یہ مسائل تصوف (قسط دوم)

یہ مسائل تصوف (قسط دوم)

لسورہ بنی اسرائیل کی اس آیت مبارکہ کے تحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے سرشار ایسے بندے ہیں جن کی مطہر روحوں پہ شیطان کا مقدور نہیں ہے اور نہ ہی شیطان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اُن ارواحِ جلیلہ کو اپنے شیطانی راستے کی جانب گمراہ کر سکے-جس طرح سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب (﷜)کے متعلق حدیث پاک میں ہے کہ :

’’حضرت عمر (﷜) کو دیکھ کر شیطان اپنا راستہ ترک کر دیتا تھا‘‘- [1]

عمر کو دیکھ کر شیطان خود رستہ بدل لیتا
وہ پایا حق سے رُعب و دبدبہ فاروقِ اعظم نے

کیونکہ آپ  (﷜) خود بھی ایک صاحب ارشاد و تلقین مرشد تھے اور کائنات کے مرشد اعظم سید الانبیاء حضور (ﷺ )کی قربت و رفاقت میں آپ (﷜) نے مراحلِ رُوحانیّت طے فرمائے تھے- جو لوگ ایسی پاکباز ہستیوں سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں وہ بھی اِس صلاحیت کے حامل ہو جاتے ہیں کہ شیطان کی شیطانیت اور نفس کی نفسانیت سے خود کو محفوظ کر سکیں-کیونکہ یہ اِرشادِ خداوندی ہے کہ شیطان اُس کے خاص بندوں پہ اپنا شیطانی فریب اور پھندا ڈالنے سے قاصر رہےگا،اِس لئے اَسلاف نے صحبت و قربتِ ابرار و مقربین کی تلقین فرمائی ہے کہ اِس سے انسان خود کو شیطان کے فریب سے بچا لیتا ہے- جو بیعتِ طریقت ہے اُس کا بھی یہی تصور ہے کہ راہِ حق کا طالب جسے اصطلاحِ تصوف میں ’’سالک‘‘ کہتے ہیں ایک شیخِ کامل سے ایک شاگرد کے طور پہ سیکھنے کا عزم و ارادہ کرتا ہے اور باضابطہ اُن کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو جاتا ہے تاکہ راہِ ہدایت و راہِ استقامت پہ قائم رَہ سکے-  ’’صحیح مسلم ، کتاب الامارت‘‘ میں اور اس حوالہ سے متعدد کتب حدیث میں آقا(ﷺ) کا یہ فرمان مبارک موجود ہے کہ:

’’وَ مَنْ مَاتَ وَ لَیْسَ فیْ عُنُقِہِ بَیْعَۃٌ،مَاتَ مَیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً‘‘[2]

’’جو شخص مرا اور اس کی گردن میں بیعت کا پٹہ نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘-

اس بیعت سے مراد بیعت جہاد بھی ہے، بیعت امارت بھی ہے،بیعت خلافت بھی ہے اور وہ بیعت بھی ہے جو  آقا (ﷺ) ظاہر اور باطن پر اپنے صحابہ کرام (﷢)اور صحابیات(رضی اللہ عنھن) سے لیا کرتے تھے جس بیعت کا تذکرہ کئی مقامات پر قرآن مجید میں موجود ہے جسے تفصیل سے دو چار مقامات پر ناچیز عرض کر چکا  ہے اور آپ وقتاً فوقتاً علمائے کرام سے سُنتے بھی رہتے ہیں -

اس سلسلہ نبوت کے اختتام پذیر ہونے کے بعد بیعت طریقت، روحانیت اور بیعت اعمالِ صالح بھی ہے کہ آدمی خبائث سے اجتناب اور نیکیوں کی جانب جانے پر بیعت کرے ، صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے تائب ہونے اور آئندہ ان گناہوں سے مکمل اجتناب کے عہد پہ بیعت کرے ، اوامر و نواہی کی پاسداری پہ بیعت کرے -  ایسی بیعت کسی ایسے شیخِ کامل سے کی جاتی ہے جو خود بھی سُنّتِ مصطفےٰ (ﷺ) کو تھامے ہوئے ہو اور اُس کا طریق ظاہر و باطن میں عین اُس طریق پہ قائم ہو جس کی صداقت کی گواہی اُسوۂ رسول (ﷺ) سے ملتی ہو ، ایسی بیعت انسان کے باطن کو اُجاگر کرتی ہے اور سالک راہِ سلوک پہ پختہ و کاربند ہو جاتا ہے جس سے اُس کے ضمیر کی کائنات سے اُس کا ظاہر ہم آہنگ ہونا شروع ہوجاتا ہے جس سے ظاہر و باطن کی دو رنگی ختم ہوتی ہے اور اِنسان اپنے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں یکسو ہو جاتا ہے اور اس کا تضاد جاتا رہتا ہے ، جیّد و قابلِ اعتبار شیوخ کے مطابق یہی وہ راہ ہے جس سے انسان کے ظاہر و باطن کا تضاد مٹتا ہے اور روحانی منازل میں سالک ترقی و عروج طے کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ منزلِ مقصود کو پا لیتا ہے -

امام فخر الدین محمد بن عمر بن الحسن الحسین ابن علی التمیمی الرازی الشافعی (المتوفی: ۶۰۶ھ) اپنی تفسیر’’مفاتیح الغیب المعروف بہ تفسیر کبیر‘‘میں سورۃ فاتح کی تفسیر بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں :

’’قَالَ بَعْضُھُمْ: اَنَّہٗ لَمَّا قَالَ(اھدنا الصراط المستقیم)، بَلْ قَالَ:(صراط الذین انعمت علیھم) وَ ھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ الْمُرِیْدَ لَا سَبِیْلَ لَہٗ اِلَی الْوُصُوْلَ اِلٰی مَقَامَاتِ الْھَدَایَۃِ  وَالْمُکَاشِفَۃِ اِلَّا ِاذَا اِقْتَدٰی بِشَیْخٍ یَّھْدِیْہِ اِلٰی سَوَاءِ السَّبِیْلِ وَ یَجُنُّبِہٖ  عَنْ مَوَاقِعِ الْاَغَالِیْطِ وَ الْاَضَالِیْلِ-وَ ذٰلِکَ لِاَنَّ النُّقْصَ غَالِبٌ عَلٰی اَکْثَرِ الْخَلْقِ، وَعُقُوْلُھُمْ غَیْرُ وَافِیَۃٍ فَلَا بُدَّ مِنْ کَاِملٍ یُقْتَدٰی بِہٖ النَّاقِصُ حَتّٰی یَتَقَوّٰی عَقْلُ ذٰلِکِ النَّاقِصِ بِنُوْرِ عَقْلِ ذٰلِکَ الْکَامِلِ، فَحِیْنَئِدٍ یَصِلُ اِلَی مَدَارِجِ السَّعَادَاتِ وَ مَعَارِجِ الْکَمَالَاتِ‘‘[3]

’’بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے (اھدنا الصراط المستقیم) فرمایا تو اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید فرمایا(صراط الذین انعمت علیھم)(یعنی انعام یافتہ لوگوں کا راستہ)اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرید کے لئے ہدایت اور مکاشفہ کے مقاما ت تک پہنچنے کا شیخ کامل کی اقتداء کے سوا کوئی راستہ نہیں جو اس کی صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی کرے اوراسے غلط مواقع اور گمراہی سے بچائے-  اس کی وجہ  یہ ہے کہ اکثر مخلوق پر نقص غالب ہے اور ان کی عقول ادراکِ حق اور خطاء و صحیح کے درمیان تمیز نہیں کر سکتیں اس لئے ایسے شیخ کامل کا ہونا ضروری ہے جس کی ناقص شخص اتباع کرے-یہاں تک کہ اس کی ناقص عقل شیخ کامل سے حاصل کردہ نور سے قوی و پختہ ہو جائے اور اس طرح وہ بھی مراتب سعادات اور کمالات کی بلندیوں پر فائز ہوجائے‘‘-

اُمّتِ اِسلامی کے جمیع مکاتبِ فکر میں حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی کا احترام و اعتبار کیا جاتا ہے اورآپ کی تاویلات و توجیہات کو ایک مستند مآخذ مانا جاتا ہے اِس لئے تبرکاً آپ کی یہ عبارت پیش کی ہے تاکہ قرآن کریم کا یہ اہم نکتہ ہمارے دل و دماغ پہ واضح ہو جائے اور روشن ہو جائے -  اب اِس درج بالا عبارتِ رازی کے مختلف حصوں کی تفہیم عرض کرنا چاہوں گا تاکہ مدعا و مقصد پوری طرح ذہن نشین ہو جائے - امام ٖفخر الدین رازی (﷫) فرماتے ہیں کہ ہر انسان ہر نمازمیں اسی بات کا بتکرار اعادہ کرتا ہےکہ:

’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘

’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘

’’ لَمْ یَقْتَصِرِ عَلَیْہِ‘‘

’’اسی پر اکتفا  نہیں کیا گیا‘‘

یعنی یہ کَہ دینا کہ یا اللہ مجھے صراط مستقیم پر چلا، تو کیا اتنا کَہ دینا کافی نہیں تھا؟ یقیناً تھا ! تو پھر اِسی پہ اکتفا کیوں نہیں کیا ؟

بَلْ قَالَ:’’صراط الذین انعمت علیھم‘‘

بلکہ فرمایا! ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے اپنا انعام فرمایا ہے‘‘-

’’وَ ھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ الْمُرِیْدَ لَا سَبِیْلَ لَہٗ اِلَی الْوُصُوْلَ اِلٰی مَقَامَاتِ الْھَدَایَۃِ  وَ الْمُکَاشِفَۃِ‘‘

’’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرید کے لئے ہدایت اور مکاشفہ کے مقامات تک پہنچنے کاکوئی اور راستہ نہیں ہے‘‘

’’اِلَّا ِاذَا اِقْتَدٰی بِشَیْخٍ‘‘

’’سوائے اپنے مرشد کامل کی اقتداء کے‘‘-

اس لیے کہ مرشد کامل نہ صرف انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر ہوتا ہے بلکہ خود بھی اُسی گروہ میں شامل ہوتا ہے-  و ہ اپنی بارگاہ میں بیٹھنے اور اپنی راہ پر چلنے والوں کو اسی انعام یافتہ لوگوں کے راستے  پر گامزن کرتا ہے - ہر صاحبِ سوغات اپنے پاس آنے والے کو اپنی خاص سوغات سے مالا مال کرتا ہے جس طرح عطار خوشبو دیتا ہے ، گوالا دودھ فراہم کرتا ہے ، صراف زیور دیتا ہے ، بالکل اِسی طرح شیخِ کامل کے پاس خاص سوغات ہوتی ہی اُس راہِ ہدایت کی ہے جس پہ عمل پیرا ہو کر ایک انسان اپنے خالق کی بارگاہ تک پہنچتا ہے تاکہ اُس کی رضا اور خوشنودی کو پا سکے -  خالقِ اکبر کی رضا و محبت و قرب کا یہ راستہ صراطِ مستقیم کہلاتا ہے  -

’’یَّھْدِیْہِ اِلٰی سَوَاءِ السَّبِیْلِ‘‘ 

’’وہ صراط مستقیم کی طرف ان کی راہنمائی فرماتاہے‘‘-

ایسے برگزیدہ لوگوں کے راستہ پہ چلنے کی دُعا خود اللہ جل شانہٗ نے قرآن پاک میں سکھائی ہے اور یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ صراطِ مستقیم پہ چلنے کیلئے ایسے لوگوں کا راستہ اختیار کرو ، اس لئے کہ صراطِ مستقیم ایک مسلسل راستہ ہے جو ابتداء سے انتہاء اور آغاز سے لے کر اختتام تک مشکلات سے بھر پور ہے اور  انعام یافتہ لوگ بذریعہ استقامت اس راہ کو طے کر چکے ہوتے ہیں -اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جا بجا یہی فلسفہ سمجھایا ہے  کہ مَیں صراط مستقیم پر چلنے والوں کو دو طرح سے آزماتا ہوں،مثلاً آسائش،راحت،آسانیاں دے کر اورانعام کر کے ،اس کے برعکس تکلیف، تنگی،دکھ، رنج و الم،آنسو،اندوہ ،زخم اورمشکلات دے کر-کیونکہ جب مَیں اپنے بندے کو اپنی نعمتیں عطا کرتا ہوں تو  دیکھتا ہوں کہ کیا یہ میرا شکر ادا کرتا ہے کہ نہیں ؟ اور جب مَیں اپنے  بندے کو تکلیف، رنج اور دکھ دیتا ہوں تو مَیں اپنے بندے کو اس بات پر آزمانا چاہتا ہوں کہ کیا یہ اس تنگی پر صبر کرتا ہے کہ نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے بارے میں  فرما دیا کہ جو شکر اور صبر کرتے ہیں تو وہ میری بارگاہ میں درجۂ محبوبیت رکھتےہیں-

محبوبیت کے اِس رُتبے کو پانے کیلئے راہنمائی کی لازمی ضرورت پیش آتی ہے ،  انسان نے کس مرحلے پر صبرکرنا ہےاس کی تھیوری اور روایات تو آپ کو کتب میں مل جائیں گی لیکن کس مقام پر صبر انتہاء کا تقاضاء کرتا ہے یہ کیفیت تمہیں کوئی مرشد کامل ہی بتا سکتا ہے-

پھر اس سے آگے امام رازی (﷫)فرماتے ہیں کہ مرشد کامل کی یہ ذمہ داری ہے کہ:

’’وَ یَجُنُّبِہٖ عَنْ مَوَاقِعِ الْاَغَالِیْطِ وَ الْاَضَالِیْلِ‘‘

’’کہ وہ اپنے سالک کو گمراہی اور بھٹکنے کے راستے سے بچائے‘‘

جس طرح والدین بچے کو کنویں ، آگ ، تیز دھار اشیاء ، موذی جانوروں اور مضر و جان لیوا چیزوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اُستاد بچے کو درسگاہ (اسکول وغیرہ) میں معاشرتی و سماجی طور پہ غلط راستوں سے روکتا ہے ، ناکامی اور فیلیئر کے راستے سے روکتا ہے اِسی طرح مُرشدِ کامل سالک کو باطن میں بھٹکا دینے والے راستوں سے روک کے رکھتا ہے اور مسلسل راہنمائی کے ذریعے اُس کے جان و تن کو حق و حقیقت کی جانب راغب و مائل کئے رکھتا ہے -  جس طرح بچہ اپنی ذہنی نا پختگی کی وجہ سے آگ ، تیز دھار آلوں وغیرہ سے اپنا نقصان کر سکتا ہے اور طالبِ علم امتحان میں ناکامی یا منشیات کی طرف جا سکتا ہے اِسی طرح ایک سالک مُرشدِ کامل کی راہنمائی کے بغیر اپنی ذہنی نا پختگی اور اپنے دیگر نقائصِ بشری کی وجہ سے گمراہ ہو سکتا ہے -  جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے فرمایا ہے کہ :

’’وَ ذٰلِکَ لِاَنَّ النُّقْصَ غَالِبٌ عَلٰی اَکْثَرِ الْخَلْقِ‘‘

’’اور  اس کی وجہ  یہ ہے کہ اکثر مخلوق پر نقص غالب ہے‘‘

چونکہ مرشد کامل کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ خاص سے گناہوں ،معصیت اور خبائث سے محفوظ فرما دیتا ہے ، اُس کے وجُودِ مسعود سے اِن رذائل کا احتمال و امکان کم سے کم تر ہو جاتا ہے اور ذکرِ الٰہی و خشیّتِ الٰہی کی برکات سے انوار و تجلیّات کا بکثرت اُس پہ نزول ہوتا رہتا ہے   لہٰذا اُس کے وجود میں یہ صلاحیت و اہلیت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس چیز سے محفوظ کیا وہ اپنے سینے کی روحانیت اور اپنے سینے کی برکت سے لگ جانے والے سالک کو بھی گناہ اور معصیت سے محفوظ کر لے-

ہر فن کسی صاحبِ فن کی صُحبت اور تلمّذ سے ہی رُتبۂ کمال کو پہنچتا ہے چاہے صورت گری کا فن ہو یا صوت گری کا فن ، چاہے علم ہو یا دستکاری ہو یا چاہے حرب و ضرب کا ہنر ہو یہ سب کسی ماہرِ فنّ اُستاد سے ہی جِلا پاتے ہیں- حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ ایک مقام پہ فرماتے ہیں کہ صُحبت کی تاثیر ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک خام مٹی جب کچھ وقت ایک پھول کے ساتھ بسر کر لے تو اُس پھول کی خوشبو اُس مٹی سے آنے لگ جاتی ہے-

گِلے خوشبوئے در حمّام روزے
بدو گفتم کہ ’’مشکی یا عبیری؟
بگفتا! من گِلے نا چیز بودم
جمالِ ہمنشیں در من اثر کرد

 

رسید از دستِ محبوبی بہ دستم
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم‘‘
ولیکن مدتے باگُل نشستم
وگرنہ من ھُماں خاکم کہ ھستم

’’شیخ سعدی (﷫)فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک حمام میں سے ایک محبوب کے ہاتھوں سے اُتری ہوئی کچھ مٹی مجھ تک پہنچی تو وہ بہت ہی خوشبو دارتھی- مَیں نے اُس مٹی سے سوال کیا کہ تم مُشک ہو یا عنبر ہو؟ کیونکہ تمہارے اندر موجود دلکش خوشبو نے مجھے مست کر دیا ہے- فرماتے ہیں کہ وہ مٹی بولی اور اُس نے کہا کہ میں تو ایک ناچیز سی مٹی تھی لیکن ایک مُدّت تک ایک پھُول کی صحبت و سنگت میں رہی ہوں- میرے ہمنشین کے جمال نے مجھ پر اپنا اثر فرمایا جو مجھ میں یہ خوشبو پیدا ہو گئی وگرنہ مَیں تو وہی مٹی ہی ہوں جو پہلے تھی‘‘-

یہ علم و حکمت کے موتی ہر نا اہل کے ہاتھ نہیں آتے اِن کو سمیٹنے کیلئے اپنے دامنِ عقل کو پاک اور سُتھرا کرنا پڑتا ہے کیونکہ (گوشِ نا محرم نباشد جائے پیغامِ سروش)- مٹی گو کہ اپنی اصل طبیعت میں خوشبودار نہ تھی مگر محبوب کے پھولوں جیسے خوشبودار وجود کے لَمس نے مٹی میں بھی خوشبو کی تاثیر پیدا کر دی- ( صراط الذین انعمت علیھم) کی تشریح کرتے ہوئے  یہی بات  امام رازی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ :

’’وَ عُقُوْلُھُمْ غَیْرُ وَافِیَۃٍ فَلَا بُدَّ مِنْ کَاِملٍ یُقْتَدٰی بِہٖ النَّاقِصُ حَتّٰی یَتَقَوّٰی عَقْلُ ذٰلِکِ النَّاقِصِ بِنُوْرِ عَقْلِ ذٰلِکَ الْکَامِلِ، فَحِیْنَئِدٍ یَصِلُ اِلَی مَدَارِجِ السَّعَادَاتِ وَ مَعَارِجِ الْکَمَالَاتِ‘‘-

’’ اور(عام ) لوگوں کی عقل کافی نہیں ہوتی پس ایک ناقص پر لازم ہے کہ وہ ایک کامل کی اتباع کرے تا کہ اس کی ناقص عقل   اس کامل کی عقل سے قوت حاصل کرے اوروہ سعادات اور کمالات کی بلندیوں کو پہنچ جائے‘‘-

ابتداً ، اِنسان کی عقل اپنے نقائص کے سبب حق و باطل ، خیر و شر اور نیکی و  گناہ کے درمیان تمیز نہیں کر سکتی اس لیے ایسے شیخ کامل کا ہونا ضروری ہے کہ ناقص شخص جس کی اتباع کر کےدرجۂ  کمال کو حاصل کر لےاور حضرتِ سعدی کے الفاظ میں ’’ہمنشین کا جمال اپنی صحبت کی تاثیر سے  اُس مٹی میں مُشک و عنبر کے خواص پیدا فرما دے ‘‘  -  بعض شیُوخ نے اِسے طبیب و مریض کی مثال سے بھی واضح کیا ہے کہ مریض کیلئے لازم ہے کہ قابل طبیب سے علاج معالجہ کروائے ،  تشخیص کروائے ، نسخہ تجویز کروائے اور طبیبِ کامل کی ہدایات پہ مکمل عمل کرے تاکہ اُسے شفا نصیب ہو - جس طرح کہ شیخ الاسلام  و المسلمین حضرت امام احمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی المکی المصری الشافعی ’’فتاویٰ حدیثیہ‘‘ میں  فرماتے ہیں کہ:

’’اَنَّ الْاَوْلٰی بِالسَّالِکِ قَبْلَ الْوَصُوْلِ اِلَی ھٰذَہِ الْمَعَارِفِ اَنْ یَّکُوْنَ مُدِیْمًا لَمَا یَاْمُرُہٗ بِہٖ اسْتَاذُہٗ، اَلْجَامِعُ لِطَرَفِیْ الشَّرِیْعَۃِ  وَ الْحَقِیْقَۃِ فَاِنَّہٗ ھُوَ الطَّبِیْبُ الْاَعْظَمُ، فَبِمُقْتَضٰی مَعَارِفَہُ الذَّوْقِیَّۃِ وَ حِکْمِہِ الرَّبَانِیَّۃِ یُعْطِیْ کُلَّ بَدَنٍ وَّ نَفْسٍ مَا یَرَاہُ ھُوَ اللَّائِقُ بِشِفَائِھَا وَ الْمُصْلِحُ لِغَذَائِھَا-[4]

’’سالک (اللہ کی طلب رکھنے والا)کے لئے بہتر ہے وہ ان معارف کو حاصل کرنے سے قبل ان امور پر کار بند رہے جن کا حکم اس کے شیخ نے اسے دیا ہے اور جو شریعت اور طریقت کا جامع ہے کیونکہ حقیقت میں اس کا شیخ طبیب اعظم ہے، وہ ہر ایک کو اس کے مزاج اور رب کے حکم سے اس کےبدن کی بیماری کے مطابق وہی دوا اور غذا تجویز کرتا ہےجو اس کے لئے فائدہ مند ہو‘‘-

حضرت شیخ الاسلام ابنِ حجر الہیتمی (﷫)پہلے اِس سوال کو ایڈریس فرماتے ہیں کہ  شیخ کون ہوتا ہے ؟ آپ کے فرمان کے مطابق ’’شیخ شریعت اور طریقت دونوں کا مظہر ہوتا ہے‘‘- پھر فرماتے ہیں  مرشد کامل کو  اللہ تعالیٰ طبیب الاعظم کا درجہ عطا فرماتا ہے- اِس سے مُراد یہ ہوگا کہ طبیب الاعظم ایسے شیخ کو کہیں گے جو شریعت و طریقت کا جامع ہو کہ اگر کسی سالک کو ظاہری گناہوں کا برص لاحق ہو جائے وہ اُن کے علاج کی بھی اہلیت رکھتا ہو اور اگر اس کے برعکس کسی سالک کو باطن میں لغزشوں کا سرطان چڑھ جائے تو وہ اُس کا علاج بھی کر سکے-  پس جس بدن کو بتقاضائے ظاہری اور باطنی جتنی خوراک چاہیے  مرشد کامل ہر ہر زینہ پر  اس کی دوا اور غذاکی کے ساتھ ساتھ احتیاط کی راہنمائی کرتا ہے تاکہ طالبِ مولیٰ کسی بھی مقام پر شیطان کے چنگل میں آ کر گمراہ نہ ہو  اور بھٹک نہ جائے-  اس لئے مرشد کامل اور اکمل کا ہونا ضروری ہے جو ہر مقام پر بندے کی رہنمائی فرماتا چلا جاتا ہے -

اگر آپ سورۃ ’’النمل‘‘ میں دیکھیں کہ جب ’’ہُد ہُد‘‘حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہتا ہے کہ یا سیّدی ! مَیں ایسی قوم کو دیکھ کر آیا ہوں جن کی بد اعمالیوں اور گناہوں کو شیطان نے مزیّن یعنی خوشنما و دلفریب بنا کران کے سامنے پیش کیا ہےکہ وہ لوگ گناہوں کو گناہ نہیں سمجھتے (وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ أَعْمٰلَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَا یَھْتَدُونَ) - اس لئے حضرت سلیمان علیہ السلام اپنا ہدایت نامہ ان کی طرف جاری فرماتے ہیں اور انہیں اللہ کا دین قبول کرنے کی دعوت ارشاد فرماتے ہیں - اِس سورۃ میں ہدایت عطا کرنے کایہ فلسفہ بیان ہوا ہے کہ ایک انسان نہیں جانتا کہ شیطان  نے میرا کونسا عمل یا میرا کونسا گناہ مزیّن کر کے ، نفس کیلئے خوش نما بنا کر میرے سامنے پیش کیا ہے لہٰذا اس موقع پر ایک نبی کی نبوت کی یہ ذمہ داری تھی کہ جن کے اعمال کو شیطان نے مزین کیا ان کے اعمال کی درستگی کے لئے ان کو اپنی اطاعت قبول کرنے کی دعوت دے-اسی طرح جو مرشد کامل ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ طالبانِ راہِ حق  معصیت اور گناہوں میں مبتلا ہیں اور شیطان نے ان کے گناہ کو مزین کر کے ان کے سامنے پیش کردیا ہے،لہٰذا ان کی اصلاح کی ضرورت ہے اس لئے مرشد کامل ’’فَفِرُّوا إِلَى اللہ‘‘ ،پس دوڑو اللہ کی طرف کی ندا بلند فرماتا ہےتاکہ طالبِ مولیٰ کے ظاہر و باطن میں ایسے تمام اعمال جو کہ بارگاہِ حق تعالیٰ کی حضوری میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں اُن کا خاتمہ کیا جائے -  یہ اور اِس جیسی دیگر وجوہات کی بِنا پہ اَسلاف نے از رُوئے کتاب و سُنّت راہِ رُوحانیّت و راہِ اصلاحِ باطن میں رہبر و مرشد کی رفاقت و صحبت و قربت کو ضروری قرار دیا ہے -  جیساکہ امام ابی المواہب عبد الوہاب بن احمد بن علی بن احمد الشافعی الشعرانی  فرماتے ہیں کہ :

وَکَذَالِکَ اَجْمَعُ اَھْلُ الطَّرِیْقِ عَلٰی وَجُوْبِ اتِّخَاذُ الْاِنْسَانِ لَہٗ شَیْخًا یُرْشِدُہٗ اِلٰی زَوَالِ تِلْکَ الصِّفَاتِ الَّتِی تَمْنَعَہ مِنْ دَخُوْلِ حَضْرَۃِ اللہِ تَعَالیٰ بِقَلْبِہٖ[5]

’’اور اس طرح اہل طریقت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انسان پر کسی شیخ طریقت کی بیعت کرنا واجب ہے جو اسے ان صفات کو زائل کرنے کا طریقہ بتائے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضوری سے مانع ہوں‘‘-

چونکہ مرشدکامل قلب کی بیماریوں کا طبیب الاعظم ہے اس لئے وہ قلب کی بیماریوں کا علاج بتاتا ہے کیونکہ جب قلب کی  بیماریاں دور ہوجاتی ہیں تو  بندے کو حضوری حق تعالیٰ نصیب ہوجاتی ہے -  عظیم و کبار مشائخ نے  اللہ پاک کی بارگاہ کے راز کو پانے کے لئے اولیاء اللہ کی طرف سفر کیا اس لئے بندے پر یہ حجت ہے کہ وہ بھی مرشد کامل کی جانب سفر کرے تاکہ اس کے دل کو محبت الٰہی نصیب ہو جائے اور اس کے دل کے حجابات اٹھ جائیں -  تعلیماتِ اَسلاف کے مطابق یہ مرحلہ صاحبِ ہدایت مرشد کی تلقین اور راہنمائی کے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا -جیسا کہ شیخ الشیوخ ،  پیرانِ پیر ، دستگیر محی الدین ، کریم الابوین، نجیب الطرفین السید الشریف ابو محمد عبد القادر الجیلانی الحسنی الحسینی البغدادی (﷜) فرماتے ہیں کہ:

فَاعْلَمْ اَیُّھَا الطَّالِبُ الْقاصِدُ لِسُلُوْکِ طَرِیْقِ الْھَدَایَۃِ الْمُوْصِلَۃِ اِلَی صِفَاءِ التَّوْحِیْدِ الذَّاتِیْ اِنَّ التَّوْجَّہَ اِلَیْھَا وَ الْوَقُوْفُ عَلٰی اَمَارَاتِھَا لَا یَتَیَسَّرُ اِلَّا بَعْدَ تَنْبِیْہِ مُنَبِّہِ نَبِیِّہٖ ، وَ اِرْشَادِ مُرْشِدٍ کَامِلٍ خَبِیْرٍ بَصِیْرٍ-[6]

’’ پس تو جان ! اے طالب ! جو ایسی ہدایت  کے راستے پر چلنے والا ہے جو (ہدایت )توحید ذاتی کے صفاء کی طرف  لے جانے والی ہے کہ اس (راستے )کی توحید اور اس کی علامات سے واقف ہونا کسی خبر دینے والے  نبی کی  تنبیہ اور ایسے مرشد کامل جو خبیر بصیر ہو، کے ارشاد کے بغیر آسان نہیں ہے ‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ کی توحیدِ ذاتی کی معرفت کا راستہ طے کرنا عام بات نہیں ہے ایسی راہنمائی کا فریضہ  اوّل ادوار میں انبیائے کرام نے سر انجام دِیا تھا اور اُن کے بعد اب یہ فریضہ اُن شیوخ کے ذِمّہ ہے جو راہِ باطن میں ’’خبیر‘‘ بھی ہوں اور ’’بصیر‘‘ بھی ہوں ، خبیر بایں معنیٰ کہ طالب کے احوالِ باطنی کو جاننے والے ہوں اور اِس راہ کے نشیب و فراز کی بھی خبر رکھتے ہوں ، بصیر بایں معنیٰ کہ  صاحبِ نگاہِ باطن ہوں -میرے مرشد کریم شہبازِ عارفاں حضور پیر سید سُلطان محمد بہادر علی شاہ صاحب المشہدی  (قدس اللہ سرّہ) بھی مرشد کی انہی صفات کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے عارفانہ کلام میں اِرشاد فرماتے  ہیں کہ:

 

خوف نہیں طالباں صادقاں نوں، جیندا پیر اکمل دستگیر ہووے
چہرہ پیر دا بدرِ منیر بھائی، طالب ویکھ کے روشن ضمیر ہووے
پیر پورا کرے تروٹاں ساریاں نوں، ہر امر تے اوہ قدیر ہووے
بہادر شاہؒ ویکھے ہر حال تیرے اوہ علیم، کلیم، بصیر ہووے

 

 

 

 

 

اس لئے شیخ کامل ’’ینظر بنور اللہ تعالیٰ ‘‘اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی -  ایسے شیخ کے ذِمّہ یہی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ذاتِ حق تعالیٰ کی حضوری کی جانب اور قرب کی جانب مدعو کرتا ہے ، قرب و حضوری ہر ناکس و ناقص عطا نہیں کر سکتا بلکہ صرف مُرشدِ کامل ہی عطا کرتا ہے -  یہ بات ذرا مُشکل سی لگتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں لوگ شارٹ کٹ کے قائل ہیں اور حد سے بڑھی ہوئی جعلی کرنسی کی وجہ سے اصل کا اعتبار بھی عامۃ النّاس سے اُٹھتا جا رہا ہے ، اب لوگ قصے کہانیوں یا پھر ریاکاریوں اور دکھاووں پہ یقین رکھتے ہیں کہ شاید تصوف کی شناخت ایسے کرامتی و درجاتی تصوف ہی سے کی جانی چاہئے جبکہ اصل تصوف یعنی ’’استقامت‘‘ کی جانب کوئی نہیں آنا چاہتا -  درجاتی چیزیں تو کہیں سے بھی مل جاتی ہیں مگر اصفیاء و اتقیاء و اولیاء نے جو سفر اِختیار فرمائے وہ درجات کی تمنّا میں نہ تھے بلکہ معارف ِو اسرارِ  ذات کے حصول کیلئے تھے - ا ِس  مؤقّف کی تائید میں ناچیز یہاں صاحبِ تفسیر رُوح البیان علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نہایت جامع عبارت پیش کرنا چاہتا ہے جو بُنیادی طور پہ دو حصّوں پہ مُشتمل ہے - علامہ اسماعیل حقی بیان فرماتے ہیں کہ :

اِنَّ الْمَرْءَ بِمُجَرَّدِ الْعَمْلِ لَا یَکُوْنُ الا عَابِدًا و امَّا المُعَارِفُ الْالٰھِیَّۃِ وَ الْوَصْلُ اِلَی الدَّرَجَاتِ الْعَالِیَاتِ فَیَحْتَاجُ اِلَی مُرْشِدٍ کَامِلٍ وَ لِذَا ھَاجَرَ الْکِبَارُ ِالَی دَارِ التَّحْصِیْلِ صُحْبَۃِ الْمُقَرِّبِیْنَ وَ الْاَبْرَارِ-[7]

’’نیک اعمال سے بندہ صرف عابدہو سکتا ہے لیکن معارف الہٰیہ اور اعلیٰ ترین درجات کو پانے کیلئے مرشد کامل کی ضرورت ہے اس کے بغیر ان کا حصول ناممکن ہے- یہی وجہ ہےکہ بڑے بڑے مشائخ نے  اولیاء مقربین و ابرار کی صحبت کے لئے دور دور سفر کئے‘‘-

پہلا حصہ یہ واضح کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض عابد و زاہد بننا چاہتا ہے تو وہ روز مرّہ کے معمولاتِ عبادت پہ ہی اکتفا کر سکتا ہے لیکن اگر کوئی آدمی قربِ خداوندی کا مُشتاق ہے اور طلبِ الٰہی رکھتا ہے تو اُسے مرشدِ کامل کی ضرورت پیش آتی ہے -  دوسرے حصہ میں آپ فرماتے ہیں کہ کبار و عظیم بزرگانِ دین نے مقربین و اولیا کی تلاش کا سفر کیا تو اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ معارفِ الٰہیّہ کو پانا چاہتے تھے -  معارفِ الٰہیّہ کو پانے کیلئے طالبانِ مولیٰ نے  بڑے بڑے مشائخ اولیاء مقربین و ابرار کی صحبت کو پانے کے لئے طویل سفر کئے -

اب اگر آپ ناچیز کو اجازت دیں! تو مَیں ایک سانحہ یہ بھی بیان کردوں کہ عموماً ہمارے ہاں جو مرشدیت اور پیری و مریدی کا تصور ہے وہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟اور  ان بزرگوں کی تعلیمات کا جو طریق و راستہ ہے وہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟ مرشد کریم طبیبِ اعظم تو ہے لیکن ہم اپنے پیمانۂ طلب میں اس سے مانگنے کیا جاتے ہیں ؟ ہم اس سے سوال کیا کرتے ہیں ؟ ہم اس سے لینے کیا جاتے ہیں؟ اکثر  خانقاہوں پر  لوگ آتے ہیں اور عرض کرتے  کہ

پیر سائیں ! گائے بچھڑے دیتی ہے بچھڑیاں نہیں دیتی ، بھینس کا دودھ کم آتا ہے ،  بھینسوں بکریوں کے پھل مر جاتے ہیں ، مرغی خانے میں وباء بہت پھیل جاتی ہے ، ’’ڈھور ،ڈنگر‘‘ اکثر بیمار پڑے رہتے ہیں اور اس طرح کے وہ چھوٹے چھوٹے سوال جو کسی اور شفاء خانہ میں جاکر کرنے چاہئیں ہم پیروں کے پاس آکر کرتے ہیں اور اِنہی وجُوہات پہ ہم اُسے مرشد مانتے ہیں ،یہ کِس قدر مضحکہ خیز بات ہے - 

ہاں! یہ مضحکہ خیز ضرور ہے مگر تعجُّب خیز نہیں ، اِس لئے کہ ہمارے زوال کا سبب ہی یہ ہے کہ ہم نے اپنی اِصلاح کے تمام اداروں کو ایسے ہی فرسودہ تصورات و خیالات کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے اور یہ ماننے کیلئے قطعاً تیار نہیں ہیں کہ ان کی موجودہ صورت اپنی اصل سے کس قدر دُور اور کس قدر غیر مطابق ہے -  مثلاً مسجد و مدرسہ کو لے لیں خانقاہ کی طرح وہ بھی ایک منافع بخش انڈسٹری بن چکے ہیں- مذہب کے نام پہ کی جانے والی سیاست میں کیا کچھ بے نقاب نہیں ہو چکا ؟ مملکتِ خُداداد پاکستان میں لادین طبقوں کا سوال مذہب یا مذہب کے اصُول نہیں ہیں بلکہ مذہبی سیاسی تحریکوں کے دوہرے بلکہ چھ رُخے معیارات ہیں- یتیموں ، بیواؤں ، کمزوروں حتیٰ کہ خود ریاست کی زمینوں پہ ناجائز و غیر قانونی قبضے کر کے مساجد و مدارس بنائے جائیں تو طالب علموں کے اور مقتدیوں کے قلب و روح میں علم و عبادت کی کیا تاثیر اُترے گی ؟ گزشتہ پانچ برس میں ’’یہود و ہنود و نصاریٰ‘‘ نے اتنے مسلمان نہیں قتل کئے جتنے خود مسلمانوں نے فرقہ وارانہ جنونیّت کے تحت کئے ہیں -  اِن ساری خرابیوں میں خانقاہ پہ بیٹھے لوگوں کا بھی ایک حصہ شامل ہو جاتا ہے ، معاشرے میں جیسے ملاں کی تعبیر خلط ملط ہو گئی ہے ایسے ہی پیر کی تعبیر بھی ہمارے زوال کو پوری طرح ریفلکٹ (Reflect)کرتی ہے -  اِس سے پہلے پیر کے متعلق یا مرشد کے متعلق عام لوگوں کا جو تصور بیان کیا ہے وہ ایک زندہ معاشرتی حقیقت ہے جس کا اِنکار ممکن نہیں ہے -  تاہم ، یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ مرشد کا نہ تو یہ فریضہ ہے اور نہ ہی اُس کی یہ دعوت ہوتی ہے بلکہ اُس کا کام بندگانِ خُدا کو بارگاہِ خُداوند تعالیٰ کی حضوری کا راستہ بتانا اور سکھانا  ہے اور راہِ ہدایت پہ قائم رکھنا ہے - 

ناچیز نے یہ بات اپنے مرشد کریم بانیٔ  ’’اصلاحی جماعت‘‘ حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہ) کی بارگاہ سے سیکھی ہے کہ مرشد کامل کی ڈیوٹی اور دعوت ، سالک کو  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک رسائی کروانا ہے اس لئے وہ اس بات پر پریشان اور رنجیدہ ہوتا ہے  کہ کوئی اس کی بارگاہ میں جاکر غیر اللہ کا سوال کرے- اب جہاں تک اس کے اختیار کا تعلق ہے تو کرامت کے طور پر از رُوئے قرآن ، اللہ تعالیٰ بندۂ مومن کو اپنی بارگاہِ خاص سے یہ توفیق عطا کر دیتا ہے کہ وہ اللہ کی توفیق سے جسے چاہے شفاء دے،اللہ کی عطا سے جسے چاہے نواز دے-لیکن مرشد کامل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سائل کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق سوال کرتا ہے کیونکہ اللہ پاک یہ فرماتا ہے کہ مَیں اپنے بندوں سے کہتا ہوں کہ مجھ سے سوال کر مَیں تجھ کو عطا کروں گا- اس لئے مرشد کامل یہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے مولا! مجھ پر تو تیری اتنی عنایات، انعامات و اِکرامات ہیں  کہ مجھے تجھ سے تیری ذات کے علاوہ کسی چیز کی حاجت نہیں ہے لیکن تیرا یہ بندہ مجھ سے یہ سوال کرتا ہے تو ، اے الٰہی! اپنے فضلِ خاص سے اپنے اس بندے کو عطا فرما جو یہ مانگ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کی دعا کو رد نہیں فرماتا بلکہ اس کو قبول کرتے ہوئے جو بھی اس کی بارگاہ میں سائل  آتا ہے اس کو عطا کر دیتا ہے- لیکن حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہ) فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں تیس(۳۰) سال تک مرشد ِکامل تلاش کرتا رہا اور اب سالہا سال سے طالب کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے طالب نہیں مل رہا‘‘-

یعنی تیس (۳۰) سال تک میرے پاس دنیا کے مریضوں کی شفاء و علاج کے طالب تو آتے رہے ،بھینسیں،گائے ،بکریاں،مرغیاں اورانڈے ٹھیک کروانے والے تو آتے رہے، درجات لینے والے، مقامات لینے والے ، فقیری مانگنے والے ، قطبیت،غوثیت اور ولائیت مانگنے والے ، خرقہ خلافت مانگنے والے تو میرے پاس آتے رہے لیکن اللہ کی ذات ، اللہ کا نام مانگنے والا تیس (۳۰)برسوں میں میرے پاس نہیں آیا-

مرشد کامل کے لئے اس سے بڑی افسردگی اور رنجیدگی کی  کوئی اور بات نہیں ہوتی کہ اس کی زندگی میں اسے کوئی طالب کامل و صادق میسر نہ آئے-اُستاد جو علم لیتا ہے اس کی یہ تمناو خواہش ہوتی ہے کہ مَیں اس علم کو اپنے کسی شاگرد کے سینہ میں منتقل کردوں -وہ ایک فیضِ الٰہی کا سلسلہ ہے وہ رکتا تو نہیں ہے لیکن وہ طالبِ کامل و صادق کی تلاش کا درس دیتا ہے  اور اِس بات کا خواہش مند رہتا ہے کہ اُس سے کوئی اللہ کا نام طلب کرے ، لوگ درمِ دُنیا سے آگے نہیں بڑھتے اگر کوئی بڑھے بھی تو عُقبیٰ پہ ٹھہر جاتے ہیں جبکہ مُرشدِ کامل خود بھی صرف ذاتِ باری تعالیٰ کا طالب ہوتا ہے اور چاہتا بھی یہی ہے اور خوشی بھی اِسی میں محسوس کرتا ہے کہ اُس سے وہی مانگا جائے جو اُس نے مانگا تھا -  مگر ایک عرصہ سے یہ تلقین ہی ختم ہو گئی ہے ، اب کہیں اِس درجہ کی طلب و طالبیّت و مطلوبیّت کی بات ہو تو لوگ اس سے اجنبیّت محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے جس میں فکر و عمل کی استقامت چاہئے اور وُسعت و گہرائی چاہئے اور طبیعت میں دُور اندیشی چاہئے -ناچیز کے نزدیک یہ نقص ہم نے صرف طلبِ الٰہی کے معاملے میں نہیں اپنا رکھا بلکہ ہماری زندگی کے ہر شُعبہ میں سطحیت و عامیانہ پن داخل ہو چکا ہے ، گہرائی ،وُسعت اور دور اندیشی نام کی چیز تقریباً تقریباً اُٹھ چکی ہے -  پرفیکشن جو کہ کسی بھی قوم میں قائدانہ صلاحیتوں کی شرطِ اوّل ہے اب ایک طعنہ بن کے رِہ گئی ہے کئی مقامات پہ لوگوں کے ساتھ  کام کرنے کا موقعہ ملتا ہے تو کہتے ہیں جی کہ فلاں کو ساتھ رکھا تو کام ہوتا بھی نہیں ہوگا رُکتا رُک جائے گا -اچھا صاحب ! مان لیا ! اب یہ فرمائیے کہ اُس فلاں صاحب میں خرابی کیا ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ وہ ’’پرفیکشونیسٹ‘‘ ہے آپ کی یا ہماری مرضی پہ نہیں چلے گا -  ارے بھائی ! یہی پرفیکشن ہی تو چاہئے ، چاہے کسی بھی شُعبے کا قائد ہو اگر اُس میں پرفیکشن نہیں ہے تو وہ لفظِ قائد کا قطعاً مُستحق نہیں ہو سکتا -  تعلیماتِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ہوں یا تعلیماتِ حضرت سُلطان العارفین قدس اللہ سرہ ہوں یا آپ رسائلِ جنیدِ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کر لیں آپ کو ہر جگہ طالب و مرشد کی ’’پرفیکشن‘‘ کا تصور ملے گا ، مگر ’’شارٹ کٹ زدہ‘‘ معاشرے میں یہ سب باتیں بے معنی ہو کر رِہ گئی ہیں اِن کا نہ دُہرانا اِن کے دُہرانے سے بہتر معلوم ہوتا ہے اِس لئے کہ اِن ’’یواقیت و جواہر‘‘ کے نہ تو پرستار موجود رہے نہ خریدار موجود رہے نہ بازار موجود رہے -  غُلام قوم میں غُلامی ہی کی باتیں زیبا رہیں گی اِس لئے کہ فقر تو شہنشاہی ہے جو طلب کے بادشاہوں کو عطا ہوتا ہے- اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ (بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے - پوشیدہ رہیں باز کے اَحوال و مقامات) یعنی ممولے کی کیا اوقات کہ شہباز کے احوال و مقامات کو جان سکے -  بعینہٖ اِسی طرح کرامت کے ماروں اور مقامت کے ماروں کو کیا معلوم کہ تصوفِ استقامت کیا ہوتا ہے ؟ ایک کرامت زدہ معاشرہ کرامت سے آگے تصوف و فقر و روحانیت کو کیا جانے -علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی  اُسی نظم کا مطلع دیکھا جائے تو اِس گزشتہ گفتگو کو مزید مترشح کرتا ہے :

اقبال! یہاں نام نہ لے علمِ خُودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مَقالات[8]

جو مُرشدِ کامل ہے اُس کی دعوت اللہ کی جانب ہوتی ہے اِس لئے اُسے ایسے ہی طالبانِ حق کی تلاش ہوتی ہے جو اُس سے معرفت و قربِ حق تعالیٰ حاصل کریں -  ہماری طلب کی خامی و  ناتمامی اور جستجوئے اسرارِ ذات سے محرومی ہماری وہ بنیادی خامی ہے جس کا تعلق ہمارے اپنے نفس سے ہے اِس لئے ہمیں اپنی طلب کو اس درجہ کمال پر لے کر جانا چاہیے جہاں غیر اللہ کا تصور ہی موجود نہ ہو اور ایسا کرنا  ، وہ بھی اسی عملی زندگی میں رہتے ہوئے ممکن ہے-

(جاری ہے)

٭٭٭



[1](صحیح مسلم، کتاب فضائلِ صحابہ، باب من فضائل عمر ﷜)

[2](امام مسلم(۲۰۶ھ،۲۶۱ھ)کتاب الامارۃ،ص:۸۸۳)

[3](امام رازی (۵۴۴ھ-۶۰۶ھ)تفسیر کبیر، تفسیر الفاتحہ)

[4](امام ابن حجر ہیتمی(۹۰۹ھ-۹۷۳ھ)فتاویٰ حدیثیہ، ص:  ۱۰۳ )

[5](امام عبد الواہاب الشعرانی(۸۹۸ھ-۹۷۳ھ) لواقع الانوار القدسیہ فی بیان العھود المحمدیۃ،ص:۹-۱۰ )

[6](تفسیر الجیلانی ،ج ؟؟؟ ص:432)

[7] (تفسیر روح البیان، جلد:۵، ص:۴۳۶ )

[8](ضربِ کلیم)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر