ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَ اللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘[1] |
|
اے محبوب (ﷺ)تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ- اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے- |
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے دوستی اور محبت کا دعویدار ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے محبوب کریم (ﷺ) کی اتباع و فرمانبرداری کرے-جو ایسا کرے گا سو تو نہ صرف اللہ اسے اپنا دوست اور محبوب بنا لے گا بلکہ اس کے گناہوں کو بھی بخش دے گا-حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور نبی کریم (ﷺ) تک اور آپ (ﷺ) کے صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین ، اولیاء، فقراء، فقہاء، علماء اور مشائخ کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ اتباعِ نبوی (ﷺ) کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ جو آپ (ﷺ) کی اتباع میں آگیا اس نے راہ حق پالی-حضور نبی کریم (ﷺ) کو قرآن مجید نے ’’داعی الی اللہ‘‘ کہہ کر مخاطب فرمایا ہے اور یہی وہ عظیم سنتِ نبوی (ﷺ)ہے جو آپ (ﷺ) کی امت کے اولیاء و علماء لازمی پوری کرتے ہیں-بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراطِ مستقیم کی دعوت دیتے ہیں، خالق و مخلوق کے منقطع شدہ رابطے کو بحال کرتے ہیں اور انسان کے نفس و قلب کو پاک کرکے اسے حقیقت و معرفت کا درس دیتے ہیں-اس مادہ پرستانہ دور میں قرآن مجید کی اسی دعوتِ ’’فَفِرُّوْٓااِلی اللہ‘‘ اور معراجِ انسانیت کی خاطر دربارِ عالیہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس سرہٗ العزیز سے” اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین“ چلائی گئی- جس کا مقصد قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں تعلیماتِ اولیاء کو تمام انسانوں تک پہنچانا ہے-اولیاء اللہ کی تعلیمات سراپا دعوت الی اللہ، اتباعِ رسول اللہ (ﷺ)اور حقیقتِ انسان پر مبنی ہیں-
اس سال انعقاد پذیر ہونے والے شاندار تربیّتی و اِصلاحی سالانہ اجتماعات کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-
لیہ: 01-01-2024 جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو سلطان
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :
’’وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ طبَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ‘‘[2]
’’اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں‘‘-
یعنی جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ انہوں نے اپنی جان کے بدلے میں اپنے مالک کی رضا کو حاصل کر لیا ہے- جو ذکر سے غافل ہو جاتا ہے محبوب حقیقی کی رضا کی جستجو نہیں کرتا وہ مردہ ہے-یہ دنیا آزمائش گاہ ہے کہ کس نے اپنے دل کو دنیا کی محبت میں لگا دیا اور کس نے اپنے مولا کی یاد میں دل کو محو کر دیا-اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا کہ جو اللہ کے نیک بندے ہیں چاہے صبح ہو یا شام وہ اپنے مالک کی یاد سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہیں ہوتے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘[3] ’’ اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچ جاؤ‘‘-
حضور نبی کریم(ﷺ) کا فرمان مبارک ہے کہ جو ذکر کرتا ہے وہ زندہ اور جو ذکر نہیں کرتا وہ مردہ کی مثل ہے-چنانچہ ابدی حیات اپنے محبوب کی چاہت پہ زندگی گزارنے اور اس کی یاد میں پوشیدہ ہے-
بھکر: 02-01-2024 جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو سلطان، ذمیوالہ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے :
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘[4]
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو ‘‘-
اہلِ حق ہمارے سینوں کو سچائی اور حضور اکرم(ﷺ) اور آپ (ﷺ) کے صحابہ و اہل بیت (رضی اللہ عنھم) کی محبت کیلئے کھولتے ہیں-امام فخرالدین الرازی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ زمین اللہ والوں سے خالی ہو گئی تو بنیادی طور پر وہ اس آیت کے ساتھ اپنا تنازعہ پیدا کر رہا ہے کیونکہ ایمان والوں کیلئے صادقین کے ساتھ ہونا اُسی صورت ممکن ہے جب صادقین موجود ہوں-چنانچہ قیامت تک اولیاء اللہ موجود رہیں گے- ابلیس کا حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ اس نے عظمتِ انسان کا انکار کیا تھا جبکہ حضرت جبرائیلؑ نے حضرت آدمؑ کے باطن کا نور دیکھ لیا تھا اور سب سے پہلے اللہ کے حکم سے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا-انسان کی مادی خواہشات اور نفس ہر اس کام کی جانب مائل ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے-اس لئے مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ جب تک خواہشاتِ نفسانی کو مرشدِ کامل کی رہنمائی سے فنا نہ کیا جائے، اس وقت تک اس شر سے بچنا مشکل ہے-مولانا مزید فرماتے ہیں کہ سانحہ یہ ہے کہ انسان اپنی ہمت کا گھوڑا سیاروں کی طرف دوڑا کر نجومی اور ستارہ شناس تو بن گیا، لیکن حقیقتِ آدم کو نہ پہچان سکا-یعنی آدم کو پہچاننے کے لیے جبریل کی آنکھ چاہئے جس سے وہ نہ صرف آدم کے ظاہر کو بلکہ آدم کے باطن کو اور اس میں پائے جانے والے نور کو دیکھتا ہے - اولیاء اللہ کی تعلیمات کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود احترام کرنا سیکھیں، اپنے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پہ شفقت کریں اور دوسروں کے لئے کبھی بھی رحمت کا دروازہ بند نہ کریں –
میانوالی: 03-01-2024 ہاکی اسٹیدیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
امام عبدا لوہاب الشعرانیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’حَتّٰی یَکُوْنَ سِرُّ کُلِّ نَعِیْمٍ فِی الْجَنَانِ وَ کُلُّ نَصِیْبٍ لِلْاَوْلِیَاءِ مُتَفَرِّعًا مِّنْ نُوْرِ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا‘‘[5]
’’حتی کہ جنت میں ہر نعمت کا سر اور اولیاء کا ہر نصیب سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کے نور سے متفرع ہوگا‘‘-
اگر آپ اپنے بچوں میں ایسی معاشرت پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد شرم و حیا پر ہو تو اپنے بچوں کو سیدۃ النساء کی سیرت کا مطالعہ کروائیے -علامہ اقبالؒ نے ارمغان حجاز میں ایک عنوان لکھا ’’اسلام کی بیٹیوں سے خطاب‘‘ جس میں آپ نے اسلام کی بیٹیوں کو یہ تجویز دی کہ:
اگر پندے ز درویشے پذیری |
|
ہزار امت بمیرد تُو نہ میری |
’’ اے میری بیٹیوں اگر اس درویش کی ایک نصیحت یاد رکھ لو تو ہزاروں قومیں مر جائیں گی تمہاری قوم کبھی نہیں مرے گی- میری بیٹیوں سیدہ فاطمہ بتول سلام اللہ علیہا کی سیرت اختیار کرو اور ان کی سیرت کے مطابق دنیا کی بری نظروں سے خود کو بچا لو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری گود میں بھی حضرت حسین(رضی اللہ عنہ) جیسے لعل پیدا ہوں گے ‘‘-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ‘‘[6] ’’تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت‘‘
قرابت سے مراد اہلِ بیت (رضی اللہ عنھم)ہیں-قرآن مجید پر ایمان حضور اکرم(ﷺ) کے اہلِ بیت سے محبت کا تقاضا کرتا ہے-چنانچہ ہم سب کو اہلِ بیت کی محبت سے اپنے سینوں کو پُر رکھنا ہے جو دونوں جہانوں میں کامیابی کا ذریعہ ہے-
خوشاب: 04-01-2024 جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو سلطان
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
انبیاء کرام (علیھم السلام)کا ادب ایمان کا ذریعہ ہے-قرآن کریم میں ارشاد ِ ربانی ہے:
’’قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ‘‘[7]
’’ان جادوگروں نے کہا: اے موسٰی! یا تو (اپنی چیز) آپ ڈال دیں یا ہم ہی (پہلے) ڈالنے والے ہوجائیں‘‘-
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ فرعون کے دربار میں جادوگروں نے حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کا ادب کرتے ہوئے آپ سے یہ عرض کی تھی اور اس ادب کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان جادوگروں کو نورِ ایمان کی دولت سے نوازا-
حضرت سلیمانؑ نے اپنے قاصد ہُد ہُد کے ہاتھ ملکہ بلقیس کی جانب پیغام بھیجا-جب اُس گمراہ قوم کی جانب پیغام گیا اور ملکہ نے اپنے دربار میں کہا جس کو قرآن کریم یوں بیان کرتا ہے:
’’ قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيْمٌ ‘‘[8] ’’(ملکہ نے) کہا: اے سردارو! میری طرف ایک نامۂ بزرگ ڈالا گیا ہے‘‘-
مولانا جلال الدینؒ ’’مثنوی شریف‘‘ میں فرماتے ہیں :
ملک را بگزار بلقیس از نخست |
|
چوں مرا یابی ہمہ ملک آنِ تست |
’’اے بلقیس! پہلے سلطنت کو چھوڑ دے جب تو مجھے حاصل کرے گی (پھر ) سب مُلک تیری ملکیت ہیں‘‘-
خط میں بادشاہت اور اپنا مذہب چھوڑ کر پیغامِ حق کی جانب بلایا گیا تھا جو بظاہر ان کیلئے موافق نہ تھا لیکن ملکہ نے حضرت سلیمان(علیہ السلام) کی نبوت کی تعظیم اور ادب میں خط کو معزز کہا-جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ملکہ کو نورِ ایمان سے نواز دیا-یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضری کے وقت آوازوں کو پست کر لیا کرو کیونکہ وجود میں ادبِ مصطفےٰ(ﷺ) ایمان کا ذریعہ ہے- گویا اگر کافر بھی ادب کو شعار بنا لے تو اللہ پاک اسے ہدایتِ اسلام بخش دیتا ہے -بزبانِ اقبالؒ:
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں |
ہری پور: 05-01-2024 اختر نواز خان اسٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غار ثور کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے :
’’ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا‘‘[9]
’’جب کہ دونوں (رسول اللہ(ﷺ) اور ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘-
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں سیدنا حضرت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کی صحابیت اتنے خوبصورت انداز میں تحریر فرمائی ’’اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ‘‘جب وہ اپنے صحابی سے فرماتے تھے“ وہ صحابی سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) تھے ’’لَا تَحْزنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‘‘”اے ابو بکر غم نہ کیجیے بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے “- امیر المؤمنین سیدنا علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ سورہ الزمر کی یہ آیت سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی فضیلت کے بارے میں ہے:
’’ وَالَّذِی جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘[10]
’’اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) سچ لانے والے اور حضرت ابو بکر صدیق اس سچ کی تصدیق کرنے والے ہیں - آقا کریم (ﷺ) کی محبت کو سمجھنے کیلئے سیدنا صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کی سیرت اور آپؓ کی محبتِ رسول(ﷺ)کو سمجھنا لازم ہے-
ایبٹ آباد: 06-01-2024 کامرس کالج گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف اقوام کی مثالیں دیں جن پہ عذاب آئے اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلایا-اسی طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم بیان فرمائی جب انہوں نے معافی مانگی -ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ ط لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ ‘‘[11]
’’پھر قومِ یونس (کی بستی) کے سوا کوئی اور ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو اور اسے اس کے ایمان لانے نے فائدہ دیا ہو- جب (قومِ یونس کے لوگ نزولِ عذاب سے قبل صرف اس کی نشانی دیکھ کر) ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیوی زندگی میں (ہی) رسوائی کا عذاب دور کردیا اور ہم نے انہیں ایک مدت تک منافع سے بہرہ مند رکھا‘‘-
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ:
هر کس که به درگاه تو آورد نیاز |
|
محروم ز درگاه تو کے گردد باز |
’’جو بھی شخص اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں عاجزی لے کر آتا ہے وہ کبھی بھی محروم نہیں لوٹتا‘‘-
ہر انسان کو اپنے آپ کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے-انسان کو جب بھی امتحان اور آزمائش کا سامنا ہو اسے اپنی غلطیاں اور عیب دیکھنے چائیں- عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ایک ذریعہ عجز و انکساری ہے-حضور نبی اکرم(ﷺ) کا فرمان ہے کہ سخاوت کرو اور سخاوت کی وجہ سے کوئی غریب ہو جائے تو قیامت کے دن مجھ سے اپنا مال لے لے اور عاجزی اختیار کرو اگر اس سے تمہاری عزت کم ہو تو قیامت والے دن مجھ سے لے لو- امام الغزالی ’’احیاء العلوم‘‘ میں ربیع ابن خثیم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ رات کو سونے سے پہلے سارے دن میں جو بھی بولا ہو لکھ لیتے تھے پھر ان کا تجزیہ کرتے اور پرکھتے تھے کہ کون سی بات خدا کی منشاء کے خلاف ہے-ایسی جو بھی بات پاتے اس پہ سونے سے پہلے توبہ کرتے-
حضور آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا کہ : ’’الدنيا سجن المومن‘‘ ’’دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے‘‘-
حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
بَنھْ چَلایا طَرف زَمین دے عَرشوں فَرش ٹِکایا ھو |
|
گھَر تھِیں مِلیا دیس نِکالا اَساں لِکھیا جھولی پایا ھو |
روح کا اصل وطن اللہ پاک کی بارگاہ ہےاور یہی وجہ ہے کہ روح اسی طرف رجوع رکھتی ہے-روح کی تسکین اللہ کے ذکر میں ہے- جب نفس کا تزکیہ اور دل روشن ہو جائے تو محبوب اپنا جلوہ دکھاتا ہے- جیسے جسم ورزش کرے تو اس میں تبدیلی شروع ہو جاتی ہے اسی طرح روح ذکر الٰہی سے روشن ہوتی ہے-ہم سب کو اپنے دل کو اللہ کے ذکر میں لگانا ہے-دائمی ذکر اللہ قربِ الٰہی اور مجلسِ محمدی (ﷺ)کے حصول کا ذریعہ ہے-اصلاحی جماعت قلب کی بیداری اور دائمی ذکراللہ کا پیغام عام کر رہی ہے-
اسلام آباد: 07-01-2024 کنونشن سینٹر
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
فرقہ واریت سے بچنے کے لیے ہمیں قلبی ذکر کے ذریعے روحانیت کو بیدار کرنا ہوگا جو کہ اصلاحی جماعت کا پیغام ہے -رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:”کہ اگر کسی پہ لعنت کی جائے اور وہ اس کا اہل نہ ہو تو لعنت اس کے بھیجنے والےپر لوٹ آتی ہے ‘‘- اس لیے ہمیں کسی پر بھی لعنت بھیجتے وقت بہت محتاط رہنا چاہیے-ہم سب کو خود سے وعدہ کرنا چاہیے کہ مومنین پہ لعنت، الزام، گالی، تہمت اور ان کی بے عزتی سے بچیں اور ہر مومن کی عزت کو اپنی عزت سمجھ کر اس کا تحفظ کریں -کسی کی چار دیواری کا تقدس نہ پامال کریں اور نہ پامال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کریں- ہمیں معاشرے میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہیں-آج مسلمان اپنے اندرونی انتشار کے باعث کمزور ہیں- مسلمان داخلی انتشار کی وجہ سے مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھانے سے قاصر ہیں-عالمی رہنما بھی عالمی طاقتوں کے دوہرے معیارات کی بات کر رہے ہیں لیکن مسلم دنیا مضبوط اور مؤثر آواز اٹھانے سے قاصر ہے اور یہ ہماری اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے ہے-مسجد اقصیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق کی بنیاد قرآن کریم میں ہے جو کہ غیر متزلزل اور دائم ہے-اس لئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘‘[12] ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں مت پڑو‘‘-
اٹک: 08-01-2024 فتح جنگ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جیسے عطر ہر کسی کو خوشبو دیتا ہے اسی طرح اللہ والوں کی صحبت سے ہر کسی کو فیض ملتا ہے- حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں :
اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھُو |
|
نفی اثبات دا پانی مِلیس ہر رگے ہر جائی ھُو |
یعنی مرشدِ کامل کی صحبت سے جو تصورِ اسم اللہ ذات کا ذکر ملاتو اس نے انسان کے باطن کو اللہ کے رنگ سے رنگ دیا اور اُس کی خوشبو سے معطر کر دیا- حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں:
سبھے مطلب حاصِل ہوندے باھوؒ جَد پِیر نَظر اِک تَکّے ھو |
چکوال: 09-01-2024
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
تعلق باللہ قائم کرنے کیلئے پاکیز گی لازم ہے- فکری اور نظری طور پر یہ ممکن ہے کہ بندہ تمام عیوب سے پاک ہوجائے -یہاں تک کہ جدید مغربی فلسفہ بھی تھیوریٹکلی اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انسان تمام(errors) سے پاک ہوسکتا ہے- لیکن عملی طور پر یہ کیسے ممکن ہے؟ مثال کے طور اونگھ ایک عیب ہے کیونکہ اس دوران بندہ جزوی غافل ہوتا ہے -لیکن کیا بندہ نیند یا اونگھ سے پاک ہوسکتا ہے؟ اس سے پاکی کا طریقہ یہ ہے کہ اونگھ اور نیند کی حالت میں بھی توجہ الی اللہ سے غافل نہ ہوا جائے-اس کیلئے انسان کو پاکیزگی کی ضرورت ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کردے-اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم(ﷺ) کو مخاطب کرکے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
’’وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرْ‘‘[13] ’’اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو‘‘-
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا‘‘[14]
’’آپ( ﷺ)ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں‘‘-
اولیاء اللہ کا یہی مشن و مقصد ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کی جائے اور اللہ تعالیٰ کے ذکرکو اختیارکرکے تمام برائیوں اور خصائلِ رذیلہ سے نجات حاصل کی جائے-
فیصل آباد: 10-01-2024 پہاڑی والی گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ہمارے لئے آفتابِ ہدایت بنا کر بھیجا- قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیھم السلام)کے قصے بیان کئے جو لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں-آقا کریم (ﷺ)کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ اٹھیں گے تو جنہیں سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا وہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام)ہوں گے-قرآن مجید نے ہمیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صفت مکالمہ سے متعارف کروایا ہے جس کی آج ہمیں بڑی ضرورت ہے-مثلاً اللہ تعالیٰ نے آپؑ کا نمرود کے ساتھ مکالمہ یوں بیان کیاہے:
’’اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ لا قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ ط قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللہَ یَاۡتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ طوَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ‘‘[15]
’’اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا اسے جو ابراہیم سے جھگڑا اس کے رب کے بارے میں اس پر کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی جب کہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے کہ جِلاتا اور مارتا ہے –(نمرود)بولا میں جِلاتا اور مارتا ہوں -ابراہیم نے فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے مشرق سے تو اس کو مغرب سے لے آ ، تو ہوش اُ ڑ گئے کافر (نمرود)کے -اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو‘‘-
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام)کے اس واقعہ سے اولیاء کرام یہ معانی اخذ کرتے ہیں کہ انسان کا نفس (نفس امارہ) نمرود کی مثل ہے کیونکہ نمرود نے اپنی سلطنت میں اس طرح کا جبر اور اختیار قائم کیا کہ اس نے سلطنت کے باشندوں کو یقین دلا دیا کہ میں ہی تمہارے لیے الٰہ کا درجہ رکھتا ہوں- اسی طرح اگر انسان کے باطن میں نفس امارہ بیٹھا ہے تو سمجھو کہ اس کی سلطنت میں نمرود آکر قابض ہو گیاہے-گویا اس سلطنت کو محفوظ کرنے کے لئے وقت کے ابراہیم (مرشدِ کامل) کی ضرورت ہے جو اسے دنیا کے حسن اور محبت سے نکال کر اپنے مولیٰ کے ساتھ جوڑ دے-
شیخوپورہ: 11-01-2024 اسٹیڈیم گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
آقا کریم رؤف الرحیم(ﷺ) سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام (علیھم السلام) اس دنیا میں تشریف لائے ان سب کی تعلیمات کا خلاصہ اگر بیان کیا جائے تو وہ دعوت الی اللہ تھا کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے اور ہر شخص اس میں اپنے حصّے کا ذمّہ ادا کرنے آیا ہے-اولیاء کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب اس مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے ایک حرف فرمایا ’’ کُن‘‘ اور اس سے تمام مخلوق پیدا ہوگئی- یعنی اولیاء کرام کے نزدیک کُن فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ارادہ بنا جس کے باعث تمام مخلوق عدم سے وجود میں آگئی -ارادہ اس کائنات کی تخلیق کا بنیادی جوہر ہے اور بندہ مومن کو جو اللہ تعالیٰ نے طاقت عطا کی ہے وہ انسان کی قوت ارادہ ہے اور یہی اس کا امتحان بھی ہے کہ اس نے کس حد تک اپنے ارادے کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا-کیونکہ جو ارادے کو خالص کرلیتا ہے اس کے اندر بھی اور باہر بھی اللہ ہی اللہ سما جاتا ہے – حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ جنہوں نے اپنا ارادہ ’’ھو‘‘ کے تابع کیا اللہ تعالیٰ نے ’’ ھو‘‘ کو ان کے ہونے کی علامت بنادیا- امام جامیؒ کی رباعی کا خلاصہ ہے کہ ’’ اگر ارادے اور خیال کو قابو کرلیا جائےتو جزو کل کے ساتھ متصل ہو سکتا ہے ‘‘-دو چیزیں ایسی ہیں جو ہر وقت وجود کے ساتھ رہتی ہیں ایک سانس اور دوسرا ارادہ – انسان جو بھی کر تا ہے اس کے ساتھ اس کا ارادہ متحرک ہوتا ہے -انسان ارادے کو جس جانب لگاتا ہے اس کی ہستی اس جانب ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے - اس لیے جو نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کے لئے نیکی کے راستے کھلنا شروع ہو جاتے ہیں -
گوجرانوالہ: 12-01-2024 منی اسٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
حضرت یوسف (علیہ السلام)کی زندگی کے واقعہ کے دو پہلو ہیں-پہلا ’’خواب سے تعبیر تک‘‘ یعنی حضرت یوسف(علیہ السلام) کے خواب سے تعبیر تک کا سفر مشکل تھا-اسی طرح ریاست کے خواب سے قیامِ پاکستان تک کا سفر بھی مشکل تھا-انسان کو حق پہ مبنی خواب کی تعبیر تک استقامت اختیار کرنی چاہئے-دوسرا پہلو ’’موت سے زندگی تک‘‘یعنی حضرت یوسف(علیہ السلام) کے بھائیوں نے سازش کی کہ ان کو قتل کر دیں-گویا کہ سفر کا آغاز قتل کی سازش سے ہوا لیکن اختتام حضرت یوسف(علیہ السلام) کے تخت پر بیٹھنے پہ ہوا- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ‘‘[16] ’’اے میرے رب بیشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی‘‘
انسان کے اندر کا سفر بھی نفس کی موت سے شروع ہوتا ہے-انسان کے اندر روح اور نفس کی جنگ ہے اور نفس امارہ ذکر اللہ سے مرتا ہے-عزیزِ مصر کی زوجہ نے حضرت یوسفؑ کو گناہ کی طرف دعوت دی تو آپؑ نے دعا کی :
’’قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنیْٓ اِلَیْہِ‘‘[17] |
|
’’عرض کی اے میرے رب! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہے‘‘- |
مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں تیرا حق کا مُتلاشی دل یوسف ہے جو تیرے اندر کے زندان میں قید ہے اللہ کے ذکر سے اسے زندان سے باہر نکال اور تیرے دل پر جو گَرد کے بادل چھائے ہوئے ہیں انہیں ہٹا تاکہ آ فتابِ حقیقی کی روشنی تیرے دل پہ پڑے -جب تیرا دل روشن ہوجائے گا تو حسنِ یوسف تمہیں تمہارے اندر سے ہی ملے گا-انسان کی دو سانسیں ہیں ایک اندر جاتی ہے ایک باہر آتی ہے -سانسوں کو ذکر اللہ میں لگایا جائے تو روح اپنے اصل مقام کی جانب سفر کرتی ہے اور یہی اصلاحی جماعت کی دعوت ہے-
قصور: 13-01-2024 سپورٹس گراؤنڈ
صدارت و خطا ب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
انبیاء کرام (علیھم السلام)کے واقعات ہماری رہنمائی کے لیے نازل فرمائے گئے-قرآن پاک کی تفا سیر میں بیان ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچے قتل کروا دیئے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے ہی محل میں پرورش پائی-اللہ تعالیٰ جسے چاہے دشمن کے گھر میں بھی محفوظ رکھتا ہے-صوفیاء فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے مشکل کے باوجود الہامی پیغام کی پیروی کی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے کی حفاظت فرمائی- آج بھی احکامِ الٰہیہ کی پیروی ہمیں وقت کے فرعونوں سے بچا سکتی ہے -قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کے متعلق واقعہ بیان ہے کہ:
’’ فَلَمَّآ اَتٰىہَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیءِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘[18] |
|
’’ پھر جب آ گ کے پاس حاضر ہوا ندا کی گئی میدان کے داہنے کنارے سے برکت والے مقام میں پیڑ سے کہ اے موسٰی بیشک مَیں ہی ہوں اللہ رب سارے جہان کا‘‘ |
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا اظہار درخت سے فرما سکتا ہے تو وہ اپنے انوار انسان کے اپنے اندر سے بھی ظاہر فرما سکتا ہے بشرطیکہ انسان اپنا باطن صاف کر لے-حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا مبارک نے سانپوں کو نگل لیا، دریا میں راستہ بنا دیا، پتھروں سے چشمے جاری کر دیئے-اولیاء فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنے جسم کا عصاء ایسے مرشد کامل کے حوالے کرنا چاہئے جو اس میں سے انوارِ الٰہی ظاہر فرما دے-
لاہور: 14-01-2024 منہاج کرکٹ گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے ہر چیز کو سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت عطا کی-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً‘‘ [19] ’’فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘-
’’ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ ‘‘[20]’’ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت کا کرامت کا تاج عطا کیا ‘‘-
قرآن مجید میں بارہا مرتبہ انسان کو کائنات میں غور و فکر کی تلقین کی گئی ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ طمَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا اللہُ طاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ‘‘[21] |
|
’’ کیا اُنہوں نے پرندے کو نہیں دیکھا کہ حکم کے باندھے آسمان کی فضاء میں اُنہیں کوئی نہیں روکتا سوائے اللہ کے اور اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لئے ‘‘- |
یونانی فلسفہ محض تخیلات پہ مبنی تھا جبکہ جدید دور تجربیت (empiricism) پہ قائم ہے- فرانسیسی مؤرخ رابرٹ بریفالٹ (Robert Briffault) اپنی کتاب’’The Making of Humanity‘‘ میں کہتا ہے کہ آپ قدیم اور جدید دنیا کے درمیان رابطے کو نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ اسلام کے سنہرے دور کا مطالعہ نہیں کرتے- مسلمانوں نے قرآن مجید میں غو ر وفکر کی دعوت کی بدولت تجربہ کی بنیاد رکھی-كائنات میں غور و فکر کو ایمان کی نشانی کے طور پہ بیان فرمایا گیا ہے -خلوت میں سوچ بچار اور مراقبہ انسان کو كائنات اور تخلیق کے اسرار و رموز جاننے کا موقع دیتا ہے-قرآن مجید کی دعوت ِ فکر کے پیشِ نظر اولیائے کاملین نے انسان کو مراقبےاور خلوت کی طرف توجہ دلائی ہے-یعنی كائنات اور انسان کے اپنے اندر کی نشانیاں، دونوں ہی توحید کی جانب لیجاتی ہیں- صوفیاء حدیث مبارکہ بیان فرماتے ہیں کہ گھڑی بھر کا تفکر جملہ جن و انس کی عبادت سے افضل ہے-
جھنگ: 15-01-2024
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰی‘‘[22] ’’اور یہ کہ (بالآخر سب کو) آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے‘‘-
’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘[23] |
|
’’ تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو رب سارے جہان کا‘‘- |
بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے-قرآن مجید میں اس کے علاوہ دیگر کئی آیات مبارکہ ہیں جن سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہےکہ انسان اس دنیا میں جو بھی کام انجام دے رہا ہے اس کی توجہ اس کی نیت، طلب ،آرزو، تمنا، چاہت، جستجو خواہش صرف مالک کی ذات ہونی چاہئے – اس کی ذات سے کم کسی چیز پہ سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے -آقا کریم (ﷺ) سے دنیا کی طلب کرنے پہ آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی اس عاجز بڑھیا سے کم نہ ہو جاؤ جس نے حضرت یوسف(علیہ السلام) کی قبر کا مقام حضرت موسیٰ(علیہ السلام) کی بارگاہ میں اس شرط پہ بتایا کہ وہ جنت میں حضرت موسیٰؑ کے ساتھ رہنا چاہتی تھی-مولانا رومی فرماتے ہیں کہ کھجور کا کھوکھلا تنا آپ(ﷺ) کے ہجر میں روتا ہے-محدثین بیان فرماتے ہیں کہ جب آپ(ﷺ) اس سوکھے تنے کے قریب تشریف لائے تو ہ وہ خاموش ہو گیا-اولیاء فرماتے ہیں کہ انسان کو اپنی طلب میں اُس بڑھیا اور اُس سوکھے تنے سے کمتر نہیں ہونا چاہئے اور حضور نبی کریم (ﷺ)سے جب بھی عرض ہوتو آپ(ﷺ) کی معیت اور قرب مانگنا چاہئے-
خانیوال: 16-01-2024
صدارت وخطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
سُلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں کہ انسان کے باطن کا دروازہ جب کھلتا ہے تو اس سے تازہ ہوا اور روشنی ملتی ہے- یعنی انسان کو تازگی اپنے اندر سے نصیب ہوتی ہے- اس لیے اولیاء اللہ کی تعلیمات اور ان کی صحبت سے ہمیں باطن کی روشنی اور نور نصیب ہوتا ہے-امام رازی جنہوں نے اپنے وقت میں قرآن مجید کی سب سے معتبر اورمفصل تفسیر مبارکہ لکھی جو حکمت کا سمندر ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن کریم کا فیض حاصل کرنا ہے تو اسے یوں پڑھو قرآن مجید اللہ کا کلام بن کے تمہارے سینے پر منکشف ہوجائے- جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے بھی فرمایا:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان |
|
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار |
کلیم کے ہاتھ کے بغیر عصا سانپ نہیں نگلتا، مسیح کے ہاتھ کے بغیر مورتیں پرندے بن کر نہیں اُڑتیں، داؤد کے ہاتھ کے بغیر جالوت زیر نہیں ہوتا ، نَفَسِ ابراہیم کے بغیر آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی اور شمس کی صحبت کے بغیر مُلا روم کا مولا نہیں بنتا – بزبانِ حضرت سلطان باھوؒ:
باجھوں مِلیاں مُرشد کامِل باھوؒ ہوندی نہیں تَسلّا ھو |
وہاڑی: 17-01-2024 سلطان باھُو سپورٹس کمپلیکس
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّط اَوَ لَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ‘‘[24]
’’ابھی ہم انہیں دکھائیں گے اپنی آیتیں آفاق میں اور خود ان کے انفس میں یہاں تک کہ ان پر کُھل جائے کہ بیشک وہ حق ہے کیا تمہارے رب کا ہر چیز پر گواہ ہونا کافی نہیں‘‘-
انسان کو فطرت اور اپنے باطن دونوں کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت کا سفر ہے- اولیاء اللہ کے نزدیک اپنے من میں جھانکنا انفس میں غور کرنا بہت ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم فرمایا ہے:
’’اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ‘‘[25] ’’کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا‘‘؟
خود کو پہچاننا در اصل اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کرنا ہے- جیساکہ صوفیاء کرام بیان فرماتے ہیں:
’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ‘‘[26] ’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘-
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
ایہہ تن رب سچے دا ہجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھُو |
حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی کھوج میں اپنے رب کو پایا ہے اور اپنے رب کی کھوج میں خود کو پایا ہے‘‘-
ملتان: 18-01-2024 اسٹیڈیم قلعہ کہنہ قاسم باغ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
قرآن مجید میں ایسے احوال جو بظاہر گزشتہ قوموں کے قصے اور کردار لگتے ہیں صوفیائے کرام کا نقطہ نظر کے مطابق قرآن کریم کی ہر آیت ہر دور کے انسان کے لئے پیغام ہے-حضرت نوح(علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے آپ کی دعوت کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا – اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام)کو کشتی تیار کرنے کا حکم فرمایا:
’’وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ج اِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ ‘‘[27]
’’اور تم ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے (کوئی) بات نہ کرنا، وہ ضرور غرق کئے جائیں گے‘‘-
حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا بھی کفار کے ساتھ کھڑا تھا اس نے کہا کہ پہاڑ مجھے بچا لے گا- شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ:
پسرِ نوح با بداں بہ نشستؔ |
|
خاندانِ نبوّتش گم شد |
’’حضرت نوح (علیہ السلام)کے بیٹے نے بُروں کی صحبت اختیار کی تو اس کی وجہ سے اُس سے نبوّت کا خاندان چھوٹ گیا-اصحابِ کہف کے کتے نےچند روز نیکوں (اولیاءاللہ) کی صحبت اختیار کی تو آدمی بن گیا‘‘-
اولیاء ا للہ فرماتے ہیں کہ جسم طوفانِ نوح کی مانند اور روح کشتی کی مانند ہے-مرشدِ کامل ملاح،نوح کی مانند ہے جس کی قُوت ذکر اللہ ہے - حضرت نوح(علیہ السلام) نے قوم سے خطاب کیا کہ کشتی اللہ کے اسم سے چلے گی اور اسی سے ٹھہرے گی جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:
’’وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللہِ مَجْرٖىہَا وَمُرْسٰىہَاط اِنَّ رَبِّی لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘
’’اور نوح (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ اس میں سوار ہو جاؤ اﷲ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے۔ بیشک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘-
امام احمد بن حنبل ؒ روایت کرتے ہیں کہ آ قا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا دنیا طوفان ہے اور میرے اہلِ بیت اطہار(رضی اللہ عنھم) کشتی نوح ہیں ، جو میرے اہلِ بیت کی کشتی میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا جو ان کے سفینے سے اُتر گیا وہ ہلاک ہوگیا –
رحیم یار خان: 19-01-2024 حق باھو چوک
صدارت وخطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
قرآن مجید میں جتنے واقعات بیان ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ہماری زندگی سے تعلق رکھتے ہیں -قرآن مجید میں مسجد ضرار کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو منافقین نے مدینہ میں مسجد قباء کے قریب بنائی اور حضور اکرم(ﷺ)کو تشریف لانے کی عرض کی تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا:
’’وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًام بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُط وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰیط وَاللہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَo[28] |
|
’’اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیارکی ہے (مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) سے پہلے ہی سے جنگ کر رہا ہے، اور وہ ضرور قَسمیں کھائیں گے کہ ہم نے (اس مسجد کے بنانے سے) سوائے بھلائی کے اور کوئی ارادہ نہیں کیا، اور اﷲ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیں‘‘- |
آپ(ﷺ)نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ جاؤ اور مسجد کو گرا دو اور جگہ کو جلا دو-مولانا رومی فرماتے ہیں کہ انسان کو خود کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ کہیں اس نے اپنے دل کو مسجد ضرار تو نہیں بنا رکھا؟مسجد ضرار بنانے والوں کی چار خصلتیں بیان ہوتی ہیں،فتنہ پیدا کرنا، کفر کو تقویت دینا، مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کے خلاف جنگ کرنے والوں کو گھات دستیاب کرنا-اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ اگر باطن پاک نہ ہو تونفس منافق دل کو مسجد ضرار بنا کر یہی چار خصلتیں پیدا کرتا ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتاہے:
’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘‘[29] ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں مت پڑو‘‘-
لودھراں: 20-01-2024 ڈیرہ حق باھو
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قوم ثمود کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت صالح کی قوم نے شرطوں کے ساتھ معجزے کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے وہ پورا فرمایا:
’’قَدْ جَآءَتْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوْہَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللہِ وَلَا تَمَسُّوْہَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘[30] |
|
’’ بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا‘‘- |
پہاڑ میں سے اللہ تعالیٰ نے زچہ اونٹنی کا ظہور فرمایا جسے دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لائے اور جن کے دلوں میں مہر تھی وہ اپنی سرکشی پر ڈٹے رہے-شیطانی فتنے کے باعث کچھ لوگوں نے اس اونٹنی کو جو اللہ کی نشانی تھی، قتل کردیا جس کے بعد قوم ثمود پر عذاب نازل کیا گیا-مولانا رومی و دیگر اولیاء اللہ اس واقعہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ قوم ثمود کو اپنے باہر تلاش کرنے کی بجائے ہم اپنے اندر تلاش کریں-وہ تمام شکوک و شبہات اور وسوسے سے جو ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ)کی شریعت کے بارے میں آتے ہیں وہ قوم ثمود کی مثل ہے-وہ چراگاہ جہاں وہ اونٹنی چرتی تھی، دنیا ہے- قیدار نامی شخص جس نے اونٹنی کو قتل کیا تھا ہمارا نفس ہے اور وہ اونٹنی جو اللہ نے ایک معجزے کے طور پر رونما فرمائی تھی، قلب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے پنجرے میں رکھ کر بھی عالم انوار کے ساتھ وابستہ کر دیا-حضرت صالح جس کے ساتھ اونٹنی ظہور کرتی ہے قوم کے اندر اللہ کا بھیجا ہوا نیک بندہ ہوتا ہے جسے ہم اصطلاح تصوف میں مرشد کامل کہتے ہیں-یعنی اونٹنی کا قاتل نفس ہے اور نفس غفلت کے ہتھیار کے ساتھ دل کا قتل کرتا ہےاور غفلت اللہ تعالیٰ کے قرب سے دور کرتی ہے- اس لیے حضرت سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں کہ غفلت کو چھوڑ کر ہر دم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو-
جو دَم غافِل سو دم کافِر‘ اسانوں مُرشد ایہہ پَڑھایا ھو |
کندھ کوٹ: 29-01-2024 عید گاہ
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز قادری
’’اصلاحی جماعت دنیا کے تمام انسانوں کو زندگی کے اصل مقصد سے روشناس کروا رہی ہے-تمام مخلوقات سے افضل و اشرف انسان ہے اور تمام انسانوں سے افضل حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات مبارکہ ہے-مگر افسوس! کہ انسان اس بات کو بھول بیٹھا ہے کہ اس کو شرف و فضیلت کا تاج کیونکر عطا ہوا ہے؟ اولیاء کرام نے اس راز کو پایا اور عوام الناس کو اس راز سے آگاہ کیا کہ انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں-ایک ظاہری اور دوسرا باطنی-ظاہری وجود حقیقی انسان (روح)کا لباس ہے-روح نوری انسان ہے-روح کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی ہے اور آقا کریم (ﷺ) کے ساتھ بھی-
خزینہ تھا چھپایا مجھ کو مُشتِ خاکِ صحرا نے |
|
کسی کو کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں |
حقیقی انسان (روح )کی پہچان خود شناسی ہے اور یہی خود شناسی خدا شناسی کا زینہ ہے-بقول علامہ اقبال:
ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ |
|
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان |
جیک آباد: 29-01-2024 پاکیزہ شادی ہال
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز قادری
’’میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) کا بنیادی مقصد انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کروانا ہے کہ انسان کی تکمیل فقط ظاہر پر اکتفا کرنے سے نہیں بلکہ ظاہر اور باطن دونوں کومرتبہ کمال تک پہنچانے میں ہے-انسان کے ظاہر کو سنوارنے کے لئے شریعت پر عمل پیرا ہونا ہے اور باطن کی تکمیل کے لئے قلبی ذکر یعنی ذکر الٰہی سے کرنا جب تک انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے باطن کا تزکیہ نہیں کر لیتا اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا-اسی مقصد کے لئے جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی مدظلہ الاقدس سر پرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ملک کے کونے کونے کو فیض یاب کرنے کےلئے اسم اللہ ذات کو فی سبیل اللہ ہر انسان تک پہنچا رہے ہیں‘‘-
صحبت پور (بلوچستان): 30-01-2024 فٹبال گراؤنڈ
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز قادری
تعلیماتِ اولیاء کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی وہ تعلیمات جو انسان کو بیدار کردیتی ہیں- مگر افسوس! کہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اپنے آپ سے بے خبر ہے-اس لئے اولیاء کرام کی تعلیمات کا مرکزی کردار انسان کی راہنمائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ قرآن پاک حکم فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو عظمت والا بنایا ہے –اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی قسمیں کھا کر اس کی عظمت کو بیان کیا ہے لیکن آج ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا-ہم نے انگریز کو تو فالو کیا مگر اپنے آپ کو جاننے کی کوشش نہیں کی- اس لئے ہمارے مرشد کریم نے ہمیں یہ فرمایا کہ قرآن کریم کو اپنے اوپر وارد کرو تا کہ اس کے ذریعے تم اپنے آپ کو پہچان سکو-قرآن ہمیں تفرقوں سے نکال کر ایک کردیتا ہے اور ہمیں ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کرتا ہے، انسانوں کو جگاتا ہے اور صراطِ مستقیم پر چلاتا ہے-قرآن خدا اور انسان کے درمیان گفتگو کا ذریعہ ہے- ہمیں اس سے اپنا ناطہ کمزور نہیں کرنا چاہیے ورنہ ہم اپنی اصلاح نہیں کرسکتے-اپنے اسلاف کی طرح قرآن پر پابند ہوکر انسان کو بیدار کرنا ہے اور سب فرقوں سے نکال کر ایک راستہ جسے صراطِ مستقیم کہتے ہیں اس پر چلنا ہے-
شہداد کوٹ: 31-01-2024 عید گاہ
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز قادری
اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات میں فضیلت اور برتری عطا فرمائی ہے اور پوری انسانیت میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات اقدس کو افضل و اعلیٰ فرمایا-دورِ حاضر میں ضرورت اس امر کی ہےکہ ہم اپنےآقا پاک (ﷺ) سے جس قدر محبت و عقیدت کا دم بھرتے ہیں اسی قدر ہم آپ (ﷺ) کے پیغام کو سمجھیں اور اپنے آپ کوا س میں ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ آپ (ﷺ) نے اپنی امت کو محبت و امن اور مساوات کا درس دیا ہے- قرآن کریم میں انسان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا مگر افسوس! یہ ہے کہ انسان اپنی اہمیت اور فضیلت سے غافل ہوگیا- فرمانِ الٰہی ہے:
’’أَ فَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘ [31] ’’تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں‘‘-
اصلاحی جماعت یہی پیغام دیتی ہے کہ جب لوٹ کر اس کی بارگاہ میں جانا ہے تو پھر اس کے لئے پہلے سے تیاری کرنی چاہیے کہ اپنے ظاہر کو شریعت کے تابع اور اپنے باطن کو طریقت یعنی قلبی ذکر سے منور کریں اور دونوں جہانوں کی کامیابیوں کو حاصل کریں-
لاڑکانہ: 01-02-2024 بلمقابل بی ٹی وی نیوز
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز قادری
قرآن مجید انسان سے مخاطب ہے-قرآن انسان کو ہر سوال کا جواب دیتا ہے کوئی قرآن کےقریب تو آئے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ[32] ’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو
اصلاحی جماعت کی بھی یہی دعوت ہے کہ آ ج قرآن اور انسان کے درمیان جو اجنبیت پیدا ہوئی ہے اس کو ختم کیا جائے قرآن کو اتنا پڑھا جائے، اتنا پڑھا جائے کہ اجنبیت انسیت میں بدل جائے-
گھوٹکی: 02-02-2024 رائل میرج ہال
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز قادری
دورِ حاضر میں زوال سے نکلنے کا واحد راستہ قرآن و سُنّت پر عمل ہے-جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ھُدًیْ لِّلنَّاسِ‘‘ [33] ’’(قرآن) پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے‘‘-
مزید حدیث پاک میں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ‘‘ [34] ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور سکھائے ‘‘-
قرآن پاک کو سیکھنے کے لئے سب سے اہم تین درجے یہ ہیں:
1-قرآن پاک کو پڑھنا |
2-قرآن پاک کے معانی جاننا |
3-قرآن پاک کے مفہوم ومطالب کو سمجھنا |
اس کے بعد قرآن کریم پر عمل اور پریکٹیکل ہے جس کو ہم نے ترک کر دیا اور زوال پذیرہوگئے- اس لئے ہم قرآن و حدیث پر عمل کر کے ہی اپنے ظاہر و باطن کی کامیابی حاصل کرسکتےہیں-جیسا کہ اقبال نے فرمایا ہے:
گر تو می خواہی مسلمان زیستن |
|
نیست ممکن جز بقرآن زیستن |
’’اگر تو مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہے تو ایسی زندگی قرآن پاک کے بغیر ممکن نہیں‘‘-
کراچی: 03-03-2024 نشتر پارک
صدارت وخطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، کتابِ برحق، آخرت میں دوبارہ زندہ ہونے ، دُنیا میں کِسی مقصد کی خاطر آنے ، اپنی جان اپنے مولا کے سپرد کرنے پر ایمان ہے وہ کبھی اُمید، یقین اور قوت عمل سے لڑکھڑا نہیں سکتا-آج دنیا میں موجود بے یقینی سے باہر نکلنے کا واحد ذریعہ اللہ کا خوف اور تقویٰ ہے-ابو سعید ابوالخیرفرماتے ہیں کہ میں نے قبرستان میں کبھی کسی غریب کو نہیں دیکھا جسے کفن کے بغیر مٹی میں دفنایا گیا ہو اور نا ہی میں نے دیکھا کہ دولت مند ایک کفن سے زیادہ اپنے ساتھ کچھ لے کر گیا ہو-جو ایک فقیر لے کر گیا وہی ایک دولتمند لے کر گیا-صوفیاء فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ پاک کی معرفت کو حاصل کرے اور غیبت اور گلہ گوئی سے بچے-حضرت بہلول دانا فرماتے ہیں کہ میرے اچھے دوست قبرستان والے ہیں کیونکہ میرے سامنے کسی کی غیبت نہیں کرتے اور مجھے یقین ہے کہ کسی کے سامنے میری غیبت بھی نہیں کرتے ہوں گے-
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کی اصل حقیقت انسان کا باطن ہے- مولانا روم ایک حکایت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب (علیہ السلام)کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بڑے بڑے گناہ کیے لیکن مجھ پر اللہ کی کوئی پکڑ نہیں آئی-حضرت شعیب (علیہ السلام)نے فرمایا کہ گرفت کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انسان کا ظاہری مال و متاع کم ہوجاتا ہے بلکہ اللہ کی پکڑ سے انسان اندر کے سکون اور اللہ پاک کے قرب سے محروم ہو جاتا ہے-حضرت سلطان باھُوقربِ الٰہی کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھُو |
|
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھُو |
غوث اعظم محی الدین شیخ عبدالقادر الجیلانی فرماتے ہیں جیسے دودھ میں گھی موجود ہوتا ہے لیکن اسے نکالنے کیلیے جاگ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کے وجود میں اللہ کے انوار و تجلیات موجود ہیں اور ان کو پانے کیلئے مرشد کامل کی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے – مٹی کی تہوں سے پانی نکلتا ہے مگر کنواں کھودنے کیلئے کاریگر کی ضرورت ہے -اصلاحی جماعت کی بھی یہی دعوت ہے کہ آئیں مرشد کامل تصور اسم اللہ ذات حاصل کر کے اپنے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو آباد کریں اور اپنی حقیقت تک رسائی حاصل کریں-
٭٭٭
[1](آلِ عمران:31)
[2](البقرۃ:154)
[3](الانفال:45)
[4](التوبہ:119)
[5](الیواقیت والجواہر)
[6](الشورٰی:23)
[7](الاعراف:115)
[8](النمل:29)
[9](التوبہ:40)
[10](الزمر:33)
[11](یونس:98)
[12](آلِ عمران:103)
[13](المدثر:3-4)
[14](التوبہ:103)
[15](البقرۃ:258)
[16](یوسف : 101)
[17](يوسف :33)
[18](القصص:30)
[19](البقرہ: 30)
[20](الاسراء:70)
[21](النحل:79)
[22](النجم:42 )
[23](الانعام:162)
[24](حم سجدہ:53)
[25](الروم:8)
[26](مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان)
[27](ھود:37)
[28](التوبہ:107)
[29](آلِ عمران:103)
[30](الاعراف:73)
[31](المومنون:115)
[32](البقرۃ:21)
[33](العمران:4)
[34](صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن)