دل اور نظر کی پاکیزگی : انسانی زندگی میں اہمیت اور اثرات

دل اور نظر کی پاکیزگی : انسانی زندگی میں اہمیت اور اثرات

دل اور نظر کی پاکیزگی : انسانی زندگی میں اہمیت اور اثرات

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مئی 2024

علامہ اقبال فرماتے ہیں’’فقر کا مقصود ہے عِفتِ قلب و نگاہ‘‘- یعنی روحانی کمالات کا سرچشمہ دل اور نظر کی پاکی ہے - جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)  نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ تَرَكَهَا مِنْ مَّخَافَتِيْ أَبْدَلْتُهٗ إِيْمَانًا يَجِدُ لَهٗ حَلَاوَتَهٗ فِيْ قَلْبِهٖ‘‘[1]

’’جس نے میرے ڈر کی وجہ سے بد نظری چھوڑی میں اسے ایسا ایمان عطا کروں گاجس کی حلاوت وہ دل میں محسوس کرے گا‘‘-

اگر نگاہ کی حفاظت نہ کی جائے تو دل نہ صرف حلاوت و لذت سے محروم رہتا ہے بلکہ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ محشر کے دن نگاہوں سے باز پرس کی جائے گی کہ یہ جدھر دیکھتی تھیں یا جس کام کے لیے اٹھتی تھیں -جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا‘‘[2]

’’بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی‘‘-

امام قرطبی اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’یعنی ان میں سے ہر ایک سے اس کے بارے پوچھا جائے گا جو اس نے عمل کیاپس دل سے اس کے بارے  پوچھا جائے گا جس میں اس نے غور و فکر کیا اور اس کا اعتقاد بنایااور  کان اورآنکھ سے اس کے بارے پوچھا جائے گا جو اس نے دیکھا اور سنااور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، انسان سے اس کے بارے پوچھے گا جو اس کے کان، آنکھ اور اس کے دل نے جمع کیا ہوگا-اور اس کی نظیر حضور نبی کریم (ﷺ) کا یہ ارشاد گرامی ہے (كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ) کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ایک سے اس کی اپنی رعیت کے بارے پوچھا جائے گا-پس انسان اپنے اعضاءپر حاکم ہےتو گویا یہ فرمایا  کہ ان تمام (اعضاء) کے  بارے انسان سے پوچھاجائےگا‘‘-[3]

اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم بھی بتا دیا اور صراط شیطان بھی بتا دیا کہ ایک میرا راستہ ہے اور ایک شیطان کا -انسان کی مرضی ہے کہ وہ کس راہ کا انتخاب کرتا ہے-لیکن کل قیامت کے دن جب انسان بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال نامے کے ساتھ حاضر ہو گا تو اس وقت  اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ جو دل میں نے تمہیں عطا کیا اس کو مرے ذکر سے منور رکھا تھا یا شیطان کے وسواس سے بھر کر رکھا تھا- جو کان  میں نے عطا کئے ان کو کس حد تک تلاوتِ قرآن، انبیاء و رسل (علیھم السلام)کے پیغام سننے میں صرف کر کے لائے ہو-جو آنکھیں تمہیں عطا کی  ان سے کس حد تک شرم و حیا اور پاکیزگی سے معمور کر کے لائے ہو-

قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے وجود میں جتنے بھی بڑے بڑے خناس ہیں، ان میں سب سے بڑا نقص جذبۂ شہوت ہے اگر اس پہ انسان قابو نہ پائے تو وہ نہ صالح کہلانے کا حقدار ہے اور نہ با کردار-اگر انسان اپنے وجود میں پائی جانے والی اس بدی کی قوت کو شکست نہیں دیتا تب تک وجود میں اللہ کا ذکر تاثیر نہیں کرتا- کیونکہ جذبہ شہوت انسان کو بد کرداری عزتوں اورعصمتوں کو پامال کرنے پر اکساتا ہے- قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ شہوت کا راستہ انسان کے اندر انسان کی آنکھوں سے اترتا ہے - اگر انسان اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے تو انسان اپنی شرم گاہ کی حفاظت کر سکتا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْط اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَo‘‘[4]

’’آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کیلئے بڑی پاکیزہ بات ہے- بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں‘‘-

قاضی بیضاوی اس آیت کی تفسیر میں  لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جو آنکھوں کے گھمانے، حواس کو استعمال کرنے اور جوارح کی حرکت دینے کو جانتی ہے اور ان احساسات اور خیالات کو  بھی جانتی ہے جو دل میں انگڑائیاں لیتے ہیں اور  جو ذہن میں ابھرتے ہیں پس بندوں کو چاہیے کہ وہ ہر (اس)حرکت اور سکون سے ڈریں(جو نظر بازی اور بدکاری کی طرف لے جانی والی ہو)‘‘ [5]

بعض بزرگوں نے اس پر بڑا لطیف نکتہ اٹھایا کہ آنکھوں کو جھکانا یہ اللہ تعالیٰ نے پہلے بیان کیا اور شرم گاہ کی حفاظت اللہ نے بعد میں بیان فرمائی -اس کی حکمت یہ ہے کہ جب تم آنکھوں کی حفاظت کرتے ہو یعنی آنکھوں کو برائی کی طرف اٹھنے سے محفوظ کر لیتے ہو تو تمہارے اندر خود بخود شرم و حیاء پیدا ہو جاتا ہے جو تمہیں اس سے اگلے درجے کی برائی سے روک لیتاہے- گویا جسم کی پاکی انسان کی آنکھوں سے شروع ہوتی ہے- یہی بات اللہ تعالیٰ نے ایمان والی خواتین کے لیے فرمائی :

’’وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ ‘‘[6]

’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں‘‘-

لہذا شرم گاہوں تک بدی کا راستہ انسان کی نگاہوں سے پہنچتا ہےاور جو نگاہ کی حفاظت نہیں کرتا وہ بدی اور زنا کے راستے سے خود کو نہیں روک سکتا- یاد رکھیں! گو کہ بدنظری زنا نہیں ہےلیکن بد نظری کے آنے سے وجود میں آثارِ زنا پیدا ہو جاتے ہیں-

مثلاًایک شخص کا بیان ہے کہ راستے میں میری نظر عورت پر پڑی پھر حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی خدمتِ اقدس میں حاضرہو اتو آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’کیا دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے پاس آتے ہو اورتم پر (نظرِ بد کی وجہ سے)زناکے آثار ہیں؟(اس شخص نے کہا کہ) میں نے عرض کی: کیا رسول اللہ (ﷺ) کے بعد وحی کا نزول ہوتاہے(کیونکہ اس امر پر میرے علاوہ بظاہر کوئی مطلع نہیں تھا تو حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ فراست صادقہ ہے‘‘-[7]

معلوم ہوا کہ مومن کامل کی نگاہ سے ہمارے احوال پوشیدہ نہیں ہوتے- کیونکہ حدیث مبارک ہے کہ:

’’اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ تَعَالیٰ ‘‘[8]

’’مومن کی فراست (دُور اندیشی)سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ مومن کامل کو قوتِ بصارت عطا کرتا ہے- لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لئے نگاہ کی پاکی درکار ہوتی ہے – یہ مقام ان پاکباز ہستیوں کو نصیب ہوتا ہے جن کی نگاہیں صرف رضائے الٰہی کیلئے اُٹھتی اورجھکتی ہیں-اس لئے نگاہ کو پاک کرنے کا سب سے پہلا تقاضا ہے کہ نگاہ کو بدی سے روک دیا جائے جس کے لئے اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور عورتوں  کو نگاہیں جھکانے کا حکم دیتا ہے-

حافظ ابن کثیر (المتوفى: 774ھ) ’’ تفسیر ابن کثیر‘‘ میں

’’وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’یعنی ایمان دار عورتیں سوائے اپنے شوہروں کے دیکھنے کے،  ہر اس شخص سے اپنی نگاہیں نیچی کر لیا کریں جس کا دیکھنا اللہ تعالیٰ نے ان پر حرا م کیا ہے-اس لئے علماء کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ اجنبی مردوں کو دیکھنا عورت کیلئے جائز نہیں ہے خواہ شہوت کے ساتھ  ہو  یا بغیر شہوت کے‘‘-[9]

گویا مومن مردوں اور عورتوں کا  اپنے محرم کے سوا کسی کو دیکھنا یہ ان کی شانِ حیا کے خلاف ہے- کیونکہ آنکھوں سے دل کا دروازہ کھلتا ہے اور دل کا اِرادہ نیک ہو تو نیکی پر لےجاتا ہے اور دل کا اِرادہ بد ہو تو برائی پر لے جاتا ہے-جیسا کہ امام قرطبی (المتوفى : 671ھ)’’تفسیر قرطبی‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اَلْبَصَرُ هُوَ الْبَابُ الْأَكْبَرُ إِلٰى الْقَلْبِ وَأَعْمَرُ طُرُقِ الْحَوَاسِ إِلَيْهِ‘‘

’’آنکھ دل کی طرف بہت بڑا دروازہ ہے اور آنکھ کا دیکھنا دل میں حواس کے راستوں کو آباد (ہموار) کرتا ہے‘‘-

آگے فرماتے ہیں:

’’اور اس اعتبار سے کثرت سے پھسلنا ہوتا ہےاوراس سے بچنا بہت ضروری ہےاور تمام محرمات سے آنکھ کا جھکانا واجب ہےاور ہر اس چیز سے آنکھوں کو نیچا کرنا ضروری ہے جس سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو‘‘-

امامِ قرطبی کے اس قول ’’اَلْبَصَرُ هُوَ الْبَابُ الْأَكْبَرُ إِلَى الْقَلْبِ‘‘سے یہ نکتہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ  جب آپ بیت اللہ کے سامنے بیٹھ کر اس کی  زیارت کرتے ہیں تو دل میں  خشیتِ الٰہی بڑھتی جاتی ہے، دل میں  اللہ تعالیٰ کی محبت و عظمت  بڑھتی ہے- اسی طرح آپ روضۂ رسول (ﷺ)پہ  حاضر ہوکر گنبد خضرہ کو دیکھتے ہیں تو محبت مصطفےٰ کریم (ﷺ)  کی بڑھتی ہے-اسی طرح  روضۂ رسول (ﷺ) پہ آقا کریم (ﷺ) کے اسمِ پاک کی کتابت ہوتی ہے، دیکھتے تو اُس کتابت کو لیکن محبت آقا کریم (ﷺ) کی بڑھتی ہے-  اسی طرح جب  بندے کے سامنے اسمِ اعظّم  کا نقش ہوتا ہے وہ اپنی آنکھوں سے اللہ کا نام دیکھتا ہے تو دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے-اس سے قربت الٰہی نصیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس میں نیکی  اور خیر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے- اس کے برعکس اگر انہی آنکھوں کے سامنے ان مقّدِسات کی بجائے کوئی ایسی صورت ہو جو انسان کو گناہ پر مائل کرے تو اس سے وجود میں ناپاکی اور برائی بڑھتی ہے-

 رسول اللہ (ﷺ)نے مؤمنین کیلئے جو آداب مقرر فرمائے ہیں یہ اُن آداب کے بھی خلاف ہے کہ مومن ایسی جانب یا سمت دیکھے جس طرف دیکھنا اللہ تعالیٰ نے اُس کیلئے حرام قرار دیا ہو- حضرت ابو سعید خُدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد  فرمایا کہ تم اپنے آپ کو راستوں میں بیٹھنے سے بچاؤ- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! ہمارے لئے تو اپنی مجالس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے- ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں تو آپ (ﷺ) نےفرمایا جب تم راستے میں مجلس کو نہیں چھوڑتے تو پھر راستے کا حق ادا کیا کرو-آپ (ﷺ) نے فرمایا:

’’فَأَعْطُوْا الطَّرِيْقَ حَقَّهُ‘‘

’’تو پھر راستہ کا حق ادا کرو‘‘-

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے عرض کی :

’’وَمَا حَقُّ الطَّرِيْقِ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟‘‘

’’یا رسول اللہ (ﷺ)! راستے کے کیا حقوق ہیں؟ ‘‘

آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’غَضُّ الْبَصَرِ‘‘                ’’نظر نیچی رکھنا‘‘

’’وَكَفُّ الْأَذٰى ‘‘’’اور تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹا دینا ‘‘

’’وَرَدُّ السَّلَامِ‘‘        ’’اور سلام کا جواب دینا‘‘

’’وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘  ’’اورنیکی کا حکم دینا ‘‘

’’ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ‘‘[10]           ’’اور برائی سے روکنا‘‘-

یعنی تکلیف دہ چیز کانٹوں اور پتھروں کو ہٹانے سے بھی پہلے حضور نبی کریم (ﷺ)  نے ارشاد فرمایا کہ اپنی نگاہوں کو نیچا کرلو-اس کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر کانٹا چبھا تو ایک پاؤں میں چبھا لیکن اگر معاشرے میں نگاہیں درندوں کی طرح بے قابو ہو کر خون خواری پہ اُتر آئیں تو معاشرے کی ہر عصمت و آبرو زخمی ہوگی-

اس لئے ضروری نہیں کہ راستوں میں چلنے والی مسافر خاتون کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی ہوبلکہ وہ اپنی بہن اور  بیٹی بھی ہو سکتی ہیں- اس لئے جب انسان کسی کی جانب دیکھتا ہے تو اس پرلازم ہے کہ وہ اس عبرت کو اپنے دل میں لے کر چلے کہ آج اگر میری آنکھ سے کوئی محفوظ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے گھر کی عصمت اور آبرو کو خود اپنے ہاتھوں سے غیر محفوظ کر دیا ہے-نگاہ کو جھکانے کی حکمتوں میں سے ایک تو یہ  معاشرتی جہت  ہے -مگر مومن کے لئے جو بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک یہ وہ عمل ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوبِ کریم(ﷺ) کو ناپسند ہے کیونکہ  آپ (ﷺ) ہمیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ اپنی آنکھوں کو جھکا کر چلو-

اللہ تعالیٰ نے’’سورۃ غافر‘‘ میں ایک اور بڑا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ:

’’یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘[11]

’’وہ خیانت کرنے والی نگاہوں کو جانتا ہے اور (ان باتوں کو بھی) جو سینے (اپنے اندر) چھپائے رکھتے ہیں‘‘-

قاضی  ثناء اللہ پانی پتیؒ نے اسی آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ:

’’جب کوئی آدمی کسی عورت کی جانب شہوت کی نظر سے نظریں چرا کر دیکھتا ہے اور پھر وہ آدمی اس اجنبیہ عورت کے حسن و جمال کے بارے میں اپنے دل میں غور و فکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس غور وفکر سے بھی واقف و آگاہ ہے‘‘-[12]

حافظ ابن کثیر’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ اپنے علم تام کی خبر دے  رہے ہیں جو تمام اشیاء خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی عمدہ ہوں،حقیر دقیق ہوں  یا لطیف سب کو محیط ہےتاکہ لوگ اس کے علم سے ڈریں اور اللہ سے حیاء کریں جس طرح حیاء کرنے کا حق ہےکما حقہ تقوی اختیار کریں اور یہ مراقبہ  ان کے دلوں میں پختہ ہو جائے تا کہ وہ  جان لے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے پس بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والی آنکھ کو بھی جانتا ہے اگرچہ وہ دیانتداری ظاہر کریں اور ان کے سینوں کی گہرائیوں کے پوشیدہ رازوں سے بھی وہ خوب واقف ہے‘‘ -[13]

حضرت عبداللہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’(لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنْ اللهِ) اللہ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں ہے اس لئے اس نے تمام بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے-خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ باطن ‘‘-  [14]

گویا اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ بد نظری کو ناپسند کرتا ہے اور آنکھوں کی خیانت و بد نظری کا کوئی شاہد ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے- کیونکہ خشکی اور تری،  بحرو بر، بلندی و پستی، آسمانوں اور زمینوں کی ہر حقیقت اور مخلوق کے دلوں میں اُٹھنے والے ہر ایک خفیہ ارادے کو پروردگار عالم جانتا ہے-

خیانت کیا ہے؟

اگر کوئی آدمی دوسرے آدمی کو کچھ رقم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میری امانت ہے اس کا خیال رکھو- تھوڑے عرصے بعد وہ اُس سے اُس رقم کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو پہلے آدمی نے وہ رقم خرچ کر دی ہوتی ہے اور جو امانت کی پاسداری تھی وہ نہیں کی ہوتی - لہٰذا وہ امانت کی پاسداری نہ کر کے خیانت کا مرتکب ہوا -

یاد رکھیں! خیانت صرف رقم میں نہیں ہوتی- اسی طرح ایک اور مثال کہ ایک آدمی کو آپ نے کچھ کاغذات دیئے  اور کہا کہ یہ میری امانت ہے اِس امانت کو محفوظ رکھو ، میرے فلاں فلاں لوگ جو مجھ سے مخاصمت ، عداوت و دشمنی رکھتے ہیں اُن تک یہ کاغذات نہ پہنچنے نہ پائیں- لیکن جس بندے  کے پاس اُس نے جو امانت رکھوائی وہ اس امانت کو اُن لوگوں تک پہنچاتا ہے جن تک پہنچانے سے اُس کو منع کیا تھا تو یہ بھی اُس نے خیانت کا ارتکاب کیا-

اسی طرح ایک آدمی کسی کے پاس اپنا بیٹا ، اپنی بیٹی ، اپنا بھائی کسی کو حفاظت کے طور پہ اُس کو دے کر آتا ہے اور اُس کو کہتا ہے کہ میں کہیں جا رہا ہوں تب تک یہ میری امانت ہے اِس کو سنبھال کے رکھنا- اگر اُس نے ان کی حفاظت  اور اچھی تربیت نہ کی تو اس نے بھی امانت میں خیانت کی-

صرف مال ، کاغذات، اولاد اور دیگر ضروری اشیاء  امانت نہیں ہوتیں بلکہ انسان کا راز بھی ایک امانت ہوتا ہے-اگر کسی نے دوسرے آدمی کو کہا کہ میرا یہ راز ہے، یہ میں تمہیں بتا رہا ہوں  اور جب تک میں نہ کہوں یہ راز فاش نہیں کرنا لیکن اگر دوسرا بندہ اس کی مرضی اور منشا کےخلاف اُس راز کو اُگل دیتا تو گویا وہ بھی اُس راز سے خیانت کرتا ہے - معالج کے پاس مریض کے راز ہوتے ہیں اگر وہ انہیں ظاہر کرتا ہے تو اس نے خیانت کا ارتکاب کیا - یعنی ہرسپرد کی گئی چیز کو  ضائع کرنے، یا اُسے نقصان پہنچانے، یا اُسے خلاف معاہدہ استعمال کرنے کو خیانت کہتے ہیں-

الغرض! سورہ غافر کی اس آیت سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو رشتے ہمارے لئے حرام قرار دیئے ہیں وہ اس دنیا میں ہمارے اُوپر امانت کا درجہ رکھتے ہیں اور جو اُنہیں بُری نیت اور  بُرے اِرادے سے دیکھتا ہے وہ فی الحقیقت اُس میں خیانت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس خیانت کو دیکھتا ہوں-

حضرت اُمّ مَعْبَد (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ:

’’اَللّٰهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِيْ مِنَ الرِّيَاءِ، 

وَلِسَانِيْ مِنَ الْكِذْبِ، وَعَيْنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ، - فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ، وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ‘‘[15]

’’اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے پاک فرما، میرے عمل کو ریا سے پاک فرما، میری زبان کو جھوٹ سے پاک فرما  اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک فرما، کیونکہ تو آنکھ کی خیانت کوبھی جانتا ہےاور دلوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتاہے‘‘-

گویا دین مبین اور قرآن مجید کا یہ حسن ہے جوانسان کو فطرت (nature) کے قریب کرتا ہے، ہر ایک انسان کو دوسرے انسان کا محافظ بناتا ہے اور ایک ایسا نظم و ضابطہ دیتا ہے کہ کوئی کسی کی عصمت اور آبرو کی جانب میلی آنکھ  سے نہیں دیکھ سکتا-

امام قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ)  کا قول بیان کرتے ہیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’اس سے مراد وہ آدمی ہے  جو ایک عورت کی طرف دیکھتا ہے جب اس کے ساتھی اسے دیکھیں تو وہ اپنی نظریں جھکا لیتا ہے پس جب وہ ان کی طرف غفلت دیکھتا ہے(یعنی وہ مجھے نہیں دیکھ رہے) تو وہ عورت کو نظریں چرا کر دیکھ لیتاہے جب اس کے ساتھی اس کی طرف دیکھتے ہیں وہ اپنی نظریں جھکا لیتا ہےاوراللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ وہ آدمی اس عورت کی بے پردگی دیکھنے کو پسند کرتا  ہے‘‘-[16]

یعنی اگر وہ آدمی اپنے دوستوں کو اپنے گناہ کا گواہ اور شاہد نہیں بننے دیتا مگر وہ یہ نہ بھولے کہ اس گناہ پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں خود علم رکھتا  ہوں کہ کون، کب اور  کہاں امانت میں خیانت کرتا ہے- یہ بات صرف ارادہ و  نیت اور چہرے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ امام ابن ابی شیبہؒ حضرت عَلاء ابن زیادؒ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ یہ کہا جاتا تھا کہ :

’’تیری نظر عورت کی چادر کی خوبصورتی کے پیچھے نہ جائے کیونکہ یوں دیکھنا دل میں شہوت پیدا کردیتا ہے‘‘-[17]

گویا  بری نیت  سے عورت کی چادر کو دیکھنا بھی گناہ ہے کیونکہ وہ بھی جذبۂ شہوت کو پیدا کرتا ہے- لہٰذامقصود گناہ سے روکنا ہے اور نگاہ میں پاکیزگی پیدا کرنا ہے تا کہ آنکھیں پاک ہو کر اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیّات کو دیکھنے کے قابل ہو جائیں- چونکہ جب نگاہ کو پاک کرنا مقصود ہے تو پھر غیر اللہ کی محبت ہو  یا کسی کا خوش نما کپڑا ہی کیوں نہ ہو ارادہ بد سے اسے دیکھنا بھی گناہ ہے-

حضرت حسن (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے  کہ رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا :[18]

’’لَعَنَ اللهُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ إِلَيْهِ ‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے دیکھنے والے اور جس کی طرف دیکھا گیا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘-

یعنی غیر محرم عورت کی طرف شہوت کے ساتھ دیکھنے والے اور اس انداز میں  بے پردہ نکلی کہ اس کی طرف نظر کی گئی ہے تو دونوں پر اللہ کی پھٹکار ہے-

اکثر عام اور فطری سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر ویسے راہ چلتے انسان کی آنکھ اُٹھ جائے  توانسان کیا کرے؟

حضرت بُرَیدہ (رضی اللہ عنہ)بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)  سے فرمایا کہ :

’’يَا عَلِيُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ‘‘[19]

’’اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر معاف ہے دوسری نہیں‘‘-

یعنی پہلی نگاہ بغیر ارادے کے اُٹھ سکتی ہے لیکن دوسری نگاہ ارادے سے اُٹھتی ہے- لہٰذادوسری مرتبہ نگاہ کو اس جانب نہ اُٹھایاجائے-

امام سیوطی اور امام بیہقیؒ نے حضرت ابو امامہؒ سے روایت کیا  ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَنْظُرُ إِلٰى امْرَأَةٍ أَوَّلَ رَمْقَةٍ ثُمَّ يَغُضُّ بَصَرَهُ إِلَّا أَحْدَثَ اللهُ تَعَالٰى لَهٗ عِبَادَةً يَجِدُ حَلَاوَتَهَا فِيْ قَلْبِهٖ‘‘[20]

’’جو آدمی عورت کو پہلی نظر دیکھتا ہے پھر اپنی آنکھ بند کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایسی عبادت پیدا کردیتا ہے جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پاتا ہے‘‘-

یعنی جو شخص ایک مرتبہ غیر ارادی طور پر عورت کو دیکھ بیٹھتا ہے مگر دوسری مرتبہ نفس و شیطان کے اُکسانے کے باوجود اپنی نگاہ کو اُٹھنے سے رُوک لیتا ہے  تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں عبادت کی لذت اور حیا پیدا کر دیتا ہے-

حضرت عُبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’اَضْمِنُوْا لِيْ سِتًّا مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أُضْمِنُ لَكُمُ الْجَنَّةَ‘‘

’’تم مجھے  اپنی طرف سےچھ چیزوں کی ضمانت دےدو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘-

1-’’اَصْدِقُوْا إِذَا حَدَّثْتُمْ ‘‘  جب بولو تو سچ بولو‘‘

2-’’وَأَوْفُوْا إِذَا وَعَدْتُّمْ‘‘وعدہ کرو تو پورا کرو

3-’’وَأَدُّوْا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ‘‘

’’تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو وہ صاحبِ امانت کو ادا کرو‘‘

4-’’ وَاحْفَظُوْا فُرُوْجَكُمْ‘‘

’’اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ‘‘

5- ’’وَغُضُّوْا أَبْصَارَكُمْ‘‘

’’اپنی نگاہوں کو جھکارکر رکھو‘‘

6-’’ وَكُفُّوْا أَيْدِيَكُمْ ‘‘[21]

’’اپنے ہاتھوں کو (ظلم سے) روک کر رکھو‘‘

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘

’’قیامت کے روز ہر آنکھ رو رہی ہوگی‘‘

1-’’إِلَّا عَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘

’’مگر وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے رکی رہی‘‘

2-’’وَعَيْنٌ سَهِرَتْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ‘‘

’’اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہی (پہرہ دیتی رہی)‘‘

3-’’وَعَيْنٌ خَرَجَ مِنْهَا مِثْلُ رَأْسِ الذُّبَابِ دَمْعَةٌ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ‘‘[22]

’’اور وہ آنکھ جس سے اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے مکھی کے سر جتنے بڑے آنسو نکلتے رہے‘‘-

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

 ثَلَاثَةٌ لَا تَرٰى أَعْيُنُهُمُ النَّارَ

’’تین شخص ایسے ہیں جن کی آنکھیں قیامت کے دن جہنم کو نہیں دیکھیں گی‘‘

1- ’’عَيْنٌ حَرَسَتْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ‘‘

وہ آنکھ  جس نے اللہ کی راہ میں شب بیداری کی

2-’’وَعَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ‘‘

وہ آنکھ جو خوف خداوندی میں اشک بار ہو ئی -

3-’’وَعَيْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللهِ [23]

’’اور وہ آنکھ جو حرام چیزوں کے دیکھنےسے رکی رہی‘‘-

گویا آنکھوں میں پاکیزگی پیدا ہونے سے وہ اس قابل ہوجاتی ہیں کہ وہ ان ارواح اور چہروں کی زیارت کر سکیں جن چہروں پہ ذکر اللہ کی کثرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا نور برستا  ہے-ہم تمنا رکھتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) کے روئے زیبا کی زیارت نصیب ہو،  خلفائے راشدین اور آئمہ اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) اور شیوخ عظام ؒ کے چہروں کی زیارت کریں-آمین یا رب العالمین!

یاد رکھیں! ہر ایک کا مقام مختلف ہوتا ہے مثلاً جہاں قصاب گوشت رکھتا ہے وہاں عطار عطر نہیں رکھتا- اسی طرح جہاں  قرآن مجید اور کتب احادیث رکھی جاتی ہیں وہاں جوتے بیچنے والا اپنے جوتے نہیں رکھتا- جس طرح تازہ تیتر کا شکار کیا ہوا خون پینا یا گوشت کھانا صرف شاہین کے مقدر میں ہوتا ہے - اسی طرح نگاہوں کی مثال ہے کہ ہر نگاہ اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اللہ تعالیٰ  کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرے- کیونکہ ہر نگاہ تصدیق کرکے صدیق نہیں بنتی بلکہ بعض نگاہیں ابو جہل کی بھی ہوتی ہے-ان آنکھوں میں پہلا فرق شرم و حیا سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ صدیق کی تمنا تھی کہ میری یہ نگاہیں رخُ مصطفےٰ (ﷺ)  پہ ٹکی رہیں- اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی طرف اپنی نگاہ کو نہیں اٹھاتے تھے- ذکر و تصور  اسم اللہ ذات وجود میں اس وقت تاثیر کرتا ہے جب بندہ اپنی نگاہوں کو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی جانب اٹھنے سے روک لیتا ہے-

مرشدِ کریم سلطان الفقر بانئ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی(رحمتہ اللہ علیہ) اور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی (مدظلہ الاقدس) کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل  ہوئی اور مَیں گواہی دے سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں انہیں کسی نامحرم کی جانب آنکھ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا- میرے مرشدِ کریم سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی (رحمتہ اللہ علیہ) جب اپنے والد و مرشد شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز (رحمتہ اللہ علیہ)  کی مثال دیتے تو آپؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے مرشد کی خدمت میں 30 برس ایسے ڈیوٹی کی ہے جیسے ایک خادم ڈیوٹی کرتا ہے اور میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ میرے مرشد سلطان محمد عبد العزیز (رحمتہ اللہ علیہ)   جب بھی بیٹھتے اپنی نگاہوں کو جھکا کر بیٹھتے-

گویا کہ آپؒ کا دل ویسے ہی غیر اللہ سے پاک ہے- جس کا دل محبت و یادِ الٰہی میں ڈوبا ہوا ہو وہ ان مقامات کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے جو ہماری عقل کے احاطہ سے ماوراء  ہے،  تو اگر وہ اپنی آنکھیں نہ بھی جھکائیں تو ان کی ذات گرامی پر کیا اثر پڑتا ہے-جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

پاک پَلیت نہ ہوندے ہَرگز توڑے رہندے وچ پَلیتی ھو

یعنی جس کے اندر پاکی ہے باہر سے نجاست لگ بھی جائے تو وہ اسے پلید نہیں کرتی- رسول اللہ (ﷺ) کے بارے میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آنکھوں میں ایسے حیا تھا جیسے دلہن کی آنکھوں میں حیا ہوتا ہے-

باوجود ان عظیم مقامات کے جو نگاہ کا حیا ہے وہ پاک لوگوں کی نشانی ہے- اگر انسان اپنے وجود کو برکت و رحمتِ الٰہی کا حامل بنانا چاہتا ہے تو وہ آداب اختیار کرے جو ہمارے شیوخ اسلافِ اکابرین نے اختیار کئے-کیونکہ اس راستے کی پہلی سیڑھی آنکھوں میں حیا پیدا کرنا ہے-

یاد رکھیں! عمارتیں، جائیدادیں، زمینیں ہی ورثہ نہیں ہوتیں بلکہ قوموں کا ورثہ ان کے نظریات اور ان کا طریق معاشرت ہوتا ہے- ہمارے اسلاف کا طریقِ تربیت ہمارا اسلامی ورثہ ہے جس کی ہمیں اور ہماری نسلوں کو حفاظت کرنی ہے-

آج کی معاشرت نگاہوں کو بے باکی سکھاتی ہے-لیکن جب مومن میدان جہاد میں باطل کے سامنے کھڑا ہو وہاں اس کی نگاہوں میں عقاب کی بےباکی چاہیے- یہاں بیباکی کا معنی دلیری اور بہادری ہے ، بھٹکنا یا شہوت زدہ ہونا نہیں ہے -

 لہٰذا باطل کے مدمقابل تقاضے اور ہیں لیکن جو عام حسنِ معاشرت ہے اس میں نگاہوں کی بے باکی نہیں چاہیے- آج کا جدید طرز تعلیم بے باکی سکھاتا ہے- جس کی مثال میں ایک خود بیتا دلچسپ واقعہ سنانا چاہوں گا کہ :

’’میں نے لندن کے ایک ادارے میں ٹریننگ لی  جو سماجی اخلاقیات اور سماجی رویوں سے متعلق تھی- وہاں ٹرینر نے ’’assertive eye contact‘‘ کے بارے میں بتایا کہ کیسے آپ اپنی آنکھوں سے پُر اعتمادی کے ساتھ دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں- تو میں نے ان سے کہا لیکن اس کے اوپر ’’cultural difference‘‘لاگو ہوگا- ٹرینر نے کہا وہ کیسے؟ میں نے کہا: ایک شخص تھا جس سے میں نے قرآن مجید پڑھا، جب میں سات  یا آٹھ برس کی عمر کو پہنچا تو میں نے قرآن پاک کو مکمل تلاوت سے پڑھ لیا اور اس کی کلاس سے باہر ہو گیا -اور  اب میرے اپنے بچے اسی شخص سے قرآن کریم پڑھتے ہیں- لیکن مجھ میں آج تک یہ ہمت نہ ہوئی کہ جس کو میں نے آٹھ برس کی عمر تک استاد مانا اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کروں- ٹرینر نے اگلے مرحلے میں کہا جب آپ اپنے والدین سے کوئی مسئلہ ڈسکس کریں تو آپ کو ’’assertive eye contact‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے-مَیں نے کہا: مَیں نہیں کرسکتا- ہمارے ہاں پُر اعتمادی (assertiveness) یہ نہیں ہے کہ والدین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں-کیونکہ ہمارے کلچر میں والدین سے نگاہیں جھکا کر بات کرنا احترام سمجھا جاتا ہے‘‘-

آنکھ میں اعتماد بھی چاہئے، دلیری بھی چاہئے ، بیباکی بھی چاہئے مگر ادب، حیا اور شرم کو برقرار رکھتے ہوئے-آج جو بے باکی ہمیں ٹی وی چینلز پر  انفوٹینمنٹ میڈیا یا انٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعے سکھائی جا رہی ہے یہ ہماری روایت اور تہذیب نہیں ہے-لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے پرائمری سے لے کر ہائر ایجوکیشن تک وہ ٹرینڈ  اور برینڈ کے طور پر اس بے باکی کو فروخت کرتے ہیں-

غور کریں کہ ہم میں سے کتنے والدین ہیں جو جا کر ان تعلیمی اداروں کے دروازے  کھٹکھٹاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہمیں تعلیم توجدید چاہیے لیکن تربیت حضور نبی کریم (ﷺ) والی چاہیے- جدید تعلیم سے ہم باغی نہیں ہو سکتے  کیونکہ اعلیٰ درجے کی جدید تعلیم  ہماری دینی، ملی، قومی اورعصری ضرورت ہے- لیکن  وہ تعلیم جو بچوں کے قلوب و اذہان  کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور آقا کریم (ﷺ) کی شریعت کے راستے پہ مائل کرے-اس لئے جب تک والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں سے یہ تقاضا نہیں کرتے تو وہ کبھی بھی بچوں کو یہ تعلیم و تربیت مہیا نہیں کریں گے-

اس لئے میری یہ تجویز ہوگی کہ جن تعلیمی اداروں میں آپ کے بچے پڑھتے ہیں ان سے اس بات کا مطالبہ کریں کہ آپ کے نصاب میں ہماری بنیادی اخلاقیات اور  تربیت سے متعلق کیا پڑھایا جاتا ہے اور غیر نصابی طور پہ کیا سکھایا جاتا ہے؟ کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے عوض بھاری بھرکم رقم دی جاتی ہے-اس لئے اس رقم کے عوض اگر آپ میرے بچوں میں اخلاقی صفات پیدا نہیں کرتے تو آپ نے امانت میں خیانت کی ہے-یاد رکھیں! یہ چیزیں مطالبہ سے پیدا ہوتی ہیں کیونکہ معاشی اصول کے مطابق جب تک طلب (demand)  نہیں ہوگی رسد (supply) نہیں ہوگی-

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے، ہمارے معاشرے کو ایسا بنا دے کہ روز محشر ہم اس کے دربار میں سرخرو ہوکر حاضر ہوں-اصلاحی جماعت کی یہی دعوت ہے کہ آپ آئیں اور شانہ بشانہ اس پیغامِ تربیت کو آگے پہنچائیں جو اصلاح کا عمل ہوتا ہے اور اس کا مقصد فقط اور فقط اللہ تعالیٰ کی رضا اور آقا کریم (ﷺ)  کی محبت و اطاعت ہے-لہٰذا! اصلاحی جماعت کے سنگ اس تربیت کو حاصل کریں تاکہ ہم خود بھی اس نمونہ عمل میں ڈھل سکیں اور اپنی آئندہ نسل کو بھی اس نمونہ عمل میں ڈھال سکیں جو ہمارے لئے دنیوی اور اخروی کامیابی کا سبب بنے-اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو!

٭٭٭


[1](مجمع الزوائد)

[2](الاسراء : 36 )

[3](تفسیر قرطبی، زیر آیت الاسراء:36)

[4](النور:30)

[5](تفسیر بیضاوی، زیر آیت النور:30)

[6](النور:31)

[7](الرازی، محمد بن عمرؒ، مفاتيح الغيب، ایڈیشن: سوم (بيروت: دار إحياء التراث العربی، 1420ھ)، ج: 21،  ص:434)

[8](جامع ترمذی، کتاب تفسیر القرآن من باب سورۃ الحجر)

[9](تفسیر ابن کثیر، زیر آیت النور:31)

[10](صحیح بخاری، كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ)

[11](غافر:19)

[12]( تفسير مظہری، زیر آیت غافر:19)

[13](تفسیر ابن کثیر، زیر آیت غافر:19)

[14]( صحیح بخاری  ، كِتَاب التَفْسِير)

[15](الدعوات الكبير)

[16](تفسیر قرطبی، زیر آیت غافر:19)

[17](مصنف ابن ابی شیبہ)

[18](السنن الكبرى/ شعب الإيمان)

[19](سنن أبي داود، کتاب النِّكَاح)

(سنن ترمذی أَبْوَابُ الْأَدَبِ)

[20](شعب الإيمان/ الجامع الصغير)

[21](مسند إمام أحمد بن حنبل / مكارم الأخلاق / صحيح ابن حبان/ مستدرك على الصحيحين)

[22](الجہاد لابن ابی عاصم/ حلیۃ الأولياء/ الجامع الصغير)

[23]( المعجم ابو یعلی  موصلی/ المعجم الكبير/ مجمع الزوائد)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر