اسلامی معاشرت کا حُسن : تعلقِ رُسولﷺمیں پختگی

اسلامی معاشرت کا حُسن : تعلقِ رُسولﷺمیں پختگی

اسلامی معاشرت کا حُسن : تعلقِ رُسولﷺمیں پختگی

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مارچ 2019

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ سے قائد ما و مرشدما سر پرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں چلنے والی یہ جماعت نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں روحانی، اصلاحی اور تربیتی خدمات سرانجام دے رہی ہے جس کا بنیادی مقصد اپنی فکر و معاشرت، اپنے عمل اور اپنے آپ کی اصلاح کرنا ہے جسے اصلاحِ نفس بھی کہا جاتا ہے- اسی کے ساتھ ہمیں اپنے آپ کو اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ مصطفےٰ (ﷺ) میں اس طرح خالص کرنا ہے کہ ہم اپنی فکر وعمل کے ساتھ اس راستے پر صحیح طور پر گامزن ہوجائیں جو راستہ ہمیں خاتم النبیین احمد مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ رحمت اللعالمین (ﷺ) کی سنت اور شریعت نے بتایا، دکھایا، سمجھایا اور سکھایا ہے - دین کی راہ بڑی عیاں اور واضح ہے، ہم سب پر یہ لازم ہے کہ اس راستے پر اپنے آپ کو گامزن عمل رکھنے کی کوشش کریں-

عموماً ہمارے ذہن میں یہ بحث اُجاگر ہوتی ہے کہ اسلام کیا ہے؟ دین کیا ہے؟ بزرگانِ دین کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ دین کی محض کوئی ایک جہت نہیں ہے جس سے کوئی بھی ایک جہت طے کر کے حتمیت اور قطعیت کے ساتھ کَہ دیا جائے کہ یہی دین ہے- اس لئے کہ صرف انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ آفاقی زندگی کے جتنے بھی پہلو ہیں دین اس ہر پہلو کو محیط ہے- کیونکہ انسان اس کائنات کا جز ہے اور دین نے اس کائنات کے ہر پہلو کو بیان بھی کیا اور اس پر انسانی تعلق کی روشنی بھی عطا فرمائی ہے -لیکن جب یہ بات خاص کی جاتی ہے کہ دین کیا ہے؟اس کا مقصود کیا ہے؟ ایمانیاتی نقطۂ نظر سے اِن سوالات کا محفوظ ترین جواب قرآن پاک میں ہے-جب ہم قرآن پاک میں غوطہ زنی کرتے ہیں تو دین کی بنیاد کے طور پہ دو  دعوتیں نظر آتی ہیں جس کے گرد انسان کی پوری ایمانیاتی عمارت کھڑی ہے- قرآن انسان کی فکر و عمل کو درج ذیل مقصود کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ:

’’وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللهُ وَإِلَى الرَّسُوْلِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا‘‘[1]

’’اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اُتاری ہوئی کتاب اور رسول(ﷺ) کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں‘‘-

اسی آیت کی تائید میں مزید فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللهُ وَإِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُوْنَ‘‘[2]

’’اور جب ان سے کہا جائے آؤ اس طرف جو اللہ نے اتارا اور رسول() کی طرف کہیں ہمیں وہ بہت ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ جانیں نہ راہ پر ہوں‘‘-

اِن دونوں آیاتِ مُبارکہ سے اِس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ دین کی بنیادی دو دعوتیں کتاب اللہ اور رحمت اللعالمین، خاتم النبیین محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی جانب رجوع کرنا ہے-یعنی پہلی دعوت ’’إِلَى مَا أَنْزَلَ اللهُ‘‘ اور دوسری ’’وَإِلَى الرَّسُوْلِ‘‘-اس کی وضاحت میں دو نکات بیان کرنا چاہوں گا؛ پہلا نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے دو دعوتوں کو بیان کرنے کے بعد منافقین کی روش و عادت کا بھی تعارف کروایا ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کی جانب بلایا جاتا ہے تو وہ اللہ کی جانب تو آجاتے ہیں لیکن جب انہیں رسول اللہ (ﷺ) کی جانب بلایا جاتا ہے تو قرآن فرماتا ہے کہ:’’ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا‘‘،اے حبیب مکرم (ﷺ)!آپ منافقین کو دیکھیں گے کہ وہ آپ ()کی طرف آنے سے کتراتے ہیں-

دوسرا نکتہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر پورے اسلام کو ایک جامع اصطلاح میں بیان کرنا ہو تو وہ جامع اصطلاح ’’دعوت الی اللہ و دعوت الی الرسول‘‘ ہے-یہ دونوں دعوتیں انسان پر یہ واضح کرتی ہیں کہ جس قدر انسان پہ اطاعتِ قرآن لازم ہے اسی طرح خاتم النبیین (ﷺ) کی سنت کی اطاعت اور آپ (ﷺ)  کی ذات گرامی سے پختہ و مضبوط تعلق کی استواری بھی لازم  ہے؛یہی بات قرآن مجید میں کئی مقامات پہ دِکھائی دیتی ہے:

’’وَ إِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَ رَأَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُوْنَ ‘‘[3]

’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ (ﷺ) تمہارے لیے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ (ﷺ)کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیں‘‘-

یہ بیان بنیادی طور پر عبد اللہ بن اُبی مُنافق کے لئے ہے لیکن جب اس فرمان کو جنرل پیرائے میں دیکھا جاتا ہے اس سے منافقین کی کا طریق واضح ہوتا ہے جیسا کہ ابن اُبی نے کہا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، زکوٰۃ بھی دیتا ہوں، دیگر احکامات بھی بجا لاتا ہو تو کیا اب مَیں رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے اپنی ناک اور اپنی پیشانی کو رگڑوں؟اس لئے بقول قرآن جب انہیں آپ (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تو اپنے چہروں کو موڑتے ہیں، تکبر اور گھمنڈ کرنے لگتے ہیں، ان کے اندر کی انا اور رعونت انہیں روکتی ہے- اگر باطنی نابینگی رکاوٹ نہ ہو تو وہ آپ (ﷺ)  کے حضور حاضر ہوکر اپنے دین کو کامل کرلیں-حکیم الامت کی فکر بھی ہمیں اسی مقام کی جانب راغب کرتی ہے کہ :

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدۂ تصورات[4]

اصل روحِ دین محبت و عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے، حضور نبی کریم (ﷺ) کی جانب رجوع کرنا اور آپ (ﷺ)سے اپنے تعلق کو مضبو ط کرنا ہے کیونکہ اگر یہ عشق و محبت نہیں ہے تو شرع و دین بت کدۂ تصورات ہے جیسا کہ ابن اُبی منافق کی رَوِش سے واضح ہے -

دوسرے مقام پہ اقبال فرماتے ہیں کہ:

بمُصطفٰے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی است

’’اپنے آپ کو مصطفےٰ کریم (ﷺ) تک پہنچا دو کیونکہ سارے کا سارا دین آپ (ﷺ) ہیں اگر تم رسول اللہ (ﷺ) تک نہ پہنچے تو (تمہارا )سارے کا سارا عمل بو لہبی یعنی (بے دینی) ہے‘‘-

جب قرآن میں غوطہ زنی کی جائے توقرآن بھی توحیدِ باری تعالیٰ پہ ایقان و ایمان کے ساتھ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی جانب مائل و راغب کرتا ہے- الحمد سے والناس تک پورے قرآن میں یہ ترتیب ہے کہ جیسے قرآن نے زور ایمان بالتوحید پر دیا ہے اُسی طرح زور ایمان بالرسالت پر بھی دیا ہے- قرآن نے جس طرح معبودانِ باطلہ سے نجات دلائی، خفیف سے خفیف شرک کی بھی نفی کر کے مسلمان کے دل و دماغ سے اس کے وہم تک کو نکال کر توحید میں مسلمانوں کو خالص کیا- اسی طرح قرآن نے ایمان بالرسالت، اطاعتِ رسول، خاتم النبیّین (ﷺ) سے عشق اور ذاتِ محمدی (ﷺ) کی طرف رغبت دلائی ہے، کریم کملی والے سے تعلقِ قلبی میں پختہ سے پختہ تر ہونے کی ترغیب دی ہے-پورے قرآن میں یہ اسلوب ساتھ ساتھ چلتا نظر آتا ہے جس کی چند امثال پیش کرنا چاہوں گا:

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِااللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘[5]

’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول () پر ایمان لاؤ‘‘-

سورہ الاعراف میں ایک مقام پہ ارشاد ہوتا ہے :

’’فَآمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ‘‘[6]

’’سو تم اللہ اور اس کے رسول () پر ایمان لاؤ جو (شانِ اُمیّت کا حامل) نبی ہے‘‘-

ایمان کی تقویّت ہو یا  دعوتِ دین کا مقصود، یہ اِن دونوں جانب ایک ساتھ بلاتے ہیں کہ جس قدر انسان توحیدباری تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہو کر ایمان میں تقویت پاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایمان کی تقویت و برکت ذاتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے تعلق میں رکھ دی ہے؛ اور جِس طرح ایمان بالتوحید میں ناپختہ آدمی دین سے نابلد و نا آشنا ہے اُسی طرح ذاتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے قلبی تعلق و محبت میں ناپختہ آدمی بھی دین سے دُور اور نا آشنا ہے-قرآنی فرامین کے مطابق اعمال بھی صرف اسی وقت کارگر ہوتے ہیں جب دِل شرک سے بھی پاک ہو اور ادب و تعلقِ رسول (ﷺ) میں خالص و پختہ ہو جائے-

قرآن پاک کی  ’’سورہ زمر‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص چاہے جتنا پارسا اور اچھے کام کرنے والا کیوں نہ ہو اگر وہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے شرک کرتا ہے تو اُس کے تمام اعمال برباد کر دیئے جائیں گے -

’’لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ‘‘[7]

’’اگر تو نے شرک کیا تو یقیناً تیرا عمل برباد ہوجائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘-

اِسی طرح ’’سورہ حجرات‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ چاہے جتنے بھی اعمال کر رکھے ہوں، پارسائی و پرہیز گاری کے جتنے صحرا چھان رکھے ہوں، زہد و ریاضت کی چاہے جتنی چوٹیاں سر کر رکھی ہوں لیکن اگر لب و لہجے میں رسول اللہ (ﷺ) کا ادب نہیں ہے تو تمام اعمال برباد کر دیئے جائیں گے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰـٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo

 ’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی  غارت ہوجائیں اور تمہیں  شعور تک بھی نہ ہو‘‘-

اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب سکھائے ہیں کہ جب میری بارگاہ میں آؤ یا مجھ سے کلام کرویا میرے سامنے سجدہ ریز ہو یا میرا ذکر یا میری تسبیح بیان کرو تو اپنی آواز اور لب و لہجہ کو مؤدّب کر لو، فرمایا:

’’وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰـفِلِیْنَo ‘‘[8]

’’اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ‘‘-

پھر سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کی بارگاہ کے آداب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے اُن لوگوں کے دل تقویٰ کیلئے چُن لئے ہیں جنہوں نے میرے حبیب (ﷺ) کے سامنے اپنی آوازوں کو پست کر لیا ہے :

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰیط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ[9]o‘‘

’’بے شک جو لوگ رسول اﷲ (ﷺ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کیلیے چُن کر خالص کر لیا ہے- ان ہی کیلیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے‘‘-

یاد رکھیں! بدن کا تقویٰ ارکانِ اسلام یعنی کلمہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں ہے؛ مگر قلب کا تقویٰ ادب و تعظیمِ مصطفےٰ (ﷺ) میں ہے- بقول عزت بخاری:

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا

’’آسمان کے نیچے ایک ایسی ادب گاہ (روضۂ رسول (ﷺ) ہے جو عرش سے بھی زیادہ نازک ہے کہ یہاں حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامیؒ جیسی عظیم ہستیاں بھی سانس روک کر آتی ہیں‘‘-

قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کریمہ اوراپنے اسماء  حسنیٰ کا موضوع پھیلا کربیان کیا ہے مثلا ً کہیں سورۃ الحشر میں، کہیں آیت الکرسی میں، کہیں سورۃ اخلاص میں، کہیں سورۃ الحدید میں، کہیں سورۃ الملک اور سورۃ الرحمٰن میں -یعنی مختلف مقامات پہ پھیلا کر اپنی تمام صفات کا تصور بیان کیا ہے-اسی طرح صفات و کمالاتِ مصطفوی (ﷺ) کو سورۃ کوثر میں، سورۃالم نشرح میں، سورۃ والضحیٰ میں، سورۃ الفتح میں، سورۃ الحجرات میں اور کہیں سورۃ الاحزاب میں- یعنی پورے قرآن میں ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی صفات کو پھیلا کر بیان کیا ہے-اس لئے کہ جہاں سے بھی قرآن کریم  کو پڑھا جائے ہمارا تعلق اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے استوار ہو کر پختہ ہوتا جائے-

قرآن کریم میں بڑے کمال کے مقامات ہیں جو قرآن کا یہ اسلوبِ بیان ہم پر واضح کرتے ہیں- مثلاً ایک بیان سورۃ الحشر کے اختتام میں ہے اور ایک بیان سورہ الاحزاب کے وسط میں آتا ہے:

’’ہُوَاللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَج اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُط سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَoہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰیط یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِج وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘[10]

’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (حقیقی) بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، ہر نقص سے سالم (اور سلامتی دینے والا) ہے، امن و امان دینے والا (اور معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے والا) ہے، محافظ و نگہبان ہے، غلبہ و عزّت والا ہے، زبردست عظمت والا ہے، سلطنت و کبریائی والا ہے، اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں-وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے، عدم سے وجود میں لانے والا (یعنی ایجاد فرمانے والا) ہے، صورت عطا فرمانے والا ہے- (الغرض) سب اچھے نام اسی کے ہیں، اس کے لیے وہ (سب) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ بڑی عزت والا ہے بڑی حکمت والا ہے-

جس طرح ’’سورۃ الحشر‘‘ میں قرآن نے صفات باری تعالیٰ کو ایک روانی اور حلاوت آمیز انداز میں بیان کیا ہے اسی طرح سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)  کی صفات کا ذکر کیا ہے:

’’یٰـٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاo وَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًاo وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللہِ فَضْلًا کَبِیْرًاo[11]

’’اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)اور اہلِ ایمان کو اس بات کی بشارت دے دیں کہ ان کیلیے اللہ کا بڑا فضل ہے‘‘-

قرآن کا اسلوب و مقصود یہ ظاہر کرتا ہے کہ جس طرح محبت و شدت کے ساتھ مسلمانوں کو تعلق باللہ کی ضرورت ہے اسی طرح تعلق بالرسول کی بھی ضرورت ہے -

یہ وہ نکات ہیں کہ بعض دفعہ انسان کی زبان بیان کرتے کرتے کسی مقام پر رُک جاتی ہے، یہ ایمان کی وہ نزاکتیں، باریکیاں اور لطافتیں ہیں جن کا بیان خود بیان پہ لرزہ طاری کردیتا ہے جیسا کہ حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:

حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ، گفتار زنگ
فروزاں ہے سینے میں شمعِ نفَس
مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس
اگر یک سرِموئے بر تر پَرم
فروغِ تجلی بسوزد پرم
[12]

بعض دفعہ یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے خوف طاری ہو جاتا ہے کہ ہمارے الفاظ کا چناؤ کہیں حقیقت کے آئینے پر زنگ نہ چڑھا دے کیونکہ یہ اتنی واضح اور روشن ہے جس کو جتنا محسوس کیا جا سکتا ہے اتنا بیان نہیں کیا جا سکتا-

مگر از روئے عقیدہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اِس سے پہلے جو آیات پیش کیں یا اِس کے بعد جن بعض مقامات پہ بات ہو گی وہ تقابل و موازنہ نہیں ہے کیونکہ اللہ پاک خالق ہے  جس نے آقائے دو عالم (ﷺ) کو پیدا فرمایا ہے، اِس لئے خالق و مخلوق میں تقابل و موازنہ تو ہو سکتا ہی نہیں، اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں پہ بلا شرکتِ غیرے قادر ہے اور آقا کریم (ﷺ) کو یہ شانیں اور عظمتیں اللہ عز و جل نے عطا فرمائی ہیں-قرآن کریم کے اِن مقامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی صفات اور انوار کے مظہر کامل ہیں-قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پہ نہیں بلکہ کئی مقامات پہ اپنی صفات کے مظہرِ اَتم کے طورپہ اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کی ذات گرامی کو پیش کیا ہے-قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں بھی ’’رؤف و رحیم‘‘ کو بیان فرمایا اور حبیبِ دو عالَم (ﷺ) کی صفات میں بھی ’’رؤف و رحیم ‘‘ شامل فرمایا ہے -مثلاً اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج میں فرمایا:

’’اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌo[13]‘‘

’’بے شک اﷲ تمام انسانوں کے ساتھ نہایت شفقت فرمانے والا بڑا مہربان ہے‘‘-

اب سورۃ توبہ میں ملاحظہ فرمائیں:

’’لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘[14]

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول () تشریف لائے- تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے- (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘-

قرآن مجید میں صراطِ مُستقیم پہ ہدایت عطا کرنے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بھی فرمایا اور اِس کا ذکر اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کے لئے بھی فرمایا-مثلاً:

’’قُلِّ اللہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُط یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo[15]‘‘

’’آپ (ﷺ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لیے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے-

اپنے حبیب مکرم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo‘‘[16]

’’اور بے شک آپ صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں‘‘-

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حاکم ہونے کا اعلان فرمایا کہ وہ بلا شرکتِ غیرے اپنی قدرتِ کاملہ کے ساتھ اس کائنات کا حاکمِ اعلیٰ ہے-اُس کی حاکمیّت میں کوئی اس کا ہمسر و شریک نہیں ہو سکتا :

’’أَلَيْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِيْنَ ‘‘[17]

’’کیا اﷲ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے‘‘-

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم( ﷺ)کو صفتِ حاکمیت سے متصف فرمایا ہے -

’’فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتَّى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ‘‘[18]

’’پس (اے حبیب(ﷺ)!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ (ﷺ)کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘-

اسی طرح اللہ پاک نے قرآن مجید میں اپنے لئے اِس صفت کا اظہار فرمایا کہ وہ جسے چاہے اپنے فضل سے پاک اور سُتھرا کر دے-اپنے حبیبِ پاک (ﷺ) کو بھی اِس صفت سے متصف کرنے کا اعلان فرمایا-سورہ النور میں بتایا کہ ’’پاک  و ستھرا   ‘‘ اللہ تعالی  ہی  فرماتا ہے :

’’ وَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـکِنَّ اللہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘[19]

’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے‘‘-

قرآن پاک میں کئی مقامات پہ ارشاد ہے کہحضور نبی کریم (ﷺ)بھی پاک فرماتے ہیں؛ جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ‘‘[20]

’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ﷺ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘-

قرآن مجید میں غور کریں تو پتہ چلتا  ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اتنے بُلند رُتبے عطا کئے ہیں جہاں انسان کی عقل رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہے، اِس لئے حضور اکرم (ﷺ)  سے تعلق کیلئے عقل کے ساتھ عشق کی ضرورت ہے- جیسا کہ اقبال صاحب نے فرمایا ہے کہ :

وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے اُنہیں بے سوزن و تارِ رَفُو

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب (ﷺ) کی شانوں اور عظمتوں کی کوئی حد نہیں رکھی، کوئی کنارہ نہیں رکھا بلکہ کُل جہانوں اور کُل کائناتوں پہ آپ (ﷺ) کے دائرۂ رحمت کوپھیلا دیا ہے-قرآن پاک بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت کی ربوبیّت کل جہانوں کیلئے ہے اور محمدِ مصطفےٰ احمدِ مجتبےٰ (ﷺ) کی رحمت بھی کُل جہانوں کیلئے ہے :

’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo ‘‘[21]

’’سب تعریفیں اللہ ہی کیلیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے‘‘-

یعنی عالمین میں جو کچھ بھی ہے؛ یہ کہکشان جس کی وسعت اتنی ہے کہ اس کا شمار کرنا بھی انسانی عقل کےلئے تا حال محال ہے حالانکہ وہ عالمین میں سے ایک پورا عالم بھی نہیں ہے بلکہ اس کُل کائنات کا ایک چھوٹا حِصہ ہے-اس لئے دنیا کے ایک جہان میں نہیں بلکہ جتنے بھی جہاں ہیں جن کا انسانی عقل نے ادراک کیا ہے،یا کرے گی، یا جو اس کی عقل سے ماوراء بھی ہیں ان میں سے کسی مقام پہ بھی کوئی شے یا کوئی ذرہ پَل رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہی ربوبیت ہے کیونکہ وہ تمام عالمین کا رب ہے-اسی طرح اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو جو شانِ رحمت عطا کی اُس کی وُسعت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

’’وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo[22]‘‘

’’اور (اے رسولِ محتشم(ﷺ)!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘-

خدا کی خدائی جہاں تک ہے محمد مصطفےٰ(ﷺ) کی رحمت وہاں تک ہے-یعنی جہاں کسی بھی چیز کو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت سے پلتا ہوا دیکھو وہاں یہ یقین رکھو کہ وہ چیز امن میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو عطا کی گئی رحمت کے ذریعے اس کو امن عطا فرمایا ہے-جس طرح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح حضور رسالت مآب (ﷺ) کی شان رحمت کی بھی کوئی حد نہیں ہے-اس لئے جب بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی شانِ اقدس کا ادراک کیا جائے تو بقول مولانا رُومیؒ:

عقل قرباں کن بہ پیش مصطفےٰ

’’عقل کو مصطفےٰ کریم (ﷺ) کے سامنے قُربان کر دے‘‘-

جہاں مولائے رُومؒ  نے یہ بات فرمائی ہے وہ سارا مقام قابلِ مُطالعہ ہے-مثنوی شریف دفتر چہارم میں ہے-اِسی مضمون کے چند اشعار پیش کرتا ہوں: [23]

(۱) داند آں کو نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

(۲) زیرکی آمد سباحت در بِحار
کم رہد غرق است او پایانِ کار

(۳) عشق چوں کشتی بَوَد بہرِ خواص
کم بود آفت، بود اغلب خلاص

(۴) زیرکی بفروش و حیرانی بخر
زیرکی ظن است و حیرانی نظر

(۵) عقل قُرباں کُن بہ پیشِ مُصطفےٰ
حسبی اللہ گو کہ اللہ ام کفیٰ

(۶) ہم چوں کنعاں سَر ز کشتی وا مکش
کہ غرورش داد نفسِ زیر کش

(۷) عقل را قُرباں کُن اندر عشقِ دوست
عقل ھا بارے ازاں سویست کوست

’’(۱) ہر خوش نصیب و صاحبِ راز آدمی یہ جانتا ہے کہ عقل پرستی شیطان کا اور عشق آدم کا شیوہ ہے-(۲) عقل پرستی سمندروں میں تیرنا ہے عقل پرست نجات نہیں پاتا بلکہ ڈوب جاتا ہے- (۳) (اس کے مدِّ مقابل) عشق خاصانِ خُدا کیلئے کشتی کی حیثیت رکھتا ہے اِس میں ڈوبنے کا خدشہ کم اور نجات یقینی ہوتی ہے-(۴) عقل پرستی کو بیچ دے (اِس کے عِوض) عشق خرید لے، عقل پرستی گمان ہے جبکہ عشق مشاہدۂ یقین ہے-(۵) عقل کو (حضرت محمدِ) مصطفےٰ (ﷺ) پہ قربان کر دے حسبی اللہ کَہ دے کہ اللہ مجھے کافی ہے-(۶) (سیّدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے) کنعان کی طرح (عشق کی) کشتی سے باہر نہ نکل، کیونکہ اُس کو بھی نفس کی عقل پرستی نے دھوکہ دیا تھا-(۷) محبوب کے عشق میں عقل کو قُربان کر دے بہر حال ! عقلیں بھی اُس جانب کی ہیں جس کا وہ ہے ‘‘-

اِس لئے عقل بیچ دے، قربان کر دے اور اِس کے بدلے عشق حاصل کر لے کیونکہ عشق کی کشتی گہرے سمندروں میں ڈوبتی نہیں جو عشق کی کشتی سے سر نکالتا ہے وہ کنعان کی طرح ہلاکتوں میں مبتلا ہوتا ہے-کیونکہ عقل محدود ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی شانِ گرامی اور عظمت و بزرگی لا محدود ہے- عقل قلیل ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان و عظمت کثیر ہے اور قلیل کثیر کا ادراک کرنے سے قاصر ہے- لہٰذا جب بھی آقا کریم(ﷺ) کی ذات اقدس کی شان کی معرفت کرو یا اُن سے اپنا تعلق استوار کرنے لگو تو اپنی عقل کی محدودیت سے نہیں بلکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان کی لامحدودیت سے کرو-

قرآن مجید میں ایک اور رمز بڑی انوکھی ہے-بندے اور مولا کی قُربت کو قرآن نے بیان فرمایا ہے ، ایک مقام پہ اُمتی اور نبی کی قربت کو بھی بیان فرمایا ہے- اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ‘‘[24]

’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو!تم جہاں بھی، کہیں بھی، کیسے بھی ہو یہ گمان رکھو کہ تمہارے ہر لمحہ و ہربات میں میری قدرت شامل ہے-اسی طرح جب سرکارِ دو عالم (ﷺ) سے بندۂ مومن کےتعلق کی بات آئی تو ارشادفرمایا:

’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ‘‘[25]

’’یہ نبیِّ (مکرّم()) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں‘‘-

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی اپنی توحید کی دعوت و رغبت دلائی ہے وہاں رسالت مآب خاتم النبیین (ﷺ) کی محبت اور آپ (ﷺ)سے اپنے تعلق کو جوڑنےکی دعوت و رغبت دلائی ہے- اس لئے جو دین اسلام و قرآن کی دعوت ہے وہ ’’دعوت الیٰ اللہ‘‘ بھی ہے اور ’’دعوت الی الرسول‘‘ بھی -بندے کے لئے لازم ہے کہ جس طرح وہ بندگیٔ باری تعالی میں اپنے آپ کو پختہ کرے اسی طرح وہ عشق اور نسبتِ مصطفےٰ (ﷺ) میں اپنے آپ کو پختہ کرے- بقول اقبال:

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

محبت و عشق ِمصطفےٰ (ﷺ) پہ آکر بندے کے ایمان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کس قدر اس کے وجودمیں حرارتِ ایمانی کی تپش جاگزین ہوئی ہےاور کس قدر اس کے مشامِ جان کو نورِ ایمان نے منور کیا ہے-

اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو اپنی کتاب کے ذریعے واضح کیا اور قرآن مجید میں اس کا اتنا وسیع مضمون ہے کہ جس کا بیان ہی نہیں کیا جاسکتا- جو عمومی طور پہ کہا جاتا ہے کہ:

’’ فَفِرُّوْا اِلَی اللہِ‘‘[26]               ’’پس دو ڑو اللہ کی طرف‘‘-

اکثر اہل نظر و اہل فکر یہی کہتے ہیں کہ اس دعوت سے مراد یہی ہے کہ بندہ اللہ کی بندگی و رضا کی طرف دوڑے لیکن جو آدمی حلقہ بگوش اسلام نہیں ہے، پیغمبر اسلام (ﷺ) کی صداقت و عظمت پہ یقین نہیں رکھتا تو وہ جتنا مرضی دوڑ لے، اسے جب بھی ہدایت میں کمال و نور کا مرتبہ نصیب ہوگا وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی نسبت پا کر ہی نصیب ہوگا-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْالِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ‘‘[27]

’’اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول () تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی‘‘-

اس میں ’’اِذَا دَعَاکُمْ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے-جب اس میں غور کریں تو’’دَعَا ‘‘ فعل ماضی واحد مذکر ہے جس میں ’’ھُوَ‘‘ ضمیر پوشیدہ ہے جو واحد کے لئے استعمال ہوتی ہے اور یہ ایک ذات، ایک شخص، یا ایک ہستی کے اوپر دلالت کرتی ہے جبکہ قرآن کریم کا بیان یہ ہے کہ ’’ اسْتَجِیْبُوْالِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ‘‘- گویا جو حضور نبی کریم (ﷺ)کا بلانا ہے وہ اللہ کا بلانا ہے-

اِس کی تائید میں ترمذی شریف کی ایک حدیث پاک بھی ہے جسے خطیب تبریزیؒ نے بھی مشکوٰۃ شریف میں بیان کیا ہے :

حضرت جابر بن عبد اللہ (﷠) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نےطائف کی جنگ کے دن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو بلایا اور ان سے سرگوشی فرمائی تو لوگوں نے کہا کہ آج آپ (ﷺ) نے اپنے چچازاد کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی فرمائی ہے تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

فَقَالَ رَسُوْلُ اللّهِ (ﷺ): مَا انْتَجَيْتُهٗ وَلَكِنَّ اللّهَ انْتَجَاهُ[28]

’’میں نے  سرگوشی نہیں کی بلکہ اللہ پاک نے خود ان سے سرگوشی فرمائی ہے‘‘-

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث پاک نقل فرمانے کے بعد اِس کے معنیٰ پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’وَ مَعْنِیْ قَوْلِہٖ وَلٰکِنَّ اللہ انْتَجَاہُ یَقُولُ اِنَّ اللہ اَمَرَنِیْ اَنْ اَنْتَجیٰ مِنْہُ‘‘

’’اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حُکم سے ان سے سرگوشی کی ہے‘‘-

اِس کی تائید  میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo‘‘[29]

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے-اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘-

یعنی حبیب مکرم (ﷺ)اس وقت تک کلام ہی نہیں فرماتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےوحی ان کےقلب اقدس پہ نازل نہ ہوجائے- یعنی حضور اکرم (ﷺ) کا ہر قول وحیٔ الٰہی ہونے کے ناطے قولِ خُدا وندی ہے-

مزید دوسرے مقام پہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘[30]

’’اور اللہ و رسول(ﷺ) کا حق زائد تھا کہ اسے راضی کرتے اگر ایمان رکھتے تھے‘‘-

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کا ذکر مبارک کیا گیاہے یعنی دو ہستیوں کا-جو آدمی بھی عربی زبان سے بنیادی آشنائی بھی رکھتاہےوہ جانتا ہے کہ عربی زبان میں وسعت ہے- جس طرح اردو اور فارسی میں واحد اور جمع ہے عربی زبان میں واحد، تثنیہ اور جمع ہے-عموماً ہر آدمی یہ قاعدہ جانتا ہے کہ ’’کَ، کُمَا، کُمْ‘‘اور ’’ھُوَ، ھُمَا، ھُمْ‘‘، واحد، تثنیہ اور جمع کیلئے بولا جاتاہے-یعنی ایک کے لئے ’’ھُوَ‘‘، دو کے لئے ’’ھُمَا‘‘ اور دو سے زائد کیلئے ’’ ھُمْ‘‘ آتا ہے-

’’وَاللہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ‘‘اللہ اور اس کا رسول یہ دونوں ’’اَحَقُّ‘‘ اس بات کا زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ’’اَنْ یُّرْضُوْہُ‘‘ان کی ایک رضا کو حاصل کیا جائے یہاں ’’ ہُ ‘‘ ضمیر ہے جو کہ واحد پر دلالت کرتی ہے جس کا معنی یہ ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) مؤمنین کیلئے زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی ایک رضا کو حاصل کیا جائے-گویا رضائے مصطفےٰ(ﷺ) رضائے پروردگار ہے اور رضائے پروردگار رضائے مصطفےٰ (ﷺ) ہے-یہ دو الگ الگ رضائیں نہیں ہیں جس سے حضورپاک (ﷺ) راضی ہوگئے اس سے اللہ پاک راضی ہوگیا اور اللہ پاک جس سے راضی ہوا اس سے حضور پاک(ﷺ)راضی ہوگئے-اسی چیز کی تائید اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کے دیگر فرامین سے بھی ہوتی ہے-جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہِ‘‘[31]

’’ جس نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘‘-

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات میں پھیلا کر اس مضمون کو بیان کیا ہے تاکہ لوگوں میں یہ بات راسخ ومستحکم ہو جائے کہ جس نے اطاعت ِ مصطفےٰ (ﷺ) کی اس نے اطاعتِ خدا کی- جس نے حضور (ﷺ) کی رضا کو حاصل کیا اس نے اللہ کی رضا کو حاصل کیا اور جس نے حضور نبی کریم(ﷺ) سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی- علامہ اقبال (﷫)اسی مقام کی وضاحت شاہ منصور حلاج کی زبان سے کلام کرتے ہوئے ’’جاوید نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ :

مدعا پیدا نگردد زین دو بیت
تا نہ بینی از مقام ’’ما رمیت‘‘

’’ان دو بیت سے بات واضح نہیں ہوتی جن تک تو مقام ’’مَا رَمَیْتَ‘‘ کو نہ سمجھے ‘‘-

یعنی آقا کریم (ﷺ) کی شانِ اقدس کو عام کلام اور شعرو شاعری کی فصاحت و بلاغت سے نہیں سمجھا جاسکتا جب تک حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان کو قرآن کے فرمان ’’مَا رَمَیْتَ‘‘سے نہ سمجھا جائے-

’’وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللہَ رَمٰى ‘‘[32]

’’اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے‘‘-

اس لئے عزیز ان گرامی! اپنے ذہن میں اس بات کو پختہ کرلیں آقا کریم (ﷺ) کی تعظیم و تکریم کرنا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے- کیونکہ قرآن ہمیں دو دعوتوں کی جانب رغبت دلاتا ہے؛ دعوت الی اللہ اور دعوت الی الرسول-اس لئے ان دعوتوں کے متعلق اگر کسی کے ذہن میں کوئی شک و وسوسہ ڈل گیا تو وہ اپنے ایمان کی کمزور ترین سطح پر آپہنچا یہاں تک کہ نفاق کا شکار ہوگیا-اس لئے قرآن یہ نسخہ بتاتا ہے کہ وسوسوں سے بچو اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہو- فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِoاِلٰہِ النَّاسِoمِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِoمِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ ‘‘[33]

’’آپ (ﷺ) فرمادیں کہ میں (سب) انسانوں کے رب کی پنا ہ مانگتا ہوں جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہےجو (ساری) نسل انسانی کا معبود ہے وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اﷲ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر