اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین دربار عالیہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ سے اس پیغام اور مقصد کے تحت چلائی  گئی ہے کہ ہم قرآن مجید اور سنت مبارکہ (ﷺ) سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں-اخلاق، آداب، محبت، تلقین، تعلیم و تدریس، صحبتوں و قربتوں، تزکیہ اور تصفیہ کی جو تربیت صدیوں تلک اولیائے کاملین  نے فرمائی ہے اور فرماتے آ رہے ہیں، اس تربیت کو حاصل کریں- اپنے ظاہر اور باطن کو اخلاقِ الٰہی کی عملی تصویر  بنائیں -

کیونکہ حضرت سخی سلطان باھو، حضرت سیدنا مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، خواجہ اجمیر حضرت خواجہ غریب نواز معین اجمیری، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، امام احمد کبیررفاعی، محی الدین پیر دستگیر عبدالقادر گیلانی، سید الطائفہ جنید بغدادی، امام الآئمہ حسن بصری و  دیگر جتنے بھی اولیاء کاملینؒ ، صحابہ کرام و اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم) ہیں ان سب کی تعلیمات کی بنیاد اور پہلا سبق قرآن کریم اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی سنت  مبارکہ  ہے-

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنے علم، اپنی قدرت اور رحمت سے پیدا کیا  ہے- جس کا اظہارقرآن مجید میں کئی مقامات پر فرمایا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ خَلَقَ کُلَّ  شَیْءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘‘[1]

’’اور اس نے ہرچیز پیدا کی  اور وہ سب کچھ جانتا ہے‘‘-

’’اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ‘‘[2]

’’بیشک تمہارا رب ہی سب پیدا کرنے والا جاننے والا ہے‘‘-

’’وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا‘‘[3]

’’اوراس نے ہر چیز پیدا کرکے ٹھیک اندازہ پر رکھی‘‘-

اگر  اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور مخلوق میں غور کیا جائے تو مخلوق میں ہر سطح پر  اور  مخلوق کی ہر قسم میں کئی درجے نظر آتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے کسی کو اعلیٰ اور کسی کو ادنی ٰ بنایا، کسی کو ممتاز اور  کسی کو سب سا بنایا ، کسی کو بڑا اور کسی کو نسبتاً چھوٹا بنایا، کسی کو کلام کرنے کی صلاحیت دی اور کسی کو اس سے محروم رکھا- کسی کو سوچنے، سمجھنےاور فہم وتفہیم کی صلاحیت عطا کی اور کسی کو اس سے محروم رکھا- کسی کو چلنے پھرنے میں آزادی دی ، جیسے انسان اور جانور ہیں- کسی کو چلنے پھرنے سے محروم رکھا  جیسے درخت، پتھر ، پہاڑ اور دیگر کئی  جامد اشیاء ہیں-

لیکن انسان کی عظمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرما یا:

’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ  اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا ‘‘[4]

’’ اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اوران کو خشکی اور تری میں  سوار کیا اور ان کو  پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا‘‘-

اللہ تعالیٰ نے بحر و بر میں بہت کچھ پیدا کیا اور ان کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں ان کے اوپر انسان کو فضیلت اور فوقیت عطا فرمائی- اگر ان تمام اشیاء میں غور کریں تو قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز ایک جیسی نظر نہیں آتی-

پھول:

پھولوں میں مختلف انواع کے پھول ہیں- کئی ایسے ہیں جو اپنے رنگ میں اور کئی ایسے ہیں جو اپنی خوشبو میں خوبصورت ہیں- کئی ایسے ہیں جن کی خوشبو  اور ان کے رنگ بھی زیادہ پرکشش نہیں ہیں-مگر ان میں سے نکلنے والی تاثیر زیادہ اکسیر ہے-

زمین:

زمین کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا‘‘[5]

’’جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا ‘‘-

اگر زمین میں غور کیاجائے تو زمین میں باغ اور باغیچے بھی ہیں، خوبصورت پہاڑوں والی  زمین بھی ہے اور ریگزار میدان بھی ہیں جہاں  سیم اور تھور بھی نظر آتا ہے- زمین میں ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں فصل بکثرت ہوتی ہے، پانی میٹھاہے اور ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں پانی کڑوا ہوتا ہے وہاں فصل نہیں اُگتی- یعنی زمینوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے تنوع رکھا-

میدان:

اگر میدانوں میں غور کیا جائے تو دنیا میں ہزاروں میدان  نظر آتے ہیں-لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ میدانوں کو اپنی ذات سے نسبت عطا فرما کے ان کو باقی میدانوں سے ممتاز کر دیا- مثلاً میدانِ عرفات، میدانِ منی اور دیگر میدان جن کو اللہ تعالیٰ نے رحمت عطا کی- اس لئے ہمارے لیے اسلامی تاریخ میں جو حیثیت میدان بدر اور  میدان اُحد کو  حاصل ہے شاید وہ کسی اور میدان کی نہ ہو-

پہاڑ:

اگر پہاڑوں کی تخلیق میں غور کیا جائے تو دنیا میں سینکڑوں پہاڑی سلسلے ہیں، لاکھوں چوٹیاں ہیں- لیکن  اللہ تعالیٰ نے ہر پہاڑ کو مقام و درجے کے اعتبار سے برابر نہیں کیا- مثلاً ایک پہاڑ وہ ہے جس پہ اللہ تعالیٰ اپنے کلیم سیدنا موسٰیؑ سے مخاطب ہوا- اسے قرآن مجید میں ’’طُوْرِ سِیْنِیْنَ‘‘فرمایا-ایک وہ پہاڑ ہے  مکہ المکرمہ میں جہاں سیدہ ہاجرہ (رضی اللہ عنہا) نے سعی کی- اس پہاڑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہا: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللہِ ‘‘[6]

’’بےشک  صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘-

اسی طرح تاجدار انبیاء (ﷺ) نے اُحد پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:

’’هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ‘‘[7]

’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ‘‘-

یعنی پہاڑ بھی درجے میں ایک جیسے نہیں- کچھ پہاڑ ہیں  جن کو اللہ تعالیٰ نے باقی پہاڑوں پر فضیلت عطا کی-

وادی:

اگر وادیوں کی تخلیق میں غور کیا جائے تو سینکڑوں وادیاں ہیں لیکن ایک وادی ایسی بھی ہے جس میں جب  حضرت موسٰی ؑ داخل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ ۚ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی‘‘[8]

’’پس تو اپنے جوتے اتار ڈال، بیشک تو پاک وادی طوٰی میں ہے‘‘-

یعنی طوٰی بھی ایک وادی ہے- دنیا میں سینکڑوں وادیاں ہیں لیکن جو مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے وادیٔ طوٰی کو عطا فرمایا ہے وہ کسی اور وادی کو عطا نہیں فرمایا-

شہر:

اسی طرح تمام شہر اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں اور دنیا میں ہزاروں شہر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر شہر کی قسم نہیں اٹھائی بلکہ ایک شہر کی  مطلقاًقسم اٹھائی  ہے-جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ ہٰذَا  الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ‘‘[9]

’’اور اس امان والے شہر کی‘‘-

یعنی شہر کی برکت شہر سے ہوتی ہے- لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پہ اس برکت کو آقاکریم (ﷺ) کے ہونے کے ساتھ مقید کیا اور فرمایا:

’’لَآ  اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ؁ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ‘‘[10]

مجھے اس شہر کی قسم-کہ اے محبوب (ﷺ)تم اس شہر میں تشریف فرما ہو ‘‘-

شہر تو ہزاروں تھے لیکن  اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم اٹھائی اور شہر مکہ کی قسم اس لیے اٹھائی کہ محبوب ِ خدا (ﷺ) اس شہر میں رہتے ہیں- تو شہروں میں بھی فضیلت کے اعتبار سے درجہ  بندی اور تنوّع آگیا -یعنی زمین پر کئی قسم کے شہر ہیں، لیکن جو شرف، مقام اور عزت  مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کو حاصل ہے وہ دوسروں کو نہیں ہے-

پتھر:

اگر ہم دنیا کے پتھروں کا جائزہ لیں تو اللہ تعالیٰ نے پتھروں کو بھی فضیلت اور شرف میں ایک جیسا نہیں بنایا-کیونکہ ان سب پتھروں میں جو شرف اور تعظیم اللہ تعالیٰ نے حجر اسود کو عطا فرائی ہے وہ کسی دوسرے پتھر کی نہیں ہے-

جس کے متعلق آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ يَحُطَّانِ الذُّنُوْبَ‘‘[11]

حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام انسان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے-

یعنی حجر اسود گناہوں کو چوس لیتا ہے- لیکن یہ شرف کسی اور پتھر کو حاصل نہیں ہے-

مقام ابراہیم بھی ایک پتھر ہے- اس کا ایک الگ مقام، عزت و شرف ہے -جس کے متعلق ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی‘‘[12]

’’اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ‘‘-

پتھر تو دنیا میں ہزاروں لیکن جو شرف و فضیلت مقامِ ابراہیم اور حجر اسود کو عطا ہوئی ہے وہ کسی اور پتھر کو نہیں ہوئی-

پانی:

دنیا میں پانی کے لاکھوں چشمے اور مقامات ہیں-پانی کا خالق تو اللہ ہے لیکن اُس نے پانی میں بھی شرف و تکریم کے لحاظ سے فرق رکھا ہے-ایک وہ پانی ہے جو حضور نبی پاک (ﷺ)کی انگلیوں مبارک سے جاری ہوتا ہے- اس کا ایک الگ مقام ، شرف اور عزت ہے-

ایک وہ پانی ہے جو حضرت اسماعیلؑ کے قدموں سے جاری ہوتا ہے جسے آب زم زم کہتے ہیں- اس کی برکت، رحمت اور تاثیر  الگ ہے-آب زم زم کے بارے میں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہٗ‘‘[13]

’’آب زم زم ہر اس مقصد کے لیے ہے کہ جس مقصد کے لیے اس کو پیا جائے ‘‘-

یعنی جس مقصد سے پئیں گے وہ حاصل ہوگا-

مشروبات:

دنیا میں مختلف قسم کے مشروبات ہیں- لیکن جو شرف شہدکوحاصل ہےوہ شایدہی کسی دوسرےکےحصےمیں آئے- جیسا کہ شہد کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’فِیْہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ‘‘[14]

’’اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے‘‘-

مکھیاں حشرات کی ایک قسم ہیں- اسی طرح بھڑ بھی حشرات کی ایک قسم ہے- ان دونوں کے منہ سے تھوک نکلتی ہے لیکن بھڑ کی تھوک کوئی کھاتا نہیں ہے جبکہ شہد کی مکھی اپنے منہ سے جو تھوک اگلتی ہے اسے اللہ تعالیٰ نے شفا بنایا ہے- یعنی جو شہد کی مکھی کے بطن سے مشروب نکلتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے شفا رکھ دی ہے-

اوقات:

وقت  کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہے لیکن سارے اوقات، عزت، شرف و تکریم میں برابر نہیں ہیں-کیونکہ کچھ وقت  ایسا ہوتا ہے کہ ان میں کی گئی عبادت  کا ثواب اور اجر بڑھ جاتا ہے-جیسا کہ شبِ قدر ہے-جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّآ  اَنْزَلْنٰہُ  فِیْ  لَیْلَۃِ  الْقَدْرِ؁  وَ مَآ  اَدْرٰىکَ مَا لَیْلَۃُ  الْقَدْرِ ؁   لَیْلَۃُ  الْقَدْرِ لاخَیْرٌ مِّنْ  اَلْفِ شَہْرٍ  ‘‘[15]

’’ بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا-اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر ہے-شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر  ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے وقت ایک جیسا نہیں رکھا- ہر دن اور ہر رات کو  ایک جیسا نہیں رکھا- اسی طرح ہفتے کے دنوں میں سے سب سے بہترین دن جمعہ کادن ہے-جیساکہ امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ ‘‘

’’سورج نکلنے والے دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے‘‘-

سارے وقت اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں، تمام دن اور راتیں اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں لیکن راتوں میں لیلۃ القدر اور دنوں میں یومِ جمعہ کو شرف و مقام اور فضیلت عطا فرمائی-

عبادات:

دن  میں مختلف پہر ہوتے ہیں-عبادت سارے  دن میں کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے- لیکن اس کی قبولیت اور فضیلت کے اعتبار سے تہجد کے وقت کو افضل کیا-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً  لَّکَ ق صلے عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘‘[16]

’’ اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کرو یہ خاص تمہارے لئے زیادہ ہے-قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں ‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو فرمایاکہ اے حبیب مکرم(ﷺ) رات کے کچھ حصے میں نماز تہجد پڑھا کریں -کیونکہ اس سے یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا - گویا اللہ تعالیٰ نے تہجد کے وقت کو اپنی بارگاہ کی قبولیت کے لیے زیادہ مؤثر  وقت قرار دیا -

اسی طرح تلاوت،  کسی بھی پہر کی جاسکتی ہے- لیکن اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ  قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ  مَشْہُوْدًا‘‘[17]

’’ بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں‘‘-

فرض نماز:

قرآن مجید میں ایک اور مقام پہ ارشادِ ربانی ہے:

’’حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی‘‘[18]

’’ نگہبانی کرو سب نمازوں  کی اور بیچ کی نماز کی‘‘-

وسطی کونسی ہے؟ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ اور آپ کے اصحاب رائے کا جمہور کا یہی موقف ہے کہ نماز عصر صلوٰۃ وسطیٰ ہے- بعض آئمہ کرام کی رائے ہے کہ مغرب کے وقت چاند نظر آتا ہے تو مغرب کے وقت دن بدلتا ہے- اس لیے مغرب سے پہلی نماز شروع ہو تو صلوٰۃ وسطی فجر بنتی ہے- پیر دستگیر محی الدین غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں صلوٰۃ وسطٰی سے مراد نماز عصر بھی ہے اور اس سے مراد قلبی ذکر بھی ہے- گویا نمازیں ساری اللہ کی  ہیں لیکن نمازوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نماز کو خاص و ممتاز کر دیا-

اجر و ثواب:

قابل غور بات یہ بھی ہے کہ زمین کے بعض حصے اور بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں ان پر  عبادت کرنے کے اجر اور ثواب میں کئی گناہ  اضافہ ہوجاتا ہے- الفاظ وہی ہوتے ہیں، رکعتیں اتنی ہوتی ہیں، طریقہ وہی ہوتا ہے، لیکن اجر و ثواب، فضیلت اور  قبولیت میں فرق آجاتاہے-

مثلاً اگر آدمی گھر میں نماز پڑھے تو اس کو ایک نماز کا ثواب ملتا ہے- اگر وہی نماز آدمی مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ ادا کرے تو 27 گنا نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے-اگر وہی نماز مسجد نبوی میں ادا کرے تو 50 ہزار نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور اگر وہی نماز مسجد حرام  میں ادا کرے تو ایک لاکھ نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے-

حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایاکہ:

’’صَلَاةٌ فِيْ مَسْجِدِيْ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ‘‘[19]

’’میری مسجد میں ایک نمازاداکرنا دوسری مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے اور مسجد ِحرام میں ایک  نماز دوسری مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے بہتر ہے‘‘-

یعنی نماز میں ادا کرنے والے کلمات وہی ہیں، طریقہ وہی ہے لیکن جگہ تبدیل ہونے سے اس کے ثواب کا  درجہ تبدیل ہو جاتا ہے-

مہینے:

سال میں 12مہینے  ہیں اور ان 12 مہینوں میں ہر مہینہ کی تقسیم بھی اللہ تعالیٰ کی ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ  ہے:

’’اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰت وَالْاَرْضَ مِنْہَآ  اَرْبَعَۃٌ  حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ لافَلَا تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ ‘‘[20]

’’ بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں- اللہ کی کتاب میں  جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں- یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو‘‘-

امام المحدثین حضرت امام بخاری ا ِسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں حضرت ابی بکرہ (رضی اللہ عنہ)حضور نبی پاک(ﷺ) سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ،  اَلسَّنَةُ اِثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِّنْهَا  أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثٌ مُّتَوَالِيَاتٌ، ذُوالْقَعْدَةِ وَ ذُوالْحِجَّةِ وَ الْمُحَرَّمُ وَ رَجَبُ ‘‘[21]

’’بے شک زمانہ گھوم کراپنی اصل حالت پر آگیا ہے، جیسے اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمینوں کو پیدا فرمایا تھا- سال کے بارہ مہینے تھے- چارمہینے حرمت والے تھے- 3 مہینے پے درپے ہیں- ذوالقعدہ،  ذوالحجہ،محرم اور رجب‘‘-

امام بغوی’’تفسیر بغوی‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‘‘ مِنَ الشُّهُوْرِ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ وَ هِيَ: رَجَبٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ

’’مہینوں میں سے چار حرمت والے ہیں اور وہ رجب، ذوالقعدہ،ذوالحجہ اور محرم ہیں ‘‘-

وقت اورمہینے تو سارے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں لیکن ان میں سے چار مہینوں کو شرف اور بزرگی کے لحاظ سے مختص اور متعین فرما دیا -

درخت:

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لاکھوں درخت اُگائے ہیں- لیکن ان درختوں میں بھی کچھ درختوں کو شرف و فضیلت عطا فرمائی ہے-ایک وہ درخت ہے جس کی فضیلت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم حضرت موسیٰ ؑ سے کلام کیا-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’فَلَمَّآ  اَتٰىہَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیَٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ  الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ  اَنْ یّٰمُوْسٰٓی  اِنِّیْٓ اَنَا اللہُ  رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘[22]

’’پھر جب آ گ کے پاس حاضر ہوا ندا کی گئی میدان کے داہنے کنارے سے برکت والے مقام میں پیڑ سے کہ اے موسٰی بیشک میں ہی ہوں اللہ رب سارے جہان کا‘‘-

کھجور:

ایک وہ درخت ہےجس کا شرف یہ ہے کہ وہ سیدہ  مریمؑ کو تازہ کھجوریں مہیا کرتا ہے-جیسا کہ سورۃ مریم میں آیا ہے کہ  جب حضرت عیٰسی ؑ کی ولادت با سعادت ہوتی ہے تو سیدہ مریمؑ کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’وَ ہُزِّیْٓ  اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ  تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا‘‘[23]

’’اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی پکّی کھجوریں گریں گی‘‘-

اس دنیا میں مختلف قسم اور ذائقے کی کھجوریں ہیں-لیکن  اللہ تعالیٰ نے جو فضیلت اس کھجور کو عطا فرمائی جو  سیدہ مریمؑ کو عطا ہوئی وہ کسی اور کھجور کو حاصل نہیں ہے-اسی طرح فضیلت کے اعتبار سے ایک وہ کھجور ہے جو جنت کی کھجوروں میں سے ہے جس کو آقا کریم(ﷺ) نے شفاء فرمایا ہے-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’الْعَجْوَةُ مِنْ الْجَنَّةِ وَفِيهَا شِفَاءٌ ‘‘[24]

’’عجوہ جنت کی کھجوروں میں سے ہے اور اس میں زہر سے شفاء ہے‘‘-

کھجوروں کاخالق تو اللہ تعالیٰ ہے لیکن کھجوروں میں سے جو شرف و فضیلت عجوہ کھجور کو ہے وہ کسی اور کو نہیں ہے-

ستونِ حنانہ:

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) کھجور کے ایک تنے (ستونِ حنانہ) کے ساتھ کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے- پھر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے آپ (ﷺ)کے لئےنیا منبر بنوایا- جب آپ (ﷺ) نے اس منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا:

’’فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ فَنَزَلَ النَّبِيُّ (ﷺ) فَمَسَهٗ فَسَكَنَ‘‘[25]

’’تو وہ کھجور کا تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اونٹنی (اپنے بچے کے پیچھے) روتی ہے-پس حضور نبی کریم (ﷺ) منبر شریف سے نیچے تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا ‘‘-

ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’ لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‘‘[26]

’’اگر مَیں اُس (سوکھے تنے) کو گلے سے نہ لگاتا تو وہ قیامت تک روتا رہتا‘‘ -

گویا تنے، درخت اور باغات سب اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں لیکن جس درخت اور تنے کو آقا کریم (ﷺ) کے وجود اقدس سے نسبت ہوگئی اس درخت اور تنے کی فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے باقی تمام درختوں سے ممتازکردیا-

مچھلی:

اللہ تعالیٰ نے سمندروں میں بے شمار اور ان گنت مچھلیاں پیدا کی ہیں- لیکن ان میں بھی فضیلت اور شرف کے اعتبار سے کچھ مچھلیوں کو باقی تمام مچھلیوں سے ممتاز کیا ہے-جیسا کہ ایک مچھلی وہ ہے جو سیدنا حضرت یونسؑ کو نگل لیتی ہے- ایک مچھلی وہ ہے جب سیدنا حضرت موسٰیؑ حضرت خضرؑ سے ملاقات کے لئے مجمع البحرین پر جاتے ہیں تو راستے میں آپ کے صحابی حضرت یوشع بن نون کے ہاتھ میں موجود بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر چھلانگ لگا کے سمندر میں چلی جاتی ہے- قرآن مجید مچھلی کے اس واقعہ کو احسن انداز میں  بیان کرتا ہے-

چوپائے:

دنیا ہزاروں جانور ہیں لیکن ان میں ایک جانور ایسا بھی ہے جس کی قسم اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًالا؁ فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًالا؁ فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا لا ؁ فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا لا ؁ فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا‘‘[27]

’’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں-پھر پتھروں سے آ گ نکالتے ہیں سُم مار کر-پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں- پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں- پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں‘‘-

یعنی جانور تو ہزاروں ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے قسم گھوڑے کی اٹھائی ہے- جانوروں میں بھی فضیلت کے اعتبار سے یہی تنوع نظر آتا ہے-

قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور دیگر تحقیقات کی روشنی میں اصحابِ کہف کے ساتھ موجود کتا، حضرت سلیمانؑ کے واقعہ میں سردار چیونٹی، حضرت یوسفؑ کا کرتا، حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ نے آپ کوجس صندو ق میں ڈال کر دریا میں بہادیا، حضرت موسیٰ ؑ کا عصا، تمام ملائکہ میں سے چار فرشتوں کا  افضل ہونا اور اسی طرح دیگر اشیاء سے کئی مثالیں اور دلائل دیئے جاسکتے ہیں-

 لیکن اختصار کے پیش نظر یہ سمجھانا مقصود ہے کہ غور و فکر کیا جائے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح اشیاء میں تنوع اور ہر چیز میں درجے بیان کئے- حالانکہ تمام مخلوق کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے-گویا کئی چیزیں دکھنے میں ایک جیسی ہو سکتی ہیں مگر اپنی فضیلت کے اعتبار سے ان چیزوں میں فرق ہو سکتا ہے-

انسان:

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے مطلقاً فرمایا:

’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ‘‘[28]

’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی‘‘-

اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان بھی شرف و فضیلت کے اعتبار سے درجے بنا دیے ہیں-مثلاً کچھ انسان ایسے ہیں جن کو مقامِ ’’اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘کا درجہ دیا- کچھ ایسے ہیں کو ’’اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘ کا درجہ دیا-یعنی کچھ انسانوں کے لئے جہنم کو اور کچھ کے لئے جنت کو تیار کر رکھا ہے-اسی طرح کچھ انسانوں کے قریب جاؤ تو ان کی نحوست اثر انداز ہوتی ہے-جبکہ اللہ تعالی نے کچھ انسان ایسے بنا دیے جن کے قریب جاؤ تو ان کو دیکھنے سے خدا یاد آ جاتا ہے-

گو کہ سب اولادِ آدم اور بنی نوع انسان ہیں- لیکن کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے، نماز پڑھنے، حج کرنے، اچھے اعمال اختیار کرنے، چند قدم چل لینے سے انسان کی بدبختی، بخت آوری میں، شقاوت، سعادت میں اور بد قسمتی، خوش قسمتی میں، جہالت ، علم میں اور خیر، شر  میں بدل جاتے ہیں - یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ (ﷺ) نے یہ بشارت عطا فرمائی-

’’وَ ہُمْ قَوْمٌ لَّا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ“

’’یہ (اولیاء اللہ) ایسا (مبارک) گروہ ہیں کہ ان کا ہم نشین بدبخت نہیں ہوسکتا‘‘-

اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کو ایسے درجے عطا کیے ہیں کہ جو ان کی صحبت میں بیٹھ جائے وہ بدبخت اور  بے مراد نہیں رہتا-

جب بندہ  سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرتا ہے:

’’اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۙ؁اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۙ؁ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ط؁اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُط ؁ اِہْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۙ؁صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْہِمْلا؁ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ‘‘

’’سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا-بہت مہربان رحمت والا-روزِ جزاء کا مالک-ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں-ہم کو سیدھا راستہ چلا-راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا-نہ کہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘-

یعنی سب سے  پہلے اس کی عظمت و بزرگی اور جلال کو بیان کیا-پھر عہد کیا کہ مولا اب میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تیری بندگی کروں گا اور تجھ سے مدد چاہوں گا-پھر یہ  دعا مطلقاً کی کہ اے میرے مولا! ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت  عطا فرما-پھر اس دعائے ہدایت کو مقید کیاکہ ہدایت ایسی راہ کی عطا فرما جن پر تیرے انعام یافتہ ، فضل والےبندے چلے -کیونکہ اللہ کے  بندوں کی  معیت اور صحبت  دخولِ جنت کا سبب بنتی ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ ؁ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘‘[29]

پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو-اور میری جنّت میں آ‘‘

علامہ ابو البرکات النسفی ’’تفسیر مدارک التنزیل‘‘ میں ’’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

’’[فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ]‘‘ فِيْ جُمْلَةِ عِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ فَانْتَظِمِيْ فِيْ سِلْكِهِمْ

’’یعنی تو میرے نیک اور مخلص بندوں کی  جماعت میں داخل ہوجا اور میرے ان مخصوص بندوں میں شامل ہوجا اور ان کے سلسلہ سے وابستہ ہو جا‘‘-

علامہ ابو البرکات النسفی ’’تفسیر مدارک التنزیل‘‘ میں ’’وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

{ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ} مَعَهُمْ

اور تو ان کے ساتھ میری جنّت میں داخل ہوجا-

اور حضرت ابو عبیدہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’أَيْ مَعَ عِبَادِىْ أَوْ بَيْنَ عِبَادِيْ أَيْ خَوَّاصِيْ كَمَا قَالَ وَأَدْخِلْنِىْ بِرَحْمَتِكَ فِىْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ‘‘

یعنی میرے بندوں کے ساتھ اور میرے بندوں کے درمیان یعنی میرے خواص کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ (حضرت سلیمانؑ نے دعا کی) اور اپنی رحمت سے  مجھے اپنے صالحین بندوں میں داخل فرما‘‘-

گویا جس نے صحبتِ اولیاء اختیار کی اس کی شقاوت سعادت میں بدل جاتی ہے- انسان کا نفس ، نفسِ امارہ کے مقام پہ ہوتا ہے-صحبتِ اولیاء اورصالح اعمال اختیار کر کے  انسان کا نفس، نفس لوامہ کے مقام پہ  پہنچتا ہے-پھر  مزید عبادت و ریاضت سے  مقامِ ملہمہ پہ اور پھر ترقی کر کے نفس مطمئنہ پہ پہنچتا ہے-پھر مزید صحبتِ اولیاء کے فیضان سے نفس راضیہ اور پھر مرضیہ کے مقام پہ پہنچتا ہے-

عموماً نفس کے 4 درجے بیان کئے جاتے ہیں امارہ، لوامہ، ملہمہ، مطمئنہ-لیکن حضرت سلطان باھوؒنے ایک مقام پر فرمایا ہے کہ نفس کے6درجے ہیں: امارہ، لوامہ، ملہمہ، مطمئنہ، راضیہ اور مرضیہ- مقامِ راضیہ      سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ کو راضی کر لے اور مقامِ مرضیہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ انسان کو راضی کردے-

 جب انسان ان 6 درجوں  میں ترقی پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو راضی کرنے کےلئے، اس کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے اس کو اپنی جنت میں داخل فرماتا ہے یعنی اپنے انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرماتا ہے- کیونکہ آخرت کا انعام جنت میں داخلہ ہے اور اس دنیا میں انعام اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندوں کی  معیت  اور صحبت ہے -

یہی وجہ ہے کہ سیدنا سلیمانؑ تعلیمِ امت کے لئے  اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں :

’’وَأَدْخِلْنِىْ بِرَحْمَتِكَ فِىْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ‘‘[30]

’’ اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالحین بندوں میں داخل فرما ‘‘-

اسی طرح سیدنا یوسف ؑجو نبی اور پیغمبر ہیں- مگر تعلیمِ امت کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں:

’’تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ‘‘[31]

’’مجھے مسلمان اٹھا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے ‘‘-

حضرت سلطان باھو، امام جنید بغدادی اور غوث الاعظم عبد القادر جیلانیؒ کا راستہ کتاب و سنت کی تعلیم کا راستہ ہے- اس لیے غور و فکر کیجئے کہ اللہ  تعالیٰ نے اپنے بندوں میں کیسے درجات بنائے ہیں-جن کو درجے میں رفعت و عظمت بخشی اور ان کو اپنے انوار و تجلیات کے مشاہدہ کے لئے چنا، ان کے ساتھ شامل ہونے کو جنت کے برابر انعام قرار دیا ہے-

گویا اولیاء اللہ کی معیت و صحبت اس دنیا کی جنت ہے-اس لئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ‘‘[32]

’’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو  اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ‘‘-

شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:

پسرِ نوح با بداں بہ نشستؔ
خاندانِ نبوّتش گم شد
سگِ اصحابِ کہف روزے چند
پئے نیکاں گرفت مردم شُد

’’حضرت نوح ؑ کے بیٹے نے بُروں کی صحبت اختیار کی تو اس کی وجہ سے اُس سے نبوّت کا خاندان چھوٹ گیا-اصحابِ کہف کے کتے نےچند روز نیکوں (اولیاءاللہ) کی صحبت اختیار کی تو آدمی بن گیا‘‘-

ان دونوں واقعات کو قرآن مجید میں بہت خوبصورتی اور دلچسپی سے بیان کیا گیا ہے-یعنی  بروں کی صحبت سے دامنِ  نبوت ہاتھ سے چھوٹ گیا- لیکن فقط چند دن اللہ کے ولیوں کی صحبت میں رہنے سے اللہ تعالیٰ نے کتے کے  معاملہ کو بندوں کے معاملات میں شمار کر دیا-

رومیٔ کشمیر سرکار میاں صاحبؒ فرماتے ہیں :

فضل تیرے نال لوہے تردے پھٹیاں دے سنگ رل کے
کُتے وی جنت جان محمد چنگیاں دے سنگ رل کے

امام ابو  عبداللہ قرطبیؒاندلس کے آئمہ تفسیر میں بہت عظیم المرتبت شخصیت ہیں- آپ کی ’’تفسیر القرطبی‘‘  کو تمام مسالک اور تمام نقطہ ہائے نظر میں بڑی مقبولیت حاصل ہے -آپؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’إِنَّ مَنْ أَحَبَّ أَهْلَ الْخَيْرِ نَالَ مِنْ بَرَكَتِهِمْ،  كَلْبٌ أَحَبَّ أَهْلَ فَضْلٍ وَّصَحِبَهُمْ فَذَكَرَهُ اللهُ فِيْ مُحْكَمِ تَنْزِيْلِهٖ‘‘

’’ جو شخص بھی اہل خیر سے محبت کرتا ہے وہ ان کی برکت کو پا لیتاہےاور وہ کتا اہل فضل سے محبت کرتا تھا اور ان کی صحبت میں رہا پس اللہ پاک نے ان کا اچھے انداز میں ذکر فرمایا ‘‘-

یعنی اولیاء اللہ کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن پاک میں توصیف کیساتھ کیا -

امام قرطبیؒمزید لکھتے ہیں کہ :

إِذْ كَانَ بَعْضُ الْكِلَابِ قَدْ نَالَ هَذِهِ الدَّرَجَةَ الْعُلْيَا بِصُحْبَتِهٖ وَمُخَالَطَتِهِ الصُّلَحَاءَ وَ الْأَوْلِيَاءَ حَتّٰى أَخْبَرَ اللهُ تَعَالٰى بِذٰلِكَ فِيْ كِتَابِهٖ جَلَّ وَعَلَا فَمَا ظَنُّكَ بِالْمَؤْمِنِيْنَ الْمُوَحِّدِيْنَ الْمُخَالِطِيْنَ الْمُحِبِّيْنَ لِلْأَوْلِيَاءِ وَ الصَّالِحِيْنَ .

’’ جب ایک کتا صلحاء اور اولیاء کی صحبت و سنگت کی وجہ سے اتنا بڑا عظیم درجہ حاصل کرلیتا ہے یہاں تک  کہ اللہ پاک نے اپنی محترم و مقدس کتاب میں اس کاذکر فرمایا ہے ۔ تو  تمہارا ان موحّدین ، مومنین کے بارے میں کیا خیال ہے جو اولیاء اللہ اور صالحین کی صحبت میں بھی رہتے ہیں؟ اور ان سے محبت بھی کرتے ہیں-

مولانارومؒ فرماتے ہیں:

ہر کہ خواہد ہم نشیند با خدا
او نشیند در حضورِ اولیاء

’’جو کوئی اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتا ہے اسے چاہیے کہ  وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے ‘‘-

یعنی اولیاء اللہ کی صحبت سے بندہ کے حجابات اٹھتے ہیں اور  وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضوری کے قابل ہوتا ہے-

مولانارومؒ مزید فرماتے ہیں:

یک زمانہ صحبتے با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

’’اولیاء اللہ کی صحبت میں ایک گھڑی بیٹھنا سو سال کی بے ریا عبادت سے افضل ہے‘‘-

صحیح بخاری میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

جب اولیاء اللہ ذکرکی مجلس لگاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان میں بیٹھنے والوں کی مغفرت کا اعلان فرماتا ہے :

فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّيْ قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ يَقُوْلُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ: فِيْهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ.

میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ بے شک میں نے انہیں بخش دیا-فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ کہتا ہے: ان ذکر کرنے والوں میں فلاں بندہ تھا جو ان میں سے نہیں تھا، وہ تو کسی کام سے آیا تھا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقٰى بِهِمْ جَلِيْسُهُمْ‘‘[33]

یہ (نیک لوگ ایسے)  بیٹھنے والے ہیں کہ جو ان کے ساتھ بیٹھا ہو وہ بھی نامراد نہیں ہوتا‘‘-

دوسری روایت میں ہے :

فرشتے عرض کرتے ہیں:

’’رَبِّ فِيْهِمْ فُلَانٌ عَبْدٌ خَطَّاءٌ وَ  إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ‘‘

’’یا رب ان میں فلاں بندہ بڑا گہنگار تھا-وہ ان پر گزرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا‘‘-

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’وَلَهٗ غَفَرْتُ هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقٰى بِهِمْ جَلِيْسُهُمْ‘‘[34]

’’میں نے اسے بھی بخش دیاوہ ایسی قوم ہے جن کا ہمنشین بھی بد نصیب نہیں ہوتا‘‘-

یعنی وہ ایسی قوم میں آکر بیٹھا ہے کہ جن کا ہمنشین  کبھی بد نصیب نہیں ہوتا-گویا صحبتِ اولیاء یا فیضِ اولیاء کوئی قصہ و کہانی نہیں ہے بلکہ یہ قرآن مجید کی محکم آیات اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے- کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جیسے ہر چیز میں درجے بنائے ہیں ویسے ہی اپنے بندوں میں بھی درجے بنائے ہیں-

مولانا رومؒ نے ایک دلچسپ حکایت لکھی:

’’ایک تاجر کا طوطا تھا، اُس طوطے نے اس کی دکان میں موجود قیمتی تیل گرا دیا- تاجر نے طوطے کو پکڑ کر اس کی کلغی پہ مارا، طوطا گنجا ہو گیا- جب طوطا گنجا ہو گیا تو وہ یہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں جو بھی گنجا ہے ضرور اس نے تیل گرایا ہوگا اور اس کے مالک نے پکڑ کر اسے مارا ہوگا- کیونکہ طوطے کا تجربہ اور علم ہی اتنا تھا -تو ایک دن اس تاجر کی دکان پر ایک حاجی آگیا جو بیت اللہ کا طواف کرکے آیا تھا- کیونکہ جن کو حج کا شرف نصیب ہوتا ہے اور طواف کے بعد  ان کو اپنا سر منڈوانا ہوتا ہے-اسی طرح وہ حاجی صاحب بھی حج کر کے اور اپنا سر گنج کروا کے آیا تھا، جیسے ہی وہ تاجر کی دکان میں آیا، طوطے کی  نظر اس حاجی پر پڑی تو فورًا بولا کہ لگتا ہے اس نے بھی کسی کا تیل گرایا ہے!!!

حالانکہ دونوں گنجے ہیں لیکن مار کھاکر گنجا ہونے میں اور بیت اللہ کا طواف کر کے سر منڈوانے میں فرق ہے-یعنی یہ بھی ایک مثال ہے کہ گنج بھی ہو تو ایک جیسی نہیں ہوتی-گویا  بندوں، علماء ، اہل علم اور اہل  نظر میں بھی فرق ہوتا ہے- اس لئے اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ نے عام خَلق سے ممتاز کیا  ہے-کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صحبت کو یہ تاثیر عطا فرمائی  ہے کہ جو  بھی ان کی مجلس میں بیٹھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو نرم کر دیتا ہے اور اس کے دل میں محبت  اور نور کو ڈال دیتا ہے -

 دل میں  محبت اور نور کیسے پیدا ہوتا ہے؟

حضرت سخی سلطان باھوؒفرماتے ہیں:

الف: اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو

یعنی مرشد دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا بیج کاشت کرتا ہے- بیج کو پھلنے پھولنے کے لیے ’نفی اثبات ‘ کا پانی چاہیے  ہوتا ہے-نفی سے مراد ’’لا الٰہ‘‘ اور اثبات سے مراد ’’الا اللہ‘‘-یعنی لا الہ الا اللہ کا پانی ملا- جب  بندہ کلمے کی ضرب لگاتا ہے تو بیج توانا و طاقتور ہوتاہے-یعنی طلب کا پودا بڑا ہوتے ہوتے عشق کا پودا بن جاتا ہےجس سے دل میں نورپیدا ہوتا ہے-

حضرت سخی سلطان باھوؒفرماتے ہیں:

یار یگانہ مِلسی تینوں جے سرْ دِی بازی لائیں ھو

اندازہ لگائیں!حضرت سلطان باھوؒ کا کلام الف اللہ سے شروع ہوا اور یے یار یگانہ پہ مکمل ہوا-یعنی آپؒ کا سبق ہے ’’اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘-مثلاً:

الف: اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی
ب: بِسم اللہ اِسم اللہ دا
ت:تسبیح پھِری تے دِل نہیں پھِریا
ث: ثابت صِدق تے قَدم اگیرے
ش: شریعت دے دروازے اُچے
ع: عِشق اسانوں لِسیاں جاتا
ک: کلمے نال مَیں ناتی دھوتی،
م: مُرشد وَسّے سئے کوہاں
ی: یار یگانہ مِلسی تینوں

حق باہو کا حروفِ تہجی کا قاعدہ ہے: الف سے اللہ، ب سے بسم اللہ،  ت سے تسبیح، ث سے ثابت قدمی ایمان، ش سے شریعت، ع سے عشقِ مصطفےٰ (ﷺ)،  ک سے کلمہ، م سے مرشد اور ی سے یار یگانا- یعنی جو حق باہو کا قاعدہ پڑھتا ہےوہ  اللہ سے جڑ جاتا ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے اللہ سے ملنے کا  کلیہ سر کی بازی لگانا یعنی سرقربان کرنا  بتایا ہے-

سر قربان کرنے سے کیا مراد ہے ؟

راہِ تصوف میں سر قربان کرنے سے مراد نفس کی خواہش کو مارنا ہے - اپنے ارادے کو اللہ کے ارادے کے تابع کرنا ہے-اپنی رضا ترک کر کے اس کی رضا کو تلاش کرنا-

آگے آپؒ فرماتے ہیں:

عِشق اللہ وِچ ہو مَستانہ ھو ھو سَدا اَلائیں ھو

یعنی تصورِ اسم اعظم کے ذکر میں ایسے غرق ہو جاؤ کہ تمہارے  ظاہر اور باطن میں ھو ھو کی صدا ہو- آنکھوں اور   سانسوں میں اللہ کے اسم پاک کا تصور ہو- جب آنکھ اور سانس میں اللہ کے اسم کا تصور آ جائے گا تو دل کو اطمینان اور اللہ تعالیٰ کے انوار کا مشاہدہ حاصل ہوگا-

ہمارے مرشد کریم کی یہی دعوت ہے کہ آئیں اور اپنے ظاہر اور باطن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر، رسول اللہ (ﷺ) کی شریعت اور اولیائے  کاملین کی تعلیمات سے پاک اور منور کریں- کیونکہ جس قدر ذکرِ اَللہُ قرار پکڑے گا  اسی قدر ہمارے وجود میں انوار پیدا ہوں گے، برکت اور رحمت ہو گی-اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو-آمین!

٭٭٭


[1](الانعام:101)

[2](الحجر:86)

[3](الفرقان:2)

[4](الاسراء:70)

[5](البقرہ:22)

[6](البقرۃ:158)

[7](صحیح بخاری / صحیح مسلم)

[8](طٰہٰ:12)

[9](التین:3)

[10](البلد:1-2)

[11](مسند احمد)

[12](البقرۃ:125)

[13]( مصنف ابن ابی شیبہ)

[14](النحل:69)

[15](القدر:1)

[16](الاسراء:79)

[17](الاسراء:78)

[18](الاسراء:78)

[19](سنن ابن ماجہ/ مسند احمد)

[20](التوبہ:36)

[21](صحيح البخارى، کتاب التفسير)

[22](القصص:30)

[23](مریم:25)

[24](سنن ترمذی، باب الطب)

[25](صحیح بخاری، کتاب المناقب)

(سنن مسلم، ابواب المناقب)

[26](سنن ابن ماجہ، کتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ)

[27](العادیات:1-5)

[28](الاسراء:70)

[29](الفجر:29، 30)

[30](النمل:19)

[31](یوسف:101)

[32](التوبہ:119)

[33](صحیح بخاری ، كِتَابُ الدَّعَوَاتِ)

[34]( مشكاة المصابيح ،كتابُ الدَّعْوَات)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر