حُکمائے قدیم استعارۃً بیان کرتے ہیں کہ ایک سنگِ پارس ہے وہ جس دھات کو چھو لے وہ سونا بن جاتی ہے!-آدمی سوچتا ہے کیا واقعتاً دنیا میں کوئی ایسا پتھریا آلہ ہو سکتا ہے جسے کسی چیز سے مَس کیا جائے تو وہ چیز اپنی کیفیت و شناخت ہی بدل لے-چونکہ انسان اسی چیز کو قبول کرتا ہے جس کو وہ اپنے مشاہدات اور تجربات سے پرکھ سکے اور جو چیز وہ اپنے آلۂ پیمائش سے ثابت نہ کر سکے تو وہ اسے اپنے نزدیک درست ماننے میں تردد کا مظاہرہ کرتا ہے-
حقیقت میں اس کا ظاہری معنیٰ ہے کہ نہیں لیکن حضراتِ عُشاق، حضراتِ محبین، حضراتِ صوفیا ءاور اولیاء کی کُتب سے ایک چیز کا آدمی کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک چیز ایسی ہے کہ اگروہ کسی کنکر کو بھی نصیب ہو جائے تو کنکر کا تعارف بھی تبدیل ہو جاتا ہے، وہ کسی درخت کو چھولے تو اس درخت کی حیثیت و تعارف تبدیل ہوجاتا ہے، وہ کسی زمین کے ٹکڑے کو چھو لے تو زمین کے اس ٹکڑے کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے اور اسی طرح اگروہ کسی آدمی کو چھو لے تو اس آدمی کا تعارف اور اس کی فطرت تبدیل ہو جاتی ہے-اس سنگِ پارس سے مراد’’نسبتِ مُصطفےٰ (ﷺ)‘‘ہے کہ جس چیز کو وہ سنگِ پارس چھو لے اس چیز کا تعارف، حیثیت، شناخت اور فطرت بدل جاتی ہے- آدمی متعجب ہوتا ہے کہ وہ کیسے؟مثلاًوہ انسان جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیدا فرمایا، جو کسی بھی قبیلے میں پیدا ہو سکتے تھے، لیکن جن کو نسِب مُصطفےٰ (ﷺ) سے شرف نصیب ہوا آقا کریم (ﷺ) کی رگوں کا خون جن کی رگوں میں منتقل ہوا ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[1]
’’(اے محبوب (ﷺ)فرما دیجیے!: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میں اپنی) قرابت سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘-
یعنی کہ اے حبیب مکرم(ﷺ) آپ ان لوگوں کو فرما دیجیئے جن کو آپ (ﷺ)نے دولتِ ایمان اور نجات و فلاح کے راستہ سے نوازا ہے،اس کے عوض مَیں فقط اہلِ قرابت و اہل بیت کی محبت کو طلب کرتا ہوں اس کے علاوہ مَیں تم سے کسی قسم کی کوئی بھی اُجرت طلب نہیں کرتا-
اسی طرح آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جن کو اپنے قرب کی نسبت اور اپنے روئے زیبا کی زیارت سے نوازا ان کیلئے آقا کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایاجسے امام ترمذی ؒ نے نقل فرمایا ہے:
’’اللہ اللہ فِيْ أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللہَ، وَمَنْ آذَى اللہَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ‘‘[2]
’’ میرے اصحاب کے بارے میں اللہ سے خوف کھاؤ،کہ میرے بعد تم انہیں طعن کا نشانہ نہ بناؤ،جس نے ان سے محبت رکھی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے رکھااور جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی تو اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی تو عنقریب اللہ (کا عذاب)اسے پکڑ لے گا‘‘-
ہر ایک مسلمان اس چیز کو جانتا اورسمجھتا ہے کہ صحابی کی تعریف اس کے زہد، اس کی مشقت ومحنت سے نہیں ہوتی-ایک آدمی ہے، جس کی تمام تر زندگی میں بظاہر کوئی صالح اعمال نہیں تھے، اس کی ساری زندگی گناہوں میں گزری،مگر اپنی موت سے چند لمحے قبل اس نے حالتِ ایمان میں آقا کریم (ﷺ)کے چہرہ انور کی زیارت کر لی تو اس کو صحابی کا رتبہ عطا ہوگیا-چاہے دنیا بھر کے زاہد و عابد، محنتیں اور مشقتیں کرنے والے مجاہد اکٹھے کر لئے جائیں تو وہ ایک صحابی کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے جبکہ صحابی کا عمل صرف اتنا ہے کہ اس نے حالتِ ایمان میں چہرۂ مصطفےٰ (ﷺ) کی زیارت کی ہے (نابینا صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) کا معاملہ اس سے بھی زیادہ لطیف ہے) -
اس لئے جس کسی کو بھی حالتِ ایمان میں آقا کریم(ﷺ) کی زیارت کا شرف نصیب ہوگیا اس کا تعارف، حیثیت اور شناخت بدل گئی-اسی طرح وہ عام سے درخت جو کسی بھی جگہ اُگ کر تنا آور ہو جاتے ہیں اور دنیا میں سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں درخت ہیں،لیکن دیکھیئے کہ درخت کی شناخت کیسے بدلتی ہے-اس حدیث پاک کو ’’امام بیہقیؒ نے ’’سنن الکبریٰ‘‘، امام ذہبی ؒنے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ اور امام ابن عساکرؒ نے ’’تاریخ مدینۃ الدمشق ‘‘ میں حضرت نافع (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا :
اِبْنُ عُمَرَ کَانَ یَتَّبِعُ آثَارَ رَسُوْلِ اللہِ (ﷺ) کُلَّ مَکَانٍ صَلّٰی فِیْہِ حَتّٰی اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) نَزَلَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَتَعَاھَدُ تِلْکَ الشَّجَرَۃَ فَیَصُبُّ فِیْ اَصْلِھَا الْمَآئَ لِکَیْلَا تَیْبَسَ‘‘[3]
’’حضرت عبد اللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ)نبی پاک (ﷺ)کے آثار کی اتباع کرتے تھےاورہر مقام پر نماز اداکرتے تھے،یہاں تک کہ نبی پاک (ﷺ)نےایک درخت کے نیچے آرام فرمایا توحضرت عبد اللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ)بار بار اس درخت کے نیچے آتےاور اس درخت کی جڑوں کو پانی دیتےتاکہ یہ خشک نہ ہوجائے‘‘-
اندازہ لگائیں کہ صرف ایک بار حضور نبی کریم (ﷺ) کی نسبت عطا ہونے کی وجہ سے اس درخت کی اہمیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ صحابہ کرام () اس درخت کو خشک ہونے سے بچا رہے ہیں کہ کہیں لوگ اس کو خشک دیکھ کر کاٹ نہ دیں-کیونکہ اس درخت کے ساتھ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ایک یاد وابستہ ہےکہ اس درخت کی چھاؤں سے آقا پاک (ﷺ)نے لمحہ بھر کے لیے راحت حاصل کی تھی - لہٰذا عارفانِ اسرارِ مُصطفےٰ (ﷺ) کے نزدیک وہ محض ایک تنا یا ٹہنیوں کا مرکب نہیں بلکہ اب اُس میں ایک تقدیس کو دخل ہو گیا ہے جو تقدیس اُسے وجُودِ مصطفےٰ (ﷺ) نے عطا کی -
اسی طرح امام ترمذیؒ نے ’’سنن ترمذی‘‘ میں سیدنا انس بن مالک(رضی اللہ عنہ)کی روایت کو بیان کیا کہ آپ (رضی اللہ عنہ)ایک سبزی تناول فرما رہے تھے اور اسے دیکھ کر فرمایا:
’’يَا لَكِ شَجَرَةً مَا أُحِبُّكِ إِلَّا لِحُبِّ رَسُولِ اللہِ (ﷺ) إِيَّاكِ‘‘[4]
’’اے شجرتیرا کیا کہنا، تو مجھے کتنا محبوب ہے کیونکہ تجھے رسول اللہ (ﷺ)محبوب جانتے تھے‘‘-
بظاہر یہ ایک معمولی سی بات ہے کہ آقا (ﷺ) نے فقط ایک سبزی کو پسند فرما کر اس کی جانب اپنے میلانِ طبع کو ظاہر کیاتو صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) کو اس سبزی سے محبت ہوگئی-اس لئے جس کو بھی آقا کریم (ﷺ) کی نسبت عطا ہوتی ہے تو وہ عام سے خاص ہو جاتا ہے-
حضرت عابس بن ربیعہ حضرت عمر فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ)سے روایت کرتے ہیں کہ :
’’أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الْحَجَرِ الأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ ، فَقَالَ إِنِّى أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْلاَ أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِىَّ (ﷺ) يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ‘‘[5]
’’حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) حجر اسود کے پاس آئے پس اس کو بوسہ دیا پھر کہا میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے یہ نہ دیکھا ہوتا کہ نبی (ﷺ) تجھے بوسہ دیتے تھے تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘-
امام حاکم ؒنے ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ اور اما م طبرانی ؒ نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں یہ روایت نقل فرمائی کہ آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ الْعَرَبَ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَ الْعَرَبَ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ‘‘[6]
’’جس نے عرب سے محبت کی پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے اہل عرب سے بغض رکھا تو میرے ساتھ بغض کی وجہ سے رکھا‘‘-
گویا جس خطہ کو یا جس زمین کے ٹکڑے کو آقا کریم (ﷺ) سے نسبت نصیب ہو جائے تو اس خطے اور اس زمین کے ٹکڑے کا احترام قائم ہو جاتا ہے-اسی روایت کو باالفاظِ دیگر امام ترمذی نے ’’سنن الترمذی‘‘میں روایت فرمایاکہ:
’’مَنْ غَشَّ العَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلْهُ مَوَدَّتِي‘‘[7]
’’جس نے اہل عرب کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا اور اس کو میری دوستی نہیں پہنچے گی‘‘-
اہل عرب کا شرف کیا ہے؟ اہل عرب کا شرف فقط یہ ہے کہ اس خطے کو آقا کریم(ﷺ)سے منسوب کیا جاتا ہے-بقول علامہ اقبال ؒ:
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا |
اگر کسی شخص، کسی خطہ، یا کسی درخت کو وقار و احترام ملتا ہے تو از روئے کتاب وسنت وہ صرف اور صرف آقا کریم (ﷺ) کی نسبت سے عطا ہوتا ہے- اسی طرح دنیا میں جس کو بھی جو بزرگی و رفعت ملی وہ آقا کریم (ﷺ) کے توسل سے ملی-علامہ یوسف نبہانی ؒ ’’جواہر البحار فی فضائل النبی المختار(ﷺ)‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’فَعُلِمَ ذٰلِکَ کُلُّہٗ حَصَلَ لَنَا بِاَخْبَارِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامِ فَھُوَ(ﷺ) قُطْبُ دَآئِرَۃِ الْکَوْنِ وَ الَّذِیْ خُلِقَ الْوُجُوْدُ لِاَجْلِہٖ وَ الَّذِیْ فُضِّلَتِ الْاَوْقَاتُ بِبَرَکَتِہٖ وَ الَّذِیْ خُصَّتْ اُمَّتُہٗ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ مِنْ اَجْلِہٖ‘‘[9]
’’یہ سبھی کچھ ہمیں رسول اللہ (ﷺ)کے بتانے سے ہی معلوم ہوا ہے-آپ (ﷺ) کائنات کے دائرے کا قطب ہیں وجود کو آپ (ﷺ) کی خاطر تخلیق کیا گیا، اوقات کو آپ (ﷺ)کی برکت سے فضیلت دی گئی، آپ(ﷺ) کی امت کو لیلۃ القدر کی فضیلت آپ (ﷺ)کی وجہ سے ملی‘‘-
آقا پاک (ﷺ) اس پوری کائنات کا ایک مرکزی نقطہ ہیں جس کے گرد پوری کائنات کی پرکار گھومتی ہے-اسی طرح آقا کریم (ﷺ) کی امت ہونے کے باعث اس اُمتِ اسلامیہ کو دیگر امتوں کے اوپر برتری و فضیلت عطا ہوئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہےکہ:
’’کنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘[10]
’’تم ایک بہترین اُمت ہو جنہیں لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے‘‘-
یہ زمین جس پہ ہم رہتے ہیں اس زمین کا شرف و امتیاز، اس کی طہارت و پاکیزگی بھی آقا کریم (ﷺ) کی نسبت سے عطا ہوئی-جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُوْرًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِيْ أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ‘‘[11]
’’میرے لئے تمام زمین کو مسجد بنا دیا گیا ہے پس میری امت میں سے کوئی بھی شخص جہاں نماز کا وقت پائے وہاں نماز پڑھ لے‘‘-
یعنی امت محمدیہ (ﷺ) میں سے کوئی بھی شخص کسی بھی طیب مقام پہ نماز ادا کرنا چاہے وہ وہاں نماز ادا کر سکتا ہے کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے قدموں کے صدقے اللہ تعالیٰ نے پوری روئے زمین کو مسجد کا رتبہ عطا کیاہے-
ان تمام روایات کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا کہ جس بھی چیز کو کوئی شرف و امتیاز ملا ہے وہ آقا کریم (ﷺ) کے تصدق سے ملا ہے- مثلاً اس کائنات میں بے شمار چھوٹے اور بڑےشہر، قصبےاور بستیاں موجود ہیں لیکن پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ نے شہرِ مکہ کی قسم اٹھائی ہے-اس لئے قرآن سے پوچھیئے کہ اللہ تعالیٰ نے شہرِ مکہ کی قسم کس حرمت سے اُٹھائی ہے؟
’’لٓا اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ وَ اَنْتَ حِلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ‘‘[12]
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں(اے حبیبِ مکرّم! (ﷺ) اس لیے کہ آپ(ﷺ) اس شہر میں تشریف فرما ہیں‘‘-
اس کی وضاحت میں علامہ یوسف نبہانی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ کونسی عظمت اور بزرگی ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے شہرِ مکہ کی قسم اٹھا کر اس کو یہ مرتبہ عطا فرمایا:
’’وَ اَنْتَ حِلٌّ بِہٖ وَ اِنَّمَا الْقَدْرُ وَ الْخَطَرُ لَکَ فَاَنْتَ الَّذِیْ یُقْسَمُ بِکَ لِعَظْمِ جَاھِکَ وَ حُرْمَتِکَ عِنْدَنَا‘‘[13]
’’آپ(ﷺ) اس شہر میں جلوہ افروز ہیں-یہ عظمت و بزرگی صرف اور صرف آپ (ﷺ)ہی کی ہے-ہمارے ہاں آپ (ﷺ) کے ہر طرح سے برتر منصب و مقام ہی کی وجہ سے قسم کھائی گئی ہے یعنی (ہم نے) شہرِ مکہ کی قسم نہیں بلکہ آپ (ﷺ) کے جلوہ گر ہونے کی وجہ سے قسم کھائی ہے‘‘-
اسی طرح مدینے پاک کو شرف بھی آپ (ﷺ) کی وجہ سے ہی ملا ہے-جس طرح حضرت ابن سيد الناس ابو الفتح محمد بن محمد بن محمدؒ (734ھ) ’’عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل و السير‘‘ میں حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کا قول نقل فرماتے ہیں کہ:
’’لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِىْ دَخَلَ فِيْهِ رَسُوْلُ اللہِ (ﷺ) يَعْنِى الْمَدِيْنَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَیْئٍ‘‘[14]
’’جس دن رسول اللہ (ﷺ) مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز روشن ہو گئی‘‘ -
یعنی آقائے دو عالم(ﷺ) کے قدم رنجا فرمانے سے پہلے مدینہ منورہ تو ایک تاریک بستی تھا لیکن جب مدینہ منورہ کی خاک پر حضور نبی کریم(ﷺ)کے قدم اطہر لگے تو اللہ تعالیٰ نےمدینہ منورہ کی خاک کے ذروں کو بھی روشن فرما دیا-گویا آقائے دو عالم(ﷺ) جس مقام پہ جلوہ فرما ہوں وہ جگہ و مقام مقدس بن جاتا ہے-مدینہ منورہ کیلئے تو بطورِ خاص آقائے دو عالم (ﷺ) کا یہ فرمان مبارک ہے جس کو امام احمد ابن حنبلؒ نے ’’المسند‘‘ میں حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کی روایت سے نقل فرمایا :
’’لِکُلِّ نَبِیٍّ حَرَمٌ، وَ حَرَمِی الْمَدِیْنَۃُ‘‘[15]
’’ہر نبی کے لئے کوئی نہ کوئی حرم ہوتا ہے اور میرا حرم مدینہ ہے‘‘-
مزید امام احمد بن حنبل ؒ اپنی ’’مسند‘‘ میں حضرت جابر (رضی اللہ عنہ)سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے درمیان مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں‘‘- [16]
جس طرح آپ (ﷺ) کو تمام انبیاء کرام(رضوان اللہ الجمعین)کا سردار ہونے کاشرف حاصل ہے اسی طرح آپ (ﷺ) نے مدینہ منورہ کو تمام شہروں کا سردار فرمایا:
سیّدنا عبد اللہ ابن امیر المؤمنین سیّدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے روایت کیا کہ:
’’طَلَعَ النَّبِیُّ (ﷺ) عَلَی الْمَدِیْنَۃِ قَافِلًا مِّنْ سَفَرٍ اِلَّا قَالَ: یَا طَیِّبَۃُ! یَا سَیِّدَ الْبُلْدَانِ‘‘[17]
’’حضور نبی اکرم (ﷺ) جب بھی کسی سفر سے قافلہ کی صورت میں تشریف لاتے ہوئے مدینہ داخل ہوتے تو (مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرماتے ، اے پاکیزہ شہر! اے تمام شہروں کے سردار شہر!‘‘-
امام بخاری ؒنے ’’صحیح بخاری‘‘میں سیدنا سعید ابن یسار ؒحضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت فرماتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرٰى، يَقُوْلُوْنَ يَثْرِبُ، وَهِيَ الْمَدِيْنَةُ، تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ‘‘[18]
’’مجھے ایک ایسے شہر ( میں ہجرت ) کا حکم ہوا ہے جو دوسرے شہروں کو کھالے گا ( یعنی سب کا سردار بنے گا) منافقین اسے یثرب کہتے ہیں لیکن اس کا نام مدینہ ہے وہ ( برے) لوگوں کو اس طرح باہر کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو نکال دیتی ہے‘‘-
اسی طرح ایک اور مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّھَا طَیِّبَۃٌ یَعْنِی الْمَدِیْنَۃِ، وَ اِنَّھَا تَنْفِی الْخُبْثَ کَمَا تَنْفِیْ النَّارُ خُبْثَ الْفِضَّۃِ‘‘[19]
’’شہرِ مدینہ طیب ہے اور یہ میل کچیل کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ چاندی کا میل دور کرتی ہے‘‘-
اسی طرح ’’بخاری شریف‘‘ کی ایک روایت میں ہے کہ ابو حمیدؒ فرماتے ہیں کہ ہم نبی مکرم شفیعِ معظم (ﷺ) کے ساتھ غزوہ تبوک سے واپس آئے-حتّی کہ ہم نے جب مدینہ کو سر اٹھا کر دیکھا تو آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :
’’هَذِهِ طَابَةٌ ‘‘[20] ’’یہ طابہ ہے‘‘-
امام ابن حجر عسقلانی ؒ ’’فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں اس روایت کی شرح میں ’’مدینہ منورہ‘‘ کو ’’طابہ‘‘ کا نام دیے جانے کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ :
’’قال بعض أهل العلم وفي طيب ترابها وهوائها دليل شاهد على صحة هذه التسمية لأن من أقام بها يجد من تربتها وحيطانها رائحة طيبة لا تكاد توجد في غيرها ‘‘[21]
’’بعض اہل ِ علم فرماتے ہیں کہ یہ نام اس لیے دیاگیا ہے کیونکہ اس کی مٹی اور ہوا پاک ہےاوراس نام کےصحیح ہونے پرواضح دلیل یہ ہے کہ جو بھی مدینہ منورہ قیام پذیر ہوتاہے وہ اس کی مٹی اوراس کے درودیوار سے پاکیزہ خوشگوار پا تا ہےاوریہ چیز اس شہر کے علاوہ نہیں پائی جاتی ‘‘-
پھر آپ ؒ آگے چل کرمزید مدینہ منورہ کے اسماء کے بارے حضرت ابن ابی یحیٰ(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے آپ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ کے دس نام ہی سنتے آئے ہیں اور وہ یہ ہیں:
’’المدينة و طيبة و طابة و المطيبة و المسكينة و العذراء والجابرۃوالمجبورة والمحببۃ و المحبوبۃ ‘‘[22]
’’مدینہ، طیبہ، طابہ، مطیبہ، مسکینہ،عذراء،جابرہ،مجبورہ،محببہ اورمحبوبہ‘‘-
امام بخاری ؒکی سعید ابن یسار والی حدیث کے متعلق میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا، پہلی یہ کہ جو آقا کریم(ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا کہ مَیں ایک بستی کی طرف جاؤں، اب وہ بستی کون سی بستی ہے؟ جس کو آقا کریم (ﷺ) نے اپنے قدمِ مبارک کی فضیلت سے دنیا کے تمام شہروں کے اوپر غالب فرمایا- امام حاکم ؒ ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘میں سیدنا حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت فرماتے ہیں کہ جب آقائے دو عالم (ﷺ) نے ارادۂ ہجرت فرمایا تو آقا کریم (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا فرمائی:
’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ اَخْرَجْتَنِیْ مِنْ اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیَّ فَاَسْکِنِیْ اَحَبَّ الْبِلَادِ اِلَیْکَ فَاَسْکَنَہُ اللہُ الْمَدِیْنَۃَ‘‘[23]
’’اے اللہ! اگر تو مجھ کو اس جگہ سے باہر لاتا ہے جو میرے نزدیک محبوب مقامات میں سے ہے (یعنی مکہ مکرمہ سے) تو پھر میری سکونت ایسی جگہ پہ کرنا جو تیرے نزدیک تمام مقامات میں سے محبوب ترین ہو،پس اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ)کو مدینہ منورہ میں سکونت عطا کی‘‘-
گویا ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ بارگاہ ِمصطفےٰ (ﷺ) میں محبوب شہر تھا اوربوقت ہجرت آقا کریم(ﷺ)نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ! جو مقام تجھے محبوب ہے مجھے اس مقام کی جانب لے جا تو اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو مدینہ منورہ میں سکونت عطا فرمائی-
دوسری بات یہ کہ جو فرمان ہوا ہے کہ (تَأْكُلُ الْقُرٰى) وہ بستی دنیا کی دوسری بستیوں پر حاوی ہو جائے گی،اس کے مفہوم میں شاہ عبد الحق محدث دہلوی ؒ نے ’’جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب فی تاریخ مدینۃ النبیؐ‘‘ میں اپنے الفاظ میں جو تشریح کی اس کاپہلا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مدینہ منورہ وہ شہر ہے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا میں غلبہ عطا فرمایا-کیونکہ اس بستی سے وہ سارا جہاد ہوا، وہ سارے قافلے نکلے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے اوپر اسلام کو فتح اور نصرت عطا فرمائی-
’’خُلاصہ یہ ہے کہ حضرت سیّد المرسلین (ﷺ)کو اس شہر شریف سے جتنی زیادہ محبت ہے اُتنی کسی (اور شہر) سے نہیں-اِسی میں آپ (ﷺ) نے اقامت اختیار فرمائی اور یہیں آپ (ﷺ) نے فتوحاتِ عظیمہ حاصل کیں اور یہیں کمالاتِ شریفہ موعودہ کو پہنچے، یہی جگہ اِسلام کی قُوّت، دین کے رواج، تمام اوّل و آخر خیر و برکات کا سر چشمہ اور جملہ کمالاتِ ظاہر وباطن کا معدن اور سعادتِ عُظمیٰ اور نعمتِ کُبریٰ کا مبدأ ہے-اِنہی تمام وجُوہات کی بِنا پر یہ (شہرِ مدینہ ) آسمان و زمین کے تمام قطعات سے ممتاز ہے ‘‘ -[24]
اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کو کُل کائنات کے شہروں پر برکت اور فضیلت میں فوقیت عطا فرما دی-یعنی مدینہ منورہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ جگہ ہےیہاں تک اس کا نام بھی اللہ تعالیٰ نے خود رکھا ہے-حضرت جابر بن سمرہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ اللّٰہَ سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ طَابَۃً‘‘[25]
’’اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے ‘‘-
محبت کا یہ ایک اصول رہا ہے کہ محب کو اپنے محبوب کے ساتھ ساتھ اس کی نسبت شدہ چیزوں سے بھی محبت ہوتی ہے- اس طرح حضور نبی کریم(ﷺ)کی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ مقام’’مدینہ منورہ‘‘ سے محبت دیکھیں- صحیح بخاری کتاب الآذان کی حدیث ہے، حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں :
’’أَنَّ بَنِيْ سَلِمَةَ أَرَادُوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوْا عَنْ مَنَازِلِهِمْ فَيَنْزِلُوْا قَرِيْبًا مِنَ النَّبِيِّ (ﷺ) فَكَرِهَ رَسُوْلُ اللّهِ (ﷺ) أَنْ يُعْروا الْمَدِينَةَ، فَقَالَ: «أَلَا تَحْتَسِبُونَ آثَارَكُمْ‘‘[26]
’’ کہ بنوسلمہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے مکان ( جو مسجد سے دور تھے) چھوڑ دیں اور آنحضرت (ﷺ) کے قریب آ رہیں (تاکہ نمازباجماعت کے لیے مسجدنبوی (ﷺ)کا ثواب حاصل ہو) لیکن آپ (ﷺ)کو مدینہ کا اجاڑ دینا برا معلوم ہوا-آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ کیا تم لوگ اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے؟‘‘
یعنی مسجد نبوی (ﷺ)کی محبت میں اس کی جانب سفر کرتے ہوئے بندہ جتنے قدم بھی چلے گا اللہ تعالیٰ اس کو ہرقدم کے بدلے ثواب عطا فرمائے گا-
احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مدینہ طیبہ کی برکاتِ ظاہری اور برکاتِ باطنی کیلئے مکہ شریف کی مثل دعائیں فرمائیں بلکہ ہر مقام پہ فرمایا کہ ’’اُس سے بھی بڑھ کر‘‘-یعنی مدینہ کو اُتنی برکات عطا فرما جتنی مکہ کو عطا کی ہیں بلکہ اُس سے بھی دگنی برکات عطا فرما -
امام بخاری ؒ ’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت عبداللہ بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا:
’’أَنَّ إِبْرَاهِيْمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَدَعَا لَهَا، وَحَرَّمْتُ الْمَدِيْنَةَ كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيْمُ مَكَّةَ، وَدَعَوْتُ لَهَا فِيْ مُدِّهَا وَصَاعِهَا مِثْلَ مَا دَعَا إِبْرَاهِيْمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِمَكَّةَ‘‘[27]
’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لیے دعا فرمائی - میں بھی مدینہ کو اسی طرح حرم قرار دیتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور اس کے لیے، اس کے مُد اور صاع ( غلہ ناپنے کے دو پیمانے ) کی برکت کے لیے اس طرح دعا کرتا ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لیے دعا کی تھی‘‘-
اس سے یہ گمان نہ جائے کہ آقا کریم (ﷺ)نے مدینہ منورہ کی برکاتِ ظاہری کی بات کی ہے برکاتِ باطنی کی بات نہیں کی-’’صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ‘‘ میں حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کی روایت موجود ہے کہ آقا پاک(ﷺ) نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
’’اَللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِيْنَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِاَللّٰھُمَّ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ عَبْدُکَ وَ خَلِیْلُکَ وَ نَبِیُّکَ وَ اِنِّیْ عَبْدُکَ وَ نَبِیُّکَ وَ اِنَّہٗ دَعَاکَ لِمَکَّۃَ وَ اِنِّیْ اَدْعُوْکَ لِلْمَدِیْنَۃِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّۃَ وَ مِثْلَہُ مَعَہُ‘‘[28]
’’اے اللہ ! جتنی مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے، مدینہ میں اس سے دُگنی برکت عطا فرما-اے میرے اللہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں-انہوں نے مکہ مکرمہ کیلئے دعا کی تھی، میں ان دعاؤں کے برابر اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگُنی برکتیں نازل فرما) ‘‘-
گویا اللہ تعالیٰ نے شہرِ مدینہ کی برکاتِ ظاہریہ اور برکاتِ باطنیہ کو کل عالم کے شہروں کے اوپر فضیلت عطا فرمائی ہے-
اسی طرح اہل ایمان کی محبت کے بارے میں حضور نبی کریم (ﷺ)نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرمائی:
’’اَللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِيْنَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ‘‘[29]
’’اے اللہ ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ !‘‘-
ایک اور مقام پر ارشادفرمایا:
’’اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا اْلمَدِیْنَۃَ کَمَا حَبَّبْتَ مَکَّۃَ اَوْ اَشَدَّ وَ صَحِّحْھَا‘‘[30]
’’اے اللہ! جس طرح تو نے ہمارے نزدیک مکہ کو محبوب کیا ہے مدینہ کو بھی اسی طرح محبوب کر دے بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب کر دے اور مدینہ کو صحت کی جگہ بنا دے‘‘-
یعنی ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت کو مکہ مکرمہ سے بھی زیادہ فرما دے-اسی کی وضاحت میں ابو سعید المفضل بن محمد الجندی (المتوفی: 308ھ)’’فضائل مدینہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ حضرت عَمْرَۃ بنت عبد الرحمٰن (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے مکہ شریف میں خطاب کیا جس میں مکہ شریف اور اس کی فضیلت کا ذکر کیا اور اس بارے میں بڑی لمبی گفتگو کی-آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی حضرت رافع بن خدیج (رضی اللہ عنہ) منبر کے پاس ہی بیٹھے تھے ، انہوں نے مروان کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا :
’’فَقَالَ ذَکَرْتَ مَکَّۃَ وَ فَضْلَھَا وَ ھِیَ عَلَی مَا ذَکَرْتَ وَلَمْ أَسْمَعْکَ ذَکَرْتَ الْمَدِیْنَۃَ‘‘
’’ تم نے مکہ اور اس کی فضیلت کا تذکرہ کیاہے اور وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ تم نے ذکر کیا ہے – مگر میں نے تجھ سے نہیں سنا کہ تم نے مدینہ کا تذکرہ کیا ہو‘‘-
پھر حضرت رافع بن خَدِیْج (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:
’’أَشْھَدُ لَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ: اَلْمَدِیْنَۃُ أَفْضَلُ مِنْ مَکَّۃَ‘‘[31]
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ مَیں نے رسول اللہ(ﷺ)کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مدینہ مکہ سے افضل ہے‘‘-
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے اور وہ روایت نقل فرمائی ہے عاشقِ مدینہ سیّدنا امام مالک رحمہ اللہ نےاپنی مؤطا شریف میں ، کہ حضرت سیّدنا عمر فارق (رضی اللہ عنہ) کے پاس حضرت عبد اللہ ابن عیّاش (رضی اللہ عنہ)تشریف لائے تو آپ (رضی اللہ عنہ)نے پوچھا:
’’أَأَنْتَ الْقَائِلُ لَمَكَّة خَيْرٌ مِنْ الْمَدِيْنَةِ فَقَالَ عَبْدُ اللّهِ فَقُلْتُ: هِيَ حَرَمُ اللہ وَ أَمْنُهُ وَ فِيْهَا بَيْتُهُ فَقَالَ عُمَرُ: لَا أَقُوْلُ فِيْ بَيْتِ اللہِ وَلَا فِي حَرَمِهٖ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: أَأَنْتَ الْقَائِلُ لَمَكَّة خَيْرٌ مِنْ الْمَدِيْنَةِ قَالَ فَقُلْتُ هِيَ حَرَمُ اللہِ وَأَمْنُهُ وَفِيْهَا بَيْتُهُ فَقَالَ عُمَرُ لَا أَقُوْلُ فِيْ حَرَمِ اللہِ وَلَا فِي بَيْتِهِ شَيْئًا ثُمَّ انْصَرَفَ‘‘[32]
’’کیا تم یہ کہتے ہو کہ مکہ مدینہ سے بہتر ہے؟حضرت عبد اللہ بن عیّاش (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ یہ اللہ کا حرم ہے، امن کا مقام ہے اور اس میں اس کا گھر ہے-حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ میں بیت اللہ اور اس کے حرم کے بارے نہیں پوچھ رہا-حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے پھر فرمایا؛’’کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ مکہ مدینہ سے بہتر ہے؟‘‘حضرت عبداللہ بن عیّاش (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ یہ اللہ کا حرم ہے، امن کا مقام ہے اور اس میں اس کا گھر ہے-حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ میں بیت اللہ اور اس کے حرم کے بارے نہیں پوچھ رہا-پھر آپ(رضی اللہ عنہ) خاموش ہو گئے‘‘-
اسی روایت کی شرح میں ’’المنتقیٰ شرح الموطا ‘‘اور ’’جواہر البحار فی فضائل النبی المختار(ﷺ)‘‘میں یہ الفاظ درج ہیں:
’’قَالَ عِيْسَى بْنُ دِيْنَارٍ كَاَنَّهُ كَرِهَ تَفْضِيْلَهُ مَكَّةَ عَلَى الْمَدِينَةِ دَارِ الْهِجْرَةِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيْسَى وَلَوْ أَقَرَّهُ بِذَلِكَ لَضَرَبَهُ يُرِيْدُ لَأَدَّبَهُ عَلَى تَفْضِيْلِهِ مَكَّةَ‘‘[33]
’’حضرت عیسیٰ ابن دینار نے فرمایا (اس اندازِ گفتگو سے ظاہر ہے کہ) گویا حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے حضرت عبد اللہ بن عیاش (رضی اللہ عنہ) کی مکہ کی دار الہجرت مدینہ پر فضیلت کو ناپسند فرمایا- حضرت عیسیٰ ابن دینار نے فرمایا کہ اگر حضرت عبد اللہ بن عیاش اس بات کا اقرار کر لیتے تو شاید آپ (رضی اللہ عنہ)اسے مکہ کو (مدینہ پر) فضیلت دینے پر تادیبا ًسرزنش فرماتے‘‘-
محمد بن عبد الباقی بن يوسف زرقانی المصری الازہری، ’’شرح الزرقانی على موطاامام مالك، کتاب الجامع، باب فضائل المدینہ‘‘ میں اسی حدیث مبارک کے تحت ایمان افروز گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’وَالْأَدِلَّةُ كَثِيرَةٌ مِنَ الْجَانِبَيْنِ حَتَّى قَالَ الْإِمَامُ ابْنُ أَبِي جَمْرَةَ بِتَسَاوِي الْبَلَدَيْنِ،وَالسُّيُوطِيُّ فِي الْحُجَجِ الْمُبَيَّنَةِ: الْمُخْتَارُ الْوَقْفُ عَنِ التَّفْضِيلِ لِتَعَارُضِ الْأَدِلَّةِ بَلِ الَّذِي تَمِيلُ إِلَيْهِ النَّفْسُ تَفْضِيلُ الْمَدِينَةِ ثُمَّ قَالَ: وَإِذَا تَأَمَّلَ ذُو الْبَصِيرَةِ لَمْ يَجِدْ فَضْلًا أُعْطِيَتْهُ مَكَّةُ إِلَّا وَأُعْطِيَتِ الْمَدِينَةُ نَظِيرَهُ وَأَعْلَى مِنْهُ، وَجَزَمَ فِي خَصَائِصِهِ بِأَنَّ الْمُخْتَارَ تَفْضِيلُ الْمَدِينَةِ، وَمَحَلُّ الْخِلَافِ مَا عَدَا الْبُقْعَةَ الَّتِي ضَمَّتْ أَعْضَاءَهُ (ﷺ) فَهِيَ أَفْضَلُ إِجْمَاعًا مِنْ جَمِيعِ بِقَاعِ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتِ كَمَا حَكَاهُ عِيَاضٌ وَغَيْرُهُ، وَيَلِيهَا الْكَعْبَةُ فَهِيَ أَفْضَلُ مِنْ بَقِيَّةِ الْمَدِينَةِ اتِّفَاقًا كَمَا قَالَ الشَّرِيفُ السَّمْهُودِيُّ وَإِلَيْهِ يُومِئُ كَلَامُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ‘‘[34]
’’اور جانبین کی طرف سے (مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کی فضیلت میں) دلائلِ کثیرہ ہیں،یہاں تک کہ امام ابن ابو جمرہ ؒ نے دونوں شہروں کا (فضیلت میں )برابرہونے کا قول کیا ہے اور امام سیوطی ؒ ان واضح دلائل کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ مختار مذہب یہ ہے کہ فضیلت سے متعلق دلائل کے تعارض کی وجہ سے اس میں خاموشی اختیارکی جائے، بلکہ جس بات کی طرف دل مائل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مدینہ(طیبہ) کو فضلیت دی جائے-پھر آپ ؒ (مزید)فرماتے ہیں کہ ’’جب بھی کوئی صاحبِ بصیرت غور کرے گا،تو کوئی بھی ایسی فضیلت نہیں پائے گا جو مکہ پاک کو تو عطا کی گئی ہو مگر مدینہ کو اس کی مثل اور اس سے (بھی )زیادہ عطا (نہ کی گئی )ہو اور اس کے خصائص میں قطعی بات یہ ہے (بلکہ) مختار یہ ہے کہ مدینہ کو فضیلت دی جائے اور(یادرہے کہ )اختلاف کا محل جو ہے وہ اس جگہ کے علاوہ میں ہے جو حصہ حضورنبی کریم (ﷺ) کے جسم اطہر سے مس ہے پس وہ جگہ (حضور نبی پاک (ﷺ)کے مزار مبارک والی )تو بالاجماع تمام روئے زمین اور آسمانوں سے افضل ہے جس طرح کہ حضرت (قاضی)عیاض اور دیگر آئمہ کرام (رحمتہ اللہ علیھم) نے بیان فرمایا ہے اور اسی طرح جو کعبہ ہے پس وہ (روضہ مبارک کےعلاوہ ) باقی مدینہ سے بالاتفاق افضل ہے جس طرح کہ امام شریف سمہودیؒ نے فرمایا ہے اور اسی طرف حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کا کلام اشارہ کررہا ہے‘‘-
یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مکہ مکرمہ اللہ پاک کا حرم ہے اس کا ادب و تعظیم بجالانا ہم پر فرض ہے لیکن جب اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے مدینہ منورہ کی فضیلت وعظمت کو باقی تمام شہروں اور مقامات کی نسبت بلند فرمایا تو ہمیں بھی اس حکم کی اتباع کرنی چاہیے-کیونکہ جس کسی کو جتنی بھی دین اسلام سے محبت ہے یا جتنی بھی دولتِ ایمان و ہدایت عطا ہوئی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس (ﷺ)کے جسدِ اطہر کی وجہ سے عطا کی ہے-اس لیے جہاں بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس جلوہ فرما ہو گی ہماری محبت کا مرکز وہی ہوگا-اسی لئے مدینہ منورہ کی خاک کااس قدر ادب ہے کہ:
’’كَانَ مَالِكٌ رَحِمَهُ اللہُ لَا يَرْكَبُ بِالْمَدِيْنَةِ دَابَّةً ، وَ كَانَ يَقُوْلُ : أَسْتَحِيْ مِنَ اللہِ أَنْ أَطَأَ تُرْبَةً فِيْهَا رَسُوْلُ اللہِ بِحَافِرِ دَابَّةٍ‘‘[35]
’’امام مالک ؒ مدینہ میں سواری پر نہیں بیٹھا کرتے تھےاور آپ ؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں اس (پاک)مٹی کو جس میں رسول اللہ (ﷺ) آرام فرما ہیں جانور کے کھُر سے روندوں‘‘-
امام ملا علی قاریؒ امام مالک ؒ کے اسی عمل کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
’’إِذْ لَوْ أَمْكَنَ لِلْإِنْسَانِ أَنْ لَّا يَطَأَهَا بِرِجْلَيْهِ وَ كَانَ يَقْدِرُ عَلٰى أَنْ يَمْشِيَ فِيْهَا بِعَيْنَيْهِ لَكَانَ لَائِقًا لِتَعْظِيْمِ مَا لَدَيْهِ (ﷺ)‘‘[36]
’’کیونکہ اگر انسان کے لئے یہ ممکن ہو کہ وہ مدینہ طیبہ کی مٹی کو اپنے پاؤں سے بھی نہ روندے اور وہ اس سر زمین پر اپنی آنکھوں کے بل چلنے پر قادر ہو تو ایسا کرنا بھی آقا علیہ الصلاۃ و السلام کی تعظیم کے لائق ہے‘‘-
اللہ تعالیٰ نے شہرِ مدینہ کو ایک اور خصوصی امتیاز عطا فرمایا کہ مدینہ اُن چند بستیوں میں سے ایک ہے جو:
1. بغیر جنگ کے فتح ہوئیں،
2. قرآن کے ذریعے سے فتح ہوئیں،
3. اولین مسلمانوں کی سخت ترین آزمائش کے زمانے میں معاونِ اسلام و مسلمین ہوئیں،
کئی محدثین کرام (رحمتہ اللہ علیھم)نے اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہما) کی روایت سے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا-مثلاً امام بیہقی ؒ نے ’’شعب الایمان‘‘ میں یہ الفاظ درج کیے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اُفْتُتِحَتِ الْقُرٰى بِالسَّيْفِ، وَافْتُتِحَتِ الْمَدِينَةُ بِالْقُرْآنِ‘‘[37]
’’بستیاں تلوار سے فتح ہوئیں اور مدینہ قرآن سے فتح ہوا‘‘-
اسی طرح دوسری روایت میں آتاہے کہ:
’’اُفْتُتِحَتْ مَكَّةُ بِالسَّيْفِ، وَافْتُتِحَتِ الْمَدِيْنَةُ بِالْقُرْآنِ ‘‘[38]
’’مکہ تلوار سے فتح ہوا اور مدینہ طیبہ قرآن سے فتح ہوا‘‘-
اسی طرح مجمع الزوائد کے الفاظ کے مطابق ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہما) حضور نبی مکرم (ﷺ) سے روایت کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:
’’فُتِحَتِ الْبِلَادُ بِالسَّيْفِ وَ فُتِحَتِ الْمَدِيْنَةُ بِالْقُرْآنِ‘‘[39]
’’شہر تلوار سے فتح ہوئے اور مدینہ قرآن سے فتح ہوا‘‘ -
یعنی مدینہ منورہ ایسی بستی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو قرآن کے ذریعے عطا فرمائی- اس لئے مدینہ طیبہ کو کائنات کے کل شہروں اور بستیوں کےعلاوہ ان کی برکات پر بھی فضلیت حاصل ہے-اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ مدینہ کو تمام شہروں کے اوپر غالب کردیا جائے گا-
اس لئے ایک عام اہلِ ایمان و کلمہ گو کی مدینہ منورہ کیلئے جو محبت و حساسیت ہے وہ آفتاب کی مانند واضح ہے-جیسے سورج چمکتا ہے تو روشنی نظر آتی ہے اسی طریقہ سے مسلمان کی مدینہ طیبہ کی جانب کشش اور حساسیت ہے-دنیا میں کچھ بھی ہو جائے مسلمان اس افسوس میں غمزدہ ہوتے ہیں،جیسےکسی شاعر نے کیا خوب کہا ہےکہ:
محبت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابُل میں |
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں کلمے کی محبت رکھ دی ہے-کیونکہ دنیا کی کسی بھی جگہ میں انسانوں، حیوانوں یا چرند پرند پر کسی قسم کا بھی ظلم و استحصال ہوتو مسلمانوں کے دل تڑپ جاتے ہیں-
اس لئے حقیقی مسلمان تو وہی ہے کہ جب خالقِ حقیقی کی مخلوق پر کسی بھی قسم کا ظلم ہو تو اس کےدل میں یہ ملال آجائے کہ میرے خالق کی مخلوق کے ساتھ یہ ظلم کیوں ہوا- پھر خاص کر جب مدینہ طیبہ، آقا کریم(ﷺ) کے روضہ اقدس کی حرمت کی بات ہو تو مسلمان کی جو فطری حساسیت ہوتی ہے وہ ہر معاملے سے زیادہ مدینہ منورہ کے تقدس کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے-
مدینہ منورہ کو عُرفاً جب پاک کہتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی ایک حکمت ہے کیونکہ صحیح بخاری کی روایت سے ثابت ہے کہ مدینہ کی مٹی میں قوتِ احتساب و محاسبہ موجود ہے- آقا پاک (ﷺ) کے فرمان کا مفہوم ہے کہ مدینہ کفر کو اپنی حدود سے نکال دے گا،مدینہ منافق کو اپنی حدود سے نکال دے گا اور دجال باوجود خواہش و کوشش کے مدینہ میں داخل نہیں ہو سکے گا-امام بخاری ؒ سیدنا انس ابن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)