار کا دوست دوسرے کا دوست ہوگا ، ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن متصور ہوگا، ایک سے صلح دوسرے سے صلح ، ایک سے جنگ دوسرے سے جنگ ہوگی ۔ اسی لئے قرآن بتلاتا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی اطاعت اللہ کی اطاعت ، حضور کی بیعت اللہ کی بیعت ، حضور سے دشمنی اللہ سے دشمنی ، حضور کو ایذا دینا اللہ کو ایذا ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کے وجود اقدس کو اپنے قرب کا وہ مقام عطا کیا ہےکہ ذاتِ مصطفےٰ (ﷺ) کو کبھی بھی نورِ خدا سے الگ نہیں کیا جا سکتا -بزبانِ شاعر:

وُہ خدا نہیں بخدا نہیں وہ مگر خدا سے جُد انہیں
وہ ہیں کیا مگر وہ ہیں کیا نہیں یہ محب، حبیب کی بات ہے

مُفتی بغداد علامہ ابی الفضل شهاب الدين السید محمود الآلوسی (المتوفى: 1270ھ) لکھتے ہیں کہ :

’’حضرت امام حسن بصری (رض) اس کا معنی یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کا مقام اپنے نزدیک بلند کیا ،اور’’تَدَلّٰی‘‘ کا معانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بالکلیہ جا نب قدس میں جذب کرلیا اوراسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہونا کہتے ہیں ‘‘-[52]

یہی وہ مقام ہے جسے قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا :

’’صِبْغَۃَ اللّہِ ج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّہِ صِبْغَۃً وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ‘‘[53]

’’(کہہ دو ہم) اللہ کے رنگ (میں رنگے گئے ہیں) اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے اور ہم تو اسی کے عبادت گزار ہیں‘‘-

فلسفۂ معراج کو رب کریم نے سورۃ النجم کی آیت نمبر 11 سے 18 میں اس طرح بیان فرمایا ہے:

’’مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی  ؁  اَفَتُمٰرُوْنَہٗ  عَلٰی مَا یَرٰی؁  وَلَقَدْ رَاٰہُ  نَزْلَۃً  اُخْرٰی؁  عِنْدَ سِدْرَۃِ  الْمُنْتَہٰی؁ عِنْدَہَا جَنَّۃُ  الْمَاْوٰی ؁ اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ  مَا یَغْشٰی ؁ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ؁  لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ  الْکُبْرٰی‘‘[54]

’’دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا- تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پرجھگڑتے ہو- اور انہوں نے تو وہ جلوہ دوبار دیکھا- سدرۃُ المنتہیٰ کے پاس - اس کے پاس جنّت الماویٰ ہے-جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا-آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی-بیشک اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘ -

گویا وہ نشانی رسول اللہ (ﷺ) کی رؤیتِ باری تعالیٰ  ہے جسے سورہ النجم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کھلے الفاظ میں بیان فرمایا ہے- اس لئے فلسفہ معراج کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ محض بیان یا واقعہ نہیں ہے  بلکہ رسول اللہ (ﷺ) کا خاصہ ہے جو آپ (ﷺ) کو انبیاء (رض) میں سے ممتاز کرتا ہے-

رسول اللہ (ﷺ) کی رؤیت باری تعالیٰ کے مسئلہ میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور ان کے متبعین کا مؤقف ہے کہ معراج کی رات آپ (ﷺ) نے حضرت جبرائیل (رض)  کو دیکھا ہے، اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا جبکہ حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ کرام و تابعین کرام (رض) اور سلف صالحین کا مؤقف یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے معراج کی رات اپنے سرِ انور کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور یہ آپ (ﷺ) کی خصوصیت ہے-

امام ترمذی ’’سنن  ترمذی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) اللہ تعالیٰ کے اس قول: ’’وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’قَدْ رَآهُ النَّبِيُّ (ﷺ)‘‘

’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘-

’’هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ‘‘[55]

امام مسلم نے روایت فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن شقیق (رض)فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر (رض)سے کہا:

’’میں اگر رسول اللہ (ﷺ) کی زیارت سے مشرف ہوتا تو میں آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں عرض کرتا تو حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا، آپ کس چیز کے بارے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کرتے ؟عبداللہ بن شقیق (رض) نے فرمایا کہ: مَیں عرض کرتا کہ کیا آپ (ﷺ)  نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟

’’ قَالَ أَبُوْذَرٍّ سَأَلْتُ فَقَالَ رَأَيْتُ نُوْرًا‘‘

تو حضرت ابوذر (رض)نے فرمایا میں نے (یہی سوال رسول اللہ (ﷺ) سے کیا  تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ’’مَیں نے نورکو دیکھا ہے ‘‘-[56]

امام احمد ابن حنبل (رح)’’کتاب السنۃ‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ :

حضرت حسن بصری (رض) نے اس آیت ’’وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى‘‘کی تفسیرمیں فرمایا:

’’سیدنا محمد(ﷺ) نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا حضرت عفان (رض) نے فرمایا حضرت بہز(رض) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں-اللہ کی قسم! تحقیق حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ‘‘-

امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام ابن خذیمہ، امام حاکم اور ہبۃ الله  اللالكائی (رح) نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ:

حضرت ابن عباس(رض)فرماتے ہیں کہ:

’’أَتَعْجَبُونَ أَنْ تَكُونَ الْخُلَّةُ لِإِبْرَاهِيْمَ، وَالْكَلَامُ لِمُوْسَى، وَالرُّؤْيَةُ لِمُحَمَّدٍ (ﷺ)‘‘[57]

’’کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ خلت کا مقام حضرت ابراہیمؑ کیلئے اور کلام کا شر ف حضرت موسی ٰؑ کے لئے اور دیدار کی سعادت حضرت محمد (ﷺ) کے لیے ہے ‘‘-

امام ابن خذیمہ (المتوفى: 311ھ) لکھتے ہیں کہ :

حضرت مبارک بن فضالہ (﷜) روایت بیان فرماتے ہیں کہ :

كَانَ الْحَسَنُ يَحْلِفُ بِاللهِ لَقَدْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ

’’حضرت حسن بصری (رض) نے قسم اٹھا کر فرمایا، تحقیق حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا‘‘-

امام دارقطنی (رح) ’’کتاب رؤية الله‘‘ میں حضرت ابن عباس (رض) کی دونوں روایتیں نقل کرتے ہیں کہ :

1-’’رَأَى مُحَمَّدٌ (ﷺ) رَبَّهُ بِقَلْبِهِ مَرَّتَيْنِ‘‘

’’ حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو اپنے دل سے دو مرتبہ دیکھا ‘‘-

2-’’لَقَدْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ‘‘

’’تحقیق حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘-

ابو القاسم ہبۃ الله بن الحسن بن منصور اللالكائی (المتوفى: 418ھ ) داؤد بن حسین سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:

مروان نے حضرت ابوہریرہ (رض)سے سوال کیا، کیا حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟

آپ (رض) نے فرمایا :

’’نَعَمْ قَدْ رَآهُ»[58]

’’ہا ں ،تحقیق آپ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کودیکھا ہے‘‘-

امام طبری ’’تفسیر طبری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

الشَّيْخُ أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهٖ (أَنَّ مُحَمَّدًا (ﷺ) رَاَى اللهَ بِبَصَرِهٖ وَ عَيْنَيْ رَأْسِهٖ.

امام الآئمہ فی العقیدہ حضرت شیخ ابو الحسن اشعری اور آپ کےاصحاب کی ایک جماعت کا یہی مؤقف ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) نے اپنی نظر کے ساتھ اور اپنے سر کی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے-

حضرت انس، حضرت ابن عباس، حضرت عکرمہ، حضرت ربیع اور حضرت حسن (رض)یہی فرماتے ہیں کہ:’’اورحضرت حسن بصری (رض)اللہ کی قسم کھایا کرتے تھےکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یقیناً حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے‘‘-

الغرض!جب تک آقا کریم (ﷺ) کے ظاہری اور باطنی شمائل وفضائل سے انسان کا تعلق استوار نہیں  ہوتا تب تک وہ اپنے وجود میں ایمان کی حرارت محسوس نہیں کر سکتا-اسی لئے اقبال کہتے ہیں کہ:

کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کر لو
ملّتِ احمدِؐ مرسَل کو مقامی کر لو!

اولیاءاللہ کی تعلیمات کا مرکزی نکتہ عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے-اس لئے خود کو عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے عملاً منور کریں   اور اپنے وجود میں ملّی استقامت کو پیدا  کریں- کیونکہ عصر حاضر میں  اضطراب اور بے یقینی کی فضا اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ مابعدِ نو آبادیاتی افکار نے یقینِ کامل کے آئینہ پہ تَہ بہ تَہ تشکیک و گمان کی گرد لیپ رکھی ہے-عشق ایک ایسا آلہ ہے جو نقشِ دوئی اُکھاڑ ڈالتا ہے اور  آئنیہءِ قلب کو مزکیٰ و متجلیٰ کر دیتا ہے، آئیے اُس عشق سے دلوں کو مرکزِ مہر و  وفا کیجئے-

٭٭٭ 



[1](التوبہ:36)

[2](تفسیر بغوی، زیر آیت، التوبہ:36)

[3](صحيح البخارى، کتاب التفسير)

[4](تفسیر ابن أبی حاتم، زیر آیت، التوبہ: 36)

[5](شُعب الإيمان، کتاب الصیام)

[6](مُسندالفردوس)

[7](مسند احمد/ شعب الایمان)

[8](البقرۃ:115)

[9](صحيح البخاری، كِتَابُ احادیث الانبیاء)

(صحیح مسلم ، کتاب الایمان)

[10](الاسراء:1)

[11](المستدرك على الصحيحين، كِتَابُ الدُّعَاءِ)

[12](شرح المقاصد في علم الكلام)

[13](شرح العقيدة الطحاوية)

[14](الاعتقاد)

[15](غريب القرآن)

[16](الإكليل في استنباط التنزيل)

[17](شرح صحيح البخارى لابن بطال)

[18](بحر العلوم)

[19](تفسير الجلالين)

[20](تفسیر خازن)

[21](عمدة القاري شرح صحيح البخاري)

[22](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

[23](احکام القرآن لابن عربی)

[24](صحیح مسلم، کتاب الفضائل)

(سنن النسائی، كتاب قيام الليل)

(مُصنف عبد الرزاق، كتاب الجنائز)

(مصنف ابن أبي شيبة، كتاب المغازي)

(صحيح ابن حبان ، كتاب الإسراء)

(مسند احمد)

(المعجم الكبيرللطبرانی)

[المعجم الأوسط للطبرانی)

(مُسند أبي يعلى الموصلی)

[25](المواهب اللدنية / شرح الزرقاني على المواهب اللدنية / السيرة الحلبية / الفتاوى الحديثية)

[26](قوت المغتذي على جامع الترمذي أبواب القدر)

(مرقاة شرح مشكاة، بَابُ الْإِيمَانِ بِالْقَدَرِ)

(شرح الشفا)

[27]( اَلْعُرْفُ الشَّذِيْ شرح سنن الترمذي، باب ما جاء في الرضا بالقضاء)

[28](الحاوي للفتاوي / فتاوى الرملي / الفتاوى الحديثية)

(المستدرك على الصحيحين، كِتَابُ تَوَارِيخِ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِينَ)

[29](سبل الهدى والرشاد / الفتاوى الحديثية / السيرة الحلبية )

[30](المُلک:2)

[31](سنن الترمذی، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ)

[32](المستدرك على الصحيحين)

[33](مُصنف ابن ابیشیبہ، كِتَابُ الْمَغَازِي)

[34](المعجم الكبير للطبرانی)

(صحيح ابن حبان)

(مسند الإمام أحمد بن حنبل)

[35](عین الفقر، باب: ذکر ِعلما ٔوفقرأ اور ذکرِاَللّٰہُ)

[36](عقل بیدار، باب: شرحِ حیات النبی (ﷺ)

[37](کلید التوحید کلاں، باب: شرحِ مجلس ِصحیح بذکر و تسبیح)

[38](تفسیرکبیر / تفسیر خازن / تفسیر الكشف والبيان / تفسير البغوی)

[39](غرائب القرآن ورغائب الفرقان المعروف تفسیر النیسابوری)

[40](مریم:17)

[41]( طہٰ:55)

[42]( تفسير البغوي / التمهيد شرح موطأ / عمدة القاري شرح صحيح البخاري)

[43](نوادر الأصول في أحاديث الرسول (ﷺ)

[44](ایضاً)

[45](صحیح بخاری و صحیح مسلم ،بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)

[46]( مسند الإمام أحمد بن حنبل / مصنف ابن ابی شیبہ /  مسند أبو يعلى)

[47](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)

[48](النجم:8-9)

[49](صحیح البخاری ، کتاب التوحید)

[50](الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰؐ)

[51](تفسیر کبیر)

[52](تفسیر روح المعانی)

[53](البقرۃ:138)

[54](النجم:11-18)

[55](سنن الترمذی، ابواب تفسیر القرآن)

[56](صحیح مسلم،کتا ب الایمان)

[57](کتاب السنة / السنن الکبرٰی / کتاب التوحید / المستدرك على الصحيحين / شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة)

[58](شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر