یتیم اور تعلیماتِ اسلام (فکری خطاب - آخری قسط)

یتیم اور تعلیماتِ اسلام (فکری خطاب - آخری قسط)

یتیم اور تعلیماتِ اسلام (فکری خطاب - آخری قسط)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی ستمبر 2017

امام عبدالرزاق الصنعانی (رحمتہ اللہ علیہ)(المتوفی:۲۱۱ھ)نے ’’مصنف عبدالرزاق کتاب العلم‘‘میں سیدنا داؤد علیہ السلام کے قول کے طور پر اسے نقل کیا او ر چند ایک  محدثین کرام نے اسے آقا علیہ السلام کی حدیث کے طور پہ بھی نقل کیا ہے کہ:

’’کن للیتیم کأَبٍ رحیم‘‘[1]                 ’’یتیم پر اُس کے والد کی طرح شفقت فرمائیے‘‘- 

یعنی جب کسی یتیم کو دیکھو،تو اس یتیم کے  لئے محبت کرنے والے باپ بن جایا کرو-جس طرح اپنے بیٹے کو گود میں اٹھا لیتے ہو اسی طرح کوئی یتیم سامنے آئے تو اسے اٹھا لیا کرو-جس طرح اپنی اولاد کو اپنے سینے سے لگا لیتے ہو اسی طرح کسی یتیم کو پاؤ تو اسے بھی اپنے سینے سے لگا لیا کرو-جس طرح اپنے بچوں کے لئے کھلونا یا کوئی کھانے پینے کی چیز بازار سے خرید کر لاتے ہو،تو اُسی طرح جو بھی تمہارے اردگرد،گلی، محلے عزیز و اقارب اوررشتہ داروں میں اگر کوئی یتیم بچہ ہو تو اس کے لئے بھی وہ چیزلے  کر آؤ-اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث بنتا ہے-

اس لئے اللہ تعالیٰ نےآقا علیہ السلام اور اپنی کتاب (قرآن مجید)کے ذریعےانسانوں میں یہ احساس اجاگر کیا کہ وہ یتیم کے ساتھ محبت کریں-یہاں قابل غور بات ہےکہ!ہمیں سیدنا خضر علیہ السلام کے واقعہ سے چندبہت ہی خوبصورت و لطیف چیزیں ملتی ہیں:

پہلی بات یہ کہ سیدنا خضر علیہ السلام کو کسی نے نہیں کہا تھا کہ یہاں مالِ یتیم دفن ہے،آپ اس کی حفاظت کریں-بلکہ ان کو حکمِ غیبی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا علم ہوا تو انہوں نے بغیر کسی کے کہے اور بغیر کسی کے اُکسائے فقط رضائے الٰہی کی خاطر اس دیوار کو تعمیر کیا-گویا جہاں مالِ یتیم کے تحفظ کی بات آئے وہاں کسی کا کہنا یا کسی کا اُکسانا ضروری نہیں ہوتا-

دوسری بات : وہ جن دو (۲)بچوں کی دیوار تھی کیا ان کی سیدنا خضر علیہ السلام سے کوئی رشتہ داری یا قرابت داری تھی؟کوئی قرابت و عزیز داری اور کوئی رشتہ نہیں تھا اس کے باوجود دیوار تعمیر کی -گویا کہ یتیم کےمال اور حقوق کے تحفظ کے لئے آپ کا اس کا رشتہ دار اور برادری کا ہونا ضروری نہیں ہے-

تیسری بات : کیا سیدنا خضر علیہ السلام نے اس میں سے کچھ حصہ اور اجرت طلب کی؟بلکہ اجرت کو منع کیا اور اجرت طلب کرنے پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے جدائی اختیار کرلی-گویا یتیم کی مدد و معاونت اور اس کے مال کے تحفظ کے لئے آپ کو بے لوث اور بے غرض ہونا چاہیے-

چوتھی بات: یہ ان سب  سے بھی بڑھ کے ایک لطیف و منفرد بات ہے کہ وہ قافلہ جس میں حضرت خضر اور حضرت موسیٰ (علیہم السلام) چل رہے ہیں،اس میں ایک طویل وقت سےکھانا نہیں کھایا-وہ فاقہ کشی اور بھوک کے عالم میں غربت اور مسکینی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں-مگر اس غربت اور قلتِ اسباب کے باوجود سیدنا خضر علیہ السلام ان یتیموں کی مدد کرتے ہیں-اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق نبوت اور ولایت کی سنت ادا کرتے ہوئے آپ کے پاس اسباب اور طاقت ہو یا نہ ہو لیکن یتیم کی سرپرستی اوراس کے مال کا تحفظ کرنا آپ کے اوپر لازم ہے-

 

پھر اللہ تعالی نے یتیم کے مال کے متعلق براہ راست حکم فرمایا:

’’وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً‘‘[2] 

 

’’اور تم یتیم کے مال کے قریب تک نہ جانا مگر ایسے طریقہ سے جو (یتیم کے لیے) بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہو گی‘‘- 

یعنی اللہ پاک نےپوری انسانیت کو یہ براہِ راست حکم فرمایا کہ مالِ یتیم کو ہتھیانے،چرانے اوراس پر قابض ہونے کے لئے اس کے قریب تک نہ جانا-اگر اس کے کفیل اور سرپرست بنناچاہتے ہو تو اس کے مال میں سے کچھ بھی کھاؤ نہیں بلکہ امانت کے طور پر اپنے پاس رکھو اور جب وہ بالغ اور سمجھ دار ہو جائےتو اس کا مال اس کے سپرد کر دو-اسی کی وضاحت  سورہ الانعام میں مزید ہو جاتی ہے -ارشاد فرمایا:

’’وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰیج وَبِعَھْدِ اللہِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘[3]

 

’’اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو- ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو اور اﷲ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو‘‘-  

افسوس!کہ جس طرح ہمارے معاشرےمیں ایک طرف دیہی علاقوں میں رسی گیری یعنی  زور آوری چلتی ہے جس میں زوری کی بنا پرقبضہ کرنے والوں  کے لئےبیواوؤں، یتیموں اور مساکین کا مال ایک نرم لقمہ اور تر نوالہ ہوتا ہے جس کو وہ نگل لیتے ہیں-دیہات کے وڈیرے سردار لوگ ان کے مال پر قابض ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف جو ہمارے  شہروں میں قبضہ مافیہ ہیں ان کے لئے یتیموں اور بیواو ؤں کی زمینیں اور جائیداد ایک تر لقمہ ہوتی ہے جسے وہ ہضم کرنے میں ذرا بھر بھی دیر نہیں لگاتے-جس زمانے میں آقا علیہ السلام جلوہ فرما ہوئے اس وقت بھی مالِ یتیم پر قابض ہونے کےمختلف طریقے تھے-ایک تو یہ کہ اگر کوئی یتیم بچوں جن کے پاس مال و متاع ہوتا،کا کوئی رشتہ دار ان کے پاس چلا جاتا تو وہ اس پر قبضہ کر لیتے اور جب بچے عاقل اور بالغ ہو جاتے تو ان کو ان کا مال واپس نہ کرتے یا پھر اس کی کفالت و سرپرستی کا دعوی کر کے اس کا تمام مال اپنے تصرف میں لے لیتے-ان کے قیمتی جانور فروخت کر دیتے یا اپنے تسلط میں لے کر تباہ و برباد کر دیتے اور جب ان کو مال لوٹانے کی باری آتی تو قیمتی و توانا جانوروں کی بجائے دبلے، پتلے، لاغر اور حقیر قسم کے جانور ان کو لوٹا دیتے-

اسی بات پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النسا ءمیں متعدد آیات نازل فرمائیں اور اس بات سے منع فرمایا:

’’وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰـٓی اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا‘‘[4]

 

’’اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور(اپنی)ردی چیز کو (ان کی)عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے‘‘-  

    ’’وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰـفًا خَافُوْا عَلَیْھِمْ فَلْیَتَّقُوْا اللہَ  وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘[5]

 

’’اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکر مند) ہوتے،سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئے‘‘-

یعنی اللہ پاک فرما رہا ہےکہ تمہیں یتیموں کے معاملے میں ڈرنا چاہیے کہ یتیم اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں اور تم ان کا مال ہتھیانا چاہتے ہو-ذرا سوچو! اگراسی طرح تم اپنی اولاد کو چھوڑ کر چلے جاؤ،تمہارے بچے یتیم ہوجائیں اور تمہیں یہ خوف ہو کہ اگر ان کا مال کوئی ہتھیا لے تو تب ان کے ساتھ کیا بنے گا اور اس وقت تمہارے دل پر کیا گزرے گی-اس لئے اللہ پاک فرما رہا ہے کہ جو کسی کے ساتھ جو کچھ کرتا ہے تو تمہارا رب اپنی قدرت سے تمہیں اس کا بدلہ لوٹا دیتا ہے-اگر کوئی کسی یتیم کا مال کھائے گا تو ہم اسی طرح اس کی اولاد کو یتیم کر دیں گے اور اس  کی اولاد سے اس کے جرم کا انتقام لیا جائے گا-یہ قدرت کا انتقام ہوتا ہے کہ جو بھی آج کسی کے ساتھ اچھائی یا برائی کرتا ہے تو کل اس کے ساتھ  بھی وہی ضرور ہو جاتا ہے-

 

آج اگر کسی کے بچوں کا مال کوئی ہتھیاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کل جب ہم  میں سے کوئی چلا جائے گا،ہمارے معاشرے میں ایسے درندے دندناتے پھریں گے جو ہماری نسلوں کا مال بھی غصب کریں گے-اس لئے ہمیں اپنے سماج و معاشرے میں ایسی باتو ں کا آغاز کرنا چاہیے کہ اُمتِ محمدیہ کا ایک ممبر،نبی آخر الزماں (ﷺ)کا کلمہ گو،کتاب اللہ کو ہدایت تصور کر کے اس پر ایمان لانے والا ہوتے ہوئے ہمارے اوپر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ ہم یتیم کے مال اور اس کے حقوق کا تحفظ کریں اور کسی کو یہ اجازت نہ دیں کو یتیم کے مال کو ہضم کرنے کی جسارت کر سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں یتیم کے مال کھانےکا انجام بیان کیا کہ اگر تم کسی کا مال کھاؤ گےتو تمہارے بچوں کا حصہ اورمال بھی کھایا جائے گا-

اسی طرح آخرت کے متعلق اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا‘‘ [6]

 

’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے‘‘-  

یعنی جو لوگ ظلم اور ناحق طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو بے شک وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور وہ بہت جلد دہکتی ہوئی آگ میں گرا دیے جائیں گے-از روئے قرآن مالِ یتیم کا تحفظ محض ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہی نہیں بلکہ قرآن نے اس کو فکرِ آخرت،سزا اور جزا سے منسلک کر کے بیان کیاہے-اس دینِ مبین کا اندازہ لگائیے! کہ اس نے یتیم کے ساتھ ظلم و انصاف کرنے کو سزا اور جزا کے ساتھ منسلک کر کے مال یتیم اور خود یتیم کے تحفظ کو ہماری ایمانیات کا حصہ بنا دیا ہے-پس از روئے قرآن مالِ یتیم اور حقوقِ یتیم کاتحفظ کرنا ہمارے سماج کا نہیں بلکہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے-

امام بخاری ؒ نے ’’کتاب الوصایا‘‘،امام مسلم ؒ نے ’’صحیح مسلم کتاب الایمان‘‘، امام داود ؒ نے ’’سنن ابی داود، کتاب الوصایا‘‘ اور امام نسائی ؒ نے ’’سنن النسائی، کتاب الوصایا‘‘ میں اس حدیث پاک کو بیان کیا -سیدنا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

’’قَالَ اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ  اللہِ (ﷺ) وَ مَا ھُنَّ ؟ قَالَ الشِّرْکُ بِاللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ اَکْلُ الرِّبٰوا وَ اَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصِنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ‘‘

 

’’ہلاک کرنے والے سات گناہوں (کبیرہ گناہوں ) سے بچتے رہناعرض کی گئی کہ یا رسول اللہ (ﷺ)وہ کون سے ہیں؟فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا،جس شخص کے قتل کرنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا،سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا،کفار سے مقابلے میں پیٹھ دکھا جانا اورمسلمان پاک دامن بے قصور عورت پر تہمت لگانا‘‘-

یعنی تباہ و برباد کر دینے والے ان سات گناہوں سے بچو،یعنی اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،’’جادو‘‘یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہمارے گلی، کوچوں میں بخار اور نزلے کے وبا کی طرح پھیل گئی ہےاس سے بچو،کسی کو ناحق قتل نہ کرو، سود کا مال نہ کھاؤ،یتیم کے مال پر قبضہ کرکے اسےکھاؤ نہیں،جب اسلام پہ کوئی خطرہ امڈ آئے تو کفار کے سامنے اپنی پشت دکھا کے بھاگ نہ جانا اور مسلمان پاک دامن عورت کے اوپر تہمت نہ لگانا-

سیدنا ابو سعید الخدری (رضی اللہ عنہ)روایت فرماتے ہیں کہ شبِ معراج جب آقا علیہ السلام عرش پہ تشریف لے گئے تو اللہ تعالی نے تمام آسمان آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں معائنے کیلئے پیش کئے- حضرت جبریل امین نے آپ (ﷺ)کو آسمانوں کا معائنہ کروایا،آپ (ﷺ) نے ملائکہ کی صفوں، دیگر مقامات، جنت اور جہنم کا ملاحظہ فرمایاکہ جہنم میں دوزخیوں کو کس طرح عذاب دیا جاتا ہے،معائنہ فرمانے کے بعد آقا علیہ السلام نے فرمایا:

’’نَظَرْتُ فَاِذَااَنابِقَوْمٍ لَّھُمْ مَشَافِرٌ کَمَشَافِرِ اْلابِلِ وَقَدْ وُکِّلَ بِھِمْ مَنْ یَّأْخُذُ بِمَشَافِرِھِمْ ثُمَّ یُجْعَلُ فِیْ اَفْوَاھِھِمْ صَخْرًا مِنْ نَارٍ یَخْرُجُ مِنْ أسَافِلِھِمْ یَاجِبْرَئِیْلُ مَنْ ھٰؤُلَائِ؟ ھٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتَا مٰی ظُلْماً‘‘ [7]

 

’’مَیں نے دیکھاکہ اچانک میں ان لوگوں میں تھا جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں جیسے تھے -ان پر ایسے افراد مسلط کئے گئے تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑے ہوئے تھےپھر ان کے مونہوں میں آگ کی چٹان ڈال رہے تھے - جو اُن کے نیچے والے حصہ سے نکلتی-میں نے جبرائیل ؑ سے پوچھا:اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل امین نے جواب دیا،اے میرے آقا (ﷺ)یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم کے ذریعے یتیموں کا مال کھایا کرتے تھے‘‘-

پھر امام طبری ؒ امام سُدی ؒ کایہ قول نقل کرتے ہیں کہ :

 

’’اِذَاقَامَ الرَّجُلُ یَأکُلُ مَالَ الْیَتِیْمِ ظُلْماً یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَھَبُ النَّارِ یَخْرُجُ مِنْ فَمِہِ وَمِنْ مَسَامِعِہٖ وَمِنْ اُذُنَیْہِ وَأَنْفِہٖ وَعَیْنَیْہِ یَعْرِفُہُ مَنْ رَاَہُ یَأکُلُ مَالَ الْیَتِیْمِ ‘‘

 

’’جب کوئی آدمی یتیم کا مال ظلم کرتے ہوئے کھائے گا اسے قیامت کے روز یوں اٹھایا جائے گا کہ آگ کا شعلہ اس کے منہ ،اس کے کانوں،اس کی ناک اور اس کی آنکھوں سے نکل رہا ہوگا  جوبھی اسے دیکھے گا وہ پہچان لے گا کہ یہ یتیم کا مال کھانے والا ہے ‘‘-

یعنی جو لوگ ظلم کے ذریعے یتیموں کا مال کھاتے ہیں انہیں قیامت کے دن جب کھڑا کیا جائے گا تو ان کے منہ،کانوں ، ناک اور آنکھوں سے آگ کے شعلےنکل رہے ہوں گے اور جو کوئی بھی انہیں دیکھے گا  وہ ان کو پہچان لے گا کہ اچھا یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھایا کرتے تھے-

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ:

’’اَرْبَعٌ حَقٌّ عَلَی اللہِ أَنْ لَّا یُدْ خِلَھُمُ الْجَنَّۃَ وَلَا یُذِیْقَھُمْ نَعِیْمَھَا مُدْمِنُ الْخَمْرِ ، وَاٰکِلُ الرِّبَا، وَ اٰکِلُ مَالِ الْیَتِیْمِ بِغَیْرِحَقٍّ وَالْعَاقُ لِوَالِدَیْہِ‘‘

 

’’چار افراد کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے کہ انہیں جنت میں داخل نہیں کرے گااورنہ اُنہیں نعمتیں چکھائے گا- ہمیشہ شراب پینے والا،سود خور، ناحق یتیم کا مال کھانے والااور والدین کی نافرمانی کرنے والا‘‘-

یعنی اللہ پاک ان چار طرح کے لوگوں کو جنت میں داخل نہیں کرے گا-

یتیم کی کفالت دخولِ جنت کا سبب ہونا:

امام ابو عیسیٰ ترمذی (رحمتہ اللہ علیہ)نے کتاب ’’سنن الترمذی،کتاب البر وصلہ‘‘اورامام طبرانی ؒ نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں سیدنا عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ آقا پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ قَبَضَ یَتِیْمًا بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلٰی طَعَامِہٖ وَ شَرَابِہٖ اَدْخَلَہُ اللہُ الْجَنَّۃَ اَلْبَتَّۃَ اِلَّااَنْ یَّعمَلَ ذَنْبًا لَا یُغْفَرُ لَہُ ‘‘

 

’’جو شخص کسی مسلمان یتیم بچے کے کھانے کی کفالت کرے اللہ تعالیٰ ضرور اسے جنت میں داخل کرے گا سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسا(شرک جیسا)گناہ کرے جس کی بخشش نہ ہو‘‘-

یعنی اگر بندے نے شرک کی طرح کا کوئی گناہ نہ کیا ہو یعنی ایسا گناہ جس پہ بخشش نہیں ہوسکتی یعنی آقا علیہ السلام سے منافقت اور رب کی ذات سے شرک-اگر یہ دو گناہ اس نے نہ کئے ہوں باقی اگر اس کے اعمال جیسے بھی ہوں اگر وہ محبت کے ساتھ یتیم کو کھانا کھلاتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس عمل کے صدقے اس آدمی کو جنت میں داخل فرما دے گا-

امام عبدالرزاق ؒ امام بخاری و مسلم ؒ کے شیوخ میں شمار ہوتے ہیں،’’المصنف عبد الرزاق‘‘اور امام احمد بن علی بن المثنی ابو یعلی الموصلی التمیمی ’’مسند ابی یعلی‘‘میں اس حدیث پاک کو روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’اَنَااَوَّلُ مَنْ یُّفْتَحُ لَہُ بَابُ الْجَنَّۃِ اِلَّا اَنَّہُ تَأْتِیْ اِمْرَأَۃٌ تُبَادِرُنِیْ فَاَقُوْلُ لَھَا: مَالَکِ؟ مَنْ اَنْتِ؟  فَتَقُوْلُ اَنَااِمْرَأَۃٌ قَعَدْتُّ عَلٰی اِیْتَامٍ لِیْ‘‘

 

’’مَیں وہ پہلا شخص ہو ں جس کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا مگر یہ کہ ایک عورت جلدی سے میرے پاس آئے گی میں اس سے پوچھو ں گا تمہاراکیا مسئلہ ہے؟ تم کون ہو؟وہ عرض کرے گی :میں وہ عورت ہو ں جو اپنے یتیم بچوں کی پرورش کے لئے بیٹھی رہی (دوسرا نکاح نہیں کیا تو آپ() اسے جنت میں داخل فرمادیں گے)‘‘-

اس حدیث پاک کو پڑھنے کے بعد ہمیں اپنے ذہن میں اپنے سماج کی کئی ایسی شخصیات دکھائی دیتی ہیں جس سے ہمیں آقا پاک (ﷺ) کی شفقت و مہربانی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ(ﷺ)ایسے لوگوں سے کتنی محبت فرماتے ہیں جو یتیم کے مال اور حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی زندگی بھر کو وقف کر دیتے ہیں-

یتیم کی کفالت قُربِ حبیب (ﷺ) کا وسیلہ ہے:

جن کے دل اخلاقِ نبوت سے روشن اور فیض یاب ہوتے ہیں جو آقا علیہ السلام کی ذات اقدس کی مانند یتیم کے لئے ایک رحیم باپ کی مانند کفالت کرتے ہیں ان کے لئے آقا علیہ السلام کے اس فرمان مبارک کو امام مسلم ؒ نے ’’صحیح مسلم، کتاب الرقاق‘‘، امام احمد بن حنبل ؒ  نے ’’مسند احمد بن حنبل‘‘اور امام ابن شیبہ ؒ نے ’’المصنف ابن ابی شیبہ، کتا ب الزکوٰۃ اور کتاب البیوع‘‘ میں نقل کیا-سیدنا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایاکہ:

’’کَا فِلُ الْیَتِیْمِ لَہُ أَوْ لِغَیْرِہِ اَنَا وَھُوَ کَھَا تَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَ اَشَارَ مَالِکٌ بِالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی‘‘

 

’’ یتیم کی پرورش کرنے والا،اگرچہ وہ اس کا رشتہ دارہو یا نہ ہو ،(فرمایا) مَیں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے اور آقا علیہ السلام نے اپنی دونوں انگلیوں کو آپس میں جوڑ دیا‘‘-

یعنی جو شخص بھی یتیم کی کفالت، سرپرستی اور یتیم کے مال اور حقوق کا تحفظ کرتا ہے،چاہے وہ اس کا رشتہ دار ہویا نہ ہو،آقا علیہ السلام نے اپنی ایک انگلی کو دوسری انگلی کے قریب جوڑتے ہوئے فرمایا کہ وہ جنت میں میرے ساتھ اس طرح کھڑا ہوگا-

 

امام احمد ابن حنبل ؒ نے ’’مسند احمد بن حنبل‘‘اور امام طبرانی ؒ نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں حضرت ابو امامہ(رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا :

’’مَنْ مَّسَحَ رَأْسَ یَتِیْمٍ لَمْ یَمْسَحْہُ اِلَّا اللہِ کَانَ لَہُ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مَرَّتْ عَلَیْھَا یَدَہُ حَسَنَاتٌ وَمَنْ اَحْسَنَ اِلٰی یَتِیْمَۃٍ اَوْ یَتِیْمٍ عِنْدَہُ کُنْتُ اَنَاوَھُوَ فِی الْجَنَّۃِ کَھَا تَیْنِ وَفَرَّقَ بَیْنَ اَصْبُعَیْہِ السَّبَّابَۃَ وَ الْوُسْطٰی‘‘

 

’’جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھا تو اس کےلئے ہر اس بال کے بدلے نیکیاں ہیں جس جس بال کو اس کا ہاتھ لگاتھاجس نے اپنی زیر کفالت کسی یتیم بچی  یا بچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا تووہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے آپ () نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھا ‘‘-

یعنی جو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئےیتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حصے میں اتنی نیکیاں لکھ دیتا ہے جتنے اس یتیم کےسر کے بال اس کے ہاتھ سے مس ہو تے ہیں یعنی ہر ایک بال کے بدلے اس کو نیکیاں عطا ہوتی ہیں-جو کسی یتیم بچے یا بچی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے آقا علیہ السلام نے پھر اپنی شہادت کی اور بڑی انگلی کو اکٹھا کرتے ہوئے فرمایا کہ جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا -

یتیم کی پرورش جہاد فی سبیل اللہ ہے :

امام ابن ماجہ ؒ نے ’’سنن ابن ماجہ، کتاب الاداب‘‘میں حضرت  عبد اللہ ابن عباس(رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’مَنْ عَالَ ثَلَاثَۃً مِّنَ الْاَیْتَامِ کَانَ کَمَنْ قَامَ لَیْلَہٗ وَ صَامَ نَھَارَہٗ وَغَدَا وَرَاحَ شَاھِرًا سَیْفَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَکُنْتُ اَنَا وَھُوَ فِی الْجَنَّۃِ اَخَوَیْنِ کَھَاتَیْنِ اُخْتَانِ وَاَلْصَقَ اِصْبَعَیْہِ السَّبَّابَۃَ وَالْوُ سْطٰی ‘‘

 

’’رسول اللہ() نے فرمایا: جس نے تین یتیموں کی پرورش کی تو وہ ایسا ہی ہے جیسے رات بھر عبادت کرتا رہا ہو دن میں روزے رکھتا رہا ہواور صبح و شام تلوار لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتا رہا اور یاد رکھو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں پھر آپ نے درمیانی اور شہادت کی انگلی کو ملا کر دکھایا‘‘-

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ عبادت اور زہد کی شناخت،نمازی اور روزہ دار ہونا ہے-ایک آدمی سارا دن روزہ رکھتا ہواور ساری رات عبادت میں گزارتا ہو،صبح اور شام اللہ تعالیٰ راہ میں جہاد کرتا ہو، غلبہ دین کی جدوجہد کرتا رہتا ہو، ملک و ملت کے استحکام کی جنگ لڑتا رہتا ہو کیا اس سے نیک بھی کوئی ہوسکتا ہے؟لیکن جس آدمی نے تین یتیموں کی کفالت کی اس کا اجر یوں ہے کہ گویا اس نے ساری زندگی اپنےدن روزے میں اور راتیں عبادت میں گزاری، ساری زندگی اللہ کی راہ میں جہاد اور دین کو غالب کرنے کی کوشش میں لگا رہااور قیامت کےدن آقا پاک(ﷺ) کی اتنی قربت میں ہوگا جتنی کہ دو انگلیوں کو فاصلہ ہوتا ہے-اس لئے بندہ اس دینِ رحمت کی تلقینِ رحمت  کا اندازہ ہی  نہیں کرسکتا کہ یہ دین انسان کے ٹوٹے ہوئے دل کی کس حد تک قدر اور پیار کرناسکھاتا ہے-اللہ تعالیٰ نےآقا علیہ السلام کے ذریعے انسان کو فطرتِ انسانی کے اتنا قریب کر دیا کہ دین انسانوں میں نفرت پیدا کر کےان کو توڑتا نہیں ہے بلکہ ان میں محبت و الفت پیدا کرکے ان کو جوڑتا ہے-

مسلمان گھرانوں میں سے سب سے اچھا گھر:

امام بخاری ؒ ’’کتاب الادب المفرد اور کتاب الیتیم‘‘امام عبد الرزاق ؒ ’’مصنف عبد الرزاق،کتاب الطہارت‘‘امام ابن ماجہ ؒ ’’سنن ابن ماجہ ،کتاب الاداب‘‘ میں اس حدیث پاک کو بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نےارشاد فرمایا:

’’خَیْرُ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحْسَنُ اِلَیْہِ وَشَرُّبَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَائُ اِلَیْہِ‘‘

 

’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے بد ترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو‘‘ -

آج دنیا میں کیوں دین کو دہشت گردی اور تشدد کا دین کہا جا رہا ہے؟اس لئےکہ ہمارے بعض نا عاقبت اندیش تشدد و تعصب کی وجہ سے دین کو دہشت گردی کی تصویر بنا کرپیش کرتے ہیں، قتل وغارت اور فتنہ و فساد کر کے خون کی ندیاں بہاتے ہیں جس کی وجہ سے آج دنیا دین کو دینِ دہشت   گردی کہتی ہے-لیکن آپ غور و فکر کرئیے!کہ آقا علیہ السلام اور آپ (ﷺ)جو دین لائےوہ اس امت کو کیا سکھاتا اور سمجھاتا ہے-

 

یتیم پہ شفقت صفائے قلب کا موجب ہے :

امام بیہقی ؒ نے ’’سنن الکبری،کتاب الجنائزاورشعب الایمان‘‘اور امام احمد بن حنبل ؒ نے ’’مسند احمد بن حنبل ‘‘میں اس حدیث پاک کو بیان کیا-حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ رَجُلًا شَکٰی اِلٰی رَسُوْلِ  اللہِ(ﷺ) قَسْوَۃَ قَلْبِہِ فَقَالَ لَہُ: اِنْ اَرَدْتَّ اَنْ یَلِیْنَ قَلْبُکَ فَاَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمَ‘‘[8]

 

’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم () سے اپنے دل کے سخت ہونے کی شکایت کی تو آپ () نے فرمایا : اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تومسکین کو کھانا کھلاؤاور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو‘‘-

اندازہ لگائیے! اس شخص نے دل کی سختی کی شکایت کی کہ یا رسول اللہ (ﷺ)میرا دل بہت سخت ہے دل سے کڑواہٹ نہیں جاتی،نرم نہیں ہوتا، دل میں نرمی و  پیار نہیں آتا تو آقا پاک (ﷺ)نے اسے فرمایا کہ اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے تو غریبوں کو کھانا کھلایا کر یعنی جن کے گھر روٹی میسر نہیں ان کو خوراک پہنچایا کر اور یتیم بچے کو بلا کر اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا کر،رب تیرے دل کو نرم کر دے گا اور دل میں پیار و محبت کو پیدا فرمادے گا-

اسی سے ملتی جلتی حدیث پاک امام منذری ؒ نے ’’ترغیب و الترہیب، کتاب البر‘‘میں بیان فرمائی-سیدنا ابو دردا (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں ایک آدمی حاضر ہوا تو وہ دل کی سختی کی شکایت کر رہا تھا-

’’قَالَ أَتُحِبُّ أَنْ یَلِیْنَ قَلْبُکَ وَتُدْرِکَ حَاجَتَکَ اِرْحَمِ الْیَتِیْمَ وَامْسَحْ رَأْسَہٗ وَأَطْعِمْہُ مِنْ طَعَامِکَ یَلِنْ قَلْبُکَ وَ تُدْرِکْ  حَاجَتَکَ‘‘

 

’’نبی کریم() نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہارا دل نرم پڑ جا ئے اور تمہاری ضرورت پوری ہو جائے تویتیم پر رحم و شفقت کرواور اس کے سر پر ہاتھ پھیرواور اپنے کھانے میں سے اس کو کھلاؤتو تمہارا دل نرم ہو جائے گا اور تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی‘‘-

یتیم پہ شفقت دفعِ شیطان کا باعث ہے :

اسی طرح امام منذری ؒ نے ’’ترغیب والترہیب، کتاب البر‘‘میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ)سے روایت نقل کی ہےکہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

’’قَالَ مَا قَعَدَ یَتِیْمٌ مَعَ قَوْمٍ عَلٰی قَصْعَتِھِمْ،فَیَقْرَبَ قَصْعَتَھُمْ شَیْطَانٌ‘‘[9]

 

’’جن لوگوں کے ساتھ کوئی یتیم ان کے برتن میں کھانے کے لئے بیٹھے تو شیطان ان کے برتن کے قریب نہیں آتا ‘‘-

گویا جس دسترخوان پرجس برتن میں یتیم آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھاتا ہے اس کے قریب شیطان پھٹک بھی نہیں سکتا تو اس لئے اگر تم چاہوکہ تمہارے دلوں میں سختی کی بجائے نرمی پیدا ہو تو یتیم پہ رحم کیا کرو، اس کے سر پہ  شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو اور جو کھانا کھاتے ہو اس کھانے میں سے اس کو بھی ساتھ کھانا کھلایا کرو-

میرے بھائیواور بزرگو! آپ قرآن اورآقا علیہ السلام کی سنت و شریعت میں تھوڑا سا غور و فکر کریں آپ کو فوراً یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ دین انسان کو انسان کی اس فطرت کے قریب کرنے آیا ہے جو انسان کے دل میں نہاں و  پنہاں ہے جو انسان کے احساسات سے متعلق ہے جو انسان کے اندر اخوت ومحبت کو پیدا کرتی ہے ، جو انسانوں میں انسان دوستی اور انسان پروری کو پیدا کرتی ہے -

یہ تو یتیم کی بات تھی،آپ مسکین کے اوپر دیکھیں،صدقات، زکوٰۃ اور خیرات کا پورا نظام ایمان کے طور پہ اللہ نے واضح کر دیا اس لئے کہ میری زمین کے اوپر کوئی بھوکا نہ سوئے،کوئی نادار نہ رہ جائے،کوئی دل میں حسرت رکھنے والا نہ رہ جائے-

مسافر اجنبی علاقوں سے آتا ہے اجنبی علاقوں میں سفر کرتا ہے اجنبی زبانوں میں جاتا ہے اپنے رشتہ دار گھر بار ایک جگہ چھوڑ کر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیزمیں مسافر کا حصہ رکھ دیا جس جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے یتیم اور مسکین کا حصہ رکھا ہے-مسافر، مساکین، بیواؤں اوریتیموں کے حقوق مقرر کئے-ان حقوق مقرر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ محبتوں اور اخوتوں کو عام فرما دے-بلکہ دین مبین چاہتا یہ ہے کہ جو انسان مختلف قبائل، خطوں اورقومو ں میں بٹ گئے ہیں ان کے درمیان اُلفت کی ایسی تدبیریں پیدا کر دی جائیں کہ اتنی تقسیموں کے باوجود یہ تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ بنی نوع انسان ہونے کے ناطے جڑ جائیں کیونکہ  دین کا اصل مقصد بھی یہی ہے-

اس لئےمیں عرض کرنا چاہوں گا کہ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی بھی یہی دعوت ہے کہ آؤ اور اپنے دلوں سے بغض، عناد، حسد، منافرت اور منافقت کو ختم کر کے آقا علیہ السلام کے سچے غلام بن کر انسانیت کی عظمت و وقار کے محافظ بن جائیں-دین دوری، منافرت،قتل و غارت،فتنہ و فساد اور اس طرح کی درندگی نہیں چاہتا جس طرح کی درندگی یہ اُمت،یہ قوم،ہمارے گلی کوچے،ہماری مسجدیں اور خانقاہیں، ہمارے بازار اور روڈ،ہمارے بیٹے اور بیٹیاں بھگت رہی ہیں- بلکہ دین ہم سب کو آپس میں پیار و محبت کو پیدا کرکے متحد کرنا چاہتا ہے-آج اس دین کے ماننے والوں میں وہ اخلاقی دیوالیہ پن،اخلاقی انحطاط اور اخلاقی زوال آچکا ہے جو یہ دینِ رحمت کو دینِ نفرت کے طور پہ پیش کرتے ہیں-آج اسی اخلاقی دیوالیہ پن کی وجہ سے بڑے بڑے  مبلغین میں یہ اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ قاتل کو قاتل،ظالم کو ظالم،دہشتگرد کو دہشتگرد اور فسادی کو فسادی کَہ سکیں، اس لئے کہ اس دین کی تفہیم میں کوتاہی واقع ہوئی ہے-

دین کو اس کےصحیح و احسن اندازمیں سمجھنے کی کوشش کرو،دین کو سمجھنے کے لئے اپنے سیاسی و مادی مفاد ایک طرف رکھو،اپنے اقتدار اور اپنے ہوسِ نفس کے غلبے کی جنگ کو دین کے غلبے کی جنگ بنا کے پیش نہ کرو-اگر حقیقت میں دین کو سمجھنا چاہتے ہو تو دین کو اس انداز میں سمجھنے کی کو شش کرو جس انداز میں آقا علیہ السلام نے اپنے عمل سے سکھایا ہے کہ دین رحمت، محبت،امن اور اعتدال کا دین ہے-جو دین یتیم کا دل دکھانے کی اجازت نہیں دیتا وہ ایک یتیم کا گلا کاٹنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟اس لئے میرے نوجوان ساتھیو،بھائیو اور بزرگو!ہمیں دین کی اُس حقیقی تفہیم کی اور آقا علیہ السلام کے اس دنیا  میں جلوہ فرمانے کےمقصد کو سمجھنے کی ضرورت ہےکیونکہ آقا علیہ السلام کے وجودِ اقدس کے صدقے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو محافظت فراہم کی ہے- آقا علیہ السلام کا غلام و عاشق وہ ہے جو اللہ کی مخلوق کے اوپر رحیم و شفیق ہو جائے، اللہ کی مخلوق میں اس اخوت اور بھائی چارے کو عام کرے -

یہ پیغام سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع ابلاغ سے تحریری طور پر جہاں تک جائے مَیں آپ تمام قارئین کو یہ دعوتِ عام عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود سال بھر میں ایک مہینہ،تین ہفتے، دو ہفتے، دس دن،یا ایک ہفتہ نکال کر اصلاحی جماعت کے یہ مبلغین جو امن و محبت، محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) و اطاعت الٰہی اورنونانیت و رو حانیت کی یہ سفید دستاریں اپنے سروں پہ سجا کے آج دنیا میں ’’قریا قریا، نگر نگر، گلی گلی اور ملک ملک اس پیغام کو لے کر جا رہے ہیں،آپ کچھ وقت نکال کر ان مبلغین کے ساتھ چلیں اور اس عملی طریق کو سیکھیں کہ کیسے ہم اپنے ظاہر و باطن کو درست کر سکتے ہیں، کیسے ہم اپنے آپ کو اس طریق کے قریب کر سکتے ہیں جو انبیاء (﷩)،اولیا ء کرام،صا لحین اور نیک و پاکباز لوگوں کا طریق ہے-آپ آئیں اس عملی تربیت کو حاصل کریں تاکہ ہمارے دلوں سے نفرتیں ،بغض و عناد،فرقہ واریت اور تشدد ختم ہو کر ہمارے وجود میں  اعتدال پیدا ہو،ہم اپنے رب، اس کے حبیب (ﷺ)اور اس کی مخلوق سے محبت کرنے والے بنیں- کسی نے کیا خوب کہا تھا :

خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

 

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

جو اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ہے،اللہ اس کو دنیا و آخرت میں اپنا قرب عطا کرتا ہے اور آقا علیہ السلام نے بھی فرمایا جو اس حد تک شفیق ہو جائے قیامت کے  دن وہ میرے ساتھ دو انگلیوں کی مانند قریب ہوگا -اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے !-----آمین---!

٭٭٭

 



[1](المصنف،کتاب العلم،ج:10،ص:268)

[2](بنی اسرائیل:34)

[3](الانعام:152)

[4](النساء:2)

[5](النساء:9)

[6](النساء:10)

[7](تفسیر طبری،زیر آیت سورۃ النساء:10)

[8](سنن الکبری،کتاب الجنائز)

[9]( ترغیب والترہیب، کتاب البر)

امام عبدالرزاق الصنعانی (﷫)(المتوفی:۲۱۱ھ)نے ’’مصنف عبدالرزاق کتاب العلم‘‘میں سیدنا داؤد علیہ السلام کے قول کے طور پر اسے نقل کیا او ر چند ایک  محدثین کرام نے اسے آقا علیہ السلام کی حدیث کے طور پہ بھی نقل کیا ہے کہ:

’’کن للیتیم کأَبٍ رحیم‘‘[1]                 ’’یتیم پر اُس کے والد کی طرح شفقت فرمائیے‘‘-

یعنی جب کسی یتیم کو دیکھو،تو اس یتیم کے  لئے محبت کرنے والے باپ بن جایا کرو-جس طرح اپنے بیٹے کو گود میں اٹھا لیتے ہو اسی طرح کوئی یتیم سامنے آئے تو اسے اٹھا لیا کرو-جس طرح اپنی اولاد کو اپنے سینے سے لگا لیتے ہو اسی طرح کسی یتیم کو پاؤ تو اسے بھی اپنے سینے سے لگا لیا کرو-جس طرح اپنے بچوں کے لئے کھلونا یا کوئی کھانے پینے کی چیز بازار سے خرید کر لاتے ہو،تو اُسی طرح جو بھی تمہارے اردگرد،گلی، محلے عزیز و اقارب اوررشتہ داروں میں اگر کوئی یتیم بچہ ہو تو اس کے لئے بھی وہ چیزلے  کر آؤ-اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث بنتا ہے-

اس لئے اللہ تعالیٰ نےآقا علیہ السلام اور اپنی کتاب (قرآن مجید)کے ذریعےانسانوں میں یہ احساس اجاگر کیا کہ وہ یتیم کے ساتھ محبت کریں-یہاں قابل غور بات ہےکہ!ہمیں سیدنا خضر علیہ السلام کے واقعہ سے چندبہت ہی خوبصورت و لطیف چیزیں ملتی ہیں:

پہلی بات یہ کہ سیدنا خضر علیہ السلام کو کسی نے نہیں کہا تھا کہ یہاں مالِ یتیم دفن ہے،آپ اس کی حفاظت کریں-بلکہ ان کو حکمِ غیبی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کا علم ہوا تو انہوں نے بغیر کسی کے کہے اور بغیر کسی کے اُکسائے فقط رضائے الٰہی کی خاطر اس دیوار کو تعمیر کیا-گویا جہاں مالِ یتیم کے تحفظ کی بات آئے وہاں کسی کا کہنا یا کسی کا اُکسانا ضروری نہیں ہوتا-

دوسری بات : وہ جن دو (۲)بچوں کی دیوار تھی کیا ان کی سیدنا خضر علیہ السلام سے کوئی رشتہ داری یا قرابت داری تھی؟کوئی قرابت و عزیز داری اور کوئی رشتہ نہیں تھا اس کے باوجود دیوار تعمیر کی -گویا کہ یتیم کےمال اور حقوق کے تحفظ کے لئے آپ کا اس کا رشتہ دار اور برادری کا ہونا ضروری نہیں ہے-

تیسری بات : کیا سیدنا خضر علیہ السلام نے اس میں سے کچھ حصہ اور اجرت طلب کی؟بلکہ اجرت کو منع کیا اور اجرت طلب کرنے پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے جدائی اختیار کرلی-گویا یتیم کی مدد و معاونت اور اس کے مال کے تحفظ کے لئے آپ کو بے لوث اور بے غرض ہونا چاہیے-

چوتھی بات: یہ ان سب  سے بھی بڑھ کے ایک لطیف و منفرد بات ہے کہ وہ قافلہ جس میں حض

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں