نَحمَدُہ وَنُصَلِّی وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُولِہِ الکَرِیمِo اَمَّا بَعدُ فَاَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ o بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ o
(۱)یٰٓاَیُّھَا الاِنسَانُ اِنَّکَ کَادِح اِلٰی رَبِّکَ کَدحًا فَمُلٰقِیہِo
صَدَقَ اللّٰہُ العَظِیم- اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہ ےُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ ےَاَےُّھَا الَّذِےنَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَےہ وَسَلِّمُوا تَسلِےمًا،اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَےکَ ےَا سَےِّدِی ےَا حَبِےبَ اللّٰہِ،وَعَلٰی اَلِکَ وَاَصحَابِکَ ےَا سَےِّدِی ےَا مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہ ،صَلَی اللّٰہُ عَلَےک وَآلِک وَ اَصحَابِک وَاَزوَاجِک وَبَارِک وَسَلِّمo
انتہائی واجب الاحترام بھائیو، بزرگو اور دوستو ! آج کی اس محفلِ میلاد مصطفیﷺ و حق باھُو کانفرنس میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ضلع مُلتان کے مبلغین اور کارکنان کی دعوت پر اس محفل میں تشریف لانے پرمَیں آپ کوخوش آمدید کہتا ہوں اور اس مقدس اور محترم ماہِ مبارک ”ربیع الاول“ کی آمد پر اور میلاد مصطفیﷺ کی آمد پر مبارکباد کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضورﷺ کا میلاد منانا یا حضورﷺکے میلاد کی خوشی میں اکٹھا ہونا ، آقاﷺکی ذات گرامی سے ، آقاﷺکے اسم گرامی سے منسوب کسی بھی محفل کا بنیادی نقطہ اور بنیادی پیغام یہ ہے کہ آقاﷺکے پیغام سے تجدید عہد کیا جائے ، اور آقاﷺ کے مشن ، آقا ﷺکے مقاصد اور دینِ اسلام کا جو اَحیا ہے اس کا عملی سطح پہ ہماری زندگیوںمیں جو نفاذ ہے ہم اپنا احتساب کریں اور ہم اپنے آپ کو تولیں کہ کیا ہم اس معیار پہ پورے اترے ہیں یا نہیں ؟ اگر اترے ہیں تو مبارکبا د کے مستحق ہیں اور ہمیں چاہیے کہ اس پہ استقامت سے کھڑے ہوجائیں اگر اس پہ پورے نہیں اترے تو ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اس محفل میں ، اس تقریب میں آقاﷺکے پیغام کی طرف رغبت اختیار کریں اور رجوع کریں اور اس معیار پر ہم اپنے آپ کو پورا کریں جس طرح حکیم الامت عارفِ لاہوری مردِ خود آگاہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تو یہ چاہتا ہے کہ ایک نئے جہان کی تشکیل کرے ، اگر تو یہ چاہتا ہے کہ تیرے سر سے ظلمت ، جہالت، تعصب ، ظلم اور جبر کا یہ دور جو چل رہا ہے یہ ختم ہوجائے اور اُمید کی ، یقین کی ، ایمان کی ، امن کی ، استحکام کی کرنوں کے ساتھ ایک نئی صبحِ صادق طلوع ہو تو اس کا راستہ تیرے پاس یہ ہے کہ
بر عیارِ مصطفی خود را زند
تا جہانے دیگرے پیدا کند (۲)
تجھے چاہیے کہ اپنے آپ کو محمد مصطفیﷺ کے معیار پر لے کے آ جو معیار مومن کے لیے رسالتمآبﷺنے مقرر کیا ہے -
جب تو حضورﷺکے قائم کردہ معیار پہ اپنے آپ کو لے آئے گا توتیر ی اذان کی تاثیر تبدیل کردی جائے گی ، تیرے رکوع کی ، تیرے سجود کی تاثیر تبدیل کردی جائے گی ، تیری عبادات اور ریاضات کی تاثیر تبدیل کردی جائے گی ، اس لیے ہمیں ایسی کسی بھی محفل میں جانے کا موقع جب میسر ہو ، موقع نصیب ہو اور جب ہمارا بلاوا آئے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس تجدیدِ عہد کے ساتھ جائیں کیونکہ آقاﷺکی اس دُنیا میں تشریف آوری ہماری زندگی کے ہر پہلو پر ، ہماری زندگی کے ہر نظام میں ایک بنیادی اور انقلابی تبدیلی بپا کی اور ہماری جس جگہ پر جو ضرورت بنتی تھی آقاﷺ نے جو معیار قائم کیا اس میں وہ چیز عطا ہوئی اور دُنیا حیران ہے ، تاریخ حیران ہے کہ ایسی شخصیت ہے کہ ان کا جو صدر دفتر ہے ، ان کا جو صدر مقام ہے اس کی دیواریں کچے گارے سے چنی گئی ہیں ، اس کے ستون کھجوروں کے تنے ہیں اور اس پہ باقاعدہ مضبوط چھت کی بجائے درختوں کے پتے اورتنکے رکھ کر اس کی چھت قائم کی گئی ہے اور نیچے فرش پہ کوئی مخملین قالین بچھانے کی بجائے عام کھجوروں کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائیاں بچھائی گئی ہیں اور وہاں وہ شخصیت بیٹھ کے دُنیا کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہے ، وہاں پر جنگی حکمت عملی بھی مرتب کی جاتی ہے ، وہاں پہ وار سٹریٹجز(War Strategies) بنائی جاتی ہیں ، وہاں پہ مجاہدین مقرر کیے جاتے ہیں ، وہاں پہ سالاروں کو ان کی ڈیوٹیاں تفویض کی جاتی ہیں ، وہاں پہ لشکروں کی صف آرائی کی جاتی ہے ، وہاں پہ لشکروں کو ان کی ترتیب اور ان کی تشکیل کے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے - دُنیا حیران ہے کہ وہی سادہ سا مکان ہے وہاں سے دُنیا کے عظیم بادشاہوں کو جن کا سکہ اس وقت زمین پہ چلتا ہے ، جن کا نام زمین پہ چلتا ہے ان کو دین کا پیغام جاتا ہے کہ اسے قبول کر لو یا جنگ کے لیے تیار ہوجاﺅ- لوگ حیران ہیں ، تاریخ حیران ہے کہ وہاں سے ایسے نیک طینت اور پاک رُوحوں کے لوگ تیار کیے جاتے ہیں کہ ان کی بنیاد میں جاکر اگر آپ دیکھیں تو وہ تو بدو کہلاتے تھے ، وہ جب بادشاہوں کے محلّات کے اندر اپنا پیغام لے کر جاتے تو اُنہیں یہ کہا جاتا کہ
”کس عرب سے آئے ہو؟ وہی عرب جو گڈریوں کا عرب ہے ، جو ریوڑ چرانے والوں کا عرب ہے ، وہی عرب جس کی تہذیب ایک مردہ تہذیب بن چکی ہے ، جہاں پہ بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا ہے ، جہاں پہ ظلم و ستم کا بازار گرم ہے ، اس عرب سے تم یہ پیغام لے کر آئے ہو - “
لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس عرب کے اندر وہ شخصیت جلوہ فرما ہے کہ جس کے لیے عشاق جب اپنا خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں تو اُنہوں نے حضورﷺکی اس پوری سیرت کی منظر کشی ایک فقرے میں کی، ایک مصرع میں کی کہ
بیٹھا ہے چٹائی پہ مگر عرش نشین ہے
دُنیا سمجھتی ہے کہ فیصلے اس مٹی کی چٹائی سے ہورہے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ یہ فیصلے عرشِ الٰہی سے آرہے ہیں اور زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ، زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس سے سنت ِرسولﷺسے راہنمائی نہیں ملتی- آپ ایک انسان کو دیکھ لیجئے یعنی انسان سے میری مراد مَیں خود ہوں ، آپ ہیں ، ہم انفرادی سطح پہ ہمارا وجود ہے ، یہ کتنا سا وجود ہے ؟ کسی کا چھ فٹ ہے کسی کا اس سے کچھ زیادہ ہے ، کسی کا پانچ ہے کسی کا پانچ چھ کے درمیان ہے ، کسی کا چار ہے - ایک چھوٹی سی عمارت ہے ، ستون سے بھی کمتر ، اس کے ہاتھ پاﺅں کی بیس انگلیاں ہیں ، دو ٹانگیں ہیں، دو بازو ہیں ، دو ہاتھ ہیں ، دو پیر ہیں اور اس کے اندر چھوٹی چھوٹی مشینری لگا دی گئی ہے جو عقل بھی ہے اس کے اندر یہ جسم بھی ہے ، جسم کے اندر ہماری رُوح بھی پوشیدہ ہے اور اسی کے اندر ہمارا قلب بھی ہے سارا کچھ اس عمارت کے اندر موجود ہے- یہ چھوٹی سی عمارت ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ، انسان تین حصوں میں تقسیم ہے اور ان تینوں حصوں میں آپ انسان کو اگر دیکھیں تو آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ ان میں سے کس کی وجہ سے انسان کا شرف اور کس کی وجہ سے انسان کی فضیلت ہے ؟
(۱) انسان کا جسم ہے ، (۲) انسان کی عقل ہے اور (۳) انسان کی روح ہے -
(۱) اگر آپ انسان کے جسم کو دیکھیں تو جس طرح اس کے جسم کی خوراک ضروری ہے ، اس کے جسم کا لباس ضروری ہے ، اس کے جسم کا علاج معالجہ ضروری ہے ، اس کے جسم کی تعلیم و تربیت ضروری ہے اور اس کے جسم کی ایک خوراک ہے جس میں گندم ہے ، چاول ہیں ، چنے ہیں ، گوشت ہے ، ہوا ہے ، سورج کی روشنی ہے ، دیگر مختلف چیزیں ، پانی ہے اور ٹھوس اور مادہ تمام غذائیں اس جسم کی خوراک میں شامل ہیں
(۲) اسی طرح جو انسان کی عقل ہے اس کی خوراک اور اس کے تمام تقاضے بالکل مختلف ہیں اس کی عقل کی بھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا پڑتا ہے ، عقل کے علاج معالجہ کا بندوبست کرنا پڑتا ہے عقل کی خوراک کا بندو بست کرنا پڑتا ہے - جسم کی خوراک ہے کھانا پینا ، چلنا ، ورزش کرنا ، ایکسرسائز کرنا ، دھوپ لینا ، ہوا لینا ، کھانا پینا - اسی طرح اس کی عقل کی جو خوراک ہے وہ اس کی تربیت ہے وہ اس کا بچپن سے لے کے اس کے لڑکپن تک کا جو عرصہ ہے اس کے دوران اس کو سکھایا جانا ، اس کو پڑھایا جانا ، مختلف علوم ریاضی ، سائنس ، فلسفہ سکھانا ، عبادات، ریاضات ، مذہب سکھانا یہ سب عقل کی تربیت ہے ،کتاب پڑھنا جاننا ، کتاب پڑھانا جاننا ، کتاب کے متعلق سوچنا ، کسی بھی فکر کو لے کے ، کسی بھی مسئلہ کو لے کے اس فکرپر تنقید کرنا ، اس فکر کے اندر غور وخوض کرنا ، اس فکر کے اندر جھانکنا ، اس فکر کے اندر ڈوب جانا یہ انسان کی عقل کی تربیت ہے اور یہ انسان کی عقل کی خوراک ہے بالکل اسی طرح جس طرح جسم کو خوراک چاہیے اگر آپ جسم کو خوراک نہ دیں یعنی ایک آدمی کے منہ پر پٹی باندھ دیں اور آپ کسی اور میڈیکل طریقے سے فیڈ (Feed) نہ کریںوہ چالیس دن پڑا رہے اس کے ساتھ کیا ہوگا؟ایک بچہ جو پیدا ہوتا ہے آپ اس کے منہ پہ اس کے کانوں پہ آپ اس کو بند کردیتے ہیں اور اس کو کوئی آواز نہیں جاسکتی وہ کچھ سن نہیں سکتا کوئی اس کے ساتھ بولنے والا نہیں ہے اس کو ایک کمرے کے اندر آپ بند کردیں صرف اس کو خوراک پہنچتی رہے اس بچے کی کیا عقل ہوگی؟ وہ دنیا کے متعلق کیا سوچ سکے گا ؟ اس کی عقل مرجائے گی - اب یہ درندگی جو انسانوں میں پائی جاتی ہے جو جنگلوں کے اندر آج بھی مختلف انسانی قبائل آباد ہیں ان کو دیکھیں ان کی زندگی کیا ہے؟ ان کا لائف سٹائل (Life Style) کیسا ہے ؟ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ و ہ کسی عقل کے ساتھ وہ اِس دنیا کے اندر رہنے کی کوئی لاجک (Logic) ہے کہ بھوک لگے تو اپنے ہی بچے کو ذبح کرکے کھا لینا اور جانوروں کے ساتھ انہی کی طرح وہاں پہ زندگی بسر کرنا - عقل کی تربیت نہ ہو تو عقل اسی طرح مر جاتی ہے، عقل کو خوراک نہ ملے تو عقل اس طرح مرجاتی ہے ، عقل پہ موت طاری ہوجاتی ہے، جسم کو خوراک نہ ملے ، جسم کی تربیت نہ کی جائے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ جسم ناقص ہے یہ جسم مر جائے گا، عقل کی تربیت نہ ہو عقل کو خوراک نہ دی جائے ہم کہتے ہیں کہ عقل مر جائے گی -
(۳) انسان کی شخصیت کا ،انسان کے وجود کا جو تیسرا پہلو ہے رُوح، اس کو بھی خوراک کی ضرورت ہے، اس کو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے ، اس کو غذا کی ضرورت ہے ، اس کو علاج معالجے کی ضروت ہے اگر آپ رُوح کو گزشتہ مثال کے تحت بچے کی طرح سے مقید کردیں ، رُوح کے ہاتھ پاﺅں ، منہ ،کان ، زبان، عقل ہر چیز کو بند کردیں تو وہ رُوح مرجائے گی اور اس کے نتیجے میں انسان کی میت زندہ رہتی ہے انسان کی رُوح مرجاتی ہے اور انسان اپنے آپ کو ایک ٹھوس مادے کی سطح پہ لے آتا ہے ، ایک پتھر میں اور ایک انسان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا -
اس لیے ان تینوں تقاضوں میں انسان اپنے آپ کو برابر رکھے جہاں وہ اپنے جسم کا خیال رکھتا ہے وہاں وہ اپنی عقل کا بھی خیال رکھے جہاں وہ اپنی عقل کا خیال رکھتا ہے وہاں وہ اپنی رُوح کا بھی خیال رکھے اگر رُوح کو چھوڑ دے گا تو وہ تو مرجائے گی ، پتھر ہوجائے گی ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ انسان کا شرف کس وجہ سے ہے ؟ کیا فقط جسم کی وجہ سے انسان کا شرف ہے ؟ کیا فقط اس کی عقل کی وجہ سے اس کا شرف ہے ؟ یا فقط اس کی رُوح کی وجہ سے اس کا شرف ہے ؟ اس کا شرف کس وجہ سے ہے ؟ اگر انسان کا شرف، اسے اشرف المخلوقات بنایا جانے ، انسان کو خلیفة اللہ کا لقب عطا کیے جانے کا تعلق انسان کے جسم سے ہے تو پھر یہ چڑیا جو بیٹھی ہے اس کا بھی جسم ہے یہ بھی کھاتی پیتی ہے ، گھوڑے کا بھی جسم ہے ، شیر کا بھی جسم ہے ، چیتے کا بھی جسم ہے، بندر کا بھی جسم ہے وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ان کی بھی خوراک ہے جس طرح جسم کی عادات ہیں ان کی بھی یہی عادات ہیں مثلاً جسم کی عادت میں غصہ کرنا شامل ہے ، حرص کرنا شامل ہے ہوس کرنا شامل ہے یہ حرص ،یہ ہوس، یہ شہوت جانوروں میں بھی ہے وہ بھی مجامعت کرتے ہیں وہ بھی اپنی نسل بڑھاتے ہیں یہ جسم بھی اپنی نسل بڑھاتا ہے وہ بھی خوراک کھاتے ہیں یہ بھی خوراک کھاتا ہے وہ بھی اُڑتے پھرتے چلتے ہیں یہ بھی چلتا ہے پھرتا ہے دوڑتا ہے ان کے اپنے قبائل ہیں اسی طرح سے ایک ان کے قبیلے کا سردار ہوتاہے آپ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لیں ایک ملکہ مکھی ہے آپ شیر کے قبیلے کو دیکھ لیں اسی طرح ہم بھی اپنے قبیلوں کے سردار بنا لیتے ہیں ہم بھی اسی طریقے سے خوراک کھاتے ہیں تو پھر میرے شرف میں اور ایک شیر کے شرف میں کیا فرق رہے گا؟اگر اس جسم کی وجہ سے اسے آپ شرف دے رہے ہیں کیا اس کا شرف اس کی عقل کی وجہ سے ہے اگر عقل کی وجہ سے اس کا شرف ہے کہ یہ سوچتا ہے اس کو اللہ نے سوچنے کی صلاحیت دی ہے اس کو اللہ نے علم کی صلاحیت دی ہے ___
﴾وَعَلَّمَ اٰدَمَ ال±اَس±مَآئَ کُلَّھَا﴿(۳)
___کے تحت یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کو یہ علوم سکھائے گئے ہیں یہ درست ہے کہ اس کی عقل یہ تمام چیزیں جانتی ہے ، یہ درست ہے کہ اس کی عقل میں جستجو کی حرارت ہے یہ درست ہے کہ اس کی عقل میں کسی چیز کو تلاش کرنے کی ایک جستجو ہے ، تلاش کرنے کی ، کریدنے کی اس کے اندر ایک طلب پائی جاتی ہے اس کی عقل کے اندر یہ چیزوں کو ڈھونڈنا چاہتی ہے یہ چیزوں کو ٹٹولنا چاہتی ہے یہ چیزوں کو پرکھنا چاہتی ہے یہ درست ہے مگر کیا عقل شرفِ انسانی کی دلالت ہے سوال یہ ہے اگر عقلِ انسانی شرف ِانسانی پر دلالت کرتی ہے تو پھر جس نے اللہ کی بارگاہ میں رہ کے مختلف روایات ہیں کوئی کہتا ہے پچاس ہزار سال ، مختلف روایات یہ اس کے متعلق بیان کی گئی ہیں تو پھر اس کے متعلق کیا خیال ہے پھر اس کی عقل نہیں جانتی تو پھر یہ شرف تو اس کا بھی بنتا ہے ہم اپنے دینی نظریے کے مطابق یعنی اللہ نے جو معیار قائم کیا ہے سزااور جزا کا ہم ہر چیز سے تنقید کرسکتے ہیں، بھاگ سکتے ہیں لیکن سزا اور جزا کے نظریے سے ہم بطور مسلمان ، بطور لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر یقین رکھنے والے ہم اس سے مفر نہیں ہوسکتے ،اس سے بھاگ نہیں سکتے اور سزا اور جزا کے نظریے کے تحت دیکھا جائے تو جتنے بھی وہ کام ہیں جن کے متعلق ہمیں ہمارا دین بتاتا ہے کہ یہ کرو گے مطلب فحاشی اور عریانی کو ہی ہم لیں کہ اگر فحاشی اور عریانی پھیلاﺅ گے تو سزا اور جزا میں سے تمہیں سزا دی جائے گی جزا نہیں ملے گی اور جن چیزوں میں سزا ملتی ہے ان میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں میں تمہیں شیطان بہکاتا ہے اور اس کا اوّلین واقعہ ہمیں قرآن حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق بتاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جس طریقے سے آکے شیطان نے بہکایا اور گندم کا دانہ کھانے پہ مجبور کیا اور اس کے نتیجے میں حضرت آدم علیہ السلام کو ایک امتحان میں رکھا جس کو بعض علماءنے سزا کا بھی کہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکال کر اس زمین پر بھیج دیا گیا تنزل کردیا گیا اس کا تو جب ہم اس بہکاوے میں آتے ہیں تو اس بہکاوے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس چیز سے بہک چکے ہیں اور اس کے پیچھے جو نفسیات اور جو عمل کار فرما ہوتا ہے وہ شیطان کا کار فرما ہوتا ہے کہ دُنیا میں دو طاقتیں ہیں ایک رحمن کی طاقت ہے اور ایک شیطان کی طاقت ہے غالب تو رحمن کی طاقت ہے لیکن شیطان کو بھی آزادی میسر ہے اس کو اللہ نے فرمایا ہے کہ تو قیامت کے دن تک جس طریقے سے مرضی کرتا رہ لیکن میرے بندوں کو نہیں بہکا سکے گا لیکن شیطان نے بھی قسم کھائی ہے کہ مَیں بہکاﺅں گا اور آج جب ہم اپنے عقل کے آخری درجے پہ پہنچتے ہوئے ، اپنے عقل کے آخری درجے پہ پہنچ کر دُنیا کا جدید ترین ہتھیار بنا لیتے ہیں جو دُنیا کا مہلک ترین ہتھیار بھی ہے ،جدید ترین بھی ہے اور مہلک ترین بھی ہے جدید ترین بھی ہے اور خوفناک ترین ہتھیار بھی ہے جب ہماری عقل وہ ہتھیار اختراع کرلیتی ہے ، وہ ہتھیار ایجاد کرلیتی ہے اور پھر اسی ہتھیار کو ہم لوگوں کو مارنے کے لیے ، لوگوں کے قتل و غارت کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہاں پہ اس عقل کے پیچھے انسانی سوچ یا رحمانی سوچ کار فرما ہے یا کہ اس کے پیچھے شیطانی سوچ کار فرما ہے؟اگر عقلِ انسانی شرفِ انسانی پہ دلالت کرتی ہے تو پھر ابلیس کی عقل بعض مقامات پہ انسان کی عقل سے ماورا ہوجاتی ہے تو پھر کیسے یہ مان لیا جائے کہ انسان اپنی عقل کی وجہ سے مخلوق پر شرف رکھتا ہے۔ اگر فقط عقل سے ان چیزوں کا احاطہ کیا جاسکتا ، اگر فقط عقل ہی شرف ِانسانی کے لیے کافی ہوتی تو پھر انسان کبھی بھی جن مقامات پہ جاکے شیطان انسان کو گمراہ کرتا ہے انسان اپنی عقل کو سوچ کو وہاں جاکے گمراہ نہ ہوتا کیونکہ اس کی عقل اس کا ساتھ دیتی اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عقل بعض مقامات پہ شیطان کے تابع ہوجاتی ہے جہاں سے شیطان اسے بہکا لیتا ہے اور آج اگر آپ دُنیا کی بڑی تعداد دیکھیں علماءمنع فرماتے ہیں یہ بحث کرنے سے لیکن ایک علمی دلیل کو قائم کرنے کے لیے آپ اس میں جھانکیں تو آج دُنیا کی بڑی تعدادیہ ایک ٹھیک مسلمان ہوکرآپ کو یہ بات سوچنی چاہیے ،خالص سچا پکا مسلمان ہوکر آپ کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ دُنیا کی جو اکثریت ہے کیا وہ اہلِ ایمان کی ہے جو اللہ پر ، اللہ کے تمام رسولوں پر ، اللہ کی تمام کتابوں پر اور یومِ آخرت پر اور سزا و جزاپر مکمل اور کامل ایمان رکھتے ہیں اور نبیﷺ کو نبی آخرالزمان مانتے ہیں کیا دُنیا کی اکثریت ان لوگوں کی ہے ؟ نہیں ۔ بیشمار مذاہب ہیں تعداد میں بھی مسلمانوں سے زیادہ دیگر مذاہب کے لوگ ہیں ایک ایک مذہب ان سے بھاری ہے تعداد کے اعتبار سے مثلا ًعیسائیت کو دیکھ لیں ، بدھوں کو دیکھ لیں ان کے قریب تر پہنچ جاتے ہیں ، ہندوﺅں کو دیکھ لیں تو اس کا مطلب ہے کہ اگر اکثریت ایسے لوگوں کی نہیں ہے کہ جو اللہ کی کتاب پر اللہ کے نبی آخرالزمان پر ، یوم آخرت پر ، سزا و جزا پر اگر وہ تعداد نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پھر اس وقت کے حالات کے مطابق عقل کے اعتبار سے عددی اعتبار سے غالب سوچ اسلام کی ہے یا غالب سوچ غیر اسلامی ہے - تو پھر عقل اگر ان چیزوں کو سوچ سکتی تو انسانوں کی اکثریت راہِ ہدایت سے غافل کیوں ہے؟ راہِ ہدایت سے بھٹکی کیوں ہے؟ راہِ ہدایت سے محروم کیوں ہے؟ بیشمار اس کے فلسفیانہ دلائل اس کے پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن وہ بات اتنی ٹھوس ہوجاتی ہے کہ ایک عام آدمی کی سوچ سے بلند ہوجاتی ہے فلسفیانہ ان دقائق کے اندر جاکر میں اس لیے موٹی موٹی چند مثالیں عرض کررہا ہوں کہ عقلِ انسانی شرفِ انسانی پہ دلالت نہیں کرتی -
اسی طرح رُوحِ انسانی - اب اس کو اگر آپ دیکھیں تو رُوح ہر مخلوق کے اندر رکھی ہے جتنی بھی جاندار اشیاءہیں ملائکہ کی بھی رُوح ہے ،حوروں کی بھی رُوح ہے ،غلمانوں کی بھی رُوح ہے، جانوروں کی بھی رُوح ہے اور درختوں کی بھی رُوح ہے لیکن ان میں جو لطیف ترین چیز ہے وہ حضرتِ انسان کی رُوح ہے اللہ کی تمام مخلوقات میں سے لیکن بات فقط حلاوت کے اوپر آجائے یا لذتِ رُوح کے اوپر آجائے تو جب ملائکہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں کیا ملائکہ کی رُوح کو حلاوت نہیں ملتی ؟ کیا ملائکہ کی رُوح کو اللہ کے قرب کا وہ احساس نصیب نہیں ہوتا؟ جب وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، جب وہ اللہ کے حضور کھڑے ہوتے ہیں ، جب وہ اس کے گھر پر اترتے ہیں جب وہ اس کے بندوں کی مدد کو آتے ہیں کیا ان کو تسکین نہیں ملتی جس طرح ہم اپنی رُوح کی تسکین کی بات کرتے ہیں ، ہم اپنے روح کے قرار کی بات کرتے ہیں تو انہیں بھی ملتی ہے - پھر انسانیت کا شرف کہاں سے آکر بلند ہوتا ہے ؟ پھر انسانیت کہاں سے آکے بلند ہوتی ہے ؟ پھر انسانیت کہاں سے آکے وہ اپنا ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کرتی ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ مَیں اپنا خلیفہ تیار کرچکا ہوں اس کو سجدہ کرو یہ مقام کب انسان پاتا ہے ؟ ہم ان تمام چیزوں سے آشنانہیں تو کیوں نہیں ؟ اگر ہمیں یہ چیزیں معلوم نہیں تو کیوں معلوم نہیں ؟ ہمیں معلوم ہونی چاہئیں ،ہماری بنیاد تو ایک انسان کی ہے ہم ایک انسان کے طور پہ پیدا ہوتے ہیں اس کے بعد ہم مسلمان بنتے ہیں جن کے تعلق سے ہم پیدا ہوئے وہ انسان تھے
﴾اِنَّا خَلَق±نَا ال±اِن±سَانَ مِن± نُّط±فَةٍ اَم±شَاجٍ﴿(۴)
اس ملے جلے نطفے سے ہمیں پیدا کیا گیا ہے انسانوں کے تو ہماری بنیاد انسانیت ہے لیکن ہماری مثال مُرشدِ روشن ضمیر مولانا جلال الدّین رُومی رحمة اللہ علیہ کی اس مثال کے طور پہ ہے جو ایک شیر اپنی حقیقت سے غافل ہوجاتاہے ایک بڑا دلچسپ واقعہ مثنوی شریف میں مولانا رومی رحمة اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں :
ایک چرواہا وہ بھیڑیں چراتا ہوا جنگل میں گیا تو جنگل میں اس نے شیر کی غار میں یا شیر کی کچھار تھی جہاں شیر اور شیرنی رہتے تھے اس نے وہاں پہ دیکھا تو شیر اور شیرنی دونوں شکار پہ گئے ہوئے تھے ان کا ایک چھوٹا سا بالکل نومولود بچہ وہاں پہ پڑا ہوا تھا تو اس چرواہے نے شیر کا وہ بچہ اٹھایا اور اپنے ساتھ اس کو گھر لے آیا اور اسے اپنی بھیڑوں میں رکھ کر اس نے شیر کے اس بچے کی تربیت کرنی شروع کی تو وہ بھیڑوںمیں پلتا تھا ، بھیڑوں میں اٹھتا ، بھیڑوں میں بیٹھتا ، بھیڑوں میں سوتا ، بھیڑوں میں کھاتا ، بھیڑوں میں پیتا ، بھیڑوں کے ساتھ چرتا ، بھیڑوں کے ساتھ چراگاہ میں جاتا ، بھیڑوں کے ساتھ تالاب سے پانی پیتا ، بھیڑوں کے ساتھ چراگاہ میں گھاس کھاتا لیکن تھا شیر ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ وہ جب جوان ہوگیا تو ایک دن وہ چرواہا اپنی بھیڑوں کے ساتھ وہ شیر بھی تھا ساتھ وہ انہیں جنگل میں چرانے لے گیا تو ایک شیر نے اس ریوڑ پہ حملہ کردیا جب شیر نے اس ریوڑ پہ حملہ کیا تو اس شیر کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ بھیڑیں جو شیر کے ڈر سے بھاگ رہی تھیں ان میں اس شیر کا ایک ہم جنس بھی اس شیر کے خوف سے دوڑ رہا تھا ، اس شیر کے خوف سے بھاگ رہا تھا اس نے کہا کہ یہ بھیڑوں کا ماجرا میری سمجھ میں آگیا ہے کہ مَیں ایک درندہ ہوں میرا کام چیر پھاڑ کرنا ہے یہ میرا ہم جنس کس خوف سے مجھ سے دوڑ رہا ہے اس نے بھیڑوں کو چھوڑ کر اس شیر کو جا کے دبوچ لیا اس شیر نے بڑی چیخ و پکار کی مگر اس نے اسے قابو رکھا اور اس شیر سے اس نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ تو وہ جو ریوڑ والا شیر تھا اس نے جواب دیا کہ میں بھیڑ ہوں - وہ شیر اور بھی حیران ہوا وہ قریبی ایک تالاب تھا اور بڑا شفاف پانی تھا اس کا اس تالاب پہ اس شیر کو لے کے آگیا اور اس نے کہا کہ آﺅ یہاں پہ - اس بڑے شیر نے جس نے حملہ کیا تھا اس نے اپنا پنجہ اٹھایا اور اس شیر کے سامنے کیا اس نے کہا کہ غور سے دیکھ یہ کس کا پنجہ ہے اس نے کہا کہ یہ شیر کا پنجہ ہے اس نے کہا کہ اب اپنا پنجہ اٹھا اور اس تالاب میں دیکھ تیرا اپنا پنجہ کس کا پنجہ ہے ؟ اس نے جب تالاب میں اپنا پنجہ دیکھا تو کہنے لگا کہ ملتا تو یہ بھی شیر سے ہے- اس نے کہا کہ میرے منہ کو غور سے دیکھ اس نے دیکھا اس نے کہا کہ میرا منہ کیسا ہے ؟ اس نے کہا کہ جیسے شیر کا منہ ہوتا ہے اس نے کہا کہ اب اپنے منہ کو اس تالاب میں دیکھ-وہ بھیڑوں والے شیر نے جب اپنا منہ تالاب میں دیکھا تو اس نے کہا کہ یہ کس کا منہ ہے تو وہ چھوٹا شیر بولا کہ یہ بھی تو شیر کا منہ ہے اس نے جب اپنی دم دکھائی اس نے کہا کہ یہ دیکھو غور سے کس کی دُم ہے اس نے کہا شیر کی دم ہے اس نے کہا کہ اب اپنی دم کو تالاب میں دیکھو اس نے اپنی دم کو تالاب میں دیکھا اس نے کہا کہ یہ کس کی دم ہے کہا یہ بھی شیر کی دم ہے اس نے کہا تم ہو کون ؟ اس نے کہا میں بھیڑ ہوں - شکل شیر کی ہے ، پنجہ شیر کا ہے ، چھاتی شیر کی ہے ، دُم شیر کی ہے لیکن دعویٰ یہ ہے کہ مَیں بھیڑ ہوں وجہ کیا تھی ؟ کہ وہ پلا بھیڑوں میں تھا، پرورش بھیڑوں میں پائی تھی اس لیے سمجھا کہ مَیں بھیڑ ہوں اس شیر نے کہا کہ ابھی بھی تجھے اپنی اصلیت کا پتا نہیں چلا یہاں پہ ٹھہر ، وہ چھوٹا شیر اس تالاب کے پاس ٹھہر گیا وہ بڑا شیر بھاگ کے گیا اس نے بھیڑ کاشکار کیا ،شکار کرکے اس شیر کے سامنے رکھا اسے پھاڑ ااور کہا کہ اب اس کے خون کو چکھ اور اس خون کو چکھ کر مجھے بتا کہ تیری اصلیت کیا ہے؟ جب اس شیر نے بھیڑ کے خون کو اپنا منہ لگایا اور اس کی زبان پہ خون کا وہ احساس طاری ہوا تو اس کے اندر کا جو شیر تھا وہ بیدار ہوگیا پھر وہ بولا کہ اب مَیں شیر ہوں ۔
ہم اس دُنیا میں بالکل اسی شیر کی طرح رہتے ہیں کہ جس شیر کو اپنی حقیقت کا اور اپنی اصلیت کا پتا نہیں تھا کہ میری اصلیت کیا ہے اور میری حقیقت کیا ہے ؟علامہ اقبال ایک مثال دیتے ہیں کہ اگر ایک شاہین کی پرورش کرگسوں میں کردی جائے ، اور پھر اس شاہین سے پوچھا جائے کہ پرواز کیا ہوتی ہے وہ شاہین تجھے کیا بتائے گا کہ پرواز کیا ہوتی ہے؟
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شہبازی (۵)
شہباز کے پرِ پرواز کو کرگسوں میں پلنے والا شاہین کیا سمجھے ؟ اقبال فرماتے ہیں کہ
وائے آں شاہیں کہ شاہینی نکرد (۶)
افسوس اس شاہین پر جس کو اپنی شاہینی پرواز کا ہی نہیں پتا اور افسوس ہم انسانوںپر جنہیں اپنے انسانی مقام کا ہی نہیں پتا کہ ہمارا منصب اور ہمارا مقام کیا ہے اس دُنیا میں؟ ہمیں ایسا شیر چاہیے جو ہمیں پکڑ کر زندگی کے اس خالص تالاب پر لے جائے جس کا پانی آئینے کی طرح صاف ہو اور وہاں پہ جاکے وہ ہمارے ہاتھوں کوہمارے چہرے کو اس پہ کرکے ہمارے سینے کو اس تالاب پر کرکے ہم سے پوچھے کہ بول تیری حقیقت کیا ہے؟ ہمیں ایسا شیر چاہیے جو ہمیں ہماری حقیقت سے آگاہ کردے ۔ زندگی کا وہ چشمہ جس کا پانی آئینے کی طرح چمکتا ہو جس کا پانی آئینے کی طرح صاف ، آئینے کی طرح شفاف ہو اس پانی کو آبِ حیات کا چشمہ کہتے ہیں اور آب حیات کہاں پہ ہے؟ حضرت سلطان باھُو رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھُو
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھُو (۷)
﴾قلب المومن مراة الرحمن ﴿ (۸)
ترجمہ:مومن کا دل اللہ کا شیشہ ہے ۔
مومن جھانک کر تو دیکھے ، مومن اتر کر تو دیکھے ، مومن متوجہ ہوکر تو دیکھے ، مومن توجہ کرکے تو دیکھے ، مومن اس طرف جستجو تو کرے ، مومن اس طرف طلب تو پیدا کرے ، یہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے بھیڑ کی زندگی بسر کرنی ہے یا ہم نے شیر کی زندگی بسر کرنی ہے ، ہم بھیڑ ہیں یا ہم شیر ہیں اپنی حقیقت کا یہ فیصلہ ہم نے انفرادی سطح پہ کرنا ہے کہ یہ رُوحانیت کا مسئلہ ہے اور اس کا تعلق ہماری رُوحانیت سے بھی ہے اجتماعیت سے بھی ہے وہ الگ بحث ہے لیکن بنیادی طور پر اس کا تعلق ہماری انفرادیت سے ہے اور ہمیں اپنی انفرادیت کی وہ تشخیص کرنی ہے کہ کہاں پہ ہمارے اندر تخریب واقعہ ہوئی ؟ کہاں پہ ہمیں اپنے اندر ایک تعمیرِ نو کی ضرورت ہے ؟ اب حقیقت سے آشنائی کیا ہے؟ ہماری حقیقت کیا ہے ؟ جسم ہے ، عقل ہے یا رُوح ہے؟پھر اس بنیادی بات کی طرف آتے ہیں یہ درست ہے کہ سجدے کی شرط اللہ نے یہ لگائی تھی کہ سجدہ اس وقت کرو گے کہ جب﴾وَنَفَخ±تُ فِی±ہِ مِن± رُّو±حِی±﴿(۹) جب مَیں اس کے اندر رُوح پھونک دوں گا رُوح کے پھونکے جانے کے بعد حکمِ سجدہ ہوتا ہے - حقیقت سے آشنائی کیا ہے؟حقیقت کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جب ہمارا جسم ، ہماری عقل ، ہماری رُوح یہ تینوں اپنی اپنی جگہ پراپنا ایک انفرادی مقام رکھتے ہیں اور یہ بھی درست کہ ان میں یہ چیزیں موجود تھیں لیکن حکمِ سجدہ ملائکہ کو کیا گیا جب حضرت آدم علیہ السلام میں رُوحِ انسانی کو پھونک دیا گیا تو پھر فرمایا کہ اب تم اس کو سجدہ کرو لیکن تکمیل انسانیت کی جو ہوتی ہے وہ ہمیں اسی واقعہ آدم سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقط رُوح کو سامنے رکھ کر نہیں کہا جس طرح فقط جسم تھا تو فقط جسم کے لیے یہ حکم نہیں کردیا کہ اسے سجدہ کرو اسی طرح فقط رُوح کو سامنے کرکے نہیں کہہ دیا کہ اب اس کو سجدہ کرو﴾و علم آدم الاسماءکلھا ﴿ہوگیا یعنی عقل بھی عطا کردی گئی ، اس میں اپنی رُوح کو پھونک دیا پھر فرمایا کہ اب اس کو سجدہ کرو گویا جسم ، عقل اور رُوح ان تینوں کا ایک سمت میں چل پڑنا ، ان تینوں کا ایک حقیقت کی جستجو کے لیے نکل پڑنا ان تینوںکا ایک ہی خوراک کو حاصل کرنے کا عزم باندھ لینا ، ان تینوں کا ایک ہی حقیقت کی طرف سفر شروع کردینا یہ کہلاتا ہے کہ یہ انسان کی تکمیل کا سفر ہے ،یہ انسانیت کی تکمیل کا سفر ہے کہ جب انسان کا جسم احکامِ الٰہی کے تابع ہوجائے ، جب انسان کی عقل وحی کے تابع رہ کر سوچے اور جب انسان کی رُوح اللہ کے انوار و تجلیات کے مشاہدے میں غرق ہوجائے ان تینوں چیزوں کے اس سفر کو ملا کر انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے جسم ایسے کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُورحمة اللہ علیہ اپنے متعلق بتاتے ہیں کہ مَیں کس طرح اس چیز میں ڈھل گیا :
ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم (۰۱)
مَیں نے ہر مرتبہ شریعت سے حاصل کیا اور شریعت کو ہی اپنا رہنما بنائے رکھا - جب رُوح ، عقل اور جسم ایک سمت میں اپنی منزل کا تعین کرلیں اور ایک ہی طرف کو چل پڑیں تو پھر یہ اپنی انسانیت کی تکمیل کو پہنچتے ہیں ان میں سے ایک بھی اگر اپنا راستہ چھوڑ دے تو انسانیت کی تکمیل نہیں ہوسکتی یعنی جسم اگر احکامِ الٰہی کے تابع اپنے آپ کو نہیں کرتا ، عقل اگر وحی کے تابع رہ کر الہام کے تابع یعنی قرآن کریم کے تابع رہ کر اپنے آپ کو اس فکر کے اوپر کاربند نہیں کرتی اور رُوح وہ قرب الٰہی میں نہیں پہنچ جاتی اس وقت تک انسان کی تکمیل ، اس کی انفرادیت کی تکمیل ،اس کی انسانیت کی تکمیل، اس کی آدمیت کی تکمیل نہیں ہوتی جس طرح جسم کے لیے اگر آپ دیکھیں تو حضرت سلطان باھُو رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کہ مَیں نے شریعت کو اپنا پیشوا بنائے رکھا ، ہر مرتبہ مَیں نے شریعت کے ذریعے سے حاصل کیا یہ ہے کہ جسم احکامِ الٰہی کے تابع ہوجاتا ہے ۔
﴾وَ اَطِی±عُوا اﷲَ وَاَطِی±عُوا الرَّسُو±لَج ﴿(۱۱)
ترجمہ:اور اللہ اور اور اس کے رسولﷺکی اطاعت کرو-
اسی طرح جو عقل ہے اس پر یہ لاز م ہو کہ وہ اس فکر کے تابع سوچے جو فکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مکمل فرمائی ہے جس کی ایک واضح مثال ہمارے سامنے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کی ہے - رموزِ بیخودی میں علامہ کی ایک نظم ہے عرضِ حال مصنف بحضور رحمة للعالمین کہ مصنف کی عرض حال رسالتمآب سرور ِدوجہان محمد رسول اللہﷺکی بارگاہ کے اندر اور وہ کیا ہے؟ علامہ اقبال آقاﷺکی بارگاہ میں عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں
گر دلم آئینہ¿ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قرآں مضمر است(۲۱)
یہ دعویٰ جو آقا ﷺکی بارگاہ میں اقبال نے کیا ہے مَیں پورے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ کسی عاشق نے یہ دعویٰ آقاﷺکی بارگاہ میں نہیں کیا - جتنا یقین ہے اس کو اپنی فکر کا کہ میری فکر قرآن کے تابع ہے ،میرا پیغام قرآن کا پیغام ہے -
یارسول اللہ ﷺ!اگر میرا دل آئینہ¿ بے جوہر ہے اگر میرے دل میں آپﷺکی ذات کی جلوہ نمائی نہیں ہے ، اگر میرے دل میں آپ کا ادب اور آپ کا عشق نہیں ہے ،یارسول اللہﷺ! اگر میرے حرفوں میں ، میرے کلام میں، میری نظموں میں، میری غزلوں میں، میرے ترانوں میں، میری نثر میں اگر قرآن کے علاوہ کوئی اور فکر پائی گئی ہے تو یارسول اللہ ﷺآپ کو یہ اختیار حاصل ہے ، یارسول اللہﷺ آپ یہ کرنے کے مجاز اور مختار ہیں کہ میری فکر کی حرمت کا پردہ آپ تار تار فرمادیں اگر میری فکر میں قرآن کے علاوہ کچھ ہے -
پردہ¿ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن (۳۱)
یارسول اللہﷺآپ کی اُمت ، آپ ﷺکی ملت ، آپﷺکے عشاق کا یہ میدان ، خیابان اور ایک باغ کی مثال رکھتا ہے اگر میرے کلام میں قرآن کے علاوہ کوئی اور فکر پائی جاتی ہے تو اقبال کے سے کانٹے کو اپنے باغ سے نکال دیجیئے- یارسول اللہﷺاگر میرے کلام میں قرآن کی فکر کے علاوہ کچھ ہے ، آپﷺکے عشق کے علاوہ کچھ ہے ، آپ کے ادب کے علاوہ کچھ ہے ، آپ کی محبت کے علاوہ کچھ ہے
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ¿ پا کن مرا (۴۱)
یارسول اللہ a مجھے قیامت کے دن ذلیل اور خوار کردیجیئے یہاں تک کہ مجھے اپنے قدموں کے بوسے سے بھی محروم کردینا- اگر میری فکر میں قرآن کی فکر کے علاوہ کچھ ہے اگر میرے کلام میں آپ کے عشق اور آپﷺکی محبت کے علاوہ کچھ ہے-
یہ دعویٰ آقا ﷺکی بارگاہ میں کسی نے نہیں کیا اس لیے فکر کو قرآن کے تابع رکھو - ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہم قرآن کو اپنی فکر کے تابع کردیتے ہیں اپنی فکر کے مطابق قرآن کا ترجمہ کرتے ہیں ، اپنی فکر کے مطابق قرآن کو ڈھالنا چاہتے ہیں خود قرآن کے مطابق ڈھلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے - قرآن نے بنیادی پیغام دیا تفریقیں ختم کرو :
﴾وَاع±تَصِمُو±ا بِحَب±لِ اﷲِ جَمِی±عًا وَّلَا تَفَرَّقُو±ا﴿ (۵۱)
ترجمہ:اللہ کی رسی کو پکڑو تفرقوں میں مت پڑو ۔
کیا ہمارے درمیان مذہبی تفرقے نہیں ہیں ؟ کیا ہمارے درمیان سماجی تفرقے نہیں ہیں ؟ مذہبی تفرقوں کے بہت گریبان پکڑے جاچکے یہ سماجی تفرقے کیا ہیں ؟ اعلیٰ ذات اور ادنیٰ ذات کا یہ ہندوانہ تصور جو ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے کیا یہ تفریق نہیں ہے ؟ کسی کواعلیٰ کہنا ، کسی کو ادنیٰ کہنا یہ کس نے اختیار دیا ہے کسی کو؟ یہ مَلک ہے ، یہ خان ہے ،یہ چوہدری ہے ، یہ َمہر ہے ، یہ اعوان ہے ، یہ پٹھان ہے ، یہ تُرک ہے ، یہ عرب ہے ، یہ راجپوت ہے اور یہ کَمی ہے یہ کمین ہے ، یہ تفرقہ نہیں ہے ؟ یہ قرآن سے انحراف نہیں ہے کیا ؟ یہ سنت رسول ﷺ سے انحراف نہیں ہے کیا ؟کہاں پہ اس بات کی اجازت دی گئی ؟ پھر کہتے ہیں
(جی کہ انگریز دا ایہہ قانون ہَئی، اوہ نوکری دیوے ہا کہنوں تے پہلے اوہندی ذات وہندا ہَئی ، قوم وہندا ہَئی ، قوم ڈٹھے بغیر سائیں اوہ تے نوکری نئیں ڈیندا ہَئی ۔ اگر انگریز دے اصول تے چلنا ہے تے انگریز دا کلمہ پ©ڑھو انگریز دی کتاباں نوں منو ، مسلمان اکھاون دی کیا لوڑ ہَے )
انگریز کا دستور نہیں اللہ کے دستور کو مانو ، اللہ کے قانون کو مانو، نبیﷺکی سنت کو مانو ،حضورﷺنے ان تمام تفرقوں کو ختم کیا اور وہ معیار اور وہ مقام قائم کیا انسانیت کی بنیاد پر اپنے صحابہ کے درمیان کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ جو سردار قبیلوں سے تھے ،بڑے بڑے اعلیٰ قبیلوں سے تھے وہ جب بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے تو کس شان سے مخاطب کرتے
﴾البلال ھو سیدنا﴿
بلال ہمارا آقا ہے -
اپنی فکر کو قرآن کی فکر کے تابع کرو ، اپنی فکر کو الہام کی ،وحی کی فکر کے تابع کرو اور ہماری رُوح وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب میں پہنچ جائے ، جب ہماری رُوح کو وہ غذامیسر آتی ہے ، جب ہماری رُوح کو وہ خوراک ملتی ہے کہ ُروح جس چیز کو دیکھ کے پلتی ہے ، رُوح کی پرورش جس چیز سے ہوتی ہے ، مَیں بات کو مختصر کرتے ہوئے آخر میں ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں جو حضرت سلطان باھُو رحمة اللہ علیہ نے اپنی تصنیف مبارکہ عین الفقر میں بیان فرمایا ہے کہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب یہ چاہا کہ میں پہچانا جاﺅں تو سب سے پہلے اپنے نور کا اپنے اسم ذات اسم اللہ کی صورت میں ظہور فرمایا اور پھر اپنے نورِ ذات سے نورِ مصطفی ﷺکو ظاہر فرمایا پھر نور مصطفی ﷺسے ایک لاکھ چوبیس ہزار ارواح کو پیدا فرمایا ، پھر اللہ تعالیٰ نے چار ہزار سال تک اپنے اسم ذات اللہ کی صورت میں اپنے انوار و تجلیات کا دیدار کروایا -
اور اس پہ ایک دلیل دیتے ہوئے حضرت سلطان باھُو رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھر ان تمام ارواح کو مقامِ الست پر اکٹھا فرما کے ان رُوحوں کو خطاب فرمایا
﴾اَلَس±تُ بِرَبِّکُم± ط﴿(۶۱)
اے روحو کیا مَیں تمہارا رب ہوں؟
تو تمام ارواح عرض کرتی ہیں
﴾قَالُو±ا بَلٰیج شَہِد±نَاج ﴿(۷۱)
ہم گواہی دیتی ہیں کہ تو ہمارا رب ہے -
حضرت سلطان باھُو رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی اور صفت کا اظہار نہیں کیا صفتِ ربوبیت کا اظہار کیوں فرمایا کہ
اس وقت صرف ارواح تھیں کھانے کی کوئی چیز نہ تھی ، پینے کی کوئی چیز نہ تھی ، آسمان کی روح تھی آسمان نہ تھا ، پتھروں کی روح تھی پتھر نہ تھے ، زمین کی روح تھی زمین نہ تھی ، انسان کی روح تھی انسان نہ تھا کھانے پینے کی اشیاءکی روحیں تھیں اشیاءنہ تھیں نہ کچھ کھا رہی ہیں نہ کچھ پی رہی ہیں پھر وہ ارواح کس چیز میں پل رہی ہیں کہ اللہ کے رُوبرو یہ گواہی دیتی ہیں کہ الٰہ العالمین ہم یہ گواہی دیتی ہیں کہ تو ہمارا پالنے والا ہے - آپ فرماتے ہیں کہ وہ ارواح اسم اعظم کی اسم اللہ کی صورت میں اللہ کے انوار و تجلیات کے مشاہدہ میں پل رہی تھیں معلوم ہوا کہ روح کی خوراک ،روح کی غذا اللہ کے اسم ذات کی صورت میں اس کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ہے جب جسم اللہ کی شریعت کے تابع ہوجاتا ہے جہاں اقبال فرماتے ہیں کہ
پس طریقت چیست اے والا صفات
شرع را دیدن باعماق حیات(۸۱)
تجھے معلوم ہے کہ طریقت کس چیز کا نام ہے ؟شریعت کو زندگی کی گہرائیوں کے ساتھ دیکھنے کانام طریقت ہے -
جب تو اپنے وجود پر شریعت مصطفی ﷺکو نافذ کردیتا ہے تو طریقت کا راہی ہوجاتا ہے-اپنے وجود کو شریعتِ مصطفی ﷺکے تابع کردے ، اپنی عقل کو قرآن کے تابع کردے اور تیری رُوح اسم اعظم کی صورت میں اللہ کے انوار و تجلیات کے مشاہدے میں غرق ہوجائے پھر جب یہ مقام آجائے گا تو تیرا جسم فعل بن جائے گا ،تیری عقل فاعل بن جائے گی تیری رُوح مفعول بن جائے گی- مَیں کہنا اس سے یہ چاہتا ہوں کہ یہ جسم عشق بن جاتا ہے ، عقل عاشق بن جاتی ہے اور رُوح معشوق بن جاتی ہے - جسم محبت بن جاتا ہے ،عقل مُحبّ بن جاتی ہے اور رُوح محبوب بن جاتی ہے -جسم علم بن جاتا ہے عقل عالم بن جاتی ہے اور رُوح معلوم بن جاتی ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ جب جسم عشق ہوجائے عقل عاشق ہوجائے رُوح معشوق ہوجائے ، جب جسم محبت ہوجائے عقل مُحبّ ہوجائے رُوح محبوب ہوجائے ، جب جسم علم ہوجائے عقل عالم ہوجائے اور رُوح معلوم ہوجائے یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ان تینوں کے اندر اِتصال پیدا ہوجاتا ہے ، ان تینوں کے اندر وہ وحدت پیدا ہوجاتی ہے یہ ایک دوسرے سے متصل ہوجاتی ہیں ، یہ ایک دوسرے میں باہم دیگر پیوست ہوجاتی ہیں یہاں عقل کو دیکھیں تو جسم معلوم ہوتی ہے جسم کو دیکھیں تو عقل معلوم ہوتا ہے ، جسم کو دیکھیں تو رُوح کی کیفیت نظرآتی ہے جہاں انسان کا جسم اس کی رُوح کا مظہر بن جائے اور اس کی رُوح اس کے جسم کا مظہر بن جائے یہاں آکے انسانیت کی تکمیل ہوجاتی ہے اور یہی وہ تکمیل تھی جس کے لیے آقاﷺکو مبعوث فرمایا گیا تھا-
اس لیے آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تباہی اور بربادی سے ہم دوچار ہوتے پھرتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو شیر ہوتے ہوئے بھیڑوں کے ریوڑ میں رکھا ہوا ہے ۔ ہم اپنے آپ کو بھیڑوں کے ریوڑ سے نکالنے کے لیے تیار نہیں کوئی شیر آبھی جائے پوچھ لے کہ ہم کون ہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ بھیڑ- لیکن ضرورت ہمیں اس کی ہے کہ ہمیں ایک ایسا شیر میسر آئے کہ جو ہمیں ہماری اس حقیقت سے آشنا کردے اور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمة اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ سے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین یہی پیغام لے کر آئی ہیں کہ خدا را آئیے اور ہم اپنی حقیقت کو پہچانیں ، ہم اپنے اندر کے اس تصوّر کو پہچانیں اور ہم اپنے باطن کی ان ترجیحات کو سمجھیں جن کی وجہ سے ہمارا شرف قائم ہوتا ہے ، جن کی وجہ سے ہماری فضیلت قائم ہوتی ہے جن کی وجہ سے ہمارے باپ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو مسجودِ ملائک کا درجہ دیا گیا ، خلیفة اللہ کا درجہ دیا گیا ، اللہ کے نائب کا درجہ دیا گیا اور جب تک ہم اپنی انسانیت کی تکمیل نہیں کرتے جب تک ہمارا جسم ہماری عقل کے، ہماری عقل ہماری روح کے تابع نہیں ہوجاتی اس وقت تک انسانیت ان ظلمت کے اندھیروں سے نہیں نکل سکتی، جہالت کے ان اندھیروں سے نہیں نکل سکتی وہ لوگ جو ریوڑیے کہلاتے تھے ، جو گڈریے کہلاتے تھے ، جو بدو کہلاتے تھے ان کو آقاﷺنے کس قوت سے بیدار فرمایا تھا وہ یہی قوت تھی کہ آقا ﷺ نے ان کا تزکیہ فرما کے ان کے سینوں کو روشن کردیا تھا ان کے قلب کو روشن کردیا تھا ، ان کی عقل کو روشن کردیا تھا مَیں انہی الفاظ کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
الٰہی آرزو ہے اگر منظور ہوجائے
تیری پہچان سے ہر مومن کا دل پُر نور ہوجائے
و آخر دعوانا عن الحمد للّٰہ رب العلمین
ا¿و¿ی¿
کتابیات:
(۱)(سورہ الانشقاق :۶)
(۲)(علامہ اقبال، پس چہ باید کرد، فقر)
(۳)(البقرہ:۱۳)
(۴)(الدھر:۲)
(۵)(بال جبریل)
(۶)(علامہ اقبال، پس چہ باید کرد، فقر)
(۷)(ابیات باھُو)
(۸)(مرقات،شرح مشکوٰة)
(۹)(الحجر:۹۲)
(۰۱)(عین الفقر)
(۱۱)(التغابن:۲۱)
(۲۱)( علامہ اقبال ،رموزِ بیخودی ،عرضِ حال مصنف بحضور رحمة للعالمین)
(۳۱)(ایضاً)
(۴۱)(ایضاً)
(۵۱)(ال عمران:۳۰۱)
(۶۱)(الاعراف:۲۷۱)
(۷۱)(الاعراف:۲۷۱)
(۸۱)(علامہ اقبال ، پس چہ بایدکرد ، در اسرار شریعت)