قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی بعثت کو مومنین پر احسان قرار دیا ہے اور اس پر شکر بجا لانے کا حکم فرمایا ہے- جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ‘‘[1] |
|
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول (ﷺ) بھیجا‘‘- |
مزید اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور اس نعمت پر مسرت و شادمانی کا اظہار کرنے کا حکم دیا- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا‘‘[2] |
|
’’یا رسول اللہ (ﷺ) آپ فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (ہے)، (پس مسلمانوں کو چاہیے کہ) اس پر خوشیاں منائیں‘‘- |
احادیث مبارکہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے میلاد کی تعظیم اور تحدیث نعمت کا حکم ملتا ہے- حضرت عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ)نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ولادت کی نسبت نعتیہ قصیدہ کہا- جس میں آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:
’’وَ أَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ وَ ضَاءَتْ بِنُورِكَ الْأُفُقُ‘‘[3] |
|
’’جب آپ (ﷺ)پیدا ہوئے تو زمین چمک اٹھی اور آپ (ﷺ) کے نور سے آسمان روشن ہوگیا‘‘- |
تاریخ گواہ ہے کہ میلاد النبی (ﷺ) کا تذکرہ صحابہ کرام، تابعین اور امت کے جلیل القدر علماء و صوفیاء کے زمانے سے ہوتا آرہا ہے- امام ابن جوزی، امام قسطلانی اور امام زرقانیؒ جیسے محدثین نے ذکر کیا ہے کہ :
’’حضرت عمر بن عبدالعزیز اور دیگر تابعینؒ میلاد النبی (ﷺ) کے موقع پر نعت خوانی اور سیرت النبی (ﷺ) کے تذکرے کا اہتمام کیا کرتے تھے‘‘-[4]
اسی طرح علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ (1263- 1328ء) اپنی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم‘‘ میں میلاد منانے اور اس پر اجرِ عظیم کے ملنے کا ذکر فرماتے ہیں-مزید برآں، سلطنت عثمانیہ میں میلاد النبی (ﷺ) کو قومی جشن کی حیثیت حاصل تھی جبکہ برصغیر میں بھی اکابر علماء میلاد النبی (ﷺ) کی محافل کا اہتمام کرتے رہے ہیں-
الغرض! نعت خوانی اور سیرت النبی (ﷺ) کے تذکرے سے دلوں میں عشقِ مصطفیٰ (ﷺ) کا چراغ روشن ہوتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) پر درود و سلام بھیجنے کے لیے میلاد النبی (ﷺ) بہترین موقع فراہم کرتا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اِنَّ اللہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘[5] |
|
’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘- |
یہی وجہ ہے کہ اولیاء کاملین انبیاء کرام (رضی اللہ عنھم) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے میلاد مصطفےٰ(ﷺ) کا انعقاد کرتے ہیں- میلاد کا مقصد لوگوں کو ’’ فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہِ‘‘ کی دعوت دینا اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی توصیف بیان کرنا ہوتا ہے-اسی مشن کو جاری رکھتے ہوئے دربار پُر انوار سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ سے دعوت الی اللہ اور اتباعِ رسول اللہ (ﷺ) کی خاطر اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین چلائی گئی- اس جماعت پاک کے بانی سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے خزانۂ فقر ’’اسمِ اعظم‘‘ عام فرمایا اور اتحاد بین المسلمین کی عملی داغ بیل ڈالی- شریعتِ مطہرہ کی مکمل پابندی، تزکیہ نفس، تصفیۂ قلب، تجلیۂ روح اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ اپنے اسفار، ابلاغ، انداز، تعلیم و تلقین اور بالخصوص ’’سالانہ ملک گیر دورہ میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) و حق باھو کانفرنس‘‘ پاکستان و بیرونِ ممالک میں جاری فرمایا- دربار سلطان باھوؒ سے چلائی گئی اصلاحی جماعت، ملکوں ملکوں، شہر شہر، گاؤں گاؤں جا کر قرآن کریم کی یہی دعوت عام کررہی ہے کہ اپنا مقصدِ حیات جانا جائے، حضور نبی کریم (ﷺ) کی کامل اتباع کی جائے اور اسم اللہ ذات سے باطن پاک کرکے اللہ پاک کا قرب و معرفت حاصل کی جائے-
اللہ تعالیٰ کے قرب و معرفت کا ذریعہ ذکر و تصور اسم اللہ ذات اور حضور نبی کریم (ﷺ)کی اتباع ہی آج ہمارے درمیان دوبارہ سے احیائے انسانی کا مُوجب ٹھہر سکتی ہے-کیونکہ آج جو ہمارے دل اور عقل بے سکونی اور تذبذب کا شکار ہیں انہیں ذکر ِاَللہُ اور محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے ہی قرار حاصل ہوسکتا ہے-انسانیت کی اس نبضِ ضعیف کے علاج کیلئے ” اصلاحی جماعت “ کے زیرِ اہتمام سالارِ عارفین جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب(مدظلہ الاقدس) کی قیادت میں ملک بھر میں اور بین الاقوامی سطح پر رحمۃ للعالمین، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے اسم پاک سے موسوم محافل و اجتماعات کا سالانہ انعقاد ”میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) و حق باھو کانفرنس“ کے تحت کیا جاتا ہے-
ہر شہر میں پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے-صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب اور مفتی علی حُسین قادری خطاب کرتے ہیں-
پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں - پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ وسلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-
اس سال انعقاد پذیر ہونے والے ان تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ کا حصہ دوم ملاحظہ فرمائیں-
لیہ: 15-01-2025 دارالعلوم غوثیہ عزیہ انوار حق باھو سلطان
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے: ’’ وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰىمِ اللہِ ‘‘[6] ’’اور انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ‘‘-
اولیائے کاملین نے ان ایام سے مراد وہ وقت مراد لیا ہے جو ارواح نے اللہ کے وصل اور قرب میں عالمِ ارواح میں گزارے ہیں-کچھ مفسرین نے ان سے مراد ظالم سے نجات والے دن اور کچھ نے انعام والے دن مراد لیے ہیں-تاہم جو بھی مراد لیا جائے، اصل چیز اللہ تعالیٰ کی یاد ہے-
حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سے محبت اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم(ﷺ) کی سنت ہے-حافظ ابن حجر عسقلانی شرح فتح الباری لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا ‘‘سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی(رضی اللہ عنہ) نے حضور پاک (ﷺ) کی ایسی اِتّباع کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ایسے محبوب بن گئے کہ ان کی محبت ایمان پرکھنے کی کسوٹی بن گئی -
حدیث مبارک ہے کہ اگر حضرت آدمؑ کا حُسن ، حضرت ابراھیمؑ کی دوستی ، حضرت موسیٰؑ کی مناجات، حضرت یحییٰؑ کا زہد، حضرت عیسیؑ کا طریق اور حضور اکرم(ﷺ) کا اخلاق دیکھنا ہو تو حضرت علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہ) کی طرف دیکھ لیا جائے -
حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ)روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی محبت ایمان ہے، حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے بغض نفاق ہے -چنانچہ ہم سب کو اپنی اولاد کو حبِ علی (رضی اللہ عنہ) سکھانی چاہئے تاکہ وہ گمراہی سے دور رہے اور ہدایت پہ استقامت اختیار کر سکے-حضور اکرم(ﷺ) نے فرمایا کہ جنت تین لوگوں کی مشتاق ہے : حضرت علی، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ)-عبادت کی نیت بھی اجرو ثواب کا باعث ہے جیسے وضو اور نماز کی نیت پر بھی ثواب ملنا شروع ہوجاتا ہے - اسی طرح حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت چونکہ عبادت ہے اس لئے اس کی نیت پر بھی اجر ملنا شروع ہو جاتا ہے -
تمامِ سلاسل طریقت کے اولیاء اس بات پہ فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہیں حبِ علی(رضی اللہ عنہ) نصیب ہے-حضرت سلطان باھُو حبِ پنج تن پاک کے متعلق فرماتے ہیں:’’پنجے محل پنجاں وچ چانن ڈیوا کت ول دھرئیے ھُو‘‘
میانوالی: 16-01-2025 جناح فٹبال گراؤنڈ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا‘‘[7]
’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو (خدائے) رحمان ان کیلئے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا‘‘-
قاضی ثناءاللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ آپ نے حضور اکرم(ﷺ) کی اتباع اس قدر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اور محبوب کریم (ﷺ) آپ (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوئے-
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ عرفہ کی رات حضور اکرم(ﷺ) ہمارے گھر تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم سب پہ فخر فرمایا ہے اور تم سب کی عمومی طور پہ بخشش کر دی ہے جبکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کی خاص طور پہ بخشش کر دی-میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور محض ذاتی قرابت کی بنیاد پہ محبت کرنے والا نہیں بلکہ جبرائیل میرے ساتھ ہوتے ہیں جو مجھے خبریں دیتے ہیں-[8]
امام ترمذی ، امام ابن حبان ، امام حاکم اور دیگر محدثین کرامؒ نے حدیث پاک بیان کی ہے کہ ایک مہم کے دوران کچھ لوگوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے اختلاف کیا-مدینہ واپس لوٹ کر حضور (ﷺ) کی بارگاہ میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کی شکایت کی-آقا کریم (ﷺ) نے جلال کے عالم میں تین بار فرمایا :’’علی سے کیا چاہتے ہو؟‘‘ یاد رکھو! علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں-علی میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے-
چکوال: 17-01-2025
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
حضور نبی کریم(ﷺ) نے حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی تصدیق کرنے والے کیلئے خوشخبری جبکہ تکذیب کرنے والے کیلئے وعید ارشاد فرمائی ہے- چنانچہ جہاں غیب کی خبریں حضور نبی کریم(ﷺ)نے عطا فرمائیں وہیں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا مقام و مرتبہ اور عظمت بیان فرمائی جو عین وحی ہے- ولایتِ علی (رضی اللہ عنہ) کے وسیلے سے اللہ کے قرب کی دعا مانگنا صحابہ کرام کا عقیدہ ہے-امام احمد ابن حنبل روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس(رضی اللہ عنہ) نے بوقتِ وصال اللہ پاک سے دعا کی:
’’رب العالمین میں علی ابن طالب کی ولایت کے وسیلے سے تیرے قرب کا متلاشی ہوں‘‘-
چنانچہ فیضِ ولایت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ مبارکہ سے خاص ہے- تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ فرماتے ہیں کہ بے شک کمالاتِ ولایت کے قطب حضرت علی(رضی اللہ عنہ) ہیں اور تمام اولیائے کاملین حتیٰ کہ صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) بھی مقامِ ولایت میں سیدنا علی(رضی اللہ عنہ) کے تابع ہیں-تمام سلاسلِ تصوف و طریقت اپنی ولایت و فیض کی نسبت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے جوڑتے ہیں-سلسلہ قادری، چشتی، سہروردی، رفاعی، شاذلی، ان سب کی سندِ فیض حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے ملتی ہے- سلسلہ نقشبندیہ کی ایک سند حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) جبکہ دوسری حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے ملتی ہے-امام الغزالی ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’ولایت انوارِ نبوت کا فیض ہے‘‘-یہ فیض حضور (ﷺ) کے سینہ مبارک سے حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے سینہ مبارک میں اور پھر وہاں سے آگے چلا ہے-
اٹک: 18-01-2025
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
اللہ تعالیٰ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)پر جتنے انعامات فرمائے ان میں ایک بہت بڑا انعام یہ تھا کہ انہوں نےاپنے انتہائی بچپن سے آغوشِ محمدی(ﷺ)میں تربیت پائی تھی-[9] رسول اللہ (ﷺ)کی تربیت کا اثر آپ (رضی اللہ عنہ)کی شخصیت و کردار میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے-
سیدہ حضرت امِ سلمہ (رضی اللہ عنہا)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: اے امِ سلمہ! علی کا گوشت میرا گوشت ہے،علی کا خون میرا خون ہے اور علی میرے لئے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے لئے حضرت ہارونؑ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘-[10]
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اپنے اوپر ہونے والے انعامات میں سے ایک بیان فرماتے ہیں: حضور(ﷺ)نے مجھے ایک مرتبہ نماز سے فارغ ہوکر ارشاد فرمایا: اے علی! جب میں خدا سے اپنے لیے خیر مانگتا ہوں تیرے لیے خیر ساتھ مانگتا ہوں اور جب میں اللہ سے کسی شر سے پناہ مانگتا ہوں تو تیرے لیے پناہ بھی ساتھ مانگتا ہوں- [11]
حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا : میں نے اللہ تعالیٰ سے پانچ دعائیں کیں جو اللہ نے قبول فرمائیں- جب میں قیامت کے دن اٹھوں تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) میرے ساتھ ہوں، میزان پہ اعمال پیش ہوتے ہوئے علی میرے ساتھ ہوں، جب جھنڈا اٹھانے کی باری آئے تو علی (رضی اللہ عنہ)میرے ساتھ وہ جھنڈا اٹھائیں، حوضِ کوثر پہ امت کو پانی پلانے سب سے پہلے علی (رضی اللہ عنہ)پہنچیں اور جب امت جنت کی طرف جائے تو اس کا قائد علی (رضی اللہ عنہ)کو بنا دینا- متعدد احادیث مبارکہ ہیں کہ حضور اکرم(ﷺ) نے اکثر اپنی دعا میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اپنے ساتھ یاد فرمایا ہے- ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضور نبی(ﷺ)، حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سے اور حضرت علی(رضی اللہ عنہ)، حضور نبی کریم (ﷺ) سے جدا نہیں ہیں-
اولیاء کرام کے طریقِ تربیت میں ہر ایک کا ادب و احترام سکھایا جاتا ہے جو نوآبادیاتی دور سے پہلے تک ہمارے معاشرے کا طرہ امتیاز تھا- آج پھر ہمیں نوآبادیاتی دور میں پیدا ہونے والی شدت پسندانہ سوچ سے نکل کر صوفیائے کرام کے امن و محبت کے پیغام پہ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور یہی اصلاحی جماعت کا پیغام ہے-
اسلام آباد: 19-01-2025
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
’’سورہ فتح :آیت 29‘‘ کی شرح میں مفسرین فرماتے ہیں کہ’’مَعَہٗٓ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)،’’اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ‘‘ سے مراد حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ)، ’’رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ‘‘ سے مراد حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) اور ’’فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا‘‘ سے اشارہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی طرف ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جو زہدِ یحیٰ (رضی اللہ عنہ) کو دیکھنا چاہے وہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو دیکھے -
’’سورہ الفتح : آیت18‘‘میں صلح حدیبیہ کے بعد خیبر کی فتح کی بشارت دی گئی یہ آیت مبارکہ عمومی طور تمام مومنین کیلئے جبکہ خاص طور حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کیلئے ہے-
امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ ہجرت کی رات حضر ت علی کے پاس دو فرشتے آئے- جبرائیل(علیہ السلام) ان کے سرہانے کھڑے ہو گئے اور میکائیل(علیہ السلام) قدموں کی جانب-جب انہوں نے آپ (رضی اللہ عنہ)پہ طاری سکینہ دیکھا تو حضرت جبرائیل نے فرمایا:’’واہ واہ !علی ابن طالب(رضی اللہ عنہ)، آپ کی مثل کون ہو سکتا ہے اللہ اپنے فرشتوں کے ساتھ آپ پہ فخر فرما رہا ہے‘‘-اس کے بعد یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
’’اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے‘‘-[12]
امام قرطبی اور امام جلال الدین سیوطیؒ روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے ایک مرتبہ فرمایا: اے علی اپنے لئے کچھ مانگو- حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے دعا فرمائی کہ اے اللہ میرے لئے مؤمنین کے دلوں میں محبت ڈال دے-
حُبِ علی (رضی اللہ عنہ)کا راستہ باطن کی پاکیزگی ہے اور حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں اس کیلئے اسم اللہ ذات کا قلبی ذکر ضروری ہے-
ایبٹ آباد: 20-01-2025 کامرس کالج گراؤنڈ
صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
آقا کریم (ﷺ) کی مبارک جماعت صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی جماعت ہے جن کے وسیلے سے آخری کتاب اور آپ (ﷺ) کی مبارک سنت، فیضِ فقر اور دیگر اخلاقیات باحفاظت ہم تک پہنچے-قرآن کریم ہمیں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار (رضی اللہ عنھم)سے محبت سکھاتا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘[13] ’’ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے‘‘-
ایک اور مقام پہ ارشادِ ربانی ہے:
’’قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[14] ’’مَیں اِس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت سے محبت‘‘-
اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ:’’وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘[15] ’’اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو‘‘-
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ اصحابِ کہف کا کتا نیکوں کی صحبت کے سبب جنت میں جائے گا اور اُس کا ذکر اللہ نے نیکوں کے ساتھ اپنی آخری کتاب میں کیا-انسان اگر صالحین کی صحبت اختیار کرے تو اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے اسے انتہائی اعلیٰ مقام و مرتبہ نصیب ہوتا ہے-
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ اصحابِ کہف کا کتا نیکوں کی صحبت کے سبب اعلیٰ مقام پا گیا، دوسری طرف حضرت نوح(علیہ السلام) کا بیٹا بُری صحبت کے باعث خاندانِ نبوت چھوڑ بیٹھا اور گمراہ ہو گیا- چنانچہ ہمیں صالحین کی جماعت تلاش کر کے اسے اپنانا چاہئے-اصلاحی جماعت کی یہی دعوت ہے کہ اولیاء اللہ کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنے ظاہر اور باطن کو سنوارا جائے-
ہری پور: 21-01-2025 اختر نواز سٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
خلفائے راشدین کا ایک دوسرے سے محبت و احترام انتہائی بلند معیار کا تھا کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو دیکھا تو مسکرا دیے-سبب دریافت ہونے پہ فرمایا کہ اے علی(رضی اللہ عنہ) میں نے حضور نبی کریم(ﷺ) کو فرماتے سنا کہ کوئی شخص پل صراط سے کامیاب نہیں گزر سکے گا جب تک اس کے ہاتھوں میں علی(رضی اللہ عنہ) کی محبت کا پروانہ نہیں ہو گا-یہ سن کر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) مسکرائے اورحضرت ابوبکرصدیق(رضی اللہ عنہ) کی طرف دیکھا-دریافت ہونے پہ فرمایا کہ اے ابوبکر(رضی اللہ عنہ) یاد رکھیں! علی (رضی اللہ عنہ) بھی تب تک کسی کے پروانے پہ مہرِ تصدیق نہیں لگائے گا جب تک وہ آپ سے محبت نہیں کرتا ہو گا-
حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کی موجودگی میں ایک شخص نے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں نازیبا گفتگو کی تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اس شخص کو فرمایا:اے شخص رک جا! علی کا ذکر خیر کے تذکرے کے بغیر نہ کر- اگر تو علی(رضی اللہ عنہ) کو اذیت دے گا تو (حضور اکرم(ﷺ) کی قبرِ انور کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ) یاد رکھ اس صاحبِ قبر کو اذیت دے گا-[16]
چنانچہ حضوراکرم(ﷺ) سے محبت کے دعویدار کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو بغضِ علی (رضی اللہ عنہ) سے پاک رکھے-
ایک دفعہ دو بدو جھگڑ کر فیصلے کیلئے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے-ایک شخص کوآپ کا فیصلہ پسند نہ آیا اوراس نے اعتراض کیا -حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اٹھے اور اُس بدو کا گریبان پکڑ کر فرمایا تُو برباد ہو، تجھے معلوم ہے یہ شخص کون ہے جس کے بارے میں بات کر رہا ہے؟ یہ میرا بھی اور ہر مومن کا مولیٰ ہےجو اسے مولیٰ نہیں مانتا وہ مومن ہی نہیں ہے- حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے فرمایا: اے علی! میں ایسی قوم میں رہنے سے پناہ مانگتا ہوں جس میں آپ موجود نہیں ہوں گے-
بھکر: 22-01-2025 مدرسہ جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھُو(زمے والا )
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
’’سنن ترمذی‘‘ کی حدیث مبارکہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے- وہ اﷲ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت ہیں-
’’المستدرک ‘‘ کی حدیث مبارکہ ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا: حضرت علی (رضی اللہ عنہ) قرآن کے ساتھ اور قرآن حضرت علی ؓکے ساتھ ہے، دونوں جدا نہ ہوں گے حتی کہ اکٹھے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے-
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کا یہ امتیاز ہے کہ آپ قرآن مجید کی ہرآیت کے نزول کے شاہد،عالم اور ہر آیت کے اسرار ورموز سے واقف تھے- قرآن مجید کی کم از کم 300 آیات ایسی ہیں جو حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے حق میں نازل ہوئیں- ارشادِ ربانی ہے:
’’وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘[17] |
|
’’اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے‘‘- |
اس آیت میں ’’وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘‘(سبقت لے جانے والے ) میں حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سرِ فہرست ہیں- آقا کریم (ﷺ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے قریب کروں اور خود سے دور نہ کروں، تجھے علم سکھاؤں تاکہ تُو اسے محفوظ رکھےاور تجھ پہ حق ہے کہ کہ تُو اسے محفوظ رکھے جو میں نے تجھ تک پہنچایا- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) تمہارے درمیان بابِ حطہ کی مثل ہیں جو اس باب سے داخل ہوا وہ اپنے ایمان میں کامل ہوگیا-[18]
تمام سلاسلِ تصوف اپنی نسبتِ روحانی سیدنا علی (رضی اللہ عنہ)سے وابستہ کرتے ہیں کیونکہ آپؓ کی ذاتِ گرامی فقرو ولایت کا سرچشمہ ہے-
خوشاب: 23-01-2025 مدرسہ جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھُو (چھ چک)
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
کتاب وسنت کی تعلیمات صحابہ کرام اور اہلِ بیت(رضی اللہ عنھم) جیسی برگزیدہ ہستیوں کی وجہ سے ہم تک محفوظ پہنچی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت کیلیے چن لیا تھا-آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے ہدایت پا جاؤ گے‘‘-[19]
اولیاء اللہ کا یہ طریقِ رہا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام و اہل بیت (رضی اللہ عنھم) کی محبت پیدا کرتے ہیں-بدقسمتی سے موجودہ دور میں سوشل میڈیا پہ چند نام نہاد سکالرز صحابہ کرام اور اہلِ بیت (رضی اللہ عنھم) جیسی مبارک ہستیوں کے ادب کے حوالے سے بھی لوگوں کے قلوب واذہان کو دھندلا رہے ہیں -
علم و فقراور روحانیت میں شرف حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو حضورنبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ سے حاصل ہوا تھا-حضرت علی(رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ مَیں حضور نبی اکرم (ﷺ)کے ہمراہ تھا،ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ (ﷺ)کے سامنے آتا (وہ آپ(ﷺ) کوعرض کرتا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ ‘‘[20]- یہ حدیث مبارکہ جہاں حضور(ﷺ)کی نبوت کی دلیل ہے وہیں یہ حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے شرفِ ولایت کی بھی دلیل ہے کہ آپ(رضی اللہ عنہ) درختوں اور پتھروں کی آواز بھی سن سکتے ہیں-
صوفیاء کا پیغام بغض و نفرت کو ختم کرکےدلوں کو جوڑنا ہے- حضرت سلطان باھُوؒ نے دل کی پاکیزگی کیلئے اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر کی تعلیم دی ہے جو مرشدِ کامل کی بارگاہ سے نصیب ہوتا ہے-دنیا میں جہاں بھی صوفی سلسلے ہیں ان کی خاصیت ہے کہ ان میں کسی سے تعصب نہیں - خاص کر انبیائے کرام، ملائکہ، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور امت کے اولیاء اللہ و صالحین میں ہر ایک سے حسنِ ظن اور ادب کا تعلق رکھتے ہیں -
فیصل آباد: 24-01-2025 ضلعی مرکز سلطانیہ حق باھُوؒ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
صحابہ کرام اور اہلِ بیت (رضی اللہ عنھم)سے محبت کا پیمانہ اور دلیل قرآن مجید ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فضائل صحابہ واہلِ بیت بیان فرمائے ہیں- قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہر وقت اللہ کی توجہ میں ہیں-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ‘‘[21]
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو (وہی اللہ کی جماعت ہے اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں‘‘-
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے حق میں نازل ہوئی-
فتح طائف کے موقع پہ رسول اللہ(ﷺ)نے حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو بلایا اور آپ (رضی اللہ عنہ) سےسرگوشی فرمائی- لوگوں نے کہا: آپ (ﷺ) کی اپنے چچا زاد کے ساتھ سرگوشی طویل ہو گئی، رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا: میں نے علی(رضی اللہ عنہ) سے سرگوشی نہیں کی، بلکہ اللہ نے اس سے سرگوشی کی ہے-[22]
آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے لیے اللہ کی طرف سے مجھے تین باتیں وحی کی گئی ہیں: علی تمام مسلمانوں کے سردار ہیں، متقین کے امام ہیں اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے-[23]
اولیاء کرام فرماتے ہیں کہ راہِ طریقت میں کمال کے حصول کیلئے حضرت علی(رضی اللہ عنہ) جیسی شخصیات کے نقشِ قدم پہ چلنا چاہئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے منفردانعامات وکمالات سے نوازا ہے-اولیاء اللہ کی راہ اعتدال کی راہ ہے جس میں ہر طرح کے بغض وعناد کا خاتمہ اور محبت و احترام کی دعوت ہے-
شیخوپورہ: 25-01-2025 اسٹیڈیم گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لا اُولٰٓئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ
’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر (خیر البریّہ) ہیں‘‘-[24]
اس کے بعد صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو دیکھ کے فرماتے ’’خیر البریّہ‘‘ آ رہے ہیں-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ‘‘[25]
’’(اے رسولِ مکرّم(ﷺ)!) آپ تو فقط (نافرمانوں کو انجامِ بد سے) ڈرانے والے اور (دنیا کی) ہر قوم کے لئے ہدایت بہم پہنچانے والے ہیں‘‘-
جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم(ﷺ)نے اپنا مبارک ہاتھ اپنے سینے پہ رکھ کر فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں اور اپنا ہاتھ حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کے کندھے مبارک پہ رکھ کر فرمایا کہ تُو ھادی ہے، میرے بعد ہدایت پانے والے تجھی سے ہدایت پائیں گے-[26]
اس لئے تمام طریقِ تصوف کے فیضِ روحانیہ کے چشمے سینہ علی (رضی اللہ عنہ) تک پہنچتےہیں-امام عسقلانی اور متعدد محدثین کرام نے حدیث روایت کی ہے کہ: رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایامیرے بعد عنقریب تمہارے درمیان فتنے اٹھیں گے،یاد رکھو اُس وقت علی کو لازم پکڑنا -[27]
مسلمانوں کے قریباً ایک ہزار سالہ دور میں باہمی رواداری اور محبت صوفیاء کی تربیت کے سبب تھی جس میں کدورت اور نفرت نہیں تھی بلکہ سب کا ادب اور سب سے محبت تھی -نوآبادیاتی دور میں پیدا ہونے والی فرقہ واریت نے نفرتوں، تقسیم اور تکفیر کو جنم دیا ہے-اصلاحی جماعت کا پیغام ہے کہ ہمیں اولیائے کاملین کی تعلیمات و تربیت اپنانے کی ضرورت ہے- باہمی احترام اور دلوں کی نرمی کیلئے حضرت سلطان باھُو نے اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر کی دعوت دی ہے -
لاہور: 26-01-2025 منہاج کرکٹ گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰے(ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے کثیر اور بے شمار معجزات عطا فرمائے جن میں معراج النبی(ﷺ) ایک عظیم اورانفرادی معجزہ ہے جو کسی دوسرے نبی کو حاصل نہ ہوا- واقعہ معراج کےزمینی سفر کے متعلق ارشادِ ربانی ہے:
’’ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط[28]
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ‘‘-
ارضِ فلسطینِ سے ہماری محبت کی بنیاد حضور(ﷺ)کا سفرِ معراج ہے- چنانچہ قرآن کریم اور حضور اکرم(ﷺ)سے محبت اور اسلامی تہذیب کی تاریخ کا ایک مسلمان سے تقاضا ہے کہ وہ کبھی مسجدِ اقصیٰ پہ سمجھوتہ نہیں کر سکتا-
قاضی ابو بکر ابنِ العربی نے ’’الاسراء:60‘‘ کے تحت بیان کیا ہے کہ اگر معراج کا واقعہ صرف خواب کا واقعہ ہوتا تو اسے تسلیم کرنے میں لوگوں کو کوئی بڑا مسئلہ پیش نہ ہوتا-اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو فتنہ اسی لئے فرمایا ہے کہ لوگ اس کا انکار کریں گے کیونکہ ظاہری جسم کے ساتھ معراج کو تسلیم کرنا صرف ایمان کے ساتھ ہی ممکن ہے- چنانچہ یہ واضح ہے کہ واقعہ معراج ظاہری جسم کے ساتھ اور حالتِ بیداری میں ہوا اور اس دوران حضور(ﷺ)نے اللہ تعالیٰ کا دیدار اپنی چشمِ ظاہر سے فرمایا اور اللہ تعالیٰ سے براہِ راست کلام بھی فرمایا-
امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حضور(ﷺ) نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا تو آپ نے فرمایا ہاں میں کہتا ہوں حضور(ﷺ) نے اللہ کو دیکھا ہے اور یہ اتنی دفعہ دُہرا کر فرمایا کہ آپ کی سانس پھول گئی-
علماء بیان فرماتے ہیں کہ مسجدِ اقصٰی کے گرد و نواح میں بہت سی قبورِ انبیاء و قبورِ صالحین موجود ہیں جس سبب اس جگہ کو برکت عطا ہوئی- چنانچہ آئمہ و محدثین فرماتے ہیں کہ ایسے مقامات کی طرف سفرکرنا جہاں انبیاء و صالحین کی قبور ہوں، برکت کا باعث ہوتا ہے اور شبِ معراج کی نسبت سے یہ حضور(ﷺ)کی سنت مبارکہ بھی ہے-اصلاحی جماعت کی بھی یہی دعوت ہے کہ اولیاء اللہ کی صحبت و نیک اعمال اختیار کریں تاکہ محبتِ الہٰی و محبتِ رسول(ﷺ) نصیب ہو-
سیالکوٹ: 27-01-2025 ہاکی اسٹیڈیم گراؤنڈ
صدارت وخطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
رسول اللہ(ﷺ) کے معجزات میں معراج النبی(ﷺ) ایک عظیم اور بے مثال معجزہ ہے-سفرِ معراج کی ابتداء کے متعلق حضور اکرم(ﷺ) کا ارشاد گرامی ہے:
’’میرے پاس ایک آنے والا (یعنی جبرائیلؑ) آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا- سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا اور میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا- پھر میرے دل کو دھویا گیا وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا- اس قلب کو سینہ میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا‘‘-[29]
صوفیائے کرام بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ سے متلاشیانِ حق کیلئے سبق ہے کہ سب سے پہلے اپنے سینے کو منور کرنا چاہئے اور دل کو صاف کرنا چاہئے-سینے کی روشنی اصل روشنی ہے جس سے راہِ حق کا سفر طے ہوتا ہے- علامہ اقبال فرماتے ہیں:
سِینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات |
|
ہو نہ روشن، تو سخن مرگِ دوام اے ساقی |
ارشادِ ربّانی ہے:’’ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘[30]
’’تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘-
موجودہ دنیا نے محض مادیت پرستی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے جبکہ روحانیت اور قلب و باطن کی پاکیزگی کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے-
آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا جس رات مجھے معراج ہوئی میں موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس سرخ ٹیلے کے پاس آیا اور وہ کھڑے اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے-[31]
’’مسند ابی یعلیٰ الموصلی‘‘ کی روایت ہے کہ انبیاء کرام (علیھم السلام)اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں-
علماء کرام اس حدیث سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ وہ بابرکت مقامات جنہیں انبیاء اور اولیاء سے نسبت ہوجاتی ہے ان مقام کی زیارت کو جانا اور وہاں نماز ادا کرنا شرف کی بات ہے اور یہ سفرِ معراج النبی(ﷺ) کا حصہ ہے-محبتِ رسول(ﷺ)، باطنی معراج اور قلب کی پاکیزگی کے حصول کے لیے سلطان العارفین حضرت سلطان باھو ؒنے اسم اللہ ذات کا ذکر تجویز کیا ہے-
گوجرانوالہ: 28-01-2025 منی اسٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
جو چیزیں ایک دوسرے کے ٹکراؤ میں ہیں، ان میں سے چند کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے جیسے سورہ الرعد(16) کے مطابق دیکھنے والا اور اندھا برابر نہیں-سورہ المائدہ (100) کے مطابق ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے- سورہ الزمر (9) میں جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں- سورہ الحشر(20) کے مطابق جنتی اور جہنمی برابر نہیں-جبکہ سورہ مریم (17) میں ارشاد ہے:
’’ ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبرائیل) کو بھیجا سو (جبرائیل) ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا‘‘-
پس، ازروئے قرآن نوری وجود(جبرائیلؑ) کا بشری صورت میں آنا ثابت ہے اور نور کا بشریت میں جمع ہونا ٹکراؤ نہیں ہے - چنانچہ نورِ مصطفوی(ﷺ)کا بشری صورت میں ظاہر ہونا کسی طرح مختلف نہیں بلکہ ایسا ممکن ہونا جبرائیلؑ کی مثال سے ازروئے قرآن ثابت ہے-
’’ سنن نسائی‘‘میں حدیث ہے کہ جب حضور نبی کریم(ﷺ)بیت المقدس پہنچے تو وہاں حضور نبی کریم(ﷺ) نے انبیاء کی نماز کی امامت فرمائی-جب آسمانِ دنیا پہ حضور نبی کریم(ﷺ) داخل ہوئے وہاں حضرت آدمؑ موجود تھے-دوسرے آسمان پہ آپ(ﷺ)نے حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو دیکھا- تیسرے آسمان پہ حضرت یوسفؑ موجود تھے-چوتھے آسمان پہ حضرت ادریسؑ، پانچویں پہ حضرت ہارونؑ اور چھٹے پہ حضرت موسیٰؑ نے آپ(ﷺ)کا استقبال کیا اور ساتویں آسمان پہ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) نے استقبال کیا-یعنی مسجدِ اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے بعد انبیاء اپنے اپنے متعین آسمانوں پہ تشریف لے گئے-اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی ارواح کو قدرت عطا فرمائی ہے کہ وہ جس مقام پہ چاہیں جا سکتی ہیں اور احوال کا مشاہدہ کر سکتی ہیں ، اور یہ بھی کہ آقا کریم (ﷺ) دنیائے برزخ میں احوالِ امت کی خبر رکھتے ہیں اور جہاں چاہیں بغیر تاخیر کے جلوہ فرما ہو سکتے ہیں -
’’ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی‘‘[32] ’’ اس پیارے چمکتے تارے محمّد کی قسم جب یہ معراج سے اترے ‘‘-
امام قرطبی اور امام قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے امام جعفر الصادقؒ کا قول نقل کیا ہےکہ النجم سے مراد حضور اکرم(ﷺ) کی قسم ہے، اس حالت میں کہ جب وہ قربِ الٰہی میں تشریف لے جا کر بھی اپنے فریضہ رسالت کو ادا کرنے کیلئے واپس زمین کی جانب جانے کا ارادہ فرماتے ہیں-عارفین فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (ﷺ) نے اُس ذات کی حقیقت کا مشاہدہ فرما کر بھی اپنے فریضہ رسالت کو ترک نہیں فرمایا اور واپسی فرمائی - چنانچہ ہمیں بھی اپنے ذِمّہ فرائض کو کسی صورت ترک نہیں کرنا چاہئے - صوفیاء فرماتے ہیں کہ عروج و معراج کیلئے سفر کی ابتدا سینے کی صفائی ہے جس کیلئے حضرت سلطان باھُو اللہ کے نام کا ذکر بیان فرماتے ہیں -
قصور: 29-01-2025 سپورٹس گراؤنڈ اسلامیہ ڈگری کالج
صدارت و خطاب : مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
حدیثِ نبوی(ﷺ)ہے: اعمال کا دارومدار نیت پہ ہوتا ہے-
امام جامی فرماتے ہیں کہ اگر انسان کے ارادے اور خیال میں پھول (یعنی حسن)یا بلبل(مضطرب عاشق) ہو تو وہ سفر کے اختتام پہ سراپا جمال یا مضطرب عاشق بن جاتا ہے-
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ انسان کے افعال ارادے اور خیال کے سبب ہیں-چنانچہ انسان کو اپنے خیال اور ارادے کی حفاظت کرنی چاہئے اور ہر وقت اللہ کے انوار کو طلب کرنا چاہئے- مزید فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کی جنگ اور صلح مادی خواہشات و خیالات کے تابع ہوتے ہیں لیکن اولیاء اللہ کے خیالات اللہ کی وحدت اور انوار و تجلیات کی جستجو میں رہتے ہیں- حدیثِ قدسی میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے :’’جو مجھے طلب کرتا ہے وہ مجھے پا لیتا ہے‘‘-
علامہ اقبال نے اپنی نظم میں پیرِ و مرید میں رومی سے سوال کیا ہے:
اے شریکِ مستیِ خاصانِ بدر |
|
میں نہیں سمجھا حدیثِ جبر و قدر! |
پیرِ رومی جواب دیتے ہیں
بال بازاں را سوئے سُلطاں برد |
|
بال زاغاں را بگورستاں برد |
یعنی کوا، اپنے بال و پر سے قبرستان جا کر ہڈیاں کھاتا ہے جبکہ شاہین اپنے بال و پر سے بادشاہ کے بازو پہ جا بیٹھتا ہیں- چنانچہ اگر قوتِ ارادہ شاہین کی مانند ہو تو بادشاہ کے بازو تک بھی پہنچا جا سکتا ہے-
صوفیاء فرماتے ہیں کہ انسان کی نیت کا ٹھکانہ سینے میں موجود دل ہے اور نیت کی پاکی کیلئے باطن کی پاکیزگی ضروری ہے جس کیلئے اللہ کا ذکر ہے- ماہرینِ نفسیات بتاتے ہیں کہ گمراہی اور بے راہ روی کا شکار ہونے کا بڑا سبب غلط اور بُرے مناظر دیکھنا ہے جس سے وجود میں فساد جنم لیتا ہے- چنانچہ انسان کو اپنی توجہ پاک اشیاء کی جانب رکھنی چاہئے جو انسان پہ اللہ کا رنگ غالب کر دیں- حضرت سلطان باھُو اس مقصد کیلئے اسم اللہ ذات کے ذکر اور تصور کی تعلیم دیتے ہیں تاکہ انسان کی بینائی اور خیال بھی اللہ کے نام کی جانب متوجہ ہوں اور سانس بھی اللہ کے ذکر میں لگ جائیں-
کراچی: 01-02-2025 ریلوے گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب
خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
پاک کی نسبت بھی پاک کر دیتی ہے-قدمِ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کے لمس سے پتھر باعثِ برکت بنتا ہے- لمسِ داؤد(علیہ السلام) سے لوہا موم کی طرح ٹپکنے لگتا ہے- لمسِ یوسف(علیہ السلام) کی برکت والے کُرتے سے حضرت یعقوب(علیہ السلام) کی بینائی واپس آ جاتی ہے- اسی طرح سبز گنبد کی جالی امام الانبیاء حضور نبی کریم(ﷺ) سے منسوب ہونے سے باعث برکت بن جاتی ہے-
لمسِ موسیٰ(علیہ السلام) کے باعث عصا کو برکت عطا ہوئی جس نے تین کام سرانجام دیئے: فرعون کی فریب کاریوں کو نگل گیا[33]، پتھر پہ مارنے سے پانی کے بارہ چشمے پھوٹ پڑے[34]، دریا بارہ ٹکڑوں میں بٹ گیا- [35]
لمسِ عیسیٰ(علیہ السلام) کے سبب مٹی سے بنی مورت پرندے کی مانند اڑنے لگتی، مادر ذات اندھا بینا ہو جاتا، برص کے مریضوں کو شفا عطا ہوتی، مردے زندہ ہو جاتے-[36]
انسان کو جب ابلیس کے سوا سب فرشتوں نے سجدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ اے ابلیس! تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنے دستِ (کرم) سے بنایا ہے‘‘-[37]
یعنی انسان کا امتیاز یہ بیان فرمایا کہ اسے قدرتِ خداوندی کے ہاتھوں کا لمس نصیب ہے-انبیاء کے لمس سے چیزوں کو شان عطا ہوتی ہے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ قدرتِ خداوندی کے ہاتھوں سے نسبت پانے والے انسان کی فضیلت اور شرف کس قدر بلند ہے-
حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کے پاس حضور نبی کریم (ﷺ) کا ایک عالیشان جبہ تھا جو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے وصال کے وقت آپ کو دیا - لوگ پانی کے پیالے لے کر حضرت اسماء (رضی اللہ عنہا)کے پاس آتے کہ اس میں حضور نبی اکرم(ﷺ) کے جبہ مبارک کا پلو بھگو دیں جو گھر میں بیمار شخص کو پلایا جائے تاکہ اسے شفا نصیب ہو- [38]
ایک مرتبہ حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) کے والد نے حضور نبی اکرم(ﷺ)سے ان کیلئے دعائے خیر فرمانے کی عرض کی- آپ (ﷺ) نے حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور فرمایا اللہ تمہیں برکت دے - اس کے بعد ان کی خدمت میں کوئی ورم آلود چہرے والے انسان آ جاتا یا ورم زدہ تھنوں والا جانور آ جاتا تو حضرت حنظلہ(رضی اللہ عنہ) حضور نبی اکرم(ﷺ) کی دعا کے صدقے سے اپنا لعاب اس انسان کے چہرے پہ ملتے یا جانور کے تھنوں پہ ملتے اور وہ ورم دور ہو جاتا-[39]
چنانچہ اولیائے کرام کے لمس اور دعا سے ملنے والی شفا کا عقیدہ دراصل اصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے عقیدہ کا ہی تسلسل ہے- اصلاحی جماعت کی دعوت ہے کہ اولیائے کاملین کی تعلیمات سے اپنے ظاہر و باطن کو پاک کیا جائے-
٭٭٭
[1](آلِ عمران:164)
[2](یونس:58)
[3](المعجم الكبير، رقم الحدیث: 4168)
[4](المورد الروی في مولد النبي (ﷺ) و نسبه الطاهر)
[5](الاحزاب:56)
[6](ابراہیم:5)
[7](مریم: 96)
[8](معجم الکبیر/ مجمع الزوائد)
[9]( سیرت ابنِ ہشام)
[10](مسند احمدبن حنبل)
[11](اربعین نووی)
[12](البقرہ: 207)
[13](المائدہ: 119)
[14](الشوری: 23)
[15](التوبہ: 119)
[16](مسند احمد بن حنبل)
[17](التوبہ:100)
[18](معجم الکبیرللطبرانی)
[19](مشکوٰۃ المصابیح)
[20](سُنن الترمذى، ابواب المناقب)
[21](المائدہ:56)
[22](سنن ترمذی، باب مناقب علی بن ابی طالب (ؓ)
[23](معجم الصغیر للطبرانی)
[24](البینہ:7)
[25](الرعد: 7)
[26](تفسیرکبیر/ فتح القدیر)
[27](معرفۃ الصحابہ/ تاریخ دمشق)
[28](الاسراء:1)
[29](صحيح البخاري، كِتَابُ احادیث الانبیاء)
[30](الحج:46)
[31](صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
[32](النجم:1)
[33](الاعراف:117)
[34](البقرہ: 60)
[35](الشعراء:63)
[36](آل عمران: 49)
[37](سورہ ص: 75)
[38](صحیح مسلم / مسند احمد)
[39](مسند احمد / تفسیر طبرانی)