اللہ پاک نے ذو الحجہ کے مکمل مہینے بالخصوص پہلے دس دنوں کو اپنے خصوصی انعام و اکرام سے نوازا ہے- ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت و حرمت والے مہینوں ﴿رجب ، ذوالقعدہ، ذو الحجہ اور محرم﴾ میں سے ایک ہے- اس مبارک مہینہ میں ذکر، تسبیح، تلاوت قرآن پاک، نوافل روزے اور دیگر صدقات وغیرہ کا اجر بہت زیادہ ہے- بالخصوص ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن کی تو اتنی فضیلت ہے کہ اللہ پاک نے اس عشرہ کی پہلی دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور ارشاد فرمایا :-﴿وَ الْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ﴾ ﴿سورۃ الفجر، آیت:۱،۲﴾’’اور قسم ہے فجر اور دس راتوں کی‘‘
ایک روایت کے مطابق دس راتوں سے مراد ذولحجہ کی دس راتیں ہیں- انہی عشرہ ذوالحجہ کی دس راتوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی پاک شہِ لولاک ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا :-’’دس دن ذوالحج کے ایسے ہیں ان کے مقابلے میں کسی دن کی عبادت زیادہ مقبول نہیں کیونکہ ان دنوں میں روزہ کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت کا ثواب شب قدر کی عبادت کے برابر ملتا ہے ‘‘- ﴿سنن ترمذی،کتاب الصوم﴾ یہ تو آقا پاک ﴿w﴾ نے ذوالحجہ کے ابتدائی دنوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے- اسی طرح ذو الحجہ قربانی کے عمل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے تاجدار کائنات ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا :-’’قربانی کے دن اللہ رب العزت کو ﴿ذبیحہ کا﴾ خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل محبوب نہیں ہے اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں کھروں اور بالوں سمیت آئے گا- خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک درجہ حاصل کر لیتا ہے - تمہیں اپنی قربانی سے مسرور ہونا چاہیے‘‘- ﴿سنن ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی﴾
ایک اور جگہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول ﴿w﴾ نے عرض کیا کہ:- ’’یارسول اللہ ﴿w﴾ یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا:- یہ تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے- صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی کہ اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا:- ہر بال کے عوض ایک نیکی- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ ﴿w﴾ اگر اون ہو؟ آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا:- اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی‘‘- ﴿سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی﴾ نبی کریم ﴿w﴾ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا سید ہ فاطمۃ الزہرا ئ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا:-’’تم اپنی قربانی پر حاضر رہو کیونکہ جب تمہاری قربانی کا پہلا قطرہ ﴿خون﴾ نکلے گا تو تمہاری مغفرت کر دی جائے گی‘‘- ﴿مصنف عبد الرزاق، ۸۶۱۶﴾تاجدارِ دو عالم سرور کائنات ﴿w﴾ کی قربانی:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بیان ہے کہ :-
’’رسول اللہ ﴿w﴾ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے جو کالے ،سفید سینگ دار ہوتے- میں نے آپ ﴿w﴾ کو دیکھا کہ آپ ﴿w﴾ ان کے پہلوئوں پر قدم رکھ کر ’’بسم اللہ ‘‘پڑھتے تکبیر کہتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح فرماتے ‘‘- ﴿سنن ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی﴾حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ :-’’رسول اللہ ﴿w﴾ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں والے اور سیاہ رنگ کے ہوتے ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح فرماتے جو بھی اللہ پاک کو ایک جانتا ہو اور آپ ﴿w﴾ کی رسالت کا قائل ہو دوسرا محمد ﴿w﴾ اور آل محمد ﴿w﴾ کی جانب سے ذبح فرماتے‘‘-
﴿ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی﴾ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا میں عید الاضحی کے روز عید گاہ میں رسول اللہ ﴿w﴾کی خدمت میں موجود تھا جب آپ ﴿w﴾ نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے اترے اور ایک مینڈھا لایا گیاتو رسول اللہ ﴿w﴾ نے اسے اپنے دست اقدس سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا :-’’اللہ پاک کے نام سے شروع، اللہ اکبر ﴿اللہ بڑا ہے﴾ یہ میری طرف سے ہے اور میرے اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کرسکے‘‘- ﴿سنن ابن داؤد کتاب الضحایا ﴾ سبحان اللہ ! جو فخر موجودات ہے ، جن کے نام کی قسمیں اللہ پاک اٹھاتا ہے وہ اپنی اُمّت کے کتنے غم خوار ہیں - اِس پہ بعض فقہا نے باعتبارِ تقویٰ فرمایا ہے کہ اہلِ ثروت لوگ بھی اِس سُنّت کو اپنائیں کہ وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے اُن کی دلجوئی کے لئے اُن کی مدد کریں اِس کا دوہرا اجر ملے گا ، ایک قربانی میں حصہ شامل کرنے کا اور دوسرا نادار کی مدد اور دلجوئی کرنے کا -
قربانی کا وجوب:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا :-’’جس شخص میں طاقت ہو اور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے‘‘- ﴿مسند احمد،ج:۲، ص:۱۲۳﴾
قربانی واجب ہونے کی شرائط:
۱﴾-مسلمان ہونا ، یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں -
۲﴾- اقامت ، یعنی مقیم ہونا ﴿مسافر پر قربانی واجب نہیں اگر مسافر کرے تو بہتر ہے﴾
۳﴾- صاحبِ استطاعت ، مالکِ نصاب ہونا - یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے -
۴﴾- حریت ،آزاد ہونا یعنی غلام پر قربانی واجب نہیں-
۵﴾- مرد ہونا اس کے لئے شرط نہیں- عورتوں پر اسی طرح قربانی واجب ہے جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے-﴿نعم الباری فی شرح البخاری ، کتا ب الاضاحی﴾یہاں ایک دو ضروری باتوں کی وضاحت کرتا چلوں جو کہ عموماً عوام النّاس کے ذہن میں الجھی رہتی ہیں کہ ’’صاحبِ استطاعت‘‘ سے کیا مُراد ہے کہ کس قدر مال کا مالک ہو تو اُس پہ قربانی لازم ہو گی ؟
تو یہ بات نوٹ کر لیں کہ :’’جو شخص ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا بیس دینار یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو یا حاجت و ضرورت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہو تو وہ غنی اور مالدار ہے اس پر قربانی واجب ہے- ﴿حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کا سامان جو ضروریات زندگی میں شامل ہیں، سواری کا جانور اور پہننے کے کپڑے- ان کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ حاجت سے زائد ہیں﴾‘‘-
﴿ایضاً﴾ دوسری بات یہ ہے کہ کافر کے مسلمان ہونے اور مسافرت کے یا غربت کے ختم ہو جانے پہ کیا حکم لاگو ہو گا ؟ یعنی ایک شخص کافر تھا مسلمان ہوگیا، اسی طرح ایک آدمی سفر میں تھا اور وقتِ قربانی تک مقیم ہو گیا تو اُس پہ کیا حکم ہو گا؟ یا ایک آدمی مفلوک الحال تھا اچانک انعام کی وجہ سے یا لاٹری وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے وہ وقتِ قربانی پہ وہ حاجتمند سے نکل کر صاحبِ استطاعت ہو گیا تو اُس پہ کیا حکم ہے ؟ اس کے بارے میں در مختار کتاب الاضحیہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ:’’قربانی کا آخری وقت معتبر ہے یعنی ایک شخص اوّل وقت میںکافر تھا مسلمان ہوگیا یا مسافر تھااب قربانی کے وقت کے دوران مقیم ہو گیا یا پھر غریب تھا اور وقت کے اندر مالدار ہو گیاان تمام پر قربانی واجب ہوگی ‘‘- ﴿در مختار، کتاب الاضحیہ ﴾
قربانی کرنے کے ایّام:
’’قربانی تین دن ہے یعنی دسویں ، گیارہویں اور بارہویں تاریخ ذی لحج کی اورافضل دن قربانی کا پہلا دن ہے ‘‘-﴿در مختار، کتاب الاضحیہ ﴾
قربانی کا وقت:
حضرت ابو ہریرہ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا بیان ہے کہ رسول پاک ﴿w﴾ بقر عید کے دن کھڑے ہوئے اور آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا :-’’جو شخص ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھتا ہے، ہماری قربانی کی طرح قربانی کرتا ہے تو جب تک وہ نمازِ عید نہ پڑھ لے قربانی نہ کرے ‘‘- یہ سن کر میرے ماموں ابو بردہ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کھڑے ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ ﴿w﴾ میں نے تو عجلت سے قربانی کرلی تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کو کھلائوں- رسول پاک ﴿w﴾ نے فرمایا کہ ’’دوبارہ قربانی کرو- میرے پاس بکری کا ایک دوسرا بچہ ہے جو ابھی ایک سال کا نہیں ہوا اور میرے نزدیک وہ بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے- تم اسے ذبح کرو یہ تمہاری دو قربانیوں سے بہتر ہے اور تمہارے سوا کسی کے لئے بکری کا بچہ ﴿جذعہ﴾ قربانی میں دینا جائز نہیں‘‘- ﴿سنن النسائی، کتاب الضحایا﴾علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں قربانی میں کسی اور شخص کے لئے بکری کا بچہ ﴿جزعہ﴾ دینا درست نہیں البتہ پہلے اوپر والی حدیث میں گزرا بھیڑ کا ﴿جزعہ﴾ درست ہے-
اب رہا یہ سوال کہ حضرت ابو بردہ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾ کو آپ ﴿w﴾ نے ایسا کرنے کا حکم کیوں فرمایا تو یہ حکم صرف ابو بردہ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾ کے ساتھ مخصوص ہے جیسے گواہی میں حضرت خزیمہ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کی صرف ایک شہادت کو دو کے برابر قرار دیا گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے لئے اکثر ایسا حکم نہیں فرمایا گیا اس سے رسول پاک ﴿w﴾ کے اختیارات ثابت ہوتے ہیں-یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ رسول اللہ ﴿w﴾ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شارع ہیں بلکہ شریعت گر ہیں- شریعت آپ ﴿w﴾ کی ادائو ں کا نام ہے-ا للہ تعالیٰ نے احکام رسول اللہ ﴿w﴾ کے سپرد فرما دیئے کہ جیسے چاہیں احکامِ شریعت سے خاص فرمائیں اور جو چاہیں جس کے لیے چاہیں حلال و حرام فرمائیں- رسول اللہ ﴿w﴾ حلال بھی فرماتے ہیں اور حرام بھی فرماتے ہیں اور فرض بھی فرماتے ہیں- ﴿مواہب اللدنیہ للقسطلانی زرقانی جلد ۲صفحہ ۲۲۳﴾
قربانی کے جانوروں کے عیوب:
اللہ کے رسول ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا کہ:- ’’چار قسم کے جانور وں کی قربانی درست نہیں- ایک کانا جانور جس کا کانا پن صاف معلوم ہو- دوسرا بیمار جانور جس کی بیماری عیاں ہو- تیسرا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن صاف معلوم ہو- چوتھا ناتواں اور کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو -﴿راوی فرماتے ہیں﴾ مَیں نے عرض کی قربانی کے لئے مجھے تو وہ جانور بھی اچھا معلوم نہیں ہوتا جسکے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں- حضور پاک ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا کہ تجھے وہ جانور جو برا معلوم ہو اسے چھوڑ دو مگر کسی دوسرے کو اس کی قربانی سے منع نہ کرو‘‘- ﴿سنن نسائی کتاب الضحایا﴾
حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے ہمیں قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ دیکھنے کا حکم فرمایا- ﴿ایضاً﴾حضرت جری بن کلیب ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا بیان ہے کہ :-میں نے حضرت علی المرتضٰی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ سے سنا کہ رسول پاک ﴿w﴾ نے اس جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو -پھر اس نے اس کا تذکرہ حضرت سعید بن المسیب ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴾سے کیا تو انہوں نے فرمایا ہاں جب سینگ آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں اگر اس سے کم ہو تو درست اور جائز ہے- ﴿ایضاً﴾
حضرت علی المرتضٰی ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے ہمیں مقابلہ ، مدابرہ، شرقائ، خرقائ ، اور جدعائ کی قربانی دینے سے منع فرمایا- ﴿ایضاً﴾درج بالا حدیث پاک کی مخصوص اصلاحات کی مختصر تشریح یہ ہے : مقابلہ وہ جانور ہے جس کا کان سامنے سے کٹ گیا ہو- مدابرہ وہ جانور ہے جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو -شرقائ جس کے کان چرے ہوئے ہوں- خرقائ جس جانور کے کان میں گول گول سوراخ ہوں- جدعائ جس جانور کے کان کٹے ہوئے ہوں -
ایک ضروری وضاحت یہ بھی نوٹ کر لی جائے کہ فقہائے کرام نے جانوروں کے عیوب کا احادیث رسول ﴿w﴾ کی روشنی میں جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جانور کا جو نقص اس کی قیمت میں کمی کا باعث ہو وہ عموماً عیب میں شمار ہوتی ہے-
قربانی کا طریقہ:
حضرت انس ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ بیان فرماتے ہیں کہ :’’نبی پاک ﴿w﴾ نے دو گندمی رنگ کے سینگ والے مینڈھے کی اپنے ہاتھ مبارک سے قربانی فرمائی- آپ ﴿w﴾ نے بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور اپنا قدم مبارک ان کے پہلو پر رکھا‘‘- ﴿صحیح مسلم ، کتاب الضحایا﴾
چھری تیز کرنے کا حکم مبارک:
حضور پاک ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا:-’’ اے عائشہ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہا ﴾چھری لائو- پھر فرمایا اس کو پتھر سے تیز کرو -﴿آپ﴿k﴾ فرماتی ہیں کہ﴾ مَیں نے اس کو تیز کیا- پھر آپ ﴿w﴾ نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا ، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے- پھر آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا اللہ کے نام سے شروع اے اللہ محمد ﴿w﴾ و آل محمد ﴿w﴾ اور امت محمد ﴿w﴾ کی طرف سے قبول فرما -پھر آپ ﴿w﴾ نے اس کی قربانی فرمائی‘‘- ﴿سنن ابی دائود ، کتاب الضحایا﴾اِسی طرح حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہٰ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو ، تم میں سے کسی شخص کو چاہئے کہ وہ چھری کو ﴿اچھی طرح﴾ تیز کر لے اور ذبیحہ کو آرام پہنچائے‘‘- ﴿صحیح مسلم ، کتاب الصید الذبائح﴾
قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں کو احکامات:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا:- جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو وہ دس ذوالحجہ تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے اور پھر دسویں تاریخ کو قربانی کے بعد حجامت بنوائے‘‘- ﴿سنن نسائی ، کتاب الضحایا﴾حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے ایک شخص کو فرمایا کہ :- ’’مجھے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کرنے کا حکم ہوا اللہ تعالیٰ نے اس دن کو میری امت کے لئے عید بنایا- اس شخص نے عرض کی اگر میرے پاس کچھ نہ ہو اور صرف ایک ہی اونٹنی یا بکری ہو تو کیا میں اس کی قربانی کروں ؟ آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ تم اپنے بال کٹوائو ، ناخن تراشو ، مونچھوں کے بال چھوٹے کرو اور زیرِ ناف بالوں کو صاف کرو پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری پوری قربانی یہی ہے‘‘- ﴿سنن نسائی ، کتاب الضحایا﴾حضرت حنش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے: -’’میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ رسول پاک ﴿w﴾ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ ﴿w﴾ کی طرف سے قربانی کروں- چنانچہ﴿ ارشاد عالی کے تحت﴾ ایک قربانی حضور پاک ﴿w﴾ کی طرف سے پیش کر رہا ہوں ‘‘- ﴿سنن ابی داؤد ،کتاب الضحایا﴾علمائے کرام اس سے ثابت فرماتے ہیں کہ جن کے والدین یا عزیز و اقارب فوت ہو گئے ہوں ان کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں-یعنی ایک شخص دوسرے شخص کی جگہ قربانی کر سکتا ہے-
پوری جماعت کی طرف سے ایک قربانی:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ میں عید الاضحی کے روز عید گاہ میں رسول پاک ﴿w﴾ کی خدمت میں موجود تھا- جب آپ ﴿w﴾ نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے نیچے تشریف لائے اور ایک مینڈھا لایا گیا- رسول اللہ ﴿w﴾ نے اسے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا:-’’ بسم اللہ، اللہ اکبر، یہ میری طرف سے اور میرے ہر اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کر سکے ‘‘- ﴿سنن ابی داؤد کتاب الضحایا﴾ اگر جانور میں خریدنے کے بعد عیب پیدا ہو جائے تو اس کے بارے میں بھی ارشادات نبوی ﴿w﴾ میں تذکرہ موجود ہے :- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ :’’ہم نے قربانی کے لئے ایک مینڈھا خریدا- اتفاق سے بھیڑیا اس کی سرین کاٹ کر لے گیا- ہم نے نبی پاک سرور عالم ﴿w﴾ سے ﴿اس کے متعلق﴾ دریافت کیا- آپ ﴿w﴾ نے ہمیں اسے قربان کرنے کا حکم ارشاد فرمایا‘‘-﴿سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی﴾علمائ ایک مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر جانور خریدنے کے بعد اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو مالدار کے لئے دوسرا جانور ذبح کرنا ضروری ہے اور فقیر کے لئے وہی جانور کافی ہوگا ہاںالبتہ ذبح کے وقت اضطرار کی بنا پر اس میں کوئی عیب پیدا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں-
جانوروں کی عمریں:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے ارشار فرمایا- ’’صرف مسنہ ﴿ایک سال کی بکری ،دو سال کی گائے اور پانچ سال اونٹ﴾ کی قربانی کرو ، ہاں اگر تم کودشوار ہو تو چھ سات ماہ کا مینڈھا ذبح کرو ﴿جو سال کا معلوم ہوتا ہو﴾ ‘‘-﴿صحیح مسلم ،کتاب الاضاحی﴾
دودھ والے جانور کا ذبح کرنا:
حضرت ابوہریرہ ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ کا بیان ہے کہ :-’’رسول اللہ ﴿w﴾ ایک انصاری کے پاس تشریف لے گئے- اس نے رسول اللہ ﴿w﴾ کی خاطر بکری ذبح کرنے کے لئے چھری اٹھائی- رسول اللہ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا دودھ والی کو ذبح نہ کرنا‘‘ - ﴿ابن ماجہ - کتاب الذبائح﴾
کیا عورت جانور ذبح کر سکتی ہے؟
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک عورت نے بکری کو تیر سے ذبح کیا- رسول اللہ ﴿w﴾ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﴿w﴾ نے فرمایا کہ اِس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا- ﴿ایضاً﴾حضرت ابو موسیٰ اشعری ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہ﴾ اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی قربانیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں- ﴿نعم الباری فی شرح البخاری﴾جمہور فقہا کا قول ہے جو عورت اچھی طرح سے ذبح کر سکتی ہے، اسی طرح جو بچہ اچھے طریقے سے ذبح کر سکتا ہو اس کا ذبح کرنا بھی جائز ہے- ﴿نعم الباری فی شرح صیح البخاری، جلد ۱۱،ص۳۷۵﴾
جلالہ ﴿آوارہ جانوروں﴾ کے گوشت کی ممانعت :
حضرت عبداللہ بن عمر ﴿رضی اللہ تعالیٰ عنہما﴾ کا بیان ہے کہ :-’’رسول اللہ ﴿w﴾ نے فتح خیبر کے دن بستی کے گدھوں کا گوشت اور جلالہ ﴿آ وارہ پھرنے والے جانوروں﴾ سے اور اس پر سوار ہونے اور ان کا گوشت کھانے سے منع فرمایا‘‘- ﴿سنن نسائی ، کتاب البیوع﴾جلالہ وہ جانور ہے جو صرف نجاست او ر غلاظت کھاتا ہو- چاہے گائے، بکری، مرغی یا کوئی اور جانور ہو- ایسے جانور کا گوشت بعض علمائ کے نزدیک درست نہیں اور بعض کے نزدیک جب اسے کئی دنوں تک باندھ کر پاکیزہ چارہ کھلایا جائے تو درست ہے- ﴿ایضاً﴾
قربانی کے گوشت اور کھال کا حکم:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ:-’’ رسول اللہ ﴿w﴾ نے پہلے تو قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا پھر آپ ﴿w﴾ نے ارشاد فرمایا کھاو، سفر کے لیے جمع کرو اور تم ذخیرہ بھی کر سکتے ہو‘‘-﴿سنن نسائی، کتاب االضحایا﴾اسی طرح قربانی کی کھالوں کے بارے میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﴿w﴾ نے مجھے قربانی کی ہر چیز تقسیم کرنے کا حکم فرمایا خواہ گوشت ہو یا جھول-سب غریبوں میں تقسیم کر دی جائے ان مذکورہ احادیث مبارکہ سے فقہائ کرام نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:’’قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص کو غنی یا فقیر کو بھی دے سکتا ہے ﴿جس طرح حج کے دوران کرتے ہیں﴾ بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کے لئے مستحب ہے- بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کر لے ایک حصہ فقرائ کے لئے ایک حصہ دوست احباب کے لئے اور ایک اپنے گھر والوں کے لئے، ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے- کل کاصدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور کل کا گھر میں رکھ لینا بھی جائز ہے- تین دن سے زائد اپنے اور گھر والوں کے لئے لینا بھی جائز ہے‘‘- ﴿در مختار ،کتاب الاضحیہ ﴾’’قربانی کا چمڑا اور اس کی جھول اور رسی اور اس کے گلے کا ہار ان سب چیزوں کا صدقہ کردے -قربانی کے چمڑے سے جائے نماز، چھینی ،رتھیلی، مشکیزہ ، دستر خوان ،ڈول وغیرہ بنائے جاسکتے ہیں ‘‘-﴿در مختار، کتاب الاضحیہ ﴾’’اگر قربانی کا چمڑا بیچا تورقم صدقہ کرنا ضروری ہے ‘‘- ﴿در مختار، کتاب الاضحیہ ﴾’’قربانی کاچمڑا یا گوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو دیت میں نہیں دے سکتا‘‘- ﴿ہدایہ، کتاب الاضحیہ ﴾
قربانی کا روحانی تصور:
مذکورہ بالا ظاہری مسائل شرعیہ ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے اور ان پر عمل پیرا ہوئے بغیر انسان قربانی کی فریضہ سے صحیح معنوں میں عہدہ برائ نہیں ہوسکتا لیکن آقا پاک ﴿w﴾ پر نازل ہونے والی یہ آیات جن میں آپ ﴿w﴾ کی قربانی کا بھی تذکرہ ہے کہ:-﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰ لَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ ﴿الانعام،۲۶۱،۳۶۱﴾’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی ﴿سمیت سب بندگی﴾ اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے- اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ﴿جمیع مخلوقات میں﴾ سب سے پہلا مسلمان ہوں‘‘-
اس کی صوفیانہ تفسیر لکھتے ہوئے الشیخ احمد بن عمر بن محمد نجم الدین الکبریٰ اپنی تفسیر ’’ التاویلات النجمیّہ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’﴿اِنَّ صَلَاتِیْ﴾ یعنی منہاج الصلوٰۃ کی طرف میری سیر- اس سے معراج الی اللہ مراد ہے اور ﴿ نُسُکِیْ﴾ سے اپنے نفس کو ذبح کرنا مقصود ہے اور ﴿وَمَحْیَایَ﴾ قلب و روح کی حیاتی مراد ہے اور ﴿مَمَاتِیْ﴾ یعنی اپنے نفس کی موت مطلوب ہے اور ﴿ِﷲِ رَبِّ الْعٰ لَمِیْنَ﴾ یعنی یہ سب طلبِ حق اور اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچنے کے لئے ہے ، ﴿لَا شَرِیْکَ لَہ﴾ اس کی طلب میں کوئی شریک نہیں اس لئے کہ اس کے سوا ہمارا اور کوئی مطلوب نہیں‘‘ -آج ہم ان احکامات شریعت پر عمل پیرا ہونے کے باوجود روحانی فیوض و برکات سے کیوں محروم ہیں؟ اس کی فقط وجہ یہ ہے کہ ظاہر پرست معاشروں کی صحبت کی وجہ سے ہم نے بھی فقط اسلام کے ظاہر پر اکتفا کر لیا ہے اور اس کے باطن یعنی روحانیت کو ترک کر دیا ہے- اسی چیز کو علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کلام میں یوں بیان فرمایا کہ :-
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں ، تُو باقی نہیں ہے
ان تمام عبادات و ریاضات کا مطمع نظر اللہ پاک کی ذات تک رسائی ہے اگر نماز ،روزہ ،حج ، زکوٰۃ ، قربانی وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی طلب و رضا نکال دی جائے تو اس کے کماحقہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے- اسی لئے جب ہم قربانی کی ابتدائ کی طرف دیکھتے ہیں کہ کس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام نہایت خلوص کے ساتھ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے مالک کی راہ میں ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے- اسی طرح آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی جان و مال اولاد الغرض سب کچھ قربان کر دیا تو اس قربانی کے انعام میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :-
﴿اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا﴾ ﴿البقرہ: ۴۲۱﴾’’اے ابراھیم﴿ں﴾ !ہم نے آ پ کو تمام انسانوں کا امام بنا دیا ‘‘-آج بھی ضرورت اسی ابراہیمی خلوص کی ہے جیسا کہ حضرت الشیخ ابو عبداللہ بن الفضل رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا :-’’مجھے تعجب ہے اس سالک سے جو بڑی پر خار وادیوں اور ویرانے جنگلوں اور سنگستان مقامات کو طے کرتا ہوا اَللہ تعالیٰ کے گھر یعنی کعبہ معظمہ میں پہنچتا ہے اس لئے کہ یہیں پر انبیائ کرام علیہم السلام کو زیارت کا موقعہ نصیب ہوتا ہے اس ﴿مشقت﴾ کے باوجود وہ اپنے نفس کو نہیں چھوڑتا اور خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے پھر وہ کیسے اپنے مالک سے ملاقات کر سکتا ہے- جبکہ ان خواہشات کو مٹانے کے بعد ہی مولاکریم ﴿قلب میں﴾ جاگزیں ہوگا کیونکہ وہ صرف پاک قلب والوں کو ہی ملتا ہے‘‘-﴿روح البیان جلد ۳ص۷۳۱،۸۳۱﴾اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت مبارکہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے - ﴿اٰمین ثم اٰمین﴾