(رپورٹ)سالانہ ملک گیر دورہ
اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین
(حصہ دوم)
زیرِ قِیَادَت: سَالارِ عَارفِین ،وَارثِ مِیْراثِ سُلطَان العَارفِیْن
جَانَشِیْنِِ سُلْطَان الفَقْر حَضْرَتْ سُلْطَان مُحَمَّدْ عَلِیْ صَاحِبْ
سرپرستِ اعلیٰ: اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین
دربارِ گوہر بار؛ سُلْطَان الْعَارِفِیْن حَضْرَتْ سلطان بَاھُوْ قدس اللہ سرّہٗ
ادارہ
دردِ انسانیت لے کر معاشرۂ انسانی کو اخلاقی پستی اور ہر قسم کے تعصب ونفرت سے پاک کرنے، اہلِ انسان کو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ (ﷺ) کی طرف گامزن کرنے اور اولیائے کاملین کی تعلیمات و تربیتِ ظاہری و باطنی کو عام کرنے کی فکر لے کر”اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین“دنیا بھر میں اوربالخصوص ملکِ پاکستان کے طول و عرض میں مخلوقِ خدا کے قلوب پہ دستک دے رہی ہے-الحمد للہ! یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جسے ہر قسم کے تفرقہ، تعصب، تشخیص و تقسیم سے بالاتر ہو کر لوگ ہمہ تن گوش سماعت فرماتے ہیں-اصلاحی جماعت اسی نظریہ کی ترویج کررہی ہے جو نظریۂ قرآنی ہے، جو ہر تقسیم کو بالائے طاق رکھ کر کلمہ طیبہ کی بنیاد پہ رشتہ استوار کرتا ہے-ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس جماعت کے پیغام کو سنتے اور تسلیم کرتے ہیں-اس تحریک کی اعلیٰ معیاریت کا سہرا اصلاحی جماعت کے سر پرستِ اعلیٰ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی دامت برکاتہم العالیہ کے سر ہے جنہوں نے بانئ اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ) (1947-2003 )کے مشن کو مہمیز بخشا-ملک و ملت کی بقاء و کامیابی کے لئے آپ شب و روز جہد و سعی جاری رکھے ہوئے ہیں-آپ کی قیادت میں سالانہ ملک گیر میلادِ مصطفےٰ(ﷺ)و حق باھو کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا جاتا ہےجن میں سینکڑوں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں اور آپ مدظلہ الاقدس کے دستِ حق پر تجدیدِ عہد کرکےاپنی قلبی و روحانی مسرت اور منزل حاصل کرتے ہیں-
ہر شہر میں پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے-صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب ، مفتی منظور حسین قادری صاحب اور مفتی محمد شیر القادری صاحب خطاب کرتے ہیں-
پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت و تجدیدِ عہد کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت و تجدیدِ عہد کرنے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-
اس سال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-
قصور: 16-01-2023 سپورٹس گراؤنڈ اسلامیہ کالج
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
زمانوں کے اعتبار سے سب سے بہترین زمانہ حضور نبی کریم (ﷺ) اور اس کے بعد صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین (رض)کا ہے-صحابہ کرام (رض)کے متعلق قرآن میں ارشاد ہوا:
’’ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُط اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِطاَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘[1]
’’اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی -یہ اللہ کی جماعت ہے، سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے ‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) کی تمام امت میں سب سے افضل آپ (ﷺ) کے صحابہ کرام (رض)ہیں-اس جماعت میں سابقون الاولون مہاجرین و انصار ہیں، عشرہ مبشرہ ہیں ،جبکہ ان دس میں بھی چار کو فوقیت حاصل ہے-بلکہ ان چاروں میں بھی اللہ تعالیٰ نے اوّلیت یارِ غار ویارِ مزارسیدنا ابوبکر صدیق (رض)کو عطا فرمائی ہے-آپؓ کی صحابیت کے بارے میں قرآن کریم یوں گواہی دیتا ہے:
’’ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِى الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا ‘‘[2] |
|
’’دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘- |
اہلِ ایمان کو حضرت ابوبکر صدیق (رض)سے اس لئے محبت ہے کہ حضرت صدیق اکبر (رض) حضور نبی کریم (ﷺ) کے لئے آئی مدد الٰہی کی سب سے واضح صورت تھے- سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) کے طریق پہ قربان جائیں جنہوں نے صحابہ کرام (رض)کی محبت ہمارے سینوں میں یوں بھر دی کہ :
جنہاں مجلس نال نبیؐ دے باھو سوئی صاحب ناز نوازاں ھو |
ایک اور مقام پہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرہ) یوں ارشاد فرماتے ہیں :
میں قربان تنہان توں باھو جنہاں ملیا نبی سوہارا ھو |
ان ابیات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے-
جھنگ: 17-01-2023 چرچی گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنے کامیاب بندوں کی یہ نشانیاں بیان فرمائیں:
یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطۡمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ[3]
’’اے اطمینان والی جان، اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل-تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-سو تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا‘‘-
اللہ تعالیٰ کی تمام تر مخلوقات میں انسان افضل ہے اور تمام انسانوں میں خوش نصیب وہ ہیں جو اپنے نفس کو تمام تر آلودگیوں، گناہوں اور ناپاکیوں سے پاک کرکے،اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی محبت و اطاعت سے اپنے نفس کو مقامِ مطمئنہ پہ لے جاتے ہیں-ہم ہر نماز میں سورہ فاتحہ میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ پہ چلا-قرآن کریم نے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو انعام یافتہ قرار دیا ہے-قرآن کریم نے صالحین کو کبھی متقین کہہ کر پکارا ہے کبھی اولیاء اللہ کہہ کر مخاطب کیا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘[4] ’’سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم‘‘-
امام فخرالدین رازی (رح) اس آیت کے ضمن میں بیان فرماتے ہیں کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے عشق میں خالص ہوکر اس کی بارگاہ میں پہنچتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے- جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا:
’’اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالایُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ‘‘[5] ’’اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے‘‘-
اولیاء اللہ کی صحبت کامیابی و شرف کا باعث ہوتی ہے جس کی وضاحت قرآن مجید نے اصحاب ِ کہف کے کتے کی مثال سے فرمائی ہے کہ جو اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے کامیاب ہوگیا- اگر ایک کتا اولیا اللہ کے راستے پہ چل کر نیک انجام کا حقدار بن سکتا ہے تو اشرف المخلوقات بنی نوعِ انسان میں سے کوئی اللہ والوں کی راہ اختیار کر لے تو اس کا نیک انجام بطریقِ اولیٰ عطا کیا جاتا ہے -
خانیوال: 18-01-2023 سٹی میرج لان
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے اس جہان میں اپنے بےشمار مظاہر پھیلائے ہوئے ہیں اور ان مظاہر کےمشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام کو چلانے والا کوئی ہے -اِمام فخر الدین رازی (رح) ’’تفسیرِ کبیر ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا امام جعفر صادق (رض)کی بارگاہ میں ایک شخص نے سوال کیا کہ کائنات کے صانع (بنانے والے) کے ہونے پہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ تو آپ نے شہتوت کے پتے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ شہتوت کے ادنیٰ سے پتہ سے ذاتِ حق کا اثبات ہوتا ہے کہ اس پتے پر جب ریشم کا کیڑا خوراک حاصل کرتا ہے تو اپنے پیٹ سے ریشم نکالتا ہے اور یہی پتہ جب ہرن کے پیٹ میں اترتا ہے تو اس کے پیٹ سے مشک و کستوری پیدا ہوتے ہیں -جب یہ پتہ کسی طبیب تک پہنچتا ہے تو اس سے دوا تیار کی جاتی ہے-الغرض!یہ زمین، فضا، ہوائیں، پانی، پودے، حشرات الارض، جمادات، پرندے، انسان، تمام انواع و اقسام کی مخلوقات ہمارے خالق کے ہونے کی دلیل ہیں -
ان علوم و مشاہدات کے ذریعے بندہ رب تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے- اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف تمام جہانوں کا رب کہہ کر فرمایا جبکہ اپنے حبیب مکرم(ﷺ)کا تعارف رحمتہ للعالمین کہہ کر فرمایا-علم کے ساتھ ادب کو مشروط رکھا گیا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ‘‘[6] ’’تاکہ اے لوگو تم اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو ‘‘-
گویا ادب کے بغیر علم بیکار ہے اور ادبِ مصطفےٰ(ﷺ) کے بغیر معرفتِ الہیٰ نصیب نہیں ہوتی-اولیا اللہ کا طریق بھی یہی ہے کہ آدمی تعلق بالرسول (ﷺ)میں پختہ ہوجائے-جتنے بھی صوفی سلاسل ہیں ان میں بنیادی اہمیت حضورنبی کریم (ﷺ) کے ادب و تعظیم کی ہے-ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نسلِ نو کی تربیت میں آقا کریم (ﷺ) کا ادب شامل کریں تاکہ ان کے سینوں میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی محبت سرائیت کرجائے-
وہاڑی: 19-01-2023 سلطان باھو سپورٹس کمپلیکس
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تابوتِ سکینہ کوباعثِ تسکین فرمایا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَقَالَ لَہُمْ نِبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ اَنْ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ہٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ‘‘[7]
’’اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں، معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے، بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو ‘‘-
اس تابوت میں انبیاء (ع) کی استعمال شدہ اشیاء موجود تھیں-وہ اشیاء جس میں اللہ نے شفا رکھ دی تھی جس کے ذریعے دل کی تسکین کا سامان ہوتا تھا اور بادشاہت مقدر ٹھہرتی تھی کیونکہ انبیاء (ع)کی ذات سے جسے نسبت ہو جائے اس چیز میں اللہ تعالیٰ برکت، رحمت اور شفا رکھ دیتا ہے- سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے والد اور پیغمبرِ خدا سیدنا یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی کے لوٹنے کیلئے اپنا کرتہ بھیجا جو ان کی آنکھوں پہ لگاتے ہی شفا ہو گئی - قابلِ غور بات یہ ہے کہ کرتہ بھیجنے والا بھی نبی ہے اور اپنی ضعیف آنکھوں پہ لگانے والا بھی نبی ہے دونوں کا عقیدہ تھا کہ شفا اللہ پاک کی طرف سے ہے ، نبی سے بڑا کوئی معلمِ توحید نہیں ہو سکتا - تو انبیائے کرام (ع)کا عقیدہ قرآن پاک سے واضح ہے کہ وہ دوسرے پیغمبروں کی استعمال شدہ اشیا سے برکت ، رحمت اور شفا حاصل کرتے تھے اور اسے عقیدہ توحید کے منافی نہیں بلکہ عین برحق سمجھتے تھے - صحابہ کرام (رض) کا بھی یہی طریق رہا تھا کہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے نسبت شدہ اشیاء کی تعظیم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے تھے- امام مسلم ؒنے صحیح مسلم شریف میں روایت کیا ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رض) نے ایک طیالسی کسروانی جبہ نکالااور اپنے غلام عبداللہ کو مخاطب ہو کر فرماتی ہیں:
’’یہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا جبہ مبارک ہے ، آپ (رض) فرمانے لگیں : یہ جبہ( مبارک )حضرت عائشہ صدیقہ (رض)کی وفات تک اُن کے پاس تھا اور جب اُن کی وفات ہوئی تو پھر میرےپاس آیا-حضور نبی کریم (ﷺ) اِس جبہ مبارک کو پہنتے تھےپس ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اِس جبہ مبارک کے ذریعے سے مریضوں کے لئے شفا حاصل کرتے ہیں‘‘-[8]
آج ہمارا معاشرہ جس اخلاقی تنزلی کا شکار ہے اس کا حل یہی ہے کہ دامنِ رحمتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے برکت رحمت اور شفا حاصل کریں ، ہم اپنی سیرت اور کردار کو رحمت کا پیکر بنالیں کیونکہ حضورنبی کریم (ﷺ) کا راستہ محبت، رحمت اور شیر و شکر کرنے کا راستہ ہے-
ملتان: 20-01-2023 اسٹیڈیم قلعہ کہنہ قاسم باغ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ہماری زندگی کی تمام تر تگ و دو، جستجو اور محنت کا حاصل یہی ہے کہ ہم اپنے پروردگار کی خوشنودی و رضا اور اس کے قرب ومحبت کے حصول میں کامیاب ہوجائیں- اگر آج مسلمان دنیا میں اپنے کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے لو لگائی جائے اور راہِ مصطفےٰ (ﷺ) اختیا ر کی جائے-قرآن مجید ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم صالحین کی راہ اختیار کریں کیونکہ وہ ہمارے قلوب و اذہان کو حضور نبی کریم (ﷺ) کےادب و محبت سے روشناس کرواتے ہیں-
صاحبزادہ صاحب نے مزید فرمایا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) کا کلام ’’ابیات باھو ‘‘ عوام الناس کی تعلیم کے لئے’’الف سے ی‘‘تک کاقاعدہ ہے-جس کی چند مثالیں یوں ہیں:
v الف: اَللہ |
v ب: بِسم اللہ |
v ت: تَسبیح |
v ع: عَاشِق |
v م: مرشد |
v ی: یار یگانہ |
یعنی آپ (قدس اللہ سرہ) کے نزدیک الف سے ’اللہ ‘ہے، ب سے ’بسم اللہ ‘ہے، ت سے ’تسبیح ‘ہے ، ع سے ’عشق‘ ہے اور ’ی‘ سے ’یار یگانہ ‘ہے-گویا تمام ابیات ایک الگ مقصد اور نقطہ نظر کے تحت بیان فرمائے ہیں-آپ نے آغاز بھی اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک سے فرمایا اور اختتام بھی اللہ کے اسم پاک پہ کیا-لہذا اولیائے کاملین کا راستہ ابتداء سے انتہاء تک محبت الہٰی ہے-
اسلام آباد: 22-01-2023 کنوینشن سینٹر
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ انسان کی زندگی کے کئی ایسے مراحل ہیں جو اس پر گزرتے ہیں لیکن انسان اپنی عملی زندگی میں ان گوشوں سے کوئی یاد وابستہ نہیں رکھتا-مثلاً قرآن مجید میں بیان ہوا:
’’ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا‘‘[9]
’’انسان پہ ایک ایسا وقت بھی گزرا جب وہ بیان کرنے والی شے نہ تھا‘‘-
اسی طرح انسان کے وجود کی پیدائشی مرحلے کے متعلق قرآن نے سورہ مومنون میں بیان فرمایا کہ :
’’ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ‘‘[10] |
|
’’پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی‘‘- |
انسان کی پیدائش کے ان مراحل کی یادداشت ہمارے پاس محفوظ نہیں حتیٰ کہ بچپن میں بھی شعور کی ایک خاص عمر آنے تک بچہ اپنی یاداشت میں کوئی چیز محفوظ نہیں رکھتا- اسی طرح قرآن کریم انسان کی اس زندگی کے بعد کا ایک اور بھی ایک دھندلی یادیں ہوتی ہین جمرحلہ بیان کرتا ہے کہ جب انسان کی روح قبض کرلی جاتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے-روح جسم سے نکل کر عالمِ برزخ میں پہنچ جاتی ہے-برزخ سے مراد اوٹ ہے، یعنی برزخ دو کیفیتوں کے درمیان حائل ایک پردے کو کہتے ہیں- جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرحمٰن میں ارشادفرمایا :
’’مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰـنِo بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰـنِo‘‘[11] |
|
’’ اس نے دو سمندر بہائے کہ دیکھنے میں معلوم ہوں ملے ہوئے- اور ہے ان میں روک کہ ایک دوسرے پر بڑھ نہیں سکتا ‘‘- |
اسی طرح ’’سورہ المومنون‘‘ میں بیان ہے:
’’وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَo‘‘[12] ’’اور ان کے آگے ایک آڑ ہےاس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے‘‘-
امام قرطبی (رح) برزخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وَ الْبَرْزَخُ مَا بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ وَقْتِ الْمَوْتِ إِلَى الْبَعْثِ، فَمَنْ مَّاتَ فَقَدْ دَخَلَ فِي الْبَرْزَخِ‘‘[13] |
|
’’دنیا اور آخرت کے درمیان موت کے وقت سے لے کر دوبارہ اٹھنے تک کا وقفہ برزخ ہے- پس جو فوت ہوگیا وہ برزخ میں داخل ہوگیا‘‘- |
اس لیے ہمیں جان لینا چاہیے کہ موت سے حشر تک جو مرحلہ ہے از روئے قرآن عالمِ برزخ کہلاتا ہے-برزخ میں بھی انسان زندگی بِیتاتا ہے لیکن اُس زندگی کی کیفیت اِس زندگی سے مختلف ہوتی ہے جو زندگی اب ہم بیِتارہے ہیں-
چکوال: 23-01-2023 ایلیگنس مارکی
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (ع) کو معجزات عطا فرمائے جو اس وقت کے لئے خاص تھے-لیکن اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو قرآن مجید کا معجزہ عطا فرمایا ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہےگا-کیونکہ یہ خالق کائنات کا کلام پاک اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اس نے خود اٹھایا ہے -جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘[14]
’’بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں ‘‘-
یعنی قرآن پاک میں قیامت تک کوئی تحریف نہیں ہو سکتی -قرآن کریم کا یہ بھی اعجاز ہے کہ اس کی جہاں سے بھی تلاوت کی جائے، انسان کے سینے میں ہدایت کا نزول ہونے لگ جاتا ہے-قرآن کریم کا فیض ہمیں اس سرزمین پہ اولیاء اللہ کی بدولت نصیب ہوا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[15] |
|
’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ‘‘- |
حضرت سُلطان باھُو(قدس اللہ سرہ)فرماتے ہیں کہ وہ وسیلہ ’’اسم اعظم ‘‘ہے-اسم اعظم کی مشق سے انسان کا ظاہر و باطن پاکیزہ ہوتا ہے اور دل اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات سے روشن ہوجاتا ہے-
خوشاب: 24-01-2023 دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ حق باھو سلطان
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی بعثت اس دنیا میں شرک و کفر کے اندھیرے ختم کرنے کے لئے فرمائی-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى‘‘[16] ’’روش ستارے کی قسم ! جب وہ اوپر سے نیچےاترا‘‘-
امام بغوی’’معالم التنزیل‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
اَلْمُرَادُ بِالنَّجْمِ الْقُرْآنُ سُمِّیَ نَجْمًا لِاَنَّہٗ نَزَلَ نَجُوْمًا مُتَفَرِّقَۃً- قَالَ جَعْفَرُ الصَّادِقُ یَعْنِیْ مُحَمَّدًا (ﷺ) اِذَا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ اِلٰی الْاَرْضِ لَیْلَۃَ الْمِعْرَاجِ
’’کہا گیا ہے کہ نجم سے مراد قرآن پاک ہے اور قرآن پاک کو نجم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ متفرق طور پر تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے – امام جعفر صادق(رض) فرماتے ہیں کہ نجم سے مراد محمد (ﷺ) ہیں جب کہ آپ (ﷺ) معراج کی رات آسمان سے زمین کی طرف اترے ‘‘-
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) متعلق ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘[17] |
|
’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے- وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے‘‘- |
جس طرح قرآن مجید وحی الٰہی ہے بعین اسی طرح حدیث پاک بھی وحی الٰہی ہے ،البتہ قرآن متلو اور حدیث غیر متلو ہے-یعنی جو قرآن مجیدپر یقین رکھتا ہے وہ حقانیتِ سنتِ مصطفےٰ (ﷺ) پر بھی یقین رکھتا ہے- اللہ تعالیٰ نے حضورنبی کریم (ﷺ) کوقرآن مجید کا علم عطا کر کے دنیا کی تخلیق سے قبل اور بعد تک کے تمام علوم کا علم عطا فرمایا-کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام علوم کو قرآن مجید میں جمع فرما دیا ہے-
میانوالی: 25-01-2023 ہاکی اسٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ)کودو ایسی صفات عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعے ہمارے سینوں میں ایمان راسخ و مستحکم ہوا-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا‘‘ [18]
’’اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا‘‘-
یعنی حضورنبی کریم (ﷺ) نے بشارتیں عطا فرمائیں کہ نیک و صالح اعمال سے قبر اور آخرت روشن ہوگی جبکہ راہِ حق چھوڑنے والے کی قبریں تاریک ہوں گی-اس لئے انسان کو روزِ محشر اگر کوئی چیز نفع دے گی تو وہ اس کا ایمان اور اتباعِ رسول (ﷺ) ہوگی-کیونکہ فلاح و کامیابی کا راستہ قرآن مجید نے اپنے نیک اور سچے بندوں میں شامل ہونے کو فرمایاہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘[19] ’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ‘‘-
لہذاانسان کو اپنی سنگت دیکھ کے بنانی چاہیے کیونکہ سنگت صرف اس دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن بھی حسرت پہ مجبور کر دے گی- اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (ع) سے بذریعہ وحی جو خطاب فرمایا اسے شریعت کا درجہ عطا ہوا-اس لئے جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہوتے ہیں انہیں باطن کی آنکھ کا نور عطا ہوتا ہے ،اللہ تعالیٰ ان کے دل پہ القاء فرماتا ہے جسے الہام کہتے ہیں-اولیاء اللہ لوگوں کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں محبت اور رحمت کا درس دیتے ہیں-صوفیاء کرام کی دعوت ہی لوگوں میں محبت ، امن کے فروغ اورحضور نبی کریم (ﷺ) کی اتباع کی دعوت ہے-
بھکر: 26-01-2023 دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ حق باھو سلطان
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر
حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْط ‘‘[20]
’’میں اور جو میرے قدموں پرچلیں دل کی آنکھیں رکھتے ہیں ‘‘-
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو حضور نبی کریم (ﷺ)کی اتباع کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بصیرت یعنی چشمِ باطن سے نوازدیتا ہے-بصیرت دل کی بینائی کا نام ہے-امام میر سید شریف علی جرجانی اور امام عبدالرؤف المناوی (رح)لکھتے ہیں کہ :
اَلْبَصِيْرَةُ: قُوَّةٌ لِّلْقَلْبِ الْمُنَوَّرِ بِنُوْرِ الْقُدَسِ يَرٰى بِهَا حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ وَ بَوَاطِنَهَا، بِمَثَابَةِ الْبَصَرِ لِلنَّفْسِ يَرٰى بِهٖ صُوَرَ الْأَشْيَاءِ وَ ظَوَاهِرَهَا وَهِيَ الَّتِيْ يُسَمِّيْهَا الْحُكَمَاءُ اَلْعَاقِلَةَ النَّظْرِيَّةَ وَ الْقُوَّةَ الْقُدْسِيَّةَ‘‘[21] |
|
’’بصیرت اللہ تعالیٰ کے نور سے روشن ہونے والے دل کی اُس قوت کانام ہے جس کے ذریعے وہ اشیاء کی حقیقتوں اور اُن کے باطن کو دیکھتا ہے-(جانتا ہے) یہ جسم کی اس (ظاہری) آنکھ کے قائم مقام ہے جس کے ذریعے وہ اشیاء کی صورتوں اور ان کے ظاہر کو دیکھتا ہےاوریہی وہ (بصیرت) ہے جس کو حکماء عاقلہ نظریہ اور قوت قدسیہ کا نام دیتے ہیں‘‘- |
اہلِ نظر نے اسے قوتِ قدسیہ قرار دیا ہے اور یہ ایمان کی حقیقت ہے-سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرہ) چشمِ بصیرت حاصل کرنے کا نسخہ بیان فرماتے ہیں کہ جب بندہ اپنا سب کچھ اپنے مالک پہ قربان کردیتا ہے، ہر وقت اپنی آنکھوں سے اسم اَللہُ کا تصور کرتا ہے اور اپنی سانسوں کو ذکر اللہ میں مشغول کرلیتا ہے تو اسے دنیا سے بےرغبتی اور چشمِ بصیرت عطا ہوجاتی ہے- اصلاحی جماعت یہی دعوت لے کر آئی ہے کہ آئیں اپنے سینوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت اوراتباعِ مصطفےٰ (ﷺ) سے روشن کرلیں کیونکہ یہی ہمارے لئے راہِ نجات ہے-
لیہ(فتح پور): 27-01-2023 دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ حق باھو سلطان
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
سیدنا امام جنید بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں کتاب اللہ اور دوسرے میں حدیث مصطفےٰ(ﷺ) ہو- پیران پیر محی الدین حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رض)نے 55 سال سے زائد عرصہ بغداد میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ(ﷺ) کی تدریس فرمائی-سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (رح)اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ میں نے ہر مرتبہ شریعت سے حاصل کیا اور شریعت ہی کو اپنا پیشوا بنایا-تمام اولیاء اللہ کایہی منہج اور اصول ہے کہ ہر وہ عقیدہ، عمل یا قول جس کی اصل کتاب و سنت نہیں، وہ قابل اطاعت نہیں ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کی اتباع کا فیض ہے کہ اولیاء اللہ کودل کی آنکھ نصیب ہوتی ہے- مثلاً : فزکس پڑھنے والوں کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں لیکن جس نے اس علم کے کمال کو پانے کیلئے ، نئی دریافتوں اور نئی ایجادات کے تحت پڑھا ہوگا وہی اس علم کی اصل تک اور اس کی تہوں تک پہنچ سکتا ہے جس کا مقصد ایم ایس سی فزکس کر کے اسکول ٹیچر بھرتی ہونا تھا وہ ایک باعزت ذریعہ روزگار تک تو پہنچ جاتا ہے مگر ایجادات و دریافت اس کی پہنچ سے ہنوز دور ہے -بعین اسی طرح جو آقا کریم (ﷺ) کی اتباع کرتے ہیں ان میں اولیا اللہ اور صوفیائے کاملین کا طبقہ ایسا ہے جو اس علم کی حقیقت تک پہنچتے ہیں ، باقی لوگ اس پہ گامزن ضرور ہوتے ہیں مگر وہ اس کی غواصی کی لذت سے ہنوز دور ہوتے ہیں- جو حصولِ بصیرت کی نیت کر کے اطاعت و اتباع کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ دل کی بینائی سے مشرف فرما د یتا ہے- بزبانِ حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) :
الف:اَحدّ جَد دِتی دکھالی اَز خُود ہویا فَانی ھو |
|
قُرب وِصال مَقام نہ مَنزل ناں اوتھے جِسم نہ جَانی ھو |
اللہ تعالیٰ نےمرشد کامل کو دل کی آنکھ کے امراض کا ماہر بنایا ہے- اس کی بارگاہ میں چشمِ دل کا مرض دور ہوتا ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ)کی اطاعت اور اتباع نصیب ہوتی ہے-
مظفرگڑھ: 28-01-2023 ڈیرہ حق باھو
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اولیاء اللہ کی تعلیمات شریعت کی تعلیمات ہیں جو ’’فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہِ‘‘کی دعوت دیتی ہیں - اولیاء اللہ کو بصیرت نصیب ہوتی ہے-بصارت کا تعلق انسان کی ظاہری اور بصیرت کا تعلق انسان کی باطنی آنکھوں سے ہے -اطاعت تو ہر کوئی کر سکتا ہے مگر چشم بصیرت صرف اسی کو نصیب ہوتی ہے جو عبادت دل کی روشنی کے لیے کرتا ہے اور خوش قسمتی سے اسے کسی مرشد کامل کی صحبت و رفاقت نصیب ہو جاتی ہے-مرشد کامل طالب کے وجود میں اللہ کی طلب کو فروغ دیتا ہے- حضرت خالد بن معدان () سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ :
’’مَا مِنْ عَبْدٍ إِلَّا وَلَهُ أَرْبَعُ أَعْيُنٍ، عَيْنَانِ فِي وَجْهِهِ يُبْصِرُ بِهِمَا أَمْرَ دُنْيَاهُ، وَعَيْنَانِ فِي قَلْبِهِ يُبْصِرُ بِهِمَا مَا وَعَدَ اللّٰهُ بِالْغَيْبِ ‘‘[22] |
|
’’کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کیلئے اللہ تعالی نے چار آنکھیں نہ بنائی ہوں (ہر آدمی کیلئے چار آنکھیں ہیں) دو آنکھیں اس کے چہرے میں ہیں،جن کے ساتھ وہ اپنے دنیا کے معاملات کو دیکھتا ہے اور دو آنکھیں اس کے دل میں ہیں،جن کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتا ہے، جن کا اللہ عزوجل نے غیب کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے‘‘- |
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ باطن کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ’’علم لدنی‘‘ کہلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کرام کو عطا فرماتا ہے-آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ محمد عربی (ﷺ) کی کامل اتباع پر نہیں ہیں- اولیاء اللہ کی تعلیمات ہمیں اسی طرف گامزن کرتی ہیں اور ہمیں محبت ، رحمت اور اعلیٰ اخلاق سکھاتی ہیں-
راجن پور: 29-01-2023 اسٹیڈیم گراؤنڈ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اولیائے کاملین نےاللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل حاصل کرنے کا سب سے پہلا قاعدہ طلبِ صادق اور دوسرا مردِ کامل کی صحبت بیان فرمایا ہے-سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) فرماتے ہیں:
ی: یار یگانہ مِلسی تینوں جے سرْ دِی بازی لائیں ھو |
|
عِشق اللہ وِچ ہو مَستانہ ھو ھو سَدا اَلائیں ھو |
آپ(قدس اللہ سرہ) فرماتے ہیں کہ مالکِ یکتا وحدہُ لاشریک کی ذات اس وقت نصیب ہوتی ہے جواپنے نفس کے ارادے کو اللہ کے ارادے کے سامنے قربان کر دیتا ہےاور اس کا مفصل راستہ بھی آپ(قدس اللہ سرہ) نے بیان فرمایا ہے- طالب کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک اسمِ اَللہُ کے ذکر میں ایسا مست ہوجائے کہ اس کے ظاہر اور باطن میں اسمِ ھو کی سدائیں بلند ہوں-آپؒ فرماتے ہیں کہ یہ وہ طریقہ ہے جوانسان کے سینے کو روشن کرتا ہے اور اس کے قلب کی آنکھ کو وہ نور عطا کردیتا ہے جس کے سامنے پردہ حائل نہیں رہتا- انسان کی آنکھیں جب کسی منظر کو دیکھتی ہیں تو وہ منظر اس کے دل و دماغ پہ تاثیر ڈالتاہےبعین اسی طرح اللہ پاک کے اسم کے خوبصورت منظر کو دیکھ کر انسان کے دل پہ انوار اترتے ہیں-اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی یہی دعوت ہے کہ آئیں اور اسمِ اللہ کے نور سے اپنے سینوں کو روشن کریں-
کندھ کوٹ: 30-01-2023
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جو حضور سالتِ مآب (ﷺ) کے عشق کو اپنا کر آپ (ﷺ) کی اطاعت اوراتباع میں آجاتے ہیں ازروئے قرآن اللہ ان کو بصیرت عطا فرما دیتا ہے پھر یہ ظاہری پردے ان کی نگاہوں کے سامنے سے اٹھا لئے جاتے ہیں-جیسا کہ حضرت حارث بن مالک انصاری(رض) سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی کریم(ﷺ) کے پاس سے گزرے ، توآپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا:
’’اے حارث! تونے کیسے صبح کی؟ انہوں نے عرض کیا:میں نےسچے مومن کی طرح یعنی(حقیقت ایمان کے ساتھ)صبح کی- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یقیناً ہر ایک شےکی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے-سو تمہارےایمان کی کیا حقیقت ہے؟عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیداراور دن میں(عشقِ الٰہی میں) پیاسا رہتا ہوں-اور (حالت یہ ہے) گویا میں اپنے رب کےعرش کو سامنے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں ، جنت میں اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں ، دوزخ میں ، دوزخیوں کو (تکلیف سے) چلاتےہوئے دیکھ رہا ہوں حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اے حارث! تو نے (حقیقت ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس کو) پکڑے رکھ -یہ کلمہ آپ (ﷺ) نے تین مرتبہ فرمایا ‘‘-[23]
جیکب آباد: 31-01-2023 حمیدیہ ہائی اسکول گراؤنڈ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں جو قرآن و سنت پہ عمل پیرا ہوتے ہیں، کے ساتھ الہام کے ذریعے کلام فرماتا ہے-جیسا کہ حضرت موسیٰ (ع)کی والدہ کے متعلق سورہ قصص میں بیان ہوا:
’’وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ‘‘[24]
’’اور ہم نے موسی کی ماں کی طرف الہام کیا کہ انہیں دودھ پلائیں ‘‘-
تمام انبیاء کرام(ع) مرد ہیں-حضرت موسیٰ (ع)کی والدہ عورت ہیں یعنی نبی نہیں ہیں لیکن اللہ نے ان کی طرف الہام فرمایا- اولیاء اللہ کی راہ کتاب و سنت کی راہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے کتاب ِمقدس میں واضح فرمادیا کہ جو حضور نبی کریم (ﷺ) کی اتباع کرتے ہیں انہیں بصیرت نصیب ہوجاتی ہے-امام مالک (رح) مؤطا شریف میں سیدنا صدیق اکبر (رض)کی بصیرت کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ وقتِ وصال آپ (رض) نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا کہ میرے بعد تم میرے مال کی تقسیم اپنےدو بھائی اور دو بہنوں کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق کرنا-جبکہ ابھی آپؓ کی دوسری بہن کی ولادت نہ ہوئی تھی اور وہ حضرت بنتِ خارجہ کے بطن میں ہی تھیں-حالانکہ اس وقت کوئی جدید ٹیکنالوجی کا تصور نہیں تھا لیکن یہ صدیقِ اکبر (رض) کی بصیرت تھی کہ انہیں قبل از ولادت معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک اور بیٹی سے نوازنا ہے-
مولانا جلال الدین رومی مثنوی شریف میں ایک سبق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر |
|
گرچہ باشد در نوشتن شَیر و شِیر |
’’ اولیا اللہ کو اپنے جیسا نہ سمجھ ، جیسا کہ لکھنے میں شیر(جانور) اور شیر(دودھ) ایک جیسے ہیں لیکن اپنی تاثیر میں الگ ہیں‘‘-
ایسے ہی گو کہ عام لوگ بھی بشر ہیں اور اولیا اللہ بھی بشر ہیں مگر روحانی طور پہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو عام لوگوں سے بلند رتبے عطا کرتا ہے - صالحین اور عام بندے برابر نہیں حالانکہ دونوں ہی بنی نوع انسان ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ عام بندہ ’’بصارت‘‘سے دیکھتا ہے اور اولیاء اللہ ’’بصیرت‘‘یعنی اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں-
لاڑکانہ: 01-02-2023
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
حضور سید الانبیاء (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:
’’اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ تَعَالیٰ‘‘
’’مومن کی فراست (دُور اندیشی)سے ڈرو بیشک وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘-
مومن کی بینائی میں اللہ کا نور شامل ہوتاہے- اگر ظاہری آنکھ کی بینائی کمزور ہوجائے تو ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے- بعین ایسے ہی جیسے یہ آنکھ خراب ہو جاتی ہے ایسے ہی جب دل کی آنکھ بیمار ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ‘‘[25] |
|
’’تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘- |
جب دل کی آنکھوں کو بینائی نصیب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے سے پردے ہٹا دیتا ہے-جیسا کہ ایک دن غوث الثقلین شیخ محی الدین عبدالقادر(قدس اللہ سرّہٗ)کرسی پربیٹھے ہوئے وعظ کہہ رہے تھے،قریباً دس ہزار افرادمجلسِ وعظ میں حاضرتھے ،شیخ علی بن ہیتی،حضرت غوث الاعظمؒ کی کرسی کے پائے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،شیخ علی بن ہیتی کونیندآگئی ،حضرت غوث الاعظم نے حاضرین کوخاموشی کاحکم دیاسب لوگ خاموش ہوگئے ،حالت یہ تھی سانس لینے کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی نہ دیتاتھا،حضرت غوث الاعظم کرسی سے نیچے اترے اورشیخ علی ہیتی کے سامنے باادب کھڑے ہوکران کی طرف دیکھنے لگے ،شیخ علی بیدارہوئے توحضرت غوث الاعظم نے کہاتمہیں خواب میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی زیارت ہوئی ہے؟انہوں نے عرض کیا، ہاں!فرمایا: اسی لئے میں تمہارے سامنے باادب کھڑاتھا،تمہیں نبی کریم (ﷺ) نے کیانصیحت کی؟کہنے لگے کہ آپ کی مجلس میں باقاعدہ حاضری دیاکروں ،شیخ علی نے کہاکہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا حضرت غوث الاعظم نے بیداری میں دیکھا-[26]
گھوٹکی: 02-02-2023
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں فرمایا-ہر شے ایک مقصد کے تحت پیدا کی گئی اور وہ روزانہ ہر وقت اپنے مقصد کو پورا کر رہے ہیں-اللہ تعالیٰ کی تمام تر تخلیقات میں انسان کو اشرف قرار دیا گیا ہےاور اسے یہ شرف اس کے مقصد کی وجہ سے ہی حاصل ہے-اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ‘‘[27] ’’اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پید افرمایا‘‘-
غور کرنا ہے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خالص ہیں-کیا ہماری عبادات اللہ کے لئے ہوتی ہیں؟کیونکہ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تواسے اللہ کی راہ سے بھٹکانے کے لئے شیطان نے کئی رکاوٹیں بنائے رکھی ہیں-شیطان یا تو خدا کےتصو ر کا منکر بناتا ہے یا خدا کے تصور میں دھندھلاہٹ پیدا کردیتا ہے-اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی عبادت کو اللہ کی ذات کے لئے خاص کرلیا جائے-جنت کے کئی درجے ہیں اور اولیاء اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ جنت، جنتِ قرب ہے، جہاں اسے اللہ کی قربت اور وصال نصیب ہوگا-جنت کی آسائشات و انعامات از روئے قرآن برحق ہیں لیکن یاد رکھیں! جیسے ایک سپاہی کا مقصد ملک کا دفاع ہے نہ کہ اس کے تمغے-بعین اسی طرح جنت مومن کی ریاضات کا انعام جنت ہے لیکن مومن کی منزل اس سے بھی بلند و بالا ہے یعنی رضائے حق اور لقائے حق - اس لئےضروری ہے کہ اپنا ہر عمل اپنے مالک کی ذات کے لئے خاص ہو-
رحیم یار خان: 03-02-2023 مرکزی عیدگاہ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
تخلیق کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم ‘‘[28]
’’اور اس نے ہر چیز کو بنایا ہے، اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے‘‘-
اگر تخلیق و مخلوق میں غور کیا جائے تو ان میں درجات موجود ہیں-انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف بنایا- ہر صنف میں درجات رکھے اور ان میں تنوع عطا فرمایا- بعض کو کُل پہ فضیلت عطا فرمائی مثلاً دنیا میں بہت سے میدان ہیں لیکن اللہ نے میدانِ احدوبدر، میدانِ عرفات و منیٰ کو فضیلت دی-پہاڑوں کا جائزہ لیں تو ان میں بھی بعض کو فضیلت عطا فرمائی جیسے صفامرویٰ کی پہاڑیاں،کوہِ طور،جبلِ احد -اسی طرح مساجد میں بھی درجات ہیں- حدیث پاک میں آیا ہے کہ مسجدِ نبوی(ﷺ) میں نماز ادا کرنا عام مسجد سے 50ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجدِ حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے-غور کریں کہ نماز وہی ہے لیکن مقام کی تبدیلی سے اس کی فضیلت بڑھ گئی- بظاہر اشیاء دکھنے میں ایک سی ہوسکتی ہیں لیکن وہ اپنی فضیلت کے باعث دیگر سے ممتاز ہوتی ہیں-
بعین اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں بھی درجات رکھے ہیں-کچھ ’’احسن التقویم‘‘ کے درجے پہ ہیں اور کچھ ’’اسفل السافلین‘‘ کے - کچھ انسان ایسے ہیں جن کے وجود سے نحوست ظاہر ہوتی ہے اور کچھ انسان از روئے حدیث ایسے بھی ہیں جن کے چہروں کو دیکھنے سے اللہ یاد آجاتا ہے-یہ وہ بندے ہوتے ہیں جن کی صحبت سے بدبختیاں خوش بختی میں تبدیل ہوجاتی ہیں- یہ وہ بندے ہیں جن کی راہ پہ چلنے کے لئے ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں دعا کرتا ہے:
’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ‘‘[29] ’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیا‘‘-
لودھراں: 04-02-2023 ماڈل ویو کالونی
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَّـدُنَّا عِلْمًا‘‘[30] ’’اور ہم نے انہیں علم لدنی عطا کیا تھا‘‘-
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت خضر (ع) کے متعلق فرمایا کہ انہیں علمِ لدنی عطا کیا گیا-محی السنہ امام بغوی علیہ الرحمہ و دیگر ائمہ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں قول کیا کہ علم لدنی سے مرادباطن کا وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو الہام کے ذریعے عطا کرتا ہے-قرآن مجید صاحبِ علمِ لدنی کے بارے میں ’سورہ کہف‘میں بیان کرتا ہے کہ حضرت خضر (ع)نے شیر خوار بچے کو قتل کردیا تو حضرت موسیٰ(ع) نے سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ بڑے ہوکر اپنے والدین کے لئے فتنہ بنتا-قرآن نے حضرت خضر (ع)کے عمل کی تکذیب نہیں بلکہ تحسین فرمائی-معلوم ہوا اللہ تعالیٰ جسے علمِ لدنی سے نواز دیتا ہے تو اس کے سامنے آنے والے زمانے بھی حجاب نہیں رہتے-اللہ تعالیٰ ایسی چشمِ الہام اپنے مومن بندے کو عطا کرتا ہے-
علم سے جو طلب کیا جائے وہ حاصل ہوجاتا ہے-جو علم سے اللہ کی طلب کرتا ہے اسے اللہ مل جاتا ہے-حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہ) کی تعلیمات کے مطابق یا ریگانہ ذاتِ حق تعالیٰ اسے نصیب ہوتی ہے جو اپنا سر قربان کردے یعنی جو اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے-
گجرات: 21-02-2023
صدارت: عکسِ سلطان الفقر حضرت سلطان حاجی محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اللہ تعالیٰ نے جس قدر تمام مخلوقات میں انسان کو شرف و بزرگی سے نوازا ہے اسی قدر اس کو سمجھنا بھی آسان نہیں بلکہ کسی ایسے استاد اور راہبر کی ضرورت ہے جو اس میں اترنے کا فن جانتا ہو-لیکن اولیاء کرام اس مشکل کو آسان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کو تین پہلوؤں میں دیکھا جائے تو یہ مسئلہ آسان ہو جاتا ہے-
|
ظاہر سے مراد بدن ہے، باطن سے مراد روح ہے اورحقیقت میں حضرت انسان ہے-ان تینوں کے پروان چڑھنے کے الگ الگ تقاضے ہیں-مثلاً بدن پر عبادت لازم ہے اور روح کیلئے معرفت اور ذکر الٰہی ہے اور حضرت انسان ان دونوں کو ملا کر خلافت کیلئے بنایا گیا ہے- مگر آج حضرت انسان اپنے مقام سے غافل ہوکردنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا ہےجس کی وجہ سے وہ اپنے مالک و خالق کو بھُلا بیٹھا ہے-بلکہ دراصل!اس نے خود کو بھلادیا ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘[31] |
|
’’سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (بے مقصد) پیدا کیا ہے او ریہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟‘‘ |
جہلم: 22-02-2023
صدارت: عکسِ سلطان الفقر حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار عالم کی مخلوقات میں سے اشرف المخلوق انسان کو بنایا ہے جس کی وجہ سے وہ بے حد اہمیت کا حامل ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ‘‘ [32] ’’اورتحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت والا بنایا ‘‘-
انسان کی اتنی عزت و اہمیت کو جاننے کےلئے ہمیں اس کی تخلیق میں فکر کرنی ہوگی فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ‘‘[33]
’’پس جب میں اسے تیار کر لوں اور اس کے اندر اپنی رُوح پھونک لوں تو اے ملائکہ تم سب اس کے سامنے سجدے میں گِر جانا‘‘-
معلو م ہوا کہ انسان دو جسموں کا مجموعہ ہےایک ظاہری وجود جو مٹی سے بنا ہے اور ایک باطنی وجود جو اللہ پاک کے نور سے تخلیق کیا گیا ہے-ظاہری وجود کی خوراک اس وجود سے میسر ہوتی ہےجبکہ باطنی وجود کی خوراک ذکرِ الٰہی اور یادِ الٰہی ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ‘‘[34] ’’خبردار !اللہ پاک کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ‘‘-
کیونکہ کل قیامت کے دن جو چیز انسان کو نفع دے گی وہ انسان کا سلامتی والا دل ہےجیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
’’ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ‘‘[35] ’’قیامت کے دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے بلکہ قلبِ سلیم کام آئے گا‘‘-
دل کی سلامتی کا نسخہ ’’اسم اعظم ‘‘ہے جس کو اصلاحی جماعت عام کررہی ہے جس کا مقصد یہ ہےکہ انسان شریعت و طریقت دونوں کو اپنا کر کامیابی و کامرانی حاصل کرے-
منڈی بہاؤ الدین: 23-02-2023
صدارت: عکسِ سلطان الفقر حضرت سلطان حاجی محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اسلام میں داخلے کا یہ امتیاز ہےکہ انسان کی زندگی میں جو برے اعمال ہوئے ہوتے ہیں وہ ختم ہوجاتے ہیں اور کلمہ طیب پڑھنے سےانسان ناپاکی سے پاکیزگی میں آجاتاہے-اگرچہ انسان ایک سو سال بعدہی کلمہ طیب پڑھے تو اس کے سو سال کا کفر ختم ہوجائے گااور وہ ایک مسلمان کہلائے گا-مگر یاد رکھیں!کہ کلمہ طیب پڑھنے کے بعد مسلمان کے اوپر جو احکامات لاگو ہوتے ہیں ان کو دیکھنا ضروری ہےمثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج-ان اعمال کی چاشنی اور تاثیر کے لئے ایسے رہبر کی ضرورت ہے کہ جس کی راہنمائی و تربیت کو پاکر انسان اپنے ظاہر اور باطن کو پاک کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرلے-جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ‘‘[36] ’’اور تم ظاہری اور باطنی (یعنی آشکار و پنہاں دونوں قسم کے) گناہ چھوڑ دو‘‘-
جسم کی طہارت کا ایک الگ طریق ہے اور باطن کی پاکیزگی کا ایک الگ طریق-جیسا کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُاللہِ تَعَالٰی‘‘[37] |
|
’’ ہر چیز کو صاف کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘- |
سرگودھا: 24-02-2023 مرکزی عیدگاہ
صدارت: عکسِ سلطان الفقر حضرت سلطان حاجی محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں تو صرف دو ہی راستے ہیں: ’’رحمانی‘‘ اور ’’شیطانی‘‘- دین اسلام ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول (ﷺ) کی طرف بلاتا ہے جبکہ شیطان ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے-اس لیےاللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وقفہ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ |
|
’’اے ایمان والو! اِسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی مت کرو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘- |
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان دونوں راستوں کی نشاندہی بھی کروائی اور اختیار بھی دیا کہ اپنی مرضی کے مطابق جو راستہ اختیار کرنا چاہتے ہو اسے اختیار کرو-فرمانِ خداوندی ہے:
’’اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا‘‘ [38] ’’بے شک ہم نے اسے راہ بتائی یا حق مانتا یا ناشکری ‘‘-
اگر شکر کا راستہ اختیار کرنا ہے تو پھر اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے احکامات کی پیروی کرنا ہوگی اور اس کے برعکس اگر شیطان کے راستے کو اختیار کرو گے تو شیطان تمہیں کفر کے بہکاوے میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات سے غافل کردے گا-اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے شکر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے مالکِ حقیقی کی یادمیں رہ کر اس کا قرب و وصال حاصل کریں-
کراچی: 12-03-2023 نشتر پارک
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ہر مومن مسلمان کے لیے نعمتِ عظمیٰ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس ہے-ہرعاشقِ رسول (ﷺ)کی تمنا ہے کہ اسے اپنے آقا کریم (ﷺ) مبارک چہرے کی زیارت نصیب ہو- اہل اللہ حضورنبی کریم (ﷺ) کی زیارت کےلیے قرآن مجید اور سنت مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں-حضور نبی کریم (ﷺ) اپنے مزار شریف میں جلوہ فرما ہیں وہ عالمِ برزخ ہے -اِمام طبری (رح) و دیگر مفسرین نے فرمایا کہ دنیا اور آخرت کے درمیان جو مقام اور مرحلہ ہوتا ہے اس کو برزخ کہتے ہیں- ’’سنن الترمذی‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ (رض) کی روایت میں ہے کہ جب منکر نکیر اِس میت سے پوچھتے ہیں:’’تو اس عظیم شخص ( آقا کریم (ﷺ)کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا ؟ وہ کہتا ہے:’’وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضرت محمد (ﷺ) اللہ کے (خاص) بندے اور رسول ہیں-پھر اس کی قبر کو سترستر گز طولاً عرضاً وسیع کر دیا جاتا ہے-
قرآن مجید سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمان (ع) کے وصال کے بعد بھی ان کا وجودِ مبارک بدلا نہیں، نہ ہی اس میں تغیر آیا-اسی طرح ازروئے قرآن شہید قبر میں زندہ ہے ،اسےرزق دیا جاتا ہےاور شہید کو مردہ سمجھنے اور مردہ کہنے کی ممانعت ہے ، شہید نبی کا امتی ہوتا ہے-جس کا کلمہ پڑھ کر شہید قبر میں زندہ ہے اس نبی کی اپنی حیاتِ مبارک بطریقِ اولیٰ واضح ہو جاتی ہے -الغرض! حضور نبی کریم (ﷺ) کی زیارت کا ایک طریقہ کثرتِ درود پاک ہے اورایک طریقہ تربیتِ اولیاء اور تزکیۂ نفس ہے- اس کا ایک طریقہ طریقتِ قادریہ میں حضرت سلطان باھو (رح)نے ذکر اسم اللہ کا بھی بتایا ہے-کیونکہ جب بندہ کثرت سے اسم اَللہُ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا سینہ روشن ہو جا تا ہےاور اس کی آنکھوں میں یہ تاب آجاتی ہے کہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ)کی مبارک چہرے کی زیارت کر سکے-
٭٭٭
[1](المجادلہ:22)
[2](التوبہ:40)
[3](الفجر:27-30)
[4]( یونس:62)
[5](البقرۃ:257)
[6](الفتح:9)
[7](البقرہ: 248)
[8](صحیح مسلم، كتابُ اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِگ)
[9](الدہر:1)
[10](المؤمنون:14)
[11](الرحمن : 19-20)
[12](المومنون:100)
[13](تفسیر قرطبی، زیر آیت المومنون:100)
[14](الحجر:9)
[15](المائدہ:35)
[16](النجم:1)
[17](النجم:3-4)
[18](الاحزاب:45)
[19](التوبہ:119)
[20](الیوسف:108)
[21](كتاب التعريفات / التَّوقِيف على مُهِمَّاتِ التَّعاريف)
[22](الزهد لأبي داود السجستاني)
[23](مصنف ابن أبي شيبة)
[24](القصص: 7)
[25](الحج: 46)
[26](اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ شریف )
[27](الذاریات:65)
[28](الانعام:101)
[29](الفاتحہ: 6)
[30](الکہف:65)
[31](المومنون:115)
[32](بنی اسرائیل:70)
[33](الحجر:29)
[34](الرعد:28)
[35](الشعراء:88-89)
[36](الانعام:120)
[37](مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات)
[38](الدھر:3)