(گزشتہ سے پیوستہ)
(۵) اِعتدل و میانہ رَوِی:-
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعتدال مقرر کیاکہ ہر چیز میں اعتدال کو ،توازن کو، برقرار رکھو میانہ روی کو قائم رکھو،شدت سے اجتناب کرو اور اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًاo} (بنی اسرائیل:۲۹)
’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے-‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنے ہاتھ اپنی گردنوں پہ نہ باندھ لواور انہیں بالکل کھلا چھوڑ کر بھی نہ رکھواگر تم بالکل اپنے سروں پہ باندھ کے بیٹھ جاتے ہو یا انہیں بالکل کھلا چھوڑ دیتے ہو تو فرمایا اس میں تمہارے حصے میں سوائے ملامت کے کچھ نہیں آئے گا - اِس میں ایک اِشارہ تو رزق کی طرف ہے جس سے حکمِ سخاوت بھی معلوم ہوتا ہے اور بخل و فضول خرچی سے منع کرنا بھی معلوم ہوتا ہے - اگر پہلے حصّے کو دیکھیں تو فرمایا {نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھّو} یعنی جہاں آپ کو مال خرچ کرنے کی ضرورت ہے اپنے لئے ، اولاد کیلئے عزیز و اقارب کیلئے ، دینی معاملات میں تعاوُن کیلئے ، اپنی سوسائٹی کی فلاح و بقا کیلئے یا کسی بھی اور مقصد کیلئے تو اُس میں بُخل سے کام نہ لو اور پیچھے نہ ہٹو - حتیٰ کہ اپنے رہن سہن میں بھی جو سہولتیں موجود وسائل میں فضول خرچی کئے بغیر حاصل کی جا سکتی ہیں وہ حاصل کرنی چاہئیں جیسا کہ ابو داؤود شریف اور سنن النسائی شریف میں حدیث پاک ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ ہادیٔ عالم صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو معمولی لباس پہنا ہوا تھا آقا علیہ السلام نے اُن کی حیثیت کو جانتے ہوئے استفسار فرمایا کہ کیا تمہارے پاس مال نہیں ہے ؟ تو انہوں نے جواباً اُس کی تفصیل عرض کی کہ اللہ کا دیا ہو امال ہے جس میں غلام ، اونٹ ، گھوڑے بکریاں اورسب کچھ موجود ہے ، تو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنی ساری نعمتیں عطا کی ہیں تو اُن نعمتوں کا اثر بھی تمہارے اوپر نظر آنا چاہئے- یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عطا فرما رکھّا ہے اُسے اپنے اوپر صرف کرو یہ نہ ہو کہ تم خود مصیبتیں جھیل رہے ہو اور دولت تجوریوں یا اکاؤنٹس میں سوکھ رہی ہو - دوسرے حِصّے میں فرمایا {اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو} یعنی فضول خرچی اور اسراف و تبذیر پہ بھی نہ اُتر آؤ کہ جہاں ضرورت نہ ہو وہاں بھی لُٹاتے رہو، جہاں وسائل اور دولت کا ضیاع ہو وہاں خرچ نہ کرو - اِسی لئے بڑوں نے ہمیشہ میانہ رَوی اور اعتدال کے راستے پہ چلنے کا کہا - اسراف و تبذیر سے متعلق چوتھے پوائنٹ میں وضاحت سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر فضول خرچی یا مال و متاع کا ضیاع نہ روکا جائے تو اُس سے کس طرح کے انسانی سانحات و اَلمیے جنم لیتے ہیں ، یہاں اِعتدال کے حوالے سے اور میانہ رَوِی کے حوالے سے چند دیگر چیزیں ہمیں سمجھ لینی چاہئیں -
راہِ اعتدال کااللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیں حکم دیاکہ نہ کسی پر اتنی سختی کرو کہ وہ ٹوٹ جائے اور نہ ہی اتنے نرم ہو جائو کہ لوگ تمہیں نگل جائیں بلکہ ان کے درمیان تمہارے لئے ایک راستہ ہے اگرتم کسی کو دین یا نفاذِ دین کی دعوت دیتے ہووہ تمہاری دعوت کو قبول کرتا ہے تو احسن سمجھو،اگر وہ تمہاری دعوت کو قبول نہیںکرتا ، تمہاری فکر کے مطا بق وہ نہیں ڈھلتا تو اس پہ سختی کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے اسے کافر یا واجب القتل کہنے کا اختیار تمہیںحاصل نہیں ہے - ’’کوایگزیسٹنس‘‘ کا سبق دیا ہے قرآن نے کہ مل کے رہو - ہماری تاریخ ہمیںیہ بتاتی ہے کہ مدینہ منورہ سے لیکر آپ ہندوستان تک دیکھ لیں مسلمان تمام مذاہب کے ساتھ رہے ہیں، یہودیت کے ساتھ، نصرانیت کے ساتھ، عیسائیت کے ساتھ، مجُوسیوں کے ساتھ، ہندوؤں کے ساتھ ،بدھوں کے ساتھ - ہماری شناخت سب سے الگ رہی ہے اور ہے اور الگ رہے گی لیکن بات یہ ہے کہ ہم جس بھی معاشرے میں رہے ان کے ساتھ اس معاشرے کا حصہ بن کے رہے ہیں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ ایک مثالی معاشرہ رہا ہے - اگر وہ روئے تو ہم نے ان کی اشک شوئی کی ہے، اگر وہ دکھی تھے ہم ان کے دکھ میں برابر کے شریک تھے، وہ غمگین تھے ہم نے ان کی دل جوئی کی، وہ ہنستے تھے ہم ان کی خوشی میں شریک تھے اور یہی اسلام کی وہ اعلیٰ اقدار تھیں اور یہی وہ اسلام کی راہِ اعتدال تھی جس نے یہاں کے باسیوں کو اتنا متأثر کیا کہ آج بیس کروڑ مسلمان پاکستان میں ،بتیس کروڑمسلمان ہندوستان میں ، چودہ کروڑ مسلمان بنگلہ دیش میں ہیں یہ سارے کے سارے سنٹرل ایشاء اور عرب سے تو نہیں آئے تھے یہ یہیں کے لوگ ہیں اور آخر یہ کس بات سے متأثر ہوئے تھے ؟ آخر انہیں کس بات نے دعوت اسلام قبول کرنے پہ مجبور کیا تھا؟
ایک واقعہ عرض کرتا چلوں کہ ایک بزرگ تھے ان کی خانقاہ ایک دریا کے کنارے تھی تو مسجد کے قریب وضُو کیلئے پانی کا وسیع تالاب بنایا گیا تھا جسے زائرین اور خلفا مشکیزوں کی مدد سے بھرا رکھتے تھے وہاں قریب ہی ہندؤوں کی ایک بستی تھی جہاں سے ایک خاتون اپنے مشکیزے سے اس تالاب میں پانی بھرنے آتی - بزرگوں نے اُس کو اپنی منہ بولی بیٹی فرما رکھّا تھا اور اُسے اتنی ہی تقدیس اور احترام دیتے جیسے ایک بیٹی کودِیا جاتا ہے اکثر لوگ اعتراض کرتے کہ حضرت ! اِس تالاب سے مسلمان وضو کرتے ہیں جبکہ یہ عورت مشرک ہے اور اس کے پانی بھرنے سے پاکی مکمل نہیں رہتی اِس لئے اس کو منع کیا جائے - تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے بیٹی کہا ہے اِس لئے اِسے پانی سے منع نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی اور کو منع کرنے دوں گا جو سمجھتا ہے کہ اس کے بھرے ہوئے پانی سے وضُو نہیں ہوتا تو وہ جا کر دریا سے کر لے - بزرگوں کو اطلاع مِلی کہ کسی بھی حادثہ یا اچانک بیماری یا سانپ کے کاٹنے یا غرض کسی بھی وجہ سے وہ خاتون مر گئی ہے تو آپ نے اس بستی میں جانے کا اِرادہ فرمایا اور