انسان مادیت اور روحانیت دو تقاضوں کا منبع ہےاور قدرت کا ازل سے یہ طریق رہا ہے کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل اور تعلیم وتربیت کےلئے انبیاء کرام(علیہم السلام) اللہ پاک کے پیغام کو خلق تک پہنچاتے رہے اور اس کی تکمیل آقا دو جہاں (ﷺ) پر ہوئی اور آپ (ﷺ) پر توحید کے ساتھ ساتھ اصل مقصد عقیدہ ختم نبوت سامنے آتا ہے- در حقیقت عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت پر یقین کامل ہونا چاہیے جس میں ’’اقرار باللسان اور تصدیق بالقلبہے‘‘-ختم نبوت (ﷺ) کی یہی تربیت رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے اصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو عطافرماکر ان کو درخشندہ ستارے قرار دیاکہ جو بھی اس فیض کو حاصل کرے تو وہ تمام مخلوق کو اپنے خالق حقیقی تک رسائی کا طریق بتا ئےتاکہ اس کرۂ ارض سے انسانیت کےدکھ و تکلیف دور ہو سکیں-آقا علیہ السلام کے فیض کا یہ سلسلہ تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین کے ذریعے تاقیامت چلتا رہے گا-
مالک کریم کی اپنےبندوں سے محبت کا عالم دیکھیئے! کہ جب بھی مسلمانوں پریا ان اسلامی معاشروں پر کڑا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرما کران کی حالتِ زار پر رحم فرمایا اور ان کے ذریعے سے معاشرے میں امن کو عام فرمایا-صوفیاء کرام جن کا ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے کہ وہ اپنا کام رضائے الٰہی کی خاطرسرانجام دیتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں حُبِ الٰہی،سنتِ رسول (ﷺ) اور انسان دوستی کے احساسات موجزن ہوتے ہیں جو کہ ریاکاری سے پاک ہوتے ہیں جس کا حصول محض جنت یا اس کی آسائش نہیں بلکہ رضائے الٰہی ہوتی ہے-ان کی ریاضت کا جذبہ فقط عشقِ الٰہی ہوتاہے جس سے وہ انسان کی ظاہری و باطنی نظریاتی تربیت فرماتے ہیں-
اگر ہم اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں تو آج بھی جب ہر طرف اندھیرا چھا چکا ہے،مادی جبلتوں،توہم پرستی، خدا سےدوری اور غفلتِ قلب کی وجہ سے تمام انسانیت لمحہ بہ لمحہ انتشارکا شکار ہورہی ہے جس سے ہر لمحہ و ہر لحظہ انسانیت کا کڑی تکلیف سے گزر رہا ہے- ان تمام خصلتوں کی وجہ پاکیزگی ٔباطن نہ ہوناہے- آج ہمیں آقا پاک (ﷺ) کے اسی فیضان کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس سے انسان اپنی زندگی میں تکالیف کی بجائے روحانی سکون کو جاگزیں کرے-تو مالکِ پاک نے آج بھی ہماری حالتِ زار پر کرم فرمایا ہے کہ آج کے اِس مادہ پرستانہ دور میں سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ سے ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ اِسی پیغامِ اِنسانیت و پیغامِ امن کو لے کر چلی ہے کہ اِنسان کو انسانیت کا محافظ و نگہبان بنایا جائے-
یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیرتمام مکاتبِ فکر،تمام مذاہبِ عالَم کے لوگ سنتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ واقعتاً یہی وہ جماعت ہے جو قرآن و سُنّت کی صحیح ترجمان اور تعلیماتِ اَسلاف و اکابر کی حقیقی مُبلّغ ہے جس کا اَوّل و آخر مقصدِ انسانیت کی فلاح و بقاء اور ظاہری و باطنی پاکیزگی ہے -اِس تحریک کے بانی سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) (1947ء-2003ء) ہیں آپ (قَدَّسَ اللہ سرّہٗ)نے انسان کے ظاہر و باطن کی تطہیر کے لئے ہی ’’اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ‘‘کی بنیاد رکھی-
اِس دردِ انسانیت کو عامۃ الناس کے دل و دماغ میں جاگزیں کرنے کے لئے ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘کے زیرِ اہتمام جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)، سرپرستِ اعلی ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ کی قیادت میں کئی تعلیمی ، تدریسی ، تحقیقی اور اشاعتی ادارے قومی و بین الاقوامی سطح پہ کام کر رہے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ عامۃ النّاس کی راہنمائی اور تربیّت و اِصلاح کیلئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر محسنِ انسانیت فخرِ موجودات (ﷺ) کے اسمِ گرامی سے منسوب محافل میلادِ مصطفےٰ(ﷺ) اور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) کانفرنسز (Conferences) کے سالانہ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں-
یہ اجتماعات نہایت ہی منظّم اور بامقصد طریقے سے ہوتے ہیں-ہر پروگرام کی ترتیب اس طرح سے ہوتی ہے کہ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب مرکزی جنرل سیکرٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ ، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے، صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ اصلاحی جماعت الحاج محمد نواز القادری صاحب خطاب کرتے ہیں-پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں نوجوان طبقہ بھی نہایت جوش و جذبہ سے بہت کثیر تعداد میں شامل ہوتا ہے-جو لوگ اِس دعوتِ اِصلاح و تربیّت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت ہونے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-
امسال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:-
ڈیرہ اسماعیل خان: 2017-12-23 اڈا گراؤنڈ پہاڑ پور
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘[1] |
|
’’پیارے محبوب (ﷺ)آپ فرمادیں کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘- |
اطاعت اور اتباعِ رسول اللہ (ﷺ) ہر مسلمان پر لازم ہے-اطاعت سے انعام وکامیابی نصیب ہوتی ہےاور اتباع رسول سے بندہ کے گناہ بھی معاف ہو جاتے اور اللہ پاک بندہ سے محبت بھی کرتا ہے-اتباع میں سب اہم نقطہ دل کوذکرالٰہی سے زندہ کرنا ہے‘‘-
ڈی جی خان 2018-12-24 سلطانیہ میرج ہال
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’ جہاں پر انسانیت کو شرف سے نوازا گیا وہیں اس کے اوپر ذمہ داریاں بھی عائد کیں جن کو نبھانا اور عملی جامہ پہنانا انسانیت کا عظیم فریضہ ہے، جن کا تذکرہ قرآن مجید فرمایا:
’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ‘‘[2] |
|
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا‘‘- |
آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے فریضہ کو اداکرہے ہیں؟ یا ہم نے کبھی اپنے اس فریضہ کو ادا کرنے کی کوشش کی؟ اللہ تعالیٰ کے شکر کو بجا لانے کیلئے صوفیاء کرام نے ایک طریق بتایا ہےکہ اے انسان! تم اپنی سانسوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں لگا کر اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو‘‘-
بہاولپور 2018-12-25 وکٹوریہ پیلس
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’اولیاء کرام عوام کی توجہ اس راستے کی جانب مبذول کرواتے ہیں جس میں دنیا وعقبیٰ سے ماورا ہوکر فقط رضا الٰہی کو اختیار کیا جائے کیونکہ اہل اللہ فرماتے ہیں:
طَالِبُ الدُّ نْیَامُخَنَّثٌ وَّطَالِبُ الْعُقْبٰی ’’طالب ِدنیا مخنث ہے، طالب ِعقبیٰ مؤنث ہے
مُؤَنَّثٌ وَّطَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکَّرٌ‘‘ اور طالب ِمولیٰ مذکر ہے‘‘-
یعنی جو فقط دنیا کا طالب ہے اس کا شمار نہ تو مردوں میں ہوتا ہے اور نہ عورتوں میں اور جو فقظ جنت کا طالب ہے وہ بھی مرد کہلانے کا حقدار نہیں بلکہ طریق صوفیاء میں حقیقی مرد وہ ہے جو اپنے رب کا طالب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے اور انسان کو اپنی ذات کی پہچان کے لئے تخلیق فرمایا، جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا:
’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ ‘‘ [3] ’’پس میں نے مخلوق کو پیدا فرمایا تاکہ میری پہچان ہو‘‘-
چشتیاں 2018-12-26 میونسپل اسٹیدیم
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’اللہ تعالیٰ نے جس قدر تمام مخلوقات میں انسان کو شرف و بزرگی سے نوازا ہے اسی قدر اس کو سمجھنا بھی آسان نہیں بلکہ کسی ایسے استاد اور راہبر کی ضرورت ہے جو اس میں اترنے کا فن جانتا ہو- مگر آج حضرت انسان اپنے مقام سے غافل ہوکردنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا ہےجس کی وجہ سے وہ اپنے مالک و خالق کو بھُلا بیٹھا ہے-بلکہ در اصل!اس نے خود کو بھلادیا ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘[4] |
|
’’سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (بے مقصد) پیدا کیا ہے او ریہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟‘‘ |
پاکپتن شریف 2018-12-27 عمر گرینڈمارکی
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’ دورِ حاضر میں زوال سے نکلنے کا واحد راستہ قرآن و سُنّت پر عمل ہے-جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ھُدًیْ لِّلنَّاسِ‘‘ ’’(قرآن) پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے‘‘-
مزید حدیث پاک میں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ‘‘ ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور سکھائے ‘‘-
قرآن پاک کو سیکھنے کے لئے سب سے اہم تین درجے یہ ہیں:
1. قرآن پاک کو پڑھنا |
2. قرآن پاک کے معانی و مفہوم کو سمجھنا |
3. قرآن پاک کے مقاصد کو سمجھنا |
اس کے بعد قرآن کریم پر عمل اور پریکٹیکل ہے جس کو ہم نے ترک کر دیا اور زوال پذیرہوگئے- اس لئے ہم قرآن و حدیث پر عمل کر کے ہی اپنے ظاہر و باطن کی کامیابی حاصل کرسکتےہیں‘‘-
اوکاڑہ 2018-12-28 فاطمہ جناح پارک
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’آج ہماری کامیابی کا انحصار ذکر اللہ پر ہے-جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا کہ:
’’وَاذْ کُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[5] ’’اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃٌ فِاذَ صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ‘‘[6] |
|
’’بیشک انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے خبردار! وہ دِل ہے‘‘- |
اسی لئے انسان کو چاہیے کہ وہ ہروقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے دل کو پاک کرے تاکہ اُسے دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل ہو-
ساہیوال 2018-12-29 بلدیہ گراؤنڈ
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’دین اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے جس کی پیروی کرنے والوں کواللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں کامیاب فرما دیتا ہے-اللہ رب العزت نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ کو ہمارے لئےنمونہ عمل قرار دیا ہے:
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا‘‘[7]
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (ﷺ) کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے‘‘-
تحقیق کے حضور پاک (ﷺ) کی حیات مبارکہ ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے اور جس جس نے بھی قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئےحضور پاک (ﷺ) کی غلامی اختیار کی تو وہ زمانے کے امام و پیشوا بنا دیے گئے-فرمانِ نبوی(ﷺ)ہے:
’’اصحابی کاالنجوم بایھم اقتدیھم اموتیم‘‘[8] |
|
’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس جس نے بھی ان کی اقتدا اور پیروی کی ہدایت پائی‘‘- |
اللہ تعالیٰ نے بھی ہدایت انسانی کیلئے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرمایا:
’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘[9] ’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘-
ایمان یافتہ لوگوں کی صحبت ایمان کی تقویت اور تکمیل کا سبب ہے-اس لئے اولیاء اللہ لوگو کو اس طریق کی دعوت دیتے ہیں جو بندے کو اپنے حقیقی مالک و خالق کے قرب و وصال کا پتا دیتا ہے‘‘-
ٹوبہ ٹیک سنگھ 2018-12-30 ضلع کونسل
صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’قرآن مجید بندے اور خدا کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے اور ضابطہ حیات ہے-مگر ہم اپنا اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمارا قرآن کریم سے ایک فرضی سا تعلق رہ گیا ہے ہم نے کبھی قرآن مجید میں جھانک کر نہ دیکھا ہےاور نہ تدبر و تفکر کرنے کی کوشش کی-حالانکہ اگر ہم قرآن و سنت میں غور و فکر کریں تو اسی میں ہماری عظمت و توقیر کا راز پوشیدہ ہے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ‘‘[10] ’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہےجو سب سے درست ہیں‘‘-
مظفر گڑھ 2019-01-02 سیال میرج ہال
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’ انسان کی تکمیل کے لئے انسان کے دو پہلوؤں پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے:
1-انسان کا ظاہری وجود
2-انسان کا باطنی وجود
انسان کے ان دو وجود کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْنَ‘‘ [11] |
|
’’پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا‘‘- |
یعنی انسان کی تکمیل کا پہلا مرحلہ اس کا ظاہری وجود ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ جب مَیں اسے تیار کرلوں یعنی اس کے ظاہری وجود کی تکمیل کردوں -اس کے بعد دوسرا مرحلہ روح کو داخل کرنے کا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اس کے ظاہری وجود کو پیدا کرکے اس کے اندر نورانی روح کو داخل فرمادوں یعنی انسا ن کے باطن کی بھی تکمیل کردوں-جب انسان کی تکمیل یعنی انسان کے ظاہر و باطن مکمل ہو جائیں تو اے ملائکہ! تم فوراً سجدے میں گرجانا-جس طرح آج ہمیں،ہمارے ظاہری وجود کو توانا و درست اور رہنے کے لئے ظاہری غذا کی ضرورت ہے اسی طرح اپنے باطن کے وجود توانا و درست رکھنے کے لئے اللہ پاک کے ذکر کی ازحد ضرورت ہے کیونکہ جب ظاہر و باطن دونوں توانا ہوتے ہیں تب جا کر انسان کی تکمیل ہوتی ہے‘‘-
راجن پور 2019-01-03 میونسپل اسٹیڈیم گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
اللہ تعالیٰ نے انسان کے سر پہ نیابت کا تاج رکھا ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ[12] ’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی‘‘-
شرفِ انسانیت اور معراج و مقام انسانیت حاصل کرنے کیلئے حضور نبی کریم (ﷺ) اطاعت و اتباع ضروری ہے-
کندھ کوٹ 2019-01-04 چیزل شاہ شادی ہال
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’اللہ رب العزت نے انسان کو دو وجود عطا کیے ہیں ایک مادی سفلی کثیف جسم ہے جس کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے ایک روحانی علوی لطیف جسم ہے جس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے ان دونوں کے خورد و نوش اور پاکیزہ وطاہر ہونے کے الگ الگ تقاضے ہیں-افسوس کہ! آج ہم صرف اپنے ظاہر تک محدود ہو کر رہ گئے اور اپنے باطن کے تقاضوں سے غافل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوکر اپنے رب کو ہی بھول بیٹھے ہیں-اصلاحی جماعت ہم سب کو خبر کرنے آئی ہے کہ ہم اپنے جسم اور روح دونوں کے حقوق کی بجا آوری کرکے اپنے حقیقی مقصد کو حاصل کریں‘‘-
جیکب آباد 2019-01-05 حمیدیہ ہائی سکول گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’قرآن کا نزول انسانوں کی ہدایت کے لئے ہوا ہے زندگی کے ہر گوشے میں قرآن انسان کی رہنمائی کرتا ہے لیکن افسوس! کہ آج ہمارا تعلق قرآن سے کمزور ہو گیا ہے کیونکہ یہ ایک اٹل قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی قوم کو ترقی عطا فرماتا ہے تو قرآن پاک کے ذریعے ہی عطا فرماتا ہے-جو قومیں زوال پذیر ہیں ان کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہی یہی ہے کہ ان قوموں نے قرآن کے اصول کو چھوڑ کر غیروں کے اصولوں کو اپنایا ہے-یاد رکھیں! کل قیامت کے دن حضور رسالتِ مآب (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالیہ میں یہی عرض کریں گے کہ:
’’وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِیِ اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا ‘‘[13] |
|
’’اور رسولِ (اکرمﷺ) عرض کریں گے کہ: اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘- |
بقول حضرت علامہ محمد اقبالؒ :
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر |
|
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر[14] |
اگر آج ہم!دنیا و آخرت میں بلندی و کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کے ساتھ پھر سے اپنا رشتہ قائم کرنا ہوگا‘‘-
قبو سعید(شہداد کوٹ) 2019-01-06 گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’اولیاء اللہ کی تعلیمات کامقصود یہ ہے کہ جسم کے اندر جو روح مردہ ہے اسے زندگی نصیب ہو اور روح کی زندگی ذکر اللہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللہِ تَعَالٰی ‘‘ [15] |
|
’’ ہر چیز کو صاف کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ‘‘- |
آج! ’’اصلاحی جماعت‘‘اللہ پاک کے اسی ذکر کو عام بھی کر رہی ہے اور اسے حاصل کرنے کی دعوت بھی دے رہی ہے تاکہ لوگ ذکر اللہ کے ذریعے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرسکیں‘‘-
گھوٹکی 2019-01-07 سرکاری باغ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب: الحاج محمد نواز القادری
’’قرآن مجید فرقان حمید ہمیں دو گروہوں کے متعلق بتاتا ہے ’’حزب اللہ‘‘اور’’حزب شیطان‘‘- یعنی ایک گروہ رحمانی ہے اور دوسرا شیطانی-دین اسلام ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول (ﷺ) کی طرف بلاتا ہے جبکہ شیطان ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے-اس لیےاللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُواْ فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشِّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عُدُوُّ مُّبِیْنٌ‘‘[16] |
|
’’اے ایمان والو! اِسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی مت کرو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘- |
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق جو راستہ اختیار کرنا چاہتے ہو اسے اختیار کرو-فرمانِ خداوندی ہے:
’’اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا‘‘[17] |
|
’’بے شک ہم نے اسے(حق وباطل میں تمیز کرنے کے لیے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے‘‘- |
شکر کا راستہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کی اتباع میں ہے اور اس کے برعکس اگر شیطان کے راستے کو اختیار کرو گے تو شیطان تمہیں کفر کے بہکاوے میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات سے غافل کردے گا-اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے شکر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے مالکِ حقیقی کی یادمیں رہ کر اس کا قرب و وصال حاصل کریں‘‘-
رحیم یار خان 2019-01-08 سکول گراؤنڈ
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
’’صاحبزادہ صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں عنوانِ تصوف پر سیر حاصل گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ تصوف تکبر کو مٹاکر عاجزی کو پیدا کرتا ہے-زبان کی سختی کو ختم کر کے نرمی پیدا کرتا ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo‘‘[18]
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی (عاجزی)سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں‘‘-
قرآن مجید میں عاجزی سے مراد یہ دونوں باتیں زیر بحث آتی ہیں زبان میں نرمی اور چال میں عاجزی پیدا ہونا-اسی طرح حدیث مبارکہ میں یہ دونوں باتیں ساتھ ساتھ ذکر کی گئی ہیں-جیسا کہ امام طبرانی کی حضرت عبد اللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)کے حجرہ مبارک سے باہر مشرق کی طرف اپنا رخ انور کر کے فرمایایہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور یہ زلزلوں اور فتنوں کی زمین ہوگی-آپ (ﷺ) نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’وَمِنْ ھَا ھُنَا اَلْفَدَّادُوْن‘‘-’’فَدَّادُوْن‘‘ میں دونوں لوگ شامل ہیں سخت گفتار اور سخت رفتا-اس لئے کہ تکبر ناپسندیدہ عمل ہے-
اسی طرح تصوف میں سخاوت کے عنصر پہ پُر مغز گفتگو کی گئی اور مختلف صوفیاء کرام کے واقعات بیان کیے گئے-پھر اس موضوع پربات کی گئی کہ تصوف کے ذریعے وجود سےتعصب اور تشدد کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے- اس کے بعد یہ بات کی گئی کہ صوفیاء کرام لوگوں کےعمل کی وجہ سے ان سے معاملات نہیں کرتےبلکہ اپنی نرمی کے مطابق ان سے معاملہ کرتے ہیں- جیسا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ’’خوشبو کو کہا گیا کہ تم میں یہ عیب ہے کہ تم جس کے پاس جاتی ہو وہی معطر ہوجاتا ہے-خوشبو نے کہامیں جس کے پاس جاتی ہوں یہ نہیں دیکھتی کہ وہ کون ہے بلکہ یہ دیکھتی ہوں کہ مَیں کون ہوں‘‘-اسی طرح تصوف عفو و درگزر کو پیدا کرتا ہے اور نگاہ باطن کو پیدا کرتا ہےجو کہ طریق تصوف میں تربیت کا اولین معیار ہے- اس پر خلفائے راشدین کی حیاتِ مبارکہ سے مستند حوالہ جات کے ذریعے دلائل پیش کئے گئے کہ صحابہ کرام اور خاص کر خلفائے راشدین کو کیسے نگاہِ باطن نصیب ہوئی تھی؟‘‘
لودھراں 2019-01-09
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
صاحبزادہ صاحب نے ’’معاشرتی اصلاح‘‘ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ دین کا مقصد ایسا معاشرہ بنانا ہے جو نقائص اور افراد میں فساد و انتشارپھیلانے والے عنصر سے پاک ہو-ایسے معاشرے کی بنیادیں ہمیں قرآن مجید اور سیرتِ رسول (ﷺ) سے ملتی ہیں-گفتگو کا زیادہ تر موضوع چغلی اور غیبت کی ممانعت کی حکمت پہ رہا کیونکہ کسی کی چغلی اور غیبت کرنا ایک ایسا فعل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی احادیث مبارکہ میں سختی سے منع فرمایا ہے-دورانِ خطاب اس حدیث پاک پہ طویل گفتگو کی گئی کہ حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم (ﷺ) سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ:
أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِيْ كَبِيْرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِيْ بِالنَّمِيْمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيْدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِيْ كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، فَقَالُوْ يَا رَسُوْلَ اللّهِ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا[19] |
|
رسول اللہ (ﷺ) دوقبروں کے پاس سے گزرے جن کو عذاب ہورہاتھا توآپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ ان کو عذاب ہورہاہے اورانہیں کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا (بلکہ ان پر ایسی وجہ سے عذاب ہورہا ہے اگر وہ چاہتے تو اس عذاب سے بچ سکتے تھے) جہاں تک پہلے کا تعلق ہے وہ پیشاب (کے قطروں)سے نہیں بچتا تھااور دوسرا چغلی کھاتا تھاپھرآپ (ﷺ) نے ایک تر ٹہنی پکڑی اور اس کے دو حصے کیے اور ہر ایک کی قبر میں ایک حصہ گاڑھ دیا توصحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے عرض ’’یارسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ) نے یہ عمل کیوں فرمایا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :اس عمل سے اللہ پاک ان دونوں کے عذاب میں تخفیف فرمادے گا جب تک یہ خشک نہ ہوں ‘‘- |
صوفیاء کرام نے قبور پر تازہ پھولوں کو ڈالنے کا طریق اس حدیث مبارکہ سےاخذکیا ہے جیسا کہ امام بخاریؒ حضرت بریدہ اسلمیؒ کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الْأَسْلَمِىُّ أَنْ يُجْعَلَ فِىْ قَبْرِهِ جَرِيْدَانِ [20] |
|
حضرت بریدہ اسلمیؒ نے وصیت فرمائی کہ اس کی قبرمیں دو شاخیں گاڑھی جائیں‘‘- |
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندہ چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی ہے اس لئے جب تک پودوں میں زندگی باقی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں-جن قبور کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے ان قبور پر عذاب کی تخفیف ہوجاتی ہے-اسی طرح جب قبور پر تازہ پھول یا تازہ کھجور کی شاخ کے پتے ڈالے جاتے ہیں تو وہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں جس سے عذاب میں کمی واقع ہوتی ہے-اسی طرح جب تک صوفیاء کرام، والدین یا رشتہ داروں کی قبور کے نزدیک فاتحہ و تلاوتِ قرآن ہوتی رہتی ہے تو اللہ کے ذکر کی برکت کی وجہ سے ان قبور پہ رحمت ہوتی رہتی ہے-یہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا طریق تھا جو خود حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے عمل سے سکھایا تھا-اس طرح کے اعمال اگر امت اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کرے تو ہماری دنیاوی، برزخی اور اُخروی تینوں زندگیاں خوبصورت بن سکتی ہیں‘‘-
ملتان 2019-01-10 قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم
صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)-
خطاب:مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب
’’قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھاجس میں اہل ملتان اور گرد و نواح کے علاقوں سے عظیم ترین اجتماع جمع تھا- لوگ میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) کی محفل میں جوش و خروش سے شرکت کررہے تھے-مرشد کریم حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کے چہرۂ مبارک کی زیارت کی تڑپ لئے ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے-نعت خواہ حضرات صوفی غلام شبیر اور محمد رمضان سلطانی نے نع?