اللہ تعالیٰ نے ہدایت، نجات اور فلاح دارین کو عطا کرنے کیلئے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کو معبوث فرمایا اور ہمیں توفیق بخشی کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پے ایمان لائے اور آپ (ﷺ) کی ختم نبوت کی گواہی دی-
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو دو ایسی صفات عطا فرمائیں جن کے ذریعے ہمارے سینوں میں ایما ن راسخ ہوا-ایک صفت، صفتِ بشیر ہے کہ آقاکریم (ﷺ)عوام الناس کو یہ بشارت دیتے ہیں کہ اگر اس دنیا میں عملِ صالح کرو گے تو دنیا و آخرت میں بھی اس کا صلہ خیر ہوگا-مثلاًآقا کریم (ﷺ) نے اپنے صحابہ کرام (رض)میں سے بعض کو ان کی زندگیوں میں جنت کی اور بعض کو مختلف مقامات پر جزا کی بشارت دی-
دوسری صفت، صفتِ نذیر ہے کہ آقا کریم (ﷺ) ڈر سنانے والے ہیں یعنی اگر راہِ حق اور اعمالِ صالح کو ترک کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا اور آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر ہوگی اور قبر تاریک تر ہو جائے گی-
قبریں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہیں اور دوسری جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا-جنت کے باغوں میں سے باغ اُن کی قبریں ہوتی ہیں جو حضور نبی کریم (ﷺ) کی راہ پہ چلتے ہیں اور قبریں جہنم کے گڑھوں میں گڑھا ان کی ہوتی ہیں جو آقا کریم (ﷺ) سے اپنا چہرہ پھیر لیتے ہیں -ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ یَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآءُ بِالْغَمَامِ وَ نُزِّلَ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَنْزِیْلًااَلْمُلْکُ یَوْمَئِذِ نِ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِط وَ کَانَ یَوْمًا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا‘‘[1]
’’اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان بادلوں سے اور فرشتے اتارے جائیں گے پوری طرح اس دن سچّی بادشاہی رحمٰن کی ہے اور وہ دن کافروں پر سخت ہے‘‘-
یعنی روزِ محشر آسمان پھٹ کر دھوئیں کی طرح اڑے گا، گروہ در گروہ فرشتے اتارے جائیں گے اور تمام بادشاہوں کی باد شاہتیں ختم کر دی جائیں گی اور حقیقی بادشاہ اپنے تختِ عدالت پہ اپنی شان کے مطابق اجلال فرمائے گا-
اس دن کسی گردن میں یہ طاقت نہ ہوگی کہ رب کائنات کے سامنے اپنا سر اٹھا سکے، چاہے سامنے کوئی کتنا ہی بڑا نمرود، فرعون اورسلطنت کا مالک ہو- اس دن نہ دولت کام آئے گی نہ اقتدار- اس دن فقط حضور نبی کریم (ﷺ) کی محبت اور اتباع نفع دی گی-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا ‘‘[2]
’’اور جس دن ظالم اپنا ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی-وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا ‘‘-
یعنی ظالم اس دن حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کر کھائیں گے اورکہیں گے کہ کاش! ہم نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی معیت میں ہدایت کا راستہ اختیار کر لیا ہوتا-کاش! میں نے فلاں سے دوستی نہ کی ہوتی یعنی اس دن وہ اپنی بری سنگت پے حسرت کرے گا -
اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حکم فریایا:
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘[3]
’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو ‘‘-
کیونکہ اس دن سچوں کی سنگت و صحبت کامیاب ہوگی-اس لئے سنگت ہمیشہ دیکھ کر بنانی چاہیے -شیخ سعدی شیرازی (رح) فرماتے ہیں:
پسرِ نوح با بداں بہ نشست |
’’حضرت نوح(ع)کے بیٹے نے بُروں کی صحبت اختیار کی تو اس کی وجہ سے اُس سے نبوّت کا خاندان چھوٹ گیا-اصحابِ کہف کے کتے نےچند روز نیکوں (اولیاءاللہ) کی صحبت اختیار کی تو لوگوں میں سے ہو گیا‘ ‘-
یعنی آپ () قرآن مجید میں موجود دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک طرف خاندانِ نبوت کا چشم و چراغ ہے، وہ بُروں کی سنگت اور صحبت کا ہم نشین بن گیا تو والد کی میراث ’نبوت‘ہاتھ سے نکل گئی -جبکہ دوسری طرف ایک چرواہے کا کتا تھا، وہ اللہ کے نیک بندوں کی صحبت میں ہو لیا تو عزت پا گیا-
امام قر طبی(رح) ’’تفسیر قرطبی‘‘ میں اس واقعہ کو یوں لکھتے ہیں کہ :
’’جب وہ (اصحابِ کہف)جارہے تھے تو راستے میں ان کا گزر ایک کتےسے ہوا اور وہ انہیں بھونکنے لگا تو انہوں نے اسے بھگایا تو وہ پھر لوٹ کر آگیا تو انہوں نے اسے بار بار بھگایا لیکن پھر آجاتا تو آخر کار کتا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے ہاتھ دعا مانگنے والے کی طرح آسمان کی طرف اٹھا دیئے اور بول پڑا اس نے کہا تم مجھ سے نہ ڈرو بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں سے محبت کرتاہوں- پس تم سو جانا میں تمہاری حفاظت کروں گا-آخر کار انہوں نے ایک غار میں جاکر پناہ لی اور غار کے دہانے پر کتا بیٹھ گیا‘‘-
یعنی نیکوں کی صحبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کتے کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ کر دیا- رومیٔ کشمیر عارف کھڑی میاں محمد بخش فرماتے ہیں:
فضل تیرے نال لوہے تر دے، پھٹیاں دے سنگ رل کے |
مثلاً لوہا اتنا ٹھوس اور وزنی ہوتا ہے کہ تیر نہیں سکتا کیونکہ کثافت زیادہ ہے، لطافت کم ہے-لیکن اس کے مقابلے میں جو لکڑی کا تختہ ہوتا ہے اس میں لطافت زیادہ ہے ، کثافت کم ہے-اس لئے لوہے کو تیرنے کیلئے لکڑی درکار ہوتی ہے -گویا بری سنگت کی بجائے اچھی سنگت درکار ہے جو اپنی لطافت سے دوسرے کی کثافت کو بھی پار لگا دے- کیونکہ اگر بندے میں عیب و خامیاں موجود ہوں لیکن اگر سنگت اچھی مل جائے تو عیبوں پہ پر دے پڑجاتے ہیں-
مثلاً بندہ زمین پر کھڑا ہو کر زیادہ دور کا نظارہ نہیں کر سکتا کیونکہ زمین ہموار ہے اور بندہ اپنی جسامت اور قامت کے مطابق ہی دور تک دیکھ سکتا ہے- لیکن بقول حکماء اور فلاسفہ اگر مناسب قامت والے بندے کو پہاڑی کی سنگت نصیب ہو جائے تو وہ اپنی قامت سے زیادہ دور دیکھنے لگ جاتا ہے-الغرض اگر چھوٹی قامت کا بندہ بھی پہاڑ پہ کھڑا ہوجائے تو وہ زیادہ دور تک دیکھ سکتا ہے-
اسی طرح نماز میں غور کریں کہ مصلّہ پہ کھڑے ہو کر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تمجید و پاکی بیان کرنی ہےکہ مولیٰ تو ہر ابتداء سے پہلے اور ہر انتہاء کے بعد ہے، ہر چیز کا توہی خالق و مالک ہے-اس کی عظمت کا چر چا کرکے اس سے عزم وعہد کرنا ہےکہ:
’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ‘‘[4]
’’ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں ‘‘-
اس عزم و عہد اور اس کی مدد طلب کرنے کے لئے سب سے پہلے وہ مومن یہ دعا کرتا ہے کہ :
’’اِہْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ [5]
’’ہم کو سیدھا راستہ چلا‘‘-
سیدھے راستےسے کیا مراد ہے؟ سیدھے راستے پر کون چلتا ہے؟سیدھے راستے پہ وہ چلتے ہیں جن پہ رب کا فضل و انعام ہوگیا- اولیاء اللہ صراط مستقیم پہ چلنے والے ہیں کیونکہ وہ اہل ہدایت و اہل لطف و کرم ہیں- اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں پہلی دعا اپنے نیک بندوں کی پیروی، سنگت و صحبت کی سکھائی ہے-
غور کریں! کہ قرآن مجید کی اس دعا سے اولیاء اللہ کے راستے کی کیا وضاحت ملتی ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْہِمْلا‘‘[6]
’’راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا ‘‘-
یعنی اللہ تعالیٰ ان پر یہ احسان کرتا ہے کہ ان کے وجود کی کثافت کو کم کر کے اس میں لطافت کو بڑھا دیتا ہے-ان کے وجودوں کو خیر و برکت کا منبع بنا دیتا ہے-اس لئے مولانا روم ’’مثنوی، دفتر اول‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جنہیں شرف و کمال عطا فرمایا ہے ان کے ساتھ اپنا موازنہ نہ کیا کرو-جس کی مثال وہ یوں دیتے ہیں کہ ارغوان کے پتے اگر ہرنی کھائے تو اس کے پیٹ سے مشک و کستوری پیدا ہوتی ہے-اگر وہی پتے بکری کھائے تو اس کے شکم میں غلاظت پیدا ہوتی ہے-اب بظاہر ہرنی اور بکری کی ساخت میں بہت مشابہت ہے، لیکن بکری کبھی بھی ہرنی کی برابری کا دعوٰی نہیں کر سکتی-
اسی طرح دوسری مثال مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ بھڑ اور شہد کی مکھی دونوں حشرات ہیں، دونوں کی ساخت ایک ہے لیکن جو بھڑ کا مادہ ہے، اسے کوئی انسان کھانا گوارا نہیں کرتا بلکہ اس سے کراہت محسوس کرتا ہے اور اس کے ڈنگ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے-جبکہ جو شہد کی مکھی ہےاس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ فِیْہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ‘‘[7]
’’اس میں لوگوں کے لیے شفاءہے ‘‘-
اب بظاہر بھڑ اور شہد کی مکھی دیکھنے اور اڑنے میں ایک جیسے ہیں لیکن یہ دونوں اپنے مقام و مرتبہ میں برابر نہیں ہیں-
مولانا روم اس کی مزید وضاحت ایک دلچسپ حکایت سے کرتے ہیں کہ :
’’ایک تاجر کے پاس طوطا تھا، اس طو طے نے دکان میں ایک بلی دیکھی اور اس بلی کے ڈر کی وجہ سے اڑا اور سامنے روغن کے شیشے کی بوتلیں پڑی تھیں، ان بوتلوں میں لگا اور وہ بوتلیں گر گئیں-تاجر کا مال ضائع ہوا، اس نے غصہ میں مسواک طوطے کے سر پر ماری اور اسے گنجا کر دیا- ایک دن ایک حاجی تازہ تازہ حج کر کے اس تاجر کی دکان پہ آیا ، حج میں ایک سنت یہ بھی ہے کہ سر کے بالوں کو حلق کیا جاتا ہے، تو وہ حاجی بھی سر سے گنجا تھا اور طوطا بھی اپنی سزا کی وجہ سے سر سے گنجا ہوا بیٹھا تھا تو جیسے ہی طوطے نے حاجی کو دیکھا تو بولا لگتا ہے کہ حاجی نے بھی تیل کی بوتلیں گرائی ہیں‘‘-
اس لئے مولانا روم فرماتے ہیں کہ طوطا احمق تھا کیونکہ وہ یہ فرق نہیں کر پایا کہ سزا میں سر منڈوانا اور ہوتا ہے اور حج میں سر منڈوانا اور ہوتا ہے-مولانا فرماتے ہیں کہ :
کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر |
’’اپنےاعمال کا اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ موازنہ نہ کر اگرچہ لکھنے میں شیر (درندہ) اور شِیر (دودھ) ایک جیسے ہوتے ہیں ‘‘-
جس طرح شیر اور شِیر میں فرق ہوتا ہے اسی طرح عام بندے اور ولی کامل میں فرق ہوتا ہے- کیونکہ اللہ تعالیٰ اولیاء کاملین کے وجود کو ایسی رحمتیں، برکتیں اور بصیرت عطا کرتا ہے کہ ز مان و مکان ان کے سامنے بے حجاب ہوتے ہیں-
سیدنا امام مالک (رض) اور امام بیہقی (رح)روایت نقل کرتے ہیں کہ :
’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ زوجہ رسول (ﷺ) فرماتی ہیں کہ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے وصال کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں-
’’فَاقْتَسِمُوْهُ عَلٰى كِتَابِ اللہِ‘‘
’’پس تم اللہ کی کتاب کے حکم کے مطابق (اس مال کو) تقسیم کر نا‘‘-
سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی:
’’يَا أَبَتِ وَاللهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ فَمَنِ الْأُخْرٰی ؟ ‘‘
’’ابا جان‘‘! اگر وہ اتنا زیادہ مال بھی ہوتا تو بھی میں اسے اپنے پاس نہ رکھتی لیکن (میری بہن) تو صرف اسماء ہے دوسری بہن کون ہے ؟
حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے فرمایا: (میری بیوی) بنت خارجہ کے پیٹ میں جو بچہ ہے:
’’اَرَاهَا جَارِيَةً‘‘[8]
’’میں اسے لڑکی دیکھ رہا ہوں‘‘-
امام مالک فرماتے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وصال کے بعد جب وہ بچہ پیدا ہوا وہ بیٹی تھی- آج تو الٹرا ساؤنڈ اور ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن اس وقت ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں تھی -لہذا اللہ تعالیٰ نے سیدنا صدیق اکبر (رض) کی آنکھ میں وہ بصیرت رکھی تھی جس کے سامنے زمان و مکان کا حجاب نہیں تھا-
ٹیکنالوجی کے دور میں آج تک کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں ہوا جو کسی کی نیند میں آنے والےمناظر کو دیکھ سکے-یہاں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ :
’’ایک دن غوث الثقلین شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی (رض) کرسی پربیٹھے ہوئے وعظ کہہ رہے تھے ،قریباً دس ہزار افرادمجلسِ وعظ میں حاضرتھے ،شیخ علی بن ہیتی،حضرت شیخ کی کرسی کے پائے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،شیخ علی بن ہیتی کونیندآگئی،حضرت شیخ عبدالقادر الجیلانی(رض) نے حاضرین کوخاموشی کاحکم دیاسب لوگ خاموش ہوگئے، حالت یہ تھی کہ سانس لینے کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی نہ دیتا تھا،حضرت شیخ عبد القادر الجیلانی(رض)کرسی سے نیچے اترے اورشیخ علی بن ہیتی کے سامنے با ادب کھڑے ہوکر ان کی طرف دیکھنے لگے، شیخ علی بیدار ہوئے تو سیدنا غوث اعظم (رض) نے کہا تمہیں خواب میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی زیارت ہوئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا:جی ہاں! فرمایا: اسی لئے میں تمہارے سامنے با ادب کھڑا تھا، تمہیں حضور نبی کریم (ﷺ)نے کیانصیحت کی؟کہنے لگے کہ آپؒ کی مجلس میں باقاعدہ حاضری دیاکروں ،شیخ علی نے کہاکہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا حضرت شیخ عبد القادر الجیلانی(رض)نے بیداری میں دیکھا ‘‘-[9]
سیدنا امام قاضی بیضاوی ’’تفسیر بیضاوی‘‘میں ’’اِہْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کی تفسیر میں ہدایت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وَالثَّالِثُ اَلْھِدَایَۃُ بِإِرْسَالِ الرُّسُلِ وَ اِنْزَالِ الْکُتُبِ، وَ الرَّابِعُ أَنْ یَّکْشِفَ عَلٰی قُلُوْبِہِمُ السَّرَائِرَ وَ یُرِیَھُمُ الْاَشْیَاءَ کَمَا ھِیَ بِالْوَحْیِ، أَوِ الْاِلْھَامِ وَ الْمَنَامَاتِ الصَّادِقَۃِ، وَ ھٰذَا قِسْمٌ یَخْتَصُّ بِنَیْلِہٖ الْاَنْبِیَاءَ وَ لْاَوْلِیَاءَ ‘‘
’’اور(ہدایت) کی تیسری قسم کے انبیاء و رسل اور صحائف نازل کر کے ہدایت عطا فرمانا اور (ہدایت کی) چوتھی (قسم )یہ ہے کہ ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ رازوں کو کھول دےاور (اللہ پاک) ان کو ایسی اشیاء دکھائے- جیسا کہ یہ وحی، الہام، یا سچے خوابوں کے ذریعے ہوتا ہے اور یہ قسم انبیاء رسل (ع) اور اولیاء کرام کے ساتھ خاص ہے ‘‘-
امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر اپنے راز کو کھولتا ہے -یعنی اگر انبیاء پر اپنے راز کو کھولے تو وہ وحی کہلائے گی اور اگر اولیاء پر راز کو کھولے تو وہ الہام کہلائے گا-
علامہ قاضی شہاب الدین الخفاجی (المتوفیٰ:1069ھ) ہدایت کی چوتھی قسم کی وضاحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مُغَایِرَتُہٗ لِمَا قَبْلَہٗ ظَاہِرَۃٌ لِّاخْتِصَاصِہٖ بِالْاَنْبِیَاءِ (ع) وَ الْاَوْلِیَاءِ اِذَا الْمُرَادُ بِالْوَحْیِ کَشْفُ الْحَقَائِقِ وَ اِظْہَارُہَا لَھُمْ بِغَیْرِ الطُّرُقِ الْمَعْھُوْدَۃِ وَلَا وَجْہَ لِتَعْمِیْمِہٖ وَا لْاِلْہَامُ اِلْقَاءُ الْخَیْرِ فِی الْقَلْبِ اِذْ غَیْرُہٗ یُقَالُ لَہٗ وَسْوَسَۃٌ‘‘[10]
’’یہ (قسم) ظاہری طور پر پہلی قسموں سے جدا ہے کیونکہ یہ انبیاء کرام (ع) اور اولیاء کرام کے ساتھ خاص ہے-جبکہ وحی سے مراد حقائق کا کشف ہے اور غیر معروف طریقوں سے ہٹ کر لوگوں کے لئے حقائق کا اظہار کرنا ہےاور اس کی عمومیت (عام ہونے) کی کوئی وجہ نہیں ہوتی(کیونکہ یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہوتی ہے)اور الہام سے مراد دل میں خیر کا القاء کرنا ہوتا ہے جبکہ اس کا مخالف وسوسہ ہوتا ہے‘‘-
یاد رکھیں!وحی خاصۂ نبوت ہے اور آقا کریم (ﷺ) کے بعد کوئی وحی نہیں آسکتی اور وحی کی خاصیت یہ ہے کہ وحی تشریعی ہوتی ہے یعنی وہ وحی جس سے شریعت کے احکام مستنبط ہوں یا وہ وحی جو سراپا شریعت ہو -لیکن جو الہام ہے یہ شریعت نہیں ہوتا- یہی وجہ ہے کہ کلمہ انبیاء (ع) کا پڑھا جاتا ہے اور انہی کی اطاعت و اتباع کی جاتی ہے- جبکہ اولیاء اللہ کو کشف و الہام ہوتا ہے وہ بھی حق و سچ ہوتا ہے لیکن شریعت نہیں ہوتا-اولیاء اللہ کا کلام و اقوال شریعت کی تفسیر ہوسکتی ہے لیکن بذات خود شریعت نہیں ہوتے-شریعت فقط نبی کا فرمان ہے-
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں الہام کو غیر نبی کے آنے پر بھی بیان فرمایا-مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے کہ انبیاء صرف مرد ہو تے ہیں کوئی عورت نبی نہیں ہوئی- اس لئے عورت ولیہ ہو سکتی ہے لیکن نبی نہیں -جیسا کہ سیدنا موسیٰ (ع) کی والدہ ماجدہ ایک ولیہ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ القصص‘‘ میں ارشاد فرمایا:
’’وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ‘‘[11]
’’ اور ہم نے موسٰی کی ماں کو الہام فرمایاکہ اسے دودھ پلا‘‘-
گویا قرآن مجید اس بات کا اثبات کرتا ہے کہ غیر نبی پر بھی الہام ہوسکتا ہے- حتی کہ قرآن مجید شہد کی مکھی پر الہام ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے:
’’ وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ‘‘[12]
’’اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا‘‘-
یہاں لفظ وحی بمعنی الہام ہے یعنی دل میں بات ڈالنا-لہٰذا غور کریں کہ مکھی اشرف المخلوقات ہے یا انسان؟؟؟گویا اگر خدا ایک مکھی کو الہام فرماتا ہے تو اولیا اللہ تو اشرف المخلوقات ہیں ان کو تو اللہ تعالیٰ بدرجہ اولیٰ الہام فرماتا ہے-
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح)( المتوفی :1225ھ) وحی اور الہام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اَلْوَحْىُ وَالنَّبُوَّةُ الَّتِيْ اَلْتَّشْرِيْعُ مُخْتَصٌّ بِالْأَنْبِيَاءِ وَ هُمُ الرِّجَالُ وَ هِىَ الَّتِيْ اِنْقَطَعَتْ وَخَتَمَتْ بِخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) وَ اَمَّا الْوَحْىُ الَّذِيْ لَيْسَ لِلتَّشْرِيْعِ سَوَاءٌ كَانَ بِطَرِيْقِ الْإِلْهَامِ اَوْ بِكَلَامِ الْمَلَائِكَةِ كَمَاكَانَ لِمَرْيَمَ فَغَيْرُ مُخْتَصٍّ بِالْأَنْبِيَاءِ بَلْ يَكُوْنُ لِلْاَوْلِيَاءِ اَيْضًا وَلَمْ يَنْقَطِعْ بَعْدَ النَّبِيِّ (ﷺ) وَ كَذَا حُصُوْلُ كَمَالَاتِ النَّبُوَّةِ بِالتَّبْعِيَّةِ قَدْ يَكُوْنُ لِغَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ اَيْضًا‘‘
’’وحی اور نبوت ِتشریعی انبیا ء کرام کے ساتھ مختص ہے اور انبیاء کرام(ع) سب مرد تھے یہ سلسلہ ِنبوت (مراد المشتاقین) خاتم النبیین حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) پر ختم ہو گیا لیکن وہ وحی جو تشریعی نہیں تھی خو اہ وہ بطریقِ الہا م ہو یا ملائکہ کے کلام کے ذریعے ہو جس طرح حضرت مریم (ع) کے ساتھ کلام ہوا تھا -یہ انبیاء کرام (ع) کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ یہ اولیا ء کے سا تھ بھی ہو سکتی ہے اورغیر تشریعی وحی کا سلسلہ نبی پاک صاحبِ لولاک پر منقطع نہیں ہوا- اسی طرح پیروی کی وجہ سے کمالاتِ نبوت کا حصول بھی غیرِ انبیاء کے لیے ہو تا رہتا ہے‘‘-
یعنی اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کو خاص قدرتیں اور برکتیں عطا فرمائی ہیں-جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو (رح)کی والدہ ماجدہ کو خواب میں اشارہ ہوا کہ بی بی راستی تمہارا ایک بیٹا پیدا ہوگا جسے اللہ رب العزت اپنی قدرت سے معرفت اور اسرار و رموز کے بلند رتبے عطا کرے گا -مزید یہ بشارت تھی کہ جو بیٹا پیدا ہواس کا نام باھو رکھنا- باھو کا مطلب ہے ’’اللہ کے ساتھ‘‘-یعنی جو ہر وقت وصالِ الٰہی میں غرق ہو-یاد رہے کہ حضرت سلطان باھو (رح) سے پہلے کسی کا نام باھو نہیں تھا-آپؒ کی والدہ ماجدہ خود ولیہ کاملہ تھیں، تو جب پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اس پر ولایت کی نگاہ کی تو وہ برداشت نہ کرنے کی وجہ سے وصال کر گیا- دوسرا بیٹا پیدا ہوا اس پر ولایت کی نگاہ کی وہ بھی برداشت نہ کرنے کے باعث وصال کر گیا- حضرت بی بی راستی (رح) اسی انتظار میں ہیں کہ کونسا بیٹا ہوگا جس کا عرفان پوری دنیا میں جاری ہوگا-پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو اُس پر ولایت کی نگاہ کی تو وہ گود میں مسکرانے لگ گیا- تو مائی صاحبہ نے فرمایایہ ہے وہ محمد باھو جس کی مجھے بشارت دی گئی تھی-گویا اولیاء اللہ کو یہ بشارتیں سچے خوابوں کے ذریعے بھی عطا ہوتی ہیں- مزید قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ الہام اور بشارتیں انہیں ملائکہ کے ذریعے بھی عطا ہوتی ہیں-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَـنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘
’’بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں، کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنّت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا‘‘-
علامہ قاضی ابی السعود (رح) (المتوفى:982ھ) ’’تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائَكَةِ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’مِنْ جِهَتِهٖ تَعَالٰى يُمِدُّوْنَهُمْ فِيْمَا يَعِنُّ لَهُمْ مِّنَ الْأُمُوْرِ الدِّيْنِيَّةِ وَ الدُّنْيَوِيَّةِ بِمَا يَشْرَحُ صُدُوْرَهُمْ وَ يَدْفَعُ عَنْهُمُ الْخَوْفَ وَالْحُزْنَ بِطَرِيْقِ الْإِلْهَامِ ‘‘
’’تو اللہ پاک کی طرف سے اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو ان کی دینی اور دنیا وی امو ر میں مدد کرتے ہیں جس سے ان کو شرح صدر حاصل ہوتی ہےاور بطریق الہا م ان سے خوف وحزن کو دور کر دیا جا تا ہے‘‘-
آگے لکھتے ہیں :
’’اور ایک قول یہ کیاگیا ہے یہ بشارت تین مو اقع کے وقت ہے موت کے وقت ،قبر میں اور حشر میں‘‘-
علامہ ابو سعود یہ قول نقل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وَالْأَظْهَرُ هُوَ الْعُمُوْمُ وَالْإِطْلَاقُ ‘‘[13]
’’اور اظہر من الشمس بات یہ ہے کہ (فرشتوں کا بندہ مومن پر نزول)عمو م اور مطلق ہے‘‘-
یعنی فرشتوں کا نزول بند ہ ِ مو من پر دنیا اور آخرت ہر حال میں ہو تا ہے-
اس سے اگلی آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’نَحْنُ اَوْلِیٰٓـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ج وَ لَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَ لَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ‘‘[14]
’’ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لئے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے اس میں جو مانگو‘‘-
علامہ قاضی ابی السعود (رح) (المتوفى:982ھ) ’’نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِى الْحَيَاةِ الدُّنْيَا‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’مِنْ بَشَارَاتِهِمْ فِيْ الدُّنْيَا،أَيْ أَعْوَانُكُمْ فِيْ أُمُوْرِكُمْ نُلْهِمُكُمُ الْحَقَّ ، وَنُرْشِدُكُمْ إِلٰى مَا فِيْهِ خَيْرُكُمْ وَصَلَاحُكُمْ ‘‘[15]
’’ہم تمہارے دنیاوی زندگی میں بھی دوست ہیں یعنی تمہارے کاموں میں تمہا رے معاون ہیں، تم کو حق (بات) الہام کرتے ہیں اور تمہا ری اس چیز کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس میں تمہاری بہتری اور بھلائی ہوتی ہے‘‘-
یعنی اللہ تعالیٰ ملائکہ کے ذریعے ان کے دلوں پر حق بات کا الہام کرتا ہے جس میں انسان کے لے خیر اور بھلائی ہوتی ہے-جس کی تائید آقا کریم (ﷺ) نے فرمائی ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’قَدْ كَانَ يَكُوْنُ فِي الْأُمَمِ مُحَدَّثُوْنَ، فَإِنْ يَّكُ فِيْ أُمَّتِيْ أَحَدٌ فَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ‘‘[16]
’’پہلی امتوں میں محدَث ہوتے تھے پس میری امت میں حضرت عمر بن خطاب محدَث ہیں ‘‘-
ابن وہب نے فرمایا:
’’مُحَدَّثُوْن سے مراد صاحبِ الہام ہیں‘‘-[17]
امام ترمذی (رح) نے ’’سنن ترمذی‘‘ میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ اللهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰى لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِهٖ‘‘
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے حق کو حضرت عمر فاروق (رض) کی زبان اور دل پر جاری فرما دیا ہے‘‘-
گویا حضور نبی کریم (ﷺ) نے جلیل القدر صحابی حضرت عمر فاروق (رض)سے اس بات کا اثبات کیا کہ ان کی مدد کے لیے فرشتے آتے ہیں اور ان کے دل پر اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعے حق کو جاری فرماتا ہے-
یہاں مومن کی فہم و فراست سے متعلق صحابی ٔ رسول (ﷺ) حضرت ذو النورین عثمان بن عفان کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:
’’ایک شخص کا بیان ہے کہ ایک دفعہ مَیں حضرت عثمان غنی (رض)کو ملنے کیلئے جا رہا تھا توجاتے ہوئے راستے میں میری نظر ایک عورت پر پڑی- پھر مَیں حضرت عثمان غنی (رض) کی خدمتِ اقدس میں حاضرہوا تو آپ (رض) نے فرمایا:کیا دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے پاس آتے ہو اور تم پر (نظرِ بد کی وجہ سے) زنا کے آثار ہیں (اس شخص نے کہا کہ) میں نے عرض کی: کیا رسول اللہ (ﷺ) کے بعد وحی کا نزول ہوتا ہے (کیونکہ اس امر پر میرے علاوہ بظاہر کوئی مطلع نہیں تھا تو حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ فراست صادقہ ہے‘‘-[18]
یاد رکھیں! جو چیزیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں، جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے لیکن اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قدرت و بصیرت عطا کی ہے جو دلوں کے اسرار بھی جانتے ہیں-یہ بصیرت اس وقت عطا ہوتی ہے جب انسان کا تعلق نورِ الٰہی سے استوارہوتا ہے-سلسلہ ٔ حضرت سلطان باھو (رح) میں جو ذکر اسم اللہ ذات کی مشق کروائی جاتی ہے اس کا بنیادی مقصد بھی نور ِ الٰہی سے اپنے تعلق کو استوار کرنا ہے-
یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ جس چیز کو کثرت سے دیکھا جائے اس کا تصور آنکھوں میں قائم ہوجاتا ہے-یہ اصول اچھے اور برے دونوں پہلوؤ ں پر منطبق ہوتا ہے-مثلاً جب کوئی سڑک ، ٹیلی ویژن یا سمارٹ فونز پہ مختلف خوفناک حادثات کے منظر دیکھتا ہے تو انسان کے دل پر ان خوفناک حادثہ کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے-حالانکہ وہ خود اس حادثہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ وہ صرف موبائل سکرین پہ یا اپنی آنکھوں سے بس دیکھ رہا ہے اس کے باوجود بھی اس کی ہبیت جسم پر طاری ہوجاتی ہے-اسی طرح جب انسان اللہ تعالیٰ کے اسم پاک ’’اَللہُ‘‘ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا ہے تواُس سے نکلنے والا نور انسان کے دل میں داخل ہوتا ہے- کیونکہ ہر چیز کا تصور چاہے اچھا ہو یا برا وہ منفی یا مثبت اثرات ضرور انسان کے دل پہ طاری کرتا ہے-
یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ ذکر اَللہُ میں اس قدر مستغرق رہتے ہیں کہ غیر اللہ کا حصہ ان کی آنکھوں سے نکل جاتا ہے، ان کے دل محبتِ الٰہی کے لئے خالص ہوجاتے ہیں اور ان کے دل میں عشق کے انوار پیدا ہو جاتے ہیں-
اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اثبات قرآن مجید میں موجود حضرت عزیر (ع) کے واقعہ سے بیان فرمایا ہے -ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا ج قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا ج فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج وَ انْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا ط فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ لا قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ‘‘[19]
’’یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی پڑھی تھی اپنی چھتوں پربولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کردیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم فرمایا نہیں بلکہ تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بونہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ (کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں) اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہوگیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے‘‘-
اولیاء اللہ یہاں ایک لطیف نکتہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہوا -ایک کھانا اور دوسری سواری-کھانے میں طعام ومشروب تھا جن کو بے جان کہا جاتا ہے جبکہ سواری میں ایک گدھا تھا جو کہ جاندار تھا-اب سو برس مدت گزرنے کے بعد بھی کھانا باسی نہیں ہوا جبکہ گدھے کی ہڈیاں تک سلامت نہیں رہیں-اس کی وجہ یہ ہے کہ کھانے نے اپنا آپ اور ارادہ تک اپنےمالک(کھانے والے) کے سپرد کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ باقی رہا جبکہ سواری جاندار ہے اس نے اپنا ارادہ اپنے مالک (سوار) کے سپرد نہ کیا جس کی وجہ سے وہ فنا ہو گیا-الغرض!جو لوگ اپنے ارادے، اپنی چاہت و منشا کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بقا عطا کر دیتا ہے-اس کے برعکس جو اپنی ذات، چاہت اور منشا کو اللہ تعالیٰ کے سپرد نہیں کرتے اس کی مثال اس گدھے جیسی ہے جو فنا ہو جاتا ہے-اس لئے اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی مرضی کو اللہ کیلئے خالص کر دو-دل کو خالص کرنے کا طریقہ حضرت سلطان باھو (رح)نے مشق تصور اسم اللہ ذات بتایا ہے-جس کے نور سے انسان کا دل خالص ہوتا ہے اور اس کے دل میں عشقِ الٰہی پیدا ہوتا ہے-عشق کے متعلق کہا جاتا ہے کہ :
’’اَلْعِشْقُ نَارٌ يُحْرِقُ مَا سِوَا الْمَحْبُوْبِ‘‘
’’عشق ایک ایسی آگ ہے جو دل سے محبوب کے سوا سب کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے ‘‘-
اولیاء کاملین اس کی مثال سورۃ النمل میں موجود حضرت سلیمان(ع) کے واقعہ سے دیتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان (ع) نے ملکہ بلقیس کو اسلام کی دعوت کا خط بھیجاتو اس نے اپنی مجلس کے امراء کے سامنے خط کا بتایا کہ یہ ایک بادشاہ کی طرف سے خط آیا ہے اور اس نے اسلام کی دعوت دی ہے-اس مجلس کے امراء نے کہا کہ ہمیں یہ دعوت قبول نہیں ہے ، ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں-لیکن ملکہ بلقیس نے اپنی حکمت و دانائی سے انہیں جواب دیا جس کو قرآن کریم یوں بیان کرتا ہے:
’’قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً ج وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ‘‘[20]
’’بولی بیشک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے تباہ کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل- اور ایسا ہی کرتے ہیں ‘‘-
یعنی اس نے کہا کہ جب کوئی زبردست بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتا تو وہ اس بستی کے باعزت لوگوں کو رسوا کر دیتا ہے-یہاں ایک حکمت سے بھر پور نکتہ بیان ہوا ہے جس کی طرف حضرت سلطان باھورح)نے یوں اشارہ کیا ہے کہ :
دِل بازار تے مُنْہ دروازہ سِینہ شہر ڈَسیندا ھو |
یعنی انسان کا وجود ایک بستی اور مملکت کی مثل ہے جس پہ نفس امارہ زبردست بادشاہ بن کر قابض ہے جو انسان کو ہر برائی اور بے حیائی پہ اُکساتا ہے جس کی وجہ سے انسان رسوا اور ذلیل ہوتا ہے-اس لئے اپنے وجود کی بستی میں طاقتور بادشاہ کو قابض کرو جو اس ظلم پر اکسانے والے بادشاہ کو رسوا کرے اور وہ طاقتور بادشاہ ’عشقِ الٰہی‘ ہے-کیونکہ جب بندہ کے دل میں عشقِ الٰہی قرار پکڑتا ہے تو نفس ذلیل و رسوا ہو جاتا ہےاور انسان کے وجود کا ہر ہر عضو اطاعتِ الٰہی میں آجاتا ہے-
یہاں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:
’’ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا تم نے روحانیت کا سفر کیسے طے کیا- اس نے جواب دیا پہلے میں لوہار بنا، پھر دھوبی بنا اور پھر کافی عرصہ چوکیدار رہا-اس نے کہا! میں نے تو نہیں دیکھا کہ آپ کبھی نہ لوہار بنے، نہ دھوبی بنے اور نہ ہی کہیں چوکیداری کرتے دیکھا ہے-بزرگ نے جواب دیا دل لوہے کی مثل ہے-جب میں اپنے مرشد کی تربیت میں آیا تو اس نے سب سے پہلے مجھے لوہار والا کام سونپا کہ اللہ کی محبت اور اس کے خوف سے دل کے لوہےکو پگھلاتےرہو- پھر جب دل پگھلا تو دل کے پردوں پہ کچھ میل کچیل باقی تھی میرے مرشد نے مجھے دھوبی والا کام سونپا کہ میں دل کے پردوں سے میل کچیل کو اچھی طرح صاف کروں-پھر جب دل سے میل کچیل ختم ہو گئی تو پھر میرے مرشد نے مجھے لا الہ الا اللہ کی تلوار پکڑا کر چوکیداری کا کام سونپا کہ دل پہ پہرہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی غیر اس میں داخل نہ ہونے پائے‘‘-
اس لئے حضرت سلطان باھو(رح) فرماتے ہیں:
الف:اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو |
یاد رکھیں!راہِ تصوف میں ترکِ دنیا سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ اس دنیا کو ہی چھوڑ دے بلکہ اس راہ میں طالب حق وہ ہے جو اس دنیا کے سمندر میں رہتے ہوئے اپنے اوپر دنیا کے چھینٹے نہ پڑنے دے-یعنی اس جہاں میں رہتے ہوئے اپنے وجود میں دنیا کی محبت کو نہ آنے دے-بزبانِ عارف کامل:
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای |
’’دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار، ہوشیار، دامن تر نہ کرنا‘‘-
یہی وجہ ہے کہ روحانی تربیت انسان کو معاشرے کا ایک مثالی فرد بناتی ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے حقوق اللہ ، حقوق العباد اور حقوق النفس کو بھی بہترین طریقے سے ادا کرے- مومن کا یہ طریق نہیں ہے کہ وہ ذمہ داریوں سے بھاگے- کیونکہ تصوف اپنے فرائض سے غافل نہ ہونے کا نام ہے- اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا اور اپنی قربت کا وہ مقام عطا فرمایا جو رہتی دنیا تک نہ کسی کو عطا ہوا اور نہ ہوگا، اس کے باوجود بھی آقا کریم (ﷺ) نے اپنا فریضۂ نبوت بخوبی سر انجام دیا اور اپنی امت کے مومنین کو بھی یہی تلقین فرمائی کہ وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کو احسن طریق سے سر انجام دیں-
غوث الاعظم پیرانِ پیر شیخ عبد القادر الجیلانی (رض) 54 برس تک عباسی حکومت کے دارالخلافہ بغداد کے سب سے بڑے جامعہ کے شیخ رہے، محی الدین شیخ الاکبر علامہ ابن عربی مکہ، مدینہ، دمشق، قونیہ حتی کہ مشرق و مغرب کے تمام بڑے تدریسی مراکز میں درس و تدریس کا اہتمام کرتے تھے-یاد رکھیں! اولیاء اللہ رہبانیت اختیار نہیں کرتے، وہ دنیا کو نہیں بلکہ حُبِّ دنیا کو ترک کرتے ہیں-کیونکہ وہ اللہ کے عشق پر کسی دوسری چیز کو غالب نہیں ہونے دیتے- تاکہ دل عشقِ الٰہی کے نور سے منور ہو جائے-
یاد رکھیں! جوش اور غصہ میں فرق ہوتا ہے، غیرت اور غفلت میں فرق ہوتا ہے-جب کوئی کسی سے دشمنی پالے یا کسی سے ناراض ہو تو وہ سنتِ عمر فاروق (رض) سے یہ فرق ضرور جان لےکہ یہ دشمنی غیرت کی وجہ سے ہے یا غفلت کی وجہ سے-غیرت اور غصہ میں ایک باریک پردہ ہوتا ہے- کیونکہ غیرت بُری نہیں، لیکن غفلت اور غصہ بُرا ہے-اس لئے اولیاء اللہ کی تربیت اور دعوت ہی یہی ہے کہ اپنے وجود کو سراپا رحمت بنایا جائے-
محی الدین شیخ الاکبر علامہ ابن عربی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو منصب عطا کئے ہیں:
1-’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ‘‘
’’بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا ‘‘-
2-’’ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ‘‘
’’پھر اسے ہر نیچی سے نیچی سی حالت کی طرف پھیردیا‘‘-
آپؒ فرماتے ہیں کہ ’’اَحْسَن‘‘ اور ’’اَسْفَل‘‘ ہونا رحمت کی مقدار پہ منحصر ہے-جس کے وجود میں جس قدر رحمت کی مقدار بڑھتی جاتی ہے وہ اسی قدر ’’اَحْسَن‘‘ ہوتاجاتا ہے اور جس کے وجود میں رحمت کی مقدار گھٹتی جاتی ہے وہ اسی قدر ’’اَسْفَل‘‘ ہوتا جاتا ہے-اس لئے یہ انسان پہ منحصر ہے کہ اس نے ’’اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ‘‘ کا معاشرہ بنانا ہے یا ’’اَسْفَل سٰفِلِیْنَ‘‘ کا- اگر’’اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ‘‘ کا معاشرہ بنانا ہے تو صلح، رحمت، محبت، اد ب و احترام، حلم و برداشت، عفوو درگزر، امن و بھلائی ،یکجہتی اور معاف کرنے کو فروغ دینا ہوگا-
شیخ سعدی شیرازی (رح) فرماتے ہیں کہ:
نه مرد است آن به نزدیک خردمند |
’’داناؤں کے نزدیک وہ مرد نہیں ہے جو مست ہاتھی سے لڑے-ہاں! حقیقت کے اعتبار سے مرد وہ ہے کہ جب اس کو غصہ آئے تو بیہودہ گفتگو نہ کرے‘‘-
گویا بشر کی عظمت یہ ہے کہ وہ اپنے غصہ کو قابو میں رکھے-لہٰذا ہمیشہ اس بات پر دھیان رہے کہ ہمارا غصہ کبھی بھی انتشار او ربد امنی کا باعث نہ بنے-
صد افسوس! کہ ہمارے معاشرے میں ہر پلیٹ فارم پہ غصہ کی روش اس قدر پھیل گئی ہے کہ کسی کی بات برداشت ہی نہیں ہو پاتی-اسی طرح معاشرے میں قانون اور نظم و ضبط کی جگہ ہجومی انصاف نےلے رکھی ہے-اس برائی اور ظلم کے پھیلنے کا سبب فقط برداشت کی کمی ہے-
ہمارے لئے بہترین اسوۂ حسنہ(Role Model) آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس ہے-فتح مکہ کے موقع پہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) مکہ میں داخل ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آج انتقام کا دن ہے-سرکارِ دو عالم (ﷺ) جو فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو رہے ہیں تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ آج انتقام کا نہیں بلکہ معاف کرنے کا دن ہے-
یاد رکھیں! غیرت کی دو اقسام ہیں-ایک غیرت اپنے نفس کے لئے کی جاتی ہے اور دوسری غیرت اللہ تعالیٰ کے لئے کی جاتی ہے-نفس کی غیرت ہمیشہ جھگڑے و فساد پہ مائل کرتی ہے-اللہ کی غیرت ہمیشہ معاف کرنے اور بخشنے پہ مائل کرتی ہے-اس لئے ہمیں نفس کی غیرت کو ترک کر کے اللہ کی غیرت کو اختیار کرنا چاہیے-
حضرت ابن عمر(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِيَّاكُمْ وَالْفِتَنَ، فَإِنَّ اللِّسَانَ فِيْهَا مِثْلُ وَقْعِ السَّيْفِ‘‘[21]
’’فتنوں سے بچو کیونکہ ایسی صورت میں زبان تلوار سے بھی بد تر کردار ادا کرتی ہے‘‘-
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ‘‘[22]
’’اور ان کا فسادقتل سے سخت تر ہے‘‘-
لہٰذا اپنی شخصیت کواس قدر قوی بنائیں کہ اپنی زبان، اپنے ہاتھ، اپنے ارادے اور خیالات کو آسانی سے قابو میں رکھا جائے- کیونکہ اگر ارادہ بے قابو ہو جائے تو زبان، ہاتھ اور ہتھیار بے قابو ہو جاتے ہیں-ارادہ کو قابو کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ارادہ کو نفس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف رکھا جائے- اپنے ارادے کو اللہ کی طرف رکھنے کا طریقہ حضرت سلطان باھو (رح)یوں ارشاد فرماتے ہیں:
ی: یار یگانہ مِلسی تینوں جے سرْ دِی بازی لائیں ھو |
مرشد ما،سر پرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی یہی دعوت ہے کہ آئیں اس جماعت میں شامل ہو کر اولیاء اللہ کی روحانی تربیت کو حاصل کریں اور اپنے دل کو عشقِ الٰہی و محبتِ رسول (ﷺ) سے منور کر کے عوام الناس کے لئے سراپا رحمت بن جائیں-تاکہ ہمارا معاشرہ بے لوث و بے غرض محبت کا ایک گلستان بن جائے-
٭٭٭
[1](الفرقان:25-26)
[2](الفرقان:27-28)
[3](التوبہ:119)
[4](الفاتحہ:4)
[5](الفاتحہ:5)
[6](الفاتحہ:6)
[7](النحل:69)
[8](موطأ امام مالک، كِتَاب الْأَقْضِيَةِ)
(السنن الكبرى للبيهقي، كِتَابُ الْفَرائِضِ)
[9]( اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ)
[10](حاشیۃ الشہاب علی البیضاوی)
[11](القصص:7)
[12](النحل:68)
[13](تفسير أبی السعود، زیر آیت السجدہ:30)
[14](حم السجدہ:31)
[15](تفسير أبي السعود، زیر آیت السجدہ:31)
[16](سنن ترمذی ، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ)
[17](شرح العقيدة الطحاوية)
[18](مفاتيح الغيب، ج:21،ص:434)
[19](البقرۃ:259)
[20](النمل:34)
[21](سنن ابن ماجہ ، كِتَابُ الْفِتَنِ)
[22](البقرۃ:217)