عہدِ الست کی تکمیل کی جانب متوجہ رہنا سالکین کی تربیت کا اہم مرحلہ ہوتا ہے ،شیخ اس جانب بطورِ خاص اُنہیں راغب کئے رکھتا ہے اور ترغیب دئے رکھتا ہے تاکہ وہ اپنےوجود کو صدق و صداقت کا منبع بنا لیں -صوفیائے کرام کے ہاں یہ بحث بہت عام ملتی ہے کہ خوفِ الٰہی و خشیّتِ الٰہی بہت عظیم نعمت ہے مگر رب کا خوف اس کی عظمت و جلال کے باعث ہو اور اس کی محبت کے باعث ہو نہ کہ محض نارِ جہنم یا آتشِ دوزخ کی وجہ سے-اس کے درمیان ایک باریک سا پردہ اور لطیف سا حجاب ہے کہ سزائے آتش کے خوف سے عبادت کی جائے گی یا اُس کی عظمت و جلال کی وجہ سے ؟محبت کو عبادت کی بُنیاد بنایا جائے یا خوفِ سزا کو؟اس پہ صوفیاء کے نزدیک خوف مبتدی کا مقام ہے مگر آدمی جب اُس کے قرب کی منازل طے کرتا جاتا ہے تو پھر خوف کےساتھ ساتھ محبت جاگزین ہو جاتی ہے-گوکہ خوف جُزوِ ایمان ضرور ہوتا ہے مگر بندے کے احساسات پہ غلبہ جذبۂ محبتِ الٰہی کا ہوتا ہے اور محبت الٰہی کے لئے وہ اس عہدِ اَلَست کو یاد کرتے ہیں کہ جس نے میری اوقات سے بڑھ کر اور میری خواہش کے بغیر مجھے اپنے محبوبانہ کلام سے نوازا اور جس نے کُل مخلوقات میں سے مجھے اپنے عہد کے لئے منتخب کیا یہ در اصل اُس ذاتِ بے نیاز کی طرف سے میرے ساتھ اظہارِ محبت کا عہد و میثاق ہے-اِس لئے وہ عہد کو نبھانا اپنی ازلی ذمّہ داری سمجھتے ہیں اور اس سعی میں عمر بسر کرتے ہیں کہ اپنے محبوبِ حقیقی سے غافل نہ ہوں اور نہ ہی کسی ایک سانس کو اُس کی یاد سے غافل ہونے دیں تبھی تو حضرت سُلطان العارفین (قدس اللہ سرہٗ) فرماتے ہیں :
جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ فرمایا ھُو |
مُرشد یہ احساس پیدا کر دیتا ہے کہ اُس وحدہٗ لاشریک کی بے پایاں محبت جو اُس نے اپنے بندوں پہ نازل فرمائی ، اُس سے منہ نہ موڑنا نہ ہی اُسے دِل سے بھلا دینا بلکہ ہر لحظہ اور ہر لمحہ، ہر ساعت اور ہر گھڑی اسی محویت و خیال میں رہنا کہ وہ تیری جانب متوجہ ہے تو بھی اسی کی جانب متوجہ رِہ! وہ تجھ سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تو بھی اُسی کو محبوب رکھ ! اُس نے تجھ سے جتنے وعدے فرمائے ہیں وہ ہر ایک کو پورا کرتا ہے،عزت عطا کرنے کا ،قرب عطا کرنے کا ، درجات عطا کرنے کا،اپنی جانب آنے کے لئے تمام راستے منکشف کر دینے کا اور حتی کہ وہ جو بھی وعدہ کرتا ہے اُسے پورا کرتا ہے اقبال ؒ نے بھی اِس جانب توجہ دلائی ہے[1]-’’إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ‘‘[2]اِس لئے مرشد بتاتا ہے کہ تو بھی سُنّتِ الٰہیّہ پہ گامزن ہو جا اور الست کے دن کئے گئے اس عظیم و غیر معمولی وعدے کو یاد رکھ! جب مرشد یہ سبق سمجھا دیتا ہے تو طالب ہمہ تن متوجہ ہو کر اُسی ذات کی جانب چل پڑتا ہے اور دل و جان اپنے مولا کے سپرد کر دیتا ہے-
سُنیا سخن گیاں کھل اکھیں اساں چِت مولا ول لایا ھُو |
|
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھُو |
صُوفیائے کرام کا عقیدہ یہ ہے (اور اِسی پہ وہ سالک کی تربیت کرتے ہیں ) کہ اس عہد کی پاسداری و وفاداری کے متعلق بروزِ حشر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بارگاہ میں لازمی پوچھا جائے گا -اِس عقیدہ کی دلیل کے طور پہ وہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ پیش کرتے ہیں:
’’وَاَوْ فُوا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً‘‘[3] ’’اور وعدوں کو پورا کرو ، بے شک (قیامت کے دن) وعدوں کے متعلق پوچھا جائے گا ‘‘-
گو کہ اِس فرمانِ اقدس کے ظاہری و شرعی،سماجی و معاشرتی اَحکام بھی ہیں مگر صوفیائے کرام تاویلِ رُوحانی و تفسیرِ باطنی کے تناظر میں اِس حکمِ مبارک کو بھی اِسی جانب لوٹاتے ہیں کہ یہ عہدِ الست کی بابت آیا ہے کہ اُس وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ہم سے تم نے جو عہد وابستہ کیا تھا اُس کی کتنی پاسداری تم نے کی ہے؟ جیسا کہ سورہ الاعراف میں واقعۂ الست بیان فرمانے کے بعد بھی اِس جانب اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ :
’’أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ‘‘ ’’ تاکہ قیامت کے دن (تم یہ نہ) کہو کہ ہم اِس عہد سے بے خبر تھے ‘‘ -
یعنی سالک کے دل و دماغ میں یہ بات رچ بس جاتی ہے کہ ہر وفاداری سے قبل خالق ِ کائنات سے وفاداری لازم ہے اور اس کی ذات سے کئے گئے وعدے سے وفاداری لازم ہے ، اُس کی بارگاہ سے عطا ہونے والی امانتِ عظیم سے دیانت لازم ہے-
تو یہ تین واقعات جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں ایک انسان پہ گزرنے والی لامحدود مُدت کا ، دوسرا بارِ امانت کا اور تیسرا میثاقِ الست کا -اِن تینوں واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح قوموں پہ گزرنے والے نعمتوں اور سختی کے ایام ظاہر میں ایامِ الٰہی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اقوام کی بیداری کے لئے اُن ایامِ الٰہی کو یاد کرنے کی تلقین فرمائی ہے بالکل اُسی طرح رُوح پہ بھی نعمتوں کے جو دِن گزرے ہیں جن سے اس کی حسین یادیں وابستہ ہیں اُن ایام کو یاد کرنا بھی لازم ہے تاکہ روح کو بھی زندگی و بیداری نصیب ہو -
اب ہم اُس بُنیادی بات کی جانب آتے ہیں جہاں سے ’’ایام اللہ‘‘ کی بات شروع ہوئی تھی کہ مُرشدِ کامل کی ذِمّہ داری کیا ہے ؟ مُرشدِ کامل کی کیا ڈیوٹی ہے کہ وہ مخلوق کو کیسے اپنے رب کی جانب لےکر چلے؟ اور کیسے عام گناہگار بندوں کو اُس معبودِ حقیقی کے خاص بندوں میں شامل کرے ؟ اِسے سامنے رکھ کر سورۃابراہیم کے اس فرمان کو دیکھیں کہ ’’انہیں ایام اللہ یاد کروائے جائیں‘‘- اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ایام اللہ کی باطنی تفسیر کیا ہے جو رُوح کو مخاطب کرتی ہے؟
یام اللہ کی باطنی تفسیر
حضرت مُلّا علی القاری ؒ فرماتے ہیں کہ :
’’اَوْ ھِیَ الْاَیَّامُ الَّتِیْ کَانَ الْعَبْدُ فِیْھَا فِیْ کَتْمِ الْعَدْمِ، وَ الْحَقُّ یَقُوْلُ بِقَوْلِہِ الْاَزْلِیْ :عِبَادِیْ لَمْ یَکُنْ لِلْعَبْدِ عَیْنٌ وَلَا اَثْرٌ وَلاَ لِمَخْلُوْقٍ عَنْہُ خَبْرٌوَلَاوَفَاقَ بَعْدُ وَلَا شِقَاقَ وَلَا وَفَاءَ وَلَا حَیَاءَ وَلَا جُھْدَ لِلسَّابِقِیْنَ وَلَا عِنَاءَ وَلَا وِرْدَ لِلْمُقْتَصِدِیْنَ وَلَا بَکَاءَ وَلَا ذَنْبَ لِلظَّالِمِیْنَ وَلاَ السَّوَاءَکَانَ مُتَعْلِقُ الْعِلْمِ مُتَنَاوَلَ الْقُدْرَۃِ مَقْصُوْرُ الْحُکْمِ عَلَی الْاِرَادَۃِ لاَ عِلْمَ لَہُ وَلاَ اِخْتِیَارَ وَلاَ ذِلَّۃَ وَلاَ اَوْضَارَ‘‘-
’’یہ وہ ایام ہیں جس میں بندہ کتم عدم میں تھااور حق (اللہ پاک )اپنے ازلی قول سے فرماتے ہیں اے میرے بندو !اس حال میں بندے کی اس وقت نہ آنکھ تھی اور نہ نشان تھا اور نہ اس کو مخلوق کی خبر تھی اور نہ وفاق تھا اور نہ شقاق ،اور نہ وفا نہ حیا اور نہ سابقین کے جدو جہد اور نہ تھکا وٹ ، اور نہ متقدمین کا ورد اور نہ بکا(رونا)اور نہ ظالمین کے لئے گناہ اور علم قدر ت کو پانے والا،(اور) حکم ارادہ پر مقصور تھا،نہ اس کا علم تھا اور نہ اختیار تھا اور نہ ذلت اور نہ میل کچیل تھی‘‘-
حضرت ملا علی القاری ؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:-
’’اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ‘‘
’’کہ اپنی قوم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالیں‘‘-
گویا کہ ظلمت سے نور کی جانب سفر کرنا بھی ایامِ الٰہی میں شمار ہوگا ،غفلت ظلمت ہے اور ذکر نور ہے ، بدن ظلمت ہے اور روح نور ہے،کثافت ظلمت ہے اور لطافت نور ہے،معصیّت ظلمت ہے اور اطاعت نور ہے،شکوک و شبہات ظلمت ہیں اور یقینِ کامل نور ہے وسوسہ و توہمات ظلمت ہیں اور ایمان نور ہے، شرک ظلمت ہے اور توحید نور ہے - یعنی غفلت سے ذکر کی جانب جانا ،بدن سے روح کی جانب جانا،کثافت سے لطافت کی جانب جانا ، معصیت سے اطاعت کی جانب جانا ، شکوک و شبہات سے یقینِ کامل کی جانب جانا ، وسوسہ و توہمات سے ایمان کی جانب جانا اور شرک سے توحید کی جانب جانا ظلمت سے نور کی جانب جانا ہے -
’’بِدَعْوَتِکَ لَھُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ شَکِّھِمْ اِلٰی نُوْرِ الْیَقِیْنِ وَ مِنْ عَلاَقَاتِ حَالِھِمْ اِلَی حُضُوْرِ الْمُبِیْنِ‘‘
’’اس طرح کہ ان کو شکوک و شبہات کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ یقین کی طرف بلائیں اور اپنے حال کے (عارضی) تعلقات سے روشن حضوری کی طرف دعوت دیں‘‘-
قَالَ الْاُسْتَاذُ: ذَکِّرْھُمْ بِمَا سَلَفَ لَھُمْ مِنْ وَّقْتِ الْمِیْثَاقِ وَ اِقْرَارِھِمْ مَا وَقَعَ عَنْھُمْ مِنْ فُنُوْنِ الْبَلَآءِ فِیْ سَالِفِ اَحْوَالِھِمْ،
’’اُستاذ (امام قشیری)نے کہا : جو کچھ میثاق (وعدۂ الست )کے وقت اور ان کے اقرار کے حوالے سے گزر چکا،انہیں یاد دلائیں اور سابقہ احوال میں مختلف آزمائشوں کے وقت جو کچھ وقوع پذیر ہوا (وہ بھی یاد دلائیں) ‘‘-
’’وَ یُقَالُ: وَ ذَکِّرْھُمْ بِمَا سَبَقَ مِنَ الصَّفْوَۃِ لِاَرْوَاحِھِمْ قَبْلَ حُلُوْلِھَا فِیْ اَشْبَاحِھِمْ‘‘[4]
’’اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ؛ ان کو (وہ وقت) یاد دلایئے جب ان کی ارواح کی حالت اپنے جسموں میں داخل ہونے سے پہلے (تھی)‘‘-
الشیخ الامام احمد بن عمر بن محمد نجم الدین کبریٰ ؒ المتوفی(618ھ) اپنی مشہور زمانہ تفسیر’’التاویلات النجمیۃ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-
’’(وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ)اَلَّتِیْ کَانَ اللہُ وَ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ شَیْئٌ لَا مِنْ اَیَّامِ الدُّنْیَا وَ لَا مِنْ اَیّامِ الْاٰخِرَۃِ وَ کَانُوْا فِیْ مَکَنُوْنِ عِلْمِ اللہِ وَ ھُوَ یُحِبُّھُمْ بِلَا ھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ ‘‘[5]
’’ ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ کے ساتھ دنیا کے ایام میں سے اور ایام آخرت میں سے کوئی چیز نہیں تھی اور وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں پوشیدہ تھے اور وہ (اللہ پاک )ان سے محبت فرماتا تھا حالانکہ وہ وہاں پر نہیں تھے اور وہ اللہ پاک سے محبت کرتے تھے‘‘-
اس لئے کہ اس نورِ سرمدی سے اس کی روح ابھی تخلیق نہ ہوئی تھی،کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) ان کی روح کو بیدار کرو، ان کو وہ زمانہ یاد دلاؤ جب ان کی ارواح کا نور میری بارگاہِ نور سے مستفید ہوتا رہتا تھا-اسی لئے بندے کے وجود اور روح کی خوراک مختلف ہے وجود یعنی ظاہری جسم کی خوراک بند ہوجائے تو وجود مرجاتا ہے اسی طرح اگر روح کو خوراک و غذا نہ دی جائے توروح مر جاتی ہے-چاول، گندم، گوشت،سبزیاں اور یہ باقی اجناس جو اللہ نے کھانے پینے کے لئے پیدا کیے ہیں یہ ظاہری وجود کی خوراک ہیں اور روح کی خوراک از روئے قرآ ن یہ ہے کہ روح کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گزارے ہوئے وہ ایام یعنی وہ وقت یاد دلایا جائے جب اسے اللہ تعالیٰ کا قرب،محبت اور رفاقت میسر تھی-
پیرانِ پیر دستگیر محی الدین قطبِ ربانی محبوبِ سبحانی شہبازِ لامکانی سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی ؒ اپنی تصنیف لطیف ’’سر الاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’(وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ) ’’أی ایامِ وصالہٖ فیما سبق مع الارواح، فجمیع الانبیا علیھم الصلوٰۃ والسلام جاؤوا فی الدنیا و ذھبوا الی الآخرۃ لذٰلک التنبیہ --- فالواجب علی الانسان تحصیل تلک العین من اھل البصائر بأخذ التلقین من ولیّ مرشد یخبر من عالم اللاھُوت‘‘[6]
’’ایام اللہ سے مراد یعنی وہ ایامِ وصال جو معیّتِ حق تعالیٰ میں گزار چکے تھے - تمام انبیائے کرام ؒ اِس دُنیا میں اِسی تنبیہ کے لئےآئے (اور اِسی کی یاد دہانی کرواتے ہوئے) دُنیا سے رُخصت ہوئے---پس انسان پر واجب ہے کہ وہ اہلِ بصیرت کی راہنمائی حاصل کرے اور عالمِ لاہوت کے عارف ولی مرشد کی تلقین سے چشمِ بصیرت وا کرے ‘‘- [7]
مُفتیٔ بغداد ابو الفضل شھاب الدین السید محمود احمد آلوسی تفسیر ’’رُوح المعانی‘‘ میں’’وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وَھِیَ اَیَامُ وِصَالِہٖ سُبْحَانَہُ حِیْنَ کَشَفَ لِعِبَادِہٖ سِجْفَ الرَّبُوْبِیَّۃِ فِیْ حَضْرَۃِ قُدْسِیَّۃِ وَ اَدْنَا ھُمْ اِلَی جَنَابِہٖ وَمَنَّ عَلَیْہِمْ بِلَذِیْذِ مِنْ خِطاَبِہٖ وَ اَمَرَہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِتَذْکِیْرِ ذٰلِکَ لِیَثُوِّرَ غَرَامَھُمْ وَ یَاْخُذَ نَحْوَ الْحَبِیْبِ ھَیَامَھُمْ ‘‘[8]
’’ایام اللہ سے مراد اللہ سبحانہ کے وصال کے ایام تھے جب اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لئے حریم قدسیہ میں ربوبیۃ کے پردے کو ہٹایا،اور اللہ پاک نے اپنے بندوں کو اپنی جناب کے قریب کیا اور خطاب کی لذت سے نوازا - اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ دن یاد دلانے کا حکم فرمایا تاکہ ان کی دلی محبت کو ابھارے اور حبیب کی طرف ان کے عشق کو مبذول کرے ‘‘-
الشیخ عارف باللہ ابو محمد صدرالدین روز بہان بن ابو نصر البقلی الشیرازی (المتوفی:606ھ) نےآج سے تقریباً نو سو سال پہلے اپنی تفسیر ’’ عرائس البیان فی حقائق القرآن‘‘میں اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ’’ایام اللہ ‘‘ کے روحانی پہلو کے حوالے سے بڑی تفصیلی گفتگو فرمائی ہے جس کا ایک ایک لفظ آدمی کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے ، جس کے الفاظ جسم میں سر تا قدم سرد لہریں دوڑا دیتے ہیں،جسم کپکپانے لگتا ہے،عقل کا دیا جھلملانے لگتا ہے،شوق و محبت کا چراغ جگمگانے لگتا ہے ، جذبے مچلنے لگتے ہیں، دِل کے دریا میں طغیانی بپا ہونے لگتی ہے،عشق کا سمندر تلاطم خیز ہوا جاتا ہے ، انسان ظاہر کی آنکھوں کو موندلیتا ہے اور سینے کی آنکھوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے لگتا ہے-گویا بصارت پہ بصیرت غالب آنے لگتی ہے-ایک اَن دیکھی دُنیا ، ان دیکھا جہان چشمِ باطن پہ عیاں ہونے لگتا ہے-محبوب کے وصل کی یادیں رُوح سے اٹکھیلیاں کرنے لگتی ہیں،جبرِ کثافت سے سوئی پڑی رُوح انگڑائی لےکر اٹھنے لگتی ہے اور پردیسِ مادیت میں وطنِ اصلی یعنی لاہوت کی خبر پا کر انبساط و مسرت سے شاداب و فرحت یاب ہوئی جاتی ہے، بالکل اُس مسافرقیدی کی طرح جو ایک عرصۂ دراز سے پردیس میں کسی کال کوٹھڑی میں قید ہو جہاں اُس کی بولی سمجھنے والا اور اُس سے کلام کرنے والا، حالِ دِل بانٹنے والا کوئی نہ ہو برسوں سے اُسے کوئی محرمِ راز نہ مِلا ہو اور اُسے اچانک سے کانوں میں اپنے وطنِ اصلی کی زُبان میں بات کرتے کسی شخص کی خفیف سی آواز کانوں میں آئے تو حیرت و تحیر اور بے یقینی و اضطراب میں وہ تڑپ سا جاتا ہے - وہ چاہتا ہے کہ زنجیرِ زندان ٹوٹے اور وہ لپک کے اپنے وطن سے آنے والے مسافر سے لپٹ جائے -یا یوں سمجھئے کہ جس نے حُسنِ یوسف کھو دیا اور ہجر میں رو رو کر آنکھوں کی بینائی کھو دی،ایک دِن اچانک ہوا کے جھونکوں نے یوسف کی خبر دی-گو کہ یوسف خود نہ تھے بلکہ ان کے بدن سے مَس ہونے والا ایک کپڑا تھا تو ہجرِ یوسف میں مضطرب و بے قرار دِل پکار اُٹھا کہ آج تو میرے یوسف کی خوشبو آتی ہے-مادیت کی قید میں پڑی رُوح جب عارفِ کامل صاحبِ حال کا کلام سُنتی ہے تو اضطراب میں تڑپتی ہے،یوسف کی خوشبو پاکر آنکھوں میں بینائی کو لوٹ آتا ہوا محسوس کرتی ہے-روز بہان بقلی شیرازی کی زبانی جب رُوح،یادِ عہدِ رفتہ کا اَحوال سُنتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ رُوح کلیجے کے راستے سینے میں آئی ہو اور سینے سے نکل کر رُوبرو ایک خوبرو محبوب کی طرح بیٹھی یہ سوال کرتی ہو کہ لے چل مجھے راحتوں کی انہی منزلوں کی جانب جہاں جانے میں تیرے تن کی نجات لکھی ہے-اُٹھ!اور رختِ سفر باندھ انہیں وادیوں کا جہاں کے ہم باشندے ہیں-آگے بڑھ ! اور اُڑان بھر اُن گلستانوں اور مرغزاروں کی جانب جہاں محبوبِ حقیقی کے جمال کے گرد ہم وصل کے نغمے گایا کرتے تھے-رُوح اِس تَن کو کہتی ہے کہ’’حاصلم زیں مزرعِ بے بَر نمی دانم چہ شُد‘‘[9]مجھے نہیں معلوم کہ (تیری کثافت کی) اِس بے ثمر کھیتی سے مجھے کیا مِلا ؟ تیری کثافت کی لذتیں تو مجھے کچھ نہ دے سکیں ،آ ! میری لطافت کے نور سے ’’لذتِ آشنائی‘‘ کو پالے اور دو عالم سے بیگانہ ہو جا -مَیں نے تو تیری فانی اور مٹ جانے والی کثافت کا جبرسہا ہے آ! میرے ساتھ،مَیں تجھے جہانِ باقی سے رُوشناس کرواؤں اور تجھے ایک ذاتِ باقی سے وابستہ کردوں-روح کو یہ ایام یاد دلاتے رہنا چاہئے جو ایام حضرت صاحبِ عرائس البیان نے یاد دلانے کی سعیٔ جمیل فرمائی ہے-آپ لکھتے ہیں: -
’’فِیْہِ اِشَارَۃٌ اَنَّ اَیَّامَ الْقِدَمِ وَ اَیَّامَ الْبَقَآءِ، اَیَّامُ الْقِدَمِ اَوْلِیَّۃِ الْاُوْلِیَّۃِ الْمُنَزَّہِ عَنْ دَھْرِ الدِّھَارِ، وَ الزَّمْنِ الْاٰثَارِ، کَانَ فِیْ کَانَ قَبْلَ کَانَ وَ کَمَا کَانَ فِیْمَا کَانَ اِلَّا کَانَ، فَعَشِقَ بِنَفْسِہٖ عَلٰی نَفْسِہٖ، وَ کَانَ عُرُوْسُ نَفْسِہٖ وَ لَمْ یَکُنْ فِیْ کَانَ اِلَّا کَانَ، فَمَضٰی عَلٰی کَانَ اَیَّامُ قِدَمٍ کَانَ بِلَا عِشْقٍ مَلْھُوْفٍ، وَّ لَا مُحِبَّ مَعْرُوْفٌ، وَ لَا حَیْرَانَ سُکْرَانٌ، وَ لَا عَارِفَ مُکَاشِفٌ، وَ لَا مُؤْنَسَ مُسْتَانِسٌ یَتَمَتَّعُوْنَ بِجَمَالِ الْقِدَمِ فِی الْقِدَمِ ‘‘
’’اس میں کہ قدم اور بقا کے ایام ہیں ، ایام قدم سب سے پہلے کے دن ہیں جو ’’دہر‘‘ یعنی زمانے کے آثا ر سے پاک ہیں -کَانَ سے پہلے کَانَ تھا جس طرح کَانَ میں اب کَانَ ہے -پس وہ اپنے آپ پر عاشق ہواا ور اس کی اپنی ہی خوشی تھی اور اس وقت صرف کَانَ تھا اور کَانَ پر کئی ایام گزرے اور کان بغیر عشقِ ملہوف کے تھا -نہ محب معروف تھا نہ حیران سکران اور عارف مکاشف اور نہ مؤنس مستانس ، جس میں قدم میں جمال قدم سے لطف اندوز ہوتے ہیں-
فَیَا وَیْلَتَا مِنْ وِصَالٍ فَائْتِ مِنَّا، وَ جَمَالٍ غَائِبٍ عَنَّا تَذَکَّرَتُ اَیَّاماً وَدَھْرًا صَالِحاً، فَبَکَیْتُ حُزُفًا فَھَاجَتْ حُزُنِیْ وَ اَمَّا اَیَّامُ الْبَقَآءِ اُخَرِیَّۃُ الْآخِرِیَّۃِ بِلَا مُرُوْرِ الْحَدَثَانِ وَ لَا عِلَّۃِ الْاَ کْوَانٍ وَ الْاَ زْمَانِ بَقَاءُ سَرْمَدِیٍّ وَّ جَمَالُ اَحْدِیٍّ وَّ وِصَالُ اَبَدِیٍّ وَ یَبْقٰی لِشَھُوْدِ عُشَّاقِہٖ وَ مَطَالَعَۃِ جَمَالٍ اَھْلُ اَشْوَاقِہٖ کَاَنَّہُ قَالَ ذَکِّرْ ھُمْ اَیَّامَ الْقِدَمِ لِیَفْنُوْا حَسْرَۃً عَلٰی مَا فَاتَ عَنْھُمْاَیْضًا-اَیْ ذَکِّرْھُمْ اَیَّامَ وِصَالِ الْاَرْوَاحِ فِیْ عَالَمِ الْاِخْرَاجِ، حَیْثُ کَاشَفْتُ قَنَاعَ الرَّبُوْبِیَّۃِ عَنْ جَلَالِ وَجْدِ الصَّمَدِیَّۃِ لَھَا حَتّٰی عَشَقْتُ بِجَمَالِیْ وَ بَقِیْتُ فِیْ وِصَالِیْ وَ ذَاقَتُّ طَعْمَ مَحَبَّتِیْ مِنْ بَحْرِ قُرْبَتِیْ مَا اَطْیَبُھَا، وَ مَا اَلذُّھَا حِیْنَ کَلَّمْتُھَا بِعَزِیْزِ خِطَابِیْ، وَ عَرَّفْتُھُمْ حَقَائِقَ جَمَالِیْ،
’’ہائے افسوس! اس وصال سے جو ہم سے غیب ہوگیا اور اس جمال سے جو ہم سے پوشیدہ ہے- تو نے ان نیک ایام اور زمانے کا ذکر کیا ہے پس میں غم سے رو دیا اور میرے غم نے جوش مارا-جہاں تک دوسرے آخری ایام بقاء کا تعلق ہے جو حدثان کے بغیر گزرے نہ’’اکوان‘‘و زمان کی علت تھی (اور )بقاء سرمدی تھی جمال احدی تھا اور وصال ابدی تھا اور اپنے عشاق کے شہود کے لئے باقی تھا اور اپنے عشق کے جمال کے مطالعہ کے لئے قائم تھا- گویا کہ اس نے کہا ہے کہ ان کو قدم کے ایام یاد دلاؤ تاکہ جو چیز ان سے فوت ہوچکی ہے اس پر حسرت سے مرمٹے - اسی طرح ان کو خوشی کے عالم میں ارواح کے وصال کے ایام یاد دلائیں جہاں پران کے لئے صمدیت کے چہرے کے جلال سے ربوبیت کے پردے منکشف ہوئے یہاں تک کہ میرےجمال پر عاشق ہوئیں اور میرے وصال میں باقی رہیں اور میری قربت کے سمندر سے میری محبت کا ذائقہ چکھا اور کتنا ہی اچھا تھا اور کتنا ہی لذیذ تھا جب میں نے ان (ارواح)سےاپنے معزز خطاب سے کلام کیا اور ان کو اپنے جمال کے حقائق کی پہچان کروائی‘‘-
’’فَقُلْتُ:(اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ) مِنْ غَایَۃِ مَحَبَّتِیْ وَ شَوْقِیْ لَھَا، قَالُوْا:بَلٰی مِنْ شَوْقِیْ وَ مَحَبَّتِیْ اَیْنَ تِلْکَ الْاَرْوَاحُ حَیْثُ بَاعَدَتْ مِنْ مَزَارِ الْوَصَالِ، وَ اَیَّامِ الْکَشَفِ وَ الْجَمَالِ، لِیَذَکَّرُوْا زَمَانَ الصَّفَآءِ وَ لَطَائِفَ الْوَفَآءِ، لِیَذِیْدُوْا شَوْقاً عَلٰی شَوْقٍ، وَّ عِشْقًا عَلٰی عِشْقٍ‘‘-
پس مَیں (اللہ)نےکہا (الست بربکم)اپنی محبت کی اور ان ارواح سے عشق کی انتہاءسے اور ان (ارواح) نے کہا ،’’بلی‘‘!میرے شوق میں اور میری محبت میں (’’بلٰی‘‘ کہا)-کہاں ہیں وہ ارواح جو میرے وصال کے مرکز سے دور ہوئیں اور کشف و جمال کے ایا م سے دور ہوئیں تاکہ وہ پاکیزہ زمانہ اور لطیف وفاءکو یاد کریں تاکہ ان کے شوق پر شوق اور عشق پر عشق میں اضافہ ہو-
’’وَقَالَ بَعْضُ الْمَشَائِخِ: وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ وَ ھِیَ مَا سَبَقَ لِاَرْوَاحِھِمْ مِنَ الصَّفْوَۃِ وَ تَعْرِیْفُہُ التَّوحِیْدُ قَبْلَ حُلُوْلِھَا فِی الْاَشْبَاحِ [10]
’’مشائخ میں سے بعض نے کہا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے وہ ایام یاد دلائیں جو ارواح کے پاکیزگی میں گزر چکے ہیں اور اس کی معرفت ان کے اجسام میں حلول کرنے سے پہلے توحید تھی‘‘-
(---جاری ہے---) ٭٭٭
[1] (اے مسلماں ہر گھڑی پیشِ نظر - آیۂ لایخلف المیعاد رکھ)
[2] (اٰل عمران : ۹)
[3](الاسرأ : ۳۴)
[4](انوار القرآن و اسرار الفرقان،جلد:۳، ص:۵-۶)
[5]( التاویلات النجمیہ فی التفسیر الاشاری الصوفی)
[6] (سرالاسرار ، ص ۹ ، دارالکتب العلمیہ ، بیروت)
[7] (ترجمہ از: سید امیر خان نیازی مرحوم ، العارفین پبلیکیشنز، لاہور)
[8] (امام سیدمحمود آلوسی (۱۲۱۷ھ-۱۲۷۰ھ)روح المعانی)
[9] (میرزا عبد القادر بیدل)
[10](عرائس البیان فی حقائق القرآن،جلد :۲،ص: ۲۵۳ ،۲۵۴)
عہدِ الست کی تکمیل کی جانب متوجہ رہنا سالکین کی تربیت کا اہم مرحلہ ہوتا ہے ،شیخ اس جانب بطورِ خاص اُنہیں راغب کئے رکھتا ہے اور ترغیب دئے رکھتا ہے تاکہ وہ اپنےوجود کو صدق و صداقت کا منبع بنا لیں -صوفیائے کرام کے ہاں یہ بحث بہت عام ملتی ہے کہ خوفِ الٰہی و خشیّتِ الٰہی بہت عظیم نعمت ہے مگر رب کا خوف اس کی عظمت و جلال کے باعث ہو اور اس کی محبت کے باعث ہو نہ کہ محض نارِ جہنم یا آتشِ دوزخ کی وجہ سے-اس کے درمیان ایک باریک سا پردہ اور لطیف سا حجاب ہے کہ سزائے آتش کے خوف سے عبادت کی جائے گی یا اُس کی عظمت و جلال کی وجہ سے ؟محبت کو عبادت کی بُنیاد بنایا جائے یا خوفِ سزا کو؟اس پہ صوفیاء کے نزدیک خوف مبتدی کا مقام ہے مگر آدمی جب اُس کے قرب کی منازل طے کرتا جاتا ہے تو پھر خوف کےساتھ ساتھ محبت جاگزین ہو جاتی ہے-گوکہ خوف جُزوِ ایمان ضرور ہوتا ہے مگر بندے کے احساسات پہ غلبہ جذبۂ محبتِ الٰہی کا ہوتا ہے اور محبت الٰہی کے لئے وہ اس عہدِ اَلَست کو یاد کرتے ہیں کہ جس نے میری اوقات سے بڑھ کر اور میری خواہش کے بغیر مجھے اپنے محبوبانہ کلام سے نوازا اور جس نے کُل مخلوقات میں سے مجھے اپنے عہد کے لئے منتخب کیا یہ در اصل اُس ذاتِ بے نیاز کی طرف سے میرے ساتھ اظہارِ محبت کا عہد و میثاق ہے-اِس لئے وہ عہد کو نبھانا اپنی ازلی ذمّہ داری سمجھتے ہیں اور اس سعی میں عمر بسر کرتے ہیں کہ اپنے محبوبِ حقیقی سے غافل نہ ہوں اور نہ ہی کسی ایک سانس کو اُس کی یاد سے غافل ہونے دیں تبھی تو حضرت سُلطان العارفین (قدس اللہ سرہٗ) فرماتے ہیں :
جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ فرمایا ھُو |
مُرشد یہ احساس پیدا کر دیتا ہے کہ اُس وحدہٗ لاشریک کی بے پایاں محبت جو اُس نے اپنے بندوں پہ نازل فرمائی ، اُس سے منہ نہ موڑنا نہ ہی اُسے دِل سے بھلا دینا بلکہ ہر لحظہ اور ہر لمحہ، ہر ساعت اور ہر گھڑی اسی محویت و خیال میں رہنا کہ وہ تیری جانب متوجہ ہے تو بھی اسی کی جانب متوجہ رِہ! وہ تجھ سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تو بھی اُسی کو محبوب رکھ ! اُس نے تجھ سے جتنے وعدے فرمائے ہیں وہ ہر ایک کو پورا کرتا ہے،عزت عطا کرنے کا ،قرب عطا کرنے کا ، درجات عطا کرنے کا،اپنی جانب آنے کے لئے تمام راستے منکشف کر دینے کا اور حتی کہ وہ جو بھی وعدہ کرتا ہے اُسے پورا کرتا ہے اقبال ()نے بھی اِس جانب توجہ دلائی ہے[1]-’’إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ‘‘[2]اِس لئے مرشد بتاتا ہے کہ تو بھی سُنّتِ الٰہیّہ پہ گامزن ہو جا اور الست کے دن کئے گئے اس عظیم و غیر معمولی وعدے کو یاد رکھ! جب مرشد یہ سبق سمجھا دیتا ہے تو طالب ہمہ تن متوجہ ہو کر اُسی ذات کی جانب چل پڑتا ہے اور دل و جان اپنے مولا کے سپرد کر دیتا ہے-
سُنیا سخن گیاں کھل اکھیں اساں چِت مولا ول لایا ھُو |
|
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھُو |
صُوفیائے کرام کا عقیدہ یہ ہے (اور اِسی پہ وہ سالک کی تربیت کرتے ہیں ) کہ اس عہد کی پاسداری و وفاداری کے متعلق بروزِ حشر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بارگاہ میں لازمی پوچھا جائے گا -اِس عقیدہ کی دلیل کے طور پہ وہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ پیش کرتے ہیں:
’’وَاَوْ فُوا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً‘‘[3] ’’اور وعدوں کو پورا کرو ، بے شک (قیامت کے دن) وعدوں کے متعلق پوچھا جائے گا ‘‘-
گو کہ اِس فرمانِ اقدس کے ظاہری و شرعی،سماجی و معاشرتی اَحکام بھی ہیں مگر صوفیائے کرام تاویلِ رُوحانی و تفسیرِ باطنی کے تناظر میں اِس حکمِ مبارک کو بھی اِسی جانب لوٹاتے ہیں کہ یہ عہدِ الست کی بابت آیا ہے کہ اُس وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ہم سے تم نے جو عہد وابستہ کیا تھا اُس کی کتنی پاسداری تم نے کی ہے؟ جیسا کہ سورہ الاعراف میں واقعۂ الست بیان فرمانے کے بعد بھی اِس جانب اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ :
’’أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ‘‘ ’’ تاکہ قیامت کے دن (تم یہ نہ) کہو کہ ہم اِس عہد سے بے خبر تھے ‘‘ -
یعنی سالک کے دل و دماغ میں یہ بات رچ بس جاتی ہے کہ ہر وفاداری سے قبل خالق ِ کائنات سے وفاداری لازم ہے اور اس کی ذات سے کئے گئے وعدے سے وفاداری لازم ہے ، اُس کی بارگاہ سے عطا ہونے والی امانتِ عظیم سے دیانت لازم ہے-
تو یہ تین واقعات جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں ایک انسان پہ گزرنے والی لامحدود مُدت کا ، دوسرا بارِ امانت کا اور تیسرا میثاقِ الست کا -اِن تینوں واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح قوموں پہ گزرنے والے نعمتوں اور سختی کے ایام ظاہر میں ایامِ الٰہی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اقوام کی بیداری کے لئے اُن ایامِ الٰہی کو یاد کرنے کی تلقین فرمائی ہے بالکل اُسی طرح رُوح پہ بھی نعمتوں کے جو دِن گزرے ہیں جن سے اس کی حسین یادیں وابستہ ہیں اُن ایام کو یاد کرنا بھی لازم ہے تاکہ روح کو بھی زندگی و بیداری نصیب ہو -
اب ہم اُس بُنیادی بات کی جانب آتے ہیں جہاں سے ’’ایام اللہ‘‘ کی بات شروع ہوئی تھی کہ مُرشدِ کامل کی ذِمّہ داری کیا ہے ؟ مُرشدِ کامل کی کیا ڈیوٹی ہے کہ وہ مخلوق کو کیسے اپنے رب کی جانب لےکر چلے؟ اور کیسے عام گناہگار بندوں کو اُس معبودِ حقیقی کے خاص بندوں میں شامل کرے ؟ اِسے سامنے رکھ کر سورۃابراہیم کے اس فرمان کو دیکھیں کہ ’’انہیں ایام اللہ یاد کروائے جائیں‘‘- اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ایام اللہ کی باطنی تفسیر کیا ہے جو رُوح کو مخاطب کرتی ہے؟
v ایام اللہ کی باطنی تفسیر
حضرت مُلّا علی القاری () فرماتے ہیں کہ :
’’اَوْ ھِیَ الْاَیَّامُ الَّتِیْ کَانَ الْعَبْدُ فِیْھَا فِیْ کَتْمِ الْعَدْمِ، وَ الْحَقُّ یَقُوْلُ بِقَوْلِہِ الْاَزْلِیْ :عِبَادِیْ لَمْ یَکُنْ لِلْعَبْدِ عَیْنٌ وَلَا اَثْرٌ وَلاَ لِمَخْلُوْقٍ عَنْہُ خَبْرٌوَلَاوَفَاقَ بَعْدُ وَلَا شِقَاقَ وَلَا وَفَاءَ وَلَا حَیَاءَ وَلَا جُھْدَ لِلسَّابِقِیْنَ وَلَا عِنَاءَ وَلَا وِرْدَ لِلْمُقْتَصِدِیْنَ وَلَا بَکَاءَ وَلَا ذَنْبَ لِلظَّالِمِیْنَ وَلاَ السَّوَاءَکَانَ مُتَعْلِقُ الْعِلْمِ مُتَنَاوَلَ الْقُدْرَۃِ مَقْصُوْرُ الْحُکْمِ عَلَی الْاِرَادَۃِ لاَ عِلْمَ لَہُ وَلاَ اِخْتِیَارَ وَلاَ ذِلَّۃَ وَلاَ اَوْضَارَ‘‘-
’’یہ وہ ایام ہیں جس میں بندہ کتم عدم میں تھااور حق (اللہ پاک )اپنے ازلی قول سے فرماتے ہیں اے میرے بندو !اس حال میں بندے کی اس وقت نہ آنکھ تھی اور نہ نشان تھا اور نہ اس کو مخلوق کی خبر تھی اور نہ وفاق تھا اور نہ شقاق ،اور نہ وفا نہ حیا اور نہ سابقین کے جدو جہد اور نہ تھکا وٹ ، اور نہ متقدمین کا ورد اور نہ بکا(رونا)اور نہ ظالمین کے لئے گناہ اور علم قدر ت کو پانے والا،(اور) حکم ارادہ پر مقصور تھا،نہ اس کا علم تھا اور نہ اختیار تھا اور نہ ذلت اور نہ میل کچیل تھی‘‘-
حضرت ملا علی القاری () اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:-
’’اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ‘‘
’’کہ اپنی قوم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالیں‘‘-
گویا کہ ظلمت سے نور کی جانب سفر کرنا بھی ایامِ الٰہی میں شمار ہوگا ،غفلت ظلمت ہے اور ذکر نور ہے ، بدن ظلمت ہے اور روح نور ہے،کثافت ظلمت ہے اور لطافت نور ہے،معصیّت ظلمت ہے اور اطاعت نور ہے،شکوک و شبہات ظلمت ہیں اور یقینِ کامل نور ہے وسوسہ و توہمات ظلمت ہیں اور ایمان نور ہے، شرک ظلمت ہے اور توحید نور ہے - یعنی غفلت سے ذکر کی جانب جانا ،بدن سے روح کی جانب جانا،کثافت سے لطافت کی جانب جانا ، معصیت سے اطاعت کی جانب جانا ، شکوک و شبہات سے یقینِ کامل کی جانب جانا ، وسوسہ و توہمات سے ایمان کی جانب جانا اور شرک سے توحید کی جانب جانا ظلمت سے نور کی جانب جانا ہے -
’’بِدَعْوَتِکَ لَھُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ شَکِّھِمْ اِلٰی نُوْرِ الْیَقِیْنِ وَ مِنْ عَلاَقَاتِ حَالِھِمْ اِلَی حُضُوْرِ الْمُبِیْنِ‘‘
’’اس طرح کہ ان کو شکوک و شبہات کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ یقین کی طرف بلائیں اور اپنے حال کے (عارضی) تعلقات سے روشن حضوری کی طرف دعوت دیں‘‘-
قَالَ الْاُسْتَاذُ: ذَکِّرْھُمْ بِمَا سَلَفَ لَھُمْ مِنْ وَّقْتِ الْمِیْثَاقِ وَ اِقْرَارِھِمْ مَا وَقَعَ عَنْھُمْ مِنْ فُنُوْنِ الْبَلَآءِ فِیْ سَالِفِ اَحْوَالِھِمْ،
’’اُستاذ (امام قشیری)نے کہا : جو کچھ میثاق (وعدۂ الست )کے وقت اور ان کے اقرار کے حوالے سے گزر چکا،انہیں یاد دلائیں اور سابقہ احوال میں مختلف آزمائشوں کے وقت جو کچھ وقوع پذیر ہوا (وہ بھی یاد دلائیں) ‘‘-
’’وَ یُقَالُ: وَ ذَکِّرْھُمْ بِمَا سَبَقَ مِنَ الصَّفْوَۃِ لِاَرْوَاحِھِمْ قَبْلَ حُلُوْلِھَا فِیْ اَشْبَاحِھِمْ‘‘[4]
’’اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ؛ ان کو (وہ وقت) یاد دلایئے جب ان کی ارواح کی حالت اپنے جسموں میں داخل ہونے سے پہلے (تھی)‘‘-
الشیخ الامام احمد بن عمر بن محمد نجم الدین کبریٰ () المتوفی(618ھ) اپنی مشہور زمانہ تفسیر’’التاویلات النجمیۃ ‘‘ میں لکھتے ہیں:-
’’(وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ)اَلَّتِیْ کَانَ اللہُ وَ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ شَیْئٌ لَا مِنْ اَیَّامِ الدُّنْیَا وَ لَا مِنْ اَیّامِ الْاٰخِرَۃِ وَ کَانُوْا فِیْ مَکَنُوْنِ عِلْمِ اللہِ وَ ھُوَ یُحِبُّھُمْ بِلَا ھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ ‘‘[5]
’’ ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ کے ساتھ دنیا کے ایام میں سے اور ایام آخرت میں سے کوئی چیز نہیں تھی اور وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں پوشیدہ تھے اور وہ (اللہ پاک )ان سے محبت فرماتا تھا حالانکہ وہ وہاں پر نہیں تھے اور وہ اللہ پاک سے محبت کرتے تھے‘‘-
اس لئے کہ اس نورِ سرمدی سے اس کی روح ابھی تخلیق نہ ہوئی تھی،کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) ان کی روح کو بیدار کرو، ان کو وہ زمانہ یاد دلاؤ جب ان کی ارواح کا نور میری بارگاہِ نور سے مستفید ہوتا رہتا تھا-اسی لئے بندے کے وجود اور روح کی خوراک مختلف ہے وجود یعنی ظاہری جسم کی خوراک بند ہوجائے تو وجود مرجاتا ہے اسی طرح اگر روح کو خوراک و غذا نہ دی جائے توروح مر جاتی ہے-چاول، گندم، گوشت،سبزیاں اور یہ باقی اجناس جو اللہ نے کھانے پینے کے لئے پیدا کیے ہیں یہ ظاہری وجود کی خوراک ہیں اور روح کی خوراک از روئے قرآ ن یہ ہے کہ روح کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گزارے ہوئے وہ ایام یعنی وہ وقت یاد دلایا جائے جب اسے اللہ تعالیٰ کا قرب،محبت اور رفاقت میسر تھی-
پیرانِ پیر دستگیر محی الدین قطبِ ربانی محبوبِ سبحانی شہبازِ لامکانی سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی () اپنی تصنیف لطیف ’’سر الاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’(وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ) ’’أی ایامِ وصالہٖ فیما سبق مع الارواح، فجمیع الانبیا علیھم الصلوٰۃ والسلام جاؤوا فی الدنیا و ذھبوا الی الآخرۃ لذٰلک التنبیہ --- فالواجب علی الانسان تحصیل تلک العین من اھل البصائر بأخذ التلقین من ولیّ مرشد یخبر من عالم اللاھُوت‘‘[6]
’’ایام اللہ سے مراد یعنی وہ ایامِ وصال جو معیّتِ حق تعالیٰ میں گزار چکے تھے - تمام انبیائے کرام ()اِس دُنیا میں اِسی تنبیہ کے لئےآئے (اور اِسی کی یاد دہانی کرواتے ہوئے) دُنیا سے رُخصت ہوئے---پس انسان پر واجب ہے کہ وہ اہلِ بصیرت کی راہنمائی حاصل کرے اور عالمِ لاہوت کے عارف ولی مرشد کی تلقین سے چشمِ بصیرت وا کرے ‘‘- [7]
مُفتیٔ بغداد ابو الفضل شھاب الدین السید محمود احمد آلوسی تفسیر ’’رُوح المعانی‘‘ میں’’وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وَھِیَ اَیَامُ وِصَالِہٖ سُبْحَانَہُ حِیْنَ کَشَفَ لِعِبَادِہٖ سِجْفَ الرَّبُوْبِیَّۃِ فِیْ حَضْرَۃِ قُدْسِیَّۃِ وَ اَدْنَا ھُمْ اِلَی جَنَابِہٖ وَمَنَّ عَلَیْہِمْ بِلَذِیْذِ مِنْ خِطاَبِہٖ وَ اَمَرَہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِتَذْکِیْرِ ذٰلِکَ لِیَثُوِّرَ غَرَامَھُمْ وَ یَاْخُذَ نَحْوَ الْحَبِیْبِ ھَیَامَھُمْ ‘‘[8]
’’ایام اللہ سے مراد اللہ سبحانہ کے وصال کے ایام تھے جب اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لئے حریم قدسیہ میں ربوبیۃ کے پردے کو ہٹایا،اور اللہ پاک نے اپنے بندوں کو اپنی جناب کے قریب کیا اور خطاب کی لذت سے نوازا - اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ دن یاد دلانے کا حکم فرمایا تاکہ ان کی دلی محبت کو ابھارے اور حبیب کی طرف ان کے عشق کو مبذول کرے ‘‘-
الشیخ عارف باللہ ابو محمد صدرالدین روز بہان بن ابو نصر البقلی الشیرازی (المتوفی:606ھ) نےآج سے تقریباً نو سو سال پہلے اپنی تفسیر ’’ عرائس البیان فی حقائق القرآن‘‘میں اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ’’ایام اللہ ‘‘ کے روحانی پہلو کے حوالے سے بڑی تفصیلی گفتگو فرمائی ہے جس کا ایک ایک لفظ آدمی کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے ، جس کے الفاظ جسم میں سر تا قدم سرد لہریں دوڑا دیتے ہیں،جسم کپکپانے لگتا ہے،عقل کا دیا جھلملانے لگتا ہے،شوق و محبت کا چراغ جگمگانے لگتا ہے ، جذبے مچلنے لگتے ہیں، دِل کے دریا میں طغیانی بپا ہونے لگتی ہے،عشق کا سمندر تلاطم خیز ہوا جاتا ہے ، انسان ظاہر کی آنکھوں کو موندلیتا ہے اور سینے کی آنکھوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے لگتا ہے-گویا بصارت پہ بصیرت غالب آنے لگتی ہے-ایک اَن دیکھی دُنیا ، ان دیکھا جہان چشمِ باطن پہ عیاں ہونے لگتا ہے-محبوب کے وصل کی یادیں رُوح سے اٹکھیلیاں کرنے لگتی ہیں،جبرِ کثافت سے سوئی پڑی رُوح انگڑائی لےکر اٹھنے لگتی ہے اور پردیسِ مادیت میں وطنِ اصلی یعنی لاہوت کی خبر پا کر انبساط و مسرت سے شاداب و فرحت یاب ہوئی جاتی ہے، بالکل اُس مسافرقیدی کی طرح جو ایک عرصۂ دراز سے پردیس