ملک گیر دورہ

ملک گیر دورہ

ملک گیر دورہ

مصنف: ادارہ مارچ 2017

لیکن اس قید خانہ کی ظلم و جبر کی چکی میں پِستی انسانیت کے قلوب و اذہان میں  کیاجنّت کے تصوّرات جاگزیں ہو سکتے ہیں؟ اگر حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے کے احوال تبدیل کر سکتے ہیں اور آقا علیہ الصلوۃ و السلام اپنے روضہ اور منبر کے درمیان جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ کی بشارت دے سکتے ہیں  اور آپ  (ﷺ)کے جانثاران کو ان کی ظاہری زندگی اور دُنیا میں ہی اطمینانِ قلب نصیب ہو سکتا ہے جو کہ جنّت کی نعمتوں  میں سے ایک نعمتِ غیر مُترقبہ ہے، تو کیا بعید ہے کہ انسان دُنیا کی چند مقیّد گھڑیاں بھی بہ راحت گزارتے  ہوئے ہمدوشِ ملائکہ ہو کر  ثُریا میں اپنے وطنِ اصلی کی راہ ناپے-انسان کو در حقیقت اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس کی روح کس چیز کی متلاشی ہے اور اس کی بے چینی و بے قراری کا سبب کیا ہے؟ انسانِ نادان اپنی تڑپتی روح کے قرار کے لئے دولت کے انبار پہ انبار لگائے جا رہا ہے، دل کے اطمینان کی خاطر دُنیا کی ہر چیز کو دل میں بسائے جا رہا ہے  لیکن سکون نام کی چیز پھر بھی عُنقاء ہے- انسان ثروتِ بے مُروّت کی خاطر اپنے ہی ہم جنس کے خون کو چوس رہا ہے،اپنی ہی نسل کے گوشت کو نوچ رہا ہے،اپنی  ہی اولاد کی سہولیات و آسائش کی خاطر اخلاقیات کے جنازے نکال رہا ہے اور یہ بھی گمان رکھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے، وہ غلط ہو ہی نہیں سکتا-

اگر انسان سبھی کچھ ٹھیک کر رہا ہے اور کر سکتا ہوتا تو پھر خالقِ حقیقی اس کی اصلاح کے لئے لاکھوں سے زائد تربیت یافتہ انبیاء کرام  مبعوث نہ فرماتا، نبوّت کا سلسلہ رُکا،تو اولیا و صالحین  علمائے کرام کی یہ ڈیوٹی نہ لگاتا کہ انہیں ’’ایام اللہ‘‘  کی یاد دلائیں ، شاید اس بھولی بھٹکی اشرف المخلوق کو اپنی اصلی تاریخ میں سے کچھ یاد آ جائے اور اپنے حقیقی مستقبل کے بارے کچھ سوچ سکے-دراصل انسان کی ساری خوشیوں اور غموں کا مرکز انسان کا اپنا دل ہےاور یہ بھولابسرا اپنے اسی مرکزِ راحت سے بے خبر،فرحت کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھر رہا ہے-یہ سمجھتا ہے کہ شاید شکم کی طرح قلب کو پُر کرنے سے یہ دل بھی مطمئن ہوگا لیکن تمام انبیائے کرام،مرسلین اور تمام صالحین کی زندگیوں کا خلاصہ یہ کہتا ہے کہ  قلب و شکم کے  لوازمات جدا جدا ہیں،شکم پُر ہوکر مطمئن ہوتا ہے اور قلب خالی رہ کر اطمینان اور راحت پاتا ہے-  یہ قلب جتنا یکتا بخدا ہوکر تنہا ہوگا اتنا ہی یہ باصفا ہوگا ،اتنا ہی باوفا ہوگا،اتنا ہی باحیا ہوگا ،اتنا ہی یہ باسخا ہوگا-  ہم اپنے بچپن کی پُرسکون زندگی کو سبھی یاد کرتے ہیں لیکن  کبھی اس طرف دھیان نہیں گیا کہ  ہم بچپن میں بے غرض اور لڑکپن میں خود غرض کیوں بن گئے،جوانی میں ہوس پرست اور بڑھاپے میں لالچی کیوں ہو گئے-کبھی ہم نے یہ سوچا  ہی نہیں کہ بچپن میں ہمارے قلب بڑے اور دماغ چھوٹے تھے اور بڑے ہوکر دماغ بڑھتا گیا اور قلب چھوٹے سے چھوٹا  ہوتا گیا- گویا خُرد سالی میں عشق کا میدان وسیع اورعقل و خِرَد کا میدان تنگ تھا لیکن کُہن سالی میں خِرَد کا میدان وسیع ہوا تو ہمارے عشق کا میدان تنگ پڑ گیا او ر آج ہم سبھی اسی عقلِ عیّار کے سو بھیس بدلنے کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں- 

اسی عیّار زمانے کے بیمار انسان کو میدانِ عشق میں اُتارنے کی خاطر ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘شہر شہر،نگر نگر،قریہ قریہ  جا جا کر ہر صاحبِ قلب کے دل پر دستک دے رہی ہے  اور ہزاروں افراداس دستک پر لبیک کہتے ہوئے  مجمعِ عشق رسول(ﷺ)، میدانِ محبتِ الٰہی  اور قرآن و سنت کے عقلی و منقول فضاء میں داخل  ہو رہے ہیں-یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیرتمام مکاتبِ فکر،تمام مذاہبِ عالَم کے لوگ سنتے اور تسلیم کرتے ہیں-اس جماعت کے اس اعلیٰ معیار کا سہرا جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی  صاحب مدظلہ الاقدس  کے سَر  ہے جو اپنے مرشد  اور اِس تحریک کے بانی سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) (۱۹۴۷ء-۲۰۰۳ء) کے مشن پر حقیقی معنوں میں گامزن ہیں-آپ مدظلہ الاقدس  کی  قیادت میں سالانہ میلادِ مصطفےٰ و حق باھُو کانفرنسز کے ہر شہر میں کامیاب انعقاد ہوتا ہے اور ہر ہر شہر سے ہزاروں افراد کی شرکت   اور آپ مدظلہ الاقدس  کے دستِ حق پر تجدیدِ عہد  کرنا نہ صرف آپ مدظلہ الاقدس  کی قیادت پر اطمینان کا اظہار ہے بلکہ راہِ حقیقت کے متلاشیوں کے قلبی و روحانی سکون کا بھی ضامن ہے-

ہر شہر میں پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد  نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے-صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق  کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب اور مفتی منظور حسین صاحب  خطاب کرتے ہیں-

پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت  جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت و تجدیدِ عہد کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت و تجدیدِ عہد کرنے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-

اس سال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کے تیسرے راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-

لیہ: 2017-01-16 خورشیدشاہ گراؤنڈچوک اعظم ،لیہ

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’قرآن کی صرف تلاوت باعثِ اجرضرور ہے، مگر قرآن پاک کے احکامات کو عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے- ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیم کے ساتھ تعلق نہیں ہے اگر ہے تو ہم اس کو اپنے اوپر نافذکرنے سے قاصر ہیں-اسلام کا آغاز ہی علم سے ہوتا ہے،تمام انبیاء کرام(رض) معلم تھے یعنی تعلیم عطا فرماتے تھے -آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے  اعلانِ نبوت کے بعد تئیس(۲۳) برس تعلیم ہی تو فرمائی ہےاور حضور پاک(ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’مانحل والدٌ ولداً خیراً لہٗ من نحْلٍ افضل من ادبٍ حسنٍ‘‘ [1](سنن الترمذی ، کتاب البر والصلۃ)

’’والد کا اپنی اولاد کے لئے سب سے اچھا اور افضل تحفہ یہ ہے کہ وہ اسے حسنِ ادب کی تعلیم عطا کرتا ہے‘‘-

پھر دوسرے مقام پر ابو رافع (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور پاک (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی  کہ جس طرح والد کا اپنی اولاد پر حق ہے اسی طرح کیا اولادکا بھی اپنے والد ین پرکوئی حق ہے؟

’’نَعَمْ حَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ أَنْ يُعَلِّمَهُ الْكِتَابَةَ، وَالسِّبَاحَةَ، وَالرَّمْيَ، وَأَنْ يُوَرِّثَهُ طَيِّبًا ‘‘[2] (سنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب السبق والرمی)

’’اولاد کا والدین پر یہ حق ہے کہ وہ ان کو لکھنے کی تعلیم عطافرمائیں، وہ ان  کو تیر اندازی سکھائیں اور ان کو حلال مال کا وارث بنائیں‘‘-

آپ(ﷺ) کے بعد اولیاء کاملین اور صوفیاء کرام نے اس طریق کو اپناکر اپنے حلقۂ احباب کی تربیت فرمائی  اور بالخصوص غوث الثقلین حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ)نے ایسی چیزوں کا ذکر فرمایا کہ اگر ان کو اپنا لیا جائے تو دنیاو آخرت کی فلاح آدمی کا مقدر بن جائے-حضور غوث الاعظم (رض) کی کتاب و سُنت کی حقیقی و رُوحانی تعلیمات جب تک پریکٹس ہوتی رہی ہیں تب تک معاشرے کی اخلاقیات کا دیوالیہ نہیں نکلا  اور لوگوں میں خُدا خوفی و خدا ترسی موجود تھی ،مگر جیسے جیسے  شدت پسندانہ تاویلات اور مذہب کے لبادے میں سیاسی مفادات کے حصول پہ مبنی متعصبانہ تشریحات کی نفرت انگیزیاں پروان چڑھی ہیں معاشرہ پتھر دِل ہوتا چلا گیا اور ہم نے اللہ کی زمین کا چہرہ خون آلود کر دیا -  مثال کے طور پہ اگر حضور غوث الاعظم (رض) کی دس نصیحتیں ہیں جو آپ نے فرمائی ہیں اختصار کرتے ہوئے عرض کروں گا اور اگر اِن پہ عمل پیرا ہونے کے لئے کسی شیخِ کامل سے راہنمائی لی جائے تو انسانی سماج کی تقدیر بدل جائے :

1)       کسی بھی حالت میں اللہ کی قسم نہ اٹھاؤ

2)       جھوٹ بولنے کی عادت کو ترک کرنا

3)       جب بھی کسی سے وعدہ کرو اس کو پورا کرنا

4)       مخلوق میں سے کسی کو بھی لعنت نہ کرنا

5)     مسلمان پہ کفر و شرک کا فتویٰ نہ لگانا

6)       بد دعا نہ کرنا

7)       ظاہری اور باطنی برائی سے پرہیز کرنا

8)       اپنی غلطی کو تسلیم کرنا نہ  کہ دوسرے پر الزام لگانا

9)       طمع کو ترک کرنا

10)   تکبر کی بجائے عاجزی اورانکساری کو اختیار کرنا

آپ سالکین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’فاذااَقامواہا واحکموا ہا باذن اللہ تعالیٰ‘‘ یعنی جب انہوں نے اللہ کے حکم سے ان دس باتوں کو قائم کیا اور ان پہ پختہ ہو گئے تو ’’وصلوا الیٰ المنازل الشریفہ‘‘وہ اعلیٰ ترین منازل کو جا پہنچے ‘‘-

بھکر:                                             2017-01-17                        بمقام جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھُو، ذمّے والا،بھکر

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب نے ’’دین میں مسافر کے حقوق‘‘ پہ تحقیقی و تفصیلی طویل خِطاب فرمایا ، آپ نے فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ کی چاہت یہ ہے کہ اِنسانی معاشرہ کسی نہ کسی طرح آپس میں جُڑا رہے -   رنگ ، نسل ، زبان اور خطے کے اختلاف کے با وجود اُلفت و محبت کے ایسے رشتے پیدا فرمائے تاکہ اجنبیت اور دوریاں ختم ہو کر رہ جائیں -مثلاً جو مسافر ہے وہ کئی اجنبی علاقوں سے،اجنبی زبانوں سے اور اجنبی لوگوں سے گزرتا ہے مگر کتاب و سُنّت نے اُس کو اِس انداز میں حقوق عطا کئے اور لوگوں کو اُس کی نگہداشت کا حکم کیا کہ اگر انسانی معاشرہ پوری روح سے اس پہ عمل پیرا ہو جائے تو اجنبیت اپنائیت میں بدل جائے اور انسانوں کے لئے کوئی بھی خطہ یا کوئی قبیلہ یا کوئی زبان اجنبی نہ رہے - قرآن پاک میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے مال کے معاملہ میں کثیر مقامات پہ مسافر کا الگ حصہ مقرر کرنے کے احکامات فرمائے ہیں ،جن میں سے چند ایک چیزیں بطور مثال کے عرض کروں گا:

’’(۱) اللہ پاک کی محبت میں مال دینے کی باری آئی تو مسافر کا ذکر فرمایا [3](البقرہ: ۱۷۷)

(۲) آقا کریم ﷺ سے مال خرچ کرنے کے مصارف میں پوچھا گیا تو مسافر کا ذکر فرمایا [4] (البقرہ: ۲۱۵)

(۳) مالِ غنیمت اور [5] (الانفال:۴۱)

(۴) مالِ فئے کے مصارف کا ذکر آیا تو مسافر کا حصہ مقرر کیا [6](الحشر: ۷)

(۵) زکوٰۃ کے مستحقین کا تذکرہ ہوا تو مسافر کا ذکر فرمایا [7] (التوبہ: ۶۰)

(۶) جہاں فضول خرچی کی بجائے مختلف طبقات کے حقوق کو ادا کرنے کی تلقین فرمائی تو مسافر پہ بھی تلقین کی [8](الاسرأ : ۲۶)

(۷) رمضان المبارک کے روزوں میں مسافر کو چھوٹ دی [9] (البقرہ: ۱۸۵)

(۸) نماز میں مسافر کے لئے رعایت و تخفیف فرمائی [10] (النسأ: ۱۰۱)

(۹) مچھلی کو حلال فرماتے ہوئے مسافر کی تخصیص فرمائی[11](المائدہ: ۹۶) 

(۱۰) مسافر کو کھانا طلب کرنے کی شرعی اجازت عطا فرمائی گئی اور [12](الکہف: ۷۷)

(۱۱) یہاں تک کہ مسافروں کی مہمان نوازی کو اپنے محبوب و برگزیدہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سُنّت کے طور پہ پیش فرمایا- [13](الذاریات: ۲۴ تا ۲۶)

آقا پاک (ﷺ)نے فرمایا کہ ’’مسافر کے راستے سے تکلیف دینے والی چیز دور کرنا صدقہ ہے‘‘- [14] (صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب) گویا مسافر کو از روئے ایمان اگر دیکھا جائے تو وہ بغیر کسی دُنیاوی و سیاسی منصب کے بھی ایک چلتا پھرتا ’’وی آئی پی‘‘ ہے جس کو راحت پہنچانا اور اس کی ضروریات کا خیال رکھنا درجۂ عبادت میں آتا ہے اور اُسے تکلیف دینا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لینے کے مترادف ہے سیّدنا ابو ہریرہ (رض) کی مروی   حدیثِ پاک کے مطابق تین دعاؤں کی قبولیت میں شک نہیں رِہ جاتا :

1) مظلوم کی دُعا

2) مسافر کی دُعا

3) والد کی اپنے بیٹے کے خلاف دُعا  [15] (جامع الترمذی ، کتاب البر والصلۃ)

امام ابوالحسن واحدیؒ (متوفی۴۶۸ھ) نے نقل فرمایا ہے کہ  حضرت عبد اللہ ابن عباس(رض) فرماتے ہیں کہ مسافر کے تم پر دو حقوق ہیں:

1) سفر

2) پڑوسی یعنی ساتھی  [16](تفسیر الوسیط)

یہاں تک کہ انسان اگر اپنے اندر غور کرے تو انسان کا جسم اور روح دونوں مسافر ہیں-جسم کا روح پر اور روح کا جسم پر حق ہے-جسم کا حق ہے کہ عبادت سے آرام حاصل کرے اور روح کا حق یہ ہے کہ ’’ذکر اللہ‘‘ سے اطمینان پکڑے‘‘- 

میانوالی                                                   2017-01-18                                        ہائی سکول گراؤنڈ ،میانوالی

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’اس وقت ہمیں اس پیغام کی ضرورت ہے جو ہمارے دلوں میں امید اور یقین کو پیدا کرے باوجود خطاؤں اور گناہوں کے -ہمارا وجود کس طرح اس قا بل بن سکتا ہے  کہ ہم اللہ اور اس کے رسول پاک (ﷺ) کے دین کے مددگار بن سکیں-اس مایوسی کوترک کر کےاور امید کو پیدا کرنے کے لئے جب ہم اللہ پاک کے کلام،قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک (ﷺ) کے بارے  میں تو فرمایا ہی ہے مگر اس پستی میں مبتلا اُمت کے لئے بھی بہت بڑی بشارت  بیان فرمائی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی‘‘[17](الضحیٰ:۵)

’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ‘‘-

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس مرحوم امت کے لئے بہت بڑی بشارت دی ہےکیونکہ حضور پاک(ﷺ)اس وقت تک راضی نہیں ہونگے جب تک ایک اُمتی بھی جہنم میں ہوگا[18] (المحرر الوجیز، ابن عطیہ الاندلسی)- ہمیں  اپنے اُوپرناز ہونا چاہیے کیونکہ ہم اس کریم آقا (ﷺ) کے اُمتی ہیں جنہیں ہماری فکر اور ہمارا غم ہے جتنا ہمیں بھی اپنا نہیں ہے-آقا پاک(ﷺ)اپنی امت کے لئےاللہ تعالیٰ کے حضور اس حد تک دعافرماتے کہ آنسو مبارک  بہنا شروع ہوجاتے-حضور پاک(ﷺ) اپنی اُمت سے اس قدر محبت فرماتے کہ اُس زمانہ میں بھی آپ(ﷺ) کی  محبت کا انداز دیکھیےکہ آقا پاک(ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں صحابہ کرام (رض) کی جانب سے  سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) ! کیا ہم سے کوئی بہتر ہو سکتا ہے ؟ کیونکہ ہم  (ﷺ) آپ کے ہوتے ہوئے ایمان لائے اور آپ (ﷺ) کی معیّت میں جہاد کیا ، تو اس سوال پہ آقا کریم (ﷺ)  نے فرمایا:

’’یکونون من بعد کم  یومنون بی ولم یرونی‘‘[19] (مُسند امام احمد بن حنبل)

’’ وہ میرے بعدہوں گے مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہوگا‘‘-

علمائے اُمت نے اس کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ یہ بات فضیلت کی نہیں کیونکہ ہزارہا عبادتوں اور ریاضتوں کے باوجود ایک صحابی کے منصب کو نہیں پہنچا جا سکتا بلکہ یہاں آقا علیہ السلام نے اپنی اُمت پہ پیار فرمایا ہے کہ میرے صحابہ کا شرف یہ کہ وہ مجھے حالتِ ایمان میں دیکھنے کی سعادت سے شرف یاب ہوئے اور میری اُمت کا شرف یہ ہوگا کہ وہ مجھے دیکھے بغیر مجھ سے شدید محبت کریں گے-اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے  عمل و کردار کو  قرآن و سنت کے مطابق بنائیں تاکہ ہم پراللہ اور اس کے رسول پاک (ﷺ) کو پیار آجائے اور ہم ان کے مقبول ترین بندوں میں شامل ہوجائیں‘‘-

خوشاب                                      2017-01-19                                        پریس کلب گراؤنڈ جوہر آباد،خوشاب

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’اِس میں کوئی شک نہیں کہ پوری اسلامی دُنیا اِس وقت بد ترین فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے،ہمارا کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں رہا اگر محض علمی و قلمی اختلاف ہوتا تو وہ تو باعثِ خیر ہوتا اور ہوا کا تازہ جھونکا ہوتا مگر یہاں اختلاف مسلح شکل اختیار کر گیا اور رائے سے اختلاف کرنے والا واجب القتل ٹھہرا- یہ سب خون خرابہ کسی بھی طور پراُمت کے مفاد میں نہیں ہے نہ ہی اِس کی کوئی تاویل قابلِ قبول ہونی چاہئے-اس تمام بدبختی کا عروج وہ وقت تھا جب گزشتہ رمضان المبارک کے آخری دِنوں میں اسلامیانِ عالم کے عقیدہ و عقیدتوں کے مرکز حرمِ نبوی (ﷺ) میں بنامِ جہاد دھماکہ کیا گیا اور اس مکرم و مقدس مقام کی حرمت کو پامال کیا گیا -یہ واقعہ تو اپنی جگہ اندوہ ناک و افسوس ناک تھا ہی تھا اس سے بڑھ کر اُمت کی پُر اسرار اور ناقابلِ فہم خاموشی افسوسناک تھی - اس واقعہ کو دُنیائے عرب کے موجودہ حالات میں ’’جرنلائز‘‘نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ گنبدِ خضریٰ پہ ٹارگٹڈ حملہ تھا -  کائنات میں اِس سےبڑھ کر اس سے زیادہ مقدس مقام اور کوئی نہیں ہے کیونکہ یہاں یعنی مدینہ طیّبہ میں  گنبد خضریٰ کے اندر جسدِ مصطفےٰ (ﷺ) موجود ہے-اس شہر کی اس قدر عظمت حضور رسالت مآب (ﷺ) نے ارشاد فرمائی  اور ربِ ذوالجلال نے اسے وہ شرف بخشا جو کسی اور مقام کو نہیں بخشا -

آقا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی : ’’اے اللہ! بے شک تونے مجھے اس جگہ سے ہجرت کا حکم عطا فرمایا جو  جگہ یعنی مکہ مکرمہ مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ مقام تھا - اب  مجھے اس جگہ قیام دے جو جگہ تجھے سب سے زیادہ محبوب ہو‘‘ [20] (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الہجرت)- ایک اور مقام پہ فرمایا کہ’’ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے  جس طرح مکہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مدینہ کی محبت کو پیدا فرمادے[21] (صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ)-   حدیثِ پاک کے مطابق حوضِ کوثر اور باغِ بہشت مدینہ پاک میں ہے[22] (صحیح بخاری کتاب الاعتصام ---)-  ایک نہایت ہی لطیف اور باریک الفاظ کی دُعا ہے آقا علیہ السلام کی جس میں آپ (ﷺ)نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں مکہ و مدینہ کا اپنی ذاتِ اقدس اور سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذاتِ اقدس کے حوالوں سے ذکر فرمایا ہے -  اس حدیثِ پاک کو امام مالکؒ نے مؤطا میں ، امام احمد ابن حنبلؒ نے المسند میں ، امام مسلم ؒ نے الصحیح کی کتاب الحج میں اور امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن کی کتاب الدعوات میں روایت فرمایا ہے :

’’اَللّٰہُمَّ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ عَبْدُکَ وَ خَلِیْلُکَ وَ نَبِیُّکَ ، وَاِنِّیْ عَبْدُکَ وَ نَبِیُّکَ ، وَاِنَّہٗ دَعَاکَ لِمَکَّۃَ ، وَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ لِلْمَدِیْنَۃِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّۃَ وَ مِثْلَہٗ مَعَہٗ‘‘ [23] (مؤطامالک، مسند احمد، صحیح مسلم ، ترمذی)

اے میرے اللہ! (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے، اور مَیں (بھی) تیرا بندہ اور نبی ہوں ، میں ان کی دعاؤں کے برابر (بلکہ) ایک مثل زائد مدینہ کے لئے دُعا کرتا ہوں-  (یعنی میری وجہ سے مدینہ میں مکہ سے دوگنا زائد برکت عطا فرما-)

دورانِ خطاب صاحبزادہ صاحب نے  مدینہ منورہ اورا س سے متعلقات کو تکلیف دینے  کی وعید کو بھی ذکر کیاا ور مستند حوالوں سے بتایا کہ  دَس (۱۰)چیزیں ایسی ہیں جن پر مختلف اَحادیثِ مُبارکہ میں عذاب کی وعید بیان ہوئی  ہے :

1)       ہلِ مدینہ کی عزت نہ کر نا

2)       مدینہ میں جرم کرنا

3)       مدینہ میں جرم کرنے والے کو پناہ دینا

4)       مدینہ میں فتنہ بپا کرنا

5)       اہل مدینہ کو تکلیف دینا

6)       اہل مدینہ کو خوفزدہ کرنا

7)       اہلِ مدینہ کو دھوکہ دینا

8)       اہلِ مدینہ پہ ظلم کرنا

9)       اہل مدینہ سے برائی کا سوچنا یا ارادہ کرنا

10)   قتال کے لئے مدینہ میں ہتھیار اُٹھانا

ان تمام باتوں میں سے کسی ایک کا مرتکب ہونا بھی سزا کا مستحق ہونا ہے تو جو مدینہ منورہ کی پاک زمین پر دھماکے کرے تو وہ کیسے محفوظ ہوگا-صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے مدینہ منورہ کی عظمت میں طویل اور پر سیر گفتگو فرمائی کہ عظمتِ مدینہ منورہ کیا ہے؟اس پاک زمین کو اور اس پاک زمین پر رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کتنا شرف بخشا ہے‘‘-

ہری پور                                      2017-01-20                                        اختر نواز اسٹیڈیم کھلا بٹ ،ہری پور

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’ہم جو کام بھی کریں اس کا مطمع نظر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک(ﷺ) کی رضا و خوشنودی ہونی چاہیے-اللہ پاک کی توجہ کا مرکز خود رسالتِ مآب (ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہےکہ ’’اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول (ﷺ) اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے‘‘[24] (التوبہ: ۶۲) -  آقا علیہ السلام کی رضا تو خود خالقِ کائنات نے چاہی ہے جیسے تبدیلیٔ قبلہ کے موقعہ پہ بھی فرمایا کہ ’’سو ہم ضرور بہ ضرور آپ کو اُسی قبلہ کی جانب پھیریں گے جس پہ آپ (ﷺ) راضی ہونگے‘‘[25] (البقرہ: ۱۴۴) -  علامہ شہاب الدین خِفاجیؒ ’’ نسیم الریاض شرح الشفا للعیاض‘‘ میں بڑی لطیف و جمیل بات فرماتے ہیں کہ افضلیت وجودِ مصطفےٰ (ﷺ) کی ہے وہ (ﷺ) مکہ میں ہوں تو مکہ افضل وہ (ﷺ) مدینہ میں ہوں تو مدینہ افضل اور اگر وہ (ﷺ) جنت میں جلوہ فرما ہوں تو جنت افضل ہو جاتی ہے، وہ (ﷺ) اپنا رُخ مسجدِ اقصیٰ کی جانب رکھیں تو اقصیٰ قبلہ ہے وہ (ﷺ) اپنا رُخ مسجدِ حرام (خانہ کعبہ شریف) کی جانب موڑ دیں تو قبلہ کعبہ شریف کو بنا دیا جاتا ہے -   اعلی ٰحضرت ؒ  امام خِفاجی ؒ کی اسی عبارت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

نعمتیں بانٹا ’’جس سمت‘‘ وہ ذیشان گیا

 

ساتھ ہی مُنشیٔ رحمت کا قلمدان گیا

جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

’’لا اُقْسم بہٰذالبلد وَ اَنت حِل بِہٰذالبلد‘‘[26] (البلد: ۱- ۲)

’’ہم اس شہر (مکہ) کی قسم اِس لئے اُٹھاتے ہیں کہ آپ(ﷺ) اس میں موجود ہیں ‘‘-

اِسی طرح اہلِ مکہ کی نافرمانیوں کے با وجود اُن پہ عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ ذاتِ مصطفےٰ (ﷺ) کی اُن کے درمیان موجودگی ہے ، قرآن پاک میں  ارشاد باری تعالی ہے کہ:

’’وماکان اللہُ لِیُعذِّبَھُم وَ اَنتَ فیھم‘‘[27] (الانفال: ۳۳)

’’اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ ان (مشرکین) پہ عذاب فرمائے ، اس حال میں کہ آپ (ﷺ) بھی ان میں (موجود) ہیں‘‘-

اسی طرح صحیح مسلم میں  حضرت عمر بن خطاب (رض) کی روایت درج ہے کہ  حجراسود کو بوسہ دینے سے پہلے فرماتے کہ:

’’مَیں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے ،اگر میرے آقا پاک(ﷺ) نے تجھے بوسہ نہ دیا ہوتا تو مَیں کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘ [28] (صحیح مسلم شریف، کتاب الحج) -  
ایبٹ آباد                                     2017-01-21                                        کامرس کالج گراؤنڈ، ایبٹ آباد

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’صاحبزادہ صاحب نے توحید اور یقین پہ مدلل و مفصل خطاب فرمایا - آپ نے خطاب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کی ذاتِ اعلیٰ پر یقین کامل رکھے -آقا پاک (ﷺ) نے بھی اپنے صحابہ کرام(رض) کو یقین کامل کی تربیت فرمائی اس لئے صحابہ کرام(رض) یقین کی دولت سے مالا مال تھےکیونکہ ایمان کی خوراک یقین ہے  اگر ایمانی  دولت سے یقین کو نکال دیا جائے  تو ایمان کمزور ہوتا چلا جاتاہے  یہی وجہ ہے کہ یقین کے کمزور ہونے کی وجہ سے عبادت سے سوز و گداز چلا جاتا ہے، سجدوں میں وہ لذت اور سرور باقی نہیں رہتا  -اس لئے اللہ تعالیٰ بندے کی بھلائی کے لئے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کے بندے پر عبادت کا سوز و گداز جاری ہونا چاہیے -کیونکہ اگر یقین کامل ہوتو بندہ کبھی بھی اپنے مالک کے کام میں غفلت نہیں کرتا- حضرت عبد اللہ بن مسعود(رض) روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ)  نے فرمایا:

اَلْيَقِيْنُ الْإِيْمَانُ كُلُّهُ[29] (صحيح البخارى ،کتاب الايمان )

’’’یقین مکمل ایمان ہے‘‘

اسی طرح دوسرے مقام پر حضرت عامر (رض) سے روایت ہے کہ رسول پاک (ﷺ) نے فرمایا:

الشُّكْرُ نِصْفُ الْإِيمَانِ، وَالصَّبْرُ نِصْفُ الْإِيمَانِ، وَالْيَقِينُ الْإِيمَانُ كُلُّهُ [30] (شعب الایمان)

’’شکر آدھا ایمان ہے، صبر  (بھی) آدھا ایمان ہے اور یقین مکمل ایمان ہے‘‘

اس لئے آج ہمیں یقین کی دولت کو حاصل کرنا ہے اور اس یقین کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے کیونکہ تب ہی ہماری کامیابی ممکن ہوگی ‘‘-

اسلام آباد                                     2017-01-22                                        کنوینشن سنڑ،اسلام آباد

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب - 

’’سنگِ پارس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو چیز بھی اس سے مَس ہوتی ہے تو وہ سونا بن جاتی ہے ، اہلِ نکتہ نے کہا ہے کہ وہ سنگِ پارس دراصل نسبتِ مصطفےٰ (ﷺ) کا نام ہے کہ جس بھی چیز کو آقا علیہ السلام کی نسبت نصیب ہو جائے وہ ہر چیز سے افضل و اعلیٰ ہو جاتی ہے -  مثلاً: آپ (ﷺ)کی آل و عترت کی مثل کائنات میں کوئی آل نہیں-

آپ (ﷺ)کے اصحاب کی مثل کسی کے اصحاب نہیں ، آپ (ﷺ)کے لمحات کے مثل کسی کے لمحات نہیں ، آپ (ﷺ)کی اُمت کی مثل کوئی اور اُمت نہیں ،آپ (ﷺ)کی نسبت نصیب ہوئی تو کُل زمین مسجد  بن گئی ،اِسی طرح جس دِیار اور شہر کو آپ (ﷺ) سے نسبت نصیب ہوجائے اُس کی مثل کوئی شہر نہیں-اسی طرح وہ درخت جس کی نسبت آقا پاک (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سےہے ، صحابہ کرام(رض) کے نزدیک محبوب ہو جاتا -  حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ:

’’آپ (رض) نبی پاک (ﷺ)کے آثار کی اتباع کرتے تھےاورہر اس مقام پر نماز اداکرتے تھے جہاں نبی پاک (ﷺ) نے نماز ادا فرمائی ،یہاں تک کہ نبی پاک (ﷺ)  نےایک درخت کے نیچے آرام فرمایاتوحضرت عبداللہ ابن عمر(رض)  بار بار اس درخت کے نیچے آتےپس اس درخت کی جڑوں کو پانی دیتےتاکہ یہ خشک نہ ہوجائے‘‘-[31] (کنزالعمال ، جلد 13، ص 478)

مدینہ منورہ کی دھرتی کو آپ(ﷺ) کی وجہ سے جو فضیلت نصیب ہوئی پوری کائنات میں کسی اور مقام کو نصیب نہیں ہوئی –پھر رسول پاک (ﷺ) کے روضہ اقدس کی فضیلت کو دیکھیں -جو ایک  بار روضہ رسول اللہ(ﷺ) کی زیارت کر لے اس کے بارے میں آقا پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایاکہ:

’’من زار قبری کنت لہ شفیعاً‘‘[32] (شعب الایمان)

’’جو میری قبر پاک کی زیارت کر لے مَیں اس کے لئے  شفاعت کروں گا‘‘-

الفرض جس جس چیز کی بھی نسبت آقا پاک(ﷺ) سے ہوگی وہ معظم بنے گی‘‘-

فتح جنگ                                       2017-01-24                                       

صدارت: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، جگر گوشہ سلطان الفقرصاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب نے شدید بارش اور موسم کی شدت کے باوجود عامۃ الناس کے عظیم اجتماع کو دیکھ کر اہلِ اٹک و فتح جنگ کو تحسین پیش فرمائی اور کہا کہ ایسی محافل جو آقا علیہ السلام کے اسمِ مُبارک سے منسوب ہوں اُن میں آدمی نہ تو کسی مالی، معاشی یا اقتصادی مفاد کی وجہ سے آتا ہے اور نہ ہی کسی مادی منفعت کے لئے ،بلکہ آنے کا مقصد صرف و صرف رضائے الٰہی و رضائے مصطفےٰ (ﷺ) کا حصول ہوتا ہے - آپ سب کا اِس شدید موسم کے باوجود اتنی محبت و ذوق سے آنا اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں -   صاحبزادہ صاحب نے تصوف پہ سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تصوف کتاب و سُنّت کی مکمل متابعت کا نام ہے ہر وہ قول یا فعل جو شریعتِ محمدی (ﷺ) کے خلاف ہو اُسے تصوف قرار نہیں دِیا جاسکتا -  تصوف کے تمام عظیم ترین اکابر کتاب و سُنّت کی عملی تفسیر ہوتے ہیں ، آج تک ’’محی الدین‘‘ یعنی دین کو زندہ کرنے والا کا لقب طبقۂ صوفیاء سے تعلق رکھنے والے نفوسِ قدسیّہ کو مِلا ہے،تو دیکھنا چاہئے کہ وہ دین کو کیسے زندہ کرتے؟ کیا دین محض کرامت و مقامت سے زندہ ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ! دین کو عمل و کردار کی استقامت سے زندہ کیا جا سکتا ہے-بد قسمتی سے ہمارے ہاں مقررانہ و واعظانہ روایت میں فکری سطحیّت کے باعث صوفیائے کرام کی کرامات و مقامات سے بڑھ کر گفتگو نہیں کی جاسکی-

ایک عالم کا فرض ہوتا ہے کہ لوگوں کی راہنمائی ایسے انداز میں کرے کہ لوگ اُس کی عِلمی سطح کو پہنچیں نہ کہ وہ لوگوں کی لاعلمی کے باعث اُن کے لا علمانہ مقام پہ اُتر آئے - صُوفیائے کرام کےساتھ یہ کسی بد دیانتی سے کم نہ ہوگا کہ اُن کی کتب و تصانیف سے استفا دہ نہ کیا جائے اور جس طرح کی فکری و عملی تربیت وہ کرنا چاہتے ہیں اُس پہ عمل پیرا نہ ہوا جائے -  صاحبزادہ صاحب نے سیّدنا محی الدین شیخ عبد القادر الجیلانیؒ کی علمی جہود و جہات پہ روشنی ڈالی ، اور آپؒ کے فقہی و اجتہادی نکات،علمِ تفسیر و حدیث کو بیان کیا اور بتایا کہ طریقِ قادریّہ اپنے آغاز سے اختتام تک محافظتِ شریعت و نگہبانیٔ علمِ شریعت پہ قائم ہے-آج بد قسمتی سے جو خرافات جہالت کے سبب خانقاہوں پہ کی جاتی ہیں اُن کا ان جلیل القدر صوفیاء سے کوئی تعلق نہیں - صوفی ہے ہی وہ جو خرافات سے پاک اور شریعت سے قریب ہو،اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کا بُنیادی مشن اور اس کی دعوت ہی یہی ہے کہ قرآن مجید و احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اولیائے کاملین کی تعلیمات کو عام کیا جائے -  جب تک اولیاء کے طریق پہ لوگ عمل پیرا رہے دین سے تعلق بھی مضبوط رہا اور معاشرتی بگاڑ بھی پیدا نہ ہوا اور قتل و غارت کا بازار بھی گرم نہ ہوا-  مگر جب سے مسلمانوں میں شدت ، تعصب ،نفرت انگیزی ،تکفیری رویہ اور منافرت آئی ہے تب سے عالمِ اسلام کے گلشن و گلستان اجڑ گئے ہیں اور مزید اجڑتے جارہے ہیں یہ تشدد رُکتا نظر نہیں آتا -اِس کے لئے قرآن و سُنّت کی اُس تشریح و تعبیر کی جانب لوٹنا ہوگا جو امن و آشتی اور خلوص و احسان پہ مبنی ہے یعنی صوفیائے کرام کا طریق ! ‘‘-

چکوال                                                                2017-01-25                                       

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: الحاج محمد نواز القادری صاحب-

جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے اپنے تعلق اور نسبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک حکم فرمایا ہے کہ:

’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ ‘‘[33] (العمران:۳۱)

’’اے میرے محبوب پاک(ﷺ)فرمادیجئے! اگرتم چاہتے ہوکہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت فرمائےگا‘‘-

اس آیت مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور پاک (ﷺ) کی اتباع کا حکم فرمایاہےاور حضور نبی پاک (ﷺ)  نےاپنی اتباع میں دو طریق سمجھائے ہیں-پہلے ظاہر  میں عبادت مثلاً کلمہ طیبہ،نماز، روزہ،زکوٰۃ اورحج وغیرہ اور دوسرا باطن میں ذکر اللہ- اگر عبادتِ باطنی کو ترک کر دیا جائے تو سوز اور رِقّت ختم ہو جاتے ہیں جبکہ عبادت کا مزہ ہی اِسی بات میں ہے کہ دِل کی پوری توجُّہ سے اللہ پاک کی عبادت کی جائے -  جب وجود سے باطنی عبادت کی لذت نکل جائے تو وجود پہ شیطان قبضہ جما لیتا ہے،اِس لئے آج! ضرورت اس امر کی ہے کہ ظاہری عبادت کے ساتھ ساتھ قلبی ذکر بھی کیا جائے تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہو‘‘-

جہلم                                                       2017-01-26                                       

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: الحاج محمد نواز القادری صاحب-

’’قرآن پاک بُنیادی طور پہ ہر زمانے کے مسلمانوں اور انسانوں کی راہنمائی و ہدایت کی کتاب ہے مگر ہم نے اِسے اپنے حال پہ نافذ کر کے نہیں دیکھا کہ قرآن ہم سے کیا چاہتا ہے-اللہ تعالیٰ بار بار قرآن پاک میں انسان کو اپنی ذات کی جانب متوجہ فرماتے ہیں کہ انسان کسی طرح فلاح پا جائے اور کامیاب ہو جائے -اس وقت شدیدضرورت قرآن و سنت سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کی ہے کیونکہ تعلق مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے  ہم ذلیل و رسوا ہورہے ہیں-جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر[34] (بانگِ درا)

اگر ہم اپنی اندگی کوقرآن و سنت کےمطابق ڈھال لیں اورقرآن کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرلیں تو ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں- جیساکہ حضور نبی پاک(ﷺ) کا  ارشاد مبارک ہے کہ :

’’خیرکم من تعلمہ القرآن و علمہ‘‘[35] (صحیح بخاری)

’’تم میں سے بہتر ہوہ ہے جوخود قرآن سیکھے اور( دوسروں کو) سکھائے‘‘-

سیکھنا چوتھا درجہ ہےاس سے پہلے تین درجے ہیں:

v      پڑھنا

v      جاننا

v      سمجھنا

پھر عمل کرنا ہے مگر!ہم پڑھنےکو عمل سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ سیکھنا ہے-لیکن حقیقت میں قرآن سیکھنے سے مراد قرآن پاک کی ہر ہر  آیت مبارکہ کو عملی جامہ پہنا کر دوسروں کو اس کے عملی جامہ پہنانے کی تلقین کرنا ہے‘‘-

گوجرانوالہ                                     2017-01-27                                        رحمت پیلس،گجرانوالہ

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس-

خطاب: مرکزی سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب -

’’آج ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم نےاپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس کی جانب متوجہ کیا ہے کہ نہیں؟  کیاہم نے اپنے بدن،عقل،قلب اور روح کا قبلہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کی طرف کیا ہے کہ نہیں؟کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ:

’’وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا[36] (البقرۃ:۱۴۸)

’’ہر ایک کی کوئی نہ کوئی جہت(سمت) ہوتی ہے‘‘-

اس لئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان کے ہونے اور نہ ہونے سے قبلۂ جسم و جان بدل جاتا ہے ، جیسا کہ شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ  نے اپنی تفسیر ’’تاویلاتِ نجمیّہ‘‘میں فرمایا ہے کہ ایمان ہو تو سمتِ توجہ (یعنی قبلہ) ہوگا اور اگر ایمان نہ ہو تو سمتِ توجہ بدل جائے گی-  اگر ایمان نہ ہو تو :

بدن کا قبلہ:

’’فقبلۃ البدن ھی بالتلذذ بالحواس الخمس من الماکولات والمشروب المشموم والمسموع والمبصر والملموس والمرکوب والمنکو

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں