قرآن مجید حضور نبی اکرم (ﷺ) کے سراپا اخلاقِ عظیم اور نورِ کامل کی عکاسی کرتا ہے جس سے عشاق کے قلوب و ارواح تک جوشِ محبت سے چراغِ نور کی طرح روشن ہو جاتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو کبھی سورۃالاحزاب میں ’’شاہد و مبشر و نذیر ‘‘ فرمایا، کبھی ’’دَاعِیًا اِلٰی اللهِ ‘‘کا تاج پہنایا، کبھی ’’سِرَاجًا مُّنِیْرًا ‘‘ فرما کر عشاق کا قبلہ واضح کیا، کبھی سورۃالحجر میں حضور (ﷺ) کی عمر مبارک کی قسم کھائی تو کبھی آپ (ﷺ)کو یسین و طہٰ کے لقب سے مخاطب کیا- کبھی کالی کملی والے کو ’’مزمل و مدثر‘‘ کہہ کر پکارا، کبھی والضحیٰ سے آپ (ﷺ)کے رخِ انور کی تعریف کی، تو کبھی والیل سے زلفِ جانان کی ثناء خوانی کی- کبھی القلم میں آپ(ﷺ) کو ’’إخزنِ آداب ‘‘کا منبع قرار دیا-الغرض! کہ رسول اللہ (ﷺ) اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متخلق اور اوصافِ الٰہیہ سے متّصف ہیں- حسن و جمال کے اس معیار پر فریفتگی کا عالم یہ ہے کہ حضرت حسان بن ثابت ؓ نے فرمایا:
وَ أَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ |
|
وَ أَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءٗ |
’’آپ (ﷺ) سے زیادہ حسین میری آنکھ نے ہرگز نہیں دیکھااور آپ (ﷺ) سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں-آپ (ﷺ)ہر عیب سے پاک وصاف پیدا کئے گئے-گویا کہ آپ (ﷺ) اس طرح پیدا کئے گئے جیسا کہ آپ (ﷺ) نے چاہا‘‘-
گویا تمام شجر، قلم اور بحر سیاہی میں ڈھل جائیں تب بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب کریم (ﷺ) کی ثناءخوانی پوری نہ ہوسکے- بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر- اس تمام تر تخلیقات کی وجہ بھی محبوب کریم (ﷺ) ہی ہیں-
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف وحی فرمائی:
’’يَا عِيْسٰى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَّاْمُرْ مَنْ اَدْرَكَهٗ مِنْ اُمَّتِكَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِهٖ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَاخَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْ لَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ‘‘[1] |
|
اےعیسیٰ! محمدِ عربی (ﷺ) پر ایمان لاؤ اور اپنی اُمّت میں سے ان کا زمانہ پانے والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو- اگر محمدِ مصطفےٰ (ﷺ) نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ ہی جنّت و دوزخ بناتا- |
یہی وجہ ہے کہ اولیاء کاملین انبیاء کرام ؓ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے میلاد مصطفےٰ(ﷺ) کا انعقاد کرتے ہیں- میلاد کا مقصد لوگوں کو ’’ فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہِ‘‘ کی دعوت دینا اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی توصیف بیان کرنا ہوتا ہے-اسی مشن کو جاری رکھتے ہوئے دربار پُر انوار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ سے دعوت الی اللہ اور اتباعِ رسول اللہ (ﷺ) کی خاطر اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین چلائی گئی- اس جماعت پاک کے بانی سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے خزانۂ فقر ’’اسمِ اعظم‘‘ عام فرمایا اور اتحاد بین المسلمین کی عملی داغ بیل ڈالی- شریعتِ مطہرہ کی مکمل پابندی، تزکیہ نفس، تصفیۂ قلب، تجلیۂ روح اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ اپنے اسفار، ابلاغ، انداز، تعلیم و تلقین اور بالخصوص ’’سالانہ ملک گیر دورہ میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) و حق باھو کانفرنس‘‘ پاکستان و بیرونِ ممالک میں جاری فرمایا- دربار سلطان باھوؒ سے چلائی گئی اصلاحی جماعت، ملکوں ملکوں، شہر شہر، گاؤں گاؤں جا کر قرآن کریم کی یہی دعوت عام کررہی ہے کہ اپنا مقصدِ حیات جانا جائے، حضور نبی کریم (ﷺ) کی کامل اتباع کی جائے اور اسم اللہ ذات سے باطن پاک کرکے اللہ پاک کا قرب و معرفت حاصل کی جائے-
اللہ تعالیٰ کے قرب و معرفت کا ذریعہ ذکر و تصور اسم اللہ ذات اور حضور نبی کریم (ﷺ)کی اتباع ہی آج ہمارے درمیان دوبارہ سے احیائے انسانی کا مُوجب ٹھہر سکتی ہے-کیونکہ آج جو ہمارے دل اور عقل بے سکونی اور تذبذب کا شکار ہیں انہیں ذکر ِاَللہُ اور محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے ہی قرار حاصل ہوسکتا ہے-انسانیت کی اس نبضِ ضعیف کے علاج کے لئے ” اصلاحی جماعت “ کے زیرِ اہتمام سالارِ عارفین جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی قیادت میں ملک بھر میں اور بین الاقوامی سطح پر رحمۃ للعالمین، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے اسم پاک سے موسوم محافل و اجتماعات کا سالانہ انعقاد ”میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) و حق باھو کانفرنس“ کے تحت کیا جاتا ہے-
ہر شہر میں پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے-صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب اور مفتی علی حُسین قادری خطاب کرتے ہیں-
پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں - پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ وسلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-
اس سال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-
ڈیرہ اسمٰعیل خان: 18-12-2024 مرکزِسلطانیہ، پہاڑ پور
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا ‘‘[2] ’’اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا‘‘-
اللہ تعالیٰ نے سب سے اشرف انسان کو بنایا ہے، جس کو اللہ بنائے اور افضلیت کا تاج پہنائے، جس کے لئے قسمیں اٹھا کر تعریفیں کرے اُس انسان کو اپنی پہچان اور افضلیت سے اتنی بے خبری کیوں ؟-انسان کا ایک ظاہری پہلو ہےاور ایک باطنی پہلو - اس کے بعد پھر ایک حقیقی پہلو بھی ہے جس کےمتعلق علامہ اقبال فرماتےہیں:
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب |
|
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں |
اسم اللہ ذات ایک بیج کی مثل ہے کہ جس طرح زمین میں بیج لگاتے ہیں تو درخت نکلتا ہے اسی طرح جب دل کی زمین میں اسم اللہ ذات کا بیج لگے گا تو وہ دل کو شیشہ بنا دے گا اور پھر اس میں اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلّیات کا مشاہدہ ہوگا- دل قلب المؤمن اور مراۃ الرحمٰن بن جائے گا-اصل میں ذکر اللہ روح کی غذا ہے اور روح اصل انسان ہے-اس کی نوری صورت ہے، اس کے پاس معرفت رحمٰن اور معرفتِ رسول ہے- روح اس دنیا میں آنے سے پہلے عالم ارواح میں سب کچھ دیکھ کر آئی ہے-اسم اعظم روح کو بیدار کرتا ہے اور پھر جب روح بیدار ہوتی ہے تو اسے سب کچھ یاد آجاتا ہے-اس کے لئے نماز اور ذکر دونوں لازم ہیں -اصلاحی جماعت کے پلیٹ فارم سے یہی پیغام دیا جارہا ہے کہ خدارا! جاگو! اور اللہ کو دل سے یاد کرو-
ڈیرہ غازی خان: 19-12-2024
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ‘‘[3]
’’بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول(ﷺ) مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لئے اپنے محبوب(ﷺ) اور قرآن پاک کو بھیجا -اولیاء کاملین کہتے ہیں کہ یہ احسان قیامت تک کے لئےہے- کیونکہ قرآن مجید کی تعلیمات ہمیشہ کے لئے ہیں-قرآن پاک صرف ثواب کا ذریعہ نہیں بلکہ ہدایت کا سرچشمہ ہے-قرآن پاک اسرارِ سرمدی ہے لیکن آج یہ ملتِ غافل کے ہاتھ میں ہے-علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن |
|
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن |
’’اگر تم مسلمان كى زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن كريم كو زندگی کا حصہ بنائے بغير ايسا ممكن نہیں‘‘-
بہاولپور: 20-12-2024
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
قرآن کریم میں بارہا حکم آتا ہے کہ نماز قائم کرواور ذکر کثرت سے کرو- نماز شریعت کے ساتھ، ذکر طریقت کے ساتھ ، اس کے بعد ہی حقیقت عیاں ہوتی ہے اور پھر معرفت نصیب ہوتی ہے-روح نوری انسان ہے اور روح کی غذا اسم اعظم ہے جو مرشد کامل عطا کرتا ہے- روح کو بیدار کرنا کامیابی ہے لیکن اس سےروکنے والا شیطان ہے-اس کے لئے ضروری ہے کہ پانچ وقت کی نماز اور ہر وقت کے قلبی ذکرکو لازم پکڑا جائے- آقا پاک (ﷺ) نے فرمایا :
’’مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ ‘‘ ’’ کہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی گویا اس نے کفر کیا ‘‘-
حدیث قدسی میں ہے کہ’’ جو خوش نصیب میرا ذکر کرتا ہے میں اس کا ہم مجلس ہو جاتا ہوں‘‘-
بہاولنگر(چشتیاں): 21-12-2024
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’ دورِ حاضر میں زوال سے نکلنے کا واحد راستہ قرآن و سُنّت پر عمل ہے-جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ھُدًیْ لِّلنَّاسِ‘‘ [4] ’’(قرآن) پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے‘‘-
مزید حدیث پاک میں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ‘‘ [5] ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘-
قرآن پاک کو سیکھنے کے لئے سب سے اہم تین درجے یہ ہیں:
1-قرآن پاک کو پڑھنا |
2-قرآن پاک کے معانی جاننا |
3-قرآن پاک کے مفہوم ومطالب کو سمجھنا |
اس کے بعد قرآن کریم پر عمل ہے جس کو ہم نے ترک کر دیا اور زوال پذیرہوگئے- اس لئے ہم قرآن و حدیث پر عمل کر کے ہی اپنے ظاہر و باطن کی کامیابی حاصل کرسکتےہیں-
پاکپتن: 22-12-2024
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ‘‘[6]
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا‘‘-
انسان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان ہے-عبادات اس کے قرب کا ذریعہ ہیں اور جب بندہ اپنی عبادات میں صادق ہو کر اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور قلب کو پاک کرلیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور وصال نصیب ہوتا ہے-اولیاء اللہ کا بھی یہی فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال کا ذریعہ بنیں - سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس سرہ العزیز )نے بھی یہی دعوت دی ہے کہ:
طالب بیا طالب بیا طالب بیا |
|
تا رسانم روز اول با خدا |
’’تو طالب بن کر آ ! سلطان باھو پہلے روز ہی تجھے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچا دے گا‘‘-
اوکاڑہ: 23-12-2024
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہےکہ اس نے اس کائنات ارضی میں انسان کو تمام مخلوقات کے اوپر شرف و بزرگی عطا کر کے اسے خلافت و کرامت کا تاج پہنایا-جہاں پر انسانیت کو شرف سے نوازا گیا وہیں اس کے اوپر ذمہ داریاں بھی عائد کیں جن کو نبھانا اور عملی جامہ پہنانا انسانیت کا عظیم فریضہ ہے، جن کا تذکرہ قرآن مجید میں فرمایا:
’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ‘‘[7] ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا‘‘-
آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے فریضہ کو اداکررہے ہیں؟ یا ہم نے کبھی اپنےفریضہ کو ادا کرنے کی کوشش کی؟ اگر ہم اپنے وجود میں غور کریں اور اس کے انعامات وکرامات کو دیکھیں تو وہ اس قدر لطیف ہیں کہ کوئی چیز بھی ان کا متبادل نہیں ہو سکتی اور صرف انہیں کا شکر بجالانا چاہیں تو بجا نہیں لا سکتے تو اس کی بقیہ چیزوں کا شکر کیسے بجا لاسکتے ہیں!-اللہ تعالیٰ کے شکر کو بجا لانے کے لئے صوفیاء کرام نے ایک طریق بتایا ہےکہ اے انسان! تم اپنی سانسوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں لگا کر اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو‘‘-
ساہیوال: 24-12-2024
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط [8]
’’جس نے موت اور زندگی کو ( اِس لئے ) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون احسن عمل کرے‘‘-
احسن عمل کیا ہے؟ احسن عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب پاک (ﷺ) کی کامل اتباع ہے- آقا کریم (ﷺ)داعی بن کر تشریف لائے اور آپ (ﷺ) کی سنتِ عظیم دعوتِ الی اللہ دینا ہے-غفلت میں ڈوبے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَفِرُّوْٓااِلَی اللہِ‘‘ [9] ’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘-
آج ضرورت ہےکہ دنیا و مافیہا کی محبت اور لذاتِ نفس سے پاک ہو کر خالصتاً اپنے دلوں کو اللہ کی محبت کیلئے وقف کیا جائے- اَللہُ بس ماسویٰ اللہ ہوس
ٹوبہ ٹیک سنگھ: 25-12-2024
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
یقیناً ہماری کامیابی کا انحصار ذکر اللہ پر ہے-جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا کہ:
’’وَاذْ کُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘ [10] ’’اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃٌ فِاذَ صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ‘‘ [11] |
|
’’بیشک انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے خبردار! وہ دِل ہے‘‘- |
اسی لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہروقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے دل کو پاک کرے تاکہ اُسے دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل ہو-
چنیوٹ: 26-12-2024 ولہ راہ پارک
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اللہ تعالیٰ کی طلب اور اس ذات سے عشق، کائنات کی ہر چیز سے افضل ہے-کیونکہ یہی آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘[12]
’’تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے ،جو رب ہےسارے جہان کا‘‘-
جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو متعارف کروایا وہیں اپنے محبوب مصطفےٰ (ﷺ) کی رحمت کو بھی عالمگیریت اور آفاقیت کے ساتھ متعارف کروایا ہے-یہ حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی سے جب تک انسان عقلاً، قلباً، فکراً اورنظراً اپنے آپ کو جوڑ نہیں لیتا تب تک اسے توحید کا ادراک بھی نصیب نہیں ہو سکتا-
حافظ آباد: 27-12-2024 حنیف محمد کرکٹ اسٹیڈیم
صدارت: عکس سلطان الفقرحضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَکُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُورًا مُّبِیْنًا‘‘[13]
اے لوگو! بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا‘‘-
حضور پاک (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے کُل عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے- شجر، حجر سب حضورنبی کریم (ﷺ) کی رحمت سے مستفیض ہوتے ہیں- آقا کریم (ﷺ) نےخود حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے فرمایاکہ اے جابر!اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا-گویا آقا کریم (ﷺ) تخلیق کے لحاظ سے اول اور بعثت کے لحاظ سے آخر ہیں- آپ(ﷺ)کی ذات ِ اقدس اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تک رسائی کا ذریعہ ہے اور اولیاءکاملین نے آپ (ﷺ) کی ذات اقدس تک پہنچنے کا طریقہ شریعت مطہرہ کی پابندی اور اسم اللہ ذات کے تصور اور ذکر کو فرمایا ہے-بزبانِ حضرت سلطان باھو ؒ:سچا راہ محمد (ﷺ) والا باھوؒ جیں وچ رب لبھیوے ھُو
گجرات: 28-12-2024
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
دین کا اعلیٰ ترین مقصد دنیا اور آخرت میں کامیابی ہے جس کیلئے انسان پہ لازم ہے کہ اپنے مولیٰ کی طرف رجوع کرے جس نے اسے وجود عطا کیا اور جان بخشی -جو اُس کی طرف چلتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ راستہ دکھاتا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا طوَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘[14]
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقیناً انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے‘‘-
سیدنا امام جعفر صادقؒ سے ملحدین نے سوال کیا کہ فطرت میں، خدا کے ہونے کی دلیل کیاہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ شہتوت کا پتہ-اسی پتے کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم بناتا ہے، اسی کو کھا کر ہرن میں کستوری پیدا ہوتی ہے جبکہ اسی کو کھا کر گھوڑے اور بکری محض پاخانے میں تبدیل کرتے ہیں-کوئی تو ہے جو ریشم کے کیڑے کے پیٹ میں اسے ریشم میں تبدیل کرتا ہے-
ذرا غور فرمائیں !شہد کی مکھی اُسی باغ میں بیٹھتی ہے جہاں دیگر بہت سے حشرات بھی ہوتے ہیں لیکن شہد کی مکھی انہی پھولوں اور پتوں میں شہدتلاش کر لیتی ہے- چنانچہ یہ زاویہ نگاہ کا فرق ہے-
انسان کو محض سماجی حیوان(Social Animal)قرار دینا ابلیس کا زاویہ نگاہ ہے جس نے انسان کو محض مٹی قرار دے کر اپنے آپ کو بہتر قرار دیا-جبکہ جبریل امین کا نکتہ نظر ہے کہ وہ انسان میں روح کو دیکھتے ہیں،ارشادِ ربانی ہے:
’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ‘‘[15] |
|
’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا‘‘- |
مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:
گر نہ بودے نُورِ حق اندر وجود |
|
آب و گل را کے ملک کردند سجود |
’’یعنی اگر حضر ت آدم ؑ کے وجود میں خود ذاتِ حق جلوہ گر نہ ہوتی تو فرشتوں کو صرف مٹی اور پانی کے ڈھانچے کے سامنے سجدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘-
غوث الاعظم شیخ عبدالقادر الجیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ظہور سب سے زیادہ انسان میں ہوا ہے- یہ عارفین کی نگاہ ہے- چنانچہ انسان کو صرف خاکی وجود نہیں سمجھنا چاہئے-
حضرت سلطان باھُو ؒفرماتے ہیں:
ن: نیڑے وسن دور دسیون ویڑھے ناہیں وڑدے ھُو |
|
اندروں ڈھونڈن دا ول نہ آیا مورکھ باہروں ڈھونڈن چڑھدے ھُو |
یعنی اپنے من کو صاف کر کے انسان اللہ تعالیٰ کا قرب و وصال حاصل کر سکتا ہے-
اولیاء اللہ کی دعوت ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل کو روشن کرنا چاہئے اور دل اللہ کی یاد سے روشن ہوتا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘[16] ’’جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-
حضرت سلطان باھُوؒ نے اللہ کے نام(اسم اللہ ذات) کے ذکر کو چنبے کی بوٹی قرار دیا ہے جس سے دل روشن ہوتا ہے-
جہلم: 29-12-2024 سلیمان پارس اسٹیڈیم
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ارشاد ربانی ہے:
’’ سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ‘‘[17]
’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے‘‘ -
آفاق سے مراد حواس اور عقل کے ذریعہ دیکھائی جانے والی نشانیاں ہیں جبکہ انفس سے مراد روحانی اور باطنی نشانیاں ہیں-
علم کے تین ذرائع ہیں: دو ذرائع ،علم بالحواس اور عقلی علوم، خارجی ذرائع ہیں اور آفاق کا علم دیتے ہیں-تیسرا ذریعہ علم ِ روحانی ہے جو انسان کو انفس کا علم دیتا ہے -مادیت پرستی اور ملائیت، دونوں علم کے تیسرے ذریعہ یعنی انفسی علم سے دور ہیں- اس کے متعلق حضرت سلطان باھُو ؒفرماتے ہیں:
شریعت دے دروازے اُچّے راہ فقر دا موری ھُو |
|
عالم فاضل لنگھن نہ دیندے جو لنگھدا سو چوری ھُو |
آفاق کا علم معاشرے کی ترقی و استحکام کیلئے ضروری ہے جبکہ باطنی روحانی علم کا تعلق فرد کے استحکام سے ہے-ان دونوں میں توازن ہی انسان میں توازن قائم کرتا ہے -انسانی معاشرت میں آفاقی علوم بدن کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ انفس کا علم روح کی حیثیت رکھتا ہے- ان دونوں میں توازن ضروری ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا‘‘-[18]
انسان کی اصل فضیلت اس کی روح اور اس میں پوشیدہ حقیقت کے سبب ہے- اس لئے مادی ترقی کے ساتھ روحانی جستجو بھی چاہئے -مولانا رومی ؒفرماتے ہیں:
اسپ همت سوی اختر تاختی |
|
آدم مسجود را نشناختی |
’’یعنی تو نے ہمت کا گھوڑا ستاروں کی طرف تو دوڑایا لیکن مسجودِ ملائک آدم کو تو نہ پہچان سکا‘‘-
افسوس آج ہم دو چیزیں بھول گئے ہیں : 1857 اور علامہ محمد اقبال -1857 سے پہلے اور اس کے بعد کی قوم ایک طرح سے دو مختلف قومیں ہیں- اسی طرح علامہ اقبال نے 1857 کے بعد کی تہذیب کو سمجھا اور واضح کیا کہ ہم پہ کون مسلط ہے- فرماتے ہیں:
باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام |
|
حِفظِ بدن کے لیے رُوح کو کردوں ہلاک! |
آج شاہین کبوتروں کے تسلط کو قبول کر رہا ہے-حقیقت یہ ہے کہ شاہین اپنے بدن کیلئے نہیں بلکہ روح کیلئے زندہ رہتا ہے- ہمیں شاہین کی اس خصلت کو اپنانے کی ضرورت ہے-
انسان کو نماز بھی اللہ تعالیٰ کی طلب میں پڑھنی چاہئے-ایک ہی عمل سے مختلف طلب رکھنے والے لوگ مختلف طلب کے سبب مختلف مقاصد حاصل کرتے ہیں-انسان میں ظاہر بھی ہے اور باطن میں اللہ تعالیٰ کے جلوے بھی ہیں، اگر کوئی طلب کرنا چاہے- حدیث قدسی میں ارشادِ ربانی ہے:’’مَیں نہ تو زمین میں سماتا ہوں اور نہ ہی آسمانوں میں سماتا ہوں- مَیں صرف بندۂ مومن کے دل میں سماتا ہوں‘‘-
انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے صرف اُسی کی طلب کرنی چاہئے اور غیر اللہ کی طلب دل سے مکمل طور پہ نکال دینی چاہئے-
بدن، عقل اور روح، تینوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف راغب کرنا چاہئے جو سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ؒکی تربیت ہے اور یہ اسم اللہ ذات کے ذکر اور تصور سے ممکن ہے- سچی طلب سے ذاتِ حق کی طرف چلنا ضروری ہے -اسی لئے آپؒ فرماتے ہیں:
یاریگانہ ملسی تینوں جے سردی بازی لائیں ھُو |
|
عشق اللہ وچ ہو مستانہ ھُو ھُو سدا الائیں ھُو |
منڈی بہاؤ الدین: 30-12-2024
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
قرآن مجید حضور نبی کریم (ﷺ)کا عظیم معجزہ ہے جو قیامت تک انسانیت کے لیے منبعِ ہدایت ہے- امام فخر الدین رازی بیان فرماتے ہیں کہ دیگر انبیاء کرام (رضی اللہ عنھم)کو اللہ تعالیٰ نے حسی معجزے عطاکیے جبکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو قرآن مجید کی صورت میں عقلی معجزہ عطا کیا جس کے جمال کا مشاہدہ قیامت تک آنے والے انسان کرتے رہیں گے-
علامہ اقبال کی فکر کا خلاصہ دو چیزیں ہیں، تعلق بالقرآن اور تعلق بالرّسول (ﷺ)-آپ فرماتے ہیں:
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر |
|
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر |
ہمارے زوال اور پسماندگی کی بنیادی وجہ قرآن مجید سے دوری ہے- آج ہمیں قرآن مجید سے دوبارہ تعلق استوار کرنے کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کی نجات کا ذریعہ ہے-
حضور نبی کریم (ﷺ)کا ارشاد گرامی ہے:
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے، اللہ کے نبی زندہ ہیں ان کو روزی ملتی ہے‘‘-[19]
موت کے بعد انبیاءکرام (علیھم السلام) کے جسموں پہ وہ تغیر و تبدیلی نہیں آتی جو ایک عام انسان کے جسم پہ آتی ہے-یعنی مٹی انبیاء اور اولیاء کے جسم نہیں کھاتی- قرآن مجید (السبا:14) میں اس کی مثال حضرت سلیمانؑ کی وفات کے واقعہ سےبھی سمجھائی گئی ہے-
اولیاء اللہ و صالحین کی تربیت کی بنیاد تعلق باللہ اور تعلق بالرسول ہے- جس طرح ارشادِ ربانی ہے:
’’(اے حبیب (ﷺ)!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا‘‘-[20]
محبت و عشقِ مصطفے(ﷺ) کے بغیر اللہ تعالیٰ سے تعلق استوار نہیں کیا جاسکتا- حضرت سلطان باھُو ؒبھی یہی تلقین فرماتے ہیں:
بسم اللہ اسم اللہ دا ایہہ بھی گہناں بھارا ھُو |
|
نال شفاعت سرور عالم چھٹسی عالم سارا ھُو |
حضور نبی کریم(ﷺ) سے مسلمان کا اصل تعلق روحانی ہے لیکن گزشتہ صدی میں کچھ مشکوک طاقتوں نے دنیائے اسلام میں ایسی قوتوں کی حوصلہ افزائی کی جن کی تحریک کا مقصد مسلمانوں میں سے آقا کریم (ﷺ) سے عشق ،روحانی تعلق اور ادب کو ختم کرنا تھا-
عمل ارادے اور نیت سے پیدا ہوتا ہے جس کا تعلق دل سے ہے اس لیے اولیاء اللہ نے دل کی تعلیم و تربیت پہ زوردیا ہے - حضرت سلطا ن باھُوؒنے باطن کی پاگیز گی کیلئے تصورِ اسم اللہ ذات کی ترکیب بتائی ہے جس سے تعلق باللہ اور تعلق بالرسول(ﷺ)مضبوط کیا جاسکتا ہے-
سرگودھا: 31-12-2024 مرکزی عید گاہ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جن قوموں کے پاس آئین اور دستور نہیں ہوتا وہ بغیر چرواہے کے ریوڑ کی مانند ہوتی ہیں- ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘پڑھ کر دراصل ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے آئین ،قانون اور دستور کے پابند اور حضور نبی کریم(ﷺ) کی ختمِ نبوت اور شریعت و رسالت کے پیروکارہیں- یہ ہمارا عالمگیر دستور و آئین ہے اور یہی ہماری قومیت کا اصول ہے -ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے، اُن (ﷺ) کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے،ان کو بڑی قوّتوں والے رب نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا‘‘-[21]
حضورنبی اکرم (ﷺ) کو اللہ تعالی ٰ نے ایسا علم عطا کیا تھا کہ آ پ(ﷺ)سے کوئی شئے پوشیدہ نہ تھی جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں-مثلاً قیصر وکسریٰ کے خاتمے ،شہادتِ سیدنا امام حسینؑ اور قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق آقا کریم(ﷺ) کی پیشین گوئی آپ (ﷺ) کے علمِ غیب پہ دلالت کرتی ہے-
حضور نبی اکرم (ﷺ) نے حضرت سراقہ ؓ کو فرما دیا تھا کہ ان کے ہاتھوں میں شاہِ ایران کے کنگن ہوں گے-یعنی آپ (ﷺ) کو معلوم تھا کہ صحابہ کرام ؓ فارس فتح کریں گے اور مالِ غنیمت میں کسریٰ کے کنگن آئیں گے، تب سراقہ زندہ ہوں گے اور اسی شہر میں ہوں گے-پس آپ (ﷺ)کے علم میں نقص تلاش کر نے والا بد نصیب در اصل خدا کی قدرت میں نقص تلاش کرتا ہے-
موجود دور کے احوال بھی حضور نبی کریم(ﷺ) نے واضح ارشاد فرمادیے تھے جن تک رسائی کے لیے قرآن وسنت میں کئی جگہ رہنمائی موجود ہے- مادیت پرستی اور بے راہ روی کے اس دور میں جو شخص کتاب و سنت کو لازم پکڑے گا وہ اتنا ہی رسول اللہ(ﷺ)کے قریب ہوگا- رسول اللہ (ﷺ) کا ارشادِ گرامی ہے:
’’سن لو ! انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے ، جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے ، اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے ، یاد رکھو ! وہ دل ہے ‘‘-
جدید دور میں علم اور معلومات عام ہیں لیکن تصفیہ قلب (دل کی پاگیزگی) اور قلبی سکون کی کمی ہے -جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-[22]
دل کی صفائی کیلئے سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو ؒنے اسم اللہ ذات کا ذکر تجو یز فرمایا ہے جو مرشد کامل کی بارگاہ سے ملتا ہے جس کے متعلق آپ فرماتے ہیں:
الف: اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو |
|
نَفی اَثبات دَا پَانی مِلیس ہَر رَگے ہَر جَائی ھو |
اصلاحی جماعت کی یہی دعوت ہےکہ شریعت مطہرہ کی پابندی کے ساتھ ساتھ اسم اللہ ذات کا ذکر اور تصور کر کے مقصدِ حیات کو حاصل کریں-
جھنگ: 01-01-2025 مائی ہیر اسٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ایک عام انسان کے لیےعلم کا ذریعہ مطالعہ اوردیگر بصری ذرائع ہیں جبکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے(ﷺ) کو حصول علم کیلئے کسی ذریعہ علم کی احتیاج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر علم میں حضور نبی کریم (ﷺ)کو تمامیت عطا فرمادی ہے-
جب معرکہ موتہ ہوا تو حضور(ﷺ)مدینہ منورہ میں صحابہ کرام ؓ کے درمیان تشریف فرما تھے اوربظاہر جنگ کی کوئی خبرنہ تھی لیکن حضور(ﷺ) جنگ کے احوال صحابہ کرام ؓ سے بیان فرما رہے تھے اور جیسا کہ امام بخاری نے’’صحیح بخاری‘‘ میں نقل فرمایا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ کرام ؓ کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی-آپ(ﷺ) نے یہ خبر بھی دی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی-
آج امت کے اندر جو مایوسی و ناکامی پھیلی ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ کتاب و سنت کو ترک کرنا ہے جن میں ہمارے لیے کامل رہنمائی موجود ہے- رسول اللہ(ﷺ)کا ارشاد گرامی ہے:’’اس امت کے آخر میں آنے والے اپنے سے پہلے والوں پر لعنت بھیجیں گے‘‘-[23]
موجودہ دور میں سوشل میڈیا پہ گالم گلوچ اور دشنام طرازی کا کلچر عام ہے اور مخصوص انتشاری ایجنڈے کے تحت کچھ کم علم اور نااہلِ طبقے اسلاف واکابرین پہ طعن کرتے ہیں جس سے معاشرے میں نفرت وتعصب اور شدت پسندی جیسے عناصر کو ہوا ملتی ہے- صوفیاء کرام کی تربیت کا مقصد معاشرے سے انتشار وفساد کا خاتمہ اور لوگوں کو آپس میں جوڑنا ہے-حکیم الامت علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
آہ یورپ زیں مقام آگاہ نیست |
|
چشم او بنظر بنور اللہ نیست |
افسوس! کہ یورپ اس مقام سے آگاہی نہیں رکھتا، اس کی آنکھ اللہ کے نور سے دیکھنے والی نہیں ہے-
اولیاء ا للہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی نوری آنکھ عطا کی ہوتی ہے جس سے وہ ماضی، حال اور مستقبل کا احوال جان لیتے ہیں- قرآن مجید میں سیدنا موسٰی اور حضرت خضرؑکا واقعہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے- امام غزالی ؒ نے بھی بیان کیا ہے کہ عقل سے ماورا ایک ایسا راستہ ہےجس کے ذریعے انسان کو غیب کے مکاشفات نصیب ہوتے ہیں-
اصلاحی جماعت کا یہی پیغام ہے کہ اپنے قلب کی آنکھ کو تصورِ اسم اللہ ذات سے روشن کریں تاکہ بیداری قلب کے ذریعے معرفتِ حق تعالیٰ نصیب ہوجائے-
خانیوال: 02-01-2025
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
حضور نبی کریم (ﷺ) کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات وحی ہے- جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے، اُن (ﷺ) کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘-[24]
اللہ تعالیٰ نے آپ(ﷺ)کو وہ علمِ غیب عطا کیا تھا کہ آپ(ﷺ) ہر چیز کو بے نقاب و بے حجاب دیکھتے-
’’صحیح مسلم ‘‘میں حضرت ابو زید عمرو بن اخطب ؓ سے حدیث بیان ہوئی ہے کہ حضور نبی اکرم(ﷺ)نےفجر پڑھائی اور ظہر تک خطبہ دیا، ظہر پڑھائی اور عصر تک خطبہ دیا، عصر پڑھائی اور غروبِ آفتاب تک خطبہ دیا اور جو کچھ ہوااور جو ہونے والاتھا (سب) بیان فرما دیا ہم میں عالم وہی ہے جسے حضور (ﷺ) کے اس خطبہ سے زیادہ سے زیادہ باتیں یاد رہ گئیں -
حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں بدر کے میدان میں کفار کے قتل ہونے کی پیشن گوئی مع مقامات آقا کریم(ﷺ)نے فرمائی اور ہر دشمن وہیں گرا جہاں حضور (ﷺ)نے نشاندہی فرما دی تھی -
آقا کریم (ﷺ)نے شام،عراق اور یمن کی فتح سے قبل ان کی فتح کی بشارت سنا دی تھی اور یہ بھی فرما یا کہ لوگ تجارت کیلئے وہاں جائیں گے لیکن آخرت کیلئے فرما دیا کہ لوگوں کیلئے بہتر مقام مدینہ مُنوّرہ ہے-
حضرت علی ؓ شدید بیمار ہوئے لوگوں نے کہا ہمیں ڈر لگا کہ آپ وفات نہ پا جائیں، حضرت علی ؓ نے جواب دیا مگر مجھے اس بیماری سے موت کا ڈر نہیں لگا کیوں کہ حضور(ﷺ)نے مجھے بتایا تھا کہ تم شہید کئے جاؤ گے اور یہاں یہاں زخم آئیں گے -
احدپہاڑ پہ حضور(ﷺ)جلوہ فرما تھے تو وہ زلزلے سے ہلنے لگا-آپ(ﷺ)نے فرمایا! اے پہاڑ رُک جا، تیرے اوپر نبی ہے، صدیق ہے، شہیدان(حضرت عمر اور عثمان ؓ ) ہیں-یعنی ان تمام ارواحِ مقدسہ کے وصال کی وجہ بھی بیان فرما دی کہ کون کون شہید ہو گا اور کون کون بیماری کے سبب وصال فرمائے گا-
آقا کریم(ﷺ) نے فتنہ خواج کے متعلق خبر دی کہ یہ مسلمانوں کو ناحق قتل کریں گے-جہاں اللہ پاک نے حبیب اکرم(ﷺ) کی زبانِ اقدس سے فتنہ خوارج کی نشاندہی کروائی وہیں یہ بھی بیان فرمایا کہ اسی امت میں اہلِ حق کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو‘‘-[25]
امام فخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حکم قیامت تک کیلئے ہے تو سچوں کی موجودگی بھی قیامت تک کیلئے ہے-
آج مایوسی کے دور میں ہمارے پاس واحد روشنی کتاب اللہ اور سنت نبویہ(ﷺ)ہے -اصلاحی جماعت کا پیغام ہے کہ آئیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسم اللہ کے ذکر اور روحانی تربیت کے ذریعہ اپنے کردار میں وہ اخلاق پیدا کریں جو مؤمن کی اصل میراث ہیں-
ملتان: 03-01-2025 قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم(ﷺ)کو ہر شئے کا علمِ غیب عطا فرمایا - آپ(ﷺ)نے جن جن واقعات اور اشیاء کی پیشن گوئی فرمائی، تاریخ گواہ ہے کہ وہ تمام درست ثابت ہوئیں- امام حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ﷺ)نے حضرت عثمان غنی ؓ سے فرمایا تھا کہ انہیں اُس وقت شہید کیا جائے گا جب وہ سورۂ بقرہ کی تلاوت کر رہے ہو گے اور ان کا خون البقرہ کی آیت نمبر 137 پر گرے گا- جب حضرت عثمان غنی ؓ شہید ہوئے، آپ عین اسی حالت میں تھے جیسے حضور(ﷺ)نے خبر بیان فرمائی تھی-
قیامت کی علامات اور نشانیاں بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریم(ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’اولادیں غیظ وغضب والی پیدا ہونگی،معاشرے کے سب سے شریر لوگوں کو نوازا جائے گا،جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی اور سچے کو جھٹلایا جائے گا، امانتدار کو خائن اور خائن کو امین بنادیا جائے گا،لوگ دوستیوں کی طرف راغب ہوجائیں گے اور اپنے رشتوں سے قطع تعلقی کرلیں گے‘‘-[26]
بدقسمتی سے ہمارا موجودہ معاشرہ ان نشانیوں کا مظہر بن رہا ہے- امانت میں خیانت، سرکاری خزانوں میں کرپشن، حصولِ علم تلاشِ حقیقت کیلئے نہ ہونا، والدین کی قدر نہ کرنا، رشتوں کو قطع کرنا، مساجد میں فسادیوں کا قبضہ ، آدمیوں کے شر کے باعث ان کی عزت اور دیگر ایسےمسائل ہمارے معاشرے میں عام ہو رہے ہیں جو ہمارے زوال کا سبب ہیں-اس لئے علامہ اقبال فرماتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں |
|
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا |
غیرت، حمیت، جُرءَت، دلیری اور بے باکی جیسے اوصاف کو ہمیں اپنے اندر دوبارہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے جو فرد کو مستحکم کرتے ہیں-انسان کے اعمال اُس کی نیت اور قوت ارادی سے جنم لیتے ہیں-نیت کی صفائی انسان کے اندر کی پاکیزگی کے بغیر ممکن نہیں- حضرت سلطان باھُو کا بھی یہی پیغام ہے کہ دل کی صفائی اور پاکیزگی ضروری ہے جس کیلئے آپؒ نے اسم اللہ ذات کے تصور اور ذکر کی تعلیم فرمائی ہے-
وہاڑی: 04-01-2025 ہاکی گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
’’سنن ابی داؤد ،کتاب السنہ‘‘ کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم(ﷺ)نے فرمایا خلافت علی منہاج النبوہ 30 برس تک قائم رہے گی-حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت 2 سال 3 ماہ، حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت 10 سال 6 ماہ، حضرت عثمان غنی ؓ کی خلافت 12 سال، حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی خلافت 4 سال 9 ماہ، سیدنا امام حسن ؓ کی خلافت 6 ماہ-یعنی حضرت امام حسن ؓ کی 6 ماہ کی خلافت شامل کر کے 30سال بنتے ہیں جو عین مصطفےٰ کریم (ﷺ)کی بشارت کے مطابق ہے-
’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم ‘‘کی حدیث ہے:’’ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ارض حجاز سے ایک آگ نکلے گی جو (شام کے شہر) بصرہ میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کردے گی‘‘-
آپ(ﷺ) کے فرمان کے عین مطابق 654 ھ، 3 جمادی الثانی کو ایک زلزلہ کے ساتھ حجاز کے اطراف سے ایک بڑی آگ نمودار ہوئی جو پانچ روز تک روشن رہی-
آقا کریم (ﷺ)نے فرمایا کہ ضرور بضرور تم قسطنطنیہ فتح کرو گے اور وہ لشکر کیا لشکر ہو گا، وہ امیر کیا امیر ہو گا- آپ(ﷺ)کے وصال مبارک کے 800 برس بعد1453 ء میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا اور حضور(ﷺ)کی بشارت سچ ثابت ہوئی-
مایوسی اور تشکیک کے آج کے دور میں بطور امت اور بطور قوم آگے بڑھنے کیلئے ہمیں اپنا رابطہ وحی الٰہی یعنی آخری کتاب اور حضور نبی کریم(ﷺ) کی سنت اور احادیث سے بحال کرنا ہے جن میں ہر دور کیلئے رہنمائی ہے-
اخلاق اور کردار کی بلندی کے بغیر عمارات کی تعمیر کوئی معنی نہیں رکھتی-حضور نبی کریم(ﷺ) نے بڑی عمارات تعمیر نہیں فرمائیں بلکہ صحابہ کرام ؓ کے کردار تعمیر فرمائے- چنانچہ دل کی تعمیر عمارات کی تعمیر سے بہتر ہے- حضرت سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں:
دل توں نماز پڑھایو ناہیں، کی ہویا جے نیتی ھُو |
|
لوکاں دے وکھالن کارن بھج بھج وڑیں مسیتی ھُو |
لودھراں: 05-01-2025 ڈیرہ حق باھو
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
’’سنن ابن ماجہ ‘‘کی حدیث مبارک ہے:
’’ بےشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے، اللہ کے نبی زندہ ہیں ان کو روزی ملتی ہے‘‘-
یعنی انبیاء (علیھم السلام)اپنی قبور میں زندہ ہیں-صحیح بخاری شریف کی روایت ہے کہ آقا کریم(ﷺ)نے معراج شریف کے دوران حضرت موسیٰؑ کو ان کی قبر انور میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا- قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
’’پھر جب ہم نے سلیمان (علیہ السلام) پر موت کا حکم صادر فرما دیا تو اُن (جنّات) کو ان کی موت پر کسی نے آگاہی نہ کی سوائے زمین کی دیمک کے جو اُن کے عصا کو کھاتی رہی‘‘-[27]
حضرت سلیمانؑ لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے تو وصال فرما گئے لیکن کسی کو معلوم نہ ہوا-کافی وقت بعد چھڑی کو دیمک چاٹ گئی تب وہ گرنے سے آپؑ کا وجود مبارک زمین کی طرف آیا- یعنی آپؑ کی جلد ، رنگت اور جسد مبارک اتنے وقت میں بالکل صحیح سلامت رہے- چنانچہ خاتم الانبیاء، امام الانبیاء(ﷺ)کا جسدِ مبارک بدرجہ اولیٰ اپنی قبر مبارک میں صحیح سلامت ہے اور آپ (ﷺ) حیات ہیں- جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں‘‘-[28]
یعنی کلمہ گو شہید ہوں تو انہیں مردہ نہیں سمجھا جا سکتا-چنانچہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) جن کا کلمہ پڑھا جا رہا ہے وہ حیات ہیں اور ان کے جسدِ مبارک بدرجہ اولیٰ سلامت ہیں-
رحیم یار خان: 06-01-2025 ڈیرہ حق باھو
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
’’صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ‘‘ کی حدیث ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا بظاہر میرا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے لیکن میں پیچھے بھی دیکھ لیتا ہوں کہ کون کس حال میں ہے-
ایک روز حضور نبی کریم (ﷺ)مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ حضور(ﷺ) کی پشت مبارک کی جانب سے کسی کے چلنے کی آواز آئی- آپ(ﷺ)نے بظاہر دیکھے بغیر اپنے اصحاب ؓ سے فرمایا کہ یہ قدموں کی چاپ ایسے ہے جیسے ثعلبہ بن سعدی آ رہا ہو- صحابہ کرام ؓ نے دیکھا تو وہی تھے-آپ(ﷺ)نے مزید فرمایا کہ لوگو یہ مجھے حضرت ریحانہ ؓ کے قبولِ اسلام کی خبر دینے آ رہے ہیں اور ایسا ہی ہوا-
حضرت انس کی روایت ہے کہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کے ہاتھوں ایک انصاری کی شہادت کی خبر حضور(ﷺ) کی بارگاہ میں پہنچی تو آپ(ﷺ) مسکرادیئے-صحابہ کرام ؓ کے عرض کرنے پہ آپ(ﷺ)نے فرمایا کہ قاتل اور مقتول دونوں جنت میں ایک ہی درجے پہ پہنچ جائیں گے کیونکہ شہید توسیدھا جنت میں گیا جبکہ ایک وقت آئے گا کہ عکرمہ سابقہ گناہوں سے توبہ کر کے مسلمان ہوں گے اور اسلام پہ وفات فرمائیں گے اور وہ بھی جنت میں ہوں گے چنانچہ اس لئے مسکرا رہا ہوں-
اسلام لانے سے قبل حضرت ابو درداء کے گھر بت تھا جو حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نےتوڑ دیا- ابو درداء نے ٹوٹا بت دیکھا تو بت کو کہا: افسوس تجھ پہ میرے خدا کہ تُو اپنے آپ کو نہ بچا سکا-اس سے ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی اور حضورپاک (ﷺ) کی طرف چل پڑے-حضرت عبداللہ بن رواحہ وہیں ؓ موجود تھے- انہوں نے حضور(ﷺ)کی بارگاہ میں عرض کی کہ حضرت ابودرداء جھگڑا کرنے آ رہے ہیں-آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ وہ جھگڑنے نہیں بلکہ اسلام قبول کرنے آ رہے ہیں، اور پھر ایسا ہی ہوا-
مسند امام احمد بن حنبل میں روایت ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ خوف طاری ہو جائے گا اور لوگ ظالم کو ظالم نہیں کہہ سکیں گے اور وہ قربِ قیامت کا زمانہ ہو گا-امام حاکم ؒکی روایت ہے کہ حضور(ﷺ) نے فرمایا کہ میری امت شریعت پہ قائم رہے گی جب تک: ان سے علم اٹھ نہیں جاتا، ان میں ناپاک اولاد کی کثرت نہیں ہو جاتی، ایسے لوگوں کا ظہور نہیں ہو جاتاکہ جب وہ ایک دوسرے سے ملیں تو سلام کی بجائے ایک دوسرے کو لعن طعن کریں-ایسی احادیث مبارکہ بے شمار کتبِ احادیث میں درج ہیں جو دلائل النبوہ سے ہیں-یعنی چشمِ مصطفےٰ کریم(ﷺ) کی نظر سے فرد، قوم، کسی کی تقدیر، نیت، ماضی، حال، مستقبل کچھ بھی پوشیدہ نہیں-
آج دنیائے اسلام میں علمی زبوں حالی طاری ہے- گالم گلوچ کا کلچر سوشل میڈیا پہ عام ہو رہا ہے حتیٰ کہ اسلاف و اکابر کے متعلق نازیبا زبان استعمال کی جاتی ہے- یہ تمام قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں - اِس پُر فتن دور میں اصلاحی جماعت کی دعوت ہے کہ ہمیں حضور (ﷺ) سے اور آپ(ﷺ)پہ نازل ہونے والی کتاب مبارک سے اپنا تعلق مضبوط کرنا ہے اور اپنے کردار و اخلاق کو پختہ کرنا ہے-
گھوٹکی(سندھ): 07-01-2025 رحم والی پارک
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
صوفیا کرم کے مطابق آقا کریم (ﷺ) کی کامل اطاعت سے ایمان معجزے کی سطح تک جاتا ہے -سورہ ’’النمل:40‘‘ میں حضرت سلیمانؑ کے امتی کا واقعہ بیان ہوا ہے جنہوں نے پلک جھپکنے سے قبل ملکہ بلقیس کا تخت حاضر کر دیا- چنانچہ جب ایک امتی خاتم النبیین (ﷺ) کی اتباع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس میں بھی ایسے کمالات و اوصاف پیدا فرما دیتا ہے -
’’صحیح بخاری و صحیح مسلم‘‘ کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)کے پاس کچھ لوگ آ ئے جنہوں نے سوالات پوچھنے شروع کئے - کچھ سوالات بارگاہِ رسالت کے تقدس میں مناسب نہ تھے جن پہ حضور نبی اکرم(ﷺ) نے جلال فرمایا کہ لوگو مجھ سے جو چاہو پوچھ لو، میں بتا دوں گا-کچھ لوگوں کے پوچھنے پہ آپ(ﷺ) نے اُن کے راز بتا دیئے-
محدثین نے قول مبارک ’’جو چاہو پوچھ لو‘‘ کو حضورنبی کریم (ﷺ) کے معجزات میں سے لکھا ہے کہ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا کیا ہو- حضرت علی ؓ منبر پہ جلوہ افروز تھے تو اعلان کیا کہ لوگو جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو، اول سے آخر تک تمہیں ساری خبریں بتا دوں گا- یہ مقامِ بصیرت حضور اکرم(ﷺ) کی اتباع سے انہیں عطا ہوا-
مؤطا امام مالک میں روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا وقتِ وصال آیا تو آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو بلایا اور فرمایا کہ میرے بعد میرا مال اپنی دونوں بہنوں اور دونوں بھائیوں میں اصولِ وراثت پہ تقسیم کردینا- حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ بھائی تو دو ہیں لیکن بہن تو ایک ہی ہے - حضرت صدیقِ اکبر ؓ مسکرائے اور فرمایا کہ میری زوجہ حاملہ ہیں اور ان کے بطن سے بیٹی کی پیدائش میرے بعد ہو گی اور پھر ایسا ہی ہوا-
سورہ کہف میں حضرت خضرؑ کا واقعہ بیان ہوا ہے- کشتی توڑنا، بچے کو قتل کرنا اور دیوار تعمیر کرنا- حضرت خضرؑ نے ان کی جو وجوہات بیان فرمائیں ان میں اللہ کی عطا سے ماضی، حال اور مستقبل کی خبر بیان فرمائی-
فرمانِ رسول(ﷺ)ہے کہ لوگو! اللہ نے ساری دنیا کو میرے سامنے ایسے کھول دیا ہے کہ میں روزِ حشر کے واقعات کو اپنے سامنے اس طرح دیکھتا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھتا ہوں-
حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ میں خدا کی کُل کائنات کو اپنے سامنے اس طرح دیکھتا ہوں جیسے رائی کا دانہ ہو- یہ بصیرت آقا کریم(ﷺ) کی اتباع کے سبب اللہ پاک نے عطا فرمائی-
’’صحیح مسلم‘‘کی حدیث ہے کہ حضور (ﷺ) کا گزر ایک ریگستان سے ہوا- وہاں ایک شخص حضور(ﷺ)کی جانب آ رہا تھا- حضور(ﷺ) نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ ’’كُنْ أَبَا خَيْثَمَةَ‘‘اے شخص ابو خیثمہ ہو جا- صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں کہ وہ جو کوئی بھی تھا، ابو خیثمہ میں بدل گیا-شارحینِ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کی زبان کو چاہے اتباعِ رسول کے سبب ’’کُن‘‘ کی بھی طاقت عطا فرما دے- حضرت سلطان باھُو ؒفرماتے ہیں:’’زبان تاں میری کُن برابر موڑاں کم قلم دے ھُو‘‘
اصلاحی جماعت کی دعوت ہے کہ اسم اللہ ذات کی بُوٹی اپنے دل میں لگائیں تاکہ اپنے باطن کی آنکھ کو روشن کر سکیں-
لاڑکانہ: 08-01-2025 فرگرنٹ ہال
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ضابطہ حیات سکھانے کیلئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء معبوث فرمائے جنہوں نے وحی کے ذریعے انسان کو ضابطہ حیات دیا اور اخلاقی اصول سکھائے-اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:’’میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘-[29]
ایک اور مقام پہ فرمایا:’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی‘‘-[30]
اس لئے انسان پہ لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مقامِ انسانی کا شرف برقرا ر رکھے-صوفیاء فرماتے ہیں کہ تاریخِ انسانی کا پہلا واقعہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے متعلق ہے-فرشتوں نے حکم کی اطاعت کی اور انسان کو سجدہ کیا جبکہ تکبر کرنے والا ابلیس فرشتوں کی صف سے نکال دیا گیا-چنانچہ انسانوں کے آپس میں رہنے کا سب سے پہلا سبق اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل، عاجزی و انکساری اپنانا اور تکبر سے بچنا ہے-
اللہ تعالیٰ اپنی کچھ صفات بندوں کیلئے پسند فرماتا ہے جیسے رحم کرنا، معاف کرنا، درگزر کرنا- جبکہ کچھ صفات سے وہ انسانوں کو روکتا ہے جیسے وہ خود متکبر، جبار اور قہار ہے، لیکن انسانوں کو عاجزی اپنانے کا حکم فرماتا ہے-سخاوت، عاجزی، مہمان نوازی، صبر، یہ انبیاء کی صفات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے-
خطبہ حجۃ الوداع میں آقا کریم (ﷺ) نے ہر قسم کے نسل و رنگت کے امتیاز کو ختم فرمایا-آپ(ﷺ) کے دستر خوان پہ ذات پات کی تفریق مٹا کے اہل قریش و اہل حبش ایک ساتھ اکٹھے بیٹھتے تھے-فضیلت اُس کی ہے جس کا تقویٰ بلند ہے یعنی جس کا دل جتنا صاف و پاکیزہ ہے-قرآن کریم میں محبوب کریم(ﷺ)کا اخلاق عظمتوں کے ساتھ بیان ہوا ہے-چنانچہ محض کتابیں پڑھ لینے سے انسان مہذب نہیں ہوتا بلکہ اخلاق وآداب دین کی بنیاد ہیں- حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:’’علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھُو‘‘
معاشرے میں اخوت اور امن کا بنیادی کلیہ انسان کے قلب کی درستگی ہے-اسی لئے صوفیائے کرام اللہ کے ذکر سے دل کی پاکیزگی کی دعوت دیتے ہیں-
صحبت پور(بلوچستان): 09-01-2025 گل ٹاؤن گراؤنڈ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
سورہ یوسف میں بیان ہے کہ حضرت یوسفؑ کے کُرتے سے حضرت یعقوبؑ کی بینائی واپس آ جاتی ہے-کرتا بھیجنے والا بھی نبی اور چہرے پہ لگانے والا بھی نبی، نبی سے بڑھ کر توحید کا عالم و معلم کوئی نہیں دونوں کو معلوم تھا شفا اللہ دیتا ہے مگر کس ذریعے سے - لہذااللہ کے برگزیدہ بندوں کی اشیاء سے برکت و شفا حاصل کرنا انبیاء کا طریق ہے-
حضرت زکریاؑ ایک مرتبہ حضرت مریمؑ کے پاس تشریف لے گئے اور وہاں موجود بے موسم پھلوں کے متعلق دریافت فرمایا :
’’اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لئے کہاں سے آتی ہیں؟ آپؑ نے کہا: یہ (رزق) اللہ کے پاس سے آتا ہے‘‘- [31]
حضرت زکریاؑ نے جب ایک ولیہ کی کرامت کا ظہور دیکھا تو اُسی جگہ اور اُسی وقت اولاد کیلئے دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا-مفسرین فرماتے ہیں کہ جہاں اولیاء کی کرامت کا ظہور ہو وہاں جا کر اللہ سے دعا کرنا انبیاء کی سنت ہے-
’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ حضورنبی کریم(ﷺ) نے فرمایا کہ میرے بعد لوگ آئیں گے جو مجھ سے اتنی شدید محبت کریں گے کہ اپنا سب کچھ دے کر میری ایک جھلک دیکھنا چاہیں گے-’’صحیح بخاری ‘‘ کی حدیث مبارک ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا: ’’خواب میں مجھے دیکھنے والا عنقریب بیداری میں بھی مجھے دیکھ لے گا‘‘-
الغرض! مصطفےٰ کریم (ﷺ)کے چہرہ مبارک کی زیارت اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے- اس کا راستہ اسم اللہ ذات کے ذکر سے دل کی صفائی ہے -
کندھ کوٹ(سندھ): 10-01-2025 آڈیوٹوریم ہال
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جب سے اللہ تعالیٰ نے انسا ن کو پیدا فرمایا تب سے وجودِ انسان کے متعلق دو نظریات بن گئے تھے، ایک حضرت جبرائیلؑ کا اور دوسرا ابلیس کا تھا-تخلیقِ جسدِ آدم(علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے جب اس میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا تو مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیلؑ نے سب سے پہلے سجدہ کیا جبکہ ابلیس تکبر میں آ گیا اور سجدہ نہ کیا-
مولانا رومی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں کہ جبرائیلؑ نے آدم ؑ کے وجود کے اندر انوارِ حق کو دیکھا تو اس کا مقام جان لیا جبکہ ابلیس کی نظر ان کے ظاہر پہ تھی اور وہ مٹی تک ہی اٹک کر رہ گیا-چنانچہ آدم ؑ کو محض مٹی سمجھنا اور اس کی تحقیر کرنا ابلیس کا نظریہ ہے جبکہ اس کے اندر کے نور کی حقیقت کو جاننا اور اس کی توقیر کرنا نظریہ جبرائیل ہے-اس لئے اگر جبرائیلؑ کی نظر سے انسان کو دیکھا جائے تو اس کی عزت، تکریم اور ادب پیدا ہوتا ہے جو انسانیت سے محبت اور انسانی وقار کی بنیاد ہے-
جو نور حضرت آدمؑ کے اندر رکھا گیا تھا وہ ہر انسان کے اندر موجود ہے اسی لئے حکم فرمایا گیا ہے کہ:
’’ اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو‘‘-[32]
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ جس طرح زمین میں بظاہر مٹی کے اندر سے پانی نکل آتا ہے اسی طرح انسان بظاہر مٹی ہے جس کے اندر نور کے جلوے ہیں-حضرت سلطان باھُو اسی لئے فرماتے ہیں:’’جاں اندر وڑ جھاتی پائی ڈٹھا یار اکلّا ھُو‘‘
حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو حکم ہوا:’’اپنا عصا اس پتھر پر مارو، پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے‘‘-[33]
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ حقیقت سے دوری اور بے خبری انسانی دل کو پتھر بنا دیتی ہے- چنانچہ کسی موسیٰ صفت اللہ والے کی تلاش ضروری ہے جس کی نظر کے عصا کی ضرب سے اس پتھر دل سے اللہ کے نور کے چشمے جاری ہوسکیں-
حضرت سلطان باھُو فرماتے ہی:’’الف: اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھُو‘‘
چنانچہ اسم اللہ ذات کی بُوٹی دل میں لگانے سے انسان کا قلب بیدار ہوتا ہے - صاحبِ ارشاد مرشدکامل کا پہلا کام انسان میں طلبِ الٰہی پیدا کرنا ہے-اصلاحی جماعت کا یہی پیغام ہے کہ اپنے باطن کو اسم اللہ ذات کے ذکر سے بیدار کریں اور انسان کے اصل مقام کو پہچانیں-
راجن پور (پنجاب): 11-01-2025
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اپنی نیت، عبادت اور ارادے کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا چاہئے- ارشادِربّانی ہے:
’’فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘- [34]
یہی اولیائے کاملین کی تعلیمات ہیں کہ اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے-اللہ تعالیٰ نے بندے کو اپنے قریب کرنے کیلئے اس پر عبادت کو لازم قراردیا ہے- جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں‘‘-[35]
عبادت کی اصل لذت و سرور اور عبادت میں کمال حاصل کرنے کیلئے رب تعالیٰ کی معرفت و پہچان ضروری ہے-حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں :’’جو شخص اس ذات کی معرفت و پہچان نہیں رکھتا وہ اس کی کامل عبادت کیسے کر سکتا ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے لیے اپنی معرفت و پہچان شرط ہے جیسا کہ صوفیاء کرام نقل کرتے ہیں:
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘-
اپنی پہچان محض آئینے میں دیکھ کر اپنے مادی جسم کو پہچاننا نہیں بلکہ اپنے اندر کی روح کو پہچاننا ہے جس کیلئےدل کی صفائی کے ذریعے باطن کی بیداری ضروری ہے-سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ فرماتے ہیں:دل کر صیقل شیشے وانگوں باھُوؒ دور تھیون کُل پردے ھُو
صوفیائے کرام کے نزیک دل انسانی وجود میں مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جس کی اصلاح پورے بدن کی اصلاح ہے اس لیے وہ دل کی صفائی اور پاکیزگی پر زور دیتے ہیں- اصلاحی جماعت کی یہی دعوت ہے کہ اپنے قلب کی اصلاح کریں اور اولیائے کاملین کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہوکر اپنی عبادت کو کامل بنائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت و قرب وصال حاصل ہو-
مظفر گڑھ: 12-01-2025 ڈیرہ حق باھو
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
حضور نبی اکرم(ﷺ) نے فتح خیبر کے متعلق بشارت فرمائی کہ پرچم اس کے ہاتھ تھمایا جائے گا جس سے اللہ اور اُس کا رسول محبت کرتے ہیں تو فتح کا پرچم سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھمایا -پنج تن پاک سے محبت قرآن کریم کی آیتِ مباہلہ سکھاتی ہے کہ جب نجران کے عیسائیوں کے سامنے توحید کی دلیل کیلئے حضور اکرم(ﷺ) نے بیٹوں کے طور پہ حضرت امام حسن اور امام حسینؑ کو بلایا-عورتوں میں حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓ کو بلایا اور ’’انفسنا‘‘ کے طور پہ حضور نبی اکرم(ﷺ) خود تشریف لے گئے اور حضرت علی المرتضیٰ ؓ کو منتخب فرمایا-
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اکثر ٹکٹکی باندھ کر حضرت علی ؓ کے چہرہ مبارک کو دیکھا کرتے-آپ نے جب اس متعلق دریافت فرمایا تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اکرم(ﷺ) سے سنا کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے-
’’صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضور اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں‘‘-
امام حاکم نے سندِ صحیح کے ساتھ بیان کیا ہے کہ :’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘‘-جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری کی نافرمانی کی‘‘-
تمام سلاسلِ تصوف کا اجماع ہے کہ مہرِ ولایت اللہ تعالیٰ نے دستِ علی میں رکھی ہے-ولایت کا ر استہ قلب کی صفائی اور باطن کو پاک کرنا ہے-باطن کی بیداری کیلئےاصلاحی جماعت اسم اللہ ذات کے ذکر کی دعوت دے رہی ہے-
(جاری ہے)
[1](المستدرک، رقم الحدیث :4285)
[2](الرعد:11)
[3](آلِ عمران:164)
[4](العمران:4)
[5](صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن)
[6](الذاریات:56)
[7](الذاریات:56)
[8](الملک:2)
[9](الذاریات:50)
[10](الانفال:45)
[11](صحیح بخاری)
[12](الانعام:162)
[13](النساء:174)
[14](العنکبوت:69)
[15](الحجر:29)
[16](الرعد: 28)
[17](حم السجدہ:53)
[18]( الاسراء: 70)
[19](سنن ابنِ ماجہ، رقم الحدیث:1637)
[20](آل عمران:31)
[21](النجم،آیت:3-5)
[22](الرعد:28)
[23](سنن الترمذی، رقم الحدیث:2211)
[24](النجم:4-5)
[25](التوبہ:119)
[26](المعجم الکبیر)
[27](السبا:14)
[28](البقرۃ:154)
[29](البقرہ،30)
[30](الاسراء:70)
[31](آل عمران:37)
[32](الذاریات:21)
[33](البقرہ: 60)
[34](الانعام:162)
[35](الذاریات:56)