اس وقت ہماری اخلاقی طور پہ دگر گوں حالت لمحہ فکریہ ہے ، جب کوئی قوم اخلاق سے عاری ہو جائے تووہ اپنے لیے تباہی کا بیچ خود ہی بو دیتی ہے- اخلاق کی بنیاد فرد کی تربیت پہ ہوتی ہے- مثلاً بزرگانِ دین کے کلام کو دیکھا جائے تو وہ قرآن کریم کے اخلاقی پہلو پہ بہت زیادہ توجہ کرتے ہیں اور بارہا ہمیں اخلاق اور اخلاقِ قرآنی کے تصور سے روشناس کرواتے ہیں-مولانا جلال الدین رومی (رح)فرماتے ہیں کہ :
آدمی مخفی است در زیرِ زبان |
’’آدمی اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہے -یہ زبان آدمی کی جان کا پردہ ہے‘‘-
یعنی پورا انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے-اس پہ معترض نے پوچھا کہ زبان تو تین یا چار انچ کی ہوتی ہے لیکن اتنا طویل قامت انسان تین انچ کی زبان کے پیچھے کیسے چھپ جاتا ہے ؟تو جواب دینے والے نے یہ تشبیہ سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ آپ کسی گھر کے قریب سے گزریں، یعنی اس میں کمرے ہوتے ہیں، صحن ہوتا ہے، باورچی خانہ ہوتا ہے، ایک طرف مال مویشی باندھنے کی جگہ ہوتی ہے، ایک طرف برآمدہ ہوتا ہے، دوسری طرف کئی ضرورت کی چیزیں ہوتی ہیں، گاڑی اور باقی چیزیں کھڑی کرنے کی جگہ ہوتی ہے غرضیکہ گھر اندر سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو لیکن جب تک اس کی ڈیوڑھی پہ پردہ لٹک رہا ہوتا ہے، آپ 100 مرتبہ بھی گزر جائیں آپ کو نظر نہیں آتا کہ گھر کے اندر کیا ہے اور گھر کتنا بڑا ہے- جیسے ہی پردہ ہٹتا ہے پورا گھر سامنے نمایاں ہو جاتاہے -اسی طرح بقول رومی ()انسان کی زبان دروازے کے پردے کی مثل ہے کہ جیسے پورے گھر کے مقابلے میں دروازے کا پردہ چھوٹا ہوتا ہے لیکن پورے گھر کو چھپا کے رکھتا ہے اسی طرح انسان کی زبان چھوٹی ہوتی ہے لیکن پورے انسان کو اپنے پیچھے چھپا کر رکھتی ہے-
شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں:
تا مرد سخن نگفته باشد |
’’جب تک بندہ کلام نہیں کرتا( اس وقت تک) اس کے عیب بھی اور اس کے ہنر بھی چھپے رہتے ہیں ‘‘-
یعنی جیسے ہی بندہ بولتا ہے اس کا ہنر بھی اور عیب بھی نمایاں ہو جاتے ہیں- رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ: انسان کا دل کٹلی (ہانڈی) کی مثل ہے اور زبان اس کٹلی کا ڈھکن ہے- جب تک کٹلی پہ ڈھکن رہتا ہے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کٹلی کے اندر کیا پک رہا تھا لیکن جیسے ہی ڈھکن ہٹتا ہے ہر شخص اُس کی خوشبو سے جان لیتا ہے کہ کٹلی کے اندر کیا پک رہا تھا- امام غزالی ()’’احیاء العلوم‘‘ میں یہ حدیث پاک نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:اسی طرح جب انسان کی زبان کھلتی ہے تو لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہے اس کے اندر کا انسان کیسا ہے-
گویا اخلاق کا پہلا قائدہ انسان کی زبان سے شروع ہوتا ہے کیونکہ پورا انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے- اگر زبان کی اصلاح ہو جائے اور زبان کو بے لگام کرنے کے بجائے اگر اخلاقِ مصطفےٰ (ﷺ) کے اخلاق کی لگام چڑھا دی جائے تو دنیا میں نفرتیں ختم ہو جاتی ہیں-
حضرت ابی موسی اشعری () سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’حُسْنُ الْخُلُقِ زِمَامٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ فِي أَنْفِ صَاحِبِهِ، والزِّمَامُ بِيَدِ الْمَلَكِ، وَالْمَلَكُ يَجُرُّهُ إِلَى الْخَيْرِ، وَالْخَيْرُ يَجُرُّهُ إِلَى الْجَنَّةِ وَسُوْءُ الْخُلُقِ زِمَامٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ فِي أَنْفِ صَاحِبِهِ، والزِّمَامُ بِيَدِ الشَّيْطَانِ، وَالشَّيْطَانُ يَجُرُّهُ إِلَى الشَّرِّ، وَالشَّرُّ يَجُرُّهُ إِلَى النَّارِ ‘‘[1]
’’حسن خلق بندے کے ناک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی نکیل ہے اور نکیل فرشتے کے ہاتھ میں ہےجو اسے بھلائی کی طرف لے جاتا ہے جب کہ بھلائی اسے جنت کی طرف لے جاتی ہے سوءِ خلق بندے کے ناک میں اللہ تعالیٰ کےعذاب کی نکیل ہے جب کہ نکیل شیطان کے ہاتھ میں ہےشیطان انسان کو برائی کی طرف کھینچتا ہےاور برائی اسے جہنم کی طرف کھینچتی ہے‘‘-
حضرت ابو ہریرہ (رض) سےر وایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا گیا کہ کونسے اعمال ہیں جو لوگوں کو بکثرت جنت میں لے جائیں گے آپ (ﷺ)نے فرمایا:
’’تَقْوَى اللهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَسُئِلَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ، فَقَالَ: «اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ ‘‘[2]
’’اللہ تعالیٰ کا خوف(تقویٰ) اور اچھے اخلاق اور ان چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جو زیادہ لوگوں کو جہنم میں لےجانے کا باعث ہیں تو آپ (ﷺ) نےفرمایا: منہ(زبان)اور شرم گاہ‘‘-
یعنی جس نے اپنی زبان اور شرمگاہ کو قابو کر لیا وہ جنت کا مستحق ہو گیااور جس نے دو چیزیں بے لگام کردیں اس نے اپنی جنت اور بخشش کے راستے مشکل کر دیئے-
|
زبان بنیاد ہے لیکن جو دوسری بات رسول اکرم (ﷺ) نے فرمائی وہ فی زمانہ اس سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے-کیونکہ اِس دور میں بے حیائی کا ہر راستہ کھل چکا، فحاشی کا ہر ذریعہ آسان ہو چکا، عورتوں اور مردوں کا فحاشی سے دور رہنا ناممکنات میں شامل ہوگیا ہے-اس لئے اس زمانے میں اگر کوئی نوجوان اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے اگر وہ ولی نہیں ہے تو وہ ولایت کے قریب تر کسی درجے پر فائز ہے-
رسول اللہ (ﷺ) نے آثارِ قیامت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قربِ قیامت ایک وقت آئے گا جب برائی، برائی اور بے حیائی، بے حیائی نہیں سمجھی جائے گی - سرِ عام بے حیائی اور بدکاری کا ارتکاب کیا جائے گا، لوگ چوراہوں میں گناہ کریں گے اور کوئی انہیں روکنے والا نہ ہوگا-
حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ:
’’لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰى لَا يَبْقٰى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ لِلهِ فِيْهِ حَاجَةٌ، وَحَتّٰى تُوْجَدَ الْمَرْأَةُ نَهَارًا جِهَارًا تُنْكَحُ وَسْطَ الطَّرِيْقِ، لَا يُنْكِرُ ذٰلِكَ أَحَدٌ، وَلَا يُغَيِّرَهُ، فَيَكُوْنُ أَمْثَلَهُمْ يَوْمَئِذٍ الَّذِيْ يَقُوْلُ لَوْ نَحَّيْتَهَا عَنِ الطَّرِيْقِ قَلِيْلًا فَذَاكَ فِيْهِمْ مِثْلُ أَبِيْ بَكْرٍ وَ عُمَرَ فِيْكُمْ‘‘[3]
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اللہ کی رضا چاہنے والا ایک بھی بندہ موجود ہوگا-اور یہاں تک کہ عورت دن دہاڑے بیچ چوراہے میں زنا کروائے گی-اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہوگا-بلکہ اس کو کوئی برا جاننے والا بھی نہیں ہوگابلکہ جو بہت نیک ہوگا وہ ان کو صرف اتنا کہے گا کہ تمہیں راستے سے ہٹ کر ایک طرف ہوکر یہ کام کرنا چاہیے تھا اور اس زمانے میں اتنی بات کہنے کی جرأت کرنے والا شخص ایسا ہی ہوگا (پارسا سمجھا جائے گا ) جیسے آج تمہارے درمیان ابو بکر اور عمر (رض) ہیں‘‘-
اندازہ لگائیں! اگر ہم اُس زمانے میں نہیں ہیں تو ہم اس زمانے کے قریب تر کسی جگہ پہنچ چکے ہیں کیونکہ ہمارے درمیان برائی کو برائی کہنے اور غلط کو غلط کہنے کی روایت مفقود ہوتی جا رہی ہے- ہم ایمان کے کمزور ترین درجے سے بھی نیچے جا رہے ہیں کیونکہ ہم نے برائی کو بطور اپنی معاشرت کے قبول کر لیا ہے- آج سے چند عرصہ قبل جن باتوں کا ہماری معاشرت میں وجود نہ تھا آج وہ قبولِ عام کا رتبہ پا چکی ہیں-
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومنون میں زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کو ملا کر مومن کی نشانی کے طور پہ بیان فرمایا ہے-ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
’’قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَلا الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ لا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَلا وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ لا‘‘[4]
’’بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے-جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے -اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں -اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘-
جیسے رسول اللہ (ﷺ) نے ان دونوں باتوں کو ملا کے بیان فرمایا کہ جو زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دیتا ہے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں-اسی طرح اللہ نے ان دو باتوں کو ملا کے سورۃ المومنون میں مومن کی علامت کے طور پہ بیان کیا ہے-
بدکاری اوربے حیائی سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
|
بدکاری سے نجات کا راستہ رسول اللہ (ﷺ)کی سیرتِ مبارکہ کے فیض سے پایا جا سکتا ہے-جیسا کہ صحابہ کرام (رض) نے پایا اور ہمیں بتایا کہ رسول اللہ (ﷺ) جب راستے میں چلتے تو اپنی نگاہیں جھکا کے چلتے-
ہر ذی شعور یہ ادراک رکھتا ہے کہ بے حیائی اور بدکاری کا راستہ آنکھوں سے کھلتا ہے- اگر آنکھ بھٹکنے اور بہکنے سے بچا لی جائے تو انسان اپنا نفس بہکنے سے بچا لیتا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ ‘‘[5]
’’ مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں -یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے‘‘-
پھر اس سے اگلی آیت میں ارشاد فرمایا:
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ
’’اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں ‘‘-
گویا مومن اپنی زبان، اپنی نگاہ، اپنے رکھ رکھاؤ اور اپنے اخلاق اورکردار سے پہنچانا جاتا ہے -اگر وہ اخلاق کوسیکھنے اور اسے اختیار کرنے میں نا کام ہےتو وہ شخص ایمان کو اختیار کرنے میں ناکام ہے-
حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ إِيْمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا ‘‘[6]
’’مؤمنین میں کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ‘‘-
حضرت ابودردا () سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’مَا شَىْءٌ أَثْقَلُ فِى الْمِيْزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ‘‘[7]
’’قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی‘‘-
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ () نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ :
’’إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ‘‘[8]
’’بے شک مومن حُسنِ اخلاق کے ذریعے دن کو روزے رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے‘‘-
حضرت کعب بن مالک () سے روایت ہے کہ بنی سلمہ کے ایک آدمی نے رسول اللہ (ﷺ) سے اسلام کے بارے میں پوچھاتو حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’حُسْنُ الْخُلُقِ اچھا اخلاق‘‘
اس آدمی نے پھر آپ (ﷺ) سے گزارش کی
’’فَلَمْ يَزَلْ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) يَقُوْلُ: حُسْنُ الْخُلُقِ حَتّٰى بَلَغَ خَمْسَ مَرَّاتٍ ‘‘[9]
’’تو آپ (ﷺ) لگاتار یہی ارشاد فرماتے رہے کہ حسن خلق -حتی کہ آپ (ﷺ) نے یہ جواب 5 دفعہ دیا‘‘-
حضرت جابر ()سے روایت ہےکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’بیشک تم سب میں سےمجھے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرےسب سے قریب وہ لوگ ہوں گےجن کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں گے ‘‘-[10]
حضرت جابر بن سمرہ () سے روایت ہے کہ آپ(ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ :
’’إِنَّ الْفُحْشَ، وَالتَّفَحُّشَ لَيْسَا مِنَ الْإِسْلَامِ فِي شَيْءٍ، وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إِسْلَامًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا ‘‘[11]
’’بیشک بد زبانی اور فحش گوئی کا اسلام سے ذرہ برابربھی تعلق نہیں اور اسلام کے اچھے وہ ہیں جو اخلاق کے اچھے ہوں ‘‘-
حضرت معاذ بن جبل ()فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے جب مجھے یمن روانہ فرمایا تو اس وقت آقا کریم (ﷺ) نے مجھے آخری وصیت یہ فرمائی تھی کہ :
’’أَحْسِنْ خُلُقَكَ لِلنَّاسِ يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ ‘‘[12]
اے معاذ! اپنے اخلاق کو لوگوں کیلئے اچھا بناؤ-
شیخ سعدی () فرماتے ہیں:
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است |
’’بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے-اصل میں تو جوانی کے وقت توبہ اور پرہیزگاری نیکوں کا شیوہ ہے‘‘-
یعنی جوانی میں اپنی نگاہ، زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرو کیونکہ جوانی میں اپنے دامن کو گناہوں سے محفوظ رکھنا یہ انبیاء کرام ()کا شیوہ ہے- اس لئے کامل اور عظیم وہ شخص ہے جس نے اپنی جوانی کی حفاظت کی-بقول علامہ اقبال ():
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا |
یہ وہ بنیادی اخلاق ہے جو ہمارے آباء واجداد نے ہمیں سیکھایا- ہم جس نبیِ رحمت (ﷺ) کا کلمہ پڑھتے ہیں ، جن کی صفات کی کوئی مثل اور نظیر نہیں ملتی ان صفات میں اعلیٰ ترین صفت آپ (ﷺ) کااخلاق ہے-آئمہ کرام ()نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق کو آپ کے معجزات میں شمار کیا ہے- معجزہ اسے کہتے ہیں کہ جو چیز عقل کو عاجز کر دے اور رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے اخلاقِ مبارک سے لوگوں کی عقل کو عاجز کر دیا کہ کیا ایک انسان ہماری طرح ان بستیوں، علاقوں اور اس معاشرے میں رہتے ہوئے، ہماری زبان بولتے ہوئے اور ہمارے قبائل کا حصہ ہوتے ہوئے اتنا بلند اخلاق ہو سکتا ہے کہ وہ اس زمین کا حکمران بن جائے اور بغیر تلوار اٹھائے اپنے اخلاق عالیہ سے پورے پورے شہر فتح کرتا چلا جائے-
حضورنبی کریم (ﷺ) کی سیرت مبارک میں تین شہروں کی فتح کو غور سے پڑھا جائے تو وہ انسان کی فکر اور کردار کو بدل کر رکھ دیتی ہے-وہ تین فتوحات، فتحِ حبشہ، فتحِ مدینہ اور فتحِ مکہ ہیں -ان فتوحات کا مطالعہ انسان کو ایک نئی بصیرت عطا کرتا ہے-
فتحِ حبشہ تو کمال تاریخ ساز واقعہ ہے کہ پناہ گزین و مہاجرین کی مختصر جماعت نے صداقتِ اسلام کے عَلَم گاڑ دیئے فتحِ مدینہ کو دیکھیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو فتحِ مدینہ میں انصار نے رسول اللہ (ﷺ) کی مدد کی- یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ انصار کو کس چیز نے آقا کریم (ﷺ) کی مدد اور خدمت کرنے پہ مجبور کیا؟ حالانکہ نہ تلواریں تھامیں گئیں، نہ گھوڑوں کے لشکر سر پٹ دوڑائے گئے اور نہ ہی تیروں کی برسات سے وہاں کے لوگوں پہ دہشت طاری کی گئی-گویا مدینہ رسول اللہ (ﷺ) کے اعلیٰ اخلاق اور تبلیغ سے فتح ہوا-آپ (ﷺ) نے فریضہ ٔتبلیغ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بعد اپنے اعلیٰ اخلاق سے انجام دیا-
جب رسول اللہ (ﷺ)کے سلام کے لیے مسجدِ نبوی (ﷺ) میں جائیں تو باب السلام سے داخل ہوتے ہوئے ہی کے بائیں طرف ریاض الجنہ کا حصہ ہے- ریاض الجنہ کی دیوار پہ جگہ جگہ دروازے ہیں اور ان میں فضائلِ مدینہ اور فضائلِ ریاض الجنہ کی احادیث موجود ہیں- اس سے آگے حُجرۂ رسول (ﷺ)آجاتا ہے- حُجرۂ شریفہ پہ سورۃ الحجرات کی وہ آیات درج ہیں جن میں رسول اللہ (ﷺ)کے ادب و تعظیم کے متعلق احکامات ہیں-وہاں یہ آیت مبارک درج ہے:
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘[13]
’’اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ‘‘-
حجرہ مبارک کے قدمین شریف کی طرف امام عبد اللہ حداد الیمانی ایک شعر لکھا ہوا ہے کہ :
نبیٌّ عظیمٌ خُلُقُهٗ خُلُقُهٗ الذِّیْ |
’’ میرا عظیم نبی جس کا عظیم اخلاق اتنا عظیم ہے کہ اس کی عظمت اللہ نے اپنی آخری کتاب میں بیان فرمائی‘‘-
جب بھی کوئی حضور نبی کریم (ﷺ) کے سلام کے لئے حاضر ہوتا ہے تو حاضری سے واپسی کے وقت اس کی نظر اس شعر پہ جاتی ہے جس سے اس کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ یہ اخلاق محض آقا کریم (ﷺ) کی فضیلت نہیں ہے بلکہ ان کے اخلاق کو اللہ تعالیٰ نے ان کا معجزہ بنایا ہے اور میں اس کا کلمہ پڑھتا ہوں-اس لئے جہاں مومن پہ لازم ہے کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کی سنت اور شریعت سے فیض پائے، رسول اللہ (ﷺ) کی احادیثِ مبارکہ سے اپنے ظاہر اور باطن کو معطر اور منور کرے، رسولِ اللہ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی پہ درود و سلام کا نذرانہ بھیج کے حضور نبی کریم(ﷺ) کی رحمت کی خیرات پائے، وہاں مومن پر یہ بھی لازم ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاقِ عالیہ سے خیرات پائے- کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) کا اخلاق سب سے بلند ہے اور آپ کو لوگوں کے لئے معلمِ اخلاق بناکر مبعوث کیا گیا ہے-
حضرت ابو ہریرہ () سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ‘‘[14]
’’بے شک میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘-
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ‘‘[15]
’’بے شک میں اخلاق کی درستگی کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘-
حضرت ابو ہریرہ (رض)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت سلمان فارسی () کو وصیت کر نے کیلئے بلایا اور ارشاد فرمایا :
’’اے سلمان اللہ کا رسول تمہیں کچھ ایسے کلمات دینا چاہتا ہے جن کے ذریعے تم اللہ سے سوال کرو:
’’وَ تَرْغَبُ إِلَيْهِ فِيْهِنَّ، وَتَدْعُوْ بِهِنَّ فِي اللَّيْلِ وَ النَّهَارِ، قُلْ: اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ صِحَّةً فِيْ إِيْمَانٍ، وَ إِيْمَانًا فِيْ حُسْنِ خُلُقٍ، وَنَجَاحًا يَتْبَعُهُ فَلَاحٌ وَ رَحْمَةً مِنْكَ وَعَافِيَةً وَمَغْفِرَةً مِنْكَ وَرِضْوَانًا‘‘[16]
’’اور ان کے ذریعے سےتم اللہ کی طرف رغبت کرو اور ان کے ساتھ دن اور رات میں دعائیں مانگو (یوں) کہو: اے اللہ میں تجھ سے ایمان میں صحت اور اچھے اخلاق کے ساتھ ایمان کا سوال کرتا ہوں اور ایسی کامیابی مانگتا ہوں جس کے پیچھے فلاح ہواور تیری رحمت، عافیت، مغفرت اور تیری خوشنودی مانگتا ہوں‘‘-
مولانا جلال الدین روم(رح) فرماتے ہیں:
بر سماعِ راست ہر کس چیر نیست |
’’سچی بات سننے پر ہر شخص قادر نہیں ہے- انجیر، ہر حقیر پرندے کی خوراک نہیں ہے‘‘-
|
یعنی بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کو ہر ایک قبول نہیں کرتا- ہر انسان کا نصیب نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق سے فیض پائے- لیکن جو رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق سے فیض پاتا ہے وہ اُس پرندے کی مانند ہے اللہ نے جس کا رزق انجیر بنا دیا ہے- ایمان بھی رزق سے تقویت پاتا ہے جیسے بدن رزق سے تقویت پاتا ہے- ایمان کا رزق بدن کے رزق سے مختلف ہے- رسول اللہ (ﷺ)کی سنت و شریعت،آپ(ﷺ) پہ نازل ہونے والی کتاب پر عمل کرنا، اس کی تلاوت کرنا، اس کے پیغام کا ابلاغ کرنا اور رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق پر گامزنِ عمل ہونا ایمان کا رزق ہے-
آقا کریم (ﷺ) کے اخلاق کو اپنانا ہمارے ظاہر کے ساتھ ساتھ ہمارے باطن کو بھی سنوارتا ہے- اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی بھی یہی دعوت ہے کہ ہمیں اپنے ظاہراورباطن، اپنی زبان، آنکھوں اور سماعت میں، اپنے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت میں طہارت اور تزکیہ کی ضرورت ہے اور اُس کا راستہ رسول اللہ (ﷺ) کی محبت، حضور (ﷺ) کی غلامی اور اللہ رب العزت کی صحیح بندگی کرنا ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو عمر اور جوانی عطا فرمائی ہے اسے برباد نہ ہونے دیں-اس سے پہلے کہ ہم خاک میں جذب ہو جائیں ہم خود کو رسول اللہ (ﷺ) کی محبت سے معطر اور منوّر کر لیں-
مومن دو طرح کے ہیں-ایک مومن وہ ہے جو بغیر ملامت کے،آرام اور آسانی سے دین پر عمل پیرا ہوتا ہے -دوسرا وہ مومن ہےجو ملامت اور مشقت برداشت کر کے دین پر عمل پیرا ہوتا ہے-ان دونوں مومنوں میں وہ مومن اعلیٰ ہے جو ملامت برداشت کرتا ہے، طعن و تشنیع کے نشتر کھاتا ہے-
ہم کلمہ گو مسلمان ہیں، ’’لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرنے والے،’’اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ‘‘ رسول اللہ کی گواہی دینے والے ہیں -لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیے! کہ اگر کوئی ہم میں سے دین کا راستہ اختیار کرے ہم اس کو طعن و تشنیع اور ملامت کا نشانہ بناتے ہیں-
لمحہ فکریہ ہے ! اپنے اردگرد کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آج ہم میں سے کتنے نوجوان ہیں جو میٹرک اور ایف ایس سی میں 85 فیصد نمبر لیتے ہیں اور وہ خود کو دین کی تعلیم اور تبلیغ میں وقف کرتے ہیں؟؟؟
آج نوجوان اپنے لیے انجنیئر، ڈاکٹر ،وکیل،سول افسر، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے پیشہ کو اختیار کرنا با عزت سمجھتے ہیں- لیکن یاد رکھیں!ہم اپنے بچوں کے نام حسن ، حسین ، ابو بکر،عمر، عثمان، علی، حیدر، مرتضیٰ، طلحٰہ،سعد، خالد ،عبد الرحمٰن ، عبدالقادر ، جنید ، فخرالدین اور اس طرح کے دیگر نام رکھتے ہیں تو یہ سارے نام ان لوگوں کے ہیں جن کے سینے علمِ دین سے منور و روشن تھے- جہاں جن بچوں کو ہم یہ پیارے نام دے کر سمجھتے ہیں کہ اِن کے کردار میں اُن کے کردار کی جھلک آجائے گی تو وہاں ہم یہ تمنا کیوں نہیں کرتے کہ اِن کے سینے اُن کے علم سے منور ہو جائیں-
رسول اللہ (ﷺ) کا ہر کلمہ گو رسول اللہ (ﷺ) کی کی سنت و شریعت کا وارث ہے، دین اسلام کا وارث ہونا ہے-اس لئے ہم پر لازم ہے کہ جہاں اپنے بچوں کے ذہن میں ڈاکٹر، انجینیٔر ہونا باعزت باوقار پیشہ سمجھ کے ڈالتے ہیں وہیں اِن کے ذہن میں یہ بھی ڈالیےکہ غزالی،رازی،ابو حنیفہ، مالک،شافعی،احمد ابن حنبل، عبدالقادر جیلانی،سُلطان باھُو، محی الدین ابن عربی، معین الدین اجمیری،فریدالدین عطار، جلال الدین رومی، ابوالحسن اشعری، ابوجعفر الطحطاوی اور اپنے اسلاف کا وارث ہونا بھی ہمارے لیے باعث عزت و شرف ہے-
غور و فکر کریں! اگر آپ کی عقل اور آپ کا شعور اور علم اس بات کو قبول کرے تو اس راستے کو اختیار کریں- زمانہ بہت سخت ہے، ملامت میں دین کو زندہ رکھنے والا راحت میں دین کو زندہ رکھنے والے سے بہتر درجے پر فائز ہے- اصلاحی جماعت یہی دعوت دیتی ہے کہ آپ کچھ وقت نکالیں اصلاحی جماعت کے مبلغین کے ساتھ اس تربیت اور اخلاق کو عملاً سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں- اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین!
٭٭٭
[1]( شعب الإيمان للبیہقی)
[2](سنن الترمذي، أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ)، ( صحيح ابن حبان، كِتَابُ الْبِرِّ وَالْإِحْسَانِ)
[3]( المستدرك على الصحيحين ،كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ)
[4](المؤمنون:1-5)
[5](النور:30)
[6](سُنن الترمذي، أَبْوَابُ الرَّضَاعِ / سنن أبي داود ، كِتَاب السُّنَّةِ/ شعب الإيمان)
[7](سنن أبى داود ، کتاب الادب /سنن الترمذی ، ابواب البر والصلة)
[8](سُنن أبي داود ، كِتَاب الْأَدَبِ)
[9](شعب الإيمان /تفسیر درمنثور)
[10]( سنن ترمذی ، أَبْوَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ / اَلتَّرْغِيْبُ وَالتَّرْهِيْبِ، كتاب الأدب)
[11]( الترغيب والترهيب ، كتاب الأدب / مسند أبي يعلى / مصنف ابن ابی شیبہ)
[12]( الترغيب والترهيب ، كتاب الأدب / مؤطا امام مالک ، كِتَابُ حُسْنِ الْخَلُقِ)
[13](الحجرات:2)
[14](الفوائد ازعلامہ أبو القاسم تمام الدمشقی/ مسند الشِهَاب از امام أبو عبد الله القضاعي المصری/ السنن الكبرى للبیہقی)
[15](اَلْأدَبُ الْمُفْرَد للبخاری/ مسند احمد بن حنبل / مصنف ابن ابی شیبہ / الجامع لابن وهب)
[16](المعجم الأوسط للطبرانی / الدعوات الكبير للبیہقی/ المستدرك على الصحيحين ، كِتَابُ الدُّعَاءِ)