(گزشتہ سے پیوستہ)
حضور سیّد الانبیا شہِ لولاک رسولِ پاک ﷺ نے اپنی اُمّت پر اس خوف کااظہار فرمایاکہ میری اُمت شرکِ اصغر میں مبتلاہوجائے گی ،یہ شرک خفی میں مبتلا ہو جائے گی اوروہ شرک خفی ایک آدمی کااپنی شہوت کی پرستش کرنا ہے ، آدمی کااپنی شہوت کو پوجنا ہے-دُنیامیں دوقوتوں کے علاوہ تیسری کوئی قوت نہیں ہے ان میں ایک رحمن کی قوت ہے اوردوسری شیطان کی قوت ہے -جواللہ کی فرمانبرداری کرتا ہے اوراس کے حکم پر چلتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے راستے پر ہے اورجو اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کرتا ہے وہ شیطان کے راستے پر ہے - ہم اپنے لئے انتخاب کرلیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلنا ہے یاکہ شیطان کے راستے پر چلناہے، اگر شیطان کے راستے پر چلنا ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں متنبہ کررہے ہیں کہ پھر جان لو کہ شیطان توتمہارا کھلادشمن ہے اورشیطان تمہیں عورت اورشراب میں مبتلا کر دے گا -
میرے بھائیو اوربزرگو! ہمیں ان باتوں سے جی نہیں چرانا اوریقین کیجئے کہ یہ وہ بنیادی باتیںہیں (شہوت اور شراب) جن کو اپنا کر ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں -
میرے نوجوان دوستو ! مجھے اس بات کاپورا احساس ہے کہ مَیں منبر رسول سے آپ لوگوں سے مخاطب ہوں اورمیرارب جانتا ہے کہ مجھے اس منبر رسول کی تکریم کابہت زیادہ احترام بھی ہے اور اِس کی تکریم اور حساسیّت کا بھر پور احساس بھی ہے کیونکہ اسی منبر سے انبیاء کرام نے عامۃ الناس کیلئے صلائے عام کا فریضہ سرانجام دیا- میرے نزدیک اس منبر سے لایَعنی و بے معنی باتیں کرنے والا ،جھوٹ بولنے والا اور نفرت و اِشتعال پھیلانے والا سنگین مجرم ہے -اس منبر رسول ﷺ کے ادب کاتقاضا ہے کہ مجھے اس موضوع پہ بات کرتے ہوئے حیا آتی ہے - لیکن جب ایک طرف قرآن وسنت کا تقاضا ملاحظہ کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس قدر ظاہری اورباطنی پاکیزگی کا مظہر ہونا چاہیے مگر جب اپنے اردگرد پھیلی ہوئی گمراہی کو دیکھتے ہیں تو یہ اس امر کامتقاضی ہے کہ لوگوں کو پھر سے قرآن وسنت کابھولابسرا سبق یاد کروایاجائے -ہم کس راستے پر چلیں ؟اگرہم ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں تو یہ ہمارا اختیار نہیںبلکہ اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے -ہماری پیدائش کے لئے جگہ انتخاب کرنا ہمارا اختیار نہیں لیکن میرے اختیار میں یہ ضرور ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے کرم سے مجھے دینِ اسلام نصیب ہوا تو مَیں دینِ اسلام کومکمل طور پر اختیار کروں اورپورا اپنالوں-اگر آپ اسی مثال کوملاحظہ کریں کہ بطورِانسان ہمیں کتنے اختیارات حاصل ہیں -ذراتحمل اور بُرد باری سے سوچ کر بتائیں ، بالکل تنہائی ہوآپ ہوں اورآپ کااللہ ہو پھریہ سوچیں کہ
(۱)ہماری بنیاد یں کیاہیں؟
(۲)ہمارے اختیارات کیاہیں؟
(۳)میری شناخت کیا ہے ؟کیا میری شناخت میراقبیلہ اورخاندان ہے جس میں ،مَیں پیدا ہوا ہوں ؟
اب ذراسوچیں اوربتائیں کیاآپ اورمیرے اختیار میں ہے کہ ہم کون سی شناخت اپنائیں؟ (1) کوئی بندہ اپنی مرضی سے پیدا ہونے کے لئے: (۱) گھر،(۲) خاندان اور (۳) علاقے یا ملک کاانتخاب کرسکتاہے؟کیا ہمیں یہ اختیار حاصل ہے ؟ تو جواب قطعی ہے کہ ہمیں یہ اختیارحاصل نہیں ،ہم اپنی پیدائش کے لئے کسی گھر،خاندان اورجگہ کاانتخا ب کرسکیں -(2)دوسری بات کہ ہماری جسم کی محافظت -کیا ہم اس بات کویقینی بناسکتے ہیں کہ ساری زندگی میں ہمارے جسم پہ ایک خراش ،چوٹ یا زخم نہ آئے کیاہمیں اللہ نے یہ اختیار دیا ہے ؟ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، راستے پر چلتے ہوئے یاسواری سے گرکر،سیڑھیوں سے گر کر بھی اورصحن سے پھسل کر ہمیں چوٹ آسکتی ہے تو چوٹ سے محفوظ رہنا ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ ہمیں چوٹ سے محفوظ رکھنا صرف اللہ تعالیٰ کااختیار ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ، جس نے ہمیں جان دی اورہمارے جسم میں رُوح پھونکی- (3)کیا ہم اپنے مرنے کے لئے جگہ اوروقت کاانتخاب ازخود کرسکتے ہیں؟ اورکیا ہم اپنی طبعی عمر خود مقرر کرسکتے ہیں ؟میرے دوستو! یہ بھی اللہ کااختیار ہے ہمارا نہیں -
(1)جب ہم جب اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوسکتے ،(2)جب ہم دُنیا میں ناگہانی آفات سے اپنی محافظت نہیں کرسکتے اور(3)نہ ہی ہم اپنی طبعی موت کاوقت یا مقام مقرر کرسکتے ہیں- تو غورکریں جب میری پیدائش کی مرضی اللہ کی، میری محافظت کی ذمہ داری اللہ کی ، جب میری موت بھی اللہ کی رضا پہ منحصر ہے تو پھرمَیں زندگی اپنی ذاتی مرضی کے مطابق کیسے گزارسکتاہوں؟ پھر مجھے زندگی بھی اللہ کی مرضی اوررضا کے مطابق گزارنی پڑے گی یعنی اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزارنا قرینِ انصاف ہے -جب میرا اپنے پیدا ہونے پہ اختیار نہیں جب میرا اپنی موت پہ اختیار نہیں تو میرا اپنی زندگی پہ اختیارکیسے بنتا ہے ؟ پھر میرا اپنی مرضی سے راستہ اختیار کرنے کاسوال کیسا؟ یعنی میری زندگی کے راستے کاانتخاب بھی اللہ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے -راستہ اسی کاہوگا جوزندگی عطاکرتا ہے ،راستہ اسی کاہوگاجومیری موت کے وقت کافیصلہ کرتا ہے تو میرا راستہ ازخود اختیارکرنا کیسے ٹھیک ہے؟ اوراگرمَیں خود اپنا راستہ متعین کرتا ہوں اور خود کو مادر پدر آزاد گردانتا ہوں تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں حد مقرر کردیتا ہے-اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مَیں تمہیں دونوں سزائیں دوںگا اِس دنیا میں بھی اورآخرت میں بھی ! دونوں جگہ پہ رسوائی تمہارا مقدر بن جائے گی -اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نافرمانی کی سزاتم پہ اس دنیااورآخرت دونوں جگہ پر مقرر کردی گئی ہے -اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید سورۃ نورمیں واضح فرمایا:
{اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍص وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِج وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِـفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَo}(النور:۲)
’’بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوںمیں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جب کہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر اﷲ کے دین (کے حکم کے اِجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو-‘‘
اللہ تعالیٰ واضح اِرشاد فرماتے ہیں زانی مرد اورزانیہ عورتوں کو کوڑے لگاتے ہوئے تمہیں صرف اللہ کی حدود کاپاس کرنا چاہیے اوران پہ کسی قسم کاترس یا رحم نہیں کرنا چاہیے -یہ تو وہ سزا ہے جو دُنیا میں ان افعال بد کے مرتکب افراد کو رِیاست کی طرف سے دی جانی چاہئے اگر یہ سزا رِیاست کی طرف سے اِنصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے دی جائے تو ناچیز بالیقین یہ کہہ سکتا ہے کہ مُعاشرے سے اِس ناسور کو ختم کیا جاسکتا ہے ، اِسی لئے مغرب زدہ لوگ خاص کر این جی او مارکہ صابن ’’رجم‘‘ کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتا ہے تاکہ زنا کو عام کرنے کی رکاوٹیں ختم ہو سکیں -حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ ان افعال بد کے مرتکب افراد کو آخرت میں بھی عذاب عظیم سے دوچارکیاجائے گا- امام ابو داؤد نے السُنن کتاب الادب میں اورحضرت امام احمد بن حنبل نے المُسند میں حضرت انسؓ سے یہ روایت بیان فرمائی :(امام البیھقی فی الشعب الایمان ، امام حافظ السیوطی فی الدر المنثور آیت الحجرات ۱۲ )
آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب مَیں معراج کی رات اللہ تعالیٰ کی دعوت پہ آسمانوں پہ تشریف لے گیا تو مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے پوری کائنات کامشاہدہ کروایا،جنت اوردوزخ کی سیر کروائی،مَیں نے جنتیوں کے احوال بھی ملاحظہ کیے اورجہنمیوں کی حالت کامشاہدہ بھی کیا-مَیں نے جنتیوں کوبھی زندگی گزارتے ہوئے دیکھا اورجہنمیوں کو بھی عذاب سہتے ہوئے دیکھاآقا پاک ﷺ فرماتے ہیں کہ:
{لَمَّاعُرِجَ بِیْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَھُمْ اَظْفَارٌ مِنْ نُحُاسٍ یَخْمِشُوْنَ وُجُوْ ھَھُمْ وَ صُدُوْرَھُمْ}
’’مَیں نے شب معراج ایک قوم دیکھی {لَھُمْ اَظْفَارٌٌ} ان میں ایک قوم ایسے تھی جس کے ناخن لوہے اورتانبے کے تھے اوروہ تانبے اور لوہے کے ناخنوں سے اپنے پیٹ اورچہرے نوچ رہے تھے -‘‘
{فَقُلْتُ مَنْ ھٰؤُلَآئِ یَا جِبْرِیْلُ ؟ قَالَ: ھٰٓؤُلَا ئِ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ لُحُوْ مَ النَّاسِ وَ یَقَعُوْنَ فِیْ اَعْرَاضِھِمْ }
’’مَیں نے کہااے جبرائیل ! یہ کون سی قوم تھی جو اس درد ناک اورعبرت ناک عذاب سے دوچار ہے جو اپنے لوہے اورتانبے کے ناخنوں سے اپنے چہرے اورپیٹ کوباربار نوچ رہے ہیں -جبرائیل امین عرض کرتے ہیں :اے رسول اللہ ﷺ ! یہ وہ لوگ ہیں جولوگوں کا گوشت کھاتے تھے اورلوگوں کی عزتوں اورپردوں میں ہاتھ ڈالتے تھے اس وجہ سے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آج اللہ تبارک تعالیٰ نے دردناک عذاب سے دوچارکیا-‘‘
آج مغرب اوربھارتی تہذیبی یلغار کے بعد اِس(so-calld) سوشل میڈیا کی موجودگی میں اوران بڑی بڑی سیلولر یعنی موبائل فون نیٹ ورک کمپنیوں نے جنہوں نے فحاشی ،عریانی ، بدتمیزی اوربیہودگی کواس ملک میں ، اس زمین میں عام کیا،اس پھیلائی ہوئی فحاشی عریانی وغیرہ کی موجودگی میں بسا اوقات یہاں تک محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے دلوں میں ان دونوں جہنموں کاخوف نکل چکاہے اورشاید اب ہم کسی تیسری جہنم کی تلاش میں نکل چکے ہیں- مذکورہ دوجہنموں میں ایک تو آخرت کے روز جس کے متعلق آقاپاک ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اس کے شعلے لپک رہے ہیں،بھڑک رہے ہیں اور جہنمیوں کواپنی لپیٹ میںلے لیتے ہیں ، اس جہنم کاعذاب تو دنیَوی زندگی کے بعد آخرت میں پیش آناہے اوردوسری جہنم اسی دنیامیں بپا ہے کہ جو یہاں اعمال وافعالِ بدکا صِلہ یہیں پہ مل کے رہتاہے -سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِج وَالطَّیِّبٰتُ لِلْطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِج اُولٰٓـئِکَ مُبَرَّئُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌo } (النور:۲۶)
’’ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لیے ہیں، اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں (سو تم رسول اللہﷺ کی پاکیزگی و طہارت کو دیکھ کر خود سوچ لیتے کہ اللہ نے ان کے لیے زوجہ بھی کس قدر پاکیزہ و طیب بنائی ہو گی)، یہ (پاکیزہ لوگ) ان (تہمتوں) سے کلیتًا بری ہیں جو یہ (بدزبان) لوگ کہہ رہے ہیں، ان کے لیے (تو) بخشائش اور عزت و بزرگی والی عطا (مقدر ہو چکی ) ہے (تم ان کی شان میں زبان درازی کر کے کیوں اپنا منہ کالا اور اپنی آخرت تباہ و برباد کرتے ہو)-‘‘
جو مرد کسی اورکی عزت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتاہے اسے یقین ہونا چاہیے کہ یہ مکافات ِعمل ہے ایسے فرد کی اپنی عزت اوراپنا گھر محفوظ نہیں رہتا،یہ دُنیاوی جہنم کہ جوکسی کی عزت کو میلی آنکھ سے دیکھتا ہے اس کی اپنی عزت تارتار ہوجاتی ہے -یہ دوجہنمیں ہیں جن کے خوف سے ہمارا دل خالی ہوگیا، ایک آخرت کی جہنم اور ایک دُنیوی جہنم ہم دونوں سے بے خوف ہوگئے تو کیا اب ہم کسی تیسری جہنم کے انتظار میں ہیں؟ جس کے خوف کی وجہ سے ہم اعمال وافعالِ بد کا ارتکاب چھوڑیں گے؟ ڈریں اس وقت سے جب خدا کاعذاب ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لے -مَیں آپ سے جواب طلب نہیں کررہا ہے اورنہ ہی مَیں آپ کا محتسب ہوں لیکن میرے بھائیو! ہم اللہ اوراس کے رسول کوجواب دہ ہیں ،اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن پاک کوجواب دہ ہیں ،ہم اللہ تعالیٰ کے ترازو کے سامنے جواب دہ ہیں، ہم اپنی قبرکی مٹی کے سامنے تو جواب دہ ہوں گے، ہم محمدرسول اللہ ﷺ کے سامنے جواب دہ ہیں -ہم نے تیاری کرنی ہے کہ ان کے سامنے کیسے سرخرو ہوں گے -
اپنی موت کاوقت ہمیشہ یاد رکھیں جب ہمارے پیش امام نمازجنازہ سے پہلے اوربعدمیں یہ اعلان بار بار بتکرار کرتے ہیں کہ بھائیو! مرحوم(میّت)اگر مقروض ہے تو قرض خواہ مرحوم کے لواحقین سے اپناقرض طلب کرسکتاہے -مسلمانو! اس وقت سے ڈروجب غلاف میں لپٹاہوا قرآن مسجد کی شلف سے بولے گا کہ یہ میرا قرض دار تھا اس شخص نے میرا قرض مرنے سے پہلے نہیں لوٹایا-جب قبرکی مٹی پکارے گی کہ اس شخص نے میرا قرض بھی نہیں لوٹایا-بھائیو! بتائیں اس وقت ہم کیا جواب دے پائیں گے؟اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم کیاتیاری کرکے جارہے ہیں؟
دُنیامیں بڑے بڑے سچے اورجھوٹے مذہب ،صحیح یاغلط فلسفے آئے ، جھوٹے فلسفے نے،جھوٹی فکرنے،جھوٹے مذہب نے جھوٹی سوچ نے انبیاء کرام کی حقیقت سے انکار کیاملائکہ کی حقیقت کاانکار کیا،آسمانی کتابوں کا انکار کیا اور سب سے بڑھ کراللہ تعالیٰ اوراس کی توحید کاانکار کیالیکن آج تک اگرکسی بھی مذہب ،فلسفے ،فکراورسوچ نے کسی چیز کا انکار نہیں کیا تو صرف موت کاانکار کبھی نہیںکیا-موت وہ بر حق حقیقت ہے کہ کافراورمشرک بھی موت کاانکارنہیںکرسکتے -حضرت سلطان باھُو صاحب فرماتے ہیں کہ :
لوک قبر داکرسن چارا لحد بناون ڈیرا ھُو
جب آپ مرجائیں گے تو لوگوں کے دل آپ کی محبت سے خالی ہوجائیں گے، لوگ آپ کی میّت کوقبرمیں اُتارنے کی جلدی کریں گے کہ اگر دیر کردی تو میت خراب ہوجائے گی، وہ کہیں گے اگر قبرتیارہے توبلاوجہ دیر مت کریں -تجھے اس گھر سے اُٹھاکے اس قبر میں ڈال دیاجائے گااورقبرکس قدر تنگ ہوگی ؟
سوڑی سامی سٹ گھتیسن پلٹ نہ سکسیں پاسا ھُو
اس تنگ سے سوراخ میں تجھے ڈال دیاجائے گا جہاں تو کروٹ بھی نہ لے سکے گاجہاں تو پہلو بھی بدل نہ سکے گا-پھر تیری دوستی ، تعلق، رشتہ داری،تواضع ،محبت کاصلہ کیاہے ؟حضرت سلطان العارفین فرماتے ہیں:
چٹکی بھر مٹی دی پاسن کرسن ڈھیر اُچیرا ھُو
تیری قبر کی مٹی پر ایک چٹکی اورمٹھی بھر مٹی ڈال کرتیری محبت ،احسانات اور تعلق کاصلہ دیں گے-
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے بعد ازاں
زندگی بھر کی محبت کاصلہ دینے لگے
دے درُود گھراں نوں ونجن، کوکن شیرا شیرا ھُو
یعنی کلام و درُود کا ثواب پیش کریں گے اورساتھ کہیں گے کہ بڑا شیرآدمی تھایہ کہہ کرسب گھر کولوٹ جائیں گے اورتُواکیلاجواب دینے کے لئے رہ جائے گا-حضرت سلطان باھُوصاحب فرماتے ہیںکہ :
بے پرواہ درگاہ رب دی باھُوؔ نہیں فضلاں باجھ نبیڑا ھُو
آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے -اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میراترازو ہے، میرامیزان ہے اوراللہ تعالیٰ حق اورانصاف کی بات کرتاہے- اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس دن زمین خبریں اُگل دے گی ،ہاتھ ،پائوں اوردیگرانسانی اعضاء گواہی دیں گے -یہ دوجہنمیں ہیں ہمارے سامنے یہاں کی بھی جہنم اورآخرت کی بھی جہنم - لیکن فلاح یافتہ اورکامیاب ہونے والے کی نشانی اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں سورۃ المومنون میں فرماتے ہیں :
{قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَoالَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰـشِعُوْنَoوَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَoوَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَoوَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰـفِظُوْنَoاِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَo}
’’بے شک ایمان والے مراد پا گئے جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیںoاور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیںاور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں اور جو (دائماً ) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیںسوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں-‘‘
یعنی ایمان والے فلاح پائیں گے - اُن کی متعدد نشانیاں بیان فرمائیں :
(۱) نمازی ہوں گے -
(۲) اُن کی نمازیں ریا کاری و تکبُّر کی بدبُو کی بجائے عجز و نیاز اور اِنکساری و تواضع کی خُوشبُو سے بھری ہوں گی -
(۳) لغو لعب اور بے ہودہ باتوں سے پرہیز کرنے والے ہوں گے ، یعنی ایسی ہر بات جو بارگاہِ پروردگار میں ناپسندیدگی کا بول سمجھا جائے اُس سے کنارہ کش ہوں گے اور صرف احسن اقوال اور نیک و پاکیزہ و طیّب باتیں اُن کی زُبانوں سے ادا ہوں گی -
(۴) ہمیشہ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں گے جس سے کہ اُن کا مال بھی پاک ہوتا رہے گا ، زمین بھی رِبا اور سُود ی دھندوں سے پاک رہے گی کیونکہ سُود کے خلاف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اُس کے رسول پاک ﷺ کا اعلانِ جنگ ہے اور نیز زکوٰۃ سے زمین پہ بھوک و افلاس کا خاتمہ بھی ممکن ہوپاتا ہے - یعنی وہ لوگ عملاً مخلُوقِ خُدا کی مالی و معاشی مشکلات کے حل کیلئے بھی سرگرمِ عمل ہوں گے -
(۵) مومن کی نشانیوں میں نمایاں ترین یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے ، زنا اور بدکاری سے دُور رہنے والے ہوں گے ، اپنی نظروں کو نیچا رکھنے والے ہوں گے - اپنے اوپر شریعتِ اِسلامی میں حلال کی گئی خواتین کے علاوہ کسی کی طرف نگاہِ بد اور نیّتِ بد سے رجُوع یا جھُکاؤ کرنے والے نہ ہوں گے -
اِس چار دِنوں کی زندگی میں ایمان کی نشانیوں میں آدمی حسبِ استطاعت جتنا کمال حاصل کرسکے ، جتنا عروج پاسکے اور جتنی ترقی حاصل کر سکے اُتنا ہی اِس کیلئے بہتر ہے جیسا کہ عارفِ لاہوری ولیٔ کامل حضرت علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ’’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘‘ - اور عارفِ کھڑی مردِ خود آگاہ نُورالاولیأ حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی فرمایا تھا :
لوئے لوئے بھرلے کڑیئے جے تُدھ بھانڈا بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
جلدی جلدی اپنے برتن پانی سے بھرلو ایسے نہ ہو کہ ’’شام‘‘ کے بغیر شام ہوجائے - پہلے ’’شام ‘‘ سے مُراد دوست ہے اور دوسری ’’شام‘‘ سے مُراد موت ہے دوست سے مُراد مُرشدِ کامل بھی ہے اور اعمالِ حسنہ بھی ہیں - یعنی مُرشدِ کامل اور اعمال حسنہ کے بغیر قبر میں جاتے ہوئے سب گھبرائیں گے کیونکہ قبر میں تمہیں بچانے والا کوئی نہیں ہوگا ،قبر میں تمہیں چھڑوانے والا کوئی نہیں ہوگا-کون لوگ کامیاب ہوئے ؟
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰـفِظُوْنَo}(المومنون:۵)
’’اور جو (دائماً) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں-‘‘
المُصنّف میں حضرت امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ روایت بیان فرماتے ہیں اور یاد رہے کہ آپ (امام ابن ابی شیبہ) کو محدّثین میں بالاتفاق استاد و امام کا درجہ حاصل ہے ، فقۂ اِسلامی کے چھوتھے امام حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں - اس کے علاوہ بے شُمار جلیل القدر محدثین آپ کے تلامذہ و شاگردوں میں سے ہیں اگر حصُولِ برکت کیلئے بھی صرف چند نام لوں تو آپ رضی اللہ عنہ کی مہارت و روایتِ حدیث واضح ہوجاتی ہے مثلاً : حضرت امام بُخاری ابی عبد اللہ محمد بن اسماعیل ، حضرت امام مسلم بن الحجّاج نیساپوری ، حضرت امام ابی داؤد سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی ، حضرت امام ابن ماجہ ابی عبد اللہ محمد بن یزید بن ماجہ الربعی القزوینی ، حضرت امام ابن ابی الدنیا عبد اللہ بن محمد بن عُبسربن سفیان القرشی (رحمۃ اللہ علیھم اجمعین) - یہ حضرت امام ابنِ ابی شیبہ کے اُن سینکڑوں شاگردوں میں چند ایک نمایاں ترین ہیں علمِ حدیث و دین میں جن کی جلالتِ علمی آفتابِ نیم روز سے زیادہ واضح ہے -
{اَخْرَجَ ابْنُ اَبِیْ شِیْبَۃَ عَنْ ابان بْنِ عُثْمَانَ رضی اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ : تُعْرَفُ الزُّنَاۃُ بِنَتْنِ فُرُوْجِھِنَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ}
’’قیامت کے دِن زِنا کار اپنی شرم گاہوں کی بد بُو سے پہچانے جائیں گے ‘‘-
کہ جولوگ زنااوربدکاری میں مبتلارہتے ہیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت نہیں کرتے ، فرمایاقیامت کے دن تمہیں معلوم ہے وہ کیسے پہچانے جائیں گے ؟ جانتے ہو زانی کی پہچان قیامت کے دن کیاہوگی؟ فرمایا:قیامت کے دن زانی اپنی شرم گاہوں کی بد بو سے پہچانے جائیں گے -زانی کے جسم سے ایک خاص قسم کی بد بو آرہی ہوگی ملائکہ کہیں گے کہ لوگو! ان سے دور ہوجائویہ بد بخت وہ لوگ آرہے ہیں جو خداکے حکم کے منکرتھے ،جو رسول اللہ ﷺ کے حکم کے منکر تھے، جولوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت نہیںکرتے تھے ،جولوگ زنا میں مبتلارہتے تھے -آقاپاک ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کرکے کہا:
{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ ط اِنَّ اﷲَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَo}
’’اے حبیبِ مُکرّم ﷺ ! آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے- بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں-‘‘
{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ}(النور:۳۱)
’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے ( اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دو پٹے (اور چادریں ) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں -‘‘
میرے بھائیو ! ایک طرف ہمارے رسول پاک ہیں، ایک طرف قرآن ہے ،ایک طرف ہمارادین ہے، ایک طرف ہمارے نبی ﷺ کااُسوہ حسنہ ہے ایک طرف ہمارے نبی پاک ﷺ کی سیرت اورحدیث ہے اوردوسری طرف یہ تہذیبِ جدید کھڑی ہے ہم نے ان دونوں میں سے انتخاب کرنا ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں یاہم اپنی خواہشِ نفس کے اور تہذیبِ جدید کے بندے ہیں - ہم نے یہ انتخاب کرنا ہے کہ ہم نے رحمن کے راستے پر چلنا ہے یا شیطان کے راستے پہ ؟ ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم تہذیبِ مصطفوی ﷺ کے بندے ہیں یاکہ ہم اس این جی او مارکہ صابن تہذیب کے بندے ہیں- ایک نام نہاد تہذیبِ جدید ہے جس کاتصور ہالی وڈ اور بالی وڈ نے دیا،جس کاتصور ہمیں فحش شاعری نے دیا،جس کاتصور ہمیں فحش ناولوں نے دیا ،جس کاتصور ہمیں فحش افسانوں نے دیا،جس کاتصورہمیں فحش ڈراموں نے دیا ، جس کاتصور ہمیں فحش فلموں نے دیا-مَیں بطورباپ اوروالد خود سے سوال کرتا ہوں کیا اپنی اولاد کی تربیت کرنے کے لئے ان کا وقت گزارنے کے لئے کیااپنی اولاد کواللہ اوراس کے رسول کاوفادار بنانے کے لئے ،میرے پاس ان فلموں کے علاوہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے کے لئے کچھ اور نہیں ہے ؟ اپنی اولاد کو اس فحش اورلغوتہذیب کے علاوہ میرے پاس اپنے بچوں کودینے کے لئے کچھ نہیں ہے -اس پر یہ کہتے ہیں کہ یہ تو انٹرٹینمنٹ ہے -اس انٹرٹینمنٹ سے بچانے والے کوکہاجاتا ہے کہ یہ بیک ورڈ مولوی کس جنگل دیہات سے اُٹھ کے آگئے ہیں ان کوکیاپتہ دُنیاکیسے گزرتی ہے؟ ہم تو ذہنی سکون کی تلاش میں ہیں ،ہم استراحت اورراحت کی تلاش میں ہیں - مگر میں اُن سے پُوچھتا ہوں کہ کیا آرام کا،سکون کا،استراحت اورراحت کااورکوئی ذریعہ نہیں ہے ؟
میرے بھائیو!مَیں مختصراً عرض کرتاہوں عارفِ لاہوری ،عاشق مصطفیﷺ ، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نصیحت عرض کرتا ہوں آپ پیام مشرق ( پندِبازبابچۂ خویش) میں بتاتے ہیں : عقاب اپنے چھوٹے سے بچے کونصیحت کرتاہے -یہ ذہن نشین رہے کہ جو عقاب نصیحت کررہاہے وہ ہمارے آباء اجداد ،ہمارے سلف صالحین ہیں اورجن کویہ نصیحت کر رہے ہیں وہ ہم نوجوان ہیں جواس دین کے امین ہیں جن کے سینوں میں اللہ تعالیٰ نے توحید کی اوراس دین کی امانت رکھ دی ہے-
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
یہ مَیں اس یقین کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ سلطان العارفین قدس اللہ سرّہٗ کی اورحکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی پکار پہ ہماری نوجوان نسل اس این جی او مارکہ تہذیب سے چھٹکاراحاصل کر لے گی -حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں:کہ وہ باز اپنے بچے کونصیحت کرتاہے کہ:
تُودانی کہ بازاں زِیک جوہر اند
دلِ شیر دارند و مُشتِ پَراند
نِکوشیوہ وپختہ تدبیرباش
جسوروغیوروکلاں گیرباش
یہاں شاہین بچے سے مراد آج کا مسلمان ہے-
’’اے بچے ! تو جانتا ہے کہ باز ایک ایسے جوہر سے بنا ہے جس کے جسم پر ظاہراً تو پرلگے ہوئے ہیں لیکن اس کے سینہ میں اللہ تعالیٰ نے دل شیروں کارکھ دیاہے -کہ نیک ہوجااپنے اندر نیکی کی خصلت پیداکر،خود میں اچھے عمل کی خصلت پیداکر،اورجب توتدبیر کرنے لگے تو پختہ تدبیر کر‘‘-
ورجب بھی تو تدبیر کرنے لگے تیرے سامنے قرآن سنت اوراحادیث مبارکہ ہو ،سلف صالحین کاپیغام ہو-اپنے وجود میں شاہین کی غیرت کوپیداکریااپنے وجود کے اندر اسلام کی غیرت کوپیداکر-
میامیز با کبکؔ وتورنگ ؔوسارؔ
مگرایں کہ داری ہوائے شکار
اقبال کہتے ہیں کہ تو(مسلمان)توشاہین ہے، توعقاب ہے اس لئے چڑیوں سے، فاختائوں اورکوئوں سے سبق حاصل نہ کر-مغرب اوربھارت کے ہالی وڈ اوربالی وڈ کی سکرینوں پہ پروجیکٹ کی گئی یہ تہذیب فریبِ نظر ہے، جھوٹ ہے ،جہالت ہے، غفلت ہے اوریہ غیر انسانی فعل ہے ،یہ انسانی حقوق اورفطرت کے خلاف ہے ،یہ درندگانہ اوروحشیانہ تہذیب ہے ،یہ چڑیوں ،فاختائوں ،لالیوں اورکوئوں کی تہذیب ہے -
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی رِیزہ کاری ہے
شاہین اس قسم کی بے چمک تہذیب سے سبق حاصل نہیں کرتا بلکہ جھوٹے نگوں سے ریزہ کاری لانے والی اس قسم کی جھوٹی و فرسودہ و مبنی بر خُرافات تہذیبوں کو شکار کر لیتا ہے ، اپنی تہذیب کی قوت سے ان کی تہذیب کو مغلوب کر دیتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا {لیظہرہ علی الدین کلہ} کے تیرادین نے تمام اَدیان پر اورتیری تہذیب نے تمام تہذیبوں پہ غالب آناہے -
بسا شِکرہ افتادہ برروئے خاک
شد از صحبتِ دانہ چنیاں ہلاک
مَیں نے بہت سے بازوں کوزمین پہ گرتے ہوئے دیکھا ہے اوربتاتے ہیں کہ عقاب کب زمین پہ گرتاہے، کب زمین سے کسی صیاد کاشکار ہوجاتاہے کہ جب وہ عام پرندوں کی طرح رزق تلاش کرناجن پرندوں کارزق اللہ تعالیٰ نے زمین پر لکھ دیاوہ زمین کی خاک سے اپنا رزق چن کرکھاتے ہیں اورشاہین کا کمال یہ ہے کہ شاہیں آسمان سے تارے توڑ کرکھاتاہے، آسمان سے ستارے چراکرکھاتاہے، اُڑتے ہوئے پرندوں کاشکار کرتاہے اوروہ پرندے ہلاک ہو جاتے ہیں اورصیاد کاشکار ہوجاتے ہیں جواپنا رزق خاک سے چنتے ہیں، جس طرح بانگِ درا کی ایک نظم کے مُطابق صحرا کا پرندہ شاہی محل میں پابندِ قفس پرندے کو مخاطب کر کے کہتا ہے :
تُو مُرغِ سرائی ، خورش از خاک بجوئی
ما دَر صددِ دانہ بہ انجم زدہ منقار
اقبال بتاتے ہیں کہ شاہین کبھی شکاری کے جال میں نہیں پھنستاجب تک وہ اپنا شکارآسمان کی بلندیوں پہ تلاش کرتاہے ،اورجب شاہین اپنا شکار ریت کے ذرّوں سے تلاش کرنا شروع کرتا ہے تو شکاری کے جال میں آجاتاہے -تُومسلمان ہے اورتم اس تہذیب سے تعلق رکھتے ہوجو تہذیب عقاب ہے جوتہذیب شاہین ہے جوتہذیب آسمان کی بلندیوں میں پروازکرتی ہے اور رفعتوں ، بُلندیوں سے ستارے توڑ کر اپنا رزق بناتی ہے -ایسا رزق جسے کھانے سے پرواز میں کوتاہی واقع ہوجائے ، جسے کھانے سے ایک تہذیب کے دائرہ سے نکل کر اُس سے حقیر تر ، احقر تر تہذیب میں مُبتلا کر دے اُس سے پرہیز لازِم ہے - اسی لئے اقبال کہتے ہیں :
٭ اے طائرِ لاہُوتی اُس رزق سے موت اچھّی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
٭ وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شاہبازی
٭ پرواز ہے دونوں کی اُسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اَور ہے شاہیں کا جہاں اَور
٭ اُڑا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار
شکارِ تازہ کی لذّت سے بے نصیب رہا
٭ کرگس کو سدرہ کی ہوا راس نہ آئی
بد بخت بُلندی میں بھی مُردار پہ جھپٹا
کرگس کاجہاں اوراس لئے ہے کہ کرگس مُردارشکار بھی کھاجاتاہے اورکرگس زمین سے چُن کرکھاتاہے، گِدھیں زمین سے مُرداراُٹھاکرکھاتی ہیں اور شاہین فضامیں اُڑتے ہوئے پرندوں کاشکار کرتاہے -
ہم مسلمان ہیں، ہم رسول اللہ ﷺ کے شاہین ہیں، ہم سیّدنا صدیق اکبر کے شاہین ہیں، ہم سیّدنا فاروق اعظم ، سیّدنا عثمان غنی اور سیّدنا علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنھم اجمعین) کے شاہین ہیں،ہم امام عالی مقام ؑ ،حضرت خالد بن ولید اور حضرت غوث الاعظم ، حضرت سلطان العارفین اور حضرت علامہ اقبال کے شاہین ہیں ،ہم ایسی تہذیب کے قائل نہیں جوہمیں رزق کے لئے زمین پہ جھکناسکھائے ،ہمارے اَسلاف نے تو آسمان کی بلندیوں سے اپنا رزق تلاش کیاتھا-اورپھر اقبال کہتے ہیں :
نگہ دارخود را وخورسند زی
دلیر ودرشت وتنومند زی
اپنی خودی کی حفاظت کر،اپنے دین ،ایمان اورتقویٰ کی حفاظت کر،اوررسول اللہ ﷺ کی عطاکی گئیں بشارتوں کی حفاظت کرکہ میرادین غالب ہونے کے لئے آیاہے میرادین مغلوب ہونے کے لئے نہیں آیا ، اپنے قرآن کو،اپنی تابناک تاریخ کواپنے سامنے رکھ کہ جس تاریخی تہذیب نے محض ایک قیصروکسریٰ کو نہیں بلکہ ہردورکے قیصر وکسریٰ کوشکست فاش دی تھی - اس لئے نیکی کی طرف بڑھ کرخورسندی کی طرف بڑھ، خوش بختی کی جانب بڑھ اورایک بات یاد رکھناکہ دلیر ،درشت اورتنومند ہوجا،تیری دلیری اورجرأتِ ایمان کو کوئی للکار نہ سکے اوریہ سوشل میڈیااورسیلولر موبائیل فون نیٹ ورک کمپنیوں کے پیکجز تیرے ایمان کاسودانہ کرسکیں اپنی بنیاد قرآن وسنت پہ استوارکر - اورپھر اقبال فرماتے ہیں :
چہ خوش گفت فرزندِ خود را عقاب
کہ یک قطرہ خوں بہتر ازلعلِ ناب
کہ عقاب نے اپنے بیٹے کوکتنی اچھی بات کہی کہ ہزاروں لعل وجواہر سے خون کے ایک قطرے کی قیمت زیادہ ہے یعنی ایمان کے ایک ذرے کی قیمت زیادہ ہے -اس لئے ہمیں خود میں اس دولتِ ایمانی کوتلاش کرنا ہے -
مجو انجمن مثلِ آہو ومیش
بخلوت گراچوں نیاگانِ خویش
اس پوری نظم میں سمجھنے کی یہ بنیادی بات ہے کہ ’’آہو‘‘ ہرن کوکہتے ہیں اور ’’میش‘‘ گیڈر کوکہتے ہیں - اقبال فرماتے ہیں کہ وہ شاہین اپنے بچے کوکہتا ہے کہ جب رات ہوتی ہے تو ہرن اورگیڈر اپنی مجلس بناکررات بسر کرتے ہیں جبکہ شاہین مجلس بناکے رات بسر نہیںکرتا بلکہ اے عقاب! تیرے بزرگوں کی روایت یہ رہی ہے کہ وہ رات کوتنہائی میں بسر کرتے ہیں -آہو جس کا مطلب ہرن ہے اس کااشارہ تانیث یعنی نسوانیت کی طرف ہے اورمیش گیڈرجس کااشارہ تذکیر یعنی مذکرکی جانب ہے کہ مغرب کے گیڈریعنی مرد اورہرنیاں یعنی عورتوں کی طرح رقص سرود کی بے حیا اوربیہودہ محفلوں میں رات بسر نہ کرناکہ تیرے بوڑھے عقابوں کی روایت یہ تھی کہ وہ رات اپنے خدا کے حضور سربسجود ہوکر بسرکرتے تھے - وہ اپنی راحت اورسکون کااہتمام شراب وشباب میں تلاش نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اللہ کے حضورسجدہ ریزی سے حاصل کرتے تھے - یہ ہے اُس سوال کا جواب ! کہ راحت و سکون کے متبادل ذرائع کیا ہیں ؟ -ہم مسلمان ہیں اورہم اُس تہذیب کے امین ہیں -
کبھی اے نوجوان مسلم! تدبّر بھی کیا تُو نے؟
وہ کیاگردوں تھا، تُو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا؟
تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سرِدارا
تمدُّن آفریں ، خُلّاقِ آئینِ جہانداری
وہ صحرائے عرب یعنی شُتربانوں کا گہوارا
میرے بھائیو! بالخصوص میرے نوجوان ساتھیو! اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین اورجانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب یہی پیغام لے کر آپ کے پاس آئے ہیںکہ آج خدا کادین مشکل میں ہے، آج مغرب اورشیطان کے دیگر تمام نمائندے کہ وہ فحاشی ،عریانی کے ذریعے زِناکوعام کرکے اور اس جیسی دیگر قباحتوں کوعام کرکے ہماری تہذیب کا سَر مسلنا چاہتے ہیں ،ہمارے ایمان کوکچلنا چاہتے ہیں - کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جب تک یہ قوم زندہ ہے اورجب تک اس قوم میں ایمان زندہ ہے ان مغربی اورشیطان نواز قوتوں کاعالمی تسلط کبھی بھی قائم نہیں ہوسکتا-اورمَیں کئی برسوں سے آپ سے عرض کرتا چلا آ رہا ہوں کہ ان کوکسی قوم سے ڈر نہیں ہے اگرانہیں کسی قوم سے خوف ہے تووہ مسلمان قوم ہے جس کی تشکیل کلمہ طیب ’’لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘‘ پہ ہوئی ہے - آج مغرب کے پروردہ کیوں کہتے ہیں کہ اسلامی شناخت کوچھوڑ دو ،یہ آج این جی او مارکہ صابن سوشل میڈیا اورٹی وی مذاکروںمیں اس لئے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس ملک کی بنیاد کلمہ طیب ’’لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘‘نہیں بلکہ کچھ اوربھی ہے -لیکن پاکستان کی تشکیل کلمہ طیب ’’ لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘‘ پر تھی ،عصر حاضر میں بھی یہ بنیاد ہے اورانشاء اللہ آئندہ تاقیامت پاکستان کی بنیاد صرف ’’لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘‘ہی رہے گی -اس ملک کے کسی دستور ،قانون اورآئین کی بنیاد ما سویٰ کلمہ طیب ’’لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘‘ کے کچھ اورہوہی نہیں سکتی - اوراس ملک کے گلی کوچوں میں ہم اس امر کاپہرہ دیں گے کہ اس ملک کی بنا صرف ’’ لا الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘‘ہے -ہماری یہی دعوت ہے کہ اس مشکل وقت میں خدا کے دین کو آپ کی ضرورت ہے، ہم نے قرآن کا قرض چکاناہے اورہم نے قبر کی مٹی ، خدا کے ترازو کا قرض چُکانا ہے -اورہم نے قرض چکاناہے آقاپاک ﷺ کے ان شہید دندانِ مبارک کا جوغزوہ اُحد میں شہید ہوئے تھے -ہم نے آقاپاک ﷺ کے خون مبارک کے ان قطروں کاقرض چکاناہے جو آپ ﷺ وادیٔ طائف میں تبلیغ اسلام کی کاوش میں بہے تھے -ہم نے رسول اللہ ﷺ کے رُخساروں ، پیشانی مبارک اور سَرِ اَقدس پہ لگے زخموں کے قرض کی قیمت اعمالِ حسنہ کی بجاآوری کی صورت میں اداکرنی ہے- ہم پراللہ کے رسول ﷺ کی ہجرت مبارک کا قرض بھی واجب الادا ہے -ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، ہماری زندگی محض دوسانسوں پہ قائم ہے ایک سانس باہر جاتاہے تودوسرا اندر آتایہ دونوں سانس اللہ کے حکم پہ آتے اورجاتے ہیں شاید ہم سب چلے جائیں ،شاید ہم میں سے کچھ لوگ چلے جائیں یہ کسی کومعلوم نہیں - ہمیںآج اپنی زندگی کایقین نہیں ہے تو ہمیں اپنی زندگی کی تمام دھڑکنیں اورسانسیں ، زندگی کے تمام جذبات،تمام احساسات اورہمیں اپنی زندگی کی تمام ساعتوں کوسمیٹ کراللہ تعالیٰ کی چاہت کے سپرد کرناہے- اللہ کے دین کی سربلندی میں لگانا ہے -ہمیں ہمارے بزرگوں نے یہی بتایاہے کہ
درجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری
وقت پیری گرگِ ظالم میشودپرہیزگار
کہ جوانی میں اپنی لَواللہ سے لگانے ،جوانی میں اپنی چاہت کواللہ کی چاہت کے سپر د کرنا، جوانی میں اپنی جوان دھڑکنوں کو،اپنے جوان جذبات کو،اپنے جوان اِحساسات کو،اپنی جوان سانسوں کو،اپنی سانسوں کی جوان حرارت کو،جوانی میں اللہ تعالیٰ کی طرف لگاناشیوۂ پیغمبری ہے ،انبیاء کرام کی سنت ہے اور اگر بڑھاپے کاانتظارکررہے ہوتو بڑھاپے میں توبھیڑیا بھی ظلم سے باز آجاتاہے، بڑھاپے میں بندہ سدھر جائے توکون سی بڑی بات ہے ؟ مَیں آخر میں آپ تمام نوجوان ساتھیوں کویہ دعوت دینا چاہتاہوں کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ نے جو اَحیائے دین کااورشریعت نبوی ﷺ کاپیغام دیا، یہی پیغام ہمارے اَسلاف کاہے اورسب سے بڑھ کرکتاب وسنت کابھی یہی پیغام ہے - جب دین کومشکل میں دیکھو،پرچم مصطفویﷺ کے گرد دشمنوں کومنڈلاتا دیکھوتواس وقت اس پرچم کی حفاظت و محافظت کے لئے کھڑے ہوجائواوراللہ تمہاری حفاظت کرنے والاہے -آج اگر تم اللہ کو یاد رکھو گے کل اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں تمہیں یاد رکھے گا اگر آج تم اللہ کے احکامات کوبھلادوگے توکل اللہ تعالیٰ اپنی عدالت میں تمہیں بھلادے گا - آج اس دین پہ کٹھن وقت ہے ہمیں گمراہ کرنے کے لئے اورہماری آئندہ آنے والی نسل کواسلام سے ہٹانے کے لئے ابلیسی ، شیطانی و سِفلی قُوّتیں بھرپور کوششیں کر رہی ہیں اور ہر طرف محاذ کھولے ہوئے ہیں - جیسے اقبال نے کہا کہ ابلیس اپنے سیاسی فرزندوں کو پیغام دیتا ہے :
لا کر برہمنوں کو سیاست کی پیچ میں
زُنّاریوں کو دَیرِ کُہن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اِسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو!
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ عِلاج
مُلّاں کو اُن کے کوہ و دَمن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدﷺ اُس کے بدن سے نکال دو!
آج ہمارے اس نظریے کو ختم کرنے کے لئے اورہماری آنے والی نسل سے اس نظریے کوبالکل حذف کردینے کے لئے شیطانی ٹولااپنی پوری تہذیبی یلغار کے ساتھ ہم پرحملہ کئے ہوئے ہے -اپنے گھروں میں جائیں اوراپنے بیوی بچوں کویہ پیغام دیں ،اپنی بہنوں،بھائیوں اوراپنے والدین کویہ پیغام دیں اور اپنے گلی محلوں،اپنے گائوںمیں، اپنے قصبوں، اپنے شہروں میں اس پیغام کوعام کریں -خداکے نام پہ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوجائیں -آپ کسی مسلک ، کسی مکتب فکرسے ،کسی مذہبی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکارنہیں -خدا کے دین کوآج بچاناہے ،خداکے دین کی آج محافظت کرنی ہے - اپنی دکانوں میں بیٹھ کر،اپنے دفتروں ،اپنے کالجز،یونیورسٹیوں میں ،اپنی کلاسز میں اس بات کاچرچاکریں اللہ تعالیٰ اورحضورنبی کریم ﷺ کے دین کے محافظ بن جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمارا محافظ ہوگا،ہماری آنے والی نسلوں کامحافظ ہوگا -اللہ تعالیٰ ہمیں اس پیغام کوعام کرنے کی توفیق دے -(امین)