{گزشتہ سے پیوستہ}
اِسی طرح احسان بالرسالت سے متعلق حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
مَیں تیس سال مُرشد تلاش کرتا رہا مجھے ایسا مرشد نہ مل سکا جومیرے پیمانہ ئِ طلب کو لبریز کرتا اور مَیں بڑا پریشان کہ کہاں سے ایسا مُرشد ڈھونڈوں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی زیارت نصیب ہوئی آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مجلسِ مصطفیٰ ﷺ میں پہنچا دیا اور وہاں کا یہ واقعہ آپ بیان فرماتے ہیں کہ :
دستِ بیعت کرد مارا مصطفیٰ
وُلدِ خود خواند است مارا مجتبیٰ
شُد اجازت باھُو را از مصطفیٰ
خلق را تلقین بکن بہر از خدا
مجھے آقا ﷺ نے اپنے ہاتھوں پر بیعت فرمایا اور مجھے اپنا نوری حضوری فرزند قرار دیا-مجھے خود رسولِ پاک ﷺ نے یہ حکم فرمایا کہ اے باھُو !اللہ کی مخلوق کو اللہ کا وَصل اور اللہ کا قرب عطا کرنے کیلئے تلقین اور اِرشاد عطاکیا-
تو احسان فی الرسالت یہ ہے کہ آدمی کی رُوح مجلسِ مصطفیٰ ﷺ میں پہنچ جائے اور عشق کا وہ جذبہ اتناکامل ہوجائے کہ آدمی کو آقا پاک ﷺ کی مجلس کی حضوری نصیب ہوجائے -
(۳) نمازِ کامل پہ حدیثِ جبریل کا عملی اِطلاق :
حدیثِ جبریل کی تفہیم کی اِس جہت کو مزید جاننے کیلئے نماز کی مثال لیجئے کہ نماز کے ایک حصے کا تعلق آدمی کے بدن سے ہے دوسرے حصے کا تعلق آدمی کی عقل سے ہے اور تیسرے حصے کا تعلق آدمی کی رُوح سے ہے ، جب آدمی وضو کرتا ہے ، مسجد کی طرف چل کر جاتا ہے اپنے جسم کو، وجود کو پاک کرتا ہے ، وضو کرنا اور مسجد چل کر جانا ان تمام افعال کا تعلق آدمی کے وجود سے ہے - یہ اعمال سر انجام دینے کے بعد آدمی نیت کرتا ہے ، جماعت اختیار کرتا ہے نیت کا تعلق ، یکسوئی کا تعلق، جماعت اختیار کرنے کا تعلق آدمی کی عقل کیساتھ ہے اور پھر جب آدمی {اللّٰہ اکبر}کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے {سبحنک}تیری ذات پاک ہے ، تُو ، تم ،تجھے ، تمہیں اور آپ ، یہ اُس وقت استعمال ہوتے جب آپ کسی کے ساتھ براہِ راست گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اگر درمیان میں واسطہ یا وسیلہ آجائے تو پھر اُن، اُنہیں اور وہ کہا جاتا ہے جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو نماز میں اکثر کلمات صیغہ مخاطب سے تعلق رکھتے ہیں کہ آپ براہِ راست اللہ تعالیٰ کومخاطب کر کے یہ کہہ رہے ہیں {سبحنک} تُو پاک ہے {وبحمدک}اور تیری حمد کررہاہوں گویا آدمی براہِ راست اپنے مالک کیساتھ خطاب کررہا ہے سورۃ فاتحہ کو دیکھ لیجئے
{اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَoالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِoمٰـلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِoاِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo}
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےoنہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہےoروزِ جزا کا مالک ہےo(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo -
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo}
ہمیں تُو صراطِ مستقیم پرہدایت عطا فرما-اور صراطِ مستقیم کیا ہے ؟
{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَلا عَلَیْہِمْ }
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُونے انعام کیا -
نماز کی جتنی بھی گفتگو ہے، نماز کے اکثر جملے مخاطب سے تعلق رکھتے ہیں آدمی اپنی عقل یا بدن کیساتھ مخاطب نہیں ہوتا بلکہ آدمی اور خالق کے درمیان جو رابطے کا ذریعہ ہے وہ آدمی کی رُوح ہے جو اپنے مالک کو مخاطب کرتی ہے گویا کلماتِ نماز کا تعلق آدمی کی رُوح سے ہے اسی لئے آقا پاک ﷺ نے فرمایا :
{لا صلوٰۃ الا بحضور القلب}
اگر تیرا دل حاضر نہیں ہے تُو اپنی رُوح کیساتھ خالق کو مخاطب نہیں کررہا تو تیری نماز مکمل نہیں ہوتی -
حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ یہی فرماتے ہیں :
دِل توں نماز پڑھائی ناہیں کی ہویا جے نیتی ھُو
ارکاں گِٹے مَل مَل دھوویں تیرے مَنوں ناں گئی پلیتی ھُو
ترجمہ: ----------
کہ اگر دِل حاضر نہیں ہے تو تیری نماز کیسے مکمل ہوسکتی ہے؟ اور اپنے فارسی کلام میں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
بر زباں تسبیح و در دِل گاؤ خر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر
ترجمہ:- ’’اگر زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل گائو خر (خیالات ِ دنیا)میں غرق ہو تو ایسی تسبیح کیا اثر دکھائے گی؟ ‘‘
کہ زبان پر اللہ اللہ کررہا ہے ، زبان پر خدا کو مخاطب کررہا ہے اور دل میں دُنیا کے گدھوں کا خیال آرہا ہے ، تیری یہ تسبیح کیسے تاثیر کرسکتی ہے جب تُو اُس لمحے میں خدا کو موجود ہی نہیں پارہا - نماز و دیگر عبادات میں گہرائی سے اُتر جانا اور عبادت کے حقیقی سرور و لذّات کو حاصل کر لینا ، یہ ہے احسان -
{الاحسان ان تعبداللّٰہ کانک تراہ }
احسان یہ ہے کہ گویا مَیں اپنے مالک کو دیکھ رہا ہوںجبکہ تُو اُسے نہیں دیکھ سکتا تو تجھے یہ یقین ضرور ہو
{فان لم تکن تراہ فانہ یراک}
کہ وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے -
یعنی معرفت کا تعلق آدمی کی رُوح کیساتھ ہے گویا اِسلام کا تعلق آدمی کے بدن سے ، ایمان کا تعلق آدمی کی عقل سے اور احسان کا تعلق آدمی کی رُوح سے ہے اور یہ بھی ہمیں سامنے رکھنا چاہیے کہ یہ تینوں ہمارے لیے لازم ہیں جس طرح ہماری اپنی ہستی کے ، وجود کے تینوں اعضا ء ضروری ہیں میرا جسم ہو اور دماغ ، عقل کام چھوڑ جائے تو میرا یہ جسم اِس کائنات کو، دُنیا کو کیا فائدہ دے سکتا ہے ؟ اگر عقل نہیں تو جسم فقط رُوح کیساتھ زندہ ہے تو لوگ اِسے پاگل کہتے ہیں - اگر میری عقل کام کر رہی ہے ، میری زبان ، میرے کان ، میرے ہاتھ پائوں آنکھیں میرا دل ، میرا وجود میرا ساتھ نہیں دیتا تو میری وہ تیزی سے چلتی ہوئی عقل میرے کس کام آسکتی ہے؟اگر میرا وجود بھی ٹھیک ہے ، میرا عقل بھی ٹھیک ہے اور میری رُوح پرواز کرجائے تو اُس میت سے یہ دُنیا کیا فائدہ لے سکتی ہے ؟ گویا جسم کے ساتھ عقل اور اِن دونوں کے ساتھ روح کا ہونا لازِم ہے - رُوح تب آتی ہے جب وجود تیّار ہو جاتا ہے روح کو اپنا اِظہار کرنے کیلئے وجود کی ضرورت ہے یعنی جہاں وجود ہی نہ ہو رُوح اپنا اِظہار کس صُورت میں کرے گی ؟ جہاں جسم ضروری ہے جسم کیساتھ عقل ضروری ہے اور عقل کیساتھ رُوح ضروری ہے گویا آدمی کی ہستی جسے ’’میرِ سامانِ وجود‘‘ کہا گیا یہ ہستی اِن تینوں اجزاء بدن ، عقل اور رُوح سے مکمل ہوتی ہے اور بدن کیلئے اِسلام کے احکامات ہیں ، عقل کیلئے ایمان کے احکامات ہیں اور رُوح کیلئے احسان کے احکامات ہیں اِس لئے آپ اِن تینوں کو بھی الگ نہیں کر سکتے -
اِسلام ہے ایمان اور احسان نہیں تو آدمی اِسلام میں کامل نہیں ہوسکتا-۔
اِیمان ہے ،اِسلام و احسان نہیں تو آدمی اِیمان میں کامل نہیں ہوسکتا-
اگر ایمان اور اسلام نہ ہوں تو احسان مکمل نہیں ہوتا-
گو یا جسم پر اللہ کا اِسلام لاگو کرنے کیساتھ ساتھ عقل پر اِسلام کو لاگو کرنا لازم ہے اور رُوح پر ان اعمال کو لاگو کرنا انسان پر واجب اور لازم ہے -اور اِن میں کوئی ترجیح مقرر نہیں ہے کہ کِس کو ترک کیا جا سکتا ہے یہ میں اِس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں بہت سی چیزیں بد قسمتی سے چھوٹتی جا رہی ہیں اُن کی طرف متوجّہ ہونا کس کی ذِمّہ داری ہے ؟ یا اُن کی طرف متوجّہ ہونا ہمارے لئے کیوں ضروری ہے ؟ ضرورت ہم سب کی اجتماعی ہے اور متوجّہ ہونا بھی ہم سب پر لازِم ہے - کسی ایک کو بھی ترک کرنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا - جسے بندہ ناچیز نے ’’بدقسمتی‘‘ سے مُلقّب کیا ہے اُسے سمجھنے کیلئے ایک مثال پیشِ خِدمت ہے کہ ہمارے مدارس ،کالجز، یونیورسٹیز میں اور وہ ادارے جو اِسلام پر کام کر رہے ہیں اُن میں دو بنیادی باتیں کہی جاتی ہیں کہ عقائد ٹھیک ہوں اور اعمال درست ہوں ،عقائد کا تعلق ایمان سے ہے اور اعمال کا تعلق اِسلام سے ہے لیکن جو اصل بات ہے ،جو خلوص ہے ، جو للہیت ہے وہ تو آدمی کی رُوح سے متعلق ہے اُسے ہم نے چھوڑ دیا جِسے حضور ﷺ نے اِحسان فرمایا ہے - اِحسان یعنی ہماری ہستی کا رُوحانی پہلو ہمارے اندر سے نِکل گیا ہے - بالفاظِ دیگر یوں کہنے کی جسارت کروں گا کہ ہم نے اعمال و عقائد کی روح گنوا بیٹھے ہیں - جب اعمال و عقائد کی روح جاتی رہے تو معاشرے کو کیا سمت دی جا سکتی ہے - اِسی پہ تو علامہ اقبال نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اِس شُعلۂ نم خوردہ سے پھوٹے گا شرر کیا ‘‘ - جب دامنِ اِحسان چھوٹ گیا تو پھر آج اِس معاشرے کی صورتحال دیکھ لیں بے شمار مذہبی اور دینی تحریکیں کھڑی ہوگئیں، بے شمار تعلیمی ادارے بن گئے ، بے شمار نئی جہتیں متعارف ہوئیں لیکن اِس معاشرے میں برائی بڑھی ہے تھمی نہیں -
جنہوں نے اِس چیز کی اِصلاح کرنی تھی وہ مسند اور جادہ خود ایسی اُلجھنوں کا شکار ہے اُسے ان الجھنوں سے فرصت نہیں ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام بھی ہو ، ایمان بھی ہو اور احسان نہ ہو یہ بالکل ایسے ہے کہ جس طرح جسم بھی ہو، عقل بھی اور رُو ح نہ ہو - مُدّعائے بیان یہ ہے کہ رُوح کو مفقود نہیں ہونے دینا -
(۴) قرآن فھمی اور حدیثِ جبریل کا عملی اِنطباق :
ہم اِسی نظریے یعنی اِسلام ، ایمان اور احسان کو قرآن پاک پر عملی طور پر منطبق ہوتا دیکھتے ہیں کہ بدن کا قرآن سے تعلق کچھ اور ہے عقل کا قرآن سے تعلق کچھ اور ہے اور رُوح کا قرآن سے تعلق کچھ اور ہے -
(۱) بدن کا قرآن سے یہ تعلق ہے کہ بدن قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور ترجمہ پڑھ لیتا ہے ، ہاتھ قرآن کو اُٹھاتے ہیں ، زبان قرآن کو پڑھتی ہے ، ادا کرتی ہے ، ہونٹ قرآن کو چُومتے ہیں ، بدن قرآن کی تعظیم کرتا ہے ، آدمی قرآن کی طرف اپنی پُشت نہیں کرتا ، ہر حال میں ادبِ قرآن کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے اور یہ اِسلام ہے -
(۲) اور ایمان یعنی عقل کا قرآن سے تعلق اِس سے ذرا آگے ہے کہ آدمی قرآن کے معانی اور پیغام میں غور و فکر کرتا ہے اور اُس غور و فکر اور پیغام کو اپنے جسم پرعملی طور پرنافذ کرتا ہے اور قرآن کے احکامات کو اپنے لائف سٹائل پرعملی طور نافذ کرنے کی عملی جدو جہد کرتا ہے یہ آدمی کی عقل کا یعنی ایمان کا قرآن کے ساتھ تعلق ہے جو فقط قرآن خوانی کرتے ہیں اور قرآن کے نظام کو اپنے لائف سٹائل پر عملی طور پر نافذنہیں کرتے وہ مومن نہیں صرف مسلم ہیں کیونکہ ایمان ابھی اُن کے دلوں میں نہیں اُترا ، انہوں نے اپنے باطن سے قبول نہیںکیا،فقط قرآن خوانی کرکے آلہ ٔ جلبِ ثواب (ثواب کمانے کا آلہ) سمجھتے ہیں اس سے بڑھ کر قرآن سے زیادہ تعلق نہیں ہے-اقبال کہتے ہیں :
با آیاتش ترا کارِ جز این نیست
کہ از یٰسینِ اُو آسان بمیری
’’ تیرا قرآن سے اِس سے زیادہ اور کیا تعلق ہے؟کہ جب تُو مرنے لگے گا تو تیرے گھر والے تیرے سرہانے بیٹھ کر سورۃ یٰسین پڑھ دیں گے-‘‘
ہم نے تو اپنے آپ کو یہاں تک محدود کردیا ہے وہ یہی وجہ ہے کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
قرآن کو ہم نے اپنی زندگی کے عمل سے اور اپنی زندگی کے عمل کو قرآن سے نکال دیا ہے - یہ عقل کا قرآن کیساتھ رشتہ ہے کہ عقل قرآن کو تسلیم کرے ، عقل قرآن میں غور کرے ، عقل قرآن میں تدبر کرے ،عقل قرآن کے احکامات کو سب سے پہلے اپنی عملی زندگی پہ نافذ کرنے کی جدو جہد کرے اور یہ ایمان بالقرآن ہے -
(۳) اور احسان بالقرآن یہ ہے کہ آدمی قرآن میں احسان کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے -
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
’’مَیں جب چھوٹا تھا تو میرے والد نے مجھے کہا اِس طریقے سے قرآن نہ پڑھا کر جیسے تُو پڑھ رہا ہے مَیں تجھے قرآن پڑھنے کا طریقہ بتائوں گا وہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے ایک دِن مجھے بتایا جب قرآن پڑھنے لگو تو یہ تصوّر کر لو کہ جبریل امین یہ قرآن لے کر تیرے وجود پر نازل ہورہے ہیں اور یہ قرآن تیری طرف آیا ہے ‘‘-
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
’’بڑی بڑی کتب بھی تب تک تیری رہنمائی نہیں کرسکتیں جب تک یہ قرآن تیری رُوح پر نہیں اُترتا اور جب تک قرآن کے اَسرار و رُموز سے تُو آشنا نہیں ہوجاتا کہ تیری رُوح قرآن کے اِن اَسرار و رموز سے آگاہ ہوجاتی -‘‘
شیخ عبدالعزیز دباخ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
’’اُن کی خدمت میں ایک آدمی آکر قرآن کی ایک آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھتا ہے تو اُنہوں نے کہا کہ کیا مَیں تمہیں قرآن کی وہ آیت نہ سنا دوں ، قرآ ن کی اُس آیت کی وہ تفسیر نہ بتا دوں جو تفسیر کل آقا پاک ﷺنے اولیاء اللہ کی مجلس میں بیان کی تھی -‘‘
یہ آدمی کی رُوح کا قرآن کیساتھ ایک تعلق ہے کہ آدمی قرآن کے رموزِ باطنی کو سمجھنے کے قابل ہوجائے-
اوراب اِن چاروں تقاضاؤں (۱) توحید (۲) رسالت (۳) نماز اور (۴) قرآن میں آپ دیکھیں ، پہلا رشتہ توحید کیساتھ آدمی کے بدن ، عقل اور رُوح کا یعنی اِسلام ایمان اور احسان کا اورا ِسی طرح دوسری سطح پہ رِسالت کیساتھ جو اِس کا رشتہ ہے اور تیسرا تقاضا آدمی کی نمازکیساتھ اِسلام ، ایمان اور احسان کا یعنی بدن ،عقل اور رُوح کااور پھر چوتھا قرآن کیساتھ جو اِس کا رشتہ ہے آدمی کے جسم، عقل اور رُوح کا رشتہ ہے جب اِنسان توحید میں اِس رشتے میں کامل ہوجاتا ہے یعنی اُس کے بدن پر، عقل پراور اُس کی رُوح پر توحید مکمل طور پر نافذ ہوجاتی ہے، جب رِسالت میں وہ اِس رشتہ کو پختہ کرلیتا ہے تو پھر وہ تمام کی تمام صفات آدمی کے وجود میں ظاہر ہوجاتی ہیں -
یعنی اِس کا جسم مسلم بن جاتا ہے ، اِس کی عقل مومن بن جاتی ہے اور اِس کی رُوح محسن بن جاتی ہے ،
اِس کا جسم عابد بن جاتا ہے ، اِس کی عقل عالِم بن جاتی ہے اور اِس کی رُوح عارف بن جاتی ہے -
اِس کا جسم نظر بن جاتا ہے ، اِس کی عقل ناظر بن جاتی ہے ، اِس کی رُوح منظور بن جاتی ہے -
اِس کا جسم عشق بن جاتا ہے ، اِس کی عقل عاشق بن جاتی ہے اور اِس کی رُوح معشوق بن جاتی ہے -
اور مَیں یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آدمی اِس مقام پر جب اُس تعلق کو قائم کرلیتا ہے تو
آدمی کا جسم قاری ٔ قرآن بن جاتا ہے ، آدمی کی عقل عالِم قرآن بن جاتی ہے اور آدمی کی رُوح مجسمِ قرآن بن جاتی ہے
اور یہی وہ درجہ ہے جہاں مومن کو اپنے ایمان کو تقویت دے کر لے کے جانا ہے جہاں علامہ اقبال فرماتے ہیں :
حسنِ کردار سے قرآنِ مجسم ہو جا
تجھ کو ابلیس بھی دیکھے تو مسلماں ہو جائے
یہ وہ درجہ ہے جہاں آدمی اپنے آپ کو قرآنِ مجسم کر دیتا ہے -
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
جب تک تُو اُس کتاب کا صاحب نہیں بن جاتا ، کتاب کا قاری ہونا ایک الگ بات ہے ، کتاب کا عالِم ہونا ایک الگ بات ہے اور کتاب کا صاحِب ہونا ایک الگ بات ہے ،
حرفِ عشق کو جاننا ایک الگ بات ہے ، رمزِ عشق کو جاننا ایک الگ بات ہے اور اُس عشق کو قائم کرلینا ایک الگ بات ہے -
اہلِ تصوف کو جاننا ایک الگ بات ہے ، تصوف کو جاننا ایک الگ بات ہے اور تصوف پر عمل پیرا ہوجانا یہ ایک الگ بات ہے -
اعمال کا تعلق بدن سے ہے ، عِلم کا تعلق عقل سے ہے اور معرفت کا تعلق رُوح سے ہے اوراِن تینوں چیزوں میں آدمی جب تک اشتراکِ کار کر کے ، ایک وِحدت کر کے اُسے ایمان کی سطح پر پختہ نہیں کرلیتا ، یقین کی سطح پر پختہ نہیں کر د یتا اُس وقت تک ایک مثبت فرد کے طور پر معاشرے میں بھر پور کردار ادا نہیں کرسکتا اور یہی کمال تھا آقا پاک ﷺ کا تھا کہ آپ نے مومنین کے ظاہر و باطن ایک کر دیے تھے -
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
کہ دل عقل اور جسم ایک ہو جائیں جب تک یہ ایک نہیںہوتے تب تک بات آگے نہیں بڑھتی اور آقا پاک ﷺ کا احسانِ عظیم یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے والوں کو اِس کمالِ اِتمام کیساتھ مکمل کردیا تھا - رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اِس عظیم سُنّت کو اپناتے ہوئے آج اصلاحی جماعت بھی یہی پیغام لے کر آپ کے پاس آئی ہے کہ خدارا آئیے ہمیں مسلمان بھی صحیح طریقے سے بننا ہے ،مومن بھی اور محسن بھی -بدن ،عقل اور رُوح کی اِصلاح بھی چاہیے، بدن کا شعور الگ بات ہے،عقل کا شعور الگ بات ہے ، رُوح کا شعور الگ بات ہے - بدن کے شعور کے لئے ہمارے والدین ہماری تربیت کرتے ہیں ، عقل کے شعور کیلئے ہمارے اساتذہ ہماری تربیت کرتے ہیں اوررُوح کے شعور کیلئے ہمیں ایسے شیخ کی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو رُوح کے متعلق جانتا ہو - اعمالِ بدن گھر والے سکھاتے ہیں ، ماں باپ سکھاتے ہیں ، بزرگ سکھاتے ہیں -اعمالِ عقل علماء سکھاتے ہیں ، اساتذہ سکھاتے ہیں ، اہلِ علم سکھاتے ہیں اور اعمالِ رُوح مرشدِ کامل سکھاتا ہے ، یہ مرشد کامل کی صحبت سے ملتا ہے اِس لیے کہ وہ اِس علم کو جانتا ہے ، وہ اُس راستے کو جانتا ہے ، وہ اُس مرحلے کو جانتا ہے ، وہ اُس مقام کو جانتا ہے ، وہ اُس کے اَسرار و رموز اوراُس کی آسانی و مشکلات کو جانتا ہے تو آج ہمیں یہ اپنے سامنے واضح کر لینا چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا کمال یہ ہے کہ اُنہیں آقا پاک ﷺ کی صورت مبارک میں اعمالِ بدن کی تربیت کرنے والا بھی مل گیا تھا ، اعمالِ عقل کی تربیت کرنے والا بھی مل گیا تھا اور اعمالِ رُوح کی تربیت بھی کرنے والا مل گیا تھا اورایک ہی درس گاہ میں اُن کی یہ ساری تربیتیں مکمل ہوگئی تھیں -
عشق کی اک جَست نے کر دیا قصہ تمام
اِس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا مَیں
تو مَیں آخر میں دربارِ عالیّہ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے پلیٹ فارم سے یہی پیغام آپ تمام بھائیوں اور بزرگوں کو عرض کرنا چاہوں گا کہ آئیے اگر ہم نے واقعتا اِس معاشرے کا ایک مثبت ، قوی اور ایک زندہ فرد بننا ہے اور جو تباہی اِنسانیت کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہے اُس تباہی سے اگر ہم نے اپنے معاشرے کو ، اِس انسانیت کو ، اِس سوسائٹی کو ، اپنے آپ کو ، اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا ہے تو آئیں یہ تحریک یہی پیغام لے کر آپ کے پاس آئی ہے اور مَیں جاتے ہوئے ایک بات عرض کرنا چاہوں گا اپنے تمام نوجوان ساتھیوں سے کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری
وقتِ پیری گرگ ظالم میشور پرہیز گار
جوانی میں توبہ کرنا، جوانی میں اپنی لَو اللہ سے لگانا ، اپنی جوان چاہتوں کو اللہ کی چاہتوں کے سپرد کرنا ، اپنی جوان دھڑکنوں کو اللہ کی رضا پر قربان کرنا ، اپنے جوان جذبات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنا یہ انبیاء کی سنت ہے ،
او نوجوان ، او میرے ساتھی اگر بڑھاپے کے انتظار میں بیٹھا ہے کہ وقت گزر جائے تو سُدھر جائیں گے بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی ظلم کرنا چھوڑ دیتا ہے تُوسُدھر گیا تو کونسی بڑی بات ہے؟
یہ جوان دھڑکنیں ، یہ جوان سانسیں ، یہ جوان جذبات، یہ جوان احساسات آج اِس سوسائٹی کو ، اِس معاشرے کو ،اللہ کے دین کو اِن کی ضرورت ہے - اپنی چاہت کو اللہ کی چاہت پر قربان کیجئے،اپنی رضا کواللہ کی رضا کے سپرد کیجئے - یہی پیغام ہے جو یہ تحریک لے کر چل رہی ہے اور آپ تک اِس پیغام کو لے کر ہم آئے ہیں - اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر استقامت دے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے -
و آخر دعوانا عن الحمد للّٰہ رب العالمین
٭٭٭٭٭