واجب الاحترام معزز و محترم بھائیو ، بزرگو اور ساتھیو! السلام و علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہُ آج کی اِس تقریب کے حوالے سے میں صرف چند گزارشات عرض کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق ہمارے چند فکری سطح کے اصلاحی پہلوئوں سے ہے- بعض ایسی باتیں، افکار اور ایسے نظریات جن کے متعلق قرآن و سنت کا پیغام بہت واضح ہے اور اسلاف کے طریق سے، بزرگانِ دین کی زندگیوں کے عملی نمونے سے ایک ثابت شدہ راستہ موجود ہے، ان کے متعلق اُمّت کے اندر ایک تذبذب یا گو مگو کی کیفیت کا پایا جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض مقامات پہ ہمیں ایسی بنیادی اصلاح کی ضرورت ہے جس کے بغیر ہماری فکر و زہد کی اصلاح ممکن نہیں رہتی- اس سے بنیادی طور پر تعلق یہ ہے کہ جو قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف انداز کے ساتھ مختلف مقامات پہ دعوت دی مثلاً ایک جگہ اللہ تعالی ہمیں فرماتا ہے:-
﴿فَفِرُّوْآ اِلَی اﷲ﴾’’دوڑو اللہ کی طرف ‘‘ایک اور جگہ پہ اسی طرح فرمایا:-
﴿یٰٓ اَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْم﴾’’اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب سے غافل کر دیا‘‘-
یعنی تجھے کس چیز نے اپنے رب سے دور کر دیا، تجھے رب کی جانب بڑھنے سے روک رکھا، تجھے رب کی جانب جانے کی بجائے کسی فریب میں مبتلا کر رکھا ہے-
مَیں نے مثال کے طور پر یہ دو آیات اسی لئے پیش کیں تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اللہ تعالی کی انسان کی جانب توجہ، انسان کے ساتھ محبت اور انسان کی طرف اللہ تعالیٰ جو رحمت کے دروازے کھولنا چاہتا ہے، وہ اپنی بارگاہ سے انسان کو یہ رہنمائی بھی عطا فرماتاہے کہ تیرے گناہوں اور تیری تقصیروں کے با وجود میں نے اپنی رحمت کا دروازہ کبھی تجھ پہ بند نہیں کیا - لیکن تجھے میری طرف آنے سے کس نے روک رکھا ہے؟ تو میری ذات کی جانب رجوع کیوں نہیں کرتا؟ تو میری ذات کی جانب کوشش، توجہ، اور سفر اختیار کیوں نہیں کرتا؟ اور میری ذات کی جانب تو دوڑ کر ، چل کر کس لئے نہیں آتا؟
اس کی بارگاہ تک جانے اور اس کی محبت تک رسائی کا راستہ، اس کی اطاعت کے حصول، اس کی رضا، اس کی خوشنودی کے حصول کا راستہ اللہ تعالیٰ نے آقا ﴿w﴾ کی ذات مبارک کے اس دین کی تکمیل فرما کر انسانیت کے لئے اس راستے کو واضح کر دیا کہ اگر کوئی بھی میری ذات تک آنا چاہے، میری خوشنودی، رضا، محبت، قرب کو پانا چاہے ، میری بارگاہ کی معرفت اور میری بارگاہ کی حضوری کو پانا چاہے تو اس کے لئے راستہ یہ ہے کہ وہ میرے محبوب پاک ﴿w﴾ پہ نازل شدہ اس کتاب حکیم اور میرے محبوب پاک ﴿w﴾ کی سنت کو اختیار کر لے- یعنی یہ واضح فرمایا کہ میری بارگاہ تک اگر تم پہنچنا چاہتے ہو تو اس کا راستہ یہ ہے کہ میرے محبوب کریم ﴿w﴾ پہ نازل شدہ کتاب اور میرے محبوب کریم ﴿w﴾ کی سنت مبارک کو تھام لو گے تو تم میری محبت ، رضا، خوشنودی اور میرے قرب کو بھی پالو گے-
اب جب اس راستے پر عمل پیرا ہونے اور اس کی بارگاہ تک پہنچنے کی بات آتی ہے تو اس کے لئے صوفیائے کرام نے جس طریق کو اختیار کیا اسے عرف عام میں ہم تصوف کہتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسرار و رموز، اس کی محبت کے سرور اور آدمی کے قلب کے اس گداز کا راستہ ہے جس سے آدمی کے نفس کو تزکیہ نصیب ہوتا ہے، اس کے باطن کو پاکیزگی اور طہارت نصیب ہوتی ہے- یہ وہ راستہ ہے جو آدمی کو اس کے وجود کے ظاہر اور باطن کے ساتھ بھی، سر سے لے کر قدموں تک، عقل سے لے کر روح تک، زندگی کے ہر ہر پہلو، ہر ہر تقاضے کے میں اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار فرما دیتا ہے- لیکن جب اس پر یہ بحث شروع کی جاتی ہے کہ اس راہِ روحانیت، راہِ سلوک، راہِ باطن اور طریق تصوف کا قرآن و سنت او ر شریعت میں کیا جواز ہے؟ قرآن مجید نے کہاں پہ یہ بیان کیا اور حضور امام الا نبیائ ﴿w﴾ نے اپنی امت کو اس راستے کی دعوت کہاں پہ ارشاد فرمائی؟ تو پھر اس پر مختلف تاویلات شروع ہو جاتی ہیں-
کسی نے اسے دورِ تابعین سے منسوب کیا، کسی نے اسے دورِ تبع تابعین سے منسوب کیا - جبکہ کسی نے اسے اس بات پر منسوب کیا کہ جب طوائف الملوکی شروع ہو گئی، جب خلافت انتشار کا شکار ہو گئی، جب دین و دنیا میں جدائی اور دین و دنیا میں امتیاز کی بات شروع ہو گئی اس وقت اس راستے کو اختیار کیا گیا، اس وقت اس جدائی، اس تنہائی ، اس خلوت ، اس صحرانَوَرْدِی اور ان چیزوں کو اختیار کیا گیا لیکن درحقیقت آخر الذکر اس کی وہ تشریح ہے جو تعصب کے چشمے لگا کر کی جاتی ہے ، جن کا مطالعہ کر کے آدمی کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ بیان کرنے والے کی نگاہ نہ قرآن پر ہے، نہ قرآن کی تشریحات پر ہے اور نہ ہی حضور خاتم النبییّن ﴿w﴾ کی سنت مبارکہ پر ہے- اسی لئے اسلام میں جو راہ ِطریقت، راہ ِسلوک، راہ ِباطن ہے، باطنی علوم اور تصوف کے علم کا جو سب سے بنیادی ماخذ، سب سے پہلا ذریعہ ہے وہ خود قرآن حکیم ہے- اِس راہ اور اِس علم کا ثبوت، جواز، موجودگی، امکان، وضاحت اور اس کی توضیح و تشریح خود قرآن کریم نے بیان فرمائی-
مثال کے طور پہ سب سے پہلے یہ کہ قرآن کریم سے اس راہِ باطن کا کیا جواز ہے؟ اسے قرآن کی ہر ایک سورہ سے ثابت کیا جا سکتا ہے- مَیں مثال کے طور پہ صرف ایک دو آیا ت اور ان کی مختصر وضاحت عرض کروں گا تاکہ یہ اصول واضح ہو جائے- قرآن کریم نے بیان فرمایا- ﴿کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰ تِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے ﴿اپنا﴾ رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں ﴿نفسًا و قلبًا﴾ پاک صاف کرتا ہے اورتمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ ﴿اسرارِ معرفت وحقیقت﴾ سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘-﴿البقرۃ:۱۵۱﴾
اب بنیادی طور پر قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی یہ آیت اوّل سے لے کر آخر تک جتنے نکات کو بیان کرتی ہے، چاہے اس کا تعلق ﴿ارسلنا﴾ سے ہو، چاہے اس کا تعلق ﴿رسولاً﴾ سے ہو، چاہے اس کا تعلق ﴿یتلوا﴾ سے ہو چاہے اس کا تعلق﴿ اٰیٰتنا﴾ سے ہو چاہے اس کا تعلق ﴿ویزکیکم﴾ سے ہو چاہے اس کا تعلق ﴿یعلمکم الکتٰب﴾ سے ہو، یا چاہے حکمت سے ہو، یہ تمام کی تمام چیزیں اپنی حقیقت، اپنے معانی و مفاہیم میں آدمی کی دین و دنیا کی اور کائنات کی روحانی تشریح کا بیان کرتی ہیں - اِن میں سے ہر ایک اصطلاحِ قرآنی ایک روحانی زینہ و درجہ بلکہ روحانی کمال کا بیان کرتی ہے ، قرآن کے روحانی نقطۂ نظر کے اعتبار سے اِن سب کی علیحدہ علیحدہ توضیح و وضاحت کی جا سکتی ہے - لیکن جو اس کا آخری حصہ ﴿یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون﴾ ہے کہ تمہیں وہ علم سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے- اس سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ نے چار دیگر صفات بیان فرمائیں اُن چاروں کا تعلُّق ایک اعتبار سے تعلیم ہی سے ہے - ’’تلاوتِ آیات‘‘ سے مُراد بھی قرآن کا پہنچانا اور اس کی تعلیم دینا ہے اور اس کے عملی پیکر میں اپنے صحابہ کو ڈھالنا ہے - ’’تزکیّہ‘‘ بھی ایک تربیتی مرحلہ ہے اور تربیّت بھی ایک طرح سے عملی تعلیم کو کہتے ہیں - ﴿یعلمکم الکتاب﴾ کا فرمان تو اپنے الفاظ ہی سے یہ وضاحت نمایاں کر رہا ہے کہ اِس کا تعلق بھی تعلیم سے ہے - جو حکمت ہے اِس سے مُراد سُنّت بھی ہے، تمہیں سنت سکھاتا ہے- حکمت سے مراد استقامت بھی ہے کہ وہ تمہیں استقامت عطا کرتا ہے ، اِن دونوں معانی میں اس کا تعلق بھی تعلم و تعلیم سے بنتا ہے - اب یہ واضح ہو گیا کہ بیان کردہ چاروں صفات کسی نہ کسی اعتبار سے تعلیم ہی سے متعلق ہیں اِس لئے اِن کے بیان کے بعد پھر یہ الگ سے واضح کر کے ارشاد فرمانا کہ ﴿وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾ کہ میرا محبوب تمہیں وہ تعلیم بھی عطا فرماتا ہے جو تم نہیں جانتے -
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس پہ مستند، معتبر اور پوری اُمت کا جن مفسرین پر اتفاق ہے، وہ اس آیت کی تشریحات میں کیا فرماتے ہیں کہ اِس سے مُراد کیا ہے؟ امام بیضاوی ﴿m﴾ کی تفسیر مبارک قرآن کریم کی تفہیم کی بنیادی کتاب کے طور پہ سمجھی جاتی ہے اور تمام مدارس میں اس کو بالاتفاق اور بالاجماع تفہیم قرآن، معانی و مفاہیمِ قرآن کے لئے پڑھایا جاتا ہے- پھر مفتی بغداد علامہ ابو الفضل محمود آلوسی ﴿m﴾ نے تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں اس کی تشریح فرمائی اور جن کی عبارت اور رائے کو نقل کئے بغیر علمائے اہلِ سنت کے فتاویٰ مکمل نہیں ہوتے یعنی حضرت ملا علی قاری الھروی ﴿m﴾ نے بھی اپنی تفسیر میں یہی الفاظ نقل فرمائے کہ:-
﴿بالفکر و النظر اذ لا طریق الی معرفتہ سوی الوحی و کرر الفعل لیدل علی انہ جنس آخر ﴾ ’’نظر فکر کے ساتھ جبکہ اس کی معرفت کی طرف وحی کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے اور یہاں اس فعل یعنی ﴿یعلمکم﴾ کا تکرار اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ یہ دوسری قسم کا علم ہے‘‘-
یعنی جو پہلا علم ہے وہ اور طرح کا ہے اور جو دوسرا علم ہے وہ اور طرح کا علم ہے-یہی عبارت جسے امام بیضاوی ﴿m﴾ نے نقل کیا، اسی عبارت کو علامہ محمود احمد آلوسی ﴿m﴾ نے نقل کیا، اسی عبارت کو ملاعلی قاری ﴿m﴾ نے اپنی اپنی تفسیر میں نقل کیا- قاضی ثنائ اللہ پانی پتی ﴿m﴾ ’’ تفسیر مظہری ‘‘میں بھی اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد دوسری قسم کا علم ہے- وہ فرماتے ہیں کہ پہلی قسم تو سمجھ میں آگئی کہ پہلی قسم سے مراد قرآن اور شریعت کا علم ہے، پہلی قسم سے مراد قرآن کے ظاہر کا علم ہے ، پہلی قسم سے مراد اس آنکھ سے دیکھے جانے والے، اس بدن سے محسوس کئے جانے والے اور اس ظاہری وجود کے ساتھ جن کو سمجھا جا سکتا ہے، اس کا اشارہ ان علوم کی طرف ہے لیکن جو علمائے اُمّت نے کہا اس تکرار سے مراد دوسری قسم کا علم ہے- قاضی ثنائ اللہ پانی پتی ﴿m﴾فرماتے ہیں کہ:-
﴿تکرار الفعل یدل علی ان ھذا التعلیم من جنس الآخر و لعل المراد بہ العلم اللدنی﴾یعنی پہلے سے مراد علمِ ظاہر ہے لیکن دوسرے سے مراد علمِ لدنی ، علمِ تصوف ہے- تصوف کا جو قائدہ و اصول ہے، جسے آپ علمِ لدنی ، علمِ باطن، علمِ تصوف، علمِ طریقت، علمِ حقیقت، علمِ معرفت کہ لیں، اس کا بنیادی ماخذ، اس راستے کی طرف بلانے کا اوّلین ماخذ عقلِ انسانی نہیں بلکہ وحی رحمانی ہے- اس اصول کو اللہ نے خود قرآن کے اندر بیان فرمایا ہے- سورہ البقرہ کی گزشتہ آیت کا آخری حصہ اِسی علمِ باطن اور علمِ لدُنی کی طرف اشارہ کرتا ہے - اب پھر سوال ہو گا کہ علم لدنی کہاں سے آیا ؟ یاد رکھیں! علمِ لدنی کا بیان، ثبوت، امکان اور جواز بھی عقلِ انسانی کی اختراع نہیں بلکہ وحی رحمانی کا بیان ہے- یہ بیانِ انسانی نہیں یہ کلام ربانی ہے- کیسے؟
اللہ تبارک و تعالیٰ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیّدنا خضر علیہ السلام کی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں- سورہ الکہف میں پورا واقعہ تفصیل سے موجود ہے- حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور چلتے چلتے اس مقام پر پہنچتے ہیں جس کے بارے فرمایا گیا:-﴿فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَ آ اٰتَیْنٰ ہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰ ہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾﴿الکہف:۵۶﴾’’تو دونوں نے ﴿وہاں﴾ ہمارے بندوں میں سے ایک ﴿خاص﴾ بندے ﴿خضر ں﴾ کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے ﴿خصوصی﴾ رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی ﴿یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم﴾ سکھایا تھا‘‘-
عبد تو اور بھی بہت ہیں، جسے اُس نے پیدا کیا وہ اس کا عبد ہے، اس کا بندہ ہے لیکن اس خاص آدمی جس کو حضرت موسیٰ نے پا لیا ، فرمایا ، اس کی خاصیت یہ تھی کہ وہ میرے خاص بندوں میں سے تھا ، ہم نے اپنی بارگاہ سے اس آدمی پہ ایک خاص رحمت فرمائی تھی کہ مَیں نے اس کو علم لدنی عطا فرما دیا- ایک اور لطیف بات یہ ہے کہ ایک چیز ’’بندگی‘‘ ہے اور ایک چیز ’’کمالِ بندگی‘‘ ہے - ’’بندگی‘‘ یہ ہے کہ بندہ اقرار کرے کہ ’’میں اُس کا بندہ ہوں‘‘ اور ’’کمالِ بندگی‘‘ یہ ہے کہ مولیٰ کریم تصدیق فرمائے کہ ’’ہاں ! یہ میرا بندہ ہے‘‘- گویا جنہیں کمالِ بندگی نصیب ہوتا ہے ، جو اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں، جو ﴿عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَ ا﴾ کے زُمرے میں آتے ہیں، جو اس کے مقربین، محبوبین، اس کے برگزیدہ و ولی، اس کی بارگاہ کے چنے ہوئے خاص ہو تے ہیں ان کی نشانی یہ ہو تی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو علم لدنی عطا فرما دیتا ہے-قرآن کریم کی اِس واضح آیت مبارکہ کے بعد اب اِس معمّہ کہ علمِ لدنی کا جواز کہاں پہ ہے کے حل ہونے کے بعد ایک سوال جنم لیتا ہے علم لدنی ہے کیا ؟، علم لدنی کی تشریح کیا ہے؟ امام ابو محمد الحسین البغوی ﴿m﴾ اس کی تشریح کرتے ہوئے اپنی تفسیرقرآن ’’معالم التنزیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :-
﴿ای علم الباطن الھاما ً﴾’’علم لدنی سے مراد وہ باطنی علم ہے جو بذریعہ الہام عطا کیا جاتا ہے‘‘-
پھر تفسیر ’’انوار القرآن و اسرار الفرقان‘‘ میں اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ملا علی القاری ﴿m﴾ فرماتے ہیں کہ:-
﴿العلم اللدنی ما یحصل من طریق الالھام دون التکلیف بالطلب﴾’’ علم لدنی وہ علم ہے جو مشقت کے بغیر الہام کے ذریعے بندے کے باطن پر القائ کر دیا جاتا ہے ‘‘-
علامہ اسماعیل حقی ﴿m﴾ اس کی تشریح کرتے ہوئے ’’تفسیر روح البیان‘‘ میںفرماتے ہیں کہ:-﴿خاصا ھو علم الغیوب و الابصار عنھا باذنہ تعالی علی ما ذھب الیہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما اوعلم الباطن﴾’’ علم لدنی سے مراد خاص طور پر علم غیب کی خبریں ہیں جو اللہ تعالی کے حکم سے عطا ہو تی ہیں - حضرت ابن عباس ﴿i﴾ کی یہی تشریح ہے یا اس سے علم باطن مراد ہے‘‘-
صاحبِ روح البیان فرماتے ہیں کہ اگر اس کو سید المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس ﴿i﴾ کے طریق سے دیکھا جائے تو علم لدنی سے مراد علم باطن ہے- اگر صرف علم لدنی کی بات کی جائے اور علم لدنی کے معارف، اسرار، رموز، حقیقت اور علم لدنی کے راستے کے متعلق بیان شروع کر دیا جائے تو علمائ، اولیائ اور اصفیائ نے جو دفاتر کے دفاتر رقم کر دیئے اس کا بیان ختم ہونے میں نہیں آتا- لیکن مَیں اس بحث کو سمیٹ رہا ہوں جو اس اعتراض پر مبنی ہے کہ علم تصوف، علم روحانیت، علم طریقت، علم حقیقت اور علم معرفت کا ماخذ کیا ہے؟ ان کا ماخذ انسانی تجربات نہیں، یہ انسانی عقل کی اختراع نہیں اور یہ انسانی تشریحات نہیں کیونکہ اس کا ماخذ خود اللہ کا پاک کلام قرآن حکیم ہے- لہٰذا باطن کے طریق کی تحقیق، تصدیق اور تائید خود کتاب کریم کرتی ہے-
﴿وَعَلَّمْنٰ ہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ علم سے مراد علمِ لدنی
﴿ علمِ معرفت﴾ ہے- اس پر آخری مستند قول علامہ قرطبی ﴿m﴾ کا پیش کرتا ہوں کہ:-
﴿ای علم الغیب ﴾’’ ﴿علم لدنی سے مراد﴾ وہ علم غیب ہے‘‘-
﴿قال ابن عطیہ: کان علم الخضر معرفتہ ببواطن قد احیط الیہ ﴾ ’’ابن عطیہ نے کہا کہ سیدنا خضر علیہ السلام کا علم ، علم معرفت ہے جو ان کے باطن پر اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے الہام کیا جاتا تھا ‘‘-
گویا علمِ لدنی، علمِ تصوف، علم طریقت، علم باطن اور علم الہام، یہ علم طریقِ باطن سے بندے پر القائ کیا جاتا ہے، بندے کو عطا کیا جاتا ہے، بندے پر منکشف کیا جاتا ہے اس کے اثرات اس کے انوار کو اس کے رموز کو اس کے رازوں کو اور جسے یہ علم لدنی نصیب یا عطا ہو جائے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اب وہ بندہ عام نہیں رہا ، فرمایا :-
﴿فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَ ا﴾’’اب وہ عبد خاص بن گیا اور میرے خاص الخاص بندوں میں شامل ہو گیا ‘‘-
گویا جسے علم باطن، علم الہام، علم معرفت اور علم اسرار و رموز عطا ہو جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس بندے کو عام سے نکال کر اپنے خاص بندوں میں شامل فرما دیتے ہیں- اسی لئے اس بات کی دعوت اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں دیتے ہیںکہ:-
﴿فَفِرُّوْآ اِلَی اللَّہ﴾’’دوڑو اللہ کی طرف ‘‘ اللہ تعالیٰ کے قرب، رضا، محبت، خوشنودی، عطا، معیت، معرفت، عشق ،پہچان، اسرار و رموز اور اس کو راضی کرنے کے راستے کی طرف اور اس مقام کی طرف کہ وہ تمہیں راضی کر لے اس کی طرف دوڑو- اس کی طرف رجوع اختیار کرو تاکہ تم عوام سے نکل کر
﴿مِّنْ عِبَادِنَ ا﴾ کے اندر شمار ہو جائوکہ بندہ اب عام نہیں رہا یہ میری بارگاہ کا خاص ہو گیا ہے- یہ تو اس امکان کی بات تھی کہ کیا اس کا امکان قرآن سے ثابت ہے یا نہیں اس کی ﴿possibility﴾ اس کا جواز بلکہ اس کالزوم قرآن سے ثابت ہے- خود قرآن کریم اس کا بنیادی و ابتدائی مآخذ بھی ہے اور محافظ بھی -
اب اس پر ایک دوسری بات جس نے ہمارے افکار کو دھندلا کر رکھ دیا ہے جس نے ہمیں مثبتیت ﴿positivity﴾ سے ہٹا کر منفیت ﴿negitivity﴾ کی طرف راغب کر رکھا ہے- ہم سے مراد معاشرے کی اجتماعی کیفیت ہے ، ہم سے مرادکلی طور پر معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ ہم سے مراد معاشرے کی کثرت میں رجحان، ترجیح اور روایت ہے- اب اللہ کی طرف جانے کے لئے، اس کے قرب او رضا کے حصول کے لئے راستہ کیا ہے؟ شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام ﴿m﴾ اپنی تصنیف ’’حل الرموز و مفاتیح الکنوز‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کا جو یہ حکم ہے کہ
﴿فَفِرُّوْآ اِلَی اللَّہ﴾ اللہ کی طرف دوڑو- اس سے مراد کیا ہے؟ اس کی تشریح اور وضاحت کیا ہے؟
﴿الطریقۃ الی اللّٰہ لھا ظاہر و باطن﴾’’اللہ کی طرف جانے کے طریق کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے‘‘ -پھر فرماتے ہیںکہ:- ﴿و ظاہرھا الشریعۃ و باطنھا الحقیقۃ﴾’’ ظاہر سے مراد علم شریعت ہے اورباطن سے مراد علم حقیقت ہے‘‘-
﴿جاری ہے---﴾