اندر کی آنکھ

اندر کی آنکھ

اگر  انسان چاہے تو آقا کریم (ﷺ) کی اطاعت و اتباع کے ذریعے ایسی صلاحیتیوں کو اجاگر کر سکتا ہے جو اس کے اندر کی دنیا (inner self)سے تعلق رکھتی ہیں- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓ اِلَی اللہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ  اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ‘‘[1]

’’ (اے محبوب مکرم (ﷺ)!)آپ فرما دیجئے کہ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں مَیں اور جو میرے قدموں پر چلیں وہ بصیرت (دل کی آنکھیں) رکھتے ہیں اور اللہ کو پاکی ہے اور مَیں شریک کرنے والا نہیں‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ آقا کریم (ﷺ)کو فرما رہا ہے کہ اے حبیب (ﷺ) آپ اس بات کا اعلان فرمادیں کہ میں بھی بصیرت پر ہوں  اور جس نے میری اطاعت و اتباع کی وہ بھی بصیرت کو پا لیتا ہے -

بصیرت کیا ہے ؟

بصیرت دل کی بینائی و روشنی کو کہتے ہیں-یاد رکھیں! ایک بصارت ہے اور دوسری بصیرت- بصارت کا تعلق انسان کی ظاہری آنکھ سے ہے جو حواس خمسہ سے تعلق رکھتی ہے- وہ بینائی اور آنکھ جو حسی بصارت سے آگے دل کو نصیب ہوتی ہے اُسے بصیرت کہاجاتاہے -جیسا کہ علامہ جرجانیؒ ’’کتاب التعریفات‘‘ اور امام عبد الرؤوف المناویؒ ’’التَّوقِيف على مُهِمَّاتِ التَّعاريف‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’’اَلْبَصِيْرَةُ: قُوَّةٌ لِّلْقَلْبِ الْمُنَوَّرِ بِنُوْرِ الْقُدَسِ يَرٰى بِهَا حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ وَ بَوَاطِنَهَا، بِمَثَابَةِ الْبَصَرِ لِلنَّفْسِ يَرٰى بِهٖ صُوَرَ الْأَشْيَاءِ وَ ظَوَاهِرَ هَاوَهِيَ الَّتِيْ يُسَمِّيْهَا الْحُكَمَاءُ اَلْعَاقِلَةَ النَّظْرِيَّةَ وَ الْقُوَّةَ الْقُدْسِيَّةَ‘‘[2]

’’بصیرت اللہ تعالی ٰ کے نور سے روشن ہونے والے  دل کی اُس قوت کانام ہے جس کے ذریعے وہ اشیاء کی حقیقتوں اور اُن کے باطن کو دیکھتا ہے (جانتا ہے)-یہ جسم کی اس (ظاہری) آنکھ کے قائم مقام ہے جس کے ذریعے وہ اشیاء کی صورتوں اور ان کے ظاہر کودیکھتا ہےاوریہی وہ (بصیرت) ہے جس کو حکماء عاقلہ نظریہ اور قوت قدسیہ کا نام دیتے  ہیں‘‘-

اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال اور معرفت کیلئے بصارت کارگر ثابت نہیں ہوتی بلکہ بصیرت کام آتی ہے کیونکہ بصیرت کا تعلق قوتِ قدسیہ کے ساتھ ہے- گویا نور کا مشاہدہ بصارت سے نہیں بلکہ قوتِ قدسیہ کی حامل بصیرت سے کیا جاتاہے-اس لیے آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ مَیں بھی بصیرت پر ہوں اور جو سچے دل سے میری اتباع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بھی چشمِ بصیرت عطا کر دیتاہے- لہٰذا! اولیاء اللہ  کا مخلوق سے ایک درجہ اس لئے بھی بلند ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو چشمِ بصیرت (باطن کا نور)عطاکیا ہوتا ہے-  عام مخلوق فقط ظاہر سے دیکھتی ہے جبکہ اولیاء اللہ ظاہر سے بھی دیکھتے ہیں اور باطن سے بھی دیکھتے ہیں- بصیرت کے متعلق امام ابو القاسم قشیریؒ فرماتے ہیں:

’’اَلْبَصِيْرَةُ: اَلْيَقِيْنُ الَّذِيْ لَا مَرِيَّةَ فِيْهِ وَيُقَالُ اَلْبَصِيْرَةُ أَنْ تَطْلَعَ شُمُوْسُ الْعِرْفَانِ فَتَنْدَرِجُ فِيْهَا أَنْوَارُ نُجُوْمِ الْعَقْلِ‘‘[3]

’’بصیرت اس یقین کو کہتے ہیں جس میں ذرہ بھر بھی شک نہ ہواور کہا جاتا ہے کہ بصیرت یہ ہے کہ عرفان کے سورج طلوع ہوں،پس  اس میں عقل کے ستاروں کے انوار و تجلیات ظاہر ہوں‘‘-    

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بصیرت آقا کریم (ﷺ) کی پیروی کے نتیجے میں امت کو وراثتاً ملی ہے- جیسا کہ حضرت حارث بن مالک انصاری(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’ایک مرتبہ مَیں حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس سے گزرا توآپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا:

’’كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثُ؟ قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا، فَقَالَ : اُنْظُرْ مَا تَقُوْلُ؟  فَإِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ حَقِيْقَةً  فَمَا حَقِيْقَةُ إِيْمَانِكَ؟ فَقَالَ:  قَدْ عَزَفَتْ نَفْسِيْ عَنِ الدُّنْيَا وَأَسْهَرْتُ لِذٰلِكَ لِيَلِيْ، وَ اطْمَأَنَّ نَهَارِيْ  وَ كَاَنِّيْ أَنْظُرُ إِلٰى عَرْشِ رَبِّيْ بَارِزًا وَ كَاَنِّي أَنْظُرُ إِلٰى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُوْنَ فِيْهَا  وَكَاَنِّيْ أَنْظُرُ إِلٰى أَهْلِ النَّارِ يَتَضَاغَوْنَ فِيْهَا  فَقَالَ: يَا حَارِثُ عَرَفْتَ فَالْزَمْ، ثَلَاثًا‘‘[4]

’’اے حارث! تونے کیسے صبح کی؟‘‘انہوں نے عرض کیا: میں نےسچے مومن کی طرح یعنی(حقیقت ایمان کے ساتھ)صبح کی- آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اے حارث دیکھ تو کیا کَہ رہا ہے ؟ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یقیناً ہر ایک شےکی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے-سو تمہارےایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ)! میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی راتوں میں بیدار اور دن میں (قربِ  الٰہی کی طلب میں) پیاسا رہتا ہوں اور (حالت یہ ہے) گویا میں اپنے رب کےعرش کو سامنے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں جنت میں اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور گویا کہ مَیں دوزخ میں  دوزخیوں کو (تکلیف سے) چلاتےہوئے دیکھ رہا ہوں-حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اے حارث! تو نے(حقیقت ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا-یہ کلمہ آپ (ﷺ) نے تین مرتبہ فرمایا-

حارث بن مالک (رضی اللہ عنہ)آقا  کریم (ﷺ)کے صحابی  ہیں اور ایمان کی حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ دل اور نفس دنیا سے بے رغبت ہو جانا، دن اور رات کو محبتِ الٰہی میں تڑپتے رہنا، نظر اٹھے تو اللہ تعالیٰ کا عرش نظر آنا، جنت میں جنتیوں کو آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور  دوزخ میں دوزخیوں کو  تکلیف میں آہ و بُکا کرتے دیکھنا-

توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ)نے اپنے صحابی کی بات سن کر یہ نہیں  فرمایا کہ حارث تجھے وہم ہوگیا ہے یا تو کسی بدعت  میں مبتلا ہو گیا ہے کہ اِس عالم میں بیٹھ کر اُس عالم کا مشاہدہ کیسے کرسکتاہے، تیری نظر دیورا کے پار نہیں دیکھ سکتی تو سرِ عرش کو کیسے دیکھ سکتاہےبلکہ آقا کریم (ﷺ) نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ حارث تو نے ایمان کی حالت کو پا لیا ہے اس پہ قائم ہوجا-گویا ایمان کی حقیقت کا تعلق چشمِ باطن سے ہے اور یہ وہ چشمِ بصیرت ہے جو رسول کریم (ﷺ) کی اتباع کہ نتیجہ میں آپ (ﷺ)کے صحابہ  کرام اور اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم) کو بھی نصیب ہوا اور آپ (ﷺ) کے امت کے اولیاء کاملین کو بھی نصیب ہوا-

حکیم الامت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ :

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ

جب تک ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ کا نور زبان پہ رہتا ہے تب تک صرف ثواب بڑھتا رہتاہے لیکن جب ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ کا نور زبان سے دل پر اتر جاتاہے تو پھر زمان و مکان کی حد ختم ہو جاتی ہے، پردے اور حجابات اٹھ جاتے ہیں-یہ مقام اتباعِ مصطفےٰ (ﷺ) سے نصیب ہوتا ہے-

اطاعت اور اتباع میں کیا فرق ہے؟

اطاعت  کا مطلب راستے کو اختیار کرنا ہے اور اتباع کا مطلب اپنے رول ماڈل میں فنا ہوجاناہے-اس لیےقرآن  کریم میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت اور اتباع کا صلہ بھی  الگ الگ بیان فرمایا ہے-اطاعت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ  وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘[5]

’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی‘‘-

ایک اور مقام پہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ‘‘[6]

’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا‘‘-

یعنی اطاعت کا صلہ کامیابی، شاباشی اور انعام ہے- جبکہ  اتباع کے صلہ کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ  اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘[7]

’’اے محبوب(ﷺ)!فرما دیجئے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہوتو میری اتباع کرو،اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘-

گویا اتباع کا صلہ درجۂ محبوبیت کو پاجانا  ہے-جیسا کہ اس آیت ’’عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ‘‘میں بیان ہوا ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بصیرت عطا فرمائی اور جو میری اتباع کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی بصیرت کی نعمت سے نوازے گا-

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم نے بھی زندگی بھر اتباع کی ہے مگر ہماری کبھی ایسی باطنی کیفیت نہیں ہوئی کہ ہم بھی باطنی کیفیت سے احوال کو جانیں؟

یاد رکھیں! انسان جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے وہ اس کے مقصد پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرناچاہتا ہے-مثلاً پانچ آدمی فزکس پڑھتے ہیں اور پانچوں آدمی مختلف مقام پر فائز ہیں-ایک آدمی نے فزکس پڑھی امتحان پاس کر کےچھوڑ دیا لیکن اب وہ آوارہ گردی میں گھومتا ہے-دوسرا آدمی فزکس میں ماسٹر اور ایم فل کر کے پولیس میں ملازمت کرتا ہے-تیسرا آدمی فزکس پڑھ کر سائنس ٹیچر بھرتی ہوجاتا ہے اور 25 برس  کی عمر سےلےکر ریٹائرمنٹ کی عمر تک سائنس کا ٹیچر رہتا ہے-چوتھا آدمی فزکس پڑھ کر کسی یونیورسٹی میں لیکچرار  لگ جاتا ہے  اور اس کی ترقی یہی ہوگی کہ وہ مختلف جرنلز میں مضامین لکھے، تھیسز کروائے،یا چند کانفرنس اٹینڈ کر لے-لیکن پچھلے تین آدمیوں کی طرح یہ بھی ایجاد نہیں کر پائے گا-کیونکہ ان کا مقصد ہی کوئی دریافت یا ایجاد کرنا نہیں ہے-جبکہ جو پانچواں آدمی ہے جو دنیا کا نامور سائنس دان بن کر مختلف اور نت نئی ایجاداور دریافت کرتا رہتا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ فزکس اُ س کا جنون اور عشق تھا-اسے ایک کامل سائنس دان استاد ملا جس نے اسے فزکس کی جدید ترین اور معیاری تعلیم و نصاب سے روشناس کروایااور اس سے مختلف تجربات کروائے-یعنی فزکس تو پانچوں نے پڑھی ہے لیکن سب نے اپنے اپنے مقصد کے مطابق نتیجہ پایا-

حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا اور اس کا فیصلہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی محنت کا صلہ ملے گا-اگر کسی کو چشمِ بصیرت حاصل نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے چشمِ بصیرت کو چاہا ہی نہیں اور اگر چاہا بھی تو اس کو پانے کے لئے محنت  نہیں کی  اور نہ ہی کسی کامل استاد کی صحبت اختیار کی- بزبانِ عرش صہبائی:

دل تو کیا چیز ہے ہم روح میں اترے ہوتے
تم نے چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح

پس معلوم ہوا کہ قرآن  کریم نے یہ اُصول بیان کردیا چشمِ بصیرت ایک حقیقت ہے اور آقا کریم (ﷺ) اُس چشمِ بصیرت کے حامل و کامل اور اکمل ہیں-جو بھی چشمِ بصیرت کی تلاش میں آقا کریم (ﷺ) کی اتباع کرتاہے وہ چشمِ بصیرت  کو پا لیتا ہے-

قرآن مجید اور حضور نبی کریم(ﷺ)کی سیرت اور سنت مبارکہ ایک ایسا راستہ ہے جس پہ چلتے ہوئے انسان کو ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی آنکھ بھی نصیب ہوتی ہے جو ظاہری آنکھ سے زیادہ دور دیکھ  کر احوال کا مشاہدہ کرسکتی ہے -یہی اولیاء کاملین کی تعلیم ہے جو وہ قرآن و حدیث سے اخذ کرتے ہیں-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قَدْ جَآءَکُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْج فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖج وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْہَا ط وَمَآ  اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ‘‘[8]

’’تمہارے پاس آنکھیں کھولنے والی دلیلیں آئیں تمہارے رب کی طرف سے تو جس نے دیکھا تو اپنے بھلے کو اور جو اندھا ہواتو اپنے بُرے کو اور مَیں تم پر نگہبان نہیں‘‘-

 علامہ ابو البركات النسفی (المتوفى: 710ھ) ’’قَدْ جَاءكُمْ بَصَائِرُ مِن رَّبّكُمْ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اَلْبَصِيْرَةُ نُوْرُ الْقَلْبِ الَّذِيْ بِهٖ يَسْتَبْصِرُ الْقَلْبُ كَمَا أَنَّ الْبَصَرَ نُوْرُ الْعَيْنِ الَّذِيْ بِهٖ تَبْصُرُ أَيْ جَاءَكُمْ مِنَ الْوَحْيِ وَالتَّنْبِيْهِ مَا هُوَ لِلْقُلُوْبِ كَالْبَصَائِرِ‘‘[9]

’’بصیرت دل کے اُس نور کو کہتے ہیں جس کے ذریعے دل مشاہدہ کرتا ہے جیسا کہ بصارت یعنی آنکھ کا نور جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے یعنی تمہارے پا س وحی اور تنبیہ آچکی ہے جو کہ دلوں کے لیے بصائر کی طرح ہے‘‘-

حضرت خالد بن معدان (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ  :

’’مَا مِنْ عَبْدٍ إِلَّا وَلَهُ أَرْبَعُ أَعْيُنٍ، عَيْنَانِ فِي وَجْهِهِ يُبْصِرُ بِهِمَا أَمْرَ دُنْيَاهُ، وَعَيْنَانِ فِي قَلْبِهٖ يُبْصِرُ بِهِمَا مَا وَعَدَ اللّٰهُ بِالْغَيْبِ‘‘[10]

’’کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے چار آنکھیں نہ بنائی ہوں (ہر آدمی کیلئے چار آنکھیں ہیں)دو آنکھیں اس کے چہرے میں ہیں ،جن کے ساتھ وہ اپنے دنیا کے معاملات کو دیکھتا ہے اور دوآنکھیں اس کے دل میں ہیں،جن کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتا ہے،جن کا اللہ عزوجل نے غیب کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے ‘‘-

دوسری روایت کے الفاظ  یہ ہیں :

’’عَيْنَانِ فِي وَجْهِهِ يُبْصِرُ بِهِمَا أُمُوْرَ الدُّنْيَا، وَ عَيْنَانِ فِي قَلْبِهٖ يُبْصِرُ بِهِمَا أُمُوْرَ الْآخِرَةِ‘‘[11]

’’دو آنکھیں اس کے چہرے میں ہیں ،جن کے ساتھ وہ  دنیا کے معاملات کو دیکھتا ہےاور دوآنکھیں اس کے دل میں ہیں جن کے ساتھ  وہ آخرت کے معاملات کو دیکھتا ہے‘‘-

امام ابن جریر ابو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ) ’’تفسیر طبری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’عَيْنَانِ فِيْ رَأْسِهٖ لِدُنْيَاهُ، وَمَا يُصْلِحُهٗ مِنْ مَعِيْشَتِهٖ، وَعَيْنَانِ فِيْ قَلْبِهٖ لِدِيْنِهٖ‘‘

’’دو آنکھیں اُس کے سر میں  ہیں اُس کےذریعے وہ  اپنے دنیاوی امور اور اپنی معیشت کی اصلاح کرتا ہے اور دو آنکھیں اس کے دل میں ہیں جو اس کے دین کیلئے ہیں ، (یعنی دل کی آنکھیں دین کی رہنمائی کیلئے بنائی گئی ہیں )

اولیاء اللہ کی یہی تعلیم ہے  کہ چشمِ بصارت کے ساتھ ساتھ چشمِ بصیرت کو بھی حاصل کرو-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَہْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَۃً  لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ‘‘[12]

’’اور بیشک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا فرمائی بعد اس کے کہ اگلی سنگتیں ہلاک فرمادیں جس میں لوگوں کے دل کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت تاکہ وہ نصیحت مانیں‘‘-

امام بیضاویؒ اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’بَصَائِرَ لِلنَّاسِ‘‘ أنْوَارًا   لِّقُلُوْبِهِمْ تُتَبَصَّرُ بِهَا الْحَقَائِقُ وَتُمَيَّزُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ‘‘[13]

’’بَصَائِرَ لِلنَّاسِ‘‘ سے مراد اُن کے دل کے انوار و تجلیات ہیں، جن کے ذریعے اُسے حقائق کا مشاہدہ کروایا جاتا ہے اور حق اور باطل کے درمیان فرق کروایا جاتا ہے‘‘-

یہ وہ مشاہدات ہیں جن کے بارے میں تمام اولیاء اللہ کی تعلیمات سے سبق  ملتا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

اَحدّ جَد دِتی دکھالی اَز خُود ہویا فَانی ھو
قُرب وِصال مَقام نہ مَنزل ناں اوتھے جِسم نہ جَانی ھو
نہ اوتھے عِشق محبت کائی نہ اوتھے کون مکانی ھو
عینوں عین تھِیوسے باھوؒ سرّ وحدت سُبحانی ھو

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّقَوْمِ یُّوْقِنُوْنَ‘‘[14]

’’یہ (قرآن) لوگوں کیلئے بصیرت و عبرت کے دلائل ہیں اور یقین رکھنے والوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہے‘‘-

حضرت ابن زید(رضی اللہ عنہ) ’’ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَۃٌ‘‘ کی تفسیر میں  ارشادفرماتے ہیں کہ اِس سے مُراد قرآن پاک ہے اور ارشادفرمایا :

’’هٰذَا كُلُّهٗ إِنَّمَا هُوَ فِي الْقَلْبِ قَالَ:وَالسَّمْعُ وَ الْبَصَرُ فِي الْقَلْبِ» وَقَرَأَ ’’فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ‘‘[15] وَلَيْسَ بِبَصَرِ الدُّنْيَا وَلَا بِسَمْعِهَا‘‘[16]

’’یہ سارے کا سارا   قرآن وہ ہے جو دل میں ہے -فرمایا : اور  کان اور آنکھیں دل میں ہوتی ہیں اوریہ آیت مبارک تلاوت فرمائی ’’تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو  سینوں میں ہیں‘‘ اور اس سے مراد نہ دنیا کی آنکھیں ہیں اور نہ دنیاوی  کان-(بلکہ اس سے مراد دل کی آنکھیں اور کان ہیں)‘‘-

گویا ولایت،عرفان، تصوف،تزکیہ اور تصفیۂ قلب کا مقصود ظاہر کی آنکھ کے ساتھ  ساتھ باطن کی آنکھ کو بھی روشن کرنا ہے -

ارشادِباری تعالیٰ ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا‘‘[17]

’’اے ایمان والو اگر اللہ سے ڈرو گے تو تمہیں وہ دے گا جس سے حق کو باطل سے جدا کرلو‘‘-

قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ ’’تفسیر مظہری ‘‘ میں اس آیت کریمہ سے یہ مراد لکھتے ہیں کہ:

’’اَىْ بَصِيْرَةً فِيْ قُلُوْبِكُمْ تَفْرُقُوْنَ بِهَا بَيْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ وَ هُوَ الْمَعْنٰى بِقَوْلِهٖ (ﷺ) اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ تَعَالیٰ‘‘

’’یعنی تمہارے دلوں میں بصیرت پیدا فرما دے گا جس کے ذریعے تم حق اور باطل کے درمیان فرق کر سکو گےاور یہی معنیٰ ہے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے اس فرمان مبارک کا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو بیشک وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘-

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (ﷺ) سے روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے  ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (حدیث قدسی میں)ارشاد فرمایا میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا ایسا قرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں:

’’فَإِذَا أَحْبَبْتُهٗ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهٖ وَ بَصَرَهُ الَّذِيْ يُبْصِرُ بِهٖ وَيَدَهُ الَّتِيْ يَبْطِشُ بِهَا، وَ رِجْلَهُ الَّتِيْ يَمْشِيْ بِهَا وَ إِنْ سَأَلَنِيْ لَأُعْطِيَنَّهُ‘‘ [18]

’’پھر جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہےتومیں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہےاور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہےاور میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہےاور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہےاور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور بہ ضرور عطا کرتا ہوں‘‘-

حافظ ابن حجر عسقلانی، امام ابو نعیم اصفہانی  اور امام ابن حجر ہیتمیؒ اور دیگر کئی اہل تاریخ نے روایت کیا ہے کہ:

’’سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کربلا سے گزرے اور ایک مقام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہاں حسین (رضی اللہ عنہ) کی سواری بیٹھے گی-دوسرے مقام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہاں سواریوں کے کجاوے رکھے جائیں گے-فلاں مقام پہ ان کا مقدس خون بہایا جائے گا، فلاں جگہ پہ  آلِ محمد (ﷺ) کے جوانوں کا خون بہایا جائے گا،اُس دن اُن پہ زمین اور آسمان بھی روئیں گے‘‘-

عزیزان گرامی، غور کیجئے،ابھی وہ وقت نہیں آیا ،لیکن یہ کونسی  بینائی ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) اُس مقام کو بھی جانتے ہیں جہاں  سواریاں بیٹھیں گی، جہاں کجاوے رکھے جائیں گے،کس کس  جگہ پہ آلِ محمد (ﷺ) کو شہید کیا جائے گا-گویا یہ وہ نگاہِ مومن ہے جس کے بارے میں  سرکار دو عالم (ﷺ) نے  ارشاد فرمایا کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے- جب اللہ تعالیٰ مومن کو  بصیرت عطا کرتا ہے تو اس کی نگاہ کے سامنے زمان و مکان کا حجاب ختم ہوجاتا ہے-

اسی طرح ایک شخص کا بیان ہے کہ راستے میں میری نظر عورت پر پڑی پھر حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی خدمتِ اقدس میں حاضرہو اتو آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’کیا دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے پاس آتے ہو اورتم پر (نظرِ بد کی وجہ سے)زناکے آثار ہیں؟(اس شخص نے کہا کہ) میں نے عرض کی: کیا رسول اللہ (ﷺ) کے بعد وحی کا نزول ہوتاہے(کیونکہ اس امر پر میرے علاوہ بظاہر کوئی مطلع نہیں تھا) تو حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ فراست صادقہ ہے‘‘-[19]

اندازہ لگائیں!یہ جو چشم حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) ہے جو لوگوں کو دیکھ کراُن کو یہ تک بتا دیتے ہیں کہ راستے میں سفر کیسا رہا، کس آنکھ و کیفیت سے کسی کو دیکھا-گویا یہ چشمِ بصیرت ہے جس کی قرآن مجید بار ہا دعوت دے رہا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی اتباع کرو گے تو بصیرت پا جاؤ گے-

سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا خضر (علیہ السلام) کی ملاقات کو یوں بیان فرماتا ہے کہ :

’’فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ‘‘[20]

’’تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا‘‘-

اندازہ لگائیں! جس کو اللہ تعالیٰ فرمائے کہ یہ میرا بندہ ہے وہ تو ویسے ہی رحمت سے بھر پور ہوا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسے اپنے پاس سے خاص رحمت دی یعنی اسے علم لدنی عطا کیا-

علم لدنی کیا ہے؟

محی السّنہ امام بغویؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’أَیْ عِلْمَ الْبَاطِنِ  اِلْھَامًا‘‘

’’یعنی علمِ باطن الہامی ہے ‘‘-

یعنی یہ وہ علم باطنی ہے جو اولیاء اللہ کو الہام کے ذریعے نصیب ہوتا ہے-یہ علم کسب سے نہیں بلکہ کامل کی نگاہ سے عطا ہوتا ہے جو سطروں میں نہیں سینوں میں منتقل ہوتا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

ناں رَبّ عرش مُعلّٰی ملیا ناں رَبّ خانے کعبے ھو
نہ رَبّ عِلم کتابیں لبھّا نہ رَبّ وِچ محرابے ھو
گنگا تِیرت  تھیں مُول نہ مِلیا مارے پَینڈے بے حسابے ھو
جَد دا مُرشد پھَڑیا باھوؒ چھُٹے سَب عذابے ھو

ایک اور مقام پہ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

جل جلیندیاں جنگل بھوندیاں میری ہکّا گَل نہ پکّی ھو
چِلے چِلیئے حَج گُزاریاں میری دِل دی دوڑ نہ ڈکّی ھو
تَریہے روزے پنج نمازاں ایہہ بھی پَڑھ پَڑھ تھکّی ھو
سَبّھے مُراداں حاصل ہویاں باھوؒ جاں کامل نظر مہر دی تکّی ھو

’’سورۃ کہف : 80‘‘ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ  مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ  اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ‘‘

’’اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر پر چڑھاوے‘‘-

یعنی بچہ نے بظاہر کوئی جرم نہیں کیا لیکن پھر بھی خضر(علیہ السلام) نے اس بچہ کو قتل کر دیا-سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ پوچھنے پر سیدنا خضر(علیہ السلام) نے جواب دیا کہ اس بچہ کے ماں اورباپ دونوں مومن تھے چونکہ یہ بچہ کفر کی فطرت پہ پیدا ہوا ہے تو مجھے یہ خدشہ ہوا کہ اس کی وجہ سے اس کے ماں اور باپ دونوں کفر اور فتنوں میں مبتلا کردیے جائیں گئے میں نے اس کے ماں اور باپ کے ایمان کو بچانے  کیلیے اس بچہ کو قتل کردیا-

اندازہ لگائیں! یہ اس وقت کی بات ہے جب بچہ جوان نہیں ہوا، اس کے والدین ایمان پر قائم ہیں، اس کی وجہ سے  ابھی مرتد نہیں ہو ئے-یعنی  زمانہ حال میں کھڑے ہو کر زمانہ مستقبل کی خبر دے رہے ہیں- گویا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی چشمِ بصیرت عطا کرتا ہے جس سے زمان و مکان کے پردے ہٹ جاتے ہیں-

اسی طرح سورۃ کہف :82 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ  وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا‘‘

’’رہی وہ دیوار وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھااوران کا باپ نیک آدمی تھا‘‘-

اس مقام پہ غور کیجئے! حضرت خضر (علیہ السلام) زمانۂ حال میں کھڑے ہوکر زمانۂ ماضی کا مشاہدہ کر رہے ہیں- قرآن کریم میں کسی جگہ یہ ثبوت نہیں ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) ان یتیم بچوں کو جانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے والد صالح تھے-پس معلوم ہوا کہ  اللہ  تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بندے کو ایسی آنکھ عطا فرما دیتا ہے جو لوگوں کا احوال بتائے بغیر بھی معلوم کر لیتی ہے-گویا یہ وہ چشمِ بصیرت ہے جس کا ذکر  رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا- جیسا کہ پیرانِ پیر سیدنا غوث الثقلینؒ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ:

’’ایک دن غوث الثقلین شیخ محی الدین عبد القادرؒ کرسی پربیٹھے ہوئے وعظ کہہ رہے تھے ،قریباً دس ہزار افرادمجلسِ وعظ میں حاضرتھے ،شیخ علی بن ہیتی،حضرت شیخ کی کرسی کے پائے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،شیخ علی بن ہیتی کونیندآگئی ،حضرت شیخ عبدالقادر ؒنے حاضرین کوخاموشی کاحکم دیاسب لوگ خاموش ہوگئے ،حالت یہ تھی سانس لینے کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی نہ دیتا تھا، حضرت شیخ عبدالقادرؒ کرسی سے نیچے اترے اور شیخ علی ہیتی کے سامنے باادب کھڑے ہوکران کی طرف دیکھنے لگے، شیخ علی بیدار ہوئے  توحضرت شیخ  عبد القادر الجیلانیؒ نے کہا تمہیں خواب میں حضور نبی کریم  (ﷺ) کی زیارت ہوئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا، ہاں! فرمایا: اسی لئے میں تمہارے سامنے با ادب کھڑا تھا، تمہیں حضور نبی کریم (ﷺ) نے کیانصیحت کی؟کہنے لگے کہ آپ کی مجلس میں باقاعدہ حاضری دیاکروں ،شیخ علی نے کہاکہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا حضرت شیخ عبد القادرؒ نے بیداری میں دیکھا‘‘-[21]

گویا جن آنکھوں کو اللہ تعالیٰ اپنا نور عطا کردے وہ یہ بھی دیکھ لیتی ہیں کہ سامنے والا خواب کیا دیکھ رہا ہے- یہ وہ قدرت و طاقت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کو عطافرما تا ہے-

حضرتِ علّامہ عبدالوہّاب َشعرانیؒ فرماتے ہیں :

’’ایک مرتبہ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہؒ جامِع مسجِد کوفہ کے وُضو خانے میں تشریف لے گئے تووہاں تین آدمیوں کو دیکھا جو وُضو کر رہے تھے -تو آپ نے ایک نوجوان کو دیکھاتو وہ وضو کر رہا تھا تو آپ نے جیسے ہی اس کے وضو والے پانی کو دیکھا تو آپ نے اسے فرمایا :

’’يَا وَلَدِيْ تُبْ عَنْ عُقُوْقِ الْوَالِدَيْنِ فَقَالَ:تُبْتُ اِلَی اللہِ عَنْ ذٰلِكَ‘‘

’’اے بیٹے ماں باپ کی نافرمانی سے توبہ کرلے اُس نے فوراً عرض کی : میں نے اللہ کی بارگاہ میں اس سے   توبہ کی-

آپؒ نے دوسرے شخص کو وُضو کرتے دیکھا تو جیسے ہی آپؒ نے اس کے وضوء کے پانی کو دیکھا تو آپؒ نے اُس شخص سے فرمایا :

’’يَا أَخِيْ تُبْ مِنَ الزِّنَافَقَالَ: تُبْتُ مِنْ ذٰلِكَ‘‘

’’اے میرے بھائی توزِنا سے توبہ کرلے-  اس نے عرض کی : میں نے اللہ کی بارگاہ میں اس سے   توبہ کی‘‘ -

آپؒ  نے تیسرے شخص کو وُضو کرتے دیکھا تو جیسے ہی آپؒ نے اس کے وضوء کے پانی کو دیکھا تو آپؒ  نے اُس شخص سے فرمایا :

يَا أَخِيْ تُبْ مِنْ شُرْبِ الْخَمْرِ وَسَمَاعِ آلَاتِ اللَّهْوِ فَقَالَ : تُبْتُ مِنْهَا

’’اے میرے بھائی!شراب نوشی اور گانے باجے سننے سے توبہ کر لے -اس نے عرض کی : میں نے اس سے توبہ کی ‘‘-

امام شعرانی لکھتے ہیں:

’’فَكَانَتْ هٰذِهِ الْأُمُوْرُ كَالْمَحْسُوْسَةِ عِنْدَهٗ عَلٰى حَدٍّ سَوَاءٍ مِنْ حَيْثُ الْعِلْمِ بِهَا‘‘[22]

’’یہ تمام امور امامِ اعظم ابوحنیفہؒ  پر بالکل ظاہری محسوسات کی طرح تھے ان کا علم (کشف)ہونے کی وجہ سے‘‘-

مؤطا امام مالک کی روایت ہے، حضرت عائشہ صدیقہ زوجہ رسول اللہ (ﷺ) فرماتی ہیں کہ:

’’فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ وَاللهِ يَا بُنَيَّةُ مَا مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ وَلَا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِيْ مِنْكِ وَإِنِّيْ كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِيْنَ وَسْقًا فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيْهِ وَاحْتَزْتِيْهِ كَانَ لَكِ وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ وَأُخْتَاكِ فَاقْتَسِمُوْهُ عَلٰى كِتَابِ اللہِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا أَبَتِ وَاللهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَ كَذَا لَتَرَكْتُهُ إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ فَمَنْ الْأُخْرَی؟  فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَأُرَاهَا جَارِيَةً‘‘[23]

’’جب حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کے وصال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اے میری بیٹی!اللہ کی قسم !مجھے اپنے بعد لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمہارا خوش حال رہنا پسند ہے اور تمہارا غریب ہونا سب سے زیادہ نا پسند ہے میں نے تمہیں ایک باغ ہبہ کیا تھا اس کی پیداوار بیس وسق[24] (3820 کلو 800 گرام)تھی اگر تم نے اسے قبضے میں لے لیا ہوتا اور اسے کاٹ لیا ہوتا تو وہ تمہارا ہوجاتا لیکن اب وہ ورثا ءکا مال ہےاوراس میں تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں تم اللہ کی کتاب کے حکم کے مطابق اسے تقسیم کر لینا-سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی ابا جان! اگر وہ اتنا زیادہ مال بھی ہوتا تو بھی میں اسے اپنے پاس نہ رکھتی لیکن (میری بہن) تو صرف اسماء ہے دوسری بہن کون ہے؟ حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: (میری بیوی) بنت خارجہ کے پیٹ میں جو بچہ ہےمیں اسے لڑکی دیکھ رہا ہوں‘‘-

’’موطأ امام مالک‘‘ کی دوسری روایت میں ہے :

’’فَوَلَدَتْ جَارِيَةً‘‘

(اس مائی صاحبہ نے ) پس لڑکی کو جنم دیا -

حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے اس وقت بیٹی کی پیشن گوئی کی جب الٹراساؤنڈ مشینیں ایجاد نہ ہوئی تھیں،اس طرح کشف اور حجابات کا اٹھنا صرف چشمِ بصیرت سے ہی ممکن ہے-

’صحيح بخارى، کتاب التوحید‘ میں حضرت ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ  رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’قیامت کےدن  بعض لوگ نجات پائیں گے، سلامت رہیں گے اور بعض لوگ دوزخ کی آگ میں گرا دیے جائیں گے  حتی کہ جب مسلمان آگ سے خلاصی پالیں گےتو اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! نہیں ہے تم میں سے کوئی زیادہ جھگڑنے والا جو تمہیں ظاہر ہو جائے بمقابلہ مؤمنین کے جو وہ اللہ  تعالیٰ سے جھگڑیں (تقاضا اور مطالبہ کریں گے)  گے قیامت کے دن اپنے دوزخی بھائیوں کے لئے عرض کریں گے:

رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوْا يُصَلُّوْنَ مَعَنَا وَيَصُوْمُوْنَ مَعَنَا وَيَعْمَلُوْنَ مَعَنَا فَيَقُوْلُ اللهُ تَعَالٰى اِذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِىْ قَلْبِهٖ مِثْقَالَ دِيْنَارٍ مِّنْ إِيْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ  وَ يُحَرِّمُ اللهُ صُوَرَهُمْ عَلَى النَّارِ، فَيَأْتُوْنَهُمْ  وَبَعْضُهُمْ قَدْ غَابَ فِىْ النَّارِ إِلٰى قَدَمِهٖ  وَ إِلٰى أَنْصَافِ سَاقَيْہِ فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ فَيَقُوْلُ اِذْهَبُوْا فَمَنْ وَ جَدْتُّمْ فِىْ قَلْبِهٖ مِثْقَالَ نِصْفِ دِيْنَارٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا، ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ  فَيَقُوْلُ اِذْهَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُّمْ فِىْ قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيْمَانٍ فَأَخْرِجُوْهُ  فَيُخْرِجُوْنَ مَنْ عَرَفُوْا‘‘[25]

’’اے ہمارے رب !ہمارے بھائی بھی وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھےاورہمارے ساتھ روزے رکھتے تھےاورہمارے ساتھ نیک اعمال کیا کرتے تھے- تو اللہ پاک ارشادفرمائے گا جاؤ تم جس کے دل میں ایک دینارکے برابر ایمان کودیکھو، اس کو دوزخ سے نکال دو اوراللہ پاک ان کی صورتوں کو دوزخ پر حرام فرمادے گا ،پھر وہ ان کے پاس آئیں گےاوران میں سے بعض اپنے قدموں تک دوزخ میں غائب ہوچکے ہوں گےاور بعض نصف پنڈلیوں تک پس وہ جن کو پہنچانتے ہوں گے دوزخ سے نکال لیں گےپھر لوٹ کر آئیں گے پس اللہ عزوجل فرمائے گا ،جاؤ جس کے دل میں تم نصف دینار کے برابر ایمان کوپاؤ ،اس کو دوزخ سے نکال لوپس وہ ان کودوزخ سے نکال لیں گے جن کو پہچانتے ہوں گے پھر لوٹ کرآئیں گے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گاپس تم جس کے دل میں ذرہ کے برابر بھی ایمان کو پاؤ اس کو دوزخ سے نکال لوپس وہ ان کو نکال لیں گے جن کوپہچانتے ہوں گے‘‘-

اندازہ لگائیں! ایمان ایک غیر مرئی شئے ہے جو ظاہری آنکھوں سے  نہیں دیکھی جا سکتی -لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندے  اپنی چشمِ بصیرت سے یہ تک جان لیں گے کہ کس کے دل میں ایمان ہے اور کس کے دل میں نہیں-اگر ایمان ہے تو کس حد تک ہے، دینار برابر، نصف دیناریا ایک ذرہ، یعنی ایمان کی مقدار کو بھی جانتے ہوں گے-ظاہری آنکھ تو باریک سے باریک پردے کے  آگے نہیں دیکھ سکتی  لیکن جب  اللہ تعالیٰ  اپنا فضل وکرم کرتا ہے تو اپنے بندوں کو چشمِ بصیرت عطا کرتا ہے جس سے وہ ماضی  اور مستقبل بھی جان لیتے ہیں اور غیر مرئی چیزوں کو ان کی مقدار سمیت جان لیتے ہیں-

حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ  اگر کوئی چاہتا ہےکہ اس کو بصارت کے ساتھ ساتھ چشمِ بصیرت عطا ہو جائے، دل کی آنکھ روشن ہو جائے اور وہ اپنے خالق و مالک کا قرب حاصل کر لے  تو اس کا نسخہ یہ ہے کہ :

یار یگانہ مِلسی تینوں جے سرْ دِی بازی لائیں ھو
عِشق اللہ وِچ ہو مَستانہ ھو ھو سَدا اَلائیں ھو
نال تصوّر اِسم اللہ دے دَم نُوں قید لگائیں ھو
ذاتے نال جاں ذاتی رَلیا‘ تَد باھوؒ نام سَدائیں ھو

اللہ تعالیٰ کا قرب و و صال پانے کی شرط یہ ہے کہ  اپنے نفس کی خواہشات اور غیر اللہ کی پیروی کو ترک کر دو-اسم اعظم کا ذکر جو حضرت سلطان باھوؒ کے سلسلۂ مبارک کا فیض ہے جس سے  چشمِ بصیرت پیدا ہوتی ہے، دل میں حق تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ہوتا ہے، اس ذکر میں خود کو مست کر لو-یعنی سانسوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں  لگائے رکھو کہ آنکھوں کے سامنے اسم اللہ کا تصور ہو اور بغیر زبان ہلائے سانسوں میں  ذکر کیا جائے کہ  جب اندر سانس جائے تو پڑھو ’’اَللہُ‘‘ اور جب  سانس باہر آئے تو پڑھو ’’ھُوْ‘‘-اس طرح جب ذکر کی مشق کی جائے گی تو یہ ذکر قلب کو روشن کر دے گا جس سے چشمِ بصیرت عطا ہوگی اور انسان مشاہداتِ روحانیہ اور قدسیہ کے قابل ہوجائے گا-

اصلاحی جماعت اسی پیغام  کو  ہر جگہ فروغ دے رہی ہے کہ لوگو!آو اپنے سینوں کو اللہ کے ذکر اور آقا کریم (ﷺ) کی  محبت و اتباع سے روشن کرلو- جو ہمارے لئے دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہ ہے-اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے -آمین!

٭٭٭


[1](يوسف:108)

[2](كتاب التعريفات/ التَّوقِيف على مُهِمَّاتِ التَّعاريف)

[3](تفسیر قشیری، زیر آیت یوسف: 108)

[4](المعجم الكبير/ شعب الإيمان/ مصنف ابن أبي شيبة/ مسند عبد بن حمید/ نوادرِ الأصول فی أحاديثِ الرَّسول (ﷺ) از حكيم الترمذی)

[5](الاحزاب:71)

[6](النساء:69)

[7](آلِ عمران:31)

[8](الانعام:104)

[9](تفسیر مدارك التنزيل و حقائق التأويل)

[10]( الزهد لأبي داود السجستانی)

[11](القضاء و القدر للبيهقي/ حلية الأولياء)

[12](القصص:43)

[13](تفسیر بیضاوی، زیر آیت:14)

[14](الجاثیہ:20)

[15]( الحج: 46)

[16](تفسیر طبری، زیر آیت الجاثیہ:20)

[17](الانفال:29)

[18](صحيح البخاری ،كِتَابُ الرِّقَاق)

[19](الرازی، محمد بن عمرؒ، مفاتيح الغيب، ایڈیشن: سوم (بيروت: دار إحياء التراث العربی، 1420ھ)، ج: 21،  ص: 434)

[20](الکہف:65)

[21](اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ)

[22](اَلمِیزانُ الْکُبریٰ للشعرانی)

[23](موطأ امام مالک، كِتَاب الْأَقْضِيَةِ)

[24] ایک وسق میں 60 صاع ہوتے ہیں -صاع کے وزن میں اختلاف پایا جاتا ہے-

[25]( صحيح البخارى، کتاب التوحید)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر