(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ

(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ

(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ

مصنف: ادارہ اپریل 2016

قوم کے فکری انتشار کے دوران قیادت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے- کارواں جب بھٹکنے لگے تو قائد کی شخصیت ہی صحیح سمت کا تعین کرتی ہے  جیسے بکھرے ہوئے پروانوں کو شمع کی لَو ہی یکجا کرتی ہے- جس کشتی کے مسافروں کو ملاح نصیب ہو وہ طوفانوں کی پرواہ نہیں کرتے -ضرورت صرف شاخ سے پیوستہ رہنے کی ہے شجر پہ بہار آکر رہتی ہے-دینی مُعاملات و تربیت میں صُوفیائے کرام کو شروع دن سے ہی قائدانہ حیثیت حاصل رہی ہے ، صُوفیا کے قرآن و سُنت کے عملی مشن کو عہدِ حاضر میں آگے بڑھانے کیلئے حضور سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کو قائم فرمای - آج نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اصلاحی و روحانی تربیّت کے ذریعے اپنے انفرادی و ملی کردار کو پختہ تر بنا رہی ہے اس کی وجہ اصلاحی جماعت کی رُوحانی و لولہ انگیز قیادت ،مضبوط دِینی کردار اورغیر معمولی معیار کی تربیت ہے- یہ رُوحانی قیادت کا اعجاز ہے کہ اپنے قیام سے چند سال بعد ہی اصلاحی جماعت ملک گیر مذہبی جماعت بن گئی - الحمدللہ! اصلاحی جماعت رُبع صدی کی ارتقائی مسافت طے کر چکی ہے- اس سفر کی رُوداد پکار پکار کرکہہ رہی ہے کہ     :

گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں 

یہاں اب مرے رازداں اَور بھی ہیں 

بلاشبہ اصلاحی جماعت نے عرفانِ ذات کا جو چراغ روشن کیا تھا آج اُس کی کرنیں لاکھوں قلوب کومنور کر رہی ہیں - قرآن مجید سے اطاعتِ الٰہی کی جو دعوت دی گئی اُس پہ لبیک کہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا - انقلاب آفرین جدوجہد جاری ہے اور یہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی فلاحی معاشرہ بنانے پہ منتج ہو گی- حق کے پیغام کو ہر لمحہ نئی شان سے پذیرائی مل رہی ہے- اصلاحی جماعت کی اُن کاوشوں کا مختصر ذکر جو ثمر آور ہوئیں، یاد رہے کہ یہاں پہ صرف معاشرتی رجحانات میں مثبت تبدیلیوں کا تذکرہ کیا جائے گا   :

﴿۱﴾ اصلاحی جماعت کے قیام سے پہلے خانقاہی نظام تنزلی کا شکار تھا اور اس کی حالت مخدوش تھی - خانقاہی نظام کا فلاحی تصور ختم ہو رہا تھا- وہاں پہ غیر شرعی رسومات رائج تھیں اور معاشرتی برائیاں زور پکڑ رہی تھیں- سلطان الفقر ششم بانی اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی قدس اللہ سرہ ،نے سب سے پہلے اس کی اصلاح کا فیصلہ فرمایا- اس مقصد کے لیے آپ نے دربارِ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو ایک مثالی خانقاہ میں ڈھالنے کے لیے اقدامات فرمائے- آج اسی کاوش کا ثمر ہے کہ یہ خانقاہ اپنے نظم و ضبط اور فلاحی و رفاہی کاموں میں دیگر خانقاہوں کے لیے ایک قابلِ عمل نظیر بن گئی ہے -

﴿۲﴾ فرقہ واریت کے خلاف اصلاحی جماعت کی جدوجہد کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے- اصلاحی جماعت وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی آواز تمام مکاتبِ فکر میں احترام سے سنی جاتی ہے- اس کے اجتماعات میں تمام مذہبی مکاتبِ فکر کے نمائندگان شرکت کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اسی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی محبت و اُلفت پید اہو رہی ہے-

﴿۳﴾ اصلاحی جماعت نے معاشرے میں محبت، رواداری ،تحمل اور برداشت کو فروغ دیا ہے- اصلاحی جماعت نے اسلاف کی اُن روایات کو پروان چڑھایا ہے جن کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں بلاتمیز مذہب، رنگ اور نسل کے صرف انسان کی قدر کی جاتی تھی- اصلاحی جماعت کی ملک سے ہمہ قسم کی عصبیت ،تقسیم و تفریق ختم کرنے کی کوشش کا نہ صرف اعتراف کیا جاتا ہے بلکہ سراہا بھی جاتا ہے-

﴿۴﴾ بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرہ، نے اسلاف کے گم گشتہ اوراق کو جمع کر کے معرفتِ الٰہی کا رُوحانی نصاب مرتب فرمایا اور معرفت الٰہی کی سبیل عام کرنے کے لیے اور قلبی پاکیزگی کو یقینی بنانے کیلئے تصور اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر کی دعوت دی- آپ نے اپنی رُوحانی طاقت سے اَن گنت افراد کو نیکی کی راہ پہ لگایا اور اُن کے دلوں میں خدا کی نافرمانی سے کراہت پیدا کی-

﴿۵﴾ اصلاحی جماعت معاشرتی برائیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور خاص کر ایسی برائیوں کے خلاف اجتماعی شعور اُجاگر کر رہی ہے جنہیں عصر حاضر میں سنگین برائی نہیں گردانا جاتا اور وہ جدید رجحانات کی آڑ میں چھپ جاتی ہیں جیسے سود وشراب اور زنا وغیرہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی دینِ اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ قرآن پاک کے مطابق یہ معاشرے میں فتنہ و فساد عام کرنے کے شیطانی اوزار و ہتھیار ہیں - اِصلاحی جماعت سے تربیت یافتہ نوجوان ان رذائل و خبائث سے کے خلاف عملی جہاد باللسان کر رہے ہیں -

﴿۶﴾ اصلاحی جماعت طالبانِ مولیٰ کی باطنی و رُوحانی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہے اور خاص کر نوجوانوں کو خیال کی پاکیزگی اور کردار کی مضبوطی کا سامان فراہم کرتی ہے تاکہ وہ اپنی ملی و روحانی شناخت کو برقرار رکھ سکیں -

﴿۷﴾ اصلاحی جماعت نہ صرف اتحادِ اُمت کے لیے کوشاں ہے بلکہ دُنیا کے مظلوم مسلمانوں کی آواز کو مؤثر طریقہ سے عالمی سطح پہ اُٹھا رہی ہے -

﴿۸﴾ اصلاحی جماعت نے راہِ طریقت کے پیروکاروں کو مریدانہ کردار کی تحدید سے باہر نکالا انہیں قومی اور ملی تشخص و ذمہ داریوں سے روشناس کروایا - خاص کر یہ اِس جماعت کی قیادت کا کرشمۂ نظر ہے کہ اس نے ایک خانقاہ سے وابستہ عقیدتمندوں کو روایتی پیری مریدی کی بجائے ایک ملی و عملی وژن عطا کیا اور انہیں ملتِ اسلامیہ کی فلاح و استحکام کا ایک کارکن بنایا -

﴿۹﴾ روحانی ، دینی اور ملی اصلاح کے ساتھ ساتھ اصلاحی جماعت نے مملکتِ خداداد مدینۂ ثانی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی و روحانی اساس کا بھی تفکر و تدبر نوجوانوں میں پیدا کیا ہے کہ کس عظیم مشن اور مقصد کی خاطر یہ قوم تشکیل دی گئی ہے اور یہ ملک بنایا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے کیا خاص فریضہ اس قوم سے سر انجام دلوانا ہے - فکرِ اقبال ، فکرِ قائد ، دو قومی نظریّہ اور پاکستان کی روحانی شناخت کا پرچار بھی اس جماعت کا طرۂ امتیاز ہے ، اس کے مبلغین اور کارکنان ملک کے طول و عرض میں اس قومی و ملی شناخت کا پہرہ دیتے ہیں جو ہماری تاریخ اور ہمارے اسلاف نے ہمیں عطا کی ہے -

اس مختصر تحریر میں اصلاحی جماعت کے ہمہ جہتی اقدامات کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی البتہ موضوع کویوں سمیٹاجاسکتا ہے کہ ہماری رُوحانی، روشن ،عادل اورہمہ گیر قیادت وہ واحد فرق ہے جو ہمیں دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتاہے اور ہماری قیادت ہی ہمارا فخرو وِرثہ ہے- اصلاحی جماعت کے زیر انتظام ہرسال ۲۱ اور ۳۱ اپریل دربارِ عالیہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ پہ مرکزی اجتماع بسلسلہ میلادِ مصطفی ﷺ منعقد ہوتا ہے- عامۃ الناس کو اس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے شہر شہر اجتماعات کا اہتمام کیا جاتا ہے- اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے زیرِانتظام 2016ئ کاسالانہ مرکزی ٹوور پروگرام پاکستان کے مختلف اضلاع میں مرحلہ وار،پَے بہ پَے کامیاب، پُرہجوم نورانی، رُوحانی ،عرفانی ،وجدانی اور اصلاحی اجتماعات کے انعقادی تسلسل کے چوتھے رائونڈ کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے:

 

28/02/2016

Y.M.C.A گرائونڈ ، نزد گورنر ہاؤس ، کراچی 

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ، سلارِ عارفین حضرت سُلطان محمد علی صاحب  

خصوصی خطاب : مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب  

کلام باری تعالیٰ سے محفل شروع ہوئی ،بارگاہِ رسالت مآب میں نعت کا گل دستۂ عقیدت پیش کیا گیا - نفتی صاحبان کے خطابات کے بعد چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین ،مرکزی جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب مدظلکم الاقدس نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایاکہ: -

 اس دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے عظیم راستہ قرآن وسنت کو اختیار کئے بغیر اور اپنائے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا آدمی سر سے لے کر قدموں تک اورجسم سے روح تک کامیابی و کامرانی کو قرآن وسنت کو عملی جامہ پہنائے بغیر حاصل نہیں کر سکتا- قلب کی صفائی اور رُوح کی بیداری صوفیائِ کرام کاعملی کردار ہے اور تصوف کا سب سے پہلا سبق قرآن کریم میں ہے اور اس بات کو قرآن کریم کی ہر سورۃ ثبوت فراہم کرتی ہے کہ علمِ روحانیت دینِ اسلام کی سرشت میں شامل ہے ، مثال کے طور پر آپ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۱۵۱ مطالعہ کریں فرمان باری تعالیٰ ہے :

﴿کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰ تِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾ 

’’جیسا ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورتمہیں پاک کرتا اورکتاب اورپختہ علم سکھاتا اورتمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کاتمہیں علم نہ تھا-﴿سورۃ البقرۃ:۱۵۱﴾  

اس آیت میں تمام تر کلمات باطن کے علم ﴿یعنی علمِ تصوف ﴾ کو آشکار کرتے ہیں - مفسرینِ کرام فرماتے ہیں کہ آیات کی تلاوت کا تعلق بھی تعلیم سے ہے ، کتاب کی تعلیم دینے کا تعلق بھی تعلیم سے ہے اور پھر تیسری مرتبہ بھی تکرار کیا کہ تمہیں وہ سکھاتا ہے کہ جو تم پہلے نہیں جانتے تھے ، تو سوال یہ ہے کہ اس فعل کا تکرار یہاں پہ کیوں واقعہ ہوا ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے قاضی بیضاوی تفسیر بیضاوی میں ، مفتیٔ بغداد علامہ محمود آلوسی روح المعانی میں اور ملا علی القاری اپنی تفسیر انوار القرآن و اسرار الفرقان میں فرماتے ہیں کہ ﴿و کرّر الفعل لیدُلَّ علیٰ انہ، جنسٌ آخر﴾ کہ ﴿یعلکم﴾ فعل کا تکرار تعلیم کی کسی دوسری قسم پر دلالت کرتا ہے - اب پھر سوال پیدا ہوا کہ تعلیم کی یہ دوسری قسم کیا ہوتی ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے قاضی ثنا اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں ﴿ولعلّ المراد بہ العلم اللدنی﴾ کہ اس دوسری قسم سے مراد علم لدنی ہے - اب پھر سوال پیدا ہوگا کہ علمِ لدنی کا جواز کیا ہے ؟ اور علمِ لدنی کیا چیز ہے ؟ تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورہ الکہف کی آیت ۵۶ میں فرمایا کہ حضرت موسیٰ ں نے ہمارے بندوں میں سے ایک خاص بندے کو پالیا جس کو ہم نے اپنی بارگاہ سے رحمت اور علمِ لدنی سے نوازا ، یہ تو ہے علمِ لدنی کا جواز اور ثابت ہونا ، جہاں تک یہ بات ہے کہ اس مراد کیا ہے تو اس پہ امام بغوی ، ملا علی القاری ، علامہ اسماعیل حقی ، امام قرطبی ، سمیت دیگر درجنوں مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد علمِ باطن اور علمِ الہام ہے جسے کہ صوفیا کی اصطلاح میں تصوف کہتے ہیں -

اس کے بعد صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے شریعت و طریقت کے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہونے پہ دلائل دیے اور عامۃ الناس کو جلیل القدر فقہا اور صوفیا کے حوالوں سے بتایا کہ شریعت و طریقت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ، اور اس بات پہ زور دیا کہ جہاں بھی ایسے لوگ دیکھو جو دعویٰ تو تصوف کا کریں مگر شریعت پہ گامزنِ عمل نہ ہوں تو سمجھ جاؤ کہ وہ گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں اُن کا طریقت و تصوف سے کوئی تعلق نہیں -

اجتماع میں ہر طرف لوگوں کاٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آ رہا تھا- مذہبی ، سیاسی ،سماجی ،وکلائ، تاجروں اور صوبائی ووفاقی حکومت کے نمائندگان نے بھی اجتماع میں شرکت کی - جانشینِ سلطان الفقر ،سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین نے کراچی کے درماندہ حالات میں بہتری کے لیے خصوصی دُ عا فرمائی - روشنیوں کے شہر کے ہزاروں باسیوں نے راہِ طریقت کی روشنی حاصل کرنے کے لیے شہبازِ عارفاں سُلطان محمد علی سروری قادری کے دستِ حق پرست پہ بیعت کی-

05/03/2016

بمقام: میونسپل اسٹیڈیم حافظ آباد

صدارت و خصوصی خطاب : صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب ﴿سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ، چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل﴾

آیاتِ ربانی کی تلاوت سے اجتماع کا آغاز ہوا ،نعتِ رسول مقبول ﷺ کا ہدیۂ عقیدت پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی - صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے خصوصی خطاب میں فرمایا کہ:-

 

انسان کو دو تقاضوں پہ پیدا فرمایا گیا ہے ایک اس کا ظاہر ہے اور دوسرا اس کا وجودِ باطن ہے ، اگر یہ اپنے وجودِ باطن کی جانب متوجہ نہیں ہوتا تو ظاہر کی صلاحیتیں اس کی نجات و فلاح کیلئے مکمل سامان مہیا نہیں کر سکتیں - اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا﴾ یعنی تحقیق کامیاب وہ لوگ ہوگئے جنہوں نے اپنے نفس کو پاک کر لیا - نفس انسان کے وجودِ ظاہر میں سے کوئی عضو نہیں بلکہ اس کا اشارہ انسان کے باطن کی جانب ہے جہاں سے اس کی خواہش کی تشکیل و ترتیب ہو رہی ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنے اس کارخانۂ خواہشات کو احکامِ الٰہی کا پابند نہ بنایا - اِس لئے وہ تمام شخصیّات جنہیں قرآن پاک پہ اللہ تعالیٰ نے بصیرت و نور سے مالا مال فرمایا انہوں نے ہمیشہ انسان کو وجودِ باطن کی جانب مائل کیا اور اِس بات پہ اصرار کیا انسان کو اپنی ساخت لازماً سمجھنی چاہئے -

مثلاً مقدمہ ابن خلدون میں علامہ عبد الرحمٰن ابو محمدبن خلدون فرماتے ہیں کہ ﴿اِنّالاِنسانَ مرکّبٌ من جزئینِ: احدُہُما جسمانیٌّ و الآ خَرُ رَوْحانیٌّ﴾ یعنی انسان دو اجزأ کا مرکب ہے : جن میں ایک اس کا جسمانی پہلو ہے اور دوسرا اس کا روحانی پہلو ہے - اِسی طرح حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃا للہ علیہ نے تفسیر کبیر ﴿ج ۱ ، ص ۲۵۱﴾ میں فرمایا ہے ، ﴿واعلم اَنّ الاِنسان مرکّبٌ من جسدٍ و من روح﴾ یعنی جان لو کہ انسان جسد / جسم اور روح ان دونوں کا مرکب ہے - اور تقریباً یہی بات حضور شہنشاہِ بغداد غوث الاعظم ص سرالاسرار شریف میں فرماتے ہیں کہ ﴿فالانسانُ علیٰ نَوعیْنِ: جسمانیٌّ و روحانیٌّ﴾ یعنی پس انسان کی دو حالتیں ہیں جسمانی اور روحانی -

بزرگانِ دین کی اِن عبارات و تشریحات سے یہ واضح ہوتا جاتا ہے کہ انسان کی جسمانی ساخت اور روحانی ساخت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو ترک کرنا انسان کی تکمیل کی نفی کے مترادف ہے ، لہٰذا جہاں ظاہر کی اصلاح و تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے وہیں اس کے وجودِ باطن کو بھی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے

محفل کے اختتام پہ درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا گیا- صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے اتحادِ اُمت اور حاضرینِ محفل کے لیے خصوصی دعا فرمائی، شرکائِ محفل کی کثیر تعداد راہِ طریقت کے لیے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت کی -

06/03/2016

اسلامیہ گراؤنڈ ، چنیوٹ سٹی

صدارت و خصوصی خطاب : صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب

صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج نفرتوں اور عداوتوں کے عہد میں سب سے بڑا جہاد امن اور برداشت کا قیام ہے کہ وہ اُمت جس نے عالمِ انسانیت کو امن فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے آج خود تقسیم اور تفریق کا شکار ہے اور بد ترین خانہ جنگیوں میں مبتلا ہے ، ہمیں اپنی توانائیاں اس فرقہ وارانہ تشدد اور تعصب کو کم کرنے اور بتدریج ختم کرنے پہ لگانی چاہئیں - جب تک مسلمانوں کا تعلق کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺ سے عملی و فکری طور پہ رہا تب تک ہمارے درمیان ایسا ماحول جو کہ آج بن چکا ہے ، پہلے کبھی نہ تھا لیکن جیسے جیسے ہمارے اندر سے روحانی چاشنی اور گداز نکلتا گیا ہم کھجوروں کے کھوکھلے تنے بنتے گئے کہ جس کا جب اور جہاں سے جی چاہا ہمیں کاٹ دیا -

 

اِس لئے صوفیا کرام نے انسان کا انفرادی تربیت کا جو طریقہ کار اختیار کیا تھا وہ ہماری فطرت اور نفسیات کے قریب تر تھا اور صحیح معنوں میں ہمارے اندر سے نفرت ، تعصب اور شدت کا خاتمہ کرتا تھا ، چونکہ صوفیا قربِ خداوندی کی دعوت دیتے ہیں جس کا پہلا زینہ اور پہلی سیڑھی ہے ہی انسانیت کی پہچان اور مقامِ آدمیت کی معرفت - صوفیا نے قرآن و سنت کے عملی دقیق و وسیع مطالعہ و مشاہدہ سے اخذ شدہ نتائج سے یہ دعوت دی کہ انسان کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہئے تاکہ یہ صحیح معنوں میں خلیفۃ اللہ بن سکے - اور یہ فکر اپنی ہی ذات کے داخل میں کیا جاتا ہے - جس طرح کہ حضرت ابو المعانی مرزا عبد القادر بیدل دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

نورِ جاں در ظُلمت آبادِ بدن گم کردہ ام

آہ ازیں یوسف کہ من در پیر ہن گم کردہ ام

یعنی میں اپنی روح کا نور اپنے بدن کی ظُلمت میں گم کر بیٹھا ہوں ، آہ میرا وہ یوسف جسے میں اپنے ہی پیرہن میں کہیں کھو بیٹھا ہوں ، یہ ایک تلمیح ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے تو اپنا یوسف جنگل کے کنویں میں کھویا تھا مگر میں وہ بد نصیب ہوں جس کا یوسف اس کے اپنے لباسِ وجود میں گم ہو کر رہ گیا ہے -

چوں نفس از مدعائے جستجو آگاہ نیم

ایں قدر دانم کہ چیزے ہست و من گم کردہ ام

یعنی اپنے سانس کی طرح مجھے بھی جستجو کا نہیں پتہ کہ جس طرح سانس آ اور جا رہا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ کیوں آ اور جا رہا ہے لیکن اُسے ایک جستجو کا چرخہ ضرور لگا ہوا ہے بعینہٰ میں بھی اپنی سانس کی طرح مضطرب اور مسلسل چل رہا ہوں زیادہ تو نہیں جانتا بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ تھا میرا یا میرے پاس جسے میں گنوا بیٹھا ہوں جو مجھ سے کھو گیا ہے - چونکہ انسان عالمِ ارواح میں قربِ الٰہی کی لذت کو چکھ چکا ہے جو عالمِ مادیت میں اس کی روح کے آتے ہی اس سے چھن جاتی ہے اور زندگی کا مقصد اُسی قرب کی جانب لوٹ کر جانا ہے جس کیلئے اطاعت کا راستہ بتا گیا ہے تو صوفیا اس کھوئی ہوئی قیمتی چیز کو تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ آدمی جب اس کھوج میں نکلتا ہے تو اسے انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے -

اجتماع کے اختتامی مراحل میں آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور دورد و سلام کا ہدیہ پیش کیا گیا- مرکزی جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سُلطان احمدعلی صاحب نے قومی استحکام اور حاضرینِ محفل کی نیک تمنائوں کے برآنے کی خصوصی دعا فرمائی- سینکڑوں لوگوں نے سلسلہ عالیہ قادریہ میں شمولیت اختیار کی -

11/03/2016

بمقام : ہاکی اسٹیڈیم بہاولپور

صدارت: صاحبزادہ سُلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز قادری

اصلاحی جماعت اولیائِ کرام کی تعلیمات کو قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کر رہی ہے جن کے بارے میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ:

یک زمانہ صحبت بااولیائ

بہتر ازصد سالہ طاعت بے ریا

اولیائِ کاملین فرماتے ہیں کہ انسان کے بنیادی تین پہلو ہیں ﴿۱﴾ انسان کا ظاہری جسم ﴿۲﴾ انسان کا باطن ،دل ﴿۳﴾ انسان کی حقیقت رُوح- اولیائِ کاملین ان تینوں کو سنوارنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ انسان کی انسانیت کی تکمیل ہو اسی لیے فرمایاگیا کہ :

﴿ یٰٓ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہ، لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘-﴿البقرہ:۸۰۲﴾

اسلام میں پوری طرح داخل ہو جائو اور کامل داخلہ یہی ہے ظاہری ، باطنی اور حقیقی طوپر اسلام کواپنے اوپر نافذ کرکے کامل ہدایت اور معرفت الٰہی کوحاصل کیا جائے یعنی جسمانی لحاظ سے عبادت میں ،قلبی لحاظ سے ذکر الٰہی میں اور رُوح کے لحاظ سے معرفتِ الٰہی میں مشغول ہو کر زندگی کا مقصد کو حاصل کرے -

اواخر میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا گیا بعد ازاں جگر گوشہ حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ ،عکسِ سلطان الفقرششم صاحبزادہ حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب مدظلکم الاقدس نے حاضرینِ محفل کی نیک تمنائوں کے بر آنے کی خصوصی دعافرمائی -اس موقع پہ سینکڑوں لوگوں نے بیعت طریقت کی-

13/03/2016

بمقام : ڈگری کالج گرائونڈ قصور

صدارت و خصوصی خطاب : صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب

اللہ تعالیٰ کی محبت اورقرب پانے کے لیے قرآن کریم میں تین طریق بیان ہوئے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی محبت و قرب حاصل کیا جا سکتا ہے - پہلا طریق علم التاریخ سے متعلق ہے یعنی قرآن کریم میں بیان شدہ واقعات و حکایات کے تنائج سے درس و عبرت لیتے ہوئے قربِ الٰہی کی راہ تلاش کرنا دوسرا طریق مظاہر فطرت میں تدبر کرنے سے متعلق ہے اورتیسرے طریق کاتعلق انسان کے باطن سے ہے -طریقِ اوّل :اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سابق قوموں کے واقعات وقصص بیان فرمائے -اُن قوموں کا ذکر ہوا جن پہ نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عتاب نازل ہوا اور ان کا ذکر بھی ہوا جنہیں اطاعتِ الٰہی کی وجہ سے دُنیا میں سرفراز و سرخرو کیا گیا -ان واقعات کابیان فقط بیانِ واقعہ کے لیے نہیں ہوا بلکہ یہ واقعات بہ طور امثال پیش ہوئے ،فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ :-

﴿وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ ج وَمَا یَعْقِلُھَآ اِلَّا الْعَالِمُوْن﴾

’’اور یہ مثالیں ہیں ہم انہیں لوگوں ﴿کے سمجھانے﴾ کے لیے بیان کرتے ہیں اور انہیں اہلِ علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتا‘‘-﴿العنکبوت :۳۴﴾

یہ امثال تشبیہ ،استعارہ یا تاریخِ واقعہ کے لحاظ سے بیان نہیں کی گئیں بلکہ ان امثال کا بیان اس لیے ہوا تاکہ لوگ ان کے تنائج میں تفکر کریں اور ان کے مفہوم میں تدبر کریں کہ جس قوم پہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہوئی اُن کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر کسی قوم پہ عذاب نازل ہوا توکیسے ہم اُن اعمال سے پرہیز کریں تاکہ اللہ کی گرفت سے بچ سکیں - سادہ الفاظ میں یہ کہ اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کا طریقہ تاریخ میں محفوظ کر دیا گیا- طریق ِ ثانی یہ ہے کہ کائنات کے تکوینی نظام اوراس کے نظم میں غور و فکر کریں جس کی دعوت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں دی کہ :-

﴿الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ط مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْر﴾

’’جس نے سات آسمان بنائے ایک کے اوپر دوسرا تورحمن کے بنانے میں کیا فرق دیکھتا ہے تونگاہ اُٹھا کر دیکھ تجھے کوئی رخنہ نظرآتا ہے ‘‘- ﴿الملک :۳﴾

کسی علم و دانش میں یہ جرأت ہے ،کسی بصیرت اورفصاحت وبلاغت میں یہ جرأت ہے کہ جو آسمان کی تخلیق میں رَتی برابر بھی فرق یانقص ڈھونڈ سکے - فرمایا گیا کہ اگر ان تخلیقات میں فرق ڈھونڈنے کی غرض سے دیکھو گے تو تمہاری نگاہیں ناکام و نامراد اور رسوا لوٹ آئیں گیں لیکن خالق کائنات کی تخلیق اوربنائی گئی کائنات کے نظم کے اندر کسی بھی مقام پہ کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا صرف آسمان کی تخلیق میں ہی نہیں بلکہ کائنات کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تخلیق میں بھی فرق نہیں پائو گے- ارشادِ ربانی ہے کہ :

﴿اَفَ لَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْoوَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْoوَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتo وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَت﴾

’’توکیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کیسا بنایا گیا اور آسمان کو کیسے اونچا کیا گیا اور پہاڑ کیسے قائم کئے گئے اورزمین کیسے بچھائی گئی ‘‘-﴿الغاشیۃ :۷۱تا۰۲﴾

پہاڑ کی طرف دیکھو! اسے زمین پہ کیسے نصب کیا گیا اس زمین کے تختے کے اوپر پہاڑوں کے ساتھ کیلیں ٹھونک دی ہیں کہ یہ پانی پہ کھڑی اپنے مقام سے ہلتی نہیں ہے -فرمایا زمین کی طرف غور کرو ﴿کَیْفَ سُطِحَت﴾ہم نے کیسے اس کی سطح کو بچھادیا -ان اشیائ میں غور و فکر کرو ، رات اور دن کے بدلنے میں غور و فکر کرو ،سورج اور چاند کی گردش میں تفکر کرو کہ کیسے اُجالا اندھیرا نگل لیتا ہے اور روشنی پہ کیسے ظلمت چھا جاتی ہے -

معرفت ِ الٰہی کاتیسرا طریق خود انسان کی ذات سے متعلق ہے فرمایا کہ اے انسان! میں نے اپنی نیابت کاتاج تیرے سر پہ رکھ کر تجھے اپنا خلیفہ بنایا اوریہ اعلان کردیا کہ :

﴿ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد﴾

’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘-﴿قٓ:۶۱﴾

جب میری طرف آنا چاہو تو تُو مجھے اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب پائے گا- انسان اگر چاہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں کامیاب ہو جائوں اور اپنے باطن میں جھانکنے میں کامیاب ہو جائوں -یہ حقیقت ہے کہ جیسے جیسے انسان اپنے باطن میں اُترتا جائے گا ویسے ویسے وہ اللہ تعالیٰ سے قریب تر ہوتا جائے گا اس طریق کوعلمِ باطن اور علمِ رُوحانیت کہتے ہیں -اصلاحی جماعت علم رُوحانیت کے حقائق عامۃ الناس کو بہم پہنچا رہی ہے -

اجتماع کے اواخر میں رسولِ کریم ﷺ کے حضور درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا گیا- جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب مدظلکم الاقدس نے ملک و قوم کی سلامتی و استحکام کے لیے خصوصی دعا فرمائی -سینکڑوں افراد نے سلسلہ عالیہ قادریہ میں شمولیت کاشرف حاصل کیا-

قوم کے فکری انتشار کے دوران قیادت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے- کارواں جب بھٹکنے لگے تو قائد کی شخصیت ہی صحیح سمت کا تعین کرتی ہے  جیسے بکھرے ہوئے پروانوں کو شمع کی لَو ہی یکجا کرتی ہے- جس کشتی کے مسافروں کو ملاح نصیب ہو وہ طوفانوں کی پرواہ نہیں کرتے -ضرورت صرف شاخ سے پیوستہ رہنے کی ہے شجر پہ بہار آکر رہتی ہے-دینی مُعاملات و تربیت میں صُوفیائے کرام کو شروع دن سے ہی قائدانہ حیثیت حاصل رہی ہے ، صُوفیا کے قرآن و سُنت کے عملی مشن کو عہدِ حاضر میں آگے بڑھانے کیلئے حضور سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کو قائم فرمای - آج نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اصلاحی و روحانی تربیّت کے ذریعے اپنے انفرادی و ملی کردار کو پختہ تر بنا رہی ہے اس کی وجہ اصلاحی جماعت کی رُوحانی و لولہ انگیز قیادت ،مضبوط دِینی کردار اورغیر معمولی معیار کی تربیت ہے- یہ رُوحانی قیادت کا اعجاز ہے کہ اپنے قیام سے چند سال بعد ہی اصلاحی جماعت ملک گیر مذہبی جماعت بن گئی - الحمدللہ! اصلاحی جماعت رُبع صدی کی ارتقائی مسافت طے کر چکی ہے- اس سفر کی رُوداد پکار پکار کرکہہ رہی ہے کہ :

گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں

یہاں اب مرے رازداں اَور بھی ہیں

بلاشبہ اصلاحی جماعت نے عرفانِ ذات کا جو چراغ روشن کیا تھا آج اُس کی کرنیں لاکھوں قلوب کومنور کر رہی ہیں - قرآن مجید سے اطاعتِ الٰہی کی جو دعوت دی گئی اُس پہ لبیک کہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا - انقلاب آفرین جدوجہد جاری ہے اور یہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی فلاحی معاشرہ بنانے پہ منتج ہو گی- حق کے پیغام کو ہر لمحہ نئی شان سے پذیرائی مل رہی ہے- اصلاحی جماعت کی اُن کاوشوں کا مختصر ذکر جو ثمر آور ہوئیں، یاد رہے کہ یہاں پہ صرف معاشرتی رجحانات میں مثبت تبدیلیوں کا تذکرہ کیا جائے گا:

﴿۱﴾ اصلاحی جماعت کے قیام سے پہلے خانقاہی نظام تنزلی کا شکار تھا اور اس کی حالت مخدوش تھی - خانقاہی نظام کا فلاحی تصور ختم ہو رہا تھا- وہاں پہ غیر شرعی رسومات رائج تھیں اور معاشرتی برائیاں زور پکڑ رہی تھیں- سلطان الفقر ششم بانی اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی قدس اللہ سرہ ،نے سب سے پہلے اس کی اصلاح کا فیصلہ فرمایا- اس مقصد کے لیے آپ نے دربارِ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو ایک مثالی خانقاہ میں ڈھالنے کے لیے اقدامات فرمائے- آج اسی کاوش کا ثمر ہے کہ یہ خانقاہ اپنے نظم و ضبط اور فلاحی و رفاہی کاموں میں دیگر خانقاہوں کے لیے ایک قابلِ عمل نظیر بن گئی ہے -

﴿۲﴾ فرقہ واریت کے خلاف اصلاحی جماعت کی جدوجہد کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے- اصلاحی جماعت وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی آواز تمام مکاتبِ فکر میں احترام سے سنی جاتی ہے- اس کے اجتماعات میں تمام مذہبی مکاتبِ فکر کے نمائندگان شرکت کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اسی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی محبت و اُلفت پید اہو رہی ہے-

﴿۳﴾ اصلاحی جماعت نے معاشرے میں محبت، رواداری ،تحمل اور برداشت کو فروغ دیا ہے- اصلاحی جماعت نے اسلاف کی اُن روایات کو پروان چڑھایا ہے جن کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں بلاتمیز مذہب، رنگ اور نسل کے صرف انسان کی قدر کی جاتی تھی- اصلاحی جماعت کی ملک سے ہمہ قسم کی عصبیت ،تقسیم و تفریق ختم کرنے کی کوشش کا نہ صرف اعتراف کیا جاتا ہے بلکہ سراہا بھی جاتا ہے-

﴿۴﴾ بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرہ، نے اسلاف کے گم گشتہ اوراق کو جمع کر کے معرفتِ الٰہی کا رُوحانی نصاب مرتب فرمایا اور معرفت الٰہی کی سبیل عام کرنے کے لیے اور قلبی پاکیزگی کو یقینی بنانے کیلئے تصور اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر کی دعوت دی- آپ نے اپنی رُوحانی طاقت سے اَن گنت افراد کو نیکی کی راہ پہ لگایا اور اُن کے دلوں میں خدا کی نافرمانی سے کراہت پیدا کی-

﴿۵﴾ اصلاحی جماعت معاشرتی برائیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور خاص کر ایسی برائیوں کے خلاف اجتماعی شعور اُجاگر کر رہی ہے جنہیں عصر حاضر میں سنگین برائی نہیں گردانا جاتا اور وہ جدید رجحانات کی آڑ میں چھپ جاتی ہیں جیسے سود وشراب اور زنا وغیرہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی دینِ اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ قرآن پاک کے مطابق یہ معاشرے میں فتنہ و فساد عام کرنے کے شیطانی اوزار و ہتھیار ہیں - اِصلاحی جماعت سے تربیت یافتہ نوجوان ان رذائل و خبائث سے کے خلاف عملی جہاد باللسان کر رہے ہیں -

﴿۶﴾ اصلاحی جماعت طالبانِ مولیٰ کی باطنی و رُوحانی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہے اور خاص کر نوجوانوں کو خیال کی پاکیزگی اور کردار کی مضبوطی کا سامان فراہم کرتی ہے تاکہ وہ اپنی ملی و روحانی شناخت کو برقرار رکھ سکیں -

﴿۷﴾ اصلاحی جماعت نہ صرف اتحادِ اُمت کے لیے کوشاں ہے بلکہ دُنیا کے مظلوم مسلمانوں کی آواز کو مؤثر طریقہ سے عالمی سطح پہ اُٹھا رہی ہے -

﴿۸﴾ اصلاحی جماعت نے راہِ طریقت کے پیروکاروں کو مریدانہ کردار کی تحدید سے باہر نکالا انہیں قومی اور ملی تشخص و ذمہ داریوں سے روشناس کروایا - خاص کر یہ اِس جماعت کی قیادت کا کرشمۂ نظر ہے کہ اس نے ایک خانقاہ سے وابستہ عقیدتمندوں کو روایتی پیری مریدی کی بجائے ایک ملی و عملی وژن عطا کیا اور انہیں ملتِ اسلامیہ کی فلاح و استحکام کا ایک کارکن بنایا -

﴿۹﴾ روحانی ، دینی اور ملی اصلاح کے ساتھ ساتھ اصلاحی جماعت نے مملکتِ خداداد مدینۂ ثانی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی و روحانی اساس کا بھی تفکر و تدبر نوجوانوں میں پیدا کیا ہے کہ کس عظیم مشن اور مقصد کی خاطر یہ قوم تشکیل دی گئی ہے اور یہ ملک بنایا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے کیا خاص فریضہ اس قوم سے سر انجام دلوانا ہے - فکرِ اقبال ، فکرِ قائد ، دو قومی نظریّہ اور پاکستان کی روحانی شناخت کا پرچار بھی اس جماعت کا طرۂ امتیاز ہے ، اس کے مبلغین اور کارکنان ملک کے طول و عرض میں اس قومی و ملی شناخت کا پہرہ دیتے ہیں جو ہماری تاریخ اور ہمارے اسلاف نے ہمیں عطا کی ہے -

اس مختصر تحریر میں اصلاحی جماعت کے ہمہ جہتی اقدامات کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی البتہ موضوع کویوں سمیٹاجاسکتا ہے کہ ہماری رُوحانی، روشن ،عادل اورہمہ گیر قیادت وہ واحد فرق ہے جو ہمیں دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتاہے اور ہماری قیادت ہی ہمارا فخرو وِرثہ ہے- اصلاحی جماعت کے زیر انتظام ہرسال ۲۱ اور ۳۱ اپریل دربارِ عالیہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ پہ مرکزی اجتماع بسلسلہ میلادِ مصطفی


ö منعقد ہوتا ہے- عامۃ الناس کو اس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے شہر شہر اجتماعات کا اہتمام کیا جاتا ہے- اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے زیرِانتظام 2016ئ کاسالانہ مرکزی ٹوور پروگرام پاکستان کے مختلف اضلاع میں مرحلہ وار،پَے بہ پَے کامیاب، پُرہجوم نورانی، رُوحانی ،عرفانی ،وجدانی اور اصلاحی اجتماعات کے انعقادی تسلسل کے چوتھے رائونڈ کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے:

 

28/02/2016

Y.M.C.A گرائونڈ ، نزد گورنر ہاؤس ، کراچی

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ، سلارِ عارفین حضرت سُلطان محمد علی صاحب

خصوصی خطاب : مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب

کلام باری تعالیٰ سے محفل شروع ہوئی ،بارگاہِ رسالت مآب میں نعت کا گل دستۂ عقیدت پیش کیا گیا - نفتی صاحبان کے خطابات کے بعد چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین ،مرکزی جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب مدظلکم الاقدس نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایاکہ: -

 اس دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے عظیم راستہ قرآن وسنت کو اختیار کئے بغیر اور اپنائے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا آدمی سر سے لے کر قدموں تک اورجسم سے روح تک کامیابی و کامرانی کو قرآن وسنت کو عملی جامہ پہنائے بغیر حاصل نہیں کر سکتا- قلب کی صفائی اور رُوح کی بیداری صوفیائِ کرام کاعملی کردار ہے اور تصوف کا سب سے پہلا سبق قرآن کریم میں ہے اور اس بات کو قرآن کریم کی ہر سورۃ ثبوت فراہم کرتی ہے کہ علمِ روحانیت دینِ اسلام کی سرشت میں شامل ہے ، مثال کے طور پر آپ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۱۵۱ مطالعہ کریں فرمان باری تعالیٰ ہے :

﴿کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰ تِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾

’’جیسا ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورتمہیں پاک کرتا اورکتاب اورپختہ علم سکھاتا اورتمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کاتمہیں علم نہ تھا-﴿سورۃ البقرۃ:۱۵۱﴾

اس آیت میں تمام تر کلمات باطن کے علم ﴿یعنی علمِ تصوف ﴾ کو آشکار کرتے ہیں - مفسرینِ کرام فرماتے ہیں کہ آیات کی تلاوت کا تعلق بھی تعلیم سے ہے ، کتاب کی تعلیم دینے کا تعلق بھی تعلیم سے ہے اور پھر تیسری مرتبہ بھی تکرار کیا کہ تمہیں وہ سکھاتا ہے کہ جو تم پہلے نہیں جانتے تھے ، تو سوال یہ ہے کہ اس فعل کا تکرار یہاں پہ کیوں واقعہ ہوا ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے قاضی بیضاوی تفسیر بیضاوی میں ، مفتیٔ بغداد علامہ محمود آلوسی روح المعانی میں اور ملا علی القاری اپنی تفسیر انوار القرآن و اسرار الفرقان میں فرماتے ہیں کہ ﴿و کرّر الفعل لیدُلَّ علیٰ انہ، جنسٌ آخر﴾ کہ ﴿یعلکم﴾ فعل کا تکرار تعلیم کی کسی دوسری قسم پر دلالت کرتا ہے - اب پھر سوال پیدا ہوا کہ تعلیم کی یہ دوسری قسم کیا ہوتی ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے قاضی ثنا اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں ﴿ولعلّ المراد بہ العلم اللدنی﴾ کہ اس دوسری قسم سے مراد علم لدنی ہے - اب پھر سوال پیدا ہوگا کہ علمِ لدنی کا جواز کیا ہے ؟ اور علمِ لدنی کیا چیز ہے ؟ تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورہ الکہف کی آیت ۵۶ میں فرمایا کہ حضرت موسیٰ ں نے ہمارے بندوں میں سے ایک خاص بندے کو پالیا جس کو ہم نے اپنی بارگاہ سے رحمت اور علمِ لدنی سے نوازا ، یہ تو ہے علمِ لدنی کا جواز اور ثابت ہونا ، جہاں تک یہ بات ہے کہ اس مراد کیا ہے تو اس پہ امام بغوی ، ملا علی القاری ، علامہ اسماعیل حقی ، امام قرطبی ، سمیت دیگر درجنوں مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد علمِ باطن اور علمِ الہام ہے جسے کہ صوفیا کی اصطلاح میں تصوف کہتے ہیں -

اس کے بعد صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے شریعت و طریقت کے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہونے پہ دلائل دیے اور عامۃ الناس کو جلیل القدر فقہا اور صوفیا کے حوالوں سے بتایا کہ شریعت و طریقت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ، اور اس بات پہ زور دیا کہ جہاں بھی ایسے لوگ دیکھو جو دعویٰ تو تصوف کا کریں مگر شریعت پہ گامزنِ عمل نہ ہوں تو سمجھ جاؤ کہ وہ گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں اُن کا طریقت و تصوف سے کوئی تعلق نہیں -

اجتماع میں ہر طرف لوگوں کاٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آ رہا تھا- مذہبی ، سیاسی ،سماجی ،وکلائ، تاجروں اور صوبائی ووفاقی حکومت کے نمائندگان نے بھی اجتماع میں شرکت کی - جانشینِ سلطان الفقر ،سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین نے کراچی کے درماندہ حالات میں بہتری کے لیے خصوصی دُ عا فرمائی - روشنیوں کے شہر کے ہزاروں باسیوں نے راہِ طریقت کی روشنی حاصل کرنے کے لیے شہبازِ عارفاں سُلطان محمد علی سروری قادری کے دستِ حق پرست پہ بیعت کی-

05/03/2016

بمقام: میونسپل اسٹیڈیم حافظ آباد

صدارت و خصوصی خطاب : صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب ﴿سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ، چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل﴾

آیاتِ ربانی کی تلاوت سے اجتماع کا آغاز ہوا ،نعتِ رسول مقبول


ö کا ہدیۂ عقیدت پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی - صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے خصوصی خطاب میں فرمایا کہ:-

 

انسان کو دو تقاضوں پہ پیدا فرمایا گیا ہے ایک اس کا ظاہر ہے اور دوسرا اس کا وجودِ باطن ہے ، اگر یہ اپنے وجودِ باطن کی جانب متوجہ نہیں ہوتا تو ظاہر کی صلاحیتیں اس کی نجات و فلاح کیلئے مکمل سامان مہیا نہیں کر سکتیں - اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا﴾ یعنی تحقیق کامیاب وہ لوگ ہوگئے جنہوں نے اپنے نفس کو پاک کر لیا - نفس انسان کے وجودِ ظاہر میں سے کوئی عضو نہیں بلکہ اس کا اشارہ انسان کے باطن کی جانب ہے جہاں سے اس کی خواہش کی تشکیل و ترتیب ہو رہی ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنے اس کارخانۂ خواہشات کو احکامِ الٰہی کا پابند نہ بنایا - اِس لئے وہ تمام شخصیّات جنہیں قرآن پاک پہ اللہ تعالیٰ نے بصیرت و نور سے مالا مال فرمایا انہوں نے ہمیشہ انسان کو وجودِ باطن کی جانب مائل کیا اور اِس بات پہ اصرار کیا انسان کو اپنی ساخت لازماً سمجھنی چاہئے -

مثلاً مقدمہ ابن خلدون میں علامہ عبد الرحمٰن ابو محمدبن خلدون فرماتے ہیں کہ ﴿اِنّالاِنسانَ مرکّبٌ من جزئینِ: احدُہُما جسمانیٌّ و الآ خَرُ رَوْحانیٌّ﴾ یعنی انسان دو اجزأ کا مرکب ہے : جن میں ایک اس کا جسمانی پہلو ہے اور دوسرا اس کا روحانی پہلو ہے - اِسی طرح حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃا للہ علیہ نے تفسیر کبیر ﴿ج ۱ ، ص ۲۵۱﴾ میں فرمایا ہے ، ﴿واعلم اَنّ الاِنسان مرکّبٌ من جسدٍ و من روح﴾ یعنی جان لو کہ انسان جسد / جسم اور روح ان دونوں کا مرکب ہے - اور تقریباً یہی بات حضور شہنشاہِ بغداد غوث الاعظم ص سرالاسرار شریف میں فرماتے ہیں کہ ﴿فالانسانُ علیٰ نَوعیْنِ: جسمانیٌّ و روحانیٌّ﴾ یعنی پس انسان کی دو حالتیں ہیں جسمانی اور روحانی -

بزرگانِ دین کی اِن عبارات و تشریحات سے یہ واضح ہوتا جاتا ہے کہ انسان کی جسمانی ساخت اور روحانی ساخت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو ترک کرنا انسان کی تکمیل کی نفی کے مترادف ہے ، لہٰذا جہاں ظاہر کی اصلاح و تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے وہیں اس کے وجودِ باطن کو بھی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے

محفل کے اختتام پہ درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا گیا- صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے اتحادِ اُمت اور حاضرینِ محفل کے لیے خصوصی دعا فرمائی، شرکائِ محفل کی کثیر تعداد راہِ طریقت کے لیے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت کی -

06/03/2016

اسلامیہ گراؤنڈ ، چنیوٹ سٹی

صدارت و خصوصی خطاب : صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب

صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج نفرتوں اور عداوتوں کے عہد میں سب سے بڑا جہاد امن اور برداشت کا قیام ہے کہ وہ اُمت جس نے عالمِ انسانیت کو امن فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے آج خود تقسیم اور تفریق کا شکار ہے اور بد ترین خانہ جنگیوں میں مبتلا ہے ، ہمیں اپنی توانائیاں اس فرقہ وارانہ تشدد اور تعصب کو کم کرنے اور بتدریج ختم کرنے پہ لگانی چاہئیں - جب تک مسلمانوں کا تعلق کتاب اللہ اور سنتِ رسول


ö سے عملی و فکری طور پہ رہا تب تک ہمارے درمیان ایسا ماحول جو کہ آج بن چکا ہے ، پہلے کبھی نہ تھا لیکن جیسے جیسے ہمارے اندر سے روحانی چاشنی اور گداز نکلتا گیا ہم کھجوروں کے کھوکھلے تنے بنتے گئے کہ جس کا جب اور جہاں سے جی چاہا ہمیں کاٹ دیا -

 

اِس لئے صوفیا کرام نے انسان کا انفرادی تربیت کا جو طریقہ کار اختیار کیا تھا وہ ہماری فطرت اور نفسیات کے قریب تر تھا اور صحیح معنوں میں ہمارے اندر سے نفرت ، تعصب اور شدت کا خاتمہ کرتا تھا ، چونکہ صوفیا قربِ خداوندی کی دعوت دیتے ہیں جس کا پہلا زینہ اور پہلی سیڑھی ہے ہی انسانیت کی پہچان اور مقامِ آدمیت کی معرفت - صوفیا نے قرآن و سنت کے عملی دقیق و وسیع مطالعہ و مشاہدہ سے اخذ شدہ نتائج سے یہ دعوت دی کہ انسان کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہئے تاکہ یہ صحیح معنوں میں خلیفۃ اللہ بن سکے - اور یہ فکر اپنی ہی ذات کے داخل میں کیا جاتا ہے - جس طرح کہ حضرت ابو المعانی مرزا عبد القادر بیدل دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

نورِ جاں در ظُلمت آبادِ بدن گم کردہ ام

آہ ازیں یوسف کہ من در پیر ہن گم کردہ ام

یعنی میں اپنی روح کا نور اپنے بدن کی ظُلمت میں گم کر بیٹھا ہوں ، آہ میرا وہ یوسف جسے میں اپنے ہی پیرہن میں کہیں

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر