خواتین کاعالمی دن اور کشمیری عورت

خواتین کاعالمی دن اور کشمیری عورت

خواتین کاعالمی دن اور کشمیری عورت

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ اپریل 2015

خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ۷مارچ ۲۰۱۵ء کو نیشنل لائبریری اسلام آباد میں "خواتین کا عالمی دن اور کشمیر ی خواتین "کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا- سیمینار کا مقصد عالمی برادری کی توجہ کشمیر میں خواتین کے حقوق اور حالات کی جانب مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ یہ اجاگر کرنا تھا کہ کشمیر میں پائیدار امن، اس مسئلہ کے حل اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے کشمیری عورتیں کیا جد و جہد کر رہی ہیں اور کیا کردار ادا کر رہی ہیں اور مزید کیا کر سکتی ہیں-

سیمینار کی صدارت سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے کی جبکہ مہمانِ خاص کے طور پہ ، ڈائر یکٹر جنرل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب جناب ایمبیسڈر (ر)مسعود خان تشریف لائے ، مسلم انسٹیٹیوٹ کے بورڈ آف انٹلکچولز کے سینیئر ممبر اور سابق سیکرٹری جنرل برائے خارجہ امور جناب اکرم ذکی، آزاد جموں و کشمیر کی وزیر برائے معاشرتی ترقی محترمہ فرزانہ یعقوب ، خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم عمل محترمہ شمیم شال اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب عثمان حسن نے اپنے خیالات کا اظہار کیا-چیئر پرسن دخترانِ ملت جموں و کشمیر محترمہ سیدہ آسیہ اندرابی اور کو ڈائریکٹر انٹرنیشنل ایکشن سینٹر امریکہ محترمہ سارہ فلانڈرز نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا- مسلم انسٹیٹیوٹ کے پبلک ریلیشنز کو آرڈینیٹر جناب طاہر محمود نے اس موقع پر ماڈریٹر کی خدمات سر انجام دیں- بین الاقوامی مبصرین ، دوست ممالک کے سفیران ، دانشور حضرات ، محققین، ممبران ِ پارلیمنٹ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز ، طلبہ اور صحافیوں سمیت خواتین کی بڑی تعداد نے بھی سیمینار میں شرکت کی-

شرکاء نے اپنے خطابات میں کہا کہ :

 متنا زعہ علاقوں میں خواتین پر سب سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور مقبوضہ علاقوں میں وہ مظالم کا شکار بنتی ہیں یہی صورتِ حال مقبوضہ کشمیر میں بھی ہے- کشمیر انسانی ظلم وجبر کی بدترین مثال ہے اوربالخصوص وہاں عورتوں کے حقوق کی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے- کشمیر میںخواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں جو یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) اور خواتین کے حقوق کے عالمی بل یعنی ۱۹۷۹ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاس کئے گئے Convention on the elimination of all form of discrimnation against women (CEDAW)کے تحت دیئے گئے ہیں یہ بل عورتوں کو سیاسی ،معاشرتی ، ثقا فتی اور زندگی کے کسی بھی شعبہ میں بنیادی حقوق اور آزادی فراہم کرتا ہے- بد قسمتی سے عالمی قوانین کا کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی اثرنہیں ہے اور بھارتی حکومت کشمیر میں عوام بالخصوص خواتین کو اِن کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کر رہی- یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومتیں عالمی مبصرین اور غیر ملکی صحافیوں کو جموں و کشمیر میں داخلہ کی اجازت نہیں دیتیں -

 کشمیر میں خواتین کے حقوق کی پامالی کی بنیادی وجہ وہاں ہندوستان کا غیر قانونی قبضہ ہے-یہ قبضہ ہمہ جہتی ہے یعنی فوجی، سیاسی ، ثقافتی دبائو اور انسانی حقوق کی عدم فراہمی-بر صغیر کی تقسیم کے وقت دوسرے علاقوں کے برعکس کشمیریوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا کہ وہ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ انہوں نے کس ریاست )پاکستان یا ہندوستان میں سے کس ملک کے ساتھ( سے الحاق کرنا ہے اور اِس حق کی فراہمی ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی-کشمیر میں اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والوں پر ۱۹۴۷ء سے جبر و ستم کا سلسلہ جاری ہے- ۱۹۸۰ء کے اواخر میں انسانی حقوق کی پامالی کا ایک نیاسیاہ باب شروع ہوا جو اب تک جاری ہے اور اس دوران خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں- ۱۹۸۰ء سے لے کر اب تک دس ہزار سے زائد کشمیری خواتین بھارتی افواج کے ہاتھوں درندگی اور عصمت دری کا شکار ہوچکی ہیں، ۲۲ہزار سے زائد بیوہ ہو چکی ہیں اور ہزاروں خواتین’’ نیم بیوہ‘‘ کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہیں جن کے شوہر لاپتہ ہو چکے ہیں اور ابھی تک اُن کے متعلق کوئی معلومات نہیں مل سکی ہیں-

کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے- بھارتی حکومت کے جبر، انتقامی کاروائی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے- مزید برآں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ سیاہ قوانین قابض افواج کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے کشمیریوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہوا ہے -

بھارتی فوجی تسلط اور ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے کشمیری خواتین کو معاشرے میں تحفظ اور آزادی میسر نہیں -اُن کے شوہروں ، بھائیوں اور بیٹیوں کو آنکھوں کے سامنے بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے- اسی طرح مردوں کے سامنے اُن کی عورتوں کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے- یہ ایک نفسیاتی گھائو ہے اور کشمیر میں عورت ہونا ایک جرم بن کر رہ گیا ہے-کشمیری عورتیں بھارتی جنگی جرائم کا شکار ہیں- ۱۹۹۰ء میں ذہنی تنائو سے متعلقہ مریضوں کی تعداد ۱۰ فیصد تھی جو کہ اب ۶۰سے۷۰ فیصد تک پہنچ چکی ہے جس کے نتیجے میں ۱۰۰میں سے ۷۰ عورتیں نفسیاتی مریضہ بن چکی ہیں- بیوہ خواتین اپنے مقتول شوہروں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں اُن کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے روزگار کمانا ناممکن بن گیا ہے - یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں- کشمیر میں یہ حالات حادثاتی نہیں بلکہ ان مشکلات کو فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی ، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے- گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری خواتین اپنے وطن میں امن اور بنیادی حقوق کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہیں -

 تمام تر مظالم کے باوجود کشمیری خواتین پختہ عزم کے ساتھ کھڑی ہیں- ان عورتوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جوکہ ظلم و ستم، کریک ڈائون، جعلی مقابلوں ، گمشدگیوں، بہیما نہ تشدد، اورقتل و غارت کے باوجود اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں- کشمیر میں خواتین مرکزی حیثیت رکھتی ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ہر کوئی ان کے کردار کو تسلیم کرے- یہ وہ وقت ہے جب دنیا بھر کی خواتین تعلیم ، صحت کی سہولیات اور سیکورٹی کے لئے اپنے مطالبات دنیا کے سامنے رکھ رہی ہیں-

عالمی برادری کیلئے کشمیری عورت ایک بھولا بسرا باب ہے - جب دنیا کے کسی دوسرے ملک میں عورت پر جنسی تشدد ہو توعالمی برادری کا ضمیر متحرک ہو جاتا ہے اور ردِ عمل دیتا ہے مگر جب کشمیری عورت پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں تو دنیا کا ضمیر خاموش رہتا ہے کیونکہ مادیت اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے - یہاں پہ یہ اصول لاگو ہورہا ہے کہ جتنا بڑا ملک ہو اتنا ہی اُس کا اثر و رسوخ زیادہ ہوتا ہے اور اسے اتنی ہی زیادہ چھوٹ ملتی ہے- انصاف سب کیلئے ایک ہونا چاہئے اور سول سوسائٹی کی طرف سے دنیا میں اثرو رسوخ رکھنے والے دارالحکومتوں کو یہ پیغام دیا جانا چاہیے - عورت پر تشدد درحقیقت انسانیت کے خلاف جرم ہے اور اس ضمن میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے وکلاء کو آگے بڑھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کہاں کہاں بھارتی جبر اور مظالم حدود سے تجاوز کر رہے ہیں- مسئلہ کشمیر کو امن کے ساتھ ساتھ قانونی اور مدلل طریقے سے حل ہونا چاہئے-

کشمیر میں ایک بڑا مسئلہ معلومات تک آزادانہ رسائی نہ ہونا بھی ہے کیونکہ بھارتی حکومت آزاد میڈیا کو زمینی حقائق تک رسائی نہیں دیتی- ہندوستانی اثر و رسوخ کی وجہ سے عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم میڈیا میں نہیں آ پاتے- کشمیر میں عالمی اداروں کی عدم موجودگی عورت کو جنسی اور جسمانی تشدد کا آسان شکار بنا دیتی ہے- مظلوم مستقل خوف میں زندگی گزارتے ہیں اور ظالم کی کوئی پکڑنہیں ہوتی -مائی لائی کے قتل عام کے نمایاں ہونے کی وجہ سے ویتنام کی تاریخ بدل گئی اور اس کا سہرا میڈیا کے سرجاتا ہے-بوسنیا کی عورتوں پہ مظالم اور ان کی لٹکتی نعشوں کی کہانی کا سامنے آنا وہاں کیلئے سنگِ میل بن گئی- ایک نوجوان فلسطینی لڑکے کے بیہمانہ قتل کی خبر دنیا بھر میں شہ سرخی کے طور پر آئی اور اسکی وجہ سے دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں بہت اضافہ ہوا - کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانوں کا میڈیا میں آنا ضروری ہے تاکہ دنیا کے مختلف حصوں میں اس کے متعلق آگاہی پیدا ہو سکے- میڈیا کو ان بے آواز مظلوموں کی آوازبننا چاہئے اور عورتوں کے حالات اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اُن کی جدوجہد کو اُجاگر کر نا چاہئے اور کشمیری عورتوں کی کہانیوں کو شائع کرنا چاہئے- کشمیری عورتوں پر ڈھائے گئے مظالم کی داستانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے اُجاگر کرکے مسئلہ کشمیر کے متعلق آگاہی پیدا کی جانی چاہئے-

مسئلہ کشمیر کو عالمی طور پر بھلایا جاچکا ہے اور خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے اسے دوبارہ اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے- کشمیری عوام اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیںاور ہمیں بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو کر اُن کی آواز بننا چاہئے- پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے میں کوشاں رہا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر مبنی اپنے اصولی موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹااور اس معاملے کے حل کے لئے ہر ممکنہ کوشش کر رہا ہے - پاکستانی عوام ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور ان کے لئے آواز بلند کرتی رہی ہے- بین الاقوامی سیاست کی پیچیدگیاں مقاصد کے حصول میں رکاوٹ رہی ہیں- کشمیری عورت کو حقوق دلانے اور اس مسئلے کے حل کے لئے تعلیم ، معیشت، ٹیکنالوجی اور دوراندیشی کی ضرورت ہے -

 اس تکلیف دہ باب کو اب ختم ہو جانا چاہئے- کشمیر میں دیرپا امن قائم ہونا چاہئے جو فوجی حر بوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا - ایک چھوٹی فوج بڑی فوج کو ہرا سکتی ہے لیکن ایک بہت بڑی فوج بھی ایک قوم کو نہیں ہرا سکتی- بھارتی فوج کشمیری عوام پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتی ، اگر کشمیری عوام نے اپنی جدوجہد اسی طرح جاری رکھی، جیسا کہ وہ اب تک رکھے ہوئے ہیں ،تو بھارتی فوج کا کشمیر سے انخلاء ہونا ہی ہے ویسے بھی ایک چھوٹی سی وادی میں آٹھ لاکھ فوج کی ’’موت کے لائسنس‘‘ کی حیثیت رکھنے والے ظالمانہ و قاتلانہ قوانین کے سائے میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا - دہشت گردی اور جدوجہدِ آزادی میں بہت فرق ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد پر تبصرہ کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہئے- کشمیر کے دیرپا امن کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ متأثرہ کشمیری عوام کو امنِ عمل کا لازمی طور پر حصہ بنایا جائے - اس امن کے حصول کی کوششوں میں ہمیں کشمیری عورت نظر نہیں آتی، عورتوں کی بطور محافظ، آزادی کی جدوجہد کرنے والی، امن قائم کرنے والی اور اپنی بقاء کی جنگ لڑنے والی کی حیثیت سے تجزیہ کیا جانا چاہئے-کشمیری عورتوں کو امن مذاکرات اور بات چیت کا حصہ بنا ناچاہئے جس کیلئے انہیں تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے کیونکہ عورتیں نچلے طبقے اور فیصلہ سازوں کے درمیان ایک اہم رابطے کا کردار ادا کرسکتی ہیں- شمالی آئرلینڈ، جنوبی افریقہ اور گوئٹے مالا میں عورتوں کو مذاکرات کا حصہ بنائے جانے سے معاہدوں کی عملداری کے امکانات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا- امن کے لئے عورتوں کے مجموعی کردار کو بہت زیادہ اہمیت دینی چاہئے، فوجی انخلاء اور کالے قوانین کا خاتمہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے نا گزیر ہے -

سوال و جواب:-

وقفہ سوال و جواب کے دوران مقررین نے شرکاء کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیئے اور ان پرسیر حاصل گفتگو کی- شرکا کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ

 پاکستان کے دفترِ خارجہ نے مسئلہ کشمیر کو مسلسل عالمی فورمز پر اُٹھایا ہے اور اسی وجہ سے اسے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا- پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے قیام سے لیکر اب تک کشمیر یوں کے ساتھ کھڑا ہے - پاکستان نے ہمیشہ بات چیت پر زور دیا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر مبنی اصولی موقف اپنایا ہے، پاکستان ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور سول سوسائٹی کے کردار سمیت بات چیت کیلئے ہر قسم کے طریقہ کیلئے تیار ہے ، عورتوں کے حقوق کے حصول کیلئے سول سوسوئٹی اور ہم سب کی کوششیں درکار ہیں -

اس مسئلے کا کوئی شارٹ کٹ حل نہیں ہے اور اسی لئے کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں- سوشل میڈیا کے استعمال ، بحث مباحثے ، تحقیق اور کشمیر سے جڑے مختلف معاملات کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے سے عالمی سطح پر تبدیلی لائی جا سکتی ہے-

کشمیری عورتیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ مظلوم ہیں- کشمیر میں مختلف پارٹیوں میں مسئلہ کے حل کیلئے تجاویز میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن کسی بھی صورتحال میں عورتوں اور بچیوں کی بے حرمتی کا کوئی جواز نہیں ہے-

سفارشات:

سیمینار میں کی گئی تقاریر اور مباحثے سے اخذکی گئی چند سفارشات درج ذیل ہیں :

٭کشمیر میں عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق دئیے جائیں جن کا وعدہ Universal Declaration of Human Rights  اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاس کئے گئے ۱۹۷۹ء کے کنوینشن (Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination Against Women)کے تحت کیا گیا ہے-

٭بھارتی افواج کی جانب سے جنسی زیادتیوں کی عالمی برادری کی جانب سے بھر پور مذمت کی جانی چاہئے اور متأثرین کو انصاف ملنا چاہئے- اس ضمن میں عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو موثر کردار ادا کرنا چاہئے-

٭عالمی برادری کو بھارتی حکومت پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ نیم بیوہ خواتین (جن کی شوہر لاپتہ ہیں) کے نفسیاتی دبائوکا خاتمہ ہونا چاہئے اور انہیں گمشدہ افراد کے متعلق معلومات تک رسائی دینی چاہیے-

٭انصاف صرف مخصوص لوگوں کیلئے نہیں ہونا چاہیے اور اس پیغام کو سول سوسائٹی کے ذریعے ان عالمی طاقتوں تک پہنچنا چاہئے جو دنیا میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں تا کہ مظلوم کشمیر ی عورتوں کو انصاف مل سکے-

٭گزشتہ سات دہائیوں سے جاری کشمیر ی خواتین کی جدوجہد کو عالمی سطح پر پذیرائی ملنی چاہئے- Stakeholder Analysisکے ذریعے بچ جانے والی خواتین ، حفاظت کرنے والی، آزادی کی جدوجہد کرنے والی اور امن کی کوشش کرنے والی والی عورتوں کی جدوجہد کو دستاویزی شکل دینی چاہئے- جس کیلئے حکومتِ پاکستان کی وزارتِ کشمیر افیئرز اور حکومتِ آزاد جمّوں و کشمیر کو جامع نوعیّت کا پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے -

٭اقوامِ متحدہ کو کشمیر میں دیر پا امن کے قیام کو یقینی بنانا چاہئے جوکہ بھارت کی فوجی طاقت کے زور پر ممکن نہیں چنانچہ کشمیر سے قابض افواج کا انخلاء اور کالے قوانین کا خاتمہ ہونا چاہئے-

٭کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی بات کرتے ہوئے اسے دہشت گردی سے نہیں جوڑناچاہئے اور اس فرق کوواضح رکھنا چاہئے کہ کشمیریوں کی تحریک علیحدگی کیلئے نہیں بلکہ آزادی کیلئے ہے کیونکہ آج تک کسی بھی فورم پہ کشمیریوں نے کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں مانا اور وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسلسل حقِّ خود ارادیّت کا مُطالبہ کر رہے ہیں -

٭میڈیا کو بے آوازوں کی آواز بنناچاہئے اور کشمیری عورتوں کی حالتِ زار اور ان کی جد و جہد کی داستانوں کو شائع کرنا چاہئے-

٭نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا اور مختلف فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اُ جاگر کریں تاکہ اس کے متعلق آگاہی پیدا ہو-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر