یہاں تک تو بیان تھا انسان کے شرفِ ظاہری کا، اب آئیے انسان کی کرامتِ باطنی کی طرف جس میں علامہ روز بہان البقلی الشیرازیؒ نے پانچ چیزیں بیان فرمائی ہیں:
’’وَلَھُمْ کَرَامَۃُ الْبَاطِنِ، وَھِیَ الْعَقْلُ وَ الْقَلْبُ وَ الرُّوْحُ وَ النَّفْسُ وَالسِّرُّ، وَفِیْ ھٰذِہِ الْجُنُوْدِ خَزَآئِنُ رَبُوْبِیَّتِہٖ فَالنَّفْسُ مَعَ جُنُوْدِ قَہْرِہٖ، وَ الْعَقْلُ مَعَ جُنُوْدِ لُطْفِہٖ، وَ الْقَلْبُ مَعَ جُنُوْدِ تَجَلَّی صِفَاتِہٖ، وَ الرُّوْحُ مَعَ جُنُوْدِ تَجَلَّی ذَاتِہٖ، وَالسِّرُّ مُسْتَغْرِقٌ فِیْ عُلُوْمِ اَسْرَارِہٖ، فَالْکُلُّ مُکَرَّمَۃٌ بِکَشُوْفِ الصِّفَاتِ مِمَّنْ لَہٗ اسْتِعْدَادُ رُؤْیَۃِ الصِّفَاتِ، وَ مَنْ لَہُ اسْتِعْدَادُ رُؤْیَۃِ الذَّاتِ فَھُوَ فِی مُشَاہِدَۃِ الذَّاتِ‘‘
’’ اور ان کے لئے باطن کی تکریم بھی ہے اور یہ عقل و قلب اور روح و نفس اور سِرّ ہیں اور ان لشکروں ( عقل و قلب اور روح و نفس اور سر)میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے خزانے ہیں پس نفس اللہ پاک کے قہر کے لشکروں کے ساتھ ہے اور عقل اللہ پاک کے لطف کے لشکروں کے ساتھ ہے اور قلب اللہ پاک کی صفاتِ تجلی کے لشکروں کے ساتھ ہے روح اللہ پاک کی ذاتی تجلی کے ساتھ ہے اور سر اللہ تعالیٰ کے اسرار کے علوم میں مستغرق ہے اور یہ تمام صفات کے پردوں کے ساتھ ان کے لئے مکرم ہیں جو رؤیتِ صفات کی استعداد رکھتے ہیں اور جو ذاتِ باری تعالیٰ کی رؤیت کی استعداد رکھتے ہیں وہ مشاہدہ ذات میں غرق ہیں‘‘-
پانچ چیزیں ہیں؛ عقل، قلب، روح، نفس اور سر(راز)-یہ تمام مقامات انسان کے باطن سے تعلق رکھتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف و تکریم کو قائم کرنے کے لئےاپنی شانِ ربوبیت سے خزائن عطا فرمادیے ہیں -
شیخ کا یہ فرمان کہ ’’نفس کے ساتھ اس کے قہر کے لشکر ہیں‘‘ کے معانی یہ ہیں کہ انسان اگر اپنے نفس کی پیروی میں بھاگتا رہے تو اس کے نتیجے میں یہ قہرِ الٰہی کے قریب ہوتا جائے گا کیونکہ لذاتِ نفسانیہ انسان کیلئے امتحان و آزمائش کا درجہ رکھتی ہیں جن میں وقتی طور پہ انسان لذت پالیتا ہے لیکن ابدی لذتوں سے دور ہو جاتا ہے- نفسانی لذتیں وقتی ہیں اور ابدی لذتوں سے انسان کو غافل کرنے والی ہیں، نہ صرف ابدی لذتوں سے بلکہ احکاماتِ الٰہی کی بجا آوری سے بھی دور لے جاتی ہیں - اس لئے شیخ روز بہان علیہ الرحمہ نے قول کیا ہے کہ نفس کے ساتھ قہر کے لشکر ہیں، لذاتِ نفسانی کا گرفتار قہرِ رحمانی کا حقدار ہے - لہٰذا نفس کے غلبہ سے بچنا انسان کے شرفِ باطنی پہ دلالت کرتا ہے -
عقل اس کے لطف و کرم کے لشکروں کے ساتھ چلتی ہے- یہاں عقل سے مُراد فقط ذہانت ہی نہیں بلکہ اس سے مُراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے یہ حلال و حرام، حق و باطل، پاکیزگی و ناپاکی، شکر و کفر ، سچ اور جھوٹ کے مابین واضح فرق رکھنے کے قابل ہوتا ہے- ایسی عقل انسان کو پاک بناتی ہے، حق کے قریب کرتی ہے، کذب و مکر و فریب سے دور کرتی ہے ، عملِ حرام، قولِ حرام اور لُقمہ حرام سے نجات دلاتی ہے - آدمی کی ایسی عقل کو شیخ علیہ الرحمہ لُطفِ خداوندی کے لشکروں میں سے سمجھتے ہیں -
قلب اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ صفات کے ساتھ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کےدل پر اپنی رحیمی وکریمی اور غفور ور حیم ہونے کی تجلی کرتا ہے جس کے ذریعے انسان کا قلب نرم ہو جاتا ہے اور اس کے دل سے سختی جاتی رہتی ہےجس کے باعث انسان اللہ کی مخلوق کے ساتھ رحیمی و کریمی کا معاملہ کرتا ہے- اس لئے یہ بھی انسان کا شرف ہے کہ اس کےدل کو اللہ تعالیٰ اپنی صِفات کے اَنوار سے مُنوّر فرماتا ہے – مُطالعۂ تصوُّف میں یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ اکثر صُوفیاء کے القابات سخاوت کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں، مثلاً داتا گنج بخش، سخی سُلطان باھُو، سخی سرور، غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ)- اس پہ اگر غور کریں کہ اِس کی کیا وجہ ہے؟ تو شیخ روز بہان بقلی شیرازی کی درج بالا عبارت یہ عُقدہ کُشائی کرتی ہے کہ قلبِ صُوفی صفاتِ باری تعالیٰ کی تجلیّات سے منور ہوتا ہےجس سے وہ صفات اس بندے کے کردار کو رضائے الٰہی کے مطابق ڈھالتی چلی جاتی ہیں- جو چیز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کیلئے پسند کرتا ہے اہل اللہ صوفیا بھی مخلوق کیلئے وہی پسند کرنے لگتے ہیں- جیسے رحم، کرم، عفو و درگزر اور سخاوت- اس لئے سخاوت اُن تجلیّاتِ صفات کی برکات سے وجودِ صوفی میں پیدا ہوتی ہے اس لئے اکثر صوفیاء کو سخاوت کی مختلف اصطلاحات سے مُلقَّبْ کیا جاتا ہے- صفاتِ الٰہیّہ کی برکات سے مومن کے کردار کا رضائے الٰہی کے مطابق ڈھل جانا بھی انسان کی عظمت کی دلیل ہے -
علامہ روز بہان بقلی شیرازیؒ تفسیر’’عرائس البیان‘‘ میں فرماتے ہیں کہ روح اللہ تعالیٰ کی ذات کی تجلی سے جلا پاتی ہے اور روح کو اللہ تعالیٰ کے انوار کی تجلی نصیب ہونا یہ بھی انسان کے باطنی شرف میں سے ہے-
اِسی طرح سرّ اللہ تعالیٰ کے علومِ رموز میں غرق ہے اور یہ مقام سر انسان کو نصیب ہے کیونکہ اس مقام سے انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کا راز بن جاتا ہے اس لئےیہ مقام بھی انسان کے شرف انسانیت پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اکثر صوفیاء نے اِس پہ حدیثِ قُدسی بھی بیان فرمائی ہے -
شیخ کے درج بالا قول کے مطابق روح سے اوپر جتنی بھی چیزیں بیان کی گئی ہیں یہ تمام اللہ تعالیٰ کی صفات کی استعداد رکھتی ہیں-یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے انوار و تجلیات صرف رُوحِ انسان کو نصیب ہوتی ہیں جو کہ ایک اعلیٰ و ارفع مقام ہےجس سےانسان تمام دیگر مخلوقا ت سے اشرف و اعلیٰ ہو کر ’’اشرف المخلوقات‘‘ کے درجہ کا حقدار ٹھہرتا ہے -
الشیخ الامام احمد بن عمر بن محمد، نجم الدین الکبرٰیؒ جن کو اس دنیا سے گزرے ہوئے کم و بیش 800 برس ہوگئے ہیں؛ اسی آیت کے ضمن میں اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: [1]
’’وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ اَیْ: خَصَّصْنَا ھُمْ بِکَرَامَۃٍ تُخْرِجُھُمْ عَنْ حِیْزِ الْاِشْرَاکِ وَ ھِیَ عَلٰی ضَرْبَیْنِ: جَسْدَانِیَۃٌ، وَ رُوْحَانِیَۃٌ
’’اور ہم نے اولادِ آدم کو کرامت کا تاج پہنایا ہے یعنی ان کو ایسی کرامت کے ساتھ خاص کیا ہے جو ان کو شرک سے نکالتی ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں-ایک جسمانی اور ایک روحانی ‘‘
فَالْکَرَامَۃُ الْجَسْدَانِیَۃِ: عَامَّۃٌ یَسْتَوِیْ فِیْھَا الْمُوْمِنُ وَ الْکَافِرُ وَھِیَ تَخْمِیْرُ طِیْنَتِہٖ بِیَدِہٖ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحاً، وَ تَصْوِیْرُہُ فِی الرِّحْمِ بِنَفْسِہٖ، وَ اِنَّہٗ تَعَالیٰ صَوَّرَہٗ فَأَحْسَنَ صُوْرَتَہٗ وَ سَوَّاہُ فَعَدَلَہُ فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَاشَآءَرَکَّبَہُ،
’’جہاں تک جسمانی تکریم کا تعلق ہے اس میں مومن اور کافر شامل ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے دستِ قدرت سے 40دنوں تک اس کی مٹی کے خمیر کو تیار کیا اور خود اس کی تصویر کو شکمِ مادر میں بنایا اور یہ کہ اللہ پاک نے اس کی صورت کو احسن صورت عطا فرمائی اور اس کو برابر کیا اور (اپنے مقام پر) ٹھیک ٹھیک پیدا فرمایا یعنی کہ جس صورت میں چاہا اس کو ترکیب دیا ‘‘
وَ الْکَرَامَۃُ الرُّوْحَانِیَۃِ: عَلٰی ضَرْبَیْنِ عَامَّۃٌ، وَ خَاصَّۃٌ
’’روحانی تکریم کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک عام اور ایک خاص‘‘
فَالْعَامَّۃُ: اَیْضاً یَسْتَوِیْ فِیْھَا الْمُؤْمِنُ وَ الْکَافِرُ وَ ھِیَ اَنْ کَرَّمَہٗ بِنَفْخِہٖ فِیْہِ مِنْ رُوْحِہٖ ‘‘
’’پس جہاں تک عام کا تعلق ہے اس میں بھی مومن اور کافر برابر ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس میں (اللہ پاک نے )اپنی روح پھونک کر اس کو عزت دی‘‘-
یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ’’روحی‘‘ فرمایا ہے جس کا اشارہ مفسرین کرام نے ضمیر متکلم کی طرف کیا ہےیعنی اس کا اشارہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی جانب ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنی ذات سے منو ر شدہ روح کو آدم علیہ السلام کے وجود میں داخل کیا ہےجو کہ شرفِ انسانی پر سب سے بڑی دلیل ہے-
پھر مزید لکھتے ہیں کہ:
’’وَعَلَّمَہُ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا، وَ کَلَّمَہٗ قَبْلَ اَنْ خَلَقَہٗ بِقَوْلِہٖ (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ) فَأَسْمَعَہُ خِطَابَہٗ وَ اَنْطَقَہٗ بِجَوَابِہٖ بِقَوْلِہٖ: (قَالُوْ بَلٰی) وَ عَاھَدَہٗ عَلَی الْعُبُوْدِیَّۃِ، وَ أَوْلَدَہٗ عَلَی الْفِطْرَۃِ، وَ أَرْسَلَ اِلَیْہِ الرُّسُلَ وَ اَنْزَلَ عَلَیْہِ الْکُتُبَ وَ دَعَاہُ اِلَی الْحَضْرَۃِ، وَ وَعَدَہُ الْجَنَّۃَ وَ خَوَّفَہُ النَّارَ، وَ أَظْھَرَ لَہُ الْآیَاتِ وَ الدَّلَالَاتِ الْمُعْجِزَاتِ
’’ اور (اللہ پاک) نے اس کو تمام اسماء سکھائے اوراس کی (انسان)تخلیق سے پہلے اس سے ’’الست بربکم‘‘سے کلام کیا پس (اللہ پاک) نےاُس کو اپنا خطاب سنایا اور اس (انسان ) کے جواب میں ’’قالو بلیٰ‘‘ سے اس کو بلوایا اور اللہ پاک نے اس (انسان) سے بندگی کا معاہدہ کیا اوراُس کو (اپنی خاص)فطرت پر پیدا فرمایا اور اس کی طرف رُسل (علیہم السلام)مبعوث فرمائے اور اس پر کتابیں نازل فرمائیں اور اس کو اپنی بارگاہ کی طرف بلایا اور اس سے جنت کا وعدہ فرمایا اور دوزخ سے ڈرایا اور اس کی (ہدایت) کے لئے آیات، دلائل اور معجزات کا ظہور فرمایا-
اللہ تعالیٰ نے انسان میں اپنی روح کو پھونکا،اس کو اسماء کا علم سکھایا،الست بربکم کَہ کر خطاب فرمایا، رب نے اس کو یہ شرف بھی عطا کیا کہ وہ اپنے رب سے کلام کرے-اس سے بڑھ کر انسان کی اور کیا عزت ہو سکتی ہے کہ خالق کائنات نے انسان کے وجود میں ایسی روح رکھ دی ہے جو ’’قالو بلی‘‘ کَہ کر اپنے مولا سے کلام کر چکی ہے- یعنی خالق کائنات اپنی مخلوق سے خطاب کرتا بھی ہے، سنتا بھی ہےاور اسے پسند بھی کرتا ہے-اسی طرح اللہ تعالیٰ کا انسان کے ساتھ بندگی کا معاہدہ کرنا، اس کو اپنی فطرت پر پیدا کرنا،اس کی جانب اپنے رُسل عظام (علیہم السلام) کو بھیجنا انسان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہےکہ رب ذوالجلال کس قدر اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے کہ میرا بندہ اپنے نفس کی خطاؤں اور شیطان کے بہکانے کی بدولت شرک و گمراہی میں مبتلا نہ ہو جائے - اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے محبت کرتے ہوئے اپنے بندوں کو یہ عزت عطا کی ہے کہ اپنی بارگاہ کی منتخب شدہ ارواح کو ا ن کی ہدایت کے لئے ان کے درمیان بھیجا ہے-
اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کی جانب کتابیں، صحیفے اتار کر اس کی طرف مخاطب ہوا ’’یایھا الانسان‘‘، ’’یایھا الناس ‘‘ - علامہ نجم الدین کبرٰی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا انسان سے محبت کرتے ہوئے اس کو عذاب سے بچانے کے لئے اس کی طرف کتابیں اور صحیفے بھیجنا بھی اس کے شرف پر دلالت کرتاہے-
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کو اپنی طرف دعوت دینا یہ بھی شرف انسانی کی ایک دلیل ہے-مثلاً آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کا دوست بنے،آپ اس سے محبت کریں وہ آپ سے محبت کرے-اس کے لئے آپ کسی ذلیل شخص کو منتخب کریں گے یا کسی مکرم کو؟ یقیناً کسی صاحبِ عزت کو-اسی طرح جس کورب نے اپنی بارگاہ کی جانب اپنے تقرب،اپنی حضوری ومعرفت اور اپنا ہم راز بنانے کے لئے بلوایا ہے تو بتائیے کیا اس نے انسان کو مکرم بنا کر بلوایا ہے یا ذلیل بنا کر؟اس لئے امام نجم الدین کبرٰی فرماتے ہیں کہ انسان کا باطنی طورپر جو عام باطنی درجہ ہے اللہ نے اسے اپنا قرب عطا کرنے کے لئے منتخب فرمایا ہے تو یہ بھی اس کے عزت وشرف پر دلالت کرتا ہے-
مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے جو جنت کا وعدہ فرمایا ہے وہ بھی اس کے شرف پردلیل ہے کہ اللہ نے اس کی رہائش، مسرت و راحت کے لئے ایسا مقام منتخب کیا جہاں دودھ اور شہد کی پاکیزہ نہریں بہتی ہیں، محلات و روشنیاں ہیں اور گندگی کا شائبہ تک نہیں ہے-عام انسانی زندگی میں بھی ایسا اہتمام آپ فقط اس مہمان کےلئے کرتے ہیں جس کو آپ قابلِ صد عزت و تکریم سمجھتے ہیں-اس لئے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو جنت کی بشارت دینا بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتا ہے-
اسی طرح انسان کو جہنم کی آگ سے ڈرانا یہ بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر رضائے الٰہی کو یا آسان لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی پسند کو دیکھا جائے تو وہ جہنم میں جلائے جانے کی بجائے اپنے کیلئے جنّت کی نعمتوں کو زیادہ پسند فرماتا ہے مگر قانُونِ قُدرت ہے کہ اگر انسان نے اپنے نفس سے، اپنی ذات اور اعمال سے انصاف نہ کیا تواس کو آگ میں جلایا جائے گا-چونکہ انسان عزت و تکریم کا حامل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو ایک عذابِ شدید کا مقام قرار دے کر اسے جہنم کی آگ سے بچنے کی جو تلقین کی ہے بنیادی طور پر یہ بھی انسان کے شرف و تکریم پر دلالت کرتا ہے-اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کیلئے جتنی بھی نشانیاں اور معجزے بھیجے وہ سب اس کی اہمیت اور اس کی تکریم پر دلالت کرتے ہیں-
یہ تھی تکریم عام جو کفار کے لئے بھی تھی اور مومنین کے لئے بھی جسے امام نجم الدین کبریٰ نے ’’عام روحانی تکریم‘‘ کہا - اب آئیے ’’خاص روحانی تکریم ‘‘ کی طرف -
’’وَ الْکَرَامَۃُ الرُّوْحَانِیَۃُ الْخَاصَّۃُ مَا کَرَّمَ بِہِ الْاَنْبِیَآءَ وَ الْاَوْلِیَآءَ، وَ عِبَادَہُ الْمُؤْمِنِیْنَ ، مِنَ النُّبُوَّۃِ وَ الرِّسَالَۃِ وَ الْوِلَایَۃِ وَ الْاِیْمَانِ لِلْاِسْلَامِ وَ الْھِدَایَۃِ اِلَی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ، وَھُوَ صِرَاطُ اللہِ وَ السَّیْرُ اِلَی اللہِ وَ فِی اللہِ وَ بِاللّٰہِ عِنْدَ الْعُبُوْرِ عَلَی الْمُقَامَاتِ وَ التَّرَقِیْ مِنَ النَّاسُوْتِیَۃِ بِجَذْبَاتِ الاَّھُوْ تِیَۃِ، وَ التَّخَلُّقُ بِاَخْلَاقِ الْاِلٰھِیَّۃِ عِنْدَ فَنَآءِ الْاَنَانِیَّۃِ وَ بَقَآءِ الْھُودِیَّۃِ‘‘
’’اور روحانی مخصوص تکریم وہ ہے جس کے ساتھ (اللہ پاک) نے اپنے انبیاء کو نبوت و رسالت، اولیاء کو ولایت اور اپنے مومن بندوں کو اسلام پر ایمان اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت سے نوازا اور وہ (تکریم خاص) اللہ تعالیٰ کا راستہ، مقامات کو طے کرتے وقت سیر الی اللہ ، سیر فی اللہ اور سیر باللہ ہے اور لاہوتی کشش کے سبب ناسوت سے ترقی کرنا ہے-انانیت کی فنا اور ہویت کی بقاء کے وقت اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے متخلق ہونا ہے‘‘-
اَب عظمتِ نبوّت، عظمتِ رسالت، عظمت وِلایت اور عظمتِ ہدایت کیا ہے؟اگر انسان اس ایک نکتہ پر غور کرے تو انسان اپنے شرف پر فخر کرنے لگتا ہے، اس کی ذات کی جانب سربسجود ہو کر، رو رو کر شکرانے پورے نہیں کرسکتا کہ میرے مولا! مَیں اتنے شرف و امتیاز اور اتنی تکریم و تقدیس کے قابل نہیں تھا جتنی تو نے مجھے عطا کی ہے-نبوت عطا کی تو انسان کو، رسالت عطا کی توانسان کو، ولایت عطا کی تو انسان کو، ہدایت عطا کی تووہ بھی انسان کو-اس لئے اے میرے مولا! یہ تیرا کرم ہے کہ تمام ارفع و اعلیٰ مقامات تو نے انسان کو عطا فرمائے ہیں- اے میرے مالک! بے شک تو مجھ پہ بے انتہاء مہر بان ہے - تونے مجھے جو بخشا اور جو میں اپنے لئے چنتا ہوں اس سے یہ واضح ہے کہ تو مجھ سے اس سے بھی ہزاروں اربوں گنا زیادہ پیار فرماتا ہے جتنا کہ میں خود اپنے آپ سے کرتا ہوں- یہ سبھی تکریم و بزرگی جو تو نے انسان کو بخشی بے شک یہ تیرے انتہائی خاص کرم اور بے پایاں رحمت کا اظہار ہے -
جے میں ویکھاں عملاں وَلّے ، تے کجھ نئیں میرے پَلّے |
حضرت امام ملا علی قاریؒ نے اسی آیت کی تفسیر میں موتی پِرَوْ دیئے ہیں ، لکھتے ہیں کہ:
’’(کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ)وَلَمْ یَقُلِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا الْعَابِدِیْنَ وَ لَا اَلْمُجْتَھِدِ یْنَ --- وَ ذٰلِکَ التَّکْرِیْمُ اَنَّھُمْ مَتٰی شَآؤُوْا مِنَ الْاَوْقَاتِ وَقَفُوْا مَعَہٗ عَلَی بِسَاطِ الْمَنَاجَاۃِ ، وَ مِنْ ذٰلِکَ التَّکْرِیْمِ اَنَّکَ عَلَی اَیِّ وَصْفٍ کُنْتَ مِنَ الطَّھَارَۃِ وَ غَیْرِ ھَا اِذَا اَرَدْتَ اَنْ تُخَاطِبَہٗ خَاطَبْتَہٗ وَ اِذَا اَرَدْتَّ اَنْ تَسَألَ مِنْہُ شَیْئًا سَاَلْتَہٗ وَ مِنْ ذٰلِکَ التَّکْرِیْمِ اَنَّہٗ اِذَا تَابَ ثُمَّ نَقَضَ تَوْبَتَہٗ تُقْبِلُہٗ وَ مِنْ ذٰلِکَ اَنَّہٗ زَیَّنَ ظَاہِرَ ھُمْ بِتُوْفِیْقِ الْمُجَاہِدَۃِ وَ حَسَّنَ بَاطِنَھُمْ بِتَحْقِیْقِ الْمُشَاہِدَۃِ وَمِنْ ذٰلِکَ اَنَّہٗ اَعْطَاھُمْ قَبْلَ سُؤَالِھِمْ وَ غَفَرَلَھُمْ قَبْلَ اِسْتَغْفَارِ ھِمْ وَحَسَّنَ حَالَھُمْ کَذَا فِی الْاَثْرِ:’’أَعْطَیْتُکُمْ قَبْلَ اَنْ تَسْأَلُوْنِیْ وَ غَفَرْتُ لَکُمْ قَبْلَ اَنْ تَسْتَغْفِرُوْنِیْ‘‘[2]
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ( اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں: )مؤمنین، عابدین اور مجتہدین کیلئے نہیں فرمایا کہ مَیں نے فقط ان کو عزت والا بنایا ہے بلکہ آیت میں ’’کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ‘‘ یہ تکریم سب اولادِ آدم کیلئے ہے اور وہ تکریم یہ تھی کہ جس وقت وہ چاہتے مناجات کی بساط پراس کی معیت میں کھڑے ہو جاتے اور اسی تکریم کی وجہ سے تو طہارت وغیرہ کی جس حالت پر بھی ہو تو جب تو اس کو مخاطب کرنے کا ارادہ کرے تو مخاطب کرسکےاور جب تو اس سے کوئی چیز مانگنے کا ارادہ کرے تو سوال کر سکے اور یہ تکریم ہی کی وجہ سے ہے کہ جب تو اس کی بارگاہ میں توبہ توڑ کر پھر توبہ کرے تو وہ تیری توبہ قبول کرلے اور اس (تکریم) کی وجہ یہ ہے کہ اس (ذاتِ باری تعالیٰ)نے ان کے ظاہر کو مجاہدہ کی توفیق سے مزین کیا اور ان کے باطن کو مشاہدہ کی تحقیق سے خوب صورت بنایا ہے اور یہ کہ ان کے سوال سے پہلے ان کو عطا کر دیا اور ان کے استغفار سے پہلے مغفرت کردی گئی اور ان کی حالت کو اچھا کر دیا جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ: مَیں نے تم کو تمہارے سوال کرنے سے پہلے عطا کر دیا اور تمہیں تمہاری استغفار سے پہلے بخش دیا گیا‘‘-
علامہ ابن عجیبہ انسان کا شرف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’شَرْفُ الْإِنْسَانِ وَ كَمَالُهٗ فِيْ خَمْسَةِ أَشْيَاءٍ‘‘[3]
’’ انسان کا شرف اور اس کا کمال پانچ چیزوں میں ہے‘‘
1. اَلْإِيْمَانُ بِاللهِ وَ بِسَائِرِ مَا يَتَوَقَّفُ الْإِيْمَانُ عَلَيْهِ - اللہ پاک پر ایمان اور ہر اس چیز پر ایمان جس پر ایمان کی بنیاد ہے
2. وَ الْوَفَاءُ بِالْعَهُوْدِ - وعدوں کی پاسداری
3. وَالْوَقُوْفِ مَعَ الْحُدُوْدِ - حدود پر عمل پیرا ہونا
4. وَالرِّضٰى بِالْمَوْجُودِ - موجودہ حالت پر راضی رہنا
5. وَالصَّبْرِ عَلَى الْمَفْقُوْدِ - جو چیزیں پاس نہ ہوں ان پر صبر کرنا
اس لئے تکریمِ خاص اللہ کی جانب کا راستہ ہے یعنی وہ مقامات جو انسان اس کی ذات کی جانب سفر کرتے ہوئے طے کرتا ہے-لاہوتی کشش کے سبب انسان ناسوت سے جو ترقی کرکے لاہوت کی جانب جاتا ہے یہ بھی انسان کےشرف پر دلالت کرتا ہے-اس عالم ناسوت میں انسان ایک لوہے کی مثل ہے اور لاہوت کی تجلیات مقناطیس کی مثل ہیں- لوہامقناطیس کی جانب لپکتا ہے اور مقناطیس لوہے کو اپنی جانب کھینچتا ہے-مقناطیس لکڑی، کپڑے کو نہیں کھینچتا اسی طرح لوہا ریت پتھر کی جانب نہیں لپکتا- لوہا جو کہ جسدِ انسانی کی مانند ہے جب اس کو معلوم ہوجائے کہ میرا مقناطیس کِدھر ہے تو وہ مقناطیس کی جانب لپک کر جاتا ہے اور مقناطیس کی لہریں اس کی منتظر ہوتی ہیں کہ یہ لوہا آئے اور مَیں اسے اپنی لہروں کی آغوش میں لپیٹ لوں-
عالم لاہوت کی جو جستجو ہے، اسی لاہوت کا جو پردیس ہے اس کے بارے میں حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:
حب وطن دی غالب آئی ہک پل سوون نہ دیندی ھو |
جب اس کی کشش آجاتی ہے تو پھر انسان اس کی جانب جاتا ہے-’’رسالۃ الغوثیہ‘‘ میں پیران پیر دستگیر، غوث الثقلین، کریم الابوین، نجیب الطرفین، محبوب سبحانی، قطب ربانی شہباز لامکانی الشیخ السید الشریف ابو محمد عبد القادر الجیلانی الحسنی الحسینی البغدادی (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے عالم لاہوت میں مجھ سے خطاب کیا اور فرمایا:
’’مَاظَہَرْتُ فِیْ شَیْءٍ کَظَھُوْرِیْ فِی الْاِنْسَانِ‘‘
’’ مَیں کسی شے میں ایسا ظاہر نہیں ہوا جیسا انسان میں‘‘
(پھر حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ) مَیں نے عرض کی:
’’یَا رَبِّ ھَلْ لَّکَ مَکَانٌ‘‘؟
’’اے پروردگار! کیا تیرا کوئی مکان ہے؟‘‘
(اللہ پاک نے )فرمایا:
’’اَنَا مَکَوِّنُ الْمَکَانَ وَ لَیْسَ لِیْ مَکَانٌ سِوَی الْاِنْسَانِ وَ الْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَنَا سِرُّ الْاِنْسَانِ‘‘[4]
’’ میں مکان کا پیدا کرنے والا ہوں اور آدمیوں کے سوا کہیں میرا مکان نہیں ہے-آدمی میرا (پوشیدہ اور چھپا ہوا) بھید ہے اور مَیں انسا ن کا بھید ہوں‘‘-
آفتاب سے چمکتی ہوئی جو چیز اہل ارض کو نظر آتی ہے، اہل ارض چاند کی ٹھنڈک اورروشنی کو محسوس کرتے ہیں جو سمندر کی لہروں کو ابھارتا اور چھوڑتا ہے، حضور غوث الاعظم قدس اللہ سرّہٗ فرما رہے ہیں کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اے عبد القادر! یہ مخلوقات، آسمان کی بلندی، سمندروں کی وسعت، ستاروں اور سیاروں کا چمکنا، ان کا چلتے رہنا، مخلوقات کا پیدا ہونا ، مَیں ان سب منور چیزوں میں سے کسی بھی چیز میں اس طرح سے ظاہر نہیں ہوا جس طرح میں نے حضرتِ انسان میں اپنا اِظہار کیا ہے-اندازہ لگائیں!جس سے خالق اپنے اَنوار کا اظہار کرے کیا اس سے زیادہ مکرم اس دنیا میں کوئی ہوگا-
متعدد محدثین کرام نے اس حدیث پاک کو اپنی کتبِ حدیث میں درج کیا ہے کہ:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللہِ (ﷺ) يَطُوْفُ بِالْكَعْبَةِ وَ يَقُوْلُ ’’مَا أَطْيَبُكِ وَ أَطْيَبُ رِيْحِكِ مَا أَعْظَمُكِ وَ أَعْظَمُ حُرْمَتِكِ وَ الَّذِىْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ حُرْمَةً مِّنْكِ. مَالِهٖ وَ دَمِهٖ وَ أَنْ نَّظُنَّ بِهٖ إِلَّا خَيْرًا‘‘[5]
’’حضرت عبد اللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ مَیں نے اللہ کے رسول (ﷺ) کو دیکھا کہ آپ(ﷺ) خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور ارشاد فرما رہے ہیں (اے خانہ کعبہ!) تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی اچھی ہے تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی پاکیزہ ہےاور اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ اللہ کے ہاں مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے-اس کا مال بھی عظیم اور اس کا خون بھی عظیم اور ہم اس کے بارے میں بھلائی کا گمان رکھیں‘‘-
میرے دوستو اور ساتھیو! اس انسان کو، اس آدم کے بیتے اور آدم کی بیٹی کو اللہ نے کیا کیاحرمتیں اور شرف عطا نہیں کیے-اللہ کے محبوب حضور نبی کریم (ﷺ) اس مقدس مقام جس کی جانب رُخ کئے بغیر مسلمانوں کا سجدہ نہیں ہوتا، کی طرف رخ کیے کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ: اللہ کی قسم! اے کعبہ، تو عظیم، تیری یہ ہوائیں عظیم، لیکن بندہ مومن کی حرمت اللہ کے ہاں تجھ سے زیادہ ہے-
آج جہاں اساتذہ و والدین، سائنس دانوں ومحققین، منصف اور سربراہ کا شرف بتایا جائے وہاں یہ لازم ہے کہ حضرت انسان کا شرف بھی بتایا جائے-ان تمام کا شرف تب بڑھتا ہے جب یہ اپنا بنی نوعِ انسان ہونا ظاہر کرتے ہیں-
آپ کے ذہن میں فوراً ملائکہ آئے ہوں گے جبکہ میرے ذہن میں فوراً اقبال آیا ہے کہ:
مقام بندگی دیگر مقام عاشقی دیگر |
’’بندگی کا مقام اور ہے، عاشقی کا مقام اور ہےفرشتے سے آپ صرف سجدہ چاہتے ہیں لیکن خاکی سے اس سے زیادہ (یعنی شہادت) کے طلب گار ہیں‘‘-
یعنی بندگی ملائکہ کا کام ہے اور عاشقی انسانوں کا کام ہے، بندگی میں تو صرف سجدہ و عبادت آتی ہے لیکن عاشقی میں انسان سجدوں سے بھی بڑھ کر چاہتا ہے یعنی اپنے آپ کو فنا کرکے اللہ رب العزت کا قرب چاہتا ہے-اس لئے الطاف حسین حالیؒ فرماتے ہیں کہ:
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا |
اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین یہی دعوت و پیغام لے کر آئی ہے کہ آج یہی انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنے شرف و کمالات سے نوازا ہے وہ اس دنیا کی رسوا ترین ہستی بن گیا ہے-فرقہ وارانہ جنونیوں کے قتل اور تجربے کا ایندھن اور مواد یہ انسان بن گیا ہے-سیاسی لیڈر کی سیاسی پارٹیوں اورمتشدّد مفکرین کی فکر کی بھٹیوں میں جلنے کا ایندھن یہ انسان بن گیاہے -خدارا اس انسانیت کی لاج سیکھو، اس انسانیت کا شرف سیکھو، انسان کی حرمت کرنا سیکھو، اللہ تعالیٰ نے اس کو کیا کیا رُتبے عطا کئے ہیں-اس کو ذِلّت، تحقیر اور توہین کی نظر سے نہ دیکھو، کوئی امیر ہے یا غریب، صحت مندہے یا بیمار، گورا ہے یا کالا، غلام ہے یا سردار، حاکم ہے یارعیت، جو کچھ بھی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسے انسان کَہ دیا تو قرآن نے اس کے شرف کی ضمانت دی ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتاکیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو عزت کا تاج پہنایا ہے-
اصلاحی جماعت کےیہ مبلغین جو امن کی سفید دستاریں اپنے سروں پر سجائے آپ کی گلیوں، کوچوں، مساجد، گرد و نواع میں دعوت دیتے ہیں ان کی صدا ہی یہی ہے کہ:
’’ فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہِ‘‘[7] ’’پس اللہ کی جانب دوڑو‘‘-
اس لئے کہ اللہ نے تمہیں وہ شرف و عزت عطا کردیا ہے-اس لئے میں آپ تمام ساتھیو، بزرگوں، بھائیو اور خاص کر نوجوانوں! کو یہ دعوت دینا چاہوں گا کہ آپ آئیے یہ جماعت یہی دعوت لےکر نکلی ہے کہ عظمت انسانیت کا دفاع کیا جائے، عظمت انسانی کواپنے شہروں اور قصبوں میں اجاگر کیا جائے-اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف و مسرور ہیں لیکن اس کے باوجود وقت نکالیں کیونکہ یہ کام کسی جماعت و تحریک کے لئے نہیں بلکہ فقط اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی رضا و خوشنودی کے لئے ہے- یہ جماعت نہ کسی فرقے وطبقے کے خلاف تشدد سکھاتی ہے، نہ اسلحہ بازی ہے اور نہ ہی اس میں منافقت و نفرت کا درس دیا جاتا ہے یہ تو محبت و رحمت کا پرچارکرتی ہے یہ تو دین رحمت کی کتابِ رحمت کی داعی ہے-اس لئے آئیے! اس مخلوق کو خدا کی اس رحمت کی لپیٹ میں لایا جائے جس کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے انسان کوشرف و کمالات عطا کیے ہیں-
جتنا وقت آپ نکال سکتے ہیں نکال کر اصلاحی جماعت کے ان مبلغین کے ساتھ چل کر اس پیغام کو خود بھی سیکھیں تاکہ آپ لوگوں تک بھی اس پیغام کو پہنچا سکیں تاکہ لوگ صحیح معنوں میں اپنے رب کی جانب راغب ہوکر اور اس کی رضا و خوشنودی کو پالیں-اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو---!
٭٭٭
[1](تاویلات نجمیہ، جلد:4، ص:94-95)
[2](تفسیر الملا علی القاری، جلد:3، ص:155-156)
[3](تفسیر بحر المدید)
[4](رسالۃ الغوثیہ)
[5](سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن)
[6](زبورِعجم)
[7](الذاریات:50)
یہاں تک تو بیان تھا انسان کے شرفِ ظاہری کا، اب آئیے انسان کی کرامتِ باطنی کی طرف جس میں علامہ روز بہان البقلی الشیرازی ()نے پانچ چیزیں بیان فرمائی ہیں:
’’وَلَھُمْ کَرَامَۃُ الْبَاطِنِ، وَھِیَ الْعَقْلُ وَ الْقَلْبُ وَ الرُّوْحُ وَ النَّفْسُ وَالسِّرُّ، وَفِیْ ھٰذِہِ الْجُنُوْدِ خَزَآئِنُ رَبُوْبِیَّتِہٖ فَالنَّفْسُ مَعَ جُنُوْدِ قَہْرِہٖ، وَ الْعَقْلُ مَعَ جُنُوْدِ لُطْفِہٖ، وَ الْقَلْبُ مَعَ جُنُوْدِ تَجَلَّی صِفَاتِہٖ، وَ الرُّوْحُ مَعَ جُنُوْدِ تَجَلَّی ذَاتِہٖ، وَالسِّرُّ مُسْتَغْرِقٌ فِیْ عُلُوْمِ اَسْرَارِہٖ، فَالْکُلُّ مُکَرَّمَۃٌ بِکَشُوْفِ الصِّفَاتِ مِمَّنْ لَہٗ اسْتِعْدَادُ رُؤْیَۃِ الصِّفَاتِ، وَ مَنْ لَہُ اسْتِعْدَادُ رُؤْیَۃِ الذَّاتِ فَھُوَ فِی مُشَاہِدَۃِ الذَّاتِ‘‘
’’ اور ان کے لئے باطن کی تکریم بھی ہے اور یہ عقل و قلب اور روح و نفس اور سِرّ ہیں اور ان لشکروں ( عقل و قلب اور روح و نفس اور سر)میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے خزانے ہیں پس نفس اللہ پاک کے قہر کے لشکروں کے ساتھ ہے اور عقل اللہ پاک کے لطف کے لشکروں کے ساتھ ہے اور قلب اللہ پاک کی صفاتِ تجلی کے لشکروں کے ساتھ ہے روح اللہ پاک کی ذاتی تجلی کے ساتھ ہے اور سر اللہ تعالیٰ کے اسرار کے علوم میں مستغرق ہے اور یہ تمام صفات کے پردوں کے ساتھ ان کے لئے مکرم ہیں جو رؤیتِ صفات کی استعداد رکھتے ہیں اور جو ذاتِ باری تعالیٰ کی رؤیت کی استعداد رکھتے ہیں وہ مشاہدہ ذات میں غرق ہیں‘‘-
پانچ چیزیں ہیں؛ عقل، قلب، روح، نفس اور سر(راز)-یہ تمام مقامات انسان کے باطن سے تعلق رکھتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف و تکریم کو قائم کرنے کے لئےاپنی شانِ ربوبیت سے خزائن عطا فرمادیے ہیں -
شیخ کا یہ فرمان کہ ’’نفس کے ساتھ اس کے قہر کے لشکر ہیں‘‘ کے معانی یہ ہیں کہ انسان اگر اپنے نفس کی پیروی میں بھاگتا رہے تو اس کے نتیجے میں یہ قہرِ الٰہی کے قریب ہوتا جائے گا کیونکہ لذاتِ نفسانیہ انسان کیلئے امتحان و آزمائش کا درجہ رکھتی ہیں جن میں وقتی طور پہ انسان لذت پالیتا ہے لیکن ابدی لذتوں سے دور ہو جاتا ہے- نفسانی لذتیں وقتی ہیں اور ابدی لذتوں سے انسان کو غافل کرنے والی ہیں، نہ صرف ابدی لذتوں سے بلکہ احکاماتِ الٰہی کی بجا آوری سے بھی دور لے جاتی ہیں - اس لئے شیخ روز بہان علیہ الرحمہ نے قول کیا ہے کہ نفس کے ساتھ قہر کے لشکر ہیں، لذاتِ نفسانی کا گرفتار قہرِ رحمانی کا حقدار ہے - لہٰذا نفس کے غلبہ سے بچنا انسان کے شرفِ باطنی پہ دلالت کرتا ہے -
عقل اس کے لطف و کرم کے لشکروں کے ساتھ چلتی ہے- یہاں عقل سے مُراد فقط ذہانت ہی نہیں بلکہ اس سے مُراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے یہ حلال و حرام، حق و باطل، پاکیزگی و ناپاکی، شکر و کفر ، سچ اور جھوٹ کے مابین واضح فرق رکھنے کے قابل ہوتا ہے- ایسی عقل انسان کو پاک بناتی ہے، حق کے قریب کرتی ہے، کذب و مکر و فریب سے دور کرتی ہے ، عملِ حرام، قولِ حرام اور لُقمہ حرام سے نجات دلاتی ہے - آدمی کی ایسی عقل کو شیخ علیہ الرحمہ لُطفِ خداوندی کے لشکروں میں سے سمجھتے ہیں -
قلب اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ صفات کے ساتھ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کےدل پر اپنی رحیمی وکریمی اور غفور ور حیم ہونے کی تجلی کرتا ہے جس کے ذریعے انسان کا قلب نرم ہو جاتا ہے اور اس کے دل سے سختی جاتی رہتی ہےجس کے باعث انسان اللہ کی مخلوق کے ساتھ رحیمی و کریمی کا معاملہ کرتا ہے- اس لئے یہ بھی انسان کا شرف ہے کہ اس کےدل کو اللہ تعالیٰ اپنی صِفات کے اَنوار سے مُنوّر فرماتا ہے – مُطالعۂ تصوُّف میں یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ اکثر صُوفیاء کے القابات سخاوت کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں، مثلاً داتا گنج بخش، سخی سُلطان باھُو، سخی سرور، غوث الاعظم ()- اس پہ اگر غور کریں کہ اِس کی کیا وجہ ہے؟ تو شیخ روز بہان بقلی شیرازی کی درج بالا عبارت یہ عُقدہ کُشائی کرتی ہے کہ قلبِ صُوفی صفاتِ باری تعالیٰ کی تجلیّات سے منور ہوتا ہےجس سے وہ صفات اس بندے کے کردار کو رضائے الٰہی کے مطابق ڈھالتی چلی جاتی ہیں- جو چیز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کیلئے پسند کرتا ہے اہل اللہ صوفیا بھی مخلوق کیلئے وہی پسند کرنے لگتے ہیں- جیسے رحم، کرم، عفو و درگزر اور سخاوت- اس لئے سخاوت اُن تجلیّاتِ صفات کی برکات سے وجودِ صوفی میں پیدا ہوتی ہے اس لئے اکثر صوفیاء کو سخاوت کی مختلف اصطلاحات سے مُلقَّبْ کیا جاتا ہے- صفاتِ الٰہیّہ کی برکات سے مومن کے کردار کا رضائے الٰہی کے مطابق ڈھل جانا بھی انسان کی عظمت کی دلیل ہے -
علامہ روز بہان بقلی شیرازی () تفسیر’’عرائس البیان‘‘ میں فرماتے ہیں کہ روح اللہ تعالیٰ کی ذات کی تجلی سے جلا پاتی ہے اور روح کو اللہ تعالیٰ کے انوار کی تجلی نصیب ہونا یہ بھی انسان کے باطنی شرف میں سے ہے-
اِسی طرح سرّ اللہ تعالیٰ کے علومِ رموز میں غرق ہے اور یہ مقام سر انسان کو نصیب ہے کیونکہ اس مقام سے انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کا راز بن جاتا ہے اس لئےیہ مقام بھی انسان کے شرف انسانیت پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اکثر صوفیاء نے اِس پہ حدیثِ قُدسی بھی بیان فرمائی ہے -
شیخ کے درج بالا قول کے مطابق روح سے اوپر جتنی بھی چیزیں بیان کی گئی ہیں یہ تمام اللہ تعالیٰ کی صفات کی استعداد رکھتی ہیں-یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے انوار و تجلیات صرف رُوحِ انسان کو نصیب ہوتی ہیں جو کہ ایک اعلیٰ و ارفع مقام ہےجس سےانسان تمام دیگر مخلوقا ت سے اشرف و اعلیٰ ہو کر ’’اشرف المخلوقات‘‘ کے درجہ کا حقدار ٹھہرتا ہے -
الشیخ الامام احمد بن عمر بن محمد، نجم الدین الکبرٰی() جن کو اس دنیا سے گزرے ہوئے کم و بیش 800 برس ہوگئے ہیں؛ اسی آیت کے ضمن میں اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: [1]
’’وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ اَیْ: خَصَّصْنَا ھُمْ بِکَرَامَۃٍ تُخْرِجُھُمْ عَنْ حِیْزِ الْاِشْرَاکِ وَ ھِیَ عَلٰی ضَرْبَیْنِ: جَسْدَانِیَۃٌ، وَ رُوْحَانِیَۃٌ
’’اور ہم نے اولادِ آدم کو کرامت کا تاج پہنایا ہے یعنی ان کو ایسی کرامت کے ساتھ خاص کیا ہے جو ان کو شرک سے نکالتی ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں-ایک جسمانی اور ایک روحانی ‘‘
فَالْکَرَامَۃُ الْجَسْدَانِیَۃِ: عَامَّۃٌ یَسْتَوِیْ فِیْھَا الْمُوْمِنُ وَ الْکَافِرُ وَھِیَ تَخْمِیْرُ طِیْنَتِہٖ بِیَدِہٖ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحاً، وَ تَصْوِیْرُہُ فِی الرِّحْمِ بِنَفْسِہٖ، وَ اِنَّہٗ تَعَالیٰ صَوَّرَہٗ فَأَحْسَنَ صُوْرَتَہٗ وَ سَوَّاہُ فَعَدَلَہُ فِیْ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَاشَآءَرَکَّبَہُ،
’’جہاں تک جسمانی تکریم کا تعلق ہے اس میں مومن اور کافر شامل ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے دستِ قدرت سے 40دنوں تک اس کی مٹی کے خمیر کو تیار کیا اور خود اس کی تصویر کو شکمِ مادر میں بنایا اور یہ کہ اللہ پاک نے اس کی صورت کو احسن صورت عطا فرمائی اور اس کو برابر کیا اور (اپنے مقام پر) ٹھیک ٹھیک پیدا فرمایا یعنی کہ جس صورت میں چاہا اس کو ترکیب دیا ‘‘
وَ الْکَرَامَۃُ الرُّوْحَانِیَۃِ: عَلٰی ضَرْبَیْنِ عَامَّۃٌ، وَ خَاصَّۃٌ
’’روحانی تکریم کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک عام اور ایک خاص‘‘
فَالْعَامَّۃُ: اَیْضاً یَسْتَوِیْ فِیْھَا الْمُؤْمِنُ وَ الْکَافِرُ وَ ھِیَ اَنْ کَرَّمَہٗ بِنَفْخِہٖ فِیْہِ مِنْ رُوْحِہٖ ‘‘
’’پس جہاں تک عام کا تعلق ہے اس میں بھی مومن اور کافر برابر ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس میں (اللہ پاک نے )اپنی روح پھونک کر اس کو عزت دی‘‘-
یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ’’روحی‘‘ فرمایا ہے جس کا اشارہ مفسرین کرام نے ضمیر متکلم کی طرف کیا ہےیعنی اس کا اشارہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی جانب ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنی ذات سے منو ر شدہ روح کو آدم علیہ السلام کے وجود میں داخل کیا ہےجو کہ شرفِ انسانی پر سب سے بڑی دلیل ہے-
پھر مزید لکھتے ہیں کہ:
’’وَعَلَّمَہُ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا، وَ کَلَّمَہٗ قَبْلَ اَنْ خَلَقَہٗ بِقَوْلِہٖ (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ) فَأَسْمَعَہُ خِطَابَہٗ وَ اَنْطَقَہٗ بِجَوَابِہٖ بِقَوْلِہٖ: (قَالُوْ بَلٰی) وَ عَاھَدَہٗ عَلَی الْعُبُوْدِیَّۃِ، وَ أَوْلَدَہٗ عَلَی الْفِطْرَۃِ، وَ أَرْسَلَ اِلَیْہِ الرُّسُلَ وَ اَنْزَلَ عَلَیْہِ الْکُتُبَ وَ دَعَاہُ اِلَی الْحَضْرَۃِ، وَ وَعَدَہُ الْجَنَّۃَ وَ خَوَّفَہُ النَّارَ، وَ أَظْھَرَ لَہُ الْآیَاتِ وَ الدَّلَالَاتِ الْمُعْجِزَاتِ
’’ اور (اللہ پاک) نے اس کو تمام اسماء سکھائے اوراس کی (انسان)تخلیق سے پہلے اس سے ’’الست بربکم‘‘سے کلام کیا پس (اللہ پاک) نےاُس کو اپنا خطاب سنایا اور اس (انسان ) کے جواب میں ’’قالو بلیٰ‘‘ سے اس کو بلوایا اور اللہ پاک نے اس (انسان) سے بندگی کا معاہدہ کیا اوراُس کو (اپنی خاص)فطرت پر پیدا فرمایا اور اس کی طرف رُسل ()مبعوث فرمائے اور اس پر کتابیں نازل فرمائیں اور اس کو اپنی بارگاہ کی طرف بلایا اور اس سے جنت کا وعدہ فرمایا اور دوزخ سے ڈرایا اور اس کی (ہدایت) کے لئے آیات، دلائل اور معجزات کا ظہور فرمایا-
اللہ تعالیٰ نے انسان میں اپنی روح کو پھونکا،اس کو اسماء کا علم سکھایا،الست بربکم کَہ کر خطاب فرمایا، رب نے اس کو یہ شرف بھی عطا کیا کہ وہ اپنے رب سے کلام کرے-اس سے بڑھ کر انسان کی اور کیا عزت ہو سکتی ہے کہ خالق کائنات نے انسان کے وجود میں ایسی روح رکھ دی ہے جو ’’قالو بلی‘‘ کَہ کر اپنے مولا سے کلام کر چکی ہے- یعنی خالق کائنات اپنی مخلوق سے خطاب کرتا بھی ہے، سنتا بھی ہےاور اسے پسند بھی کرتا ہے-اسی طرح اللہ تعالیٰ کا انسان کے ساتھ بندگی کا معاہدہ کرنا، اس کو اپنی فطرت پر پیدا کرنا،اس کی جانب اپنے رُسل عظام () کو بھیجنا انسان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہےکہ رب ذوالجلال کس قدر اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے کہ میرا بندہ اپنے نفس کی خطاؤں اور شیطان کے بہکانے کی بدولت شرک و گمراہی میں مبتلا نہ ہو جائے - اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے محبت کرتے ہوئے اپنے بندوں کو یہ عزت عطا کی ہے کہ اپنی بارگاہ کی منتخب شدہ ارواح کو ا ن کی ہدایت کے لئے ان کے درمیان بھیجا ہے-
اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کی جانب کتابیں، صحیفے اتار کر اس کی طرف مخاطب ہوا ’’یایھا الانسان‘‘، ’’یایھا الناس ‘‘ - علامہ نجم الدین کبرٰی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا انسان سے محبت کرتے ہوئے اس کو عذاب سے بچانے کے لئے اس کی طرف کتابیں اور صحیفے بھیجنا بھی اس کے شرف پر دلالت کرتاہے-
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کو اپنی طرف دعوت دینا یہ بھی شرف انسانی کی ایک دلیل ہے-مثلاً آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کا دوست بنے،آپ اس سے محبت کریں وہ آپ سے محبت کرے-اس کے لئے آپ کسی ذلیل شخص کو منتخب کریں گے یا کسی مکرم کو؟ یقیناً کسی صاحبِ عزت کو-اسی طرح جس کورب نے اپنی بارگاہ کی جانب اپنے تقرب،اپنی حضوری ومعرفت اور اپنا ہم راز بنانے کے لئے بلوایا ہے تو بتائیے کیا اس نے انسان کو مکرم بنا کر بلوایا ہے یا ذلیل بنا کر؟اس لئے امام نجم الدین کبرٰی فرماتے ہیں کہ انسان کا باطنی طورپر جو عام باطنی درجہ ہے اللہ نے اسے اپنا قرب عطا کرنے کے لئے منتخب فرمایا ہے تو یہ بھی اس کے عزت وشرف پر دلالت کرتا ہے-
مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے جو جنت کا وعدہ فرمایا ہے وہ بھی اس کے شرف پردلیل ہے کہ اللہ نے اس کی رہائش، مسرت و راحت کے لئے ایسا مقام منتخب کیا جہاں دودھ اور شہد کی پاکیزہ نہریں بہتی ہیں، محلات و روشنیاں ہیں اور گندگی کا شائبہ تک نہیں ہے-عام انسانی زندگی میں بھی ایسا اہتمام آپ فقط اس مہمان کےلئے کرتے ہیں جس کو آپ قابلِ صد عزت و تکریم سمجھتے ہیں-اس لئے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو جنت کی بشارت دینا بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتا ہے-
اسی طرح انسان کو جہنم کی آگ سے ڈرانا یہ بھی انسان کے شرف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر رضائے الٰہی کو یا آسان لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی پسند کو دیکھا جائے تو وہ جہنم میں جلائے جانے کی بجائے اپنے کیلئے جنّت کی نعمتوں کو زیادہ پسند فرماتا ہے مگر قانُونِ قُدرت ہے کہ اگر انسان نے اپنے نفس سے، اپنی ذات اور اعمال سے انصاف نہ کیا تواس کو آگ میں جلایا جائے گا-چونکہ انسان عزت و تکریم کا حامل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کو ایک ?