رپورٹ : سالانہ ملک گیر دورہ

رپورٹ : سالانہ ملک گیر دورہ

رپورٹ : سالانہ ملک گیر دورہ

مصنف: ادارہ اپریل 2018

تاریخ اس بات کی گواہ  ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی انسانی معاشرے میں خرابی یا بگاڑ واقع ہوا اور خیر کی جگہ شر نے لی اور نیکی کی بجائے انسانوں نے برائی کے راستے کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے بدستور طریق اس خرابی اور بگاڑ کو رفع کرنے اور معاشرے کی اصلاح فرمانے کے لئے اپنے ایسے مخصوص بندوں کو اس دنیا میں جلوہ افروزفرمایا کہ جنہوں نے انسان کے ظاہری و باطنی، عقائد و طریق عبادت کے مسائل کو رفع فرمایا-ان کا خاصہ یہ تھا کہ انہوں نے دین متین  کی خدمت کو اولین ترجیح دی اور ان کی تمام عمر کا سرمایہ حیات خدا خوفی، صبر، توکل، تقویٰ، ذکر، فکر، محاسبہ، تزکیہ، تصفیہ، اخلاق و اخلاص، امانت و دیانت اور کلمۂ حق تھا-خاتم الانبیاء آقا کریم (ﷺ)کی پاکیزہ تعلیمات کا پرچار ان کی زندگی کا مشن و مقصد تھا اوریہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے مسلمانوں کے روحانی استحکام کی باگ تھامے رکھی، دنیا کے مختلف دیگر خطوں کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی دین اسلام کے ابلاغ و تبلیغ کا مقدس سہرا انہیں کے سر جاتا ہے جن کے علم و عمل، روحانی استخلاص اور بصیرت و فراست کے نتیجے میں یہاں کے چپہ چپہ پر اسلام کا نور پھیلا ہے-یہ بھی ان  ہی کی اَن تھک محنت، محبت اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے باعث لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے-یہی وہ لوگ تھے جن کی خانقاہوں، جن کی معیت اور صحبت میں بیٹھنے والے احباب بڑے بڑے سرداروں کو خاطر میں نہ لاتے تھے-مساوات اور انسانی اقدار کا اس قدر پاس تھا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے- اسلام کے اس عالمگیر پیغام سے انسانیت کو روشناس کرانےاور اسلام کی عالمگیریت اور ابدی مسیحاہوں کو انسان کے ذہن و قلب اور فکر میں واضح کرنے کیلئے جو کارنامے صوفیائے کرام نے انجام دیئے اور آقا دوجہاں (ﷺ) کی سنت کے مطابق عمل نمونہ پیش کرنے کی جو تکنیک انہوں نے اپنائی وہ اپنی مثال آپ ہے-انہوں نے انسانی اقدار کو برقرار رکھنے کیلئے اور اس کے شرف اور بزرگی کو استقامت عطا کرنے کیلئے انسان کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کی اصلاح کا عمل ہمیشہ سے جاری و ساری رکھا تاکہ یہ اپنی عظمت و شرف اور قدر و منزلت کو برقرار رکھ سکے-اس مشن کی تکمیل کیلئے آج آپ دیکھیں کے اِس مادہ پرور دور میں سلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی تشکیل کی گئی جماعت ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جوسُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ سےاِسی پیغامِ اِنسانیت و پیغامِ امن کو لے کر چلی ہے -

آپ قدس اللہ سرّہٗ کی دینی و روحانی شان و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ نے ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے پلیٹ فارم کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی وسعت و عالمگیریت عطا فرمائی ہے کہ اس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیرتمام مکاتبِ فکر،تمام مذاہبِ عالَم کے لوگ سنتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ واقعتاً یہی وہ جماعت ہے جو قرآن و سُنّت کی صحیح ترجمان اور تعلیماتِ اَسلاف و اکابر کی حقیقی مُبلّغ ہے جس کا اَوّل و آخر مقصدِ انسانیت کی فلاح و بقا اور ظاہری و باطنی پاکیزگی ہے -

اسی طرح آج بھی آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی اسی فکر کو عامۃ الناس کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لئے ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘کے زیرِ اہتمام جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)، سرپرستِ اعلی ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی قیادت میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر محسنِ انسانیت فخرِ موجودات (ﷺ) کے اسمِ گرامی سے منسوب محافل میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کانفرنسز    (Conferences)کے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں-

 

یہ اجتماعات روایتی طریق کار کی طرح نہیں ہوتے بلکہ نہایت ہی منظّم اور بامقصد طریقے سے ہوتے ہیں-ہر پروگرام کی ترتیب اس طرح سے ہوتی ہے کہ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے-خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے، صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت الحاج محمد نواز القادری صاحب خطاب کرتے ہیں-پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت ہونے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-

امسال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کے آخری راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-

سعید آباد )کراچی(                  06-02-2018     ایم کے خانہ کمپاؤنڈ

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے اوپر حضرت انسان کو فوقیت و بزرگی عطا کی اور تمام انسانیت میں انبیاء کرام علیہ السلام کی جماعت میں آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کو امتیازی شان و مقام سے نوازا-جیسا کہ  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍم مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰـہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ‘‘[1]

’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم(ﷺ) کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی) اور ہم نے مریم کے فرزند عیسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی‘‘-

اسی طرح حضور رسالت مآب (ﷺ) کے ذکر مبارک کی رفعت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘[2]

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘- 

اس آیت مبارکہ میں جہاں پر آپ (ﷺ) کے ذکر مبارک کی فضیلت کو ظاہر فرمایا وہیں پر امت کا شرف بھی مخفی اور پوشیدہ فرما کر امت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا گیا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو حضورپاک (ﷺ)کی غلامی میں رہ کر نبھائیں جس میں ہماری فلاح وبقا ہے-

مینارہ مسجد)کراچی(     07-02-2018     

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

’’جب ہم حضور رسالت مآب (ﷺ) کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کی روشنی میں غور و فکر کرتے ہیں تو پھر اس سے ہمیں ہدایت کا وہ طریق نصیب ہوتا ہے جس میں دارین کی فلاح کا راز مخفی نظر آتا ہے -

حضورنبی کریم (ﷺ)کا ارشاد گرامی ہے:

’’انی ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنۃ نبیہ‘‘[3]

’’بے شک میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھا مے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے ‘‘-

کتاب اللہ اور سنت رسول (ﷺ) یعنی آپ (ﷺ)کی پیروی اور غلامی اور طریق مبارک اور آپ (ﷺ)نے قرآن و سنت کی روشی میں ہمیں وہ طریق عطا فرمایا جس کو پکڑنے سے ہم کامل کامیابی کو حاصل کرتے ہیں وگرنہ قرآن کریم سے ہر ایک ہدایت کے طریق کامل کو  حاصل نہیں کرسکتا-ضروری ہے کہ قرآن کریم کو فقط زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں تک لے جایا جائے-

اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو قرآن کریم اور سنتِ نبوی(ﷺ)کے سانچے میں ڈھال دیں اور یہی طریق ہمیں اولیاء کاملین اور صوفیاء کرام کی سنگت اور معیت سے نصیب ہوتا ہے-

ٹھٹھہ )سندھ(            08-02-2018

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب 

اولیاء کاملین درحقیقت قرآن و سنت کے عمل طریق کو اپناکر ہمارے لئے ظاہری وباطنی تربیت کا سامان میسر کرتے ہیں-جس سے انسان کو اپنے مالک حقیقی کے قرب اور بندگی کا وہ بنیادی پیغام ملتا ہے جس کو اپنا کر ہم اپنی درست سمت کو متعین کر سکتے ہیں-اسی طرح اس علم اور طریق کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے بھی اپنی زندگیوں میں نافذ کیا جیسا کہ ملاعلی القاری ’’شرح فقہ اکبر‘‘ میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:

دنیا میں تین طرح کے طبقے ہیں جو عمل کرتے ہیں مگر حقیقی ثمر کو کون پا سکتا ہے :

1.       کچھ لوگ عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ہیں اور یہ فی الحقیقت غلامی کرتے ہیں -

2.       کچھ لوگ عبادت لالچ کی وجہ سے کرتے ہیں اور یہ فی الحقیقت تجارت کرتے ہیں-

3.      کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے عبادت کرتے ہیں اور یہی لوگ فی الحقیقت آزاد (نجات پانے والے)ہیں ‘‘- 

ان کی عبادت درجۂ کمال کو پہنچتی ہے اور اس کا تعلق بدنی و قلبی طہارت کے ساتھ لازم ہے جب تک یہ دونوں چیزیں پاک نہیں ہوتیں  اس وقت تک عبادت میں درجۂ کمال ممکن نہیں-

بدین )سندھ (08-02-2018         مہران شادی حال

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب  مکرم (ﷺ) کو جس شان اورجس مقام سے نوازا ہے اس تک عقلِ انسانی کی رسائی ممکن ہی نہیں کیونکہ جہاں سے انسانی عقل کی رسائی ختم ہوتی ہے وہاں سے حضور نبی کریم (ﷺ) کے شرف اور قدر منزلت کی ابتداء ہوتی ہے -

حضرت جابر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)  نے ارشاد فرمایا:

یا جابر ان اللہ تعالیٰ خلق قبل الاشیاء نور نبییک من نورہ‘‘[4]

’’اے جابر(رضی اللہ عنہ)بیشک اللہ پاک نے تمام چیزوں سے پہلے تیرے نبی(ﷺ) کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا‘‘-

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

’’ قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ‘‘[5]

’’بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد(ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)‘‘-

 

یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اپنی ذات اقدس کا مظہراتم  بنا کر بھیجا اور ہر چیز آپ (ﷺ)کے نور کی خیرات سے بھیک مانگتی ہے اور اپنے آپ کو اس کے ذریعے سے مزین کرتی ہے-

حیدر آباد (سندھ)                   09-02-2018

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اس کائنات کی ہر چیز جس کے قبضہ قدرت میں ہے وہ فقط اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’تَبٰـرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ‘‘[6]

’’وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ (قدرت) میں (تمام جہانوں کی) سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے‘‘-

اگر اس نے اپنی اسی شان قدرت سے کسی کو خیرِ کثیر عطا فرمایا تو وہ فقط ذاتِ مصطفےٰ(ﷺ)ہے- فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ‘‘[7]

’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے‘‘-

کثیر اور اکثر سےعدول فرما کر کوثر کا ذکر فرمایا تاکہ اگر کوئی اس کو ناپنا اور تولنا چاہے تو اس کے پیمانے تو ختم ہو جائیں مگر عظمت مصطفےٰ (ﷺ) کا ایک باب بھی مکمل نہ ہو سکے -پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضور رسالت مآب (ﷺ) کے امتیوں کو جس شان سے نوازا اس کا احاطہ کرنا بھی نا ممکن ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ‘‘[8]

’’زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے‘‘-

اندازہ لگائیں! کہ یہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے غلاموں کی شان کا یہ عالم ہے تو خود حضور رسالت مآب (ﷺ) کی شانِ اقدس کا عالم کیا ہوگا---!

ٹنڈواللہ یار (سندھ)                  09-02-2018

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اللہ رب العزت نے ہمیشہ سے اپنے بندوں کی اصلاح اور فلاح کیلئے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرمایا ہے-جو بھی ان خاص اور محبوب بندوں کی صحبت و مجلس اختیار کر کے ان کی پیروی کو اپناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے زمانے میں ممتاز فرما دیتا ہے اور اس کے وجود سے ان کی محبت اورمجلس کا فیض اور فیضان واضح طور پر چھلکتا نظر آتا ہے-جس  کی واضح دلیل قرآن کریم  میں موجودحضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ  سے فراہم ہوتی ہے:

’’فَخُذْ اَرْبَعۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘[9]

’’سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو -پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘-

اس آیت مبارکہ میں صحبت صالحین کے فیض اور فیضان کی تاثیر کا ذکر ہے کہ اگر پرندوں کو صحبت نصیب ہو تو ان کی موت حیات میں بدل  جاتی ہے اور یہ صحبت اگر انسان کو نصیب ہو جائے تو اس کی زندگی میں بھی انقلاب کیوں کر نہ برپا ہوگا-اسی لئے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ:

دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

سانگھڑ (سندھ)         10-02-2018     

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اگر اس پر فتن دور کا جا ئزہ لیا جائے تو ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح حقیقت کو دھندلا یا جا رہا ہے، کھوٹے کو کھرا بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور غیر شرعی رسومات کو فروغ دیا  جا رہا ہے-جس کی وجہ سے حقائق تک رسائی بہت دشوار ترین عمل بن گیا ہے-اسی طرح دین سے دوری کے باعث دین کی تر غیب دینے والے بھی ماند پڑگئے ہیں-اس لئے ایسے دور میں حضور سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) کے درِ اقدس سے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم  العارفین کا قیام عمل میں لایا گیا تا کہ دین کو اس کےحقیقی مفہوم اور عملی پیغام سے لوگوں کو روشناس کروا کر انہیں ظاہر کی طہارت کے ساتھ ساتھ باطن کی پاکیزگی اور قلب کے تصفیہ کا عمل بتلایا جائے کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنی انسانیت اور آدمی اپنی آدمیت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰoوَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی‘‘[10]

’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیااور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا‘‘-

یہ تزکیہ انسان کو کامل مرشد اکمل کی نگاہ سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ  مرشد کامل کے وجود میں اللہ تعالیٰ یہ خواص ودیت فرما دیتا ہے-

نواب شاہ(سندھ)                  خواجہ آڈیٹوریم ہال 11-02-2018

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اس وقت اگر مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ہم نے قرآن کریم اور سنتِ نبوی(ﷺ) سے اپنے عملِ تعلق کو اس طرح استوار نہیں کیا جس قدر استوار کرنے کا حق تھا-جیسا کہ نماز ادا کرتے ہیں مگر اس کا جو پھل ہے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے بچاتی ہے، ہم نماز پڑھ کر بھی اس سے بچ نہیں پاتے-اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے تن اور من کا اتحاد نہیں تن مسجد میں ہوتا ہے مگر من میں مال و متاع دنیا گھوم رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سے ہم ’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘ کے شرف سے محروم رہتے ہیں- اس دل کی نماز ’’قلبی ذکر‘‘ ہے- جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘[11]

’’خبردار !اللہ پاک کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-

سکرنڈ(سندھ)          11-02-2018     

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اولیاء کاملین ہمیشہ اس پیغام عمل کی دعوت دیتے ہیں جو قال کی بجائے حال کا پیغام دیتا ہے اور جو قول کی بجائے عمل کو ترجیح دیتا ہے اور بندے کو اپنے رب کےاور امتی کو اپنے نبی کے قرب کا راستہ دکھاتا ہے  اور انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب پاک (ﷺ) کی سچی محبت اور صحیح غلامی کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے جس سے آدمی کے اوپر اس کے قرب اور اس کی معرفت کے راستے ہموار ہوجاتے ہیں-جس سے وہ دنیا میں بھی فلاح کا ثمر کھاتا ہے اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی حضور رسالت مآب (ﷺ) کی شفاعت کا ثمر اپنے نام کرتاہے کیونکہ کل قیامت کےدن حضور رسالت مآب (ﷺ) جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوں گے اور سر سجدہ میں رکھیں گے تواللہ تعالیٰ فرمائے گا :

’’ارفع رأسک یا محمد(ﷺ) سل تعط واشفع تشفع‘‘[12]

’’اے حبیب (ﷺ)! اپنا سر انوراٹھائیے! سوال کیجئے! عطا کیا جائے گا!شفاعت کیجئے! قبول کی جائے گی!‘‘-

 

اس لئے قیامت کا دن بھی آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی عظمت و شان کے اظہار کا دن ہوگا  جیسا کہ اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا خاں بریلوی صاحب (﷫)فرماتے ہیں:

فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزم محشر کا
کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے

دادو(سندھ)            12-02-2018

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی کی بھی اتباع کیلئے محبت شرطِ اول ہے اور ویسے بھی قاعدہ بیان کیا جاتا ہے  کہ:

’’المحب لمن یحب مطیع‘‘،’’محب محبوب کا مطیع ہوتا ہے‘‘

 یعنی محب محبوب کی پیروی کو اختیار کرتا ہے اور محبت ادب کو مستلزم ہےکیونکہ ادب آتا ہی تب ہے جب مقام کی معرفت ہو- آدمی اپنے والد، استاد اور مرشد کا احترام کو اسی وقت خاطر میں لاتا ہے جب وہ  ان کے مقام مرتبے کی معرفت رکھتا ہے- اسی طرح امتی اپنے آقا و مولیٰ حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ناموسِ اطہر کی خاطر سب کچھ بلکہ جان تک قربان بھی اس لئے کرتا ہے کیونکہ آپ (ﷺ)کی ذات اقدس کو اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں جس شرف اور بزرگی سے نوازا ہے وہ ہم سب کے سامنے بالکل عیاں ہے-جیسا کہ اللہ پاک حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا:

’’لو لاک لما خلقت الافلاک‘‘[13]

’’(اے محبوب کریم (ﷺ)!) اگر آپ  نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا بھی نہ کرتا‘‘-

لاڑکانہ(سندھ)                     13-02-2018

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

کسی بھی چیز کے عروج و زوال کا جائزہ لینا ہو تو اس کے عمل اور کردار سے لیا جا سکتا ہے کہ اس کا سفر اب عروج کی طرف ہے یا زوال کی طرف اور اس امت کے عروج کے اسباب کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں ذکر فرمایا:

’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْ مُرُوْنَ بِاالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْ مِنُوْنَ بِاللّٰہِ‘‘[14]

’’اے میرے پیارے محبوب (ﷺ)کے اُمتیو! تم بہترین اُمت (جماعت) ہو کہ لوگوں کیلئے نکالے گئے ہو لوگوں کو معرفت الٰہی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو‘‘-

گویا میدانِ عمل میں اپنے عمل  اور کردار سے لوگوں کو  بھلائی  اور خیر و امن کی طرف بلاتے ہو اور نفرت و عداوت سے منع کرتے ہو تو اس سے ثابت ہوا کہ زوال  یہ ہے کہ پہلے آدمی خود عمل سے عاری ہونا اور پھر ’’امر بالمعرف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘کا فریضہ بھی سر انجام نہ دے-بقول علامہ اقبال (﷫):

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
 یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری

اسی کی مزید وضاحت میں اقبال فرماتے ہیں کہ:

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی یا خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کے تقدیر کا بہانہ

کراچی                 2018-03-04      نشتر پارک

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

یہ امت جس درد و کرب سے گزر رہی ہے اس کو ہر عقلمند اور ذی شعور جانتا بھی ہے اور محسوس بھی کرتا ہےکہ  ہر طرف ظلم و ستم اور افراتفری کا دور دورہ ہے اور یہ دراصل دین سے دوری اور دین کی درست تفہیم نہ ہونہ ہونے  کا نتیجہ ہے- اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسانیت کی ہدایت کا بندو بست فرمایا اور اپنے نیک صالحین اور ذاکر میں کی مجلس اور صحبت کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے برگزیدہ بندوں کی دعا حاصل کرنے کا حکم فرمایا-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ‘‘[15]

’’اے میرے رب! بے شک تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کے علم سے نوازا، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی)-مجھے حالت اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو بھی فرمایا کہ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ ٹھہرا کے رکھو جو اپنے رب کو صبح و شام یاد کرتے ہیں اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں :

’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ‘‘[16]

’’اور اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ شامل کر لو جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی ذکر کرتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اُن کو اپنے رب کی ملاقات نصیب ہو‘‘-

اس امت کا شرف یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ آقاکریم (ﷺ) محبوب  ہیں مگر پھر بھی اپنی امت سے محبت فرماتے ہیں اور ان کے احوال کی خبر رکھتے ہیں-اسی طرح اس امت کو بھی قرآن کریم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہی تربیت عطا کی کہ اگر تم اپنی جانوں پہ ظلم کر بیٹھو تو پھر تمہارے لئے معافی کا طریق یہی ہے  کہ تم میرے حبیب مکرم (ﷺ) کے درِ اقدس پہ حاضر ہوکر اپنے پروردگار کی بارگاہ اقدس میں معافی طلب کرو اور اگر میرا حبیب (ﷺ) بھی سفارش فرمائے تو اپنے رب کو مہربان اور توبہ قبول کرنے والا پاؤ گے- طریقِ صحابہ کرام (﷢)سے کئی ایسے واقعات موجود ہیں کہ انہوں نے آقا پاک (ﷺ)   کی بارگاہ اقدس میں بعد از وصال مبارک بھی اپنی مغفرت اور بخشش کا سامان پیدا کیا-

’’ایک مرتبہ حضور نبی کرم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں ایک اعرابی حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ (ﷺ):

’’و قد ظلمت نفسی و جئتک استغفر اللہ من ذنبی فاستغفر لی من ربی فنودی من قبرہ قد غفرلک‘‘[17]

اور میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میں خدمت اقدس میں حاضر ہوں میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں آپ (ﷺ)میرے لئے اپنے ر ب سےدعا کیجئےتو حضور اکرم (ﷺ) کی قبر مبارک سے آواز آئی کے بےشک تجھے بخش دیا گیا‘‘-

جیسا کہ  حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

نال شفاعت سرورِ عالم چھٹسی عالم سارا ھو

٭٭٭


[1](البقرۃ:253)

[2](الشرح:4)

[3](موطا امام مالک، باب النھی عن القول بالقدر)

[4](کشف الخفاء ومزیل الالباس، ج:1، ص:237)

[5](المائدہ:15)

[6](الملک:1)

[7](الکوثر:1)

[8](الانبیاء:105)

[9](البقرۃ:260)

[10](الاعلیٰ:14-15)

[11](الرعد:28)

[12](صحیح مسلم، کتاب الایمان)

[13](روح المعانی، ج:13، ص:129)

[14](آلِ عمران: 110)

[15](الیوسف:101)

[16](الکہف:28)

[17](مدارك التنزيل وحقائق التأويل)

تاریخ اس بات کی گواہ  ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی انسانی معاشرے میں خرابی یا بگاڑ واقع ہوا اور خیر کی جگہ شر نے لی اور نیکی کی بجائے انسانوں نے برائی کے راستے کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے بدستور طریق اس خرابی اور بگاڑ کو رفع کرنے اور معاشرے کی اصلاح فرمانے کے لئے اپنے ایسے مخصوص بندوں کو اس دنیا میں جلوہ افروزفرمایا کہ جنہوں نے انسان کے ظاہری و باطنی، عقائد و طریق عبادت کے مسائل کو رفع فرمایا-ان کا خاصہ یہ تھا کہ انہوں نے دین متین  کی خدمت کو اولین ترجیح دی اور ان کی تمام عمر کا سرمایہ حیات خدا خوفی، صبر، توکل، تقویٰ، ذکر، فکر، محاسبہ، تزکیہ، تصفیہ، اخلاق و اخلاص، امانت و دیانت اور کلمۂ حق تھا-خاتم الانبیاء آقا کریم (ﷺ)کی پاکیزہ تعلیمات کا پرچار ان کی زندگی کا مشن و مقصد تھا اوریہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے مسلمانوں کے روحانی استحکام کی باگ تھامے رکھی، دنیا کے مختلف دیگر خطوں کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی دین اسلام کے ابلاغ و تبلیغ کا مقدس سہرا انہیں کے سر جاتا ہے جن کے علم و عمل، روحانی استخلاص اور بصیرت و فراست کے نتیجے میں یہاں کے چپہ چپہ پر اسلام کا نور پھیلا ہے-یہ بھی ان  ہی کی اَن تھک محنت، محبت اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے باعث لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے-یہی وہ لوگ تھے جن کی خانقاہوں، جن کی معیت اور صحبت میں بیٹھنے والے احباب بڑے بڑے سرداروں کو خاطر میں نہ لاتے تھے-مساوات اور انسانی اقدار کا اس قدر پاس تھا کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے- اسلام کے اس عالمگیر پیغام سے انسانیت کو روشناس کرانےاور اسلام کی عالمگیریت اور ابدی مسیحاہوں کو انسان کے ذہن و قلب اور فکر میں واضح کرنے کیلئے جو کارنامے صوفیائے کرام نے انجام دیئے اور آقا دوجہاں (ﷺ) کی سنت کے مطابق عمل نمونہ پیش کرنے کی جو تکنیک انہوں نے اپنائی وہ اپنی مثال آپ ہے-انہوں نے انسانی اقدار کو برقرار رکھنے کیلئے اور اس کے شرف اور بزرگی کو استقامت عطا کرنے کیلئے انسان کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کی اصلاح کا عمل ہمیشہ سے جاری و ساری رکھا تاکہ یہ اپنی عظمت و شرف اور قدر و منزلت کو برقرار رکھ سکے-اس مشن کی تکمیل کیلئے آج آپ دیکھیں کے اِس مادہ پرور دور میں سلطان الفقر ششم حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہٗ کی تشکیل کی گئی جماعت ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جوسُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ سےاِسی پیغامِ اِنسانیت و پیغامِ امن کو لے کر چلی ہے -

آپ قدس اللہ سرّہٗ کی دینی و روحانی شان و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپ نے ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے پلیٹ فارم کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی وسعت و عالمگیریت عطا فرمائی ہے کہ اس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیرتمام مکاتبِ فکر،تمام مذاہبِ عالَم کے لوگ سنتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ واقعتاً یہی وہ جماعت ہے جو قرآن و سُنّت کی صحیح ترجمان اور تعلیماتِ اَسلاف و اکابر کی حقیقی مُبلّغ ہے جس کا اَوّل و آخر مقصدِ انسانیت کی فلاح و بقا اور ظاہری و باطنی پاکیزگی ہے -

اسی طرح آج بھی آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی اسی فکر کو عامۃ الناس کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لئے ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘کے زیرِ اہتمام جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)، سرپرستِ اعلی ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی قیادت میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر محسنِ انسانیت فخرِ موجودات (ﷺ) کے اسمِ گرامی سے منسوب محافل میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کانفرنسز (Conferences)کے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں-


یہ اجتماعات روایتی طریق کار کی طرح نہیں ہوتے بلکہ نہایت ہی منظّم اور بامقصد طریقے سے ہوتے ہیں-ہر پروگرام کی ترتیب اس طرح سے ہوتی ہے کہ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے-خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے، صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت الحاج محمد نواز القادری صاحب خطاب کرتے ہیں-پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت ہونے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-

امسال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کے آخری راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-

سعید آباد )کراچی(                  06-02-2018     

ایم کے خانہ کمپاؤنڈ

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے اوپر حضرت انسان کو فوقیت و بزرگی عطا کی اور تمام انسانیت میں انبیاء کرام علیہ السلام کی جماعت میں آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کو امتیازی شان و مقام سے نوازا-جیسا کہ  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍم مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰـہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ‘‘[1]

’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم(ﷺ) کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی) اور ہم نے مریم کے فرزند عیسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی‘‘-

اسی طرح حضور رسالت مآب (ﷺ) کے ذکر مبارک کی رفعت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘[2]

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘-

اس آیت مبارکہ میں جہاں پر آپ (ﷺ) کے ذکر مبارک کی فضیلت کو ظاہر فرمایا وہیں پر امت کا شرف بھی مخفی اور پوشیدہ فرما کر امت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا گیا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو حضورپاک (ﷺ)کی غلامی میں رہ کر نبھائیں جس میں ہماری فلاح وبقا ہے-

مینارہ مسجد)کراچی(     07-02-2018     

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب


’’جب ہم حضور رسالت مآب (ﷺ) کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کی روشنی میں غور و فکر کرتے ہیں تو پھر اس سے ہمیں ہدایت کا وہ طریق نصیب ہوتا ہے جس میں دارین کی فلاح کا راز مخفی نظر آتا ہے -

حضورنبی کریم (ﷺ)کا ارشاد گرامی ہے:

’’انی ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنۃ نبیہ‘‘[3]

’’بے شک میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو تھا مے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے ‘‘-

کتاب اللہ اور سنت رسول (ﷺ) یعنی آپ (ﷺ)کی پیروی اور غلامی اور طریق مبارک اور آپ (ﷺ)نے قرآن و سنت کی روشی میں ہمیں وہ طریق عطا فرمایا جس کو پکڑنے سے ہم کامل کامیابی کو حاصل کرتے ہیں وگرنہ قرآن کریم سے ہر ایک ہدایت کے طریق کامل کو  حاصل نہیں کرسکتا-ضروری ہے کہ قرآن کریم کو فقط زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں تک لے جایا جائے-

اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو قرآن کریم اور سنتِ نبوی(ﷺ)کے سانچے میں ڈھال دیں اور یہی طریق ہمیں اولیاء کاملین اور صوفیاء کرام کی سنگت اور معیت سے نصیب ہوتا ہے-

ٹھٹھہ )سندھ(                       08-02-2018

صدارت و خطاب:مولانا مفتی محمد منظور حسین صاحب

اولیاء کاملین درحقیقت قرآن و سنت کے عمل طریق کو اپناکر ہمارے لئے ظاہری وباطنی تربیت کا سامان میسر کرتے ہیں-جس سے انسان کو اپنے مالک حقیقی کے قرب اور بندگی کا وہ بنیادی پیغام ملتا ہے جس کو اپنا کر ہم اپنی درست سمت کو متعین کر سکتے ہیں-اسی طرح اس علم اور طریق کو صحابہ کرام (﷢)نے بھی اپنی زندگیوں میں نافذ کیا جیسا کہ ملاعلی القاری ’’شرح فقہ اکبر‘‘ میں حضرت علی (﷜)کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:

دنیا میں تین طرح کے طبقے ہیں جو عمل کرتے ہیں مگر حقیقی ثمر کو کون پا سکتا ہے :

1.