﴿گزشتہ سے پیوستہ﴾
﴿۴﴾ ’’تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‘‘- آیت کا یہی حکم وہ مرکزی نکتہ ہے جس کے گرد سابقہ احکامات بھی گردش کر رہے ہیں اور بعد والے بھی- اس آیت کے اشارۃ النص سے ظاہر ہے کہ یتیم کا مال کفیل کے پاس بطورِ امانت تھا اور امانت میں خیانت شرعی طور پر ممنوع ہے- قرآن پاک کی سورۃ النسائ میں حکم ہے کہ ﴿اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا﴾ ﴿آیت:۸۵﴾ کہ امانتوں کو ان کے مالکوں کے سپرد کر دو- جب وہ زیرِ کفالت یتیم سنِ بلوغت اور معاشی شعور کی منازل تک پہنچ جائیں گے تو اس امانت کی سپردگی کا وقت بھی طریقۂ خودکار سے آن پہنچے گا اور مال کو اس یتیم مالک کے حوالے کر دیا جائے گا- یہاں ﴿فَادْفَعُوْا﴾ کا لفظ اس بات کی علامت ہے کہ مال پورے کا پورا اس یتیم کے حوالے کیا جائے گا نہ کہ قسطوں کی صورت میں تاکہ وہ اپنے مکمل مال و دولت سے پوری طرح استفادہ کر سکے اور اپنی شروع ہونے والی نئی زندگی کو احسن طریقے سے گزارنے کا اہتمام کر سکے اگر ایسا نہ کیا گیا تو بلوغت کو پہنچنے والا وہ یتیم محرمیوں کا شکار ہو کر معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن جائے گا جیسا کہ آجکل اس کا مشاہدہ باین طور کیا جا سکتا ہے کہ معاشرتی محرومی اور معاشی ناہمواری رکھنے والے افراد ہی بآسانی تخریب کاروں کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں- اس لیے دہشت گردی کے ناسور سے دائمی نجات کے لیے ہمیں اپنے ارد گرد سے معاشرتی محرومیوں اور معاشی نا ہمواریوں کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا -
﴿۵﴾ ’’اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں ﴿اس اندیشے سے﴾ نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو ﴿کر واپس لے﴾ جائیں گے ‘‘- یہ حکم بھی چوتھے حکم کی توضیح کے طور پر آیا ہے اور اس میں یتیم کی کفالت کرنے والے کی ایک نفسیاتی کیفیت کو عیاں کیا گیا ہے- چونکہ کفیل کو یتیم کے مال سے یتیم کی کفالت اور پرورش کرنے کی اجازت ہے لیکن اس حکم کے ذریعے اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھانے سے روک دیا گیا ہے کہ کہیں تمہاری نیت میں اگر کوئی کھوٹ وغیرہ ہو کہ اتنا مال یتیم کے بالغ ہونے کی صورت میں اسے نہ ملے لہٰذا اسے بے دریغ خرچ کر دیا جائے اور بعد میں کہا جائے کہ یہ سب تو اسی یتیم پر ہی خرچ ہو گیا تو یہ بھی اس کے مال اور امانت کو ضائع کرنے والی بات ہوگی- فضول خرچی تو اللہ تعالیٰ کو ویسے ہی نا پسند ہے اور وہ فرماتا ہے کہ ﴿لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہ، لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ﴾ ﴿الانعام: ۱۴۱﴾ کہ فضول خرچی نہ کرو وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا- جسے اللہ پسند نہ کرے وہ معاشرے کا بدبخت انسان ہی ہو سکتا ہے اس کی فضول خرچی نا جانے کتنے دلوں میں حسرت کی آگ پیدا کر دیتی ہے لہٰذا ایسی بے برکت خوشی کا کیا فائدہ جس میں کئی دلوں کو جلا دیا جائے -
﴿۶﴾ ’’اور جو کوئی خوشحال ہو وہ ﴿مالِ یتیم سے﴾ بالکل بچا رہے ‘‘ - یہ حکم اس کفیل کے لیے ہے جو صاحبِ ثروت ہو اور اپنی اور یتیم کی ضروریات اپنے مال سے پوری کر سکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ یتیم کے مال میں سے بالکل نہ کھائے- اسلام کے نظامِ زکوۃ سے عیاں ہے کہ امرائ کے مال میں غربائ کا بھی حصہ ہوتا ہے لہٰذا جو لوگ زکوۃ نہیں دیتے وہ در اصل غربائ کا ہی حصہ کھا رہے ہوتے ہیں- مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو غربائ کو اپنے در کی چوکھٹ سے گزرنے نہیں دیتے وہ بے دھڑک ہو کر انہی غربائ کے مال کا حصہ کس طرح کھا جاتے ہیں- جو غربائ و مساکین کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں انہیں ان کا حصہ کھاتے ہوئے قے کیوں نہیں آتی- اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی محنت کی کمائی ہے تو یاد رکھیں اس کمائی میں غریب مزدوروں کا پسینہ بھی اتنا ہی شامل ہوتا جتنا ان غریبوں کو دیکھ کر ان امرائ کے ماتھوں پر پسینہ آ جاتا ہے-
﴿۷﴾ ’’اور جو ﴿خود﴾ نادار ہو اسے ﴿صرف﴾ مناسب حد تک کھانا چاہئے ‘‘- اس ساتویں حکم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ اگر یتیم کی کفالت کرنے والا خود بھی غریب ہو تو وہ یتیم کے مال سے اپنے اخراجات نکال سکتا ہے لیکن صرف ضرورت کی حد تک جس کا سب سے بڑا گواہ سب سے بڑی قوتِ بصارت کا مالک اور جہان کو نعمتِ بصارت سے نوازنے والا پروردگار ہے جو بھی کفیل ہو وہ یہ ذہن نشین رکھے کہ دائیں بائیں دو پہریدار موجود رہتے ہیں جو ہر چیز کو لکھ لیتے ہیں - اگر وہ کفیل ضرورت سے زائد استعمال کرے گا تو اس پر اس آیت کا پانچواں حکم نافذ ہو جائے گا- اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان اور انسانی معاشرے کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرتا اِس لئے کہ دینِ اِسلام ذاتی یا نجی معاملہ نہیں بلکہ ایک ابدی و آفاقی دستورِ زندگی ہے - اس کی ایک مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ و السلام کے عہد میں کسی نے از راہِ تمسخر صحابہ کرام سے پوچھا کہ تمہارے ہر کام میں تمہارے خدا یا تمہارے نبی کا کوئی نہ کوئی حکم آجاتا ہے تو کیا پیشاب کے لیے بھی کوئی احکامات ہیں؟ تو صحابہ کرام نے بڑے فخریہ انداز میں اس شخص کو جواب دیا کہ جی بالکل ہمیں قضائے حاجت کرنے کے بھی آداب سکھائے گئے ہیں- جو اسلام اس حد تک اپنے ماننے والوں کو ادب و آداب کا پابند بناتا ہے اس میں دوسرے انسانوں یا حتی کہ جانوروں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے کی گنجائش کہاں سے آسکتی ہے یہ تو پھر یتیموں کا معاملہ ہے- اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ؛
﴿ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ﴾ ﴿النسا : ۷۲۱﴾
’’یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو ‘‘-
انصاف کرنے کا تو عمومی حکم بھی ہے لیکن یتیموں کے معاملے میں انصاف کی بالخصوص تاکید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حکم کی نافرمانی کی گرفت بھی سخت ہوگی-
﴿۸﴾ ’’اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو‘‘- لین دین کے معاملات میں گواہ بنانے کا حکم صرف یتیموں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی لین دین کی بات فرمائی ہے وہاں گواہ بنانے کا حکم بڑی تاکید سے فرمایا ہے کیونکہ مال و دولت کے لین دین کا معاملہ اتنا نازک ہوتا ہے جس میں اگر ذرا سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں تو بڑی بڑی پرانی سنگتیں اور دوستیاں ختم ہو جاتی ہیں- اسی لین دین کے معاملے میں دراڑ پڑنے سے کئی رشتہ داریاں ، برادریاں ملیا میٹ ہو جاتی ہیں- اس معاملے میں ذرا سی کوتاہی سے کئی لوگ بڑے بڑے خمیازے بھگت چکے ہیں- آج کے زمانے میں اس گواہ بنانے کی سب سے بہترین صورت نظامِ بنکاری ہے کہ یتیم کے عاقل بالغ ہونے کی صورت میں بذریعہ بنک ہی اسے مال سپرد کیا جائے تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے- لیکن اگر بنک کے ذریعے ممکن نہ ہو تو معتبر لوگ اس میں گواہ بنا لئے جائیں یا اشٹام پیپرز پر گواہان کی تحریریں بھی گواہی کا کام دے سکتی ہیں-
﴿۹﴾ ’’اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے‘‘- یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تم اس کے احکامات سے رو گردانی کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کا حساب خود لے گا- چاہے تو وہ اِسی دنیا میں ہی حساب لے چاہے آخرت میں یا دنیا و آخرت دونوں میں حساب لے یہ اس کا اپنا اختیار ہے- دوسری جانب اس یتیم کو بھی تسلی دی جارہی ہے کہ اگر اس کے ساتھ زیادتی ہو تو اسے غصہ میں آکر بغاوت نہیں کرنی چاہیے اور کوئی غلط قدم نہیں اٹھانا چاہیے بلکہ اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے صبر کا دامن تھامنا چاہیے پھر وہ جانے اور زیادتی کرنے والا جانے- اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرہ میں عدل برقرار رکھنے کے لیے حساب کتاب کا تصور دیا ہے اور اس حد تک دیا ہے کہ اگر دنیا میں کسی سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری کو ٹکر ماری ہوگی تو قیامت کے روز بغیر سینگ والی بکری کو سینگ عطا کر کے حکم ہوگا کہ اس بکری کو اسی طرح ٹکر مارو جس طرح اس نے تمہیں دنیا میں مارا تھا- جب وہ حساب لینے والی ذات اس حد تک حساب لے گی تو یتیم سے زیادتی کرنے والے کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں کہ کہیں وہ اس قدرت والے محاسب کی گرفت میں نہ آجائے-
﴿۰۱﴾ اِیفائے عِہد کا حُکم:-
دسواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا
﴿وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً﴾﴿الاسرائ: ۴۳﴾
’’ اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہو گی‘‘-
بے شک وعدوں کے متعلق اللہ کی بارگاہ میں پوچھا جائے گا، وعدوں کے متعلق تم سے حساب لیا جائے گا اور وہ وعدہ کون سا وعدہ ہے؟ وعدوں سے وفا کرنا جو وعدہ ہم دورانِ بیعت کرتے ہیں، ہم کسی عہدے یا کسی منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے جو وعدہ کرتے ہیں ،ہم اپنے دین سے جو وعدہ کرتے ہیں، اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا وعدہ جو ہم اپنے دستور میں ، قرادادِ مقاصد میں کیا ہے اور رسول پاک ﷺ کی اتباع کا وعدہ جو ہم نے بطورایک مسلمان کے کیا ہے اور اللہ کی توحید کا وعدہ جس کی گواہی ہم نے دی اورنبی ﷺ کی رسالت کا وعدہ اور آپ کی ختمِ نبوت کا وعدہ جس پہ ہم ایمان لائے اور ہم مسلمان کہلائے- ان وعدوں سے وفا ہمارے اوپر لازم ہے- جو قوم وعدے توڑتی ہے، جس قوم کی مقننہ کے اراکین اپنے عہد کی پاسداری نہ کریں، اپنے عہد سے وفا نہ کریں، جس کے بڑے بڑے مناصب ،جس کے بڑے بڑے عہدوں پہ بیٹھے ہوئے لوگ اپنے عہد کو ،اپنے پیمان کو ،اپنے حلف کو توڑ کے کرپشن اور بد عنوانی میں ملوث ہوجائیں ، اس معاشرے پہ ، اس قوم پہ زوال نہیں آئے گا تو اور کیا ہوگا - ایک وعدہ اور بھی ہے ﴿وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ ﴾ یعنی جو وعدہ اُس کی بارگاہ میں تم یومِ ازل کر چکے ہو جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صُوفیا نے کئی کتب تصنیف فرمائیں ، جس کا آج موضوع نہیں لیکن اُس کی پاسداری کی فکر بھی ہم پہ لازِم ہے آپ کے ذوق کی تسکین کیلئے عرض کردوں کہ :
بھول گئے تم کر کے وعدہ سامنے محبوب کے
عالمِ لاہُوت کا وعدہ پرانا یاد کر
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتیس ﴿۲۳﴾ مرتبہ ’’عہد‘‘ کا مختلف حوالوں سے ذکر فرمایا ہے- یہاں عہد سے ہر طرح کا جائز عہد مراد ہے چاہے وہ یتیم کے ساتھ کیا ہوا عہد ہو، چاہیے خرید و فروخت ، اجرت مزدوری، کرایہ کے لین دین میں کیا گیا معاہدہ ہو ، چاہے دو فریقین کے درمیان صلح کا عہد نامہ ہو ، چاہے اپنے ملک کے بنائے ہوئے قوانین کی پاسداری کا وعدہ ہو یا چاہے اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری، اطاعت، تقویٰ ، پرہیزگاری کا وعدہ ہو اور شرک نہ کرنے، گناہ میں مبتلا نہ ہونے ، کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرنے ، کسی کو ناحق قتل نہ کرنے اور کسی کو بلاوجہ نہ ستانے کا اقرار ہو اللہ تعالیٰ ہر طرح کے عہد توڑنے والے کے بارے میں مواخذہ فرمائے گا- تفسیر ’’ابن ابی حاتم‘‘ اور تفسیر ’’در منثور‘‘ میں اسی آیت کے تحت ایک روایت حضرت کعب الاحبار کے حوالے سے درج ہے کہ فرمایا؛
﴿مَنْ نَکَثَ بَیْعَۃً کَانَتْ سَتْرًا بَیْنَہ، وَ بَیْنَ الْجَنَّۃِ﴾
’’کسی نے اپنی خریداری﴿خرید و فروخت یا کسی قسم﴾ کے معاہدہ کو توڑ دیا تو یہ اس کے اور جنت کے درمیان پردہ بن جائے گا ‘‘-
اب بزنس تو انسان کا ذاتی معاملہ ﴿Personal Matter﴾ بھی ہو سکتا ہے لیکن ذاتی معاملات میں بھی وعدہ خلافی آپ کو اُخروی فلاح و نجات سے محروم رکھ رہی ہے- مزید فرمایا کہ
﴿وَاِنَّمَا تَھْلِکُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃُ بِنَکْثِھَا عُھُوْدَھَا﴾
’’یہ امت اپنے وعدوں کو توڑنے کی وجہ سے ہلاک ہوگی‘‘-
آپ امتِ مسلمہ کے ایک ایک ملک کا جائزہ لیں کہ آپس میں یا دیگر ممالک سے تجارت و تعلیم ، بزنس، تحقیق اور دیگر مشترکہ مفادات کے کتنے معاہدے ہوتے ہیں ان میں سے کتنے پورے ہوتے ہیں؟ ہمارے اربابِ سیاست اپنے قوم سے کتنے وعدے کرتے ہیں وہ کتنے پورے ہوتے ہیں؟ کسی سے امداد کا وعدہ کر لینا، کسی کو تعلیم دلانے کا وعدہ کر لینا، کسی بیٹی کو جہیز دینے کا وعدہ کر لینا، کسی ہنر مند اور صلاحیت یافتہ کو اس کے معیار کے مطابق بر سرِ روزگار کرنے کا وعدہ کر لینا تو ہم کتنے وعدے نبھاتے ہیں- ہماری پستی اور ذِلّت کی حالت تو یہ ہو چکی ہے کہ مسلمان قوم کی پہچان ہی وعدہ توڑنے والی قوم کے طور پر مشہور ہوگئی ہے- کیا یہی ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقِ کار تھا جس پر ہم چل رہے ہیںجن کی محبت اور عشق کا ہم دم بھرتے ہیں ؟ حالانکہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عہدِ جاہلیت میں نزولِ وحی سے قبل بھی کبھی وعدہ خلافی نہیں فرمائی- آپ کے ایفائے عہد کا ایک سبق آموز منظر ملاحظہ فرمائیں اور اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیں کہ ہماری رسول اللہ سے کیا نسبت رہ گئی ہے-
﴿عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِی الْحَمْسَآئِ، قَالَ: بَایَعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِبَیْعٍ قَبْلَ اَنْ یُبْعَثَ وَ بَقِیَتْ لَہ، بَقِیَّۃٌ فَوَعَدْتُہ، اَنْ اٰتِیَہ، بِھَا فِیْ مَکَانِہٰ ، فَنَسِیْتُ ، ثُمَّ ذَکَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ، فَجِئْتُ فَاِذَا ھُوَ فِیْ مَکَانِہٰ، فَقَالَ: یَا فَتًی لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَیَّ، اَنَا ھَاھُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ اَنْتَظِرُکَ﴾ ﴿سنن ابی دائود، کتاب الادب، باب فی العدۃ﴾
’’حضرت عبد اللہ بن ابو الحمسائ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلانِ نبوت سے پہلے ایک سودا کیا جس کا کچھ بقایا ﴿مجھ سے﴾ رہ گیا تو میں نے آپ ﴿ﷺ﴾ سے وعدہ کیا کہ ﴿آپ ٹھہریں﴾ میں وہ بقایا لے کر اسی جگہ آپ کے پاس حاضر ہوتا ہوں- میں ﴿واپس جاکر﴾ بھول گیا- تین دن گزرنے کے بعد مجھے اچانک یاد آیا تو میں فورا آیا تو آپ ﴿
ö﴾ اسی جگہ تشریف فرما تھے- آپ نے فرمایا کہ نوجوان تم نے ہمیں بڑی مشقت میں ڈالا ہے- میں یہاں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں‘‘-
اندازہ کریں کہ وعدہ بھی اس نوجوان نے کیا کہ میں آتا ہوں لیکن اس کے کیے ہوئے وعدے کو بھی آپ نے نبھایا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں امانت کو ایمان کے برابر قرار دیا اور وعدہ کو پورے دین کے برابر فرمایا ہے-
﴿لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَہُ وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہُ﴾ ﴿سنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الجزیہ، باب الوفائ بالعھد﴾
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کے اندر امانت نہیں اس میں ایمان نہیںاور جس کے اندر وعدے کی پاسداری نہیں اس کے اندر دین ہی نہیں ہے‘‘ -
امام بیہقی نے ’’سنن کبریٰ‘‘ کے اسی باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ اور بھی ذکر کی ہے جس کے مطابق آج ہمارے درمیان یہ جو دہشت گردی اور قتل عام پایا جاتا ہے یہ ہماری قومی عہد شکنی کا ہی نتیجہ ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ
﴿مَا نَقَضَ قَوْمُ نِ الْعَھْدَ قَطُّ اِلَّا کَانَ الْقَتْلُ بَیْنَھُمْ﴾
’’جب کبھی کسی قوم نے وعدہ خلافی کی ہے تو ان کے درمیان قتل و غارت شروع ہوگئی ‘‘-
معاشرے کی بد ترین اخلاقی برائیوں میں سے ایک وعدہ خلافی ہے اور اس کا آغاز ہمارے گھر سے ہوتا ہے- والدین اپنے بچوں کو بہلانے کے لیے ان کے ساتھ طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں لیکن سب وعدوں کو پورا نہیں کیا جاتا یہیں سے اس بچے میں وعدہ خلافی کی عادت جڑ پکڑ لیتی ہے اور وہ بچہ وعدہ کرنا اور اسے توڑنا ایک عادت بنا لیتا ہے-
ہم بھلے مغرب کو برا کہتے ہیں، سارے مغرب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے ہم طعنہ زنی شروع کر دیتے ہیں ، جبکہ عالمی سیاست کی دورنگیاں اپنی جگہ مگر روزمرہ کی زندگی میں ایک عام مغربی کا ایفائے عہد پہ اصرار اس معاشرے کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے جس نے اسے اخلاقی گراوٹ کے باجود سنبھالا دے رکھا ہے- وہ اپنے ملکی اور معاشرتی قوانین سے کیے ہوئے وعدوں کو احسن طریقے سے نبھاتے ہیں- وہ اچھے ہیں یا برے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن جو ان کی اپنے ملک سے ، اپنی گورنمنٹ سے ، اپنے قوانین و ضوابط سے کمٹمنٹ ہے اسے وہ پورا کرتے ہیں بلکہ ہم بھی جو اپنے ممالک میں قوانین کی دھجیاں بکھیرتے رہتے ہیں جب ان کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی پاسداریٔ عہد کے سامنے ، ان کے قوانین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں- ہم وہ بد نصیب قوم ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں دین تو رہا ہی نہیں، دنیا بھی نہیں ملی ، ہماری آج کی تباہی اور خانہ جنگیاں قرآن کے ابدی و آفاقی احکامات و قوانین سے رُوگردانی کا نتیجہ ہیں - ﴿جاری ہے﴾
﴿۱۱﴾ ناپ تول میں کمی و بیشی کی مُمانعت:-
اور گیارھواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾﴿سورۃ الاسرائ، آیت:۵۳﴾
’’اور ناپ پورا رکھا کرو جب ﴿بھی﴾ تم ﴿کوئی چیز﴾ ناپو اور ﴿جب تولنے لگو تو﴾ سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ ﴿دیانتداری﴾ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے ﴿بھی﴾ خوب تر ہے-‘‘
اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ جب پیمانہ بھرو، جب ناپ تول کرنے لگو تو پورا پورا ناپ تول کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو اور اس کی تشریح میں متعدد مفسرین نے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کرنا یا چیزوں میں ملاوٹ کرنا یہ سخت ترین گنا ہ ہے یہ ایک ہی طرح کی دو چیزیں ہیں -اہلِ ٹوبہ ٹیک سنگھ مَیں ڈیمانڈ کرتا ہوں کہ مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کو ئی دکان بتا دیجئے جہاں پہ ملاوٹ کے بغیر دودھ ملتا ہو، جہاں ناپ تول میں کمی نہ کی جاتی ہو، اس سے بڑھ کے ہماری بد قسمتی اورکیا ہو سکتی ہے؟ پٹرول پمپوں کے پیمانے دیکھ لیں، اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی کون کونسی غلطی ، اپنے کون کون سے جرم کا اعتراف کروں کہ بطور اجتماعی ،بطورِ معاشرہ مجھ میں، میرے اندر کیا کیا خرابیاں ہیں؟ مَیں معاشرہ ہوں اور کوئی مانتا ہے یا نہیں ہم سب معاشرہ ہیں ، ہم اپنے اندر جھانکیں، اپنے اندر دیکھیں کہ خدا نے جو یہ آفاقی احکامات مقرر کئے ہم ان پہ کس حد تک عمل پیرا ہیں-
﴿۲۱﴾ جھوٹی بات اور فحاشی پھیلانے کی مُمانعت:-
بارھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا :
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٰ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا﴾ ﴿سورۃ الاسرائ، آیت:۶۳﴾
’’اور ﴿اے انسان!﴾ تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے ﴿صحیح﴾ علم نہیں، بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی-‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بات تمہارے ذمے نہیں، جس کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑ جاؤ، بے شک تمہارے کانوں سے، تمہاری آنکھوں سے اور تمہارے دل یعنی تمہارا سوچنے کا جو آلہ ہے’’ فواد‘‘ جسے دماغ بھی کہا جاتا ہے اور دل بھی کہا جاتا ہے اس سے حساب لیا جائے گا ، بد نظری نہ کرو ، برا خیال ، چھپی شہوت بھی نہ ہو- آقا پاک
ö کی حدیث مبارک ہے آپ نے فرمایا مجھے اپنی امت سے یہ خدشہ نہیں ہے کہ یہ چانداور ستاروں کی اور آگ کی اور بتوں کی پوجا کرنے لگیں گے ، مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ شرک خفی میں مبتلا ہو جائیں گے، یا رسول اللہ
ö! شرکِ خفی آپ نے فرمایا کہ یہ اپنی خفیہ شہوت کی پیروی کریں گے ، جو شخص بد نظری میں مبتلا ہو ، بد خیالی میں ، بد گمانی میں مبتلا ہوتا ہے اللہ تبارک تعالیٰ اسے نا پسند فرماتا ہے- یہ آدابِ معاشرت اللہ نے خود مقرر فرمائے-
﴿۳۱﴾ تکبّر ترک کرنے اور اِنکساری اِختیار کرنے کی تلقین :-
اور تیرھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ
﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا﴾ ﴿سورۃ الاسرائ، آیت:۷۳﴾
’’اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بے شک تو زمین کو ﴿اپنی رعونت کے زور سے﴾ ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ﴿تو جو کچھ ہے وہی رہے گا﴾-‘‘
بے شک تم تکبر سے چل کے، اکڑ کے چل کے، نہ زمیں کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ سے بلند ہو سکتے ہو-
میرے بھائیو اور بزرگو! یہ تیرہ ﴿۳۱﴾ احکامات قرآن کریم کی صرف ایک سورۃ سے اس کی متصل آیا ت سے میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں جن میں معاشرت بھی ہے، معیشت بھی ہے ،سیاست بھی ہے، عدل بھی ہے، تجارت بھی ہے اور قرآن نے ہر چیز کے احکامات مقرر کئے -
﴿جاری ہے---﴾
٭٭٭
مَیں نے شروع سے جو بات کہی تھی کہ ہمارا دین ،دینِ فطرت ہے اور یہ شروع سے آخر تک ہر بات کا احاطہ کرتا ہے، یہ شروع سے آخر تک ہربات کو ساتھ لے کر چلتا ہے، اس کا تصورِ خدا آفاقی ہے، اس کا تصورِ انسان آفاقی ہے، اس کا تصورِ کائنات آفاقی ہے، اس میں جزوی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے جو مانے گا وہ پورے دین کو مانے گا، جو منحرف ہو گا وہ پورے دین سے منحرف ہوگا ، درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم کچھ احکامات کو مان لیں اور بعض احکامات کو چھوڑ دیں ایسا نہیں ہو سکتا- مغرب کے تصورِ دین میں اور ہمارے تصورِ دین میں فرق ہے، ان کا تصورِ دین، ان کا تصورِ خدا مختلف ہے ، ہمارا تصورِ خدا مختلف ہے- ہمارا خدا اپنے اسمائ الحسنہ میں ہمیںیہ بتاتا ہے کہ مَیں مالک ہوں؛
﴿مٰ لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ ’’روزِ جزا کا مالک ہے-‘‘﴿ بِیَدِہِ الْمُلْکُ﴾’’ جس کے دستِ ﴿قدرت﴾ میں ﴿تمام جہانوں کی﴾ سلطنت ہے-‘‘
اس کے ہاتھ میںیہ ملک ہے، اس کے ہاتھ میںیہ کائنات ہے ،وہ چلانا چاہے گا اس کائنات کو ،وہ حق رکھتا ہے اس کائنات کو چلانے کا -
﴿اَلْمُقْتَدِرُ﴾’’اقتدار اس کا حق ہے -‘‘﴿اَلْعَدْلُ﴾’’عدالت اس کا حق ہے-‘‘
ترازو اس کا ہے، حکم اس کا ہے، پیغام اس کا ہے، نظام اس کا ہے، ہمارے پاس کوئی اختیا نہیں ہے کہ ہم اس کی حاکمیت میں مداخلت کریں ، انسان اس زمین پہ حاکم نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا نائب ہوتا ہے، اللہ کا خلیفہ ہوتاہے ،اس لئے دین جزوی اور فرد کا نجی یا ذاتی معاملہ نہیں ہے، دین فرد کا مکمل اور معاشرتی معاملہ ہے اگر اگر کوئی فرد دین کے کسی ایک بھی حکم سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہتا ہے تو قرآن و سنت سے بغاوت کرتا ہے ، وہ قرآن و سنت سے غداری کرتا ہے-
آج بد قسمتی یہ ہے کہ منبر و محراب نے بھی دین کو محدود کرنے میں کسر نہیں اُٹھا رکھی ، کیونکہ ہمارے خطبا و واعظین کے عمومی طور پہ پسندیدہ موضوعات اِختلافی عقائد ہوتے ہیں اور جو اس سے آگے بڑھے وہ فضائل سے آگے نہیں بڑھتا - بہت کم ایسے خطبا و واعظین جامع مساجد میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے خطابات و مواعظ میں لوگوں کو عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کی تلقین کرتے ہوں اور اخلاقیات کا درس دیتے ہوں - کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان چاروں چیزوں کو اکٹھا رکھا ہے ہے - مثلاً اگر سورہ البقرہ شریف کی آیت نمبر ۷۷۱ میں جھانکیں تو قرآن پاک کی ترتیب و تعلیم سمجھنے میں دشواری نہیں رہتی -
سورہ البقرہ آیت ۷۷۱ میں فرمایا
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٰنَج وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٰ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰ ہَدُوْاج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِط اُولٰٓ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاط وَاُولٰٓ ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَo
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر اور آخرت پر اور فرشتوں پر اور ﴿اﷲ کی﴾ کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اﷲ کی محبت میں ﴿اپنا﴾ مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور ﴿غلاموں کی﴾ گردنوں ﴿کو آزاد کرانے﴾ میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی ﴿تنگدستی﴾ میں اور مصیبت ﴿بیماری﴾ میں اور جنگ کی شدّت ﴿جہاد﴾ کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo
آئمۂ تفسیر نے کئی بلکہ کثیر روایتوں کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی ایک جانب چہرہ کر لیا جائے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے بلکہ اللہ د کے نزدیک اصل نیکی آیت میں بیان کردہ تمام امور و احکامات کو بجا لانے کا نام ہے - اِس آیت میں جو مشرق و مغرب کی جانب منہ پھیرنے کا کہا گیا ہے تو اس سے متعلق عہدِ نزول بھی مدِّ نظر رہے کہ یہ اُس زمانے میں آیت نازل ہوئی ﴿حضرت عبد اللہ ابن عباس ص کے قول کے مطابق ﴾ جب ابتدائے اسلام تھی اور کوئی شخص جب اللہ د کی وحدانیت اور نبی پاک شہہِ لولاک
ö کی رسالت و نبوت کی گواہی دے دیتا تو کسی بھی سمت رُخ کر کے نماز ادا کر لیتا ، اگر اسی معمول پہ اُسے موت آ جاتی تو اس کیلئے جنت لازم ہوتی - ہجرت کے بعد جب مسجد الحرام شریف کو قبلہ بنا دیا گیا اور اللہ د نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ یہ احکامات بجا لانا ، اِن پہ عمل پیرا ہونا اصل نیکی ہے - اِس آیت کے اَحکامات دو حِصّوں پہ مشتمل ہیں : ایک کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوقِ معاشرت سے ہے - امام جلال الدین سیوطی دُرِّ منثور میں نقل فرماتے ہیں کہ اِس آیت کے متعلق امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابو میسرہ رحمۃاللہ علیہم سے روایت بیان فرمائی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ﴿من عمِل بھٰذہ الآیۃ فقد استکمل الایمان﴾ یعنی ’’جس نے اِس آیت پر عمل کیا پس تحقیق اُس نے اپنے ایمان کو پایۂ تکمیل پہ پہنچا دیا‘‘ - اِسی طرح اِس آیت سے متعلّق علامہ ابن کثیر نے حضرت سُفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہما کا قول نقل کیا ہے کہ ﴿ھذہ انواع البر کلھا﴾ ’’اِس آیت میں نیکی کی ہر قسم کو بیان کر دیا گیا ہے ‘‘ - اگر دیکھا جائے تو یہ آیۂ شریفہ دینِ مبین اور فلسفۂ نیکی پہ نہایت جامع بیان ہے جس میں ایک عام آدمی کی زندگی کے ہر پہلُو ، ہر جانب ، ہر طرف اور ہر جہت کو واضح کردیا گیا ہے - بطورِ خاص پانچ پہلو قابلِ غور ہیں :
﴿۱﴾ فلسفۂ نیکی/ فلسفۂ دین ؟ دین صرف عبادات کا مرقع نہیں ﴿۲﴾ ایمان ؟﴿اللہ پر و دیگر ﴾ ﴿۳﴾ مُعاملات ؟ رشتہ داروں ، یتیموں و دیگر کے حقوق کا بیان ﴿۴﴾ عبادات ؟ نماز و زکوٰۃ کا حکم ﴿۵﴾ اَخلاق ؟ سختی ، تکلیف ، میدان میں استقامت اختیار کرنا
پہلے حصہ ﴿لیس البر﴾ سے لیکر ﴿ولکن البر﴾ تک اِس بات کا بیان ہے کہ دین فقط و فقط عبادات کے مرقع کا نام نہیں ہے اور نہ ہی انفرادی و ذاتی معاملہ - دوسرے حصہ میں ﴿من اٰمن﴾ سے لیکر ﴿النبیّین﴾ تک ایمان کا اصول بیان ہوا - تیسرے حصہ میں ﴿آتی المال﴾ سے لیکر ﴿و فی الرقاب﴾ تک معاملات و معاشرت کو بیان فرمایا ﴿﴿الرقاب﴾ سے مراد زیادہ تر مفسرین نے غلاموں کو آزاد کرنا لیا ہے جبکہ بعض مفسرین اور کئی فقہا نے اِ س سے مراد قیدی بھی لئے ہیں کہ قیدیوں کو قید سے آزاد کروانے کیلئے مال خرچ کیا جائے ﴾ - چو تھے حصہ میں صلوٰۃ و زکوۃ کا ذکر فرمایا - جبکہ پانچویں حصہ میں ﴿و الموفون﴾ سے لیکر ﴿المتقون﴾ تک اخلاقیات کے تقاضے بتائے
اَخلاق کے حصہ میں تین چیزوں پہ بالترتیب فرمایا گیا ہے کہ صبر کرنے والے ہوں ﴿البأسا﴾ یعنی غربت ، تنگدستی ، افلاس ، بے مائیگی، فاقہ کشی ﴿الضرّأ﴾ یعنی مرض ، مصیبت ، دُکھ ، رنج ، تکلیف اور تیسرا ﴿حین البأْس﴾ یعنی راہِ جہاد میں قتال کے وقت - اِن تینوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے ، شدتِ فاقہ و غریبی میں صبر بے حد مشکل ہے لیکن اس مرض اور دُکھ میں صبر کرنا اُس سے بھی زیادہ مشکل ہے جبکہ وقتِ قتال میدانِ کار زار میں صبر کرنا مرض پہ صبر کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ قتال میں شدّت نہ اختیار کی جائے تا کہ بوڑھے ، بچے ، خواتین ، بے گناہ اور معصوم لوگ محفوظ رہیں - جہاں یہ بات قوانینِ جنگ و جدال کا حصہ ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے اِس کو اخلاقیات کا حصہ بھی بنا دیا ہے کہ قوانینِ جنگ سے تجاوز کرنا اسلام کے اخلاقی تصور کے منافی ہے - نیز قتال میں شدت نہ کرنے والے کو دُہرا ثواب ملے گا ، جس طرح کہ ﴿ذوی القربیٰ﴾ کے متعلق آقا
ö کے فرامین بکثرت موجود ہیں کہ اس بات پہ صدقہ کرنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے - ایک تو صدقہ کا اجر ملتا ہے اور دوسرا اقربا کو دینے کا اجر ملتا ہے ، اِسی طرح اِس حدیث پاک کو اگر قتال والے حصہ پہ لاگو کیا جائے تو جہاں جہاد فی سبیل اللہ کا اجر مجاہد کو ملے گا وہیں معصوم ، بے گناہ ، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تلوار کی کاٹ سے محفوظ رکھنے کا اجربھی ملے گا -
آج آقا پاک
ö کے میلاد مبارک پہ اگر ہم بیٹھے ہیں ،اس میں ہمارے لئے سب سے اہم اور سب سے ضروری ترین عمل یہ ہے ، ہمارے اوپر لازم اور واجب یہ ہے کہ ہم نے اپنا احتساب کرنا ہے کہ جس ہستی کی آمد کی خوشی ہم منارہے ہیں اس سے ہمارے تعلق کی بنیادیں کہاں تک پختہ ہیں؟
چوں می گویم مسلمان بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لاالٰہ را
’’جب مَیں یہ کہتا ہوںکہ مَیں مسلمان ہوں تو مَیںلرز اٹھتا ہوں کیونکہ مَیں لاالٰہ کی مشکلات کوجانتا ہوں -‘‘
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
میرے نوجوان ساتھیو! مَیں آخری گزارش کررہا ہوں، آقا پاک
ö سے اگر ہمیں محبت ہے تو اس محبت کی ہمارے پاس دلیل کیاہے؟ کیا آقا
ö سے محبت کی یہ دلیل ہے کہ حضور کے دین کواہلِ دُنیا مذاق بنا دے اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ؟کیا یہ حضور کے دعویٰٔ محبت کی دلیل ہے ؟آقا پاک
ö نے جس دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑا،ہجرت کی، جس دین کے لئے پتھر کھائے ،لہو لہان ہوئے ،حضور کے بدن اطہر سے لہو ٹپکتا رہا،نیزے کھائے ،تلواریں کھائیں ،رخصار زخمی ہوئے ،پیشانی زخمی ہوئی ،سر مبارک پہ چوٹ آئی ،دندان مبارک شہید ہوئے ،کائنات کی عظیم ترین وہ نفیس ترین اور لطیف ترین ہستی جس سے بڑھ کوئی لطیف نہیں ہوگا، جس سے بڑھ کے کوئی حسین نہیں ہوگا، جس سے بڑھ کو ئی نفیس نہیں ہوگا، آج اُسی دین پہ جس کے لئے یہ سارا کچھ کیا ہے، آج اس پہ مشکل وقت ہے اورہم اس دین کے رکھوالے نہیں بن رہے کیا یہ حضورکیساتھ محبت کے دعوےٰ کی دلیل ہے ؟جس دین پہ آقا پاک
ö نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پہ سورج اور دوسرے پہ چاند رکھ دو، مال دولت کے انبارلگا دو،مَیں اِس دین کی دعوت سے نہیں رکوں گا- آج ہم اس دین کو اپنی چند دُنیاوی خواہشات کی خاطر ترک کر کے بیٹھے ہیں ،دعویٰ ٔ محبت کی دلیل کیا ہے ہمارے پاس؟ حضور کے چچا ،حضور کے قریبی رفقائ ،حضور کے قریبی ساتھی بے دردی سے شہید کئے جاتے رہے، ان کے مثلے کئے گئے ،ان کے کلیجے ان کے سینے سے نکال کے چبائے گئے، آقا پاک
ö نے یہ سارے غم کس کے لئے برداشت کئے؟ اس دین کے لئے، آج اس دین پہ مشکل وقت طاری ہے تو ہم دین پہ اپنی ذات کو، دین کے معاملات میں اپنے ذاتی معاملات کو ترجعیح دیتے ہیں کیا یہ حضور سے محبت کے دعویٰ کی دلیل ہے؟ ہمارے پاس کیا دلیل ہے حضور سے محبت کی، حضور سے عشق کی،؟
میرے بھائیومیرے ساتھیو !اگر حضور سے محبت ہے، اگر حضور سے عشق ہے، اگر حضور سے پیار ہے ،تو اس عشق کی ،اس محبت کی ،اس پیار کی دلیل دیں، یہ زندگی کتنی ہے، یہ کتنی اور رہ جائے گی، کسے معلوم ؟کیا اس دنیا میں صرف اَسی ﴿۰۸﴾سال کی عمر کے لوگ مرتے ہیں،اٹھاراں﴿۸۱﴾ سال کے نہیں مرتے ؟ہم جتنے بھی یہاں بیٹھے ہیں کسی کو یقین ہے کہ اس کے بعد مَیں کب تک زندہ ہو ں اور میں اپنے گھر بھی خیریت سے پہنچوں گا یانہیں ،کسی کو یقین ہے اپنی موت کا اور اپنی موت کے نہ آنے کا؟ وقت اس کے ہاتھ میں ہے وہ جب آواز دے گا یہ بدن جاتا رہے گا- حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
òلوگ قبر داکرسن چارا لحدبناون ڈیرا ھُو
جب تو مر جائے گا ناں تولوگوں کو پھر تیری فکر نہیں ہوگی ،جب رُوح نکل جائے گی لوگوںکو تیری فکر نہیں ہوگی،لوگ قبر کی طرف بھاگیںگے، دفناؤ اِسے میت بدبو چھوڑ جائے گی،’’ میت ترک ویسی پورو اینو ں جلدی‘‘ تعفن پھیلائے گی، بیماریاں پھیلائے گی ،خراب ہو جائے گی، لے جاؤ ،اسے دفناؤ، مٹی میں لے جاؤ ،قبر میںلے جاؤ،چاہے والد ہے، چاہے بھائی ہے، چاہے والدہ ہے، چاہے بچے ہیں، چاہے بہنیں ہیں جو بھی ہو، سب کو جلدی ہوگی-پھر تیرا گھر تیری قبر ہوگی
òچٹکی بھر مٹی دی پاسن کرسن ڈھیر اُچیرا ھُو
ایک چٹکی مٹی کی اس پہ ڈال دیں گے، وہ چٹکی کس کا صلہ ہے؟ تیرے ساتھ ساری زندگی کی محبت کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کے یارانے کا، تیرے ساتھ ساری زند گی کی دوستی کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کے تعلق کا صلہ تمہیں لوگ آخرمیں کیا دیتے ہیں ؟مٹی ایک مٹھی بھر کے تیری قبر پہ ڈل دیتے ہیں-
مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے بعد ازاں
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دیتے ہیں
اس دُنیا سے محبت کرتے ہوجو تجھے جاتے ہوئے مٹی پھینکتے ہیں جاؤ اب
ò پڑھ درود گھراں نوں جاسن کوکن شیراشیراھُو
جس نے فاتحہ درود پڑھنا ہوگا وہ پڑھے گا اور ایک بار روتا ہوا جائے گااور کہے گا تُو بڑا شیر تھا، بڑا شیر تھا -
بے پرواہ درگا رب باھو نہیں فضلاں باہجھ نبیڑا ھُو
وہ بڑا بے نیاز ہے، وہ بڑا بے پرواہ ہے، کسی کی نہ اونچی ذات دیکھتا ہے ،نہ اونچا منصب دیکھتاہے ،نہ اونچی شان دیکھتا ہے، اس کی عدالت میں جب جاتے ہیں تو میاں محمد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
عدل کریں تے تھر تھر کنبن اُچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون مَیں ورگے منہ کالے
حضرت عمر (رض) کا فرمان ہے کہ لوگو! اپنے اعمال کو تول لو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال اللہ کے ترازو میں رکھے جائیں، اپنے اعمال کا احتساب کرلو اس سے پہلے کہ اللہ تمہارا حساب لے ،اور ہمارے بزرگوں نے ،ہمارے اسلاف نے کہا ہے:
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری
وقت پیر ی گُرگ ظالم می شود پرہیز گار
جوانی میں توبہ کرنا ،جوانی میں اپنی لَواللہ سے لگانا، جوانی میں اپنی چاہت کو اللہ کی چاہت کے سپرد کرنا، اپنی جوان دھڑکنوںکو اللہ کی رضا پہ قربان کرنا، اپنی جوان سانسوں ،اپنے جوان جذبات ،اپنے جوان احساسات کو اللہ کی راہ میں لگانا، اللہ کی رضا میں لگانا ،یہ شیوہ ٔپیغمبری ،یہ انبیائ کی سنت ہے، یہ پیغمبروں کا شیوہ ہے- تُو چاہتا ہے مَیں بڑھاپے میں جاکے سُدھر جاؤں گا- اوہ خدا کے بندے بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی ظلم کرنا چھوڑ دیتا ہے، بندہ سُدھر جائے توکون سی بڑی بات ہے-
آج میرے نوجوان ساتھیو !تمہیں اللہ نے جوان دھڑکنے دی ہیں، جوان جذبے دیے ہیں، ہم اللہ کے دین کی حفاظت، اپنے جوان بازوئوں سے کر سکتے ہیں ،اپنی جوان زبان سے کرسکتے ہیں، اپنے جوان لفظوں سے کر سکتے ہیں، اپنی جوان دھڑکنوں سے کر سکتے ہیں، اپنے جوان جذبوں سے کر سکتے ہیں، جب یہ سارا کچھ نحیف ہو جاتا ہے،جب یہ سارا کچھ ضیف ہو جاتاہے، سوائے حسرت اور سوائے ہاتھ مَلنے کے کچھ نہیں آتا، خدا کی بارگاہ میں حسرت کرتے ہوئے نہ لوٹو بلکہ اس کی طرف یوں لوٹو کہ
نشان مردِ مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لبِ اُو ست
آجا کہ مَیں تجھے بتاؤں کہ مردِ مومن کی نشانی کیا ہے؟ جب اُس پہ موت آتی ہے تواس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کھیل جاتی ہے، وہ حسرت لے کر نہیں جاتا ہے کہ مَیں کچھ کر نہیں سکا بلکہ وہ خوش جاتا ہے یا اللہ تیرے توکل پہ، تیرے بھروسے پہ اس دنیا کے سامنے تیرا نام بلند کرتا رہا ،تیرے دین کی اِقامت کی جدوجہد کرتارہا، تیرے دین کے اِحیائ کی جدوجہد کرتا رہا، تیرے دین کے نفاذکی جدوجہد کرتا رہا ،تیرے نبی کے ادب، تیرے نبی کی عظمت کو سَربلند کرتا رہا-حضرت علامہ اقبا ل رحمۃ اللہ علیہ جب حضرت ٹیپو سلطان کی مزار پہ گئے تو بڑے روئے، وہاںپہ مراقبہ کیا ،قرآن کی دعوت پڑھی ،جب باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ ٹیپوسلطان سے کیا مکالمہ ہوا؟ ٹیپوسلطان بھی ایک فقیر آدمی تھا، ایک فقیر بادشاہ تھا اور بہت اللہ کا نیک آدمی تھا، علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے کچھ باتیں کی ہیں یہ کلام حضرت علامہ کے کسی شعر ی مجموعے میں نہیں لیکن حیاتِ اقبال کی کتب میں موجود ہے ،’’ زندہ رُود‘‘ جو جاوید اقبال نے لکھی ہے اس میں بھی موجود ہے، علامہ اقبا ل نے ان لوگوں کو کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے یہ بات کہی ہے کہ
درجہاں نتواں اگرمردانہ زیست
ہمچوں مرداں جاں سپرد ن زندگیست
اقبال! مسلمانو ں کو یہ پیغام دو کہ اگر زندگی میں وہ مَردوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے، اگر مومن کی طرح زندگی گزارنا ممکن نہیںپھر مَردوںکی طرح جان پہ کھیل جانا یہ زندگی ہے، جان سے گزر جانا یہ زندگی ہے-
اس لئے ہمارے پاس یہ وقت ہے جو چند سانسیں ہمیں اللہ نے مہلت دی ہیں اس کے نام پہ صَرف کریں ،اس کے ساتھ یہ عہد کریں ،اس عہد کے متعلق ہم سے پوچھا جائے گا-
اصلاحی جماعت یہی دعوت لے کے سلطان العارفین کی درگاہ سے آئی ہے، جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب یہی پیغام لے کے آئیں ہیں کہ خدارا آپ آئیں اور اللہ کے دین کو نافذ کرنے کیلئے، اللہ کی کتاب کو نافذ کرنے کیلئے، سنتِ رسول
ö کو مروج کرنے کیلئے ہمیں اپنی کوششیں ،اپنی کاوشیں بروئے کار لانی چاہئیں- حضرت ہاجرہ کاکام سعی کرنا تھا،ہمارا کام سعی کرنا ہے، یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ ننھے اسماعیل کے قدموں سے پانی کا چشمہ جاری کردے ،ہم سعی کریں گے، خلوص سے کریں گے ،اللہ پانی کا چشمہ جاری فرمائے گا، وہی قادرِ مطلق ہے ،وہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے -
اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطائ فرمائے ۔
﴿گزشتہ سے پیوستہ﴾
﴿۴﴾ ’’تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‘‘- آیت کا یہی حکم وہ مرکزی نکتہ ہے جس کے گرد سابقہ احکامات بھی گردش کر رہے ہیں اور بعد والے بھی- اس آیت کے اشارۃ النص سے ظاہر ہے کہ یتیم کا مال کفیل کے پاس بطورِ امانت تھا اور امانت میں خیانت شرعی طور پ?