رپورٹ : سالانہ ملک گیر دورہ

رپورٹ : سالانہ ملک گیر دورہ

رپورٹ : سالانہ ملک گیر دورہ

مصنف: ادارہ مارچ 2018

ہمارے سلف صالحین نے فرد کی اِنفرادیت کو عشقِ الٰہی پہ استوار کرنے کیلئے قرآن مجید اور سنتِ رسول (ﷺ)کوبنیاد بنایا-یہ حقیقت ہے کہ فرد کی اِنفرادیت معاشرے کی مجموعی صورتحال کا آئینہ ہوتی ہے-اگریہ اَکائی(فرد) توحیدِ حق کامتوالا ہوجائے اورخُلقِ محمدی (ﷺ) کواَپنا لے تو معاشرے میں عشقِ الٰہی کاعکس نظرآنے لگتا ہے-لیکن اگر صورت اِس کے برعکس ہویعنی یہ اَکائی(فرد)نفسِ امّارہ کی چالبازیوں اورابلیس کے مکروہ تارِ عنکبوت میں جاپھنسے تو معاشرہ اِنسانیت کی پست ترین سطح پہ آجاتا ہے یاپھر سادہ الفاظ میں کَہ لیں کہ حیوانیت زدہ ہو جاتا ہے-جس کے مناظر پورے انسانی معاشرے میں روزانہ کی بنیادوں پہ دیکھے جاسکتے ہیں-

قریباًچودہ صدی قبل اسلامی انقلاب کے مبارک آغاز میں بھی ایک ایک فرد(صحابی)کی انسانیت کی تکمیل کی گئی تو یہی بادیہ نشین دُنیا کے ایک بڑے حصے میں عشقِ الٰہی کاپیغام پہنچانے میں کامیاب ہوگئے - اس دوران عشق الٰہی کی اَیسی اَیسی مثالیں وجود میں آئیں جنہیں پڑھ کر ہردِل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش!مَیں اُس دور میں پیدا ہوتا-اسی روش اور طلب کو برقرار رکھتے ہوئے ہمارے سلف صالحین نے بھی فرد کی تربیت پہ اپنی توجہ مرکوز کی تو مسلمان تاریخِ انسانی کی مہذّب ترین قوم بنے-حضور غوث الاعظم سرکار قدس اللہ سرّہٗ نے بھی فرد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:-

’’یہی وجہ ہے کہ انسا ن کو آئینہ جمال وجلال اورمجموعۂ کون(عالمِ موجودات کا خلاصہ)کہاگیا اوراُسے کونِ جامع  اور عالمِ کبریٰ کانام دیا گیا‘‘[1]-

سی طرح حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ نے انسان کو نصیحت فرمائی کہ اپنے دِل کی کائنات کو تصورِ اسم اللہ ذات سے مزیّن کرلو تو ظاہری کائنات کی ہر چیز میں انوارِ حق کی جلوہ آرائیاں دیکھو گے،ہرچیز سے ’’ھُو ھُو‘‘ کی صدائیں سماعت کروگے-بلاشبہ فرد کی اِنفرادیت اگرعشقِ الٰہی کی سمت گامزن ہوجائے تو معاشرے میں وحدانیت حق آشکار ہوجاتی ہے-

اِسی تفکر کو عصرِ حاضر میں عام کرنے کے لئے بانیٔ اِصلاحی جماعت سلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ اپنے مرشد کے حکم سے رُوحانی تفکر کیلئے خلوت گزین ہوئے تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ آپ قدس اللہ سرّہٗ کی یہ خلوت گزینی ہمارے اَسلاف کے معرفتِ حق تعالیٰ کے گم گشتہ اَوْرَاق کو باقاعدہ ایک رُوحانی نصاب مرتب کرنے پہ منتج ہوگی-

آج آپ دیکھیں کے اِس مادہ پرور دور میں سلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی تشکیل کی گئی جماعت ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جوسُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ سےاِسی پیغامِ اِنسانیت و پیغامِ امن کو لے کر چلی ہے -

آپ قدس اللہ سرّہٗ کی دینی و روحانی شان و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ نے ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے پلیٹ فارم کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی وسعت و عالمگیریت عطا فرمائی ہے کہ اس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیرتمام مکاتبِ فکر،تمام مذاہبِ عالَم کے لوگ سنتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ واقعتاً یہی وہ جماعت ہے جو قرآن و سُنّت کی صحیح ترجمان اور تعلیماتِ اَسلاف و اکابر کی حقیقی مُبلّغ ہے جس کا اَوّل و آخر مقصدِ انسانیت کی فلاح و بقا اور ظاہری و باطنی پاکیزگی ہے -

اسی طرح آج بھی آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی اسی فکر کو عامۃ الناس کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لئے ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘کے زیرِ اہتمام جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)، سرپرستِ اعلی ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی قیادت میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر محسنِ انسانیت فخرِ موجودات (ﷺ) کے اسمِ گرامی سے منسوب محافل میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کانفرنسز         (Conferences    )کے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں-

یہ اجتماعات روایتی طریق کار کی طرح نہیں ہوتے بلکہ نہایت ہی منظّم اور بامقصد طریقے سے ہوتے ہیں-ہر پروگرام کی ترتیب اس طرح سے ہوتی ہے کہ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ ، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے، صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت الحاج محمد نواز القادری صاحب خطاب کرتے ہیں-پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت ہونے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-

امسال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کے تیسرے راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-

لیہ            16-01-2018      خورشید شاہ اسٹیڈیم

صدارت و خصوصی خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

اصلاحی جماعت و عالمی نتظیم العافین کا مشن قرآن وحدیث کی روشنی میں اولیاء کاملین  کی تعلیمات کو عام کرنا ہے اور اولیاء کاملین کا طریق تربیت انسان کے باطن کی اصلاح سے شروع ہوتا ہے اگر انسان اپنے باطن سے آباد نہیں ہوتا تو یہ محض اندر سے خالی گوشت پوست کا پتلہ ہے جس کی مثال بانس اور کانے کے ٹکڑے کی سی ہے جو کسی کاریگر کے ہاتھ میں آتا ہےتو تب وہ اسے اس قابل بناتا ہے کہ اس سے درد بھری آواز نکلتی ہے جودوسرے کے دل کو مسرور کرتی ہے-

اسی طرح مرشد کامل اور رہبر و رہنما کی صحبت اور معیت بندے کو اس قابل بنادیتی ہے کہ اُسے کمال ِ بندگی نصیب ہوجاتی ہے -دو چیزیں ہوتی ہیں: (1)بندگی اور(2)کمالِ بندگی -

1.       بندگی یہ ہےکہ بندہ کہے کہ وہ میرا رب ہے اور میں اس کی اطاعت و بندگی کرتا ہوں -

2.       کمال ِبندگی یہ ہے کہ وہ فرمائے کہ یہ میرا بندہ ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں-

کمال بندگی کے حصول کے لئے باطن کی طہارت اور پاکیزگی شرط ہے اورا س کے حصول کے لئے علم باطن اور روحانی تربیت کی ضرورت ہے-شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:

جمال ہمنشیں درمن اثر کرد
و گرنہ من ھماں خاکم کہ ہستم
 

’’میرے ہمنشین کے جمال نے مجھ پر اپنا اثر فرمایا جو مجھ میں یہ خوشبو پیدا ہو گئی وگرنہ مَیں تو وہی مٹی ہی ہوں جو پہلے تھی‘‘- 

کچھ امراض ِظاہری ہوتی ہیں جن کے معالج و طبیب  ہیں جو ان کا علاج کرتے ہیں اور کچھ باطنی امراض ہوتی ہیں اوران کے علاج کے لئے مرشد کامل کی ضرورت ہوتی ہے جو رحانیت کو بیدار کرکے ان امراض کا خاتمہ کرتا ہے- اس کے لئے علم تصوف ہے جو کہ ایک پاکیزہ علم ہے جو شریعت کی سیڑھی طے کرنے والے کو نصیب ہوتا ہے اورجو اس سے متصادم اور متضاد ہواس علم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں اور نہ ہی ہم اس کا پرچار کرتے ہیں‘‘-

بھکر             2018-01-17

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

بھکر کے نواحی مقام ’’ذمے والا‘‘ میں اصلاحی جماعت کے زیرِ انتظام قائم شُدہ عظیم دینی و عصری درسگاہ دار العلوم جامعہ غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھُو سُلطان کے وسیع و عریض میدان میں اجتماع کا اہتمام کیا گیا تھا ، جس سے خطاب کرتے ہوئے صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب نے فرمایا کہ  ’’ہر چیز کا ایک الگ حسن ہے اسی طرح محبت کا بھی ایک حسن ہے-مومن کی محبت کا حسن یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے بڑھ کر حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ذات اقدس سے محبت کرتا ہے اور اس جیسی محبت وہ کسی اور سے نہیں کرتا-مومن کی یہی محبت اسے زمانے میں ممتاز کرتی ہے اور اسی کے سبب مومن کی قبر میں بھی روشنی ہوگی- حضور رسالت مآب(ﷺ) نےارشاد فرمایا:

’’لَایُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ‘‘[2] 

’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھ سے اپنے والدین ، اولاد بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ کر محبت نہ کرے‘‘- 

حضور رسالت مآب (ﷺ)کی ذات اقدس کا یہ بھی امتیاز ہے جو آپ (ﷺ) سے پہلے کسی کو نہیں ملاکہ  آپ(ﷺ) کی ہر آنے والی گھڑی پہلی گھڑی سے بہتر اور اعلیٰ قرار دی گئی ہے-جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

’’وَ لَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘[3] 

’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے‘‘-

آپ (ﷺ)کی اسی شان کے متعلق کسی شاعر نے کیا خوب کیا ہے:

لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا توئی قصہ مختصر

اللہ جل شانہ کی شانِ الوہیت کے بعد جتنے بھی مقاماتِ ارفع و اعلیٰ ہیں وہ سب کے سب آپ (ﷺ) کی شایانِ شان ہیں-

لیکن اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آپ (ﷺ)کی تعریف آپ(ﷺ) کی شایانِ شان کی جائے- اس لئے بس اتنی بات کَہ کر بات کو ختم کرلیتے ہیں کہ خدا کے بعد جتنی بھی عظمتیں اور شانیں ہیں وہ آپ (ﷺ)کی ہیں -

حضورنبی کریم(ﷺ) نے اس شان کریمی کے صدقے اپنی امت کے بارے میں فرمایاکہ:

’’وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوْا ‘‘[4]

’’اور بے شک مجھے تمہارے متعلق یہ خوف نہیں ہےکہ تم شرک کروگے ‘‘-

یعنی آپ (ﷺ)نے اس امت کو شرک سے بریت کی سند عطا فرمائی ہے-اس کے بعد اگر کوئی اس امت پر شرک کاالزام لگائے گا تو الزام لگانے والا شرک کے زیادہ قریب ہوگا-یعنی یہ امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہوگی-اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ پاکستانی قوم نے سنت صحابہ کو ادا فرماتے ہوئے حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ناموس اور تحفظِ ختم نبوت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور حضور نبی کریم (ﷺ)سے محبت کا بھر پور اظہار کیا، مسلّح فتنہ ء خوارج کو شکست دینا اس قوم اور پاک افواج کا تاریخی ، تاریخ ساز اور ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے -

میانوالی                2018-01-18      ہائی سکول گراؤنڈ

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

صاحبزادہ صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک چیز جو مجھے حیران کرتی ہے وہ مسلمان کے ایمان کی ترجیح  ہے کہ وہ ہر حال میں اپنی زندگی پر اپنی موت کو ترجیح دیتا ہے اور گنہگار ہونے کے باجود اپنے رب کی بارگاہ میں التجا کرتا ہے کہ میری موت حالتِ ایمان پر ہو-کیونکہ اللہ رب العزت نے بھی اپنے بندوں کو سب سے پہلے اپنا تعارف  ’’الرحمٰن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ سے کروایاہے-یہ الگ بات ہے کہ  اس کی معرفت کے مختلف درجات ہیں مگرقران کریم میں اس نے اپنے بندوں پر اپنا ایمان بڑھانے کے لئے ’’الرحمٰن، الرحیم ‘‘سے تعارف کروایا-یاد رکھیں کہ لغت عربی میں جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ان میں سے بعض صفات ایسی ہیں جن کا حقیقی ترجمہ قرآن کی عربی ء مبین کے علاوہ کسی اور زبان میں اُس طرح جامعیت سے نہیں کیا جاسکتا مثلاً ’’الصمد‘‘ہے اس کا ترجمہ ’’بے نیاز‘‘ کیا جاتا ہے حالانکہ اردو زبان میں اس کے بندوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے کہ فلاں شخص بڑا بے نیاز ہے-مگر حقیقت میں ’’الصمد‘‘ صرف وہی ذات ہے –بقول اقبالؒ:

کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
 

یہ اس کی بے نیازی کی شان ہے کہ بندہ گنہگار ہونے کے باجود اس کی رحمت پر بھروسہ کر کے اس کی بارگاہ میں بخشش کا طلبگار ہوتا ہے-اس لئے بندے کو چاہیے کہ وہ اس کی بارگاہ سے عدل کو نہیں فضل کو مانگے اوراس کی رحمت پر یقین رکھے اور اعمال صالح کو اختیار کر لے-کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَ ا صَوْا بِالصَّبْرِ‘‘[5]

’’زمانہ کی قَسم بے شک انسان خسارے میں ہے -سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور  باہم صبر کی تاکید کرتے رہے‘‘-

اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھیئے کہ وہ تو ہر وقت اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے کہ کب بندہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے؛ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا‘‘[6]

’’کیا تم صبر کرو گے؟ اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے‘‘-

یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور اس کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کسی مرد کا مل کی تربیت وصحبت سے نصیب ہوتا ہے اور مرشد کا مل کی صحبت اسے ممتاز و نمایاں کرتی ہے-جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ ) فرماتے ہیں کہ:

الف! اللہ چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد لائی ھُو
نفی اثبات دا پانی مِلیس ہر رگے ہر جائی ھُو
اندر بوٹی مُشک مچایا جاں پھلاں تے آئی ھُو
جیوے مرشد کامِل باھُوؔ جیں ایہہ بوٹی لائی ھُو
 

خوشاب                2018-01-19 پرانا میلہ گراؤنڈ جوہر آباد

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

انسان کے وجود میں ایک روح ہے جس کی وجہ سے انسان اس دنیا میں اپنے ہونے یا نہ ہونے کو محسوس کرتا ہے اور روح بھی اللہ تعالیٰ کے امر سے وجود میں داخل وخارج ہوتی ہے-انسان کو جب یہ ادراک ہو جائے کہ میرا جینا و مرنا میرے اختیار میں نہیں بلکہ اس ذات کے امر سے ہے تو پھر انسان کو چاہیے کہ وہ اس ذات کی طرف متوجہ ہو-کیونکہ اس نے بندے کو دو راستے دکھا دیئے  ہیں اب اس کی مرضی ہے کہ وہ حق و باطل میں سے کسے اختیار کرتا ہے-لیکن آج کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس بات سے غافل ہیں کہ کل قیامت کے دن میزان بھی لگے گا اور جو اس بات سے با خبر رہتا ہے وہ ہر پل اپنے عمل کا احتساب کرتا رہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا‘‘[7]

’’اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے (ہی) لیے بھلائی کرو گے اور اگر تم برائی کرو گے تو اپنی (ہی) جان کے لیے‘‘- 

آدمی اس دنیا میں چار ٹکوں کا خسارا برداشت نہیں کرتا آخروی خسارے کو کیسے برداشت کر لیتا ہے-اس لئے جو بھی اس بات کو سمجھ جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے آپ کو خسارے سے محفوظ کر نے کیلئے اس کی رحمت کی لپیٹ میں آجاتا ہے-مومن کی شان یہ ہے کہ وہ لذتوں پہ اختیار کے باوجود ان کو ترک کرکےاپنے رب کی رضا  و خوشنودی اختیار کرتا ہے اور اپنے رب کی یاد اور ذکر سے اپنے دل کو منور کرتا ہے-ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے:

’’وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا‘‘[8]

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی  راہیں دکھا دیتے ہیں‘‘-

جو بھی محبت الٰہی میں پختہ ہوتا ہے اس کے انعام میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ‘‘[9]

’’بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں‘‘-

اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر احسان فرمایا کہ اسے ہر میدان میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار فرمایا-

اٹک                   2018-01-20      کرکٹ اسٹیڈیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اللہ تعالیٰ نے جس قدر تمام مخلوقات میں انسان کو شرف و بزرگی سے نوازا ہے اسی قدر اس کو سمجھنا بھی آسان نہیں  بلکہ کسی ایسے استاد اور راہبر کی ضرورت ہے جو اس میں اترنے کا فن جانتا ہو-لیکن اولیاء کرام اس مشکل کو آسان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کو تین پہلوؤں میں دیکھا جائے تو یہ مسئلہ آسان ہو جاتا ہے-

1.       ظاہر

2.       باطن

3.       حقیقت

ظاہر سے مراد بدن ہے، باطن سے مراد روح ہے اورحقیقت میں حضرت انسان ہے-ان تینوں کے پروان چڑھنے کے الگ الگ تقاضے ہیں-مثلاً بدن پر عبادت لازم ہے اور روح کیلئے معرفت اور ذکر الٰہی ہے اور حضرت انسان ان دونوں کو ملا کر خلافت کیلئے بنایا گیا ہے- مگر آج حضرت انسان اپنے مقام سے غافل ہوکردنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا ہےجس کی وجہ سے وہ  اپنے مالک و خالق کو بھُلا بیٹھا ہے-بلکہ در اصل!اس نے خود کو بھلادیا ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘[10]

’’سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (بے مقصد) پیدا کیا ہے او ریہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟‘‘

لہذا ہمیں اپنی اور آخرت کی فکر کرنی چاہیے‘‘-

اسلام آباد  2018-01-21       کنونشن سنٹر

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’کچھ چیزیں آدمی مشاہدے سے سیکھتا ہے، کچھ پڑھ کر، کچھ استاد کی صحبت سے اور کچھ نشیب  وفراز سے سیکھتاہے- اس لئے دو چیزیں پڑھنے میں آسان اور سمجھنے میں مشکل اور عمل میں بطور امتحان ہوتی ہیں (۱) ’’اخلاق‘‘ (۲)’’اخلاص‘‘-یہ دونوں چیزیں کسی نہ کسی رول ماڈل سے سیکھی جاتی ہیں اور جو قوم فکر سے عمل کی طرف آتی ہے وہ اپنا ثانی نہیں رکھتی-اسی طرح اگر کوئی ظلم کو ختیار کرتا ہے تو اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے-مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پہ کرم کرتے ہوئے اپنی رحمت و فضل پر بھروسہ کی دعوت دیتا ہے-یہ وہ بنیادی تربیت ہے جو انبیاء کرام (رضی اللہ عنہ) لے کر تشریف لائے-  اس لئے مسلمان یہ امید رکھتا ہے کہ میری زندگی جیسی بھی گزرے بوقت موت مجھے حکمِ حق نصیب ہو اور اہل حق کا روز ازل سے یہ طریق رہا ہے کہ وہ حق کہنے سے نہیں رُکتے-جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے کہ، اگر میرے ایک ہاتھ پہ سورج اور دوسرے ہاتھ پہ چاند بھی رکھ دیا جائے تو پھر بھی حق بات سے پیچھے نہیں ہوں گا-

اسی طرح آقا علیہ الصلاۃ و السلام نے ہر مقام پہ اپنی امت کا خیال رکھا تاکہ یہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوسکے اور جو بھی اللہ تعالیٰ کو مان کر اس پر استقامت اختیار کرے تواس پہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ملائکہ کا نزول ہوتاہے-

صوفیاء کرام نے اسی طریقِ تربیت کو فروغ دیا جیسا کہ تصوف کو اختیار کرنے والے کا تعارف حضور غوث پاک (قدس اللہ سرّہٗ) ان الفاظ میں فرماتےہیں:

’’الصوفی من صفا باطنہ وظاہرہ‘‘

’’صوفی وہ ہے جس کا ظاہر وباطن دونوں پاک صاف ہوں‘‘

 یعنی جو اپنے تن اور من کی دنیا کو روشن کرلیتا ہے- جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں ہمیں اس کےساتھ وفا کرنی چاہیےیعنی پاکستان سے ہماری محبت ایک عقیدے کی حد تک ہونی چاہئے کیونکہ اس سے محبت کرنا باعث اجر بھی ہے اور باعث ثواب بھی‘‘ -

ایبٹ آباد  2018-01-22      کامرس کالج گراؤنڈ

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’اس وقت عالم اسلام میں کثیر الجہتی تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کی عزت و جاہ ومنصب چند دنوں کی ہے اور ہمارا اصل سرمایہ اور دولت تو اولاد کی تربیت ہے اور تربیت کے لئے نصاب ہم حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقع کو بنا سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیمؑ !چار پرندے پکڑ لواور پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لو یعنی اپنی تربیت میں رکھو-پھر جب وہ ذبح کر دئیے جائیں گے تو انہیں بلایا جائے گا تو وہ پھر بھی حاضر ہوں گے- اصل تعلیم تو تربیت سے ہی ممکن ہے جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے باجود کم علمی کے اپنی اولاد کی فرمائی- کیونکہ اسلام علم دوست معاشروں میں پرواں چڑھتا ہے اس لئے یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جس ذات اقدس نے ہمیں اولاد کی نعمت سے نوازا، اس کی ذات کی معرفت خود بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس جانب راغب کریں-

ہمارے اصلاف دو چیزوں پہ یقین رکھتے تھے:

1-اپنے ہونے پر کہ میں ہوں

2-میں نے جانا ہے-

یعنی جو تھا وہ نہیں ہے اور جوہے وہ نہیں ہوگا –جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا گیا کہ قریب کیا ہے آپؓ نے فرمایا موت اور عرض کیا گیا قریب تر چیزکیا ہے فرمایا قیامت-

حضور علیہ الصلواۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا اس دن سات(7) لوگ اس کے سایۂ رحمت میں ہوں گے:

1.       عادل بادشاہ

2.       وہ نوجوان جو اپنےرب کی عبادت میں مشغول رہتا ہے

3.       وہ نوجوان جس کا دل مسجد میں معلق رہتا ہو

4.       وہ شخص جو آپس میں اللہ تعالی کےلئے محبت اور اللہ تعالیٰ کے لئے نفرت کرتا ہو-

5.       وہ جوان جسے مالدار اور حسین عورت نے دعوتِ گناہ دی  مگر اس نے یہ کَہ کر ٹھکرا دیا کہ میں اللہ کے خوف کی وجہ سے اسے قبول نہیں کرتا-

6.       وہ شخص جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے اور اس کے بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو -

7.       جس کے آنسو تنہائی میں ذکر الٰہی کرتے ہوئے جاری ہوئے-

اس لئے یہ دین غریبوں،یتیموں،مسکینوں پر رحم کرنے کا درس اور انتقام کی سوچ سے منع رہنے کا درس دیتا ہے-

ہری پور                                   2018-01-23               اختر نواز اسٹیڈیم، کھلابٹ

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اہل اسلام کے ہاں ہر اس چیز کا ترک لازم ہے جو قرآن و سنت کے متصادم ہو اور ہر اس عمل کو اختیار کرنا لازم ہے جس کا اللہ رب العزت نے حکم ارشاد فرمایا ہو- کیونکہ وہ عمل اسےآخرت میں نفع دے گا جس کا تعلق عمل اور فکر سے ہے- اسی طرح اگر آپ علم تصوف کے اصول اور اس کے اثبات کے دلائل دیکھیں تو قرآن کریم اور سنتِ رسول (ﷺ)سے ہمیں بے شمار دلائل مہیا ہوتے ہیں-جیسا کہ حضرت جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں:

’’لان علمنامقید بالکتاب والسنۃ‘‘

’’بے شک علم (تصوف)کتاب و سنت کے ساتھ مقید ہے‘‘-

اسی طرح آج اس ملت کو جس تربیت کی ضرورت ہے وہ آدمی کی نیت اور اخلاص کا قبلہ درست ہونے کی ہے-کیونکہ عمل ایک ہی ہوتا ہے مگراس کی جزائیں دو ہوتی ہیں مثلاًمجاہد اور قاتل دونوں کا عمل ایک ہی ہے مگر نیت کےتبدیل ہونے کی وجہ سے ایک قاتل ٹھہرا اور دوسرا مجاہد-اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی صورتوں  اور عمل کو نہیں بلکہ دل اور نیتیں دیکھتا ہے-جس خطے میں ہم موجود ہیں اس میں صوفیائے کرام کے طریق عمل اورطریق تربیت سے اسلام پھیلا ہے جسے تصوف کہتے ہیں اوراس کے مختلف اسماء ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ‘‘[11]

’’بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں‘‘-

یہ فقظ استعارہ نہیں ہے بلکہ اس بات کا ثبوت حدیثِ نبوی (ﷺ)سے ملتا ہے-حضرت حسن بن علی(﷜) سے روایت ہے کہ حضرت علی(﷜) جس میدان بھی میں جاتے ان کے دائیں جانب حضرت جبرائیلؑ اور بائیں جانب حضرت میکائیلؑ ہوتے:

’’فلایرجع حتی یفتح اللہ علیہ‘‘

’’ پس وہ کسی میدان سے بھی واپس نہ لوٹے مگر اللہ تعالیٰ انہیں فتح عطا فرماتا‘‘-

اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت فرماتا ہے جو راہ استقامت میں طریقِ روحانیہ کوا پناتاہے اور پھر اس بندے کی یہ شان ہوتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ زمانے میں ممتاز فرما کراس کی محبت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں فرما دیتاہے-

چکوال     2018-01-24      میونسپل اسٹیڈیم گراؤنڈ

صدارت و خصوصی خطاب:


مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

اولیاء کرام کا طریقِ تربیت باطن سے شروع ہوتا ہے جس سے انسان باطنی تربیت حاصل کر کے اپنے اعمال کو  اللہ اور اس  کے محبوب (ﷺ) کے احکمات کی تکمیل  کے قابل بناتا ہے جس سے اس کے ظاہر و باطن دونوں پاک ہو جاتے ہیں-سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (﷜) فرماتے ہیں کہ تمام اولیاء کاملین کے علم کا انحصار کتاب اللہ اور سنت رسول (ﷺ) پہ ہے-صوفیاءکرام کا یہ طریق رہا ہے کہ جو عمل بھی کتاب اللہ اور سنت سے متصادم ہو اس کو کبھی اختیار نہیں کرتے اور ہمیشہ خواہشات نفسانی کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو اختیار کرتے ہیں –ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’نَحْنُ اَوْلِیٰـٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ‘‘[12]

’’ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مدد گار ہیں اور آخرت میں (بھی)‘‘-

انسان ایک عالم میں چلا جاتاہے جہاں پر اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اپنی محبت کا اظہار فرماتا ہے-جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ (﷜)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے:

’’وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِى يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِى يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِى يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِىْ يَمْشِىْ بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِى لأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِى لأُعِيْذَنَّهُ ‘‘[13]

’’اور میرا بندہ نوافل کے ساتھ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں-پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے وہ کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہےاور میں اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہےاور میں اس کے وہ ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہےاور میں اس کےوہ پیر ہو جاتا ہو ں جن سے وہ چلتا ہےاور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اس کو ضرور پناہ عطا کرتا ہوں‘‘-

یعنی  بندے کے وجود میں اس کے انوار کی تاثیر بھر دی جاتی ہے اوربندہ اس کی ذات کا محبوب بن جاتا ہے‘‘-

جہلم 2018-01-25      جہلم اسٹیڈیم

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اولیاء کرام عوام کی توجہ اس راستے کی جانب مبذول کرواتے ہیں جس میں دنیا وعقبیٰ سے ماورا ہوکر فقط رضا الٰہی کو اختیار کیا جائے کیونکہ اہل اللہ فرماتے ہیں:

’’طَالِبُ الدُّ نْیَامُخَنَّثٌ وَّطَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَّطَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکَّرٌ‘‘

’’طالب ِدنیا مخنث ہے، طالب ِعقبیٰ مؤنث ہے اور طالب ِمولیٰ مذکر ہے‘‘ -

یعنی جو فقط دنیا کا طالب ہے اس کا شمار نہ تو مردوں میں ہوتا ہے اور نہ عورتوں میں اور جو فقظ جنت کا طالب ہے وہ بھی مرد کہلانے کا حقدار نہیں بلکہ طریق صوفیاء میں حقیقی مرد وہ ہے جو اپنے رب کا طالب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ہر چیز کو  پیدا فرمایا ہے اور انسان کو اپنی


ذات کی پہچان کے لئے تخلیق فرمایا، جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا:

’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ ‘‘[14]

’’پس میں نے مخلوق کو پیدا فرمایا تاکہ میری پہچان ہو‘‘-

اب انسان کے اوپر لازم ہےکہ وہ دیگر تمام تر اعمال سےپہلے اس کی معرفت کو حاصل کرے اور بعد میں دیگر اعمال کو اختیار کرے تاکہ اسےاللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی نصیب ہو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب انسان ظاہر کے ساتھ اپنے باطن کو ذکر الہی سے روشن اور منور کرے ‘‘-

گوجرانوالہ 2018-01-26      منی اسٹیڈیم

صدارت و خصوصی خطاب:

 مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

دنیا میں ایک اصول ہے کہ ادنی ہمیشہ اعلیٰ درجے والے کی طرف کشش رکھتا ہے اور محب ہمیشہ محبوب کی خیر خواہی کرتا ہے مگر مسلمان کی قسمت پہ جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے کیونکہ یہ ایسا محب ہے جس سے محبوب پاک صاحب لولاک (ﷺ) محبت وخیر خواہی فرماتے ہیں اور اپنی امت کا درد رکھتے ہیں-کیونکہ اللہ  تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک (ﷺ) کو اپنے اوصاف سے متصف فرمایا:

’’لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘[15]

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے- تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے- (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘-

حالانکہ اللہ رب العزت نے حضور پاک (ﷺ)کو دنیا کے تمام خزائین کی چابیاں عطاء فرمائیں لیکن اس کے باوجود بھی حضور (ﷺ) نے اپنی امت کی خیر خواہی فرمائی-سب سے اعلیٰ کرم نوازی یہ فرمائی کہ آپ (ﷺ)نے رنگ ونسل اور علاقائی وقومیت سے ماوراء ہوکر اس امت سے بھلائی اور ہمدردی فرمائی-اسی طرح آخرت میں بھی جب ہم نفسا نفسی کی آوازیں لگا رہے ہوں گے اس وقت بھی آپ (ﷺ) اللہ کے حضور شفاعت فرما کر سب کو نجات دلائیں گے- جب تک کہ ایک امتی بھی جہنم میں ہوگا آپ (ﷺ) شفاعت کرتے رہیں گے-اس لئے یاد رکھیں! کہ آقا علیہ الصلواۃ والسلام کی امت سے خیر خواہی کرنا خود حضور پاک (ﷺ)کی سنت مبارکہ ہے-اس لئے آپ (ﷺ)اسی بات کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَيَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا‘‘[16]

’’(لوگوں کو) بشارتیں دو، متنفر نہ کرو اور (لوگوں کے لیے) آسانیاں پیداکرو،مشکلات پید انہ کرو‘‘-

لہٰذا مسلمان کا حق بنتا ہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے مسلمانوں کی خیر خواہی اور بھلائی سوچے اور بھلائی کو عام کرے کیونکہ ہماری یہ محبت اللہ اور اس کے رسول  پاک(ﷺ) کی وجہ سے ہے -


سیالکوٹ   2018-01-27      ہاکی اسٹیڈیم

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’آج  ہر طرف اور تاریکی اور جہالت چھائی ہوئی ہے اور فساد نے ہر شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے-اس سے خلاصی کا ایک ہی راستہ ہے کہ قرآن وسنت کو عملی جامع پہنایا جائے یعنی اللہ اور اس کے محبوب پاک (ﷺ) کی اطاعت کو اختیار کیا جائے-اس کے لئےحضور علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمیں ایک ایسا راستہ دکھایا جس کواپنا کرہم خود کو راہ راست پر لاسکتے ہیں:

’’عند فساد امتی من تمسک بسنتی فلہ اجرہ مائۃ شہید‘‘

’’امت میں فساد کے وقت جس نے میری سنت کو تھاما پس اس کااجر سو(100) شہید کے برابر ہوگا‘‘-

 وہ عظیم سنت جس کو اختیار کرنے سے فساد کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے وہ دل کی طہارت و پاکیزی اور رجوع الی اللہ ہے کیونکہ حضور علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ آدمی کے وجود میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہے تو پورا وجود درست ہے اگر وہ خراب ہے تو پورا وجود خراب ہے اور وہ ٹکڑا دل ہے اور دل کی صفائی کا طریق ذکراللہ ہے -

حافظ آباد              2018-01-28      بھون رائس ملز

صدارت و خصوصی خطاب:

مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’اصلاحی جماعت اس پیغام کو لے کر چلی ہے جو ظاہر وباطن کی تربیت کرتاہے-ظاہری امراض کے علاج و معالجہ کےلئے ماہر ڈاکٹر اور اطباء موجود ہیں جو پہلے امراض کی تشخیص کرتے ہیں-اسی طرح بابنی امراض جیسے حرص،حسد،تکبر اور نفاق وغیرہ کی تشخیص کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرمایا ہے-اس لئے آج اگر اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں تو رہتی سہتی کسر سمارٹ فونز نے نکال دی ہےکہ انسان کی انسانیت،بشر کی بشریت اور آدمی کی آدمیت کو بدل کر رکھ دیا ہے-اس لئے انسان کے ان تمام باطنی خصائل کو دور کرنے  اور باطن کی تعمیر و ترقی کے لئے قرآن و سنت اور اولیاء کرام کی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے-آئمہ کرام و فقہاءکرام کا یہی طریق رہا ہے کہ وہ ظاہری علوم کے حصول وتکمیل کے بعد  اہل اللہ کی محبت و مجالس کو اختیار کرکے اور ان سے اکتسابِ فیض کرتے-


جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ(﷫)امام جعفر صادق (﷜)کے پاس علم باطن کے لئے حاضری دیتے، امام شافعی(﷫) حضرت شہبان الراعی (﷜) کے پاس جاتے، اسی طرح امام مالک (﷫)اور امام احمدبن حبنل (﷫)نے اہل اللہ کی محبت میں بیٹھ کر اکتساب فیض کیا اور ان کا یہ فیض بھی کتاب و سنت ہے-آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں ہمیں بھی اس طریقِ تربیت کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے -

شیخوپورہ                2018-01-29      مین اسٹیدیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’اللہ تعالیٰ نےا س دھرتی پر جنہیں قبول عام عطا کیا وہ اہل اللہ کی جماعت ہے اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے ظاہر کے ساتھ اپنے  قلب و باطن کو پاک صاف کرکے اپنی ارواح کو بیدار کرتے ہیں- جیسا کہ امام مالک(??

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر