ایسی تقریبات جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے نامِ گرامی سے منسوب ہوتی ہیں اس میں آدمی نہ تو کسی دنیاوی غرض سے جاتا ہے، نہ ہی آدمی کا کوئی مادی،معاشی، اقتصادی مفاد وابستہ ہوتا ہے بلکہ وہ اطراف و اکناف کے سفر کی مشکلات کو برداشت کر کے صرف و صرف اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت اور رضا و خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے جاتا ہے -اس لئے ایسی تقریبات کے انعقاد کا بنیادی مقصد و فلسفہ ہی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت و اطاعت کو فروغ دیا جائے-
آدمی جو سال بھر اپنی زندگی گزارنے کی کاوشوں میں لگا رہتا ہے تو وہ چند لمحات نکال کر اس پیغام کو اس دین کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جس نے اس مخلوق کو رحمت، امن اور اعتدال سکھایا ہے اور اس مخلوق کو یہ سکھایا ہے کہ باہمی محبت کیسے کی جاتی ہے-کیونکہ انسانوں کا کام ایک دوسرے کی دلجوئی کرنا ہے، ایک دوسرے کے آنسوں پونچھنا ہے، ایک دوسرے کے چہروں پر مُسکراہٹ اور تبسُّم کو بکھیرنا ہے اور ایک دوسرے کے غم میں ایک دوسرے کےساتھی اور شریک بننا ہے-
اس لئےجب ہم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت، رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے نکلتے ہیں توہمارے پیش نظر اس کا سب سے بڑا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ ہم اس محبت کوصحیح طریقے سے حاصل کر کے اپنے وجود میں جذب کریں اور نہ صرف اس کو اپنے کلام کا حصہ بنائیں بلکہ ہمارے کردار اور عمل سے اس کا عکس نظر آنا چاہیے-جب لوگ ایسی تقریبات میں جاتے ہیں ان میں کوئی شخص جس مرضی مذہب یا فکر سے تعلق رکھتا ہو جب وہ کسی بھی ایسی محفل سے واپس جاتا ہے تو وہ لوگ جو دین کی جانب اس قدر رغبت و جھکاؤ نہیں رکھتے وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ تو دین سیکھنے گئے تھے تو آپ کے پیغام نے آپ کے وجود میں کتنی تبدیلی پیدا کی ہے-کیونکہ لوگ آپ کے وجود میں اس پیغام کی عملی شکل کو دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہیں- اس لئے آقا کریم (ﷺ) کے ایک سچے امتی، محب اور عاشق کے طور پر ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم جو بھی حق اور خیر سنیں تو اس کو اپنے وجود پر نافذ کریں-کیونکہ دین کے ساتھ ہمارا جو رشتہ ہے وہ محض چوری کھانے والے مجنوں والا نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس طوطے کی طرح ہونا چاہیےکہ جس کو ایک بات رَٹا دی جائے تو وہ اسی کی رَٹ لگائے رکھتا ہے-باتیں تو طوطے اور بے زبان پرندے بھی سمجھ جاتے ہیں لیکن انسان کا امتیاز اور شرف یہ ہے کہ اس کے علم نے، اس کے شعور اور آگاہی میں جو بھی خیر بخشا ہے وہ اس کو اپنی زبان سے نکال کر اپنے وجود کے اوپر نافذ کرے-
میرے بھائیو اور ساتھیو! اس وقت دنیا میں مال و دولت، روپے و پیسے، ڈالر اور یورو، دینار اور درہم کی بہتات اور فروانی کے باوجود کوئی ایسا کلیہ ایجاد نہیں ہو سکا کہ انسان اپنی دولت کی فروانی کے عوض اپنی عزت کو خرید سکے-انسا ن کا شرف اس کی دولت، شہرت اور کمال سے اس طریقے سے نہیں بنتا جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے انسان کو عطا ہوا ہے- آقا کریم (ﷺ) کے کردار مبارک میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام اعلیٰ و ارفع انسانی صفات کو جمع کر کے آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کو ان تمام اعلیٰ صفات کا مظہر بنا دیا جو کہ انسان کا شرف، عزت اور عظمت کو بڑھانے کا ہنر اور ڈھنگ سکھاتی ہیں-
آپ کسی بھی جگہ چلے جائیں آپ کو اس مقام کے مطابق، اس شعبہ سے متعلق اس کا شرف سکھایا جائے گا-آپ والدین ،بڑوں اور بزرگوں کی مجلس میں بیٹھیں وہ آپ کو والدین، بڑوں اور بزرگوں کا شرف سکھائیں گے-آپ کسی بھی سکول، کالج، مکتب، جامعہ، یونیورسٹی میں جائیں وہاں آپ کو استاذ کا شرف سکھائیں گے، اسی طرح آپ کسی بھی آستانہ، خانقاہ، کسی نیک روح، کسی اللہ والے کے پاس بیٹھ جائیں وہ آپ کو مرشد و پیر کا شرف سکھائیں گے- آپ اہل علم اور اہل سخن کے پاس چلے جائیں وہ آپ کو اہل سخن، شاعر اور ادیب کا شرف سکھائیں گے- آپ عدالت میں چلے جائیں، آپ کو کتب قانون میں اور آپ کا جو بنا ہوا سسٹم ہے جس میں آداب تشکیل دیے گئے ہیں ان کے مطابق آپ کو کمرہ عدالت اور جج کا شرف سکھایا جاتا ہے- آپ مسجد یا ایسی کسی درس گاہ میں چلے جائیں آپ کو امام اور خطیب کا شرف بتایا جاتا ہے- آپ کسی لائبریری یا مرکز تحقیقات میں چلے جائیں وہاں آپ کو محقق کا شرف سکھایا جاتا ہے-اسی طرح آپ کسی بھی فزکس، کیمسٹری، بیالوجی یا کسی بھی سائنٹفک لیبارٹری میں چلے جائیں وہاں آپ کو سائنس دان کا شرف بتایا جاتا ہے- آپ کسی سربراہِ مملکت کی تقریب میں یا اس کو ملنےکے لئے تشریف لے جائیں تو آپ کو اس مملکت کا شرف اور اس کے آداب سکھائے جاتے ہیں- آپ کو اپنے نصاب میں سپاہی و مجاہد کا شرف سکھایا جاتا ہے- دیگر جو سرکاری ملازم ہیں جن کا کام حکومت کے عہدے کو قائم کر کے گورنمنٹ کے پورے نظام کو چلانا ہوتا ہے آپ کو ان کا شرف سکھایا جاتا ہے، اسی طرح سفیر کا شرف آپ کو سکھایا جاتا ہے غرضیکہ آپ دنیا کے کسی بھی شعبہ میں چلے جائیں اس کے آداب مقرر ہیں آپ کو ان کاشرف بتایا اور سکھایا جاتا ہے-
لیکن افسوس!ایسی درس گاہیں اور ایسے اساتذہ نایاب ہوگئے ہیں جو یہ پڑھا، سکھا اور سمجھا سکیں کہ بھلے کوئی محقق ہے،شاعر یا ادیب ہے، کوئی سربراہِ مملکت،سفیر، خطیب، استاذ، شیخ یا والدین میں سے ہے اس کابنیادی تعلق توطبقۂ انسانی کے ساتھ ہے لہٰذا بُنیادی احترام آدمیّت کا ہے، دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ شرفِ انسانی سکھانے اور بتانے والے مکتب نایاب ہوگئے ہیں-جہاں پر انسان کی عزت و عظمت سکھائی جائے، جہاں یہ بتایا جائے کہ سربراہِ مملکت کا ادب و شرف، کسی امام کی امامت کا شرف، کسی سفیر کی سفارت کا شرف، کسی محقق کی تحقیق کا شرف اپنی جگہ لیکن ان تمام کے درمیان جو احترام کی قدرِ مشترک ہے وہ ان کا شرف انسانی ہے -
اس لئے گھوم پھر کر، ادھر سے ادھر، وہا ں سے یہاں، اگر مجھے انسانیت کےشرف کی تدریس و تلقین کہیں سے ملتی ہے تو وہ اللہ کی پاک کتاب سے ملتی ہے-کیونکہ انسان ہونا وہ عظیم ترین شرف ہے جس کا شرف اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری اور پاک کتاب میں بیان فرمایا ہے-انسان کس قبیلے، نسل، خطے اور رنگ سے تعلق رکھتا ہے یہ سب باتیں تو بعد میں آتی ہیں بلکہ اللہ رب العزت نے انسان کا اولین امتیاز یہ رکھا ہے اللہ نے انسان کو تاج کرامت عطا فرما دیا ہے- سوال کیا جاتا ہے کہ انسان کی عزت کی وجہ اور سبب کیا ہے؟ کسی کی عزت کے ہونے کیلئے پہلا حوالہ اتنا ہی کافی ہے کہ وہ طبقۂ انسانیہ سے تعلق رکھتا ہے-شرف کے باقی مدارج و منازل بعد میں آتے ہیں لیکن پہلا شرف تو یہیں سے پیدا ہو جاتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں پیدا فرمایا-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ وَ حَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيْرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا‘‘[1]
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا‘‘-
آپ سے یہ فضیلت کوئی چھین سکتا ہے نہ غصب کر سکتا ہے - جس طرح دنیا کا قانون ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکیومنٹ میرے پاس محفوظ ہے اس لئے کسی کو میرا یہ حق لینے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ حق مجھے فلاں عدالت نے دیا ہے- اسی طرح یاد رکھیں! کہ آپ جس بھی طبقۂ فکر سے تعلق رکھتے ہوں آپ کی فضیلت کو پیدا کرنے والے نے ہی مقرر کر دیا ہے اس لئے آپ سے کوئی شرف انسانی کی فضیلت چھین نہیں سکتا-اس لئے کسی کی جرأت و طاقت نہیں ہے کہ ہم سے ہماری یہ عزت چھین سکے جو ہمیں ہمارے پیدا کرنے والے نے عطا کی ہے -
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے انسان کے شرف و تکریم کی درجن بھر اَشیأ بیان فرمائی ہیں:
1. بِحُسْنِ الصُّوْرَةِ عمدہ صورت
2. وَ الْمِزَاجِ الْعَدْلِ مزاج میں عدل
3. وَاِعْتِدَالِ الْقَامَةِ قامت میں اعتدال
4. وَ التَّمَيُّزِ بِالْعَقْلِ عقل کا اِمتیاز
5. وَ الْاِفْهَامِ بِالنُّطْقِ وَ الْاِشَارَةِ وَ الْخَطِّ بولنے، اشارہ کرنے اور لکھنے کی صلاحیت
6. وَ التَّهَدِىِّ إِلَى اَسْبَابِ الْمَعَاشِ وَ الْمَعَادِ اسبابِ معاش و معاد کی طرف ہدایت
7. وَ التَّسَلُّطِ عَلَى مَا فِى الْأَرْضِ زمین پر پیدا ہونے والی ہر چیز پر تسلط
8. بِاَنْ سَخَّرَ لَهُمْ سَائِرَ الْأَشْيَاءِ تمام اشیاء ان کے لئے مسخر کر کے
9. وَ الْتَّمَكُّنِ مِنَ الصَّنَاعَاتِ صنعتوں پر قدرت
10. وَ اِتِّسَاقِ الْأَسْبَابِ اسباب کے استعمال پر قدرت
11. وَ اَنْ يَّتَنَاوَلَ الطَّعَامَ بِيَدِهٖ إِلَى فِيْهِ بِخِلَافِ سَائِرِ الْحَيْوَانَاتِ اور جانور کے برعکس حضرت انسان اپنی خوراک ہاتھ سے اٹھا کر منہ کی طرف لے جانے سے اسے فضیلت بخشی
12. وَالْعِشْقِ وَالْمَعْرِفَةِ وَ الْوَحْىِ وَ مَرَاتِبِ الْقُرْبِ مِنَ اللّٰهِ تَعَالٰى اور عشق، معرفت، وحی(جو انبیاء کے ساتھ خاص ہے) اور اللہ تعالیٰ کی طرف مراتب قرب عطا کرنے سے تکریم بخشی
اب اِن میں سے ہر ایک شرف کو مختصر الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :
پہلا شرف؛
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کا جو ظاہری وجود بنایا ہے اس کو عمدہ صورت سے نوازا ہے، اِس کے نقوش میں حُسن و زیبائی کی توفیر فرمائی ہے- اِس کی صُورت کو اتنا جمال بخشا ہے ، اتنا جمال بخشا ہے کہ یہ جمالِ انسانی کی لذّتوں سے سرشار رہنا چاہتا ہے، ازل کے دن کیا گیا وعدہ ان عارضی لذتوں کے پیچھے بھلا بیٹھتا ہے جو ہم نے اس کی صورت میں رکھ دی ہیں-صُورتِ انسانی کا سب سے بڑا عاشق انسان خود ہے، اقبال نے اپنی ایک رُباعی میں ایک بڑا ہی عجیب اور انوکھا فلسفہ بیان کیا ہے کہ انسان ماسویٰ اللہ کو پوجنے کا جو شرک کرتا ہے اُس کے پیچھے بھی انسانی حُسن کی کشش کار فرما ہے-اقبال فرماتے ہیں :
تراشیدم صنم بر صُورتِ خویش |
’’میں بُت کو اپنی صورت پر تراشتا ہوں، میں اپنا معبود اپنی ہی صورت پر بناتا ہوں-میرے لئے اپنے آپ سے باہر نکلنا محال ہے، ہر رنگ میں اپنی ہی پرستش کرتا ہوں‘‘-
اِس کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسان بھٹکا اور بھٹکنے کے باوجود بھی خدا کی ضرورت کو محسوس کرتا رہا تو اِس نے دُنیا میں نظر گھمائی کہ میرا خدا کس طرح کا ہونا چاہیے (معاذ اللہ) تو اِس نے اپنی انسانی صورت کے صنم تراش کر کہا کہ یہ میرا خدا ہے (العیاذ باللہ)-اقبال یہ تبصرہ کرکے رباعی کے دوسرے حصے میں کہتے ہیں کہ انسان کو(اپنے حُسن و زیبائی کی کثرت و مقدارِ وافر کی وجہ سے) اپنے آپ سے نکلنا محال ہے، یہ جہاں بھی ہے اپنا پرستار ضرور رہتا ہے-اگر انسان گمراہی اور خود پرستاری کا شکار نہ ہو تو یہی حُسن اس کی کمزوری نہیں بلکہ اِس کی طاقت ہے-
دوسرا شرف؛
انسان کے مزاج کو اعتدال سے مزیّن فرمایا ہے- اِس میں کئی مخلوقات کی صفات کو یکجا کر دیا ہے ، اس میں ملائک کی طرح نُور بھی ہے اور جنات کی طرح نار بھی ، خاک سے جڑا ہوا بھی ہے اور ہوا کے جوہر کی وجہ سے خاک سے آزاد بھی(خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند)- اِس میں آتش کا جوہر اِس کے آبی جوہر کی وجہ سے نہ تو شُعلے اگلتا ہے نہ ہی اسے سرد ہونے دیتا ہے (جب سرد ہوا تو پھر گیا)-گویا اِس کے جلال میں جمال بھی پنہاں کر دیا اور اِ س کے زوال میں کمال کے اسباب کو ختم نہیں کیا-
تیسرا شرف؛
اِس کی قامت میں بھی اعتدال ہے نہ زائد نہ کم بلکہ مُعتدل-بعض ایسے حشرات الارض ہیں کہ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے جسم پر رینگ رہے ہیں اس کے بر عکس آپ ڈانئا سار یا زرافہ کو دیکھیں بہت عظیم الجثہ جانور پیدا کیے- اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بلند پہاڑوں اور جانوروں کی طرح بہت عظیم الجُثّہ بھی نہیں بنایا اور نہ ہی حشرات الارض کی طرح بہت چھوٹا بلکہ مزاج کی طرح اس کی قامت کو بھی اعتدال پر پیدا فرمایا ہے-
چوتھا شرف؛
اِس کو عقل کا امتیاز عطا فرمایا اور اس کی عقل میں تمیز پیدا فرمائی کہ یہ اپنی عقل کے ذریعے چیزوں میں حق اور باطل، خیر اور شر، رات و دن، ظلمت اور نور ، درست اور غلط، سزا اور گناہ میں تمیز کرسکتا ہے جو کہ زمین پہ رہنے والی دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو اضافی طور پہ عطا کی گئی ہے جس سے یہ دیگر مخلوقات میں ایک بُلند مقام حاصل کر لیتا ہےجیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَجَعَلْنٰہٗ سَمِیْعًا بَصِیْرًا‘‘[3]’’ پس اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا ‘‘-
پانچواں شرف:
اسے بولنے،اشارہ کرنے اور لکھنے کی صلاحیت عطا کی جس کے ذریعے یہ اپنا ابلاغ و بیان کرسکتاہے-بولنا ایک عظیم ترین صلاحیت ہے لیکن آپ کبھی سوچیں کہ انسان بولنا سیکھا کیسے؟ یہ موضوع ضرور پڑھنا چاہئے بڑا کمال کا ہے، اہلِ سُخن تو جانتے ہیں لیکن ہمارے عمومی طور پہ نوجوان ان موضوعات سے شوق و شغف نہیں رکھتے-کبھی اس بات کو پڑھیں اور سوچیں کہ لفظ کیسے ایجاد ہوئے؟ انسانوں نے لفظوں کو استعمال کرنا کیسے سیکھا؟ کیسے کیسے مختلف زبانیں اور بولیاں ایجاد ہوئیں؟ چیزوں کے نام کیسے رکھے گئے؟ جانوروں، پرندوں، پھولوں، پھلوں، سبزیوں، رنگوں اور دیگر ایسی اشیا کو انسان نے کیسے ایک دوسرے سے الگ کرکے شناخت کرنے کیلئے الگ الگ زبانوں میں الگ الگ نام دیئے؟ پھر زبانوں کی کثیر تعداد پہ غور کریں، زبانوں کے کثیر ذخیرۂ الفاظ اور گرائمر اور اصولوں پہ غور کریں کہ بولنے کی صلاحیّت کتنی قُوّت اور کتنی وافر مقدار میں انسان کو ودیعت کی گئی ہے-یہ انسان کا عظیم ترین شرف ہے جو اس کے خالق نے اسے عطا فرمایا ہے-
انسان بول کر کلام کر کے اپنا ضمیر بیان کر سکتا ہے- اس کے برعکس اگر کوئی گونگا ہے جو بول یا کلام نہیں کرسکتا اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا کی ہے کہ وہ اپنے اعضائے جسم سے، اپنی پلکوں کے اشارہ سے، اپنے رُخسار اور لبوں، زبان اور ہاتھوں کے اشارہ سے وہ اپنی بات کا ابلاغ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-اب یہ بات ایک سائنس کے طالب علم کیلئے سمجھنی مشکل نہیں ہے-سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کا سخت ترین بیماری کے باوجود سائنسی دریافتوں میں کامیاب ہونا دور حاضر میں خدا کی قدرت کا عظیم ترین کرشمہ ہے اور ناچیز یہ بات اِس حقیقت کو جاننے کے باوجود کَہ رہا ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ خود وجودِ باری تعالیٰ کا مُنکر ہے؛ خدا کی مخلوق کو سمجھنے کے لئے عظیم ترین مثال سٹیفن ہاکنگ کی لی جا سکتی ہے-وہ پہلے ٹھیک تھا پھر بعد میں گرا، چوٹ لگی جس سے اس کی دماغی صلاحیت تو بہت تیز ہو گئی لیکن اس کا پورا جسم معذور ہوگیا-لیکن اس کی خوش نصیبی کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اس کے دماغ کا جائزہ لیا تو وہ بہت ایڈوانس تھا-سائنس کی جدید فزکس میں بلیک ہولز، ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ اور سپیس کے اوپر سٹیفن ہاکنگ کی عظیم ترین ریسرچ ہے-انہوں نے اس کے دماغ کا جائزہ لیا اور کہا کہ یہ آدمی ضائع کرنے کا نہیں ہے بے شک اب اس میں بولنے کی سکت ختم ہوگئی ہے، یہ اپنے وجود کو ہلا نہیں سکتا-انہوں نے ایک سنسر ایجاد کیا جو سنسر اس کے دماغ کے ذریعے اس کی آنکھوں کی پتلیوں سے لے کر اس کے رخساروں تک کے جو سگنل آتے ہیں وہ وصول کرتا ہے اس کی آنکھوں کی پتلیوں کے نیچے سے اس سگنل کے ذریعے جو لفظ یا حرف معلوم کیا جاتا ہے اس کو کمپیوٹر کے ذریعے ان تمام حروف کو اکٹھا کر کے الفاظ کا ابلاغ کرتا ہے-وہ اپنی زبان سے نہیں بول سکتا لیکن جب کیمبرج یونیورسٹی میں سٹیفن ہاکنگ کا لیکچر ہوتا ہے تو ہزاروں کرسیوں کا ہال بھرا ہوتا ہے؛ لوگ منت سماجت کرکے مہنگی ٹکٹیں خریدکر اس کا لیکچر سننے جاتے ہیں- یہ شخص بول نہیں سکتا لیکن اس کے رخسار اور آنکھوں کی پتلیوں میں سنسر لگا کر اس کے دماغ کا انہوں نے ابلاغ کردیا ہے-گویا وہ بات جو قاضی ثنااللہ پانی پتی فرما رہے ہیں کہ بولنا بھی اس کا شرف ہے اور اشاروں کی زُبان سمجھنا بھی اس کا شرف ہے کہ اگر انسان زبان سے کلام نہ کرسکے تو وہ اپنی آنکھوں کے پتلیوں کے اشاروں سے اپنی بات اور کلام کا ابلاغ کرسکتا ہے-
پھر انسان کو تحریر کرنےکی صلاحیت عطا کی-آج آقا کریم (ﷺ) کو اس دنیا فانی سے ظاہری پردہ فرمائے ہوئےکم و بیش 14 صدیاں بیت گئیں-آقا کریم (ﷺ) کے چہرہ انور کی زیارت نہیں کی، آقا کریم (ﷺ)کے رخسار، لبوں، آنکھوں اور زلفوں مبارک کی زیارت نہیں کی، آقا کریم (ﷺ) کا کلام مبارک نہیں سنا لیکن اگر آپ کسی عالم سے پوچھیں تو وہ کہے گا میں آپ کو آقا کریم (ﷺ) کی آنکھیں مبارک بھی بتاسکتاہوں، لب مبارک بھی بتا سکتا ہوں، زلفیں مبارک بھی بتا سکتا ہوں، رخسار مبارک بھی بتا سکتا ہوں، آقا کریم (ﷺ) کا کلام بھی بتا سکتا ہوں اس لئے کہ ان لوگوں نے اس کلام مبارک کو محفوظ کرلیا جن کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی تھی-اس لئے یہ لکھنے کی صلاحیت بھی شرفِ انسانی پر دلالت کرتی ہے-میں نے تاریخ کے ان عظیم فلاسفہ، حکماء، سائنس دانوں کونہ دیکھا نہ سنا لیکن جن لوگوں نے ان کو لکھ کر مجھ تک پہنچایا ہے ان کو اللہ نے یہ شرف عطا کیا تھا کہ ان کو لکھنے کی صلاحیت دے دی کہ وہ صدیوں گزر جانے کے باوجود آج تک تاریخ کے اوراق میں مر نہیں سکے ان کو تاریخ کے اوراق میں اللہ تعالیٰ نے امر کردیا ہے-
چھٹا شرف ؛
انسان کا یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ اپنے اسبابِ معاش و معاد خود پیدا کر لیتا ہے- قدرت نے تو اپنے کارخانے سے صرف کپاس پیدا کی ہےاور اس کے بعد اس کے ٹیکسٹائل متعلقہ جتنی بھی اشیاء ہیں وہ انسانوں نے خود اختراع کرلی ہیں( من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم)-
اِس مقام پہ مجھے حکیم الاُمّت حضرت علامہ اقبالؒ کی پیامِ مشرق والی وہ بہت ہی خیال آفرین نظم بڑی یاد آتی ہے اور دل کے بند دریچوں کو نسیمِ صُبحگاہی کی طرح اپنی ٹھنڈک کی تاثیر سے کھول دیتی ہے جس میں اقبال نے خُدا اور اِنسان کے مابین ایک دلچسپ مکالمہ لکھا ہے-اُس مکالمہ میں بُنیادی طور پہ تو مقصود کچھ اور بیان کرنا ہے مگر اِس موقعہ پہ انسان کے اس شرف کی وضاحت میں بڑی کار آمد رہے گی-انسان بارگاہِ ایزدی میں اپنی روئیدادِ سفر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم |
’’اے پروردگار! تونے رات بنائی تھی (یعنی جو اندھیرے پہ مشتمل تھی )میں نے اُس میں چراغ بنا دیا ‘‘-
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم |
’’تونے تو مٹی پیدا کی تھی میں اُس سے پیالہ بنا لیا‘‘
بیابان و کُہسار و راغ آفریدی |
’’تو نے تو صحرا، پہاڑ اور جنگل تخلیق کئے تھے، مَیں نے ان صحراؤں پہاڑوں اور جنگلوں کو مزید خوش نما کرنے کیلئے ان میں کیاریاں ، پھلواریاں اور باغ بنا لئے ‘‘ -
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم |
’’میں تو وہ ہوں کہ پتھر سے شیشہ بنا لیتا ہوں ‘‘
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم |
’’میں تو وہ ہوں کہ زہر سے بھی تریاق پیدا کر لیتا ہوں ‘‘
اس آخری بات کو اقبال اُردو میں یوں کہتے ہیں (کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی)-بہر حال! مُدّعا یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف عطا کیا ہے کہ یہ معاش و معاد کے اسباب کو ڈھونڈ نکالتا ہے-
میں اس مقام پہ ایک بار پھر آپ کو دعوت دینا چاہوں گا کہ آپ انسانی تہذیب کے ارتقاء کو ضرور پڑھیں آپ کی عقل کو ایسا سرمایہ ملے گا کہ آپ سوچ نہیں سکتے-ایسی خود اعتمادی کہ حیران ہو جائے آدمی، انسان نے کس طرح سبزی کاشت کرنا سیکھی، کیسے سبزی کو کاٹنا سیکھا اور اس کے بیج سے استفادہ کرنا سیکھا؟ کیسے انسان نے مختلف اوزار ایجاد کئے جو اس کی زراعت میں معاونت کرتے تھے؟ کیسے انسان نے دریاؤں سے نہریں نکالنا سیکھا اور کیسے زمین کو سیراب کرنے کے طریقے سیکھے؟ کیسے کپاس سے دھاگہ بنانا سیکھا؟ کیسے دھاگے سے کپڑا بنانا سیکھا؟ کیسے جانوروں کو شکار کرنا سیکھا؟ کیسے آگ سے استفادہ کرنا سیکھا؟ کیسے لباس ایجاد ہوئے؟ کیسے زیور ایجاد ہوئے؟کیسے مکان ایجاد ہوئے؟ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ کےلوگ جو پتوں اور پانی پر گزارا کرتے تھے لیکن انسان نے اپنے معاش کیلئے کیسے کیسے کھانے، لباس، تعلیم، ہتھیار، کھلونے، روشنیاں، ذرائع نقل و حمل، اسباب ایجاد کر لیے ہیں اس لئےانسان نے اپنے معاش کی خاطر یہ تمام تہذیبی سفر جو طے کیا ہے یہ بھی عظمتِ انسانی کے اوپر دلالت کرتا ہے-
ساتواں شرف؛
انسان زمین کی ہر چیز کے اوپر اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے یا کم از کم قائم کر سکنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے-انسان کی پیدائش کے وقت جب ابو البشر علیہ السلام تشریف لائے، ان کے بعد ان کے بیٹوں، پوتوں، پر پوتوں سے جو ان کی نسل در نسل میں مرلوں کے اعتبار سے یہاں پلاٹ تقسیم نہیں ہوتے تھے، ان کی جائیدادیں، جاگیرداریں، مملکتیں، خطے متعین نہ تھے، یہاں سے وہاں، شرق سے غرب، جہاں تک سفر کرنا چاہتے، زمین کو انسانوں کے چلنے پھرنے کیلئے کھلا رکھ دیا گیا تھا، کسی سفری دستاویز کی ضرورت نہ تھی، لیکن انسان نے اپنی قبائلی زندگی کو ایجاد کیا پھر اپنی قبائلی زندگی سے سماجی، سماجی سے شہری، شہری سے ریاستی، ریاستی سے بین الریاستی زندگی کو تشکیل کیا- آج بین الملی زندگی جس کو ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ کہتے ہیں؛ یہ انسان کے تسلط کی ساری تاریخ کو بتاتی ہے کہ کیسے انسان نے ارتقاء کیا، قبیلے بنائے،قبیلوں کی افواج بنائیں، ریاستیں بنائیں، ریاستوں کی افواج بنائیں اور کیسے زمین کے دیگر خزائن پر انسان نے تسلط اختیار کیا ہے- انسان کے تسلط کی یہ تاریخ بھی شرفِ انسانی کا امتیاز بیان کرتی ہے-
(جاری ہے)
٭٭٭
ایسی تقریبات جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے نامِ گرامی سے منسوب ہوتی ہیں اس میں آدمی نہ تو کسی دنیاوی غرض سے جاتا ہے، نہ ہی آدمی کا کوئی مادی،معاشی، اقتصادی مفاد وابستہ ہوتا ہے بلکہ وہ اطراف و اکناف کے سفر کی مشکلات کو برداشت کر کے صرف و صرف اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت اور رضا و خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے جاتا ہے -اس لئے ایسی تقریبات کے انعقاد کا بنیادی مقصد و فلسفہ ہی یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت و اطاعت کو فروغ دیا جائے-
آدمی جو سال بھر اپنی زندگی گزارنے کی کاوشوں میں لگا رہتا ہے تو وہ چند لمحات نکال کر اس پیغام کو اس دین کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جس نے اس مخلوق کو رحمت، امن اور اعتدال سکھایا ہے اور اس مخلوق کو یہ سکھایا ہے کہ باہمی محبت کیسے کی جاتی ہے-کیونکہ انسانوں کا کام ایک دوسرے کی دلجوئی کرنا ہے، ایک دوسرے کے آنسوں پونچھنا ہے، ایک دوسرے کے چہروں پر مُسکراہٹ اور تبسُّم کو بکھیرنا ہے اور ایک دوسرے کے غم میں ایک دوسرے کےساتھی اور شریک بننا ہے-
اس لئےجب ہم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت، رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے نکلتے ہیں توہمارے پیش نظر اس کا سب سے بڑا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ ہم اس محبت کوصحیح طریقے سے حاصل کر کے اپنے وجود میں جذب کریں اور نہ صرف اس کو اپنے کلام کا حصہ بنائیں بلکہ ہمارے کردار اور عمل سے اس کا عکس نظر آنا چاہیے-جب لوگ ایسی تقریبات میں جاتے ہیں ان میں کوئی شخص جس مرضی مذہب یا فکر سے تعلق رکھتا ہو جب وہ کسی بھی ایسی محفل سے واپس جاتا ہے تو وہ لوگ جو دین کی جانب اس قدر رغبت و جھکاؤ نہیں رکھتے وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ تو دین سیکھنے گئے تھے تو آپ کے پیغام نے آپ کے وجود میں کتنی تبدیلی پیدا کی ہے-کیونکہ لوگ آپ کے وجود میں اس پیغام کی عملی شکل کو دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہیں- اس لئے آقا کریم (ﷺ) کے ایک سچے امتی، محب اور عاشق کے طور پر ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم جو بھی حق اور خیر سنیں تو اس کو اپنے وجود پر نافذ کریں-کیونکہ دین کے ساتھ ہمارا جو رشتہ ہے وہ محض چوری کھانے والے مجنوں والا نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس طوطے کی طرح ہونا چاہیےکہ جس کو ایک بات رَٹا دی جائے تو وہ اسی کی رَٹ لگائے رکھتا ہے-باتیں تو طوطے اور بے زبان پرندے بھی سمجھ جاتے ہیں لیکن انسان کا امتیاز اور شرف یہ ہے کہ اس کے علم نے، اس کے شعور اور آگاہی میں جو بھی خیر بخشا ہے وہ اس کو اپنی زبان سے نکال کر اپنے وجود کے اوپر نافذ کرے-
میرے بھائیو اور ساتھیو! اس وقت دنیا میں مال و دولت، روپے و پیسے، ڈالر اور یورو، دینار اور درہم کی بہتات اور فروانی کے باوجود کوئی ایسا کلیہ ایجاد نہیں ہو سکا کہ انسان اپنی دولت کی فروانی کے عوض اپنی عزت کو خرید سکے-انسا ن کا شرف اس کی دولت، شہرت اور کمال سے اس طریقے سے نہیں بنتا جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے انسان کو عطا ہوا ہے- آقا کریم (ﷺ) کے کردار مبارک میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام اعلیٰ و ارفع انسانی صفات کو جمع کر کے آقا کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کو ان تمام اعلیٰ صفات کا مظہر بنا دیا جو کہ انسان کا شرف، عزت اور عظمت کو بڑھانے کا ہنر اور ڈھنگ سکھاتی ہیں-
آپ کسی بھی جگہ چلے جائیں آپ کو اس مقام کے مطابق، اس شعبہ سے متعلق اس کا شرف سکھایا جائے گا-آپ والدین ،بڑوں اور بزرگوں کی مجلس میں بیٹھیں وہ آپ کو والدین، بڑوں اور بزرگوں کا شرف سکھائیں گے-آپ کسی بھی سکول، کالج، مکتب، جامعہ، یونیورسٹی میں جائیں وہاں آپ کو استاذ کا شرف سکھائیں گے، اسی طرح آپ کسی بھی آستانہ، خانقاہ، کسی نیک روح، کسی اللہ والے کے پاس بیٹھ جائیں وہ آپ کو مرشد و پیر کا شرف سکھائیں گے- آپ اہل علم اور اہل سخن کے پاس چلے جائیں وہ آپ کو اہل سخن، شاعر اور ادیب کا شرف سکھائیں گے- آپ عدالت میں چلے جائیں، آپ کو کتب قانون میں اور آپ کا جو بنا ہوا سسٹم ہے جس میں آداب تشکیل دیے گئے ہیں ان کے مطابق آپ کو کمرہ عدالت اور جج کا شرف سکھایا جاتا ہے- آپ مسجد یا ایسی کسی درس گاہ میں چلے جائیں آپ کو امام اور خطیب کا شرف بتایا جاتا ہے- آپ کسی لائبریری یا مرکز تحقیقات میں چلے جائیں وہاں آپ کو محقق کا شرف سکھایا جاتا ہے-اسی طرح آپ کسی بھی فزکس، کیمسٹری، بیالوجی یا کسی بھی سائنٹفک لیبارٹری میں چلے جائیں وہاں آپ کو سائنس دان کا شرف بتایا جاتا ہے- آپ کسی سربراہِ مملکت کی تقریب میں یا اس کو ملنےکے لئے تشریف لے جائیں تو آپ کو اس مملکت کا شرف اور اس کے آداب سکھائے جاتے ہیں- آپ کو اپنے نصاب میں سپاہی و مجاہد کا شرف سکھایا جاتا ہے- دیگر جو سرکاری ملازم ہیں جن کا کام حکومت کے عہدے کو قائم کر کے گورنمنٹ کے پورے نظام کو چلانا ہوتا ہے آپ کو ان کا شرف سکھایا جاتا ہے، اسی طرح سفیر کا شرف آپ کو سکھایا جاتا ہے غرضیکہ آپ دنیا کے کسی بھی شعبہ میں چلے جائیں اس کے آداب مقرر ہیں آپ کو ان کاشرف بتایا اور سکھایا جاتا ہے-
لیکن افسوس!ایسی درس گاہیں اور ایسے اساتذہ نایاب ہوگئے ہیں جو یہ پڑھا، سکھا اور سمجھا سکیں کہ بھلے کوئی محقق ہے،شاعر یا ادیب ہے، کوئی سربراہِ مملکت،سفیر، خطیب، استاذ، شیخ یا والدین میں سے ہے اس کابنیادی تعلق توطبقۂ انسانی کے ساتھ ہے لہٰذا بُنیادی احترام آدمیّت کا ہے، دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ شرفِ انسانی سکھانے اور بتانے والے مکتب نایاب ہوگئے ہیں-جہاں پر انسان کی عزت و عظمت سکھائی جائے، جہاں یہ بتایا جائے کہ سربراہِ مملکت کا ادب و شرف، کسی امام کی امامت کا شرف، کسی سفیر کی سفارت کا شرف، کسی محقق کی تحقیق کا شرف اپنی جگہ لیکن ان تمام کے درمیان جو احترام کی قدرِ مشترک ہے وہ ان کا شرف انسانی ہے -
اس لئے گھوم پھر کر، ادھر سے ادھر، وہا ں سے یہاں، اگر مجھے انسانیت کےشرف کی تدریس و تلقین کہیں سے ملتی ہے تو وہ اللہ کی پاک کتاب سے ملتی ہے-کیونکہ انسان ہونا وہ عظیم ترین شرف ہے جس کا شرف اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری اور پاک کتاب میں بیان فرمایا ہے-انسان کس قبیلے، نسل، خطے اور رنگ سے تعلق رکھتا ہے یہ سب باتیں تو بعد میں آتی ہیں بلکہ اللہ رب العزت نے انسان کا اولین امتیاز یہ رکھا ہے اللہ نے انسان کو تاج کرامت عطا فرما دیا ہے- سوال کیا جاتا ہے کہ انسان کی عزت کی وجہ اور سبب کیا ہے؟ کسی کی عزت کے ہونے کیلئے پہلا حوالہ اتنا ہی کافی ہے کہ وہ طبقۂ انسانیہ سے تعلق رکھتا ہے-شرف کے باقی مدارج و منازل بعد میں آتے ہیں لیکن پہلا شرف تو یہیں سے پیدا ہو جاتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں پیدا فرمایا-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ وَ حَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيْرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا‘‘[1]
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا‘‘-
آپ سے یہ فضیلت کوئی چھین سکتا ہے نہ غصب کر سکتا ہے - جس طرح دنیا کا قانون ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکیومنٹ میرے پاس محفوظ ہے اس لئے کسی کو میرا یہ حق لینے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ حق مجھے فلاں عدالت نے دیا ہے- اسی طرح یاد رکھیں! کہ آپ جس بھی طبقۂ فکر سے تعلق رکھتے ہوں آپ کی فضیلت کو پیدا کرنے والے نے ہی مقرر کر دیا ہے اس لئے آپ سے کوئی شرف انسانی کی فضیلت چھین نہیں سکتا-اس لئے کسی کی جرأت و طاقت نہیں ہے کہ ہم سے ہماری یہ عزت چھین سکے جو ہمیں ہمارے پیدا کرنے والے نے عطا کی ہے -
قاضی ثناء اللہ پانی پتی () نے انسان کے شرف و تکریم کی درجن بھر اَشیأ بیان فرمائی ہیں:
1. بِحُسْنِ الصُّوْرَةِ
عمدہ صورت
2. وَ الْمِزَاجِ الْعَدْلِ
مزاج میں عدل
3. وَاِعْتِدَالِ الْقَامَةِ
قامت میں اعتدال
4. وَ التَّمَيُّزِ بِالْعَقْلِ
عقل کا اِمتیاز
5. وَ الْاِفْهَامِ بِالنُّطْقِ وَ الْاِشَارَةِ وَ الْخَطِّ
بولنے، اشارہ کرنے اور لکھنے کی صلاحیت
6. وَ التَّهَدِىِّ إِلَى اَسْبَابِ الْمَعَاشِ وَ الْمَعَادِ
اسبابِ معاش و معاد کی طرف ہدایت
7. وَ التَّسَلُّطِ عَلَى مَا فِى الْأَرْضِ
زمین پر پیدا ہونے والی ہر چیز پر تسلط
8. بِاَنْ سَخَّرَ لَهُمْ سَائِرَ الْأَشْيَاءِ
تمام اشیاء ان کے لئے مسخر کر کے
9. وَ الْتَّمَكُّنِ مِنَ الصَّنَاعَاتِ
صنعتوں پر قدرت
10. وَ اِتِّسَاقِ الْأَسْبَابِ
اسباب کے استعمال پر قدرت
11. وَ اَنْ يَّتَنَاوَلَ الطَّعَامَ بِيَدِهٖ إِلَى فِيْهِ بِخِلَافِ سَائِرِ الْحَيْوَانَاتِ
اور جانور کے برعکس حضرت انسان اپنی خوراک ہاتھ سے اٹھا کر منہ کی طرف لے جانے سے اسے فضیلت بخشی
12. وَالْعِشْقِ وَالْمَعْرِفَةِ وَ الْوَحْىِ وَ مَرَاتِبِ الْقُرْبِ مِنَ اللّٰهِ تَعَالٰى
اور عشق، معرفت، وحی(جو انبیاء کے ساتھ خاص ہے) اور اللہ تعالیٰ کی طرف مراتب قرب عطا کرنے سے تکریم بخشی
اب اِن میں سے ہر ایک شرف کو مختصر الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :
پہلا شرف؛ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کا جو ظاہری وجود بنایا ہے اس کو عمدہ صورت سے نوازا ہے، اِس کے نقوش میں حُسن و زیبائی کی توفیر فرمائی ہے- اِس کی صُورت کو اتنا جمال بخشا ہے ، اتنا جمال بخشا ہے کہ یہ جمالِ انسانی کی لذّتوں سے سرشار رہنا چاہتا ہے، ازل کے دن کیا گیا وعدہ ان عارضی لذتوں کے پیچھے بھلا بیٹھتا ہے جو ہم نے اس کی صورت میں رکھ دی ہیں-صُورتِ انسانی کا سب سے بڑا عاشق انسان خود ہے، اقبال نے اپنی ایک رُباعی میں ایک بڑا ہی عجیب اور انوکھا فلسفہ بیان کیا ہے کہ انسان ماسویٰ اللہ کو پوجنے کا جو شرک کرتا ہے اُس کے پیچھے بھی انسانی حُسن کی کشش کار فرما ہے-اقبال فرماتے ہیں :
تراشیدم صنم بر صُورتِ خویش |
’’میں بُت کو اپنی صورت پر تراشتا ہوں، میں اپنا معبود اپنی ہی صورت پر بناتا ہوں-میرے لئے اپنے آپ سے باہر نکلنا محال ہے، ہر رنگ میں اپنی ہی پرستش کرتا ہوں‘‘-
اِس کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسان بھٹکا اور بھٹکنے کے باوجود بھی خدا کی ضرورت کو محسوس کرتا رہا تو اِس نے دُنیا میں نظر گھمائی کہ میرا خدا کس طرح کا ہونا چاہیے (معاذ اللہ) تو اِس نے اپنی انسانی صورت کے صنم تراش کر کہا کہ یہ میرا خدا ہے (العیاذ باللہ)-اقبال یہ تبصرہ کرکے رباعی کے دوسرے حصے میں کہتے ہیں کہ انسان کو(اپنے حُسن و زیبائی کی کثرت و مقدارِ وافر کی وجہ سے) اپنے آپ سے نکلنا محال ہے، یہ جہاں بھی ہے اپنا پرستار ضرور رہتا ہے-اگر انسان گمراہی اور خود پرستاری کا شکار نہ ہو تو یہی حُسن اس کی کمزوری نہیں بلکہ اِس کی طاقت ہے-
دوسرا شرف؛ انسان کے مزاج کو اعتدال سے مزیّن فرمایا ہے- اِس میں کئی مخلوقات کی صفات کو یکجا کر دیا ہے ، اس میں ملائک کی طرح نُور بھی ہے اور جنات کی طرح نار بھی ، خاک سے جڑا ہوا بھی ہے اور ہوا کے جوہر کی وجہ سے خاک سے آزاد بھی(خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند)- اِس میں آتش کا جوہر اِس کے آبی جوہر کی وجہ سے نہ تو شُعلے اگلتا ہے نہ ہی اسے سرد ہونے دیتا ہے (جب سرد ہوا تو پھر گیا)-گویا اِس کے جلال میں جمال بھی پنہاں کر دیا اور اِ س کے زوال میں کمال کے اسباب کو ختم نہیں کیا-
تیسرا شرف؛ اِس کی قامت میں بھی اعتدال ہے نہ زائد نہ کم بلکہ مُعتدل-بعض ایسے حشرات الارض ہیں کہ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے جسم پر رینگ رہے ہیں اس کے بر عکس آپ ڈانئا سار یا زرافہ کو دیکھیں بہت عظیم الجثہ جانور پیدا کیے- اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بلند پہاڑوں اور جانوروں کی طرح بہت عظیم الجُثّہ بھی نہیں بنایا اور نہ ہی حشرات الارض کی طرح بہت چھوٹا بلکہ مزاج کی طرح اس کی قامت کو بھی اعتدال پر پیدا فرمایا ہے-
چوتھا شرف؛ اِس کو عقل کا امتیاز عطا فرمایا اور اس کی عقل میں تمیز پیدا فرمائی کہ یہ اپنی عقل کے ذریعے چیزوں میں حق اور باطل، خیر اور شر، رات و دن، ظلمت اور نور ، درست اور غلط، سزا اور گناہ میں تمیز کرسکتا ہے جو کہ زمین پہ رہنے والی دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسان کو اضافی طور پہ عطا کی گئی ہے جس سے یہ دیگر مخلوقات میں ایک بُلند مقام حاصل کر لیتا ہےجیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَجَعَلْنٰہٗ سَمِیْعًا بَصِیْرًا‘‘[3]
’’ پس اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا ‘‘-
پانچواں شرف: اسے بولنے،اشارہ کرنے اور لکھنے کی صلاحیت عطا کی جس کے ذریعے یہ اپنا ابلاغ و بیان کرسکتاہے-بولنا ایک عظیم ترین صلاحیت ہے لیکن آپ کبھی سوچیں کہ انسان بولنا سیکھا کیسے؟ یہ موضوع ضرور پڑھنا چاہئے بڑا کمال کا ہے، اہلِ سُخن تو جانتے ہیں لیکن ہمارے عمومی طور پہ نوجوان ان موضوعات سے شوق و شغف نہیں رکھتے-کبھی اس بات کو پڑھیں اور سوچیں کہ لفظ کیسے ایجاد ہوئے؟ انسانوں نے لفظوں کو استعمال کرنا کیسے سیکھا؟ کیسے کیسے مختلف زبانیں اور بولیاں ایجاد ہوئیں؟ چیزوں کے نام کیسے رکھے گئے؟ جانوروں، پرندوں، پھولوں، پھلوں، سبزیوں، رنگوں اور دیگر ایسی اشیا کو انسان نے کیسے ایک دوسرے سے الگ کرکے شناخت کرنے کیلئے الگ الگ زبانوں میں الگ الگ نام دیئے؟ پھر زبانوں کی کثیر تعداد پہ غور کریں، زبانوں کے کثیر ذخیرۂ الفاظ اور گرائمر اور اصولوں پہ غور کریں کہ بولنے کی صلاحیّت کتنی قُوّت اور کتنی وافر مقدار میں انسان کو ودیعت کی گئی ہے-یہ انسان کا عظیم ترین شرف ہے جو اس کے خالق نے اسے عطا فرمایا ہے-
انسان بول کر کلام کر کے اپنا ضمیر بیان کر سکتا ہے- اس کے برعکس اگر کوئی گونگا ہے جو بول یا کلام نہیں کرسکتا اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا کی ہے کہ وہ اپنے اعضائے جسم سے، اپنی پلکوں کے اشارہ سے، اپنے رُخسار اور لبوں، زبان اور ہاتھوں کے اشارہ سے وہ اپنی بات کا ابلاغ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے-اب یہ بات ایک سائنس کے طالب علم کیلئے سمجھنی مشکل نہیں ہے-سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) کا سخت ترین بیماری کے باوجود سائنسی دریافتوں میں کامیاب ہونا دور حاضر میں خدا کی قدرت کا عظیم ترین کرشمہ ہے اور ناچیز یہ بات اِس حقیقت کو جاننے کے باوجود کَہ رہا ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ خود وجودِ باری تعالیٰ کا مُنکر ہے؛ خدا کی مخلوق کو سمجھنے کے لئے عظیم ترین مثال سٹیفن ہاکنگ کی لی جا سکتی ہے-وہ پہلے ٹھیک تھا پھر بعد میں گرا، چوٹ لگی جس سے اس کی دماغی صلاحیت تو بہت تیز ہو گئی لیکن اس کا پورا جسم معذور ہوگیا-لیکن اس کی خوش نصیبی کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اس کے دماغ کا جائزہ لیا تو وہ بہت ایڈوانس تھا-سائنس کی جدید فزکس میں بلیک ہولز، ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ اور سپیس کے اوپر سٹیفن ہاکنگ کی عظیم ترین ریسرچ ہے-انہوں نے اس کے دماغ کا جائزہ لیا اور کہا کہ یہ آدمی ضائع کرنے کا نہیں ہے بے شک اب اس میں بولنے کی سکت ختم ہوگئی ہے، یہ اپنے وجود کو ہلا نہیں سکتا-انہوں نے ایک سنسر ایجاد کیا جو سنسر اس کے دماغ کے ذریعے اس کی آنکھوں کی پتلیوں سے لے کر اس کے رخساروں تک کے جو سگنل آتے ہیں وہ وصول کرتا ہے اس کی آنکھوں کی پتلیوں کے نیچے سے اس سگنل کے ذریعے جو لفظ یا حرف معلوم کیا جاتا ہے اس کو کمپیوٹر کے ذریعے ان تمام حروف کو اکٹھا کر کے الفاظ کا ابلاغ کرتا ہے-وہ اپنی زبان سے نہیں بول سکتا لیکن جب کیمبرج یونیورسٹی میں سٹیفن ہاکنگ کا لیکچر ہوتا ہے تو ہزاروں کرسیوں کا ہال بھرا ہوتا ہے؛ لوگ منت سماجت کرکے مہنگی ٹکٹیں خریدکر اس کا لیکچر سننے جاتے ہیں- یہ شخص بول نہیں سکتا لیکن اس کے رخسار اور آنکھوں کی پتلیوں میں سنسر لگا کر اس کے دماغ کا انہوں نے ابلاغ کردیا ہے-گویا وہ بات جو قاضی ثنااللہ پانی پتی فرما رہے ہیں کہ بولنا بھی اس کا شرف ہے اور اشاروں کی زُبان سمجھنا بھی اس کا شرف ہے کہ اگر انسان زبان سے کلام نہ کرسکے تو وہ اپنی آنکھوں کے پتلیوں کے اشاروں سے اپنی بات اور کلام کا ابلاغ کرسکتا ہے-
پھر انسان کو تحریر کرنےکی صلاحیت عطا کی-آج آقا کریم (ﷺ) کو اس دنیا فانی سے ظاہری پردہ فرمائے ہوئےکم و بیش 14 صدیاں بیت گئیں-آقا کریم (ﷺ) کے چہرہ انور کی زیارت نہیں کی، آقا کریم (ﷺ)کے رخسار، لبوں، آنکھوں اور زلفوں مبارک کی زیارت نہیں کی، آقا کریم (ﷺ) کا کلام مبارک نہیں سنا لیکن اگر آپ کسی عالم سے پوچھیں تو وہ کہے گا میں آپ کو آقا کریم (ﷺ) کی آنکھیں مبارک بھی بتاسکتاہوں، لب مبارک بھی بتا سکتا ہوں، زلفیں مبارک بھی بتا سکتا ہوں، رخسار مبارک بھی بتا سکتا ہوں، آقا کریم (ﷺ) کا کلام بھی بتا سکتا ہوں اس لئے کہ ان لوگوں نے اس کلام مب?