محبتِ اہلِ بیت، محبت رسول(ﷺ) اور محبتِ الٰہی کا ذریعہ ہے

محبتِ اہلِ بیت، محبت رسول(ﷺ)  اور محبتِ الٰہی  کا ذریعہ ہے

محبتِ اہلِ بیت، محبت رسول(ﷺ) اور محبتِ الٰہی کا ذریعہ ہے

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جولائی 2023

واقعہ کربلا پہ کئی حوالوں سے گفتگو کی جا سکتی ہے، امت مسلمہ میں تقریباً ہر فرد اپنی فہم کے مطابق اس واقعہ کے متعلق علم رکھتا ہے لیکن یاد رکھیں!داستانِ کربلا اس وقت انسان کے دل پہ لکھی جاتی ہے جب اس کو معلوم ہو کہ  میدانِ کربلا میں کن عظیم نفوس قدسیہ نے ظلم سہے-اس میں کوئی شک نہیں دنیا میں بڑے بڑے شہروں، بستیوں اور قبیلوں کے لوگوں پہ ظلم کیے گئے لیکن جو ظلم و کرب کی داستاں خانوادۂ اہلِ بیت (﷢)پہ بیتی وہ اُن سب سے مختلف ہے- کیونکہ اس داستان کی انفرادیت کو دامنِ قرآن سے وابستہ ہوئے بغیر نہیں جانا جا سکتا-

اہلِ بیت اطہار(رض)کی محبت ہمیں قرآن کریم نے سیکھائی ہے -ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ  لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ  اَجْرًا  اِلَّا الْمَوَدَّۃَ  فِی الْقُرْبٰی‘‘ [1]

’’تم فرماؤ میں اس  (پیغامِ حق کے پہنچا دینے ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا  مگر قرابت کی محبّت‘‘

یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو فرمایا کہ اے محبوب کریم (ﷺ)آپ ان لوگوں سے فرمائیے کہ مَیں فریضۂ رسالت کے ادا کرنے پہ تم سے کوئی اُجرت یا معاوضہ طلب نہیں کرتا-اگر تم واقعتاً اس فریضہ کے عوض مجھے کچھ دینا چاہتے ہو تو وہ فقط اتنا ہے کہ میرے اقربا سے محبت کرو-

امام ابن ابی حاتم ’’تفسیر ابن ابی حاتم‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’حضرت ابن عباس(رض)فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی توصحابہ کرام (رض)نے عرض کی:

’’يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ قَرَابَتُكَ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ:عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا‘‘[2]

’’یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کے قرابت داروں میں سے وہ کون ہیں جن کی مودت ہمارے اوپر واجب ہے‘‘- ’’آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا حضرت علی (رض)، حضرت فاطمہ (رض)اور ان کے دو بیٹے (حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین (رض)‘‘-

یہی وجہ ہے کہ تمام آئمہ مفسرین، محدثین اور متکلمین کے نزدیک اہلِ بیت اطہار (رض)سے محبت کرنا ہم پر فرض ہے-

مُحّی السنہ امام محمد الحسین بن مسعود البغوی الشافعی (﷫)تاریخِ  اسلام کی واحد شخصیت جن کا  لقب مُحیّ السنہ ہے، اسی آیت  کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’مَوَدَّةُ النَّبِيِّ (ﷺ) وَكَفُّ الْأَذٰى عَنْهُ وَمَوَدَّةُ أَقَارِبِهٖ وَ التَّقَرُّبُ إِلَى اللهِ بِالطَّاعَةِ، وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ فَرَائِضِ الدِّيْنِ‘‘[3]

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کی مودت، آپ (ﷺ) کو تکلیف سے بچانا ، آپ (ﷺ) کے اقرباء کی مودت ، اطاعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا  قرب حاصل کرنا اور عملِ صالح   کرنا (یہ سب )  فرائضِ دین میں سے ہیں  ‘‘-

’’تفسیر خازن ، تفسیراَللُّبَاب ، تفسیر السراج المنير‘‘ میں بھی موجود ہے کہ مَوَدَّة الرَّسُوْل اور مودة أَقَارب ، فَرَائض دين میں سے ہیں-

امام المتکلمین علامہ سعد الدین تفتازانی (رح) اپنی کتاب ’’شرح المقاصد‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ’’قُلْ  لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ  اَجْرًا  اِلَّا الْمَوَدَّۃَ  فِی الْقُرْبٰی‘‘ کے متعلق حضرت سعید بن جیبر (رض) نے فرمایا:

’’لَمَّا نُزِلَتْ هٰذِه الْآيَةُ قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ تَوَدُّهُمْ قَالَ عَليٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا وَ لَا يَخْفٰى أَنَّ مَنْ وَ جَبَتْ مَحَبَّتَهُ بِحُكْمِ نَصِّ الْكِتَابِ‘‘[4]

’’جب یہ آیت مبارکہ نازل کی گئی تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)  یہ کون لوگ ہیں جن سے آپ (ﷺ) محبت فرماتے ہیں-آپ (ﷺ) نے فرمایا حضرت علی، سیدہ فاطمۃ الزہرا اور ان کے صاحبزادے(رض)-اور یہ کسی پر مخفی نہیں رہنا چاہیے کہ جس نے ان کی محبت کو واجب کیا اس نے کتاب  اللہ کی نص کے مطابق واجب کیا‘‘-

امام المحدثین  حضرت امام جلال الدین سیوطی (رح)  ’’قُلْ  لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ  اَجْرًا  اِلَّا الْمَوَدَّۃَ  فِی الْقُرْبٰی‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’فِيْهِ وُجُوْبُ مَحَبَّة ِقَرَابَتِهٖ (ﷺ)‘‘[5]

’’اِس میں آپ  (ﷺ)  کی قرابت کی محبت کے واجب ہونے کا ثبوت ہے‘‘-

شيخ الإسلام امام ابن حجر الہيتمی (المتوفى: 974ھ) ’’الصواعق المحرقة‘‘ میں اہل ِ  بیت  اطہار کی  فضیلت میں احادیث مبارکہ نقل  کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’وَعُلِمَ مِنَ الْأَحَادِيْثِ السَّابِقَةِ وُجُوْبُ مَحَبَّةِ أَهْلِ الْبَيْتِ وَتَحْرِيْمُ بُغْضِهِمْ اَلتَّحْرِيْمُ الْغَلِيْظُ  وَ بِلُزُوْمِ مَحَبَّتِهِمْ  صَرَّحَ الْبَيْهَقِيُّ وَالْبَغْوِيُّ وَغَيْرُهُمَا أَنَّهَا مِنْ فَرَائِضِ الدِّيْنِ ‘‘

اور سابقہ احادیث مبارکہ سے اہل بیت کی محبت کے وجوب کو جان لیا گیااور اُن کے بغض کی شدید ترین حرمت کو پہچان لیا گیا اور اُن کی محبت کے لازم ہونے کو بھی پہچان لیا گیا-حضرت امام بیہقی اور حضرت امام بغوی اور ان کے علاوہ مفسرین کرام نے بھی اِس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ یہ (مودت اہل بیت) فرائض دین میں سے ہے-

امام ابن حجر الہيتمی (المتوفى: 974ھ) ’’الصواعق المحرقة‘‘ میں مزید لکھتے ہیں: 

’’بَلْ نَصَّ عَلَيْهِ الشَّافِعِيُّ فِيْمَا حُكِيَ عَنْهُ مِنْ قَوْلِهٖ‘‘

’’بلکہ حضرت امام  شافعی (رح) سے جو کچھ نقل کیا گیا ہے اِس میں انہوں نے اِسی پر نص فرمائی ہے‘‘-

یَا آھلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللہِ حُبُّکُمْ
فَرْضٌ مِّنَ اللہِ فِی الْقُرْآنِ اَنْزَلَہٗ

’’اے اہلِ بیت رسول اللہ (ﷺ) تمہاری محبت اللہ کی طرف سے فرض ہے، اُس کے نازل کردہ قرآن میں‘‘-

 

 

مفتی بغداد علامہ ابو الفضل محمود آلوسی (المتوفى: 1270ھ) لکھتے ہیں:

وَالْخِطابُ عَلٰى هٰذَا الْقَوْلِ لِجَمِيْعِ الْأُمَّةِ لَا لِلْأَنْصَارِ فَقَطْ وَأَرٰى حُبَّهُمْ فَرْضًا عَلَيَّ  مُبَيِّنًا فَقَدْ أَوْجَبَهٗ أَيْضًا اَلشَّارِعُ وَقَامَتْ عَلٰى ذٰلِكَ الْبَرَاهِيْنُ السَّوَاطِعُ. وَمِنَ الظَّرَائِفِ مَا حَكَاهُ الْإِمَامُ عَنْ بَعْضِ الْمُذَكِّرِيْنَ‘‘[6]

’’اور اس قول کے مطابق خطاب تمام امت کو ہے،نہ کہ فقط انصار کواور مَیں  اُن(اہل بیت) کی محبت کو اپنے اوپر واضح طور پر فرض جانتا ہوں اور اس کو حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے  بھی فرض فرمایا ہے اور اس پر روشن براہین (دلائل)قائم ہیں-اوریہ اُن لطیف باتوں میں سے ہے جن کو امام شافعی (رح) نے بعض اہل نصیحت سے ذکر کیا ہے‘‘-

اہل بیت کی محبت و مودت ہمارے سینوں میں شیوخ کرام نے پیدا کی  اور ہمیں یہ بتایا کے اگر اپنے سینوں کو بغض سے پاک کر کے ایمان کے درجہ خالص کو پہنچنا چاہتے ہو تو اپنے اوپر اہل بیت کی محبت کو فرض کر لو-جیسا کہ  العارفین حضرت سلطان باھو (رح)اپنی تصنیف لطیف ’’نور الہدیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’یاد رہے کہ شیخ وطالب دونوں کے لئے فرضِ عین بھی ہے اور سنت ِعظیم بھی کہ وہ پورے صدق واخلاص وارادت کے ساتھ حضور نبی کریم (ﷺ)کی اولا دِ پاک کے سامنے سر نگوں رہ کر اُن کی خدمت کریں-جو شخص سادات کو رضا مند نہیں کرتا اُس کاباطن ہرگز صاف نہیں ہوتااور وہ معرفت ِ الٰہی کو نہیں پہنچتا خواہ وہ زندگی بھر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا  پھرے کیونکہ خدمت ِسادات خلق کے مخدوموں کا نصیبہ ہے‘‘-

جس کی ترجمانی حضرت سلطان باھو(رح)  اپنے پنجابی کلام میں یوں فرماتے ہیں کہ:

جے کر دین عِلم وِچ ہوندا سر نیزے کیوں چَڑھدے ھو
اَٹھاراں ہَزار جو عَالم آہا اوہ اگے حسینؑ دے مَردے ھو
جے کجھ مُلاحظہ سرورؐ دا کردے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ھو
جے کر مَندے بیعت رَسُولی پانی کیوں بندے کردے ھو
پر صادق دین تنہاں دے باھوؒ جو سِر قُربانی کردے ھو

یہاں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:

 

 

’’میرے دادا مرشد، شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز (رح) نے ایک زرّی کے کام کی زین بنوائی- سنہرے گوٹے کی بہت خوبصورت زین تھی -ایک شخص نے آکر کہا کہ حضرت صاحب! میں سید ہوں تو مجھے یہ زین چاہیے- آپ نے خلیفہ کو بُلا کر فرمایا کہ یہ زین ان کو اٹھا دو - اب وہ خلیفہ آہستہ سے آپ کے کان میں عرض کرتا ہے کہ حضور میں اس بندے کو جانتا ہوں، یہ سید نہیں ہے بلکہ فلاں بستی اور فلاں قوم سے تعلق رکھتا ہے- آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات معنیٰ نہیں رکھتی کہ وہ کس ذات اور کس بستی سے تعلق رکھتا ہے بلکہ یہ بات معنیٰ رکھتی ہے کہ وہ کس نسبت سے مجھ سے زین مانگ رہا ہے‘‘-

اسی طرح سید الطائفہ امام جنید بغدادیؒ کا معروف واقعہ ہے :

’’سیدنا جنید بغدادیؒ فقیہ بھی تھےاور پہلوان بھی- ایک مرتبہ ایک انتہائی نحیف اور دُبلے آدمی نے بادشاہ کے سامنے شرط رکھی کہ مَیں بڑے سے بڑے پہلوان جنید کو شکست دے دوں گا- کیونکہ غربت تھی اور غربت مٹانا تھا- جب کُشتی شروع ہوئی دونوں پہلوان آپس میں لڑنے لگے تو وہ دُبلا آدمی حضرت جنید (رح)کے کان میں کہتا ہے کہ جنید میں آلِ نبی ہوں اگر تُو گِر جائے گا تو تیری پہلوانی تو نہیں جائے گی البتہ میری کچھ مشکلات کم ہو جائیں گی- جنید بغدادیؒ نے جیسے ہی یہ سنا کہ یہ سید ہے تو ایک دو داؤ اس کے سامنے ہار ے اورپھر اس نے ایک داؤ لگایا تو آپ جان بوجھ کر گر گئے‘‘-

میرے حضور مرشد کریم نے فرمایا کہ روحانی طور پر شیخ جنید بغدادی(رح) کی پشت ابھی زمین پہ نہیں لگی تھی کہ ولایت کا رتبہ پہلے عطا ہوگیا تھا - فقط اس وجہ سے کہ انہوں نے آلِ مصطفٰے(ﷺ) کا احترام کیا -

مرعی بن يوسف بن ابى بكر بن احمد المقدسی الحنبلى (المتوفى: 1033ھ) لکھتے ہیں کہ:

’’وَقِيْلَ لَا نَسْخَ لِأَنَّ مَوَدَّةَ الرَّسُوْلِ وَمَوَدَّةَ أَقَارِبِهٖ مِنْ فَرَائِضِ الدِّيْنِ‘‘[7]

’’اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ مودت رسول اور آپ (ﷺ) کے اقارب کی مودت فرائضِ دین میں سے ہے‘‘-

علامہ  نعیم الدین  مراد آبادی’’ تفسیرِ خزائنُ العرفان‘‘ میں لکھتے  ہیں :

’’حُضور سیّدِعالَم (ﷺ) کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت ،  دِین کے فرائض میں سے ہے‘‘-

’’ فخرالمتکلمین والمفسرین امام  فخرالدین رازی’’ تفسیر کبیر‘‘ میں  اسی متذکرہ آیت مبارک کی تفسیر میں اہل بیت کی فضیلت میں احادیث مبارک نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’وَثَبَتَ بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ عَنْ رَّسُوْلِ اللّهِ (ﷺ) أَنَّهُ كَانَ يُحِبُّ عَلِيًّا وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَ إِذَا ثَبَتَ ذَلِكَ وَجَبَ عَلَى كُلِّ الْأُمَّةِ مِثْلُهٗ لِقَوْلِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ‘‘[8]

’’اور نقلِ متواتر سے ثابت ہے کہ حضورنبی کریم (ﷺ) حضرت علی اور امام حسن و حسین (رض)سے محبت فرماتے تھے-اورجب یہ ثابت ہے تو تمام امت پر اسی طرح کرنا واجب ہے-(یعنی آقا کریم (ﷺ) کی طرح) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق کہ آپ (ﷺ) کی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ‘‘-

گویا اہل بیت اطہار سے محبت و مودت اختیارکرنا یہ فقط فرقہ کی بات نہیں ہےبلکہ یہ از روئے قرآن تمام امتِ مسلمہ کا یہ دینی اور ملی فریضہ ہے کہ وہ آقا کریم (ﷺ) کی طرح آپ (ﷺ)کے اہل بیت اطہار (رض) سے بھی بے پناہ محبت کرے-

یاد رکھیں! واقعہ کربلا کوئی دو شہزادوں کی جنگ نہیں تھی بلکہ حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر تھی-اس میں جن نفوس قدسیہ پہ مظالم ڈھائے گئے، ظلم کی انتہا کرتے ہوئے بےدردی سے اُنہیں شہید کیا گیا،اُس فریق سے محبت و مودت کو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کا دینی  اور ملی فریضہ قرار دیا ہے-یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد حق و باطل کے درمیان فرق کرنے میں کوئی الجھن باقی نہیں رہتی کہ امام حسین(رض) بر حق ہیں اور حسینیت حق ہے -

حضرت ابن عباس(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’أَحِبُّوا اللهَ لِمَا يَغْذُوْكُمْ مِنْ نِعَمِهِ وَأَحِبُّوْنِيْ بِحُبِّ اللهِ وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِيْ  لِحُبِّيْ‘‘[9]

’’اللہ تعالیٰ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں  اپنی نعمتوں سے غذا عطا فرماتا ہےاورمجھ سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میری وجہ سے محبت کرو‘‘-

حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت امام حسن (رض)کے متعلق فرمایا:

’’اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أُحِبُّهٗ فَأَحِبَّهٗ وَأَحْبِبْ مَنْ يُّحِبُّهٗ‘‘[10]

 

 

اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے محبت رکھے اس سے محبت رکھ‘‘-

محبتِ الٰہی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی اطاعت کی جائے اور حضور پاک (ﷺ) کی اطاعت میں یہ شامل ہے کہ امام حسن (رض)سے محبت کی جائے کیونکہ حضور پاک (ﷺ) خود امام حسن (رض)سے محبت کرتے ہیں اور خود دعا بھی فرمائی کہ یا اللہ رہتی دنیا تک جو بھی میرے بیٹے حسن سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت  فرما-اس لئے امام حسن (رض)کے لشکر میں شامل ہونا اور آپ(رض) کی مودت اختیار کرنا محبت الٰہی کی دلیل ہے-

حضرت ابو ہریرہ(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:

’’مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِيْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ‘‘[11]

’’جس نے حسن اور حسین (رض) سے محبت کی پس تحقیق اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں کو ناراض کیا پس تحقیق اس نے مجھے ناراض کیا ‘‘-

’’ترمذی شریف‘‘ میں حضرت يَعْلَى بن مُرَّةَ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرما یا :

’’حُسَيْنٌ مِّنِّى وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا ‘‘[12]

’’حسین(رض) مجھ سے ہے اورمَیں حسین (رض) سے ہوں- اے اللہ تو اُس سے محبت فرما جو حسین (رض) سے محبت کر تا ہے ‘‘-

محبتِ الٰہی کے خواستگارو! امام حسین (رض) کے حُبدار بن جاؤ-

حضرت زید بن ارقم (رض) نے روایت بیان فرمائی  کہ:

’’أَنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) قَالَ لِعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَحَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ: أَنَا سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ، وَحَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ‘‘[13]

’’رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی المرتضیٰ، سیدہ فاطمۃ الزہراء اور حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین (رض) سے ارشادفرمایا:جس نے تم سے دوستی رکھی میں اس کا دوست ہوں اور جس نے تم سے دشمنی رکھی تو اس سے میری بھی دشمنی  ہے‘‘-

رسول اللہ (ﷺ) کی دوستی کے چاہنے والو! حسن و حسین (رض)کی دوستی اختیار کرو -

’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِّنِّىْ فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِىْ‘‘[14]

’’سیدہ(حضرت )فاطمۃ الزہرا(رض) میر ے جگر کا ٹکڑا ہے-پس جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا‘‘-

’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت  ہے کہ حضور نبی  کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

 

 

’’وَ أَنَا تَارِكٌ فِيْكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدٰى وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِكِتَابِ اللهِ، وَ اسْتَمْسِكُوْا بِهٖ  فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِيْ أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِيْ أَهْلِ بَيْتِيْ، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِيْ أَهْلِ بَيْتِيْ، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِيْ أَهْلِ بَيْتِيْ‘‘[15]

’’میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہےاللہ کی کتاب پر عمل کرو اور اس کو مضبوطی سے تھام لوپھر آپ (ﷺ) نے کتاب اللہ پر برانگیختہ کیا(یعنی ابھارا)اور اس کی ترغیب دی پھر فرمایا: اور (دوسرے) میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں  اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کو یاد دلاتا ہوں- میں تمہیں  اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کو یاد دلاتا ہوں-میں تمہیں  اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کو یاد دلاتا ہوں‘‘-

حضرت جابر بن عبداللہ (﷜) فرماتے ہیں کہ میں نے یومِ عرفہ کوحج کے موقع پر  رسول اللہ (ﷺ) کو اس حال میں دیکھا کہ آپ اپنی اونٹنی قصویٰ پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو میں نے آپ (ﷺ)کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

’’يٰا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّيْ تَرَكْتُ فِيْكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا: كِتَابُ اللهِ، وَعِتْرَتِيْ أَهْلُ بَيْتِيْ ‘‘[16]

’’اے لوگو! میں تم میں کتاب اللہ اور اپنی عترت یعنی اہلِ بیت چھوڑے جارہا ہوں تم جب تک ان کو پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے‘‘-

اے ہدایت کے متلاشیو! قرآن مجید اور امام حسین (رض) کا دامن پکڑ لو -خدا کا خوف رکھنے والو! اہلِ بیتِ رسول کے حبدار بن جاؤ -

یاد رکھیں! جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم صحیح مسلکِ اعتدال ہیں، صالحین و اولیاء کا مسلک ہیں تو ہمارے پاس یہ دلیل ہونی چاہیے کہ ہمارے دامن کی گانٹھ کا ایک سِرا قرآن مجید اور دوسرا سِرامودتِ اہل بیت ہے -

تربیتِ اولیاء کا منہج ہمارے سینوں میں صحابہ کرام و اہل بیت اطہار، صالحین و اولیاء  کی محبت و مودت کو پیدا کرتا ہے جس کے ذریعےدلوں سے نفرت، تعصب، غصہ و غصب زائل ہو جاتا ہے،  وجود میں رحمتِ مصطفےٰ (ﷺ) قائم ہو جاتی ہے اور وجود معاشرے کے لئے سراپا خیر بن جاتا ہے-اس لئے ہمیں اولیاء کا ملین کی تربیت و صحبت کو اختیار کرنا چاہیے-کیونکہ اولیاء کاملین ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ کس طرح صحابہ کرام (رض) اہل بیت  اطہار (رض) سے  اپنی محبت و مودت  کا اظہار فرماتے تھے-

سیدنا حضرت  ابو بکر صدیق  (رض) نے فرمایا :

’’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ، لَقَرَابَةُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ)  أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِيْ‘‘[17]

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسول اللہ (ﷺ) کے قرابت  داروں سے حسن سلوک کرنا میرے نزدیک اپنے قرابت داروں سے حسن سلوک  کرنے سے یقیناً زیادہ پسندیدہ ہے‘‘-

حضرت ابنِ عمر (رض)سیدناصدیق اکبر (رض) سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ :

’’اُرْقُبُوْا مُحَمَّدًا (ﷺ) فِيْ أَهْلِ بَيْتِهٖ‘‘[18]

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کی خوشنودی کو آپ (ﷺ) کی آل کی رضا میں تلاش کرو‘‘-

رسول اللہ (ﷺ) کی رضا کے متلاشیو! حسین (رض) کے حامی بن جاؤ-

اسی حدیث کے تحت علامہ بدر  الدین عینی’’عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اَمَرَ لِلنَّاسِ یَعْنِیْ اِحْفَظُوْا مُحَمَّدًا فِیْ اَھْلِ بَیْتِہٖ، فَلَا تُؤْذُوْھُمْ وَ لَا تَسُبُّوْھُمْ

حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ: تم سیدنا محمد رسول اللہ (ﷺ) کے اہل بیت کی حفاظت کرو،تم ان کو ایذا نہ پہنچاؤاور نہ ان کو برا کہو‘‘-

 

 

سیدنا ابو بکر صدیق (رض) کے حبدارو! اہلِ بیت اطہار کے محافظ بن جاؤ، اہلِ بیت سے حُسنِ سلوک کرو -

حضرت عقبہ بن حارث (رض) فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت صدیق اکبر (رض)نے عصر  کی نماز پڑھی-پھر وہ باہر تشریف لائے تو  انہوں نے دیکھا کہ حضرت امام حسن (رض)بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں:

’’فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهٖ، وَقَالَ: بِأَبِيْ، شَبِيْهٌ بِالنَّبِيِّ ‘‘[19]

’’تو حضرت صدیق اکبر (رض)نے ان کو اٹھا کر اپنے کندھے پربٹھا لیااور فرمایا کہ تم پر میرا باپ فدا ہوں یہ تو حضور نبی کریم (ﷺ) کے مشابہ ہیں ‘‘-

امام ذہبی ’’ سير اعلام النبلاء‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’حضرت ابو مُهَزِّمْ (رض)سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:

’’كُنَّا فِيْ جَنَازَةٍ، فَأَقْبَلَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ يَنْفُضُ بِثَوْبِهٖ التُّرَابَ عَنْ قَدَمِ الْحُسَيْنِ‘‘

’’ہم ایک جنازہ میں تھے (جنازے کے بعد میں نے دیکھا)کہ حضرت ابو ہریرہ (رض) اپنے کپڑے سے حضرت امام حسین (رض) کے پاؤں مبارک  سے مٹی صاف کررہے تھے‘‘-

’’مسند ا بی یعلیٰ‘‘کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے یہ دعا مانگی:

’’اَللّٰھُمْ عَادِ مَنْ عَادَاھُمْ، وَوَالِ مَنْ وَالَاھُمْ‘‘

’’ اے اللہ! جو ان سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ اور جو ان کو دوست رکھے تو اُس کو دوست رکھ‘‘-

اللہ کی دوستی کے متلاشیو! حسین (رض)کے دوست بن جاؤ-

اندازہ لگائیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اور آقا کریم (ﷺ)  نے ہمیں اہل بیت کی محبت و مودت اختیار کرنا سکھایا ہے کہ اے لوگو ! اگر سینوں کو روشن و منور کرنا چاہتے ہو، ہر ناپاکی سے پاک کرنا چاہتے ہو، تو اپنے سینوں میں اہل بیت اطہار (رض)کی محبت کو راسخ کر لو-

اہل بیت اطہار (رض)کی محبت و مودت کا طریق ہمارے آئمہ اسلاف اولیاء کاملین نے پہنچایاتھا-آج ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے مرشد کریم جانشین سلطان الفقر سرپرست اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب(مدظلہ الاقدس) سکھا رہے ہیں-

اس لیے ہم سب دعا گو ہیں   کہ اللہ  تعالیٰ  ہمیں حضور نبی اکرم (ﷺ) کی کامل اطاعت عطا فرمائے، آپ (ﷺ) کے اصحاب و اہل بیت اطہار (رض)کی  محبت عطا فرمائے- آپ (ﷺ) کی اُمت کے وہ اکابر صالحین اولیاء جن کے سینے علمِ نور سے روشن ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اُن کے سینوں کے فیضان سے مالا مال فرمائے، اللہ تعالیٰ اِس اُمت سے فرقہ واریت کو رفع فرمائے اور جو اضطراب کی صورتحال دنیا میں بالخصوص مسلم ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم فرقہ واریت، تعصب و نفرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں-ہمارے اندر وہ  وحدت پیدا ہو جائے جو دین و پیغامِ مُصطفٰے(ﷺ) کی قوت بنے-

 

 

٭٭٭



[1](الشورٰی:23)

[2](معجم الکبیر/ مجمع الزوائد)

[3](تفسیر بغوی، زیر آیت الشورٰی:23)

[4](شَرْحُ الْمَقَاصِدْ فِيْ عِلْمِ الْكَلام)

[5]اَلْإِكْلِيْل فِيْ اِسْتِنْبَاطِ التَّنْزِيْل

[6](تفسیر روح المعاني)

[7](قَلَائِدُ الْمَرْجان فِيْ بِيانِ النَّاسِخِ وَالْمَنْسُوخِ فِي الْقُرآن)

[8](الاعراف: 158)

[9](سنن الترمذی، بَابُ مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[10](صحیح مسلم ، بَابُ فَضَائِلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا)

[11](سنن ابنِ ما جہ/مسند الإمام أحمد بن حنبل)

[12](سنن الترمذى، کتاب المناقب)

(سنن ابن ماجه، باب: فَضْلِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ)

(مسند أحمد)

[13](سنن ابن ماجه، باب: فَضْلُ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ)

[14](صحيح البخارى ، باب مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)

[15](صحیح مسلم، كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ)

[16](سنن الترمذی، بَابُ مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[17](صحیح البخاری ، كِتَابُ المَنَاقِبِ)

[18](ایضاً)

[19](صحیح البخاری ، كِتَابُ المَنَاقِبِ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر