واجب الاحترام بھائیوں، بزرگوں اور ساتھیوں اسلام و علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ !
آج اس وقت مَیں بطور ایک Religious Community کے دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کا ایک وسیع معاشرہ ہوتے ہوئے ہم جس درد، روحانی تکلیف اور جذباتی اذیت سے گزر رہے ہیں اِس کا اندازہ ہمیں اِس اعتبار سے لگانا چاہیے کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی عطاکی ہوئی نعمتوں میں سے کسی کی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود ہم اپنے موقف کو دنیا کے سامنے جس انداز میں پیش کیا جانا چاہیے تھا اُس انداز میں سمجھا نہیں پا رہے کہ بہ طور مسلمان کے، بہ طور ایک دین کے ماننے والوں کے، بہ طور ایک دین کے پیروکار کے ہمارے قریب جو عظیم ترین ہستیاں، شخصیات اور نمونہِ عمل ہیں اور ہمارے دلوں میں جن کی تقدیس مذہبی، روحانی اور دینی اعتبار سے ہے اُن میں امام الانبیائ حضرت محمد الرسول اللہ ﴿w ﴾ کی ذا ت گرامی کا نہ تو کوئی ثانی ہے نہ ہی نعم البدل ہے کسی بھی دوسرے مذہب کی کسی بھی مقدس شخصیّت سے بڑھ کر مسلمان اپنے آقا و مولا تاجدارِ دوعالم ﴿w ﴾ سے محبت کرتا ہے - اِس لئے آقا کریم ﴿w﴾ کی ناموس اور عزت پہ دُنیا کے نام نہاد مہذب لوگ جو حملے کر رہے ہیں وہ فقط ایک شخصیت پہ نہیں بلکہ دُنیا کی ایک عشاریہ چار ارب آبادی کے ایمان اور کلیجوں پہ حملہ ہے - مسلمان اِس بات پہ کامل یقین رکھتا ہے کہ میرا سر میرے دھڑ سے جدا کر دیا جائے مجھے اتنی تکلیف نہیں ہو گی جتنی تکلیف ہمارے عقیدہ و عقیدتوں کے مرکز جنابِ سیّد الانبیا خاتم النبیّین ﴿w﴾ کی ذات پاک کی گستاخی و بے ادبی پہ ہمیں تکلیف پہنچتی ہے -
بہ طور ایک مسلمان کے، بہ طور رسول پاک ﴿w﴾ کے اُمتی کے اور حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی نبوت کی گواہی دینے والے کے یہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لازم کیا ہے کہ تم اِس بات کا دھیان رکھو کہ کہیں تمہارے ماں باپ، بال بچے، نفع بخش کاروبار اور خوبصورت مکان اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﴿w﴾ کی اطاعت میں تمہارے سامنے حائل نہ ہو جائیں اور اگر یہ تمہارے سامنے حائل ہوئے تو پھر خدا کے حکمِ عذاب کا انتظار کرنا-
﴿قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ ا قْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٰ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٰ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٰ وَ اﷲُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾ ﴿التوبہ:۹، آیت:۴۲﴾
’’﴿اے نبی مکرم! ﴾ آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ ﴿دادا﴾ اور تمہارے بیٹے ﴿بیٹیاں﴾ اور تمہارے بھائی ﴿بہنیں﴾ اور تمہاری بیویاں اور تمہارے ﴿دیگر﴾ رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے ﴿محنت سے﴾ کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ﴿A﴾ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ ﴿عذاب﴾ لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘-
رسول پاک ﴿w﴾ نے فرمایا کہ:-
﴿عَنْ اَنَسٍ، قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾
﴿بخاری، کتاب الایمان﴾
سنن النسائی ، کتاب الایمان میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ:-
﴿عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ مَالِہِ وَاَہْلِہِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾
یعنی آقا علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ اُس شخص کا ایمان اُس وقت تک کامل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ کوئی آدمی اپنی جان، اپنے مال، اپنے عزیز و اقارب، اپنے بہن بھائی، اپنے والدین، اپنے بال بچوں، اپنے خیش قبیلوں، اور ہر چیز سے بڑھ کر میری ذات سے محبت نہیں کرتا-
حضور ﴿w﴾ سے ہمیںجو محبت ہے وہ ہمیں کائنات کی کسی بھی دوسری چیز سے نہیں ہو سکتی ، ہمیں اپنے آپ، اپنے بیوی بچوں، اپنے والدین، اپنے کاروبار، اپنے گھر بار اور اپنی دنیا سے بھی اِتنی محبت نہیں ہے جتنی ہمیں تاجدارِ کائنات حضرت محمد الرسول اللہ ﴿w﴾ کی ذاتِ گرامی سے ہے- یہ محبت کس وقت اور کس سے پیدا ہوتی ہے؟ یہ محبت اُس سے پیدا ہوتی ہے جس کا بے حد و بے حساب ادب، لا محدود تعظیم، انتہا درجے کی عزت اور انتہا درجے کا وقار ہمارے دل کے اندر موجود ہو-
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
ادب آتا ہے تو محبت آتی ہے جس کا احترام، ادب، تعظیم، عزت اور وقار دل کے اندر نہ ہو اُس سے محبت کی کیسے جا سکتی ہے؟ محبت کی ہی اُس سے جاتی ہے جس کی تعظیم اور ادب دل کے اندر موجود ہوتا ہے- اِس لیے آقا علیہ الصلوۃ و السلام کی محبت ہمیں کائنات کی ہر چیز سے زیادہ ہے، حضور کی ذات سے جب محبت ہے تو با الفاظ دیگر اِس کا یہ مفہوم لیا جائے گا کہ کا ئنات کے اندر ہمیں جتنی تعظیم، ادب، عزت، احترام اور وقار امام الابنیائ تاجدارِ کائنات حضرت محمد الرسول اللہ ﴿w﴾ کا ہے اُس کے بارے مختصر ترین و محتاط لفظوں میں ہم صرف اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ:-
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اگر محبت یاادب وتعظیم کے اندر پرورگار ذولجلال سبحانہ وتعالیٰ کے بعد اگر کوئی ذاتِ گرامی ہے تو وہ آپ ﴿w﴾ کی ذات ِگرامی ہے- حضور ﴿w﴾ کا ادب، تعظیم، عزت اور وقار ہمیں خود خالقِ کائنات نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید میں سکھایا ہے- خود رب ِذولجلال نے ہمیں آداب سکھائے کہ میرے محبوب ﴿w﴾ کی بارگاہ میںکیسے آیا کرو- میرے محبوب ﴿w﴾ سے اپنا معاملہ اور اپنے تعلقات کیسے رکھو- میرے محبوب ﴿w﴾ سے گفتگو اور کلام کیسے کرو- اُن سے مخاطب کیسے ہو، اُن کے پاس بیٹھا کیسے کرو، اُن سے محبت کیسے کرو، اُن کی اِتباع کیسے کرو اور اُن کا مقام کیسے سمجھو، یہ تمام کی تمام باتیں اور یہ ایمان کے تمام کے تمام اجزائ اللہ تعالی نے ہمیں خود قرآنِ کریم میں سکھائے ہیں-
﴿لِّتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٰ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہ﴾﴿الفتح،۹﴾
’’تاکہ ﴿اے لوگو! ﴾ تم اﷲ اور اس کے رسول ﴿w﴾ پر ایمان لائو اور ان ﴿کے دین﴾ کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو‘‘-
مفسرین متقدمین میں ابو محمد سہل بن عبداللہ التستری رحمۃ اللہ علیہ آپ اس آیت مبارکہ کی تفسیرکرتے ہوئے ارشاد رفرماتے ہیں کہ:-
’’ای تُعظموۃ غایۃ التعظیمِ فی قلوبکم و تطیعوہ بابدانکم ‘‘
’’ تم اپنے دلوں کے اندر آقا ﴿w﴾کی بے پناہ عزت کرواوراپنے جسموں کے ساتھ حضور ﴿w﴾ کی اطاعت وا تباع کو اختیار کرو ‘‘-
امام تستری نے جو لفظ ’’غایۃ التعظیم‘‘ استعمال فرمایا ہے یہ قابلِ غور ہے جس کا معنیٰ ہے بے پناہ اور انتہا درجہ پہ - ابو الحسن علی بن محمد البغدادی الماوردی رحمتہ اللہ علیہ آپ اپنی تفسیر کے اندر ارشا د فرماتے ہیں کہ ﴿تُوَقِّرُوْہ﴾ کا معنی کیا ہے مسلمانوں کے لئے یہ وہ آداب ہیں جو قرآنِ مجید نے سکھائے ہیں حضور ﴿w﴾ کے ، جس بات کا ہم مولانا ظفر علیخان کی زبان میں دعویٰ کرتے ہیں کہ :-
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
یہ ایمان، یہ ہمارا فقط ایک جذباتی نعرہ ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں قرآن کریم ، احادیث رسول اور ہمارے اسلاف و اکابر نے سکھایا ہے جن میں آئمہ اہلِ بیت ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین ، آئمۂ اجتہاد ، آئمہ حدیث و تفسیر ، اولیائے کاملین و علمائے ربّانیّین اور مجاہدینِ اسلام کی ہستیاں شامل ہیں - آقا کریم ﴿w﴾ کی حرمت و ناموس پہ کٹ مرنے کا جذبہ آغازِ اِسلام ہی سے مسلمانوں کو عطا کیا گیا ہے - اِس لئے ہمارا یہ جذبہ کہ ’’غلامیِ رسول میں موت بھی قبول ہے‘‘مسلمانوں نے اپنی طرف سے تراشا نہیں بلکہ یہ خود قرآن حکیم میں رب ذولجلال نے ہمیں سکھایا ہے کہ حضور ﴿w﴾ کا ادب، وقار اور تعظیم تمہارے اوپر کس قدر لازم ہے-
درج بالا آیت میں ﴿تُوَقِّرُوْہ﴾ کا معنیٰ و مفہوم بیان کرتے ہوئے امام الماوردی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ :-
’’ای تد عوہ بالر سالۃ و النبوۃ لا بالاسمِ وا لکنیۃ ‘‘
’’حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو حضور ﴿w﴾ کے اسم اور کنیت سے مت پکارو بلکہ صفتِ نبوت ﴿یعنی یا نبی اللہ﴾ اورصفتِ رسالت ﴿یعنی یا رسول اللہ﴾ سے پکارو ‘‘-
جب بھی حضور ﴿w﴾ کو پکارو تو حضور ﴿w﴾ کے منصب رسالت اور منصب نبوت سے پکارو کہ یا رسول اللہ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو- حضور ﴿w﴾ کو حضور ﴿w﴾ کے اسم سے روکھے انداز میں یا روکھی زبان میں کنیت لے کر پکارنا بھی بے ادبی میں شمار ہوتا ہے- تو جس ہستی سے ہمارے آداب کا تقاضا یہ ہے کہ اُن کا نام روکھا کر کے پکارنا یا کنیت روکھی کرکے یعنی فقط ابوالقاسم، محمد اور محمد بن عبداللہ کہہ کر پکارنا ہمارے ایمان کے تقاضو ں میں حضور ﴿w﴾ کی تو ہین اوربے ادبی کے مترادف ہے - بیان کا مدّعا یہ ہے کہ جب محبت میں وارفتگی اور ادب و تعظیم میں اہتمام کا یہ عالَم ہے تو پھر اُن کی شان میں ایسی بے باکانہ گستاخیاں اور گستاخانہ خاکے ایک سَچے اور سُچے عقیدہ کا مسلمان کیسے قبول کر سکتا ہے ؟ تو پھر مسلمان یہ بات کیسے برداشت کر سکتاہے کہ ایسی عظیم ہستی کے متعلق اِس طرح کی خبیثانا، توہین آمیز اور تضحیک آمیز حرکات کی جائیں؟ مسلمان جب اپنے ایمان کا حصہ حضور ﴿w﴾ کو سمجھتا ہے تو حضور ﴿w﴾ کی ذاتِ گرامی، حضور ﴿w﴾کے ادب، حرمت اور تعظیم پہ ایک رَتّی برابر بھی اِس چیز کو برداشت ﴿Tolerate﴾ نہیں کرے گا اور اِس پر سمجھوتہ ﴿Comprise﴾ نہیں کر سکتا کیونکہ ہمارا دین ہمیں حضور ﴿w﴾ کی ذات ِ گرامی پہ قربان ہونا سکھاتا ہے -
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقِ عمل اور ترتیب مبارک ہمارے لئے آداب مقرر کرنے کا بہترین پیمانہ ہے ، ہم اُن کے طریق ترتیب سے دیکھ سکتے ہیں کہ کہ وہ جب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرتے تو کیسے کرتے؟ وہ آپ ﴿w﴾ کی مجلس میں کن اَلفاظ، کس اسم کس لقب ، کس کنیّت یا کس شرف سے آپ ﴿w﴾ کو پکارا کرتے ؟ کیا وہ آپ ﴿w﴾ کو’’ اے محمد بن عبداللہ ﴿w﴾‘‘ کہہ کر پکارتے ؟ نہیں - بلکہ ! وہ آپ ﴿w﴾ کو ایسے مخاطب کرتے ﴿فداک ابی و امی سیّدی یا رسول اللہ﴾ ہمارے ماں باپ آپ ﴿w﴾ پر قربان ہوں اے ہمارے سردار اے اللہ کے رسول﴿w﴾- آپ اندازہ لگائیں کہ وہ کس انداز، طریق، ترتیب، لقب، احترام اور تعظیم سے رسول پاک ﴿w﴾ کو مخاطب کیا کرتے تھے- ’’یا نبی اللہ ﴿w﴾، اے اللہ کے حبیب ﴿w﴾، اے اللہ کے رسول ﴿w﴾‘‘ - صحابہ کرام نے اُمّت کو تربیّت میں سکھایا کہ حضور ﴿w﴾ کا اِسم مبارک لینے کی یہ حرمت اور تعظیم ہے- حضور ﴿w﴾ کے نام لینے میں اَدب کو شامل کرنا ہم پر لازم ہے- امام ابو ابراہیم التجیبی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق متعدد مؤرخین نے اور متعدد بزرگوں نے اُن کا یہ قول لکھاہے کہ رسول پاک ﴿w﴾ کی ذاتِ پاک کا اسم ِگرامی جب مسلمانوں کے سامنے آئے تو مسلمان کے اوپر کیا لازم ہے کہ وہ کیسے React کرے اور کس رد ِعمل کا اظہار کرے؟
’’واجب علی کل مومنٍ متی ذکرہ او ذکر عندہ ان یغضع و یخشع و یتوقر و یسکن من حرکاتہ و یاخذ فی ہیبتہ و اجلالہ بما کان یاخذ بہ نفسہ لو کا ن بین یدیہ و یتأدب بما ادبہ اللّٰہ بہ‘‘
’’ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ جب بھی مسلمان کے سامنے امام الانبیائ حضرت محمدر سول اللہ ﴿w﴾ کا ذکر کیا جائے یا حضور ﴿w﴾ کا اسمِ گرامی لیا جائے تو خشوع و خضوع کے ساتھ حضور ﴿w﴾ کے نام اور ذکر کاادب و احترام کرے اور اپنی حرکات میں سکون اور قرار اختیار کر لے اور آپ ﴿w﴾ کی ہیبت اور تعظیم کاایسے اظہار کرے کہ جس طرح بندہ کے سامنے ﴿اسم یا ذکر نہیں بلکہ خود ﴾ حضور پاک ﴿w﴾ موجو د ہیں ‘‘-
پھر وہ فرماتے ہیں کہ اِس طرح حضور ﴿w﴾ کا ادب کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضور ﴿w﴾ کا ادب سکھا دیااور فرمایاکہ حضور ﴿w﴾ کا یہ ادب ہم نے اپنے اسلاف سے سیکھا ہے :-
’’و ھذہ کانت سیرۃ السلف الصالحین و ائمۃ المھدیین ﴿j﴾‘‘
’’اور یہ ہم نے اپنی طرف سے اختراع نہیں کیا بلکہ ہم نے اپنے سلف صالحین سے سینہ بہ سینہ ﴿ حضورwکا﴾ یہ ادب سیکھا ہے ‘‘-
اُن کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے حضور ﴿w﴾ کے ادب کو اپنے ایمان اور دین کا اولین جز بنا لیا ہے کیونکہ :-
محمدw کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ھمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی ، تمام بولہبی است
ترجمہ: ’’مصطفی کریم ﴿w﴾ تک خود کو پہنچا دے کہ تمام دین آپ ہی کی ذات مبارکہ ہے- اگر آپ کی ذات تک نہیں پہنچتے تو سب بو لہبی ہے‘‘-
اگر حضور ﴿w﴾ کی بارگاہ میں اِس خشوع، عاجزی، انکساری اور ادب واحترام اور وقار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حاضری نصیب نہیں ہوتی تو اقبال فرماتے ہیں ’’تمام بو لہبی است‘‘ پھر تیرا ایمان مکمل ہی نہیں ہوا، تو نے ایمان کی رَمز کو سمجھا اور جانا ہی نہیں- امام ابن ابی یعلیٰ ﴿h﴾ ’’کتاب الاعتقاد‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اِس انداز میں حضور ﴿w﴾ کی عزت و تعظیم اورادب و احترام سکھایا کہ :-
﴿ یٰ آَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہ، بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن﴾
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو حضور اکرم ﴿w﴾ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات ﴿بھی﴾ نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو ﴿ایسا نہ ہو﴾ کہ تمہارے سارے اعمال ہی ﴿ایمان سمیت﴾ غارت ہو جائیں اور تمہیں ﴿ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا﴾ شعور تک بھی نہ ہو‘‘- ﴿الحجرات،۲﴾
آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ احکامات اُتار کر یہ واضح کردیا کہ تمہارا جو ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تمہارا جو میرے محبوب ﴿w﴾ کی بارگاہ میں تعلق ہے یہ دو الگ الگ باتیں ہیں ، میرے محبوب ﴿w﴾ کی بارگاہ روز مرّہ کی کاروائی ﴿Routine Matter﴾ نہیں ہے - اِس لئے جب ایک دوسرے کو مخاطب کرو یا پکارو تو اور بات ہے اور جب میرے حبیبِ مکرم ﴿w﴾ کو پکارو تو یہ اور بات ہے ، آپس میں بات کرو تو اور معاملہ ہے مگر جب میرے حبیب ﴿w﴾ سے بات کرو گے تو آداب تبدیل ہو جائیں گے ، تقاضے بدل جائیں گے ، احتیاط کی رسی کو تھامنا پڑے گا ، دامنِ ادب سے گانٹھ لگانی پڑے گی اگر تھوڑی سی کوتاہی و بے پرواہی بھی تمہاری طرف سے ہو گئی یا توہین و بے ادبی کا شائبہ تک بھی پیدا ہو گیا تو یاد رکھو :-
﴿اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْن﴾
’’ہو سکتا ہے تمھارے اعمال برباد کر دیے جائیں اور تمہیں اس بات کا شعور ہی نہ ہو ‘‘-
صحابہ کرام ﴿j﴾ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا ادب اِس انداز میں کیا کرتے تھے اور یہ اَدب قرآن مجید نے اُنہیں سکھایا ہے- مسلمانوں کے ایمان کا جز، حضور ﴿w﴾ کی حرمت اور ناموس پہ کٹ مرنے کا جذبہ مسلمانوں کو قرآن مجید نے سکھایا ہے- ہر نظریّے اور ہر دین کا کوئی نہ کوئی بُنیادی ڈاکیومنٹ ﴿دستاویز﴾ ہوتا ہے جس کو پڑھ کر وہ نظریّہ سمجھا جا تا ہے - اِسلام کا بُنیادی ڈاکیومنٹ جو خود اِسلام کی وضاحت کرتا ہے وہ قرآن مجید ہے - اور آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ ادب ہمیں قرآن مجید نے سکھایا ہے- سورہ الحجرات کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم بیان فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ﴿j﴾ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ اونچا بولنا ہی ترک کر دیا تھا اور سرگوشیوں میں بات کرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آواز نا دانستہ طور پہ آقا کریم ﴿w﴾ کی آواز سے بُلند نہ ہو جائے - امیر المؤمنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی جاتی ہے کہ سیدّنا عمر فاروق ﴿h﴾ جیسی پُر جلال، گرجدار اور عظیم شخصیت بھی جب رسول پاک ﴿w﴾ سے مخاطب ہوتے تو سرگوشی کے انداز میں مخاطب ہوتے اور اتنا آہستہ مخاطب ہو تے کہ بعض دفعہ رسول پاک ﴿w﴾ کو حضرت عمر ﴿h﴾ کی بات سمجھنے میں دشواری ہو جاتی کہ عمر ﴿h﴾ کیا کہنا چاہتے ہیں :-
’’وعن عمر کان اذا حدثہ کاخی السرار ما کان یسمع رسول اللہ بعد ھذہ الایۃ حتی یستفھمہ‘‘
’’اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر اتنی آہستگی سے رسول اللہ ﴿w﴾ سے بات کرتے یہاں تک کہ آپ کی بات سمجھنا مشکل ہو جاتا ‘‘-
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اگر فرداً فرداً روایات بیان کرنا شروع کروں تو دامنِ وقت کی گنجائش حائل ہو جائے گی ، لیکن اتنا عرض کرتا چلوں کہ جو کمیونٹی اپنی آواز کو اپنے نبی محتشم ﴿w﴾ کی آواز کے برابر ہو جانا بے ادبی و گستاخی سمجھتی ہے اور صرف آواز کی برابری کو اپنے اعمال کے برباد ہوجانے کا موجب سمجھتی ہے اور اس نا دانستہ عمل کو بھی حضور ﴿w﴾ کی بارگاہ کی توہین اور بے ادبی سمجھے تو اے دنیا والو! تم کیسے اندازہ کر سکتے ہو کہ اُس قوم کو کس قدر اپنے رسول ﴿w﴾ کے ساتھ محبت ہو گی؟ یہ بات نفسانی خواہشات سے لدی مادی ذہنیّت کیلئے سمجھنا مشکل ہے کیونکہ اس مادہ پرست کو معلوم ہی نہیں کہ بارگاہِ مصطفےٰ ﴿w﴾ کے آداب کی ٹریننگ اور تربیّت خود ہمارے پیدا کرنے والے رب نے دی ہے-
جس طرح کہ قرآن پاک اسلوب ہے کہ عمل کی دعوت دیتا ہے اور ایک سیدھا سچا ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے ، جب کوئی شخص یا اشخاص کی پوری ایک جماعت اُس تلقین پہ عمل پیرا ہوتی ہے تو پھر قرآن پاک ان کو کامیابی کی بشارت سُناتا ہے - اَب سورہ الحجرات کی بیان کی گئی ان آیات پہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نمونۂ عمل بننے کی شاندار مثال پیش فرمائی تو ربِّ ذوالجلال نے اِس نمونۂ مثال بننے بالفاظِ دیگر بارگاہِ مصطفےٰ ﴿w﴾ کے آداب ک?