اِصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین معاشرے کو عشقِ الٰہی کی اُسی روش پہ گامزن کرنا چاہتی ہے کہ جوہمارے اَسلاف کی میراث تھی-ہمارے سلف صالحین نے فرد کی اِنفرادیت کو عشقِ الٰہی پہ اُستُوار کرنے کے لیے قرآن مجید اوراُسوہ ٔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کوبنیاد بنایا-یہ حقیقت ہے کہ فرد کی اِنفرادیت معاشرے کی مجموعی صورتحال کا آئینہ ہوتی ہے -اگریہ اَکائی﴿فرد﴾ توحیدِ حق کامتوالا ہوجائے اورخُلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کواَپنا لے تومعاشرے میں عشقِ الٰہی اور اطاعتِ الٰہی کاعکس نظرآنے لگتاہے - لیکن اگر صورت اِس کے برعکس ہویعنی یہ اَکائی﴿فرد﴾نفسِ امّارہ کی چالبازیوں اورابلیس کے مکروہ تارِ عنکبوت میں جاپھنسے تو معاشرہ اِنسانیت کی پست ترین سطح پہ آجاتاہے یاپھر سادہ الفاظ میں کہہ لیں کہ حیوانیت زدہ ہوجاتاہے-جس کے مناظر پورے انسانی معاشرے میں روزانہ کی بنیادوں پہ دیکھے جاسکتے ہیں -
قریباًچودہ صدی قبل اسلامی انقلاب کے مبارک آغاز میں بھی ایک ایک فرد﴿صحابی﴾کی انسانیت کی تکمیل کی گئی تو یہی بادیہ نشین دُنیا کے ایک بڑے حصے میںعشقِ الٰہی کاپیغام پہنچانے میں کامیاب ہوگئے اور اِس دوران عشق الٰہی کی اَیسی اَیسی مثالیں وجود میں آئیں جنہیں پڑھ کر ہردِل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش!اُس دور میں پیدا ہوتا-ہمارے سلف صالحین نے بھی فرد کی تربیت پہ اپنی توجہ مرکوز کی تو مسلمان تاریخِ انسانی کی مہذّب ترین قوم بنے- کریم الابوین نجیب الطرفین سیّدنا و شیخنا حضور غوث الاعظم الجیلانی ص نے بھی فرد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ :-
’’یہی وجہ ہے کہ انسا ن کو آئینہ جمال وجلال اورمجموعۂ کون﴿عالمِ موجودات کاخلاصہ﴾کہاگیا اوراُسے کونِ جامع﴿حاصلِ کائنات﴾ اورعالمِ کبریٰ کانام دیا گیا‘‘-﴿سرالااسرار:۱۲۱﴾
حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہ، نے انسان﴿حاصل کائنات﴾کو نصیحت فرمائی کہ اپنے دِل کی کائنات کو تصورِ اسم اللہ ذات سے مزیّن کرلو تو ہمارے اندر مقامِ انسان ہویدا ہوجائے گا، انسانیت کے لیے بے پایاں احترام پیدا ہو گا اوریوں معاشرے میں محبت اوراخوت کادوردورہ ہوگا-
بلاشبہ فرد کی اِنفرادیت اگرعشقِ الٰہی کی سمت گامزن ہوجائے تو معاشرے میں وحدانیت حق آشکار ہوجاتی ہے-
اِس تفکر کوعصرِ حاضر میں عام کرنے کے لیے رُبع صدی قبل بانیٔ اِصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد کے حکم سے رُوحانی تفکر کے لیے خلوت گزین ہوئے تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ خلوت گزینی ہمارے اَسلاف کے معرفتِ حق تعالیٰ کے گم گشتہ اَوْرَاق کوباقاعدہ ایک رُوحانی نصاب مرتب کرنے پہ منتج ہوگی-رُوحانی مراقبہ کے دوران آپ رحمۃ اللہ علیہ کاقلبِ اَطہر قربِ خداوندی کاگلشن بنارہا-بایں ہمہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ملتِ اسلامیہ اورارضِ وطن کے دگرگوں حالات میں بہتری لانے کے لیے سوچ وبچار کرتے رہے تاآنکہ اصلاحی جماعت کے تنظیمی خدوخال آپ کے قلب میں اِلقا ہوگئے-بعدازاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں خطوط پہ ۷۸۹۱ئ میں اصلاحی جماعت تشکیل دی - آپ رحمۃ اللہ علیہ نے معرفتِ الٰہی کے مذکورہ نصاب کے مطابق تربیت کے لیے اپنے مریدین کودربارعالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ پہ اکٹھا کیا-ہرساتھی کی اِنفرادیت کو تصورِ اسم اللہ ذات کے اَنوار سے مُنوّر فرمایا-اُن میں شریعت مطہرہ کی پاسداری کی لگن واُلفت پیداکی اوراُنہیں توکل علی اللہ میں پختہ کیا - قلیل مُدّت میں اصلاحی جماعت کو عام وخاص میں پذیرائی ملی -آپ رحمۃ اللہ علیہ کے وِصال کے بعد جانشین سلطان الفقر ، شہبازِ عارفاں، سالارِ عارفین وارثِ میراثِ حضرت سُلطان العارفین حضرت سلطان محمدعلی صاحب نے مسندِ خلافت سنبھالی تو نیابتِ سُلطانی کاحق اَدا فر مادِیا - آپ نے اصلاحی جماعت کے پلیٹ فارم کو مزید وسعت دی - اصلاحی جماعت کے زیر انتظام ہرسال ۲۱اور۳۱ اپریل آستانۂ عالیہ حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ﴿دربار حضرت سُلطان ا لعارفین قُدس اللہ سرہ﴾ پہ مرکزی اجتماع بسلسلہ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منعقد ہوتا ہے - عامۃ الناس کو اس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے شہر شہر اجتماعات کااہتمام کیاجاتاہے-اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کے زیرِانتظام 2016ئ کاسالانہ مرکزی ٹورپروگرام پاکستان کے مختلف اضلاع میں مرحلہ وار،پَے بہ پَے کامیاب،پُرہجوم نورانی،رُوحانی ،عرفانی ،وجدانی اوراصلاحی اجتماعات کے انعقادی تسلسل کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے-
07دسمبر 2015ئ ڈیرہ غازی خان
بمقام : حق باھُو گارڈن ضلع ڈیرہ غازی خان
صدارت : عکسِ سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب : ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ا(رح)لحاج محمد نواز القادری صاحب
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا تعلق قرآن و سنت سے قائم کریں جو ہمارے زوال سے نکلنے کا واحد حل ہے اور قرآن و سنت ہمارے لیے ضابطہ حیات ہے اور ہماری ہدایت کا ذریعہ ہے، فرمان الٰہی ہے:
﴿ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی الناس ﴾
’’قرآن کریم پوری انسانیت کیلئے ہدایت و رہنمائی کا سر چشمہ ہے‘‘-
اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
﴿خیرکم من تعلم القرآن و علمہ﴾
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے ‘‘-
قرآن پاک کو پڑھنے ،جاننے،سمجھنے اور اس پر عمل کے بغیر کا میابی ناممکن ہے اور قرآن و سنت کا نچوڑ ظاہر و باطن کی طہارت قلبی کیلئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
﴿لکل شییئ صقالۃ و صقالۃ القلوب ذکر اللّٰہ تعالیٰ﴾
’’ہر چیز کو صاف کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی آلہ ہے اور دل کی صفائی کا آلہ ذکر الٰہی ہے ‘‘-
اور اسی دعوت کو اصلاحی جماعت عام کررہی ہے -
پروگرام میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور سینکڑوں لوگوں نے صاحبزادہ حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کرکے قرآن و سنت کو عملی جامہ پہنانے کاعہد کیا اور آپ نے آخر میں آنے والوں اور معزز مہمانان گرامی اور ملک و قوم کے امن،استحکام اور سلامتی کیلئے دعا فرمائی-
04جنوری 2016ئ مظفر گڑھ
05جنوری 2016ئ راجن پور
صدارت : جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس کا انعقاد کیا گیا -
خطاب : مرکزی ناظمِ اعلیٰ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین الحاج محمد نواز قادری
اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لیے برہان اور قرآن اُتارا لہٰذا ضروری ہے کہ برہان اور قرآن سے رہنمائی حاصل کی جائے - قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہماری کامیابی کا راز بتایا:
﴿قد افلح من تزکی ﴾
’’ تحقیق کامیاب ہوا وہ جو خوب ستھرا ہو، پاک ہو ‘‘ -
طہارتِ جسمانی شریعت سے ہے اور طہارتِ روحانی ذکر اللہ سے ہے - دلوں کی صفائی کا ذریعہ ذکرِ الٰہی ہے جس سے دونوں جہانوں میں کامیابی نصیب ہوتی ہے-
بعد ازاں صلوٰۃ و سلام کا نذرانہ پیش کیا گیا اور ہر ایک کے لئے سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین نے دعا خیر فرمائی - پروگرام میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور کثیر تعداد میں لوگوں کو حضرت صاحب کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوا جس سے سلسلہ عالیہ قادریہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ میں شمولیت حاصل کی -
06جنوری 2016ئ کندھ کوٹ
بمقام: یونین کونسل گرائونڈ سرحد ضلع گھوٹکی
بمقام: نیو اسٹیڈیم گرائونڈ ضلع لودھراں
صدارت :جانشینِ سلطان الفقر ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس
خصوصی خطاب :شہزادۂ سلطان الفقر ، چیئر مین مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جس دور اور عہد میں ہم زندہ ہیں اگر آپ تاریخِ عالم کا مطالعہ کرکے دیکھیں تو یہ ایک طویل سفر کر کے ہم یہاں پہنچے ہیں اس میں تین اَدوار قابلِ ذکر ہیں-
﴿۱﴾ محنت کا ﴿۲﴾ شجاعت کا ﴿۳﴾ ذہانت کا-
اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں غور و فکر کرو تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا خالق و مالک کون ہے جس نے آسمانوں کو طبق در طبق ایک ڈسپلن کے ساتھ پیدا کیا ہے اس کائنات کی کسی چیز کو بھی فضول اور بے کار پیدا نہیں کیا اور یہ سب کچھ انسان کی خاطربنایا اور کسی نہ کسی واسطہ سے انسان کو مخدوم بنایا تاکہ انسان کو چیک کیا جائے-
﴿ خلق الموت والحیوٰۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا ﴾ ﴿الملک :۲﴾
’’ زندگی اور موت کو اس لئے پیدا فرمایا تاکہتمہاری آزمائش کی جائے کہ تم میں سے بہتر عمل کس کا ہے ‘‘ -
ہمارا دین اور ہماری کتاب ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم ان میں غور و فکر کریں اور تدبر کے راستے کو اختیار کر کے علمی و عملی میدان میں کامیابی و کامرانی کو حاصل کریں - حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے شباب کو بڑھاپے سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے، غنا کو محتاجی سے پہلے ، فراغت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو- یعنی میدانِ عمل میں قدم رکھو-
پروگرام میں سینکڑوں کی تعداد میں عوام الناس نے شرکت کی اور سالارِ عارفینحضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کر کے سلسلہ عالیہ قادریہ حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ میں شمولیت اختیار کی- صدرِ محفل نے آخر میں تمام امتِ مسلمہ اور آنے والے تمام مہمانانِ گرامی اور ملک پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے دعا فرمائی-
بمقام:حق باھُو فٹبال اسٹیڈیم ضلع وہاڑی
صدارت: جانشینِ سلطان الفقر ، جگر گوشہ سلطان العارفین ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس
خصوصی خطاب : چیئر مین مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
معاشرہ فرد کا آئینہ ہوتا ہے اگر کسی انسان نے اپنا چہرہ اورکردار چیک کرنا ہو تو اپنے معاشرے کو دیکھ لے ، معاشرے سے بڑھ کر بہتر آئینہ نہیں مل سکتا - ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے معاشرتی حالات میں جھانک کر اپنی مسلمانی کا جائزہ ضرور لینا چاہئے - جو پیغام ناچیز عرض کرنا چاہتا ہے اُس سے قبل چند روایات پہ نظر دوڑا لیں تاکہ واضح ہو جائے کہ پیغام کیا ہے ؟
﴿۱﴾ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں عرض کیا گیا :
’’ کونسا مسلمان افضل ہے؟آپ نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ - ﴿صحیح بخاری کتاب الایمان﴾
﴿۲﴾ محدثین نے متونِ حدیث میں الگ ابواب قائم کئے جن کے تحت اِس موضوع پہ کئی کئی احادیث جمع فرمائیں کہ ’’میّت کی ہڈی توڑنا ایسے ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا‘‘ - مثلاً دیکھئے امام بخاری کے شیخ امام عبد الرزاق صنعانی کی المصنّف اور امام ابن ماجہ کی سُنن اور دیگر کئی کتبِ احادیث-
بمقام: میونسپل اسٹیڈیم خانیوال
صدارت :جانشینِ سلطان الفقر ، جگر گوشہ سلطان العارفین ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس
خصوصی خطاب : چیئر مین مسلم انسٹی ٹیوٹ ، مرکزی سیکرٹری جنرل اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
دین بُنیادی طور پہ خیر کی قُوّت ہے جس کا مقصد و منشا یہ ہے کہ زمین پہ خیر کا فروغ ہو اور شر کا خاتمہ ہو ، اِس مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیا کرام علیھم السلام کو مبعوث فرمایا جس سلسلہ کی آخری ہستی خاتم الانبیا حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ ہیں آپ پر سلسلہ نبوت ختم ہوا - تو خیر کے فروغ اور شر کے خاتمہ کی ڈیوٹی کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام وضع فرمایا کہ اب دین کے بہترین اشخاص و افراد کے ذِمّہ یہ ڈیوٹی کر دی جائے اِس نظام کو قرآنی اصلاحی میں ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کہتے ہیں کہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا -
بمقام: پہاڑی والی گرائونڈ، فیصل آباد
صدارت: جانشینِ سلطان الفقر ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس
خصوصی خطاب: مرکزی سیکرٹری جنرل اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
آپ نے خطبہ کے بعد آنے والے معزز مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا کہ موسم کی اس شدت و سخت سردی کے باوجود آپ تشریف لائے - آپ نے فرمایا کہ اس پروگرام کا مقصد ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح ہے ، آج جب ہم اپنا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر جہاں بہت سی خوبیاں نظر آتی ہیں وہیں بہت سی ایسی چیزیں بھی ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے اور کچھ خواص اور اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے - اُن خواص میں سب سے بڑا خاصہ ایمان اور یقین کی قوت ہے کہ جب کسی قوم سے یقین نکل جائے تو اُس کے قویٰ ویسے ہی مضمحل ہو جاتے ہیں اِس لئے حضور پیغمبرِ اسلام ﷺ نے فرمایا کہ ﴿نجا اول ھذہ الامۃ بالیقن والزھد ﴾ ﴿جامع الاحادیث امام سیوطی ، کنز العُمال امام علی بن حسام الدین المتقی الہندی﴾ کہ میری اُمت کا او ل طبقہ یقین اور زُہد کی وجہ سے نجات پا گیا - امام بخاری نے کتاب الایمان میں روایت نقل کی کہ ﴿الیقین الایمان کُلہ،﴾ کہ یقین سارے کا سارا ایمان ہے -
اِس لئے یقین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ، دُنیا کے باقی سرمایوں اور دولتوں کی طرح یقین بھی ایک دولت ہے جب تک یقین کی دولت ہاتھ میں رہتی ہے تو فتح و نصرت انسان کا مقدر بنی رہتی ہے - علامہ اقبال اسی بات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے بال و پرِ روح الامیں پیدا
حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ، فرماتے ہیں:
ز ہر حرف توحید بینی ہر سطر توحید بین
باش دائم در مطالعہ تا شوی حق الیقین
کہ تو ہر حرف اور ہر سطر میں اس کی توحید ، اس کی وحدانیت کو پائے گا جب حق الیقین کی دولت تیرے ہاتھ میں آجائے گی - اِس لئے صُوفیائے کرام نے افراد کی تربیت یقین کے نصاب سے کی کہ لوگوں کے اندر بے یقینی کو ختم کیا جائے ایک بے یقین انسان کی نہ کوئی منزل ہوتی ہے نہ مقصد اور نہ ہی کوئی نصب العین ، یقین ہی یہ ساری چیزیں عطا کرتا ہے - ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جن کے ہاتھوں میں فتح و نصرت رکھتا ہے انہیں پہلے یقین کی دولت سے نوازتا ہے - آج ہمارے زوال کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے اندر سے یقین اٹھ گیا ہے ، اعتماد نہیں رہا- اس یقینِ کامل کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور وہ کسی مردِ کامل کی نگاہ اور صحبت سے نصیب ہوتا ہے اِصلاحی جماعت اِسی یقین کی دولت سے مالا مال کرنے کی دعوت دے رہی ہے -
پروگرام میں فیصل آباد کی اہم ترین شخصیات نے موسم کی شدت اور ناہموارگی کے باوجود شرکت کی اور ہزاروں لوگوں کا مجمع تھا ،سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے سلسلہ عالیہ قادریہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ میں جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کے دست ِمبارک پہ بیعت کر کے شمولیت اختیار کی- اور آپ نے آخر میں تمام مسلمانانِ عالم اور بالخصوص ملک پاکستان کے امن و استحکام کے لئے دعا فرمائی -
بمقام: چرچی گرائونڈ جھنگ
صدارت : سالارِ عارفین ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس
خصوصی خطاب:مرکزی سیکرٹری جنرل اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جو پیغام اصلاحی جماعت لے کر آپ کے پاس آئی ہے اس کا تعلق براہِ راست ہمارے ظاہر سے بھی ہے اور ہمارے باطن سے بھی ہے -
اِس وقت دُنیا بھر میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مرض نفسیات کا مرض ہے جس کی زیادہ تر وجہ ﴿Isolation﴾ احساسِ تنہائی اور احساسِ اجنبیّت ہے ، حیرت ہے کہ اس وقت دُنیا کی آبادی 7.4 بلین ﴿تقریباً ساڑھے سات ارب﴾ ہے اور اِنسان کو اتنی کثیر انسانی آبادی میں کوئی ایسا نہیں ملتا جسے یہ اپنا سمجھے اور جس سے یہ قریب ہو - انسان کی بُنیادی آرزو اور تمنّا ہی یہ ہوتی ہے کہ جب میں کسی کو پکاروں تو اپنائیت کے احساس سے لبریز جواب ملے اور میں کسی کو اپنا سمجھ کر اُسے اپنے قریب کروں لیکن اندھی مادیّت پرستی نے انسانی ذہنوں اور دلوں میں اتنے فاصلے پیدا کر دئیے ہیں کہ اب انسان کو ایسا ممکن نظر نہیں آتا - اِس لئے جب ہم دین میں جھانکتے ہیں تو وہ ہمیں راہنمائی دیتا ہے کہ جب تم ہر طرف سے اجنبی اور اکیلے کر دئیے جاؤتو ایک ہستی اس کائنات میں ایسی ہے جو تم سے تمہاری سوچ سے بھی بڑھ کر محبت فرماتی ہے اور تمہارے اس قدر قریب کہ فرمایا ’’ہم بندے کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ‘‘ -﴿ق ۶۱﴾ وہ یہ چاہتا ہے کہ مجھ سے سوال کرو ، مجھ سے ہمکلام ہوجاؤ میں تمہارا ہوں اور تمہارے قریب ہوں جیسا کہ سورہ البقرہ ﴿آیت ۶۸۱﴾ میں ارشاد فرمایا کہ
’’اے حبیبِ مکرم ﷺ ! میرے بندے جب میری نسبت آپ سے سوال کریں تو ﴿انہیں فرما دیا کریں کہ ﴾ میں قریب ہوں ، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے ‘‘ -
اِس لئے دُعا ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمارے احساسِ تنہائی اور اِحساسِ اجنبیّت کو ختم کرتا ہے اور ہمیں ہماری کمتری کے باوجود ایک برتر و اعلیٰ ترین ہستی سے مخاطب کرتا ہے - اِس لئے اللہ تعالیٰ کو یہ عمل انتہائی محبوب ہے کہ اُس کے بندے اُس سے مانگیں ، اُس سے کلام کریں - جامع الترمذی کتاب الدعوات میں حدیثِ پاک ہے کہ ﴿لیس شیئٌ اکرم علی اللہ تعالیٰ من الدعا﴾ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دُعا سے زیادہ کوئی چیز بزرگ نہیں - سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ جہاں آدمی پہ اور کئی اسرار و رموز منکشف کرتا ہے وہیں یہ پہلو بھی آدمی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ آقا ﷺ نے زندگی کے ہر عمل کی دُعا مانگی بھی ہے اور تجویز بھی فرمائی ہے ، مثلاً : گھر میں داخل ہونے کی دعا گھر سے خارج ہونے کی دعا ، مسجد میں آنے اور نکلنے کی دعا ، آئینہ دیکھنے کی دعا ، بال سنوارنے کی دعا ، وضو کی دعا ، غسل کی دعا ، کھانا کھانے سے قبل اور بعد کی دعا ، چاند دیکھنے کی دعا ، اِسی طرح میت کیلئے دعا اگر بالغ ہے الگ ، اگر نا بالغ ہے تو مذکر و مؤنث کی الگ الگ دعا ، والدین کیلئے الگ ، بچوں کیلئے الگ ، رشتہ داروں کیلئے الگ ، پڑوسیوں کیلئے الگ ، اہلِ خانہ کیلئے الگ ، گویا ایک ایک عمل کی الگ الگ دعا فرمائی اور انسان کو ایسا عملی نصاب سکھا دیا کہ کائنات کی کسی بھی چیز سے اجنبیت و غیریت کا احساس اس میں پیدا ہو ہی نہیں سکتا اور اپنے ہر عمل کی دعا کے ذریعے ہمہ وقت اپنے خالق سے ہم کلام رہتا ہے - دعا بذاتِ خود ایک عبادت ہے بلکہ ترمذی شریف کی روایت کے مطابق دعا ﴿اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ﴾ یعنی دُعا عبادت کا مغز ہے -
پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی - سیاسی سماجی، مذہبی اور دانشور، وکلائ ، ڈاکٹرز اوردیگر اہم شخصیات نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی- آخر میں سینکڑوں لوگوں نے سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد علی صاحب کے دست ِمبارک پہ بیعت کا شرف حاصل کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت اور دین کے احیائ کے لئے تجدیدِ عہد کیا- اور آپ نے پوری امت مسلمہ اور پاکستان و عالمِ اسلام کے اتحاد و امن و سلامتی کے لئے دعا فرمائی-
بمقام: چاندنی چوک، ضلع بھکر
صدارت:جانشین سلطان الفقر وارثِ میراثِ سلطان العارفین حضرت سُلطان محمد علی صاحب
خصوصی خطاب:جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ہمارے معاشرے میں چاروں اطراف خوف وہراس ہے لیکن اِن حالات میں بھی ہمارے لیے سوچنے اورتدبر کرنے کے راستے کھلے ہیں ہمیں غوروفکر کرنا چاہیے کہ ہمارے بچے قربان کیوں ہورہے ہیں -دُنیا کے اندر جو آگ اوربارود کاکھیل کھیلا جارہا ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟اس سوال کے کئی جواب ہیں لیکن بزرگانِ دِین و صُوفیائے کرام جن کاظاہر اورباطن قرآن وسنت کاعملی نمونہ تھا انہوں نے بھی اس کامقابلہ کیا -اُنہوں نے اس کے بنیادی اسباب پہ غوروفکر کیا جو سوچ اس عمل کے پیچھے کارفرما تھی اورپھر اس کی اصلاح بھی کی- قرآن نے ہدایت کے لیے تین راستے مقرر فرمائے
﴿۱﴾علمِ تاریخ ﴿۲﴾ فطرت اوراشیائِ فطرت میں غوروفکر ﴿۳﴾خود انسان کو اپنے اندر اُترنے اورغوروفکر کرنے کاراستہ -
ان تینوں کے ذریعہ سے ان میں غور وفکر کرکے اس کی بارگاہ تک رسائی حاصل کی جائے-اگر ہم اپنے اسلاف کودیکھیں تواُنہوں نے اس قدر کارنامے سرانجام دئیے کہ ان کانام رہتی دُنیا تک باقی ہے- اگر تاریخ میں دیکھیں تو ابنِ خلدون ، ابن عساکر اور کئی بلند پایہ آئمہ کے اسما آتے ہیں اگر سائنس کی بات کریں تو مسلمانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں جس کی تفصیلات لاکھوں اوراق پہ مشتمل ہیں اُن کا اعتراف خود مستشرقین نے بھی اپنی کتب میں بڑے کھلے دِل سے کیا مثلاً اِس موضوع پہ جوناتھن لیون کی ’’دی ہاؤس آف وزڈم‘‘ اور مائیکل مورگن کی ’’لوسٹ ہسٹری‘‘ بڑی شاندار کتابیں ہیں ’’دی میکنگ آف ہیومنٹی‘‘ میں فرانسیسی مصنف رابرٹ بریفالٹ اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ آج کے مغرب کی سائنسی ترقی مسلمان سائنسدانوں ہی کی کاوشوں کی ارتقا یافتہ شکل ہے - اِس لئے فطرت اور اشیائے فطرت میں غور و تدبر بھی ہمارے اسلاف کی فطرتِ لازمہ کا حصہ تھا -
اور تیسرے حصے کی جانب جب ہم بڑھتے ہیں یعنی تاریخ و فطرت کے علاوہ جب آدمی خود اپنے من کا مطالعہ کرتا ہے تو اِس پہ بھی صُوفیائے کاملین نے بہت ہی عظیم اور شاندار علمی و فکری خدمات سر اَنجام دی ہیں - عملی تصوف کی جانب آتے ہوئے صوفیائے کرام فرماتے ہیں آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بنیادی حصوں پہ غوروفکر کرکے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اوران کی اصلاح کرے اوروہ پانچ حصے یہ ہیں ﴿۱﴾جسم ﴿۲﴾ نفس ﴿۳﴾ قلب ﴿۴﴾ رُوح﴿۵﴾سِرّ یعنی راز-ان
بمقام: گورنمنٹ ہائی سکو ل گرائونڈ، میانوالی
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین ،جانشین سلطان الفقرحضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس
خصوصی خطاب: جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین ، چیرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ و چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر جو کچھ پیدا فرمایا ایک نظم اورڈسپلن کے ساتھ پیدا فرمایا اور اِسے اتنی وُسعت عطا کی کہ لاکھوں سائنسی آلات کے باوجود اس وسیع وعریض کائنات کو calculateنہیں کیا جاسکتا - مثلاً : اب تک کے معلوم سب سے بڑے سیّارے وی وائی کیناس میجورس ﴿ریڈ ہائپر جوائنٹ﴾ کی مثال لے لیں جو کہ زمین سے تقریباً پانچ ہزار نوری سال کی دوری پہ ہے اور نوری سال سے مراد ہے کہ ایک برس میں خلا کے اندر روشنی جتنا سفر طے کرتی ہے جو کہ ایک نوری سال میں سائنسی تحقیق کے مطابق چرانوے کھرب اکسٹھ ارب ﴿94,61,000,000,000﴾ کلومیٹر بنتا ہے اور یہ سیارہ یہان سے تقریباً پانچ ہزار نوری سال کی مسافت پہ ہے - اِس سیّارے کا ڈایا میٹر دو ارب اسی کروڑ کلومیٹر ﴿2,800,000,000﴾ ہے سائنسی شمار کے مطابق اگر ایک مسافر طیّارہ اس کے ایک سرے سے نو سو ﴿900 ﴾ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑے تو اُس طیّارے کو تقریباً گیارہ سو ﴿1100﴾ برس لگیں گے ایک چکر مکمل کرتے ہوئے اور یہ یہاں زمین سے دیکھتے ہوئے آسمان پہ ایک باریک سے نقطے کی طرح نظر آتا ہے اور اُن لاکھوں بلکہ لا تعداد ستاروں اور سیّاروں میں ایک چھوٹا سا دِکھتا ہے جو صرف و صرف ہماری کہکشاں میں نظر آتے ہیں اور نہ جانے کتنی سینکڑوں اربوں کہکشائیں اور ہیں جو ابھی تک چشمِ انسانی سے اوجھل ہیں - اگر وہ سبھی بھی مدِّ نظر رکھی جائیں اور ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے انسان یہ سوچے کہ جس نے اس پوری کائنات کو پیدا فرمایا ہے اُس نے اِس کائنات میں برتری کس کی جتلائی ہے اور کس کی عظمت کا اعلان فرمایا ہے :
بمقام: پریس گرائونڈ، ضلع خوشاب
صدارت: سرپرستِ اعلی اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب
خصوصی خطاب:جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین، چیف ایڈیٹر ماہنامہ مرأۃ العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ہمارے ملی اورمذہبی تشخص کی بنیاد بتدریج کم ہورہی ہے اوراس میں مرحلہ وار کمی آرہی ہے جو آج سے قبل ہمارے اسلاف کاتشخص تھا وہ ہمارانہیں رہا - خاص کر دین کے مقاصد میں ہم گزشتہ دو اڑھائی صدیوں سے بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہیں ، ہماری سوچ اور فکر کو خشکی اور فرقہ وارانہ تعصّب نے بری طرح دُھندلا کر رکھ دیا ہے - دیکھیں ہر چیز کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں سائنس کے ، طب کے ، نفسیات کے ، سیاست کے ، معیشت کے غرض کہ ہر ایک شُعبۂ علم کے اپنے اپنے مقاصد ہوتے ہیں گوکہ دین اِن سب کا جامع ہے مگر دین کے مقاصد کیا ہیں ؟ اگر دین کا مقصد فقط ایجادات ہے تو کیا ایجادات بغیر دین کے نہیں ہو سکتیں ؟ اگر دین کا مقصد فقط سیاست اور معیشت اور نظامِ حکومت کی اصلاح ہے تو کیا یہ بغیر دین کے نہیں ممکن ؟ اِصلاح کا یہ عمل بغیر دین کے بھی دُنیا میں ہوا ہے اِس لئے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ دین ان امور کو مقاص نہیں بنا لیتا بلکہ ایک ’’عظیم تر مقصد‘‘ تک رسائی کے سہولت کار کے طور پہ دیکھتا ہے - وہ عظیم تر مقصد مختلف انداز میں علما و صوفیا نے واضح فرمایا ہے - صوفیائے کرام قرآن مجید کی اِن آیات کو عظیم تر مقصد کیلئے پیش فرماتے ہیں کہ ﴿وَاَنَّ اِلیٰ رَبِّکَ الْمُنْتَہیٰ﴾ ﴿النجم ۲۴﴾ یعنی آخری حد تو خُدا کی طرف ہی ہے - اِسی طرح سورہ النسأ کی آیت ﴿۶۴۱﴾ میں حکم ہے کہ ﴿وَاَخْلَصُوْا دِیْنَہُمْ ِﷲِ ﴾ اور جنہوں نے اپنا دین اللہ ہی کیلئے خالص کر دیا آگے فرمایا کہ وہ مؤمنین کے ساتھ ہوں گے اور بہت جلد مؤمنین کو اجرِ عظیم سے نوازا جائے گا - یعنی حق تعالیٰ کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اُس سے اپنے آپ کو بُلند کرکے صرف و صرف اللہ کی جانب رجوع کرنا اُس کے قرب اور معرفت اور محبت کو پانا - صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر مقصود و مطلوب ذاتِ حق تعالیٰ اور اُس کا قرب ہے تو پھر نیند بھی عبادت بن جاتی ہے لیکن اگر مقصود و مطلوب ’’وہ‘‘ نہیں تو بیداری بھی غفلت میں شمار ہوتی ہے ، جیسا کہ حضرت سُلطان العارفین قدس اللہ سرہ، فرماتے ہیں :
ہک جاگن ہک جاگ نہ جانن ہک جاگدیاں ای سُتّے ھُو
ہک سُتیاں جا واصل ہوئے ہک جاگدیاں ای مُٹھے ھُو
کی ہویا جے گھوگھو جاگے جیہڑا لیندا ای ساہ اپٹھے ھُو
میں قربان تنہاں توں باھُو جنہاں کھوہ پریم دے جُتے ھُو
صوفیائ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قول اورعمل کو قبول نہیں فرماتا جب تک کہ نیت درست نہ ہو اورنیت ایسی چیز ہے جسے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اوراگر نیت درست ہو توآدمی اسی سے قربِ ذات پالیتا ہے-
موسمی نزاکتوں کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے عوام الناس جوق درجوق فیضِ حضرت سُلطان العارفین قدس اللہ سرہ، پانے کے لیے اجتماع میں شریک ہوئے- بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درود سلام کانذرانہ پیش کرنے کے بعد محفل اختتام پذیرہوئی - سینکڑوں لوگوں نے سلسلہ عالیہ قادریہ
24جنوری 2016ئ اسلام آباد
بمقام: جناح کنونشن ہال، اسلام آباد
صدارت: سرپرستِ اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین ،جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب
خصوصی خطاب: جنرل سیکرٹری اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین ، چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب
فرد سے معاشرہ ہے اور فرد کے اندر کی شگفتگی یا وحشت سے معاشرے کی شگفتگی یا وحشت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، فرد جس قدر محسن ہو گا معاشرہ اُسی قدر محسن ہو گا فرد جس قدر فسادی ہوگا معاشرے میں اُسی قدر فساد واقع ہو گا - فرد کے باطنی فساد کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نصاب عطا فرمایا، جسے علمِ تصوُّف کہا جاتا ہے - علمِ تصوف کے بنیادی مآخذ اورمراجع قرآن اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں - اِس کی دونوں مثالیں یعنی قرآن سے بھی اور سُنّت سے بھی عرض کروں گا :
قرآن مجید میں سورہ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت خضرعلیہ السلام کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَعَلَّمْنٰ ہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ کہ اُنہیں علمِ لدُنّی سکھایا گیا - امام بغوی تفسیر معالم التنزیل میں فرماتے ہیں کہ ﴿أَیْ عِلْمَ الْبَاطِنَ اِلْہَاماً ﴾ یعنی علمِ باطن الہام کے ذریعے سکھایا - امام قُرطبی نے بھی یہی فرمایا کہ ﴿أَیْ عِلْمَ الْغَیْبِ﴾ یعنی علمِ لدُنّی سے مراد علمِ غیب ہے اور آپ نے حضرت ابن عطیّہ کا قول نقل کیا کہ ’’حضرت خضر علیہ السلام کا علمِ لدُنّی اُن کی باطنی معرفت تھی جو اُن کی طرف وحی کی گئی ‘‘ - اور یہ علم مسلمان کیلئے قرآن میں کھول دیا گیا ہے جو چاہے کہ حاصل کرے وہ اس کی شرائط کو پورا کرکے سیکھ سکتا ہے اور مآخذ بھی قرآن ہی ہے مثلاً مشکوٰۃ شریف کتاب العلم میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود ص کی بیان کردہ روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا’’قرآن سات حرفوں پر اُتارا گیا ہے اور حرفوں کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ‘‘ -
حدیثِ پاک میں اگر جھانکیں تو بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے جسے ’’حدیثِ جبریل‘‘ کہا جاتا ہے جس میں جبریلِ امین آقا ﷺ سے کچھ سوالات کرتے ہیں جن میں سے ایک سوال کرتے ہیں کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ احسان کیا ہے ؟‘‘ جس کے جواب میں آقا ﷺ نے فرمایا کہ ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ اُسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہو تو اتنا ضرور ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘ - اِس حدیث کے متعلق شارحِ مسلم امام نَوَوِی فرماتے ہیں کہ ﴿ہُوَ اَصْلُ الْاِسْلَام﴾ کہ یہ حدیث اسلام کی اصل ہے اور شارحِ بخاری علامہ ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ ﴿یََشْتَمِلُ عَلٰی شَرْحِ الدِّیْنِ کُلِّہٰ﴾ کہ یہ پورے کے پورے دین کی شرح پہ مشتمل ہے - امام نَوَوِی اپنی کتاب الاربعین میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ بے شک اسلام ، ایمان اور احسان کو جمع رکھنے کا نام دین ہے ‘‘ یعنی اِن تینوں کا ہونا لازم ہے - احسان ہی کو تصوف کہا گیا اور سرار و رموز کا منکشف ہونا تصوف ہے اور اِسی کو احسان کہا گیا ہے ، مثلاً امام سیوطی شرح سنن النسائی اور امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری میں فرماتے ہیں کہ ’’پہلے دونوں مقامات ﴿اسلام و ایمان﴾ سے یہ ﴿اِحسان﴾ ارفع و اعلیٰ ہے کہ آدمی پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اِس قدر غالب ہو کہ گویا وہ اُسے اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے ‘‘ - ابن عبد اللہ الارمی الحرری نے الکوکب الوہاج شرح مسلم میں لکھا ہے ﴿ہٰذَا اِشَارَہٌ اِلٰی مُقَامِ الْمُشَاہَدَۃِ﴾ کہ یہ مقامِ مُشاہدہ کی طرف اِشارہ ہے -
26جنوری 2016ئ ایبٹ آباد
بمقام:کامرس کالج گرائونڈ، ایبٹ آباد
صدارت: جانشینِ سلطان الفقر ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس
خصوصی خطاب: مرکزی سیکرٹری جنرل اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ہر قسم کے فرقہ وارانہ ، نسلی، قبائلی، علاقائی اور لسانی تفریقات سے بالا تر تر ہو کر اللہ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا عملی پرچار کر رہی ہے -
آج ہمارا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نئی جنریشن تیزی سے دین سے دُور ہو رہی ہے جس کی وجہ عمومی طور پہ نوجوانوں کی فرقہ وارانہ مباحث اور واقعات سے بیزاری ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں سیدھا ، سادہ اور جھگڑوں سے پاک راستہ دِکھایا جائے - لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اِس بات پہ کوئی خاص توجُّہ نہیں دی جاتی کہ نوجوان نسل قریب آ رہی ہے یا دُور ہو رہی ہے - فرقہ واریّت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ، حضور خاتم الانبیا ﷺ نے ہمارے اوپر یہی خوف فرمایا کہ تم آپس میں جھگڑو گے - حضرت عقبہ بن عامر ص فرماتے ہیں کہ میں نے آقا ﷺ کو جب آخری مرتبہ منبر پہ خُطبہ دیتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ ’’مجھے تم پہ یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے یہ خدشہ ہے کہ دُنیا پرستی میں مُبتلا ہو جاؤ گے اور یہ کہ آپس میں لڑو گے اور ایک دوسرے کو قتل کرو گے جس طرح تم سے پہلے والوں نے کیا ‘‘ - ﴿صحیح مسلم کتاب الفضائل﴾ اِس لئے ہمیں اپنا جائزہ لینا ہے کہ کیا ہم اپنے محبوب ﷺ کی اُمّت میں دراڑیں تو نہیں پھیلا رہے ؟
مزے کی بات یہ کہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ کو بُنیاد بنا کر جھگڑتے ہیں مگر کبھی جھانک کر نہیں دیکھا کہ وہ ایک دوسرے سے کیسے معاملہ رکھتے تھے ، مثلاً : امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ حصولِ علوم کے بعد دو سال تک حضرت امام جعفر صادق کی صھبت میں بیٹھتے رہے اور فرمایا کہ ’’اگر یہ دو برس میں ان سے تحصیل نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتا ‘‘ -﴿ردّ المحتار علامہ ابن عابدین شامی﴾ اِسی طرح جس دِن حضرت امام ِ مالک کا وصال ہوا امامِ شافعی بہت روئے اور فرمایا ﴿مصیبہ ما اعظمھا مات
بمقام :اختر نواز سٹیڈیم کھلا بٹ ٹائون ضلع ہری پور
صدارت: جانشینِ سلطان الفقر ، سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس
خصوصی خطاب :صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
کہ ہم نے کبھی غور نہیں کیا ہمارے ہر دن کا تیسرا حصہ ہماری غفلت کی نذر ہوتا ہے یعنی اوسطاً لوگ آٹھ گھنٹے سوتے ہیں اور یہ چوبیس گھنٹے کا تیسرا بنتا ہے گویا ایک برس میں چار ماہ کا عرصہ سوتے ہوئے گزرتا ہے اور دس برس میں تین سال اور تیس برس میں دس سال - اِس لئے جب قرآن پاک یہ کہتا ہے کہ ﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ﴾ کہ بے شک انسان خسارے میں ہے ، اِس کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ ﴿أَنَّ الْاِنْسَانَ لَا یَنْفَکُ عَنْ خُسْرٍ﴾ کہ بے شک انسان خسارے سے الگ ہو ہی نہیں سکتا - اور مزید آگے فرماتے ہیں کہ خسارہ تو اصل جمع پونجی میں ہوتا ہے آدمی کی جمع پونجی ﴿ہُوَ عُمْرُہ،﴾ آدمی کی عُمر ہوتی ہے - مگر ہم نے اِس میں بہت کم غور کیا ہے کہ قرآن پاک کی ایسی آیات ہمیں کس جانب توجُّہ دِلاتی ہیں علّامہ ابن کثیر نے حضرت امام شافعی کا ایک قول سورہ العصر کے متعلق نقل فرمایا ہے کہ ﴿لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ہٰذہِ السُّوْرَۃَ لَوَسَعَتْہُمْ﴾ کہ اگر لوگ صرف اِسی ایک سورہ میں غور کر لیں تو یہ انہیں کافی ہو رہے گی - اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں نصابِ زندگی دیا ہے جیسا کہ اِرشاد فرمایا ہے-
’’ قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے‘‘-
بمقام:جہلم اسٹیڈیم ضلع جہلم
صدارت: جانشین سلطان الفقر سر پرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس
خطاب: الحاج محمد نواز قادری
آج اگر ہم غور و فکر کریں کہ اس ذات نے ہمیں کس مقصد کی خاطر پیدا فرمایا جس نے قرآن کریم میں ہماری عظمت کا تذکرہ ﴿صورکم فاحسن صورکم﴾’’ تمہیں بہترین صورت عطا کی اور سب سے زیادہ حسین بنایا‘‘ اس کی زندگی کا مقصد اپنی ذات کی معرفت و پہچان اور قرب و وصال ٹھہرایا - ایک بات واضح رہے کہ اس کی ذات سے تعلق کو استوار کرنے کے لئے اس وقت رابطے کا سب سے بہترین ذریعہ کتاب اللہ یعنی قرآن پاک ہے فرمان الٰہی ہے:
﴿و ننزل من القرآن ما ھوشفائ ورحمۃ للمومنین ﴾
’’ اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفائ اور رحمت ہے ‘‘ -﴿الاسرائ:۲۸﴾
چونکہ بیماری کا تعلق دل سے ہے ﴿فی قلوبھم مرض ﴾ اور قرآن شفائ ہے جب قرآن کریم کو اپنے اوپر لاگو کیا جاتا ہے تب کامیابی ملتی ہے اور دلوں کے امراض کا علاج ذکرِ الٰہی میں ہے-
پروگرام میں سردی کی شدت اور بارش کے باوجود بھی سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور یہ ثابت کیا کہ اللہ اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے درمیان سردی کی شدت رکاوٹ نہیں بن سکتی- اور کثیر تعداد میں لوگوں نے بیعت کا شرف حاصل کر کے سلسلہ عالیہ قادریہ حضرت سلطان باھُو میں شمولیت اختیار کی اور آخر میں جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم الاقدس نے تمام احباب کو ملک کے امن و امان کے لئے دعا خیر فرمائی-
بمقام: شیخوپورہ اسٹیڈیم
صدارت:جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلکم (رح)الاقدس
خصوصی خطاب:صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
دینِ اسلام زندگی کا اخلاقی ، سماجی ، معاشرتی ، اقتصادیاتی ، ایمانی اور مذہبی ہر طرح کے اخلاقی پہلو میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اور یاد رکھیں ہمیشہ تربیتی عمل کو معاشرے سے فرد کی بجائے فرد سے معاشرے کی طرف لایا جائے کیونکہ افراد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے - ہماری یہ بنیادی تربیت جو ایک گھر میں بیٹے اور بیٹی کو دی جاتی تھی وہ ہم سے چھین لی گئی ہے - فرد کا بہترین آئینہ اس کا معاشرہ ہوتا ہے جو اس معاشرے میں اسے نظر آتا ہے - معاشرے کی خوبیاں اور خامیاں در
بمقام : ریلوے اسٹیڈیم گڑھی شاہو لاہور
میلاد مصطفی ﷺ و حق باہو کانفرنس و خصوصی دعا برائے کشمیر
صدارت : جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مد ظلکم الاقدس
خصوصی خطاب : صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اصلاحی جماعت اس مشن کو لے کر چل رہی ہے جس کا تعلق انسان کے ظاہر سے بھی ہے اور انسان کے باطن سے بھی ہے -جس خطے میں ہم بس رہے ہیں اس خطے میں اسلام کا باقاعدہ طور پر پر چار نہیں تھا ، یہاں پر ان لوگوں نے اسلام کا پرچار کیا جو تعصب اور نفرت اور منافرت سے پاک تھے ، جو اپنے ظاہر اور باطن میں پاک تھے ، جس کے نتیجے میں لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل بھی ہوئے اور دوسرے مذاہب سے ٹکرائے بھی نہیں - اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر جذباتیت نہیں تھی ، قوت برداشت تھی اور انسانیت کی ہمدردی تھی کیونکہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات پر انسان کو شرف بخشا- ﴿ ولقد کرمنا بنی آدم ﴾ اور ہم نے اولادِ آدم کو عزت و تکریم عطا کی - لیکن یہ شرف کیسے ملتا ہے
بمقام: سنٹرل پارک چشتیاں ضلع بہاولنگر
صدارت: شہزادہ سلطان الفقر صاحبزادہ سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب :الحاج محمد نوازقادری
آج ہم زوال پذیر کیوں ہیں ،ظاہری اسباب کے ہوتے ہو ئے بھی ہم ظلم و ستم کی چکی میں کیوں پس رہے ہیں، آخر اس کی و?