اسلامی معاشرت کی رُوح : محبت و عشقِ مصطفےٰﷺ (حصہ سوم)

اسلامی معاشرت کی رُوح : محبت و عشقِ مصطفےٰﷺ (حصہ سوم)

اسلامی معاشرت کی رُوح : محبت و عشقِ مصطفےٰﷺ (حصہ سوم)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جنوری 2020

اِس سے پہلے کہ اصل موضوع پہ اپنی نگارشات و گزارشات پیش کروں ، ملکی حالات کے تناظر میں چند اہم باتوں کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں - ایک وقت تھا کہ جب جنگیں نیزوں، تیروں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں، پھر مشینیں ایجاد ہوئیں تو منجنیق سب سے بڑا جنگی ہتھیار سمجھی جاتی تھی - پھر بارود استعمال ہونےلگا ، توپ اور بندوق ایجاد ہوئیں-اسی طرح گھوڑے کی جگہ ٹینک نے لے لی اور جدید سے جدید ہتھیار آتے گئے حتی کہ جہازوں کے ذریعے فضائی جنگ شروع ہوگئی-جنگ کے روایتی میدان ختم ہوتے گئے اور قوموں کےممالک کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں تھا کیونکہ کہیں بھی ہوائی ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کیا جاسکتا ہے-لیکن وہ بھی زیادہ تر سٹریٹیجک لوکیشن کو ٹارگٹ کرتے ہیں جن میں رابطہ پُلیں ، رن وے، ریلوے ٹریک وغیرہ-اس کے بعد ایٹم بم آگیا اور روایتی جنگ بطریق کم ہوتی چلی گئی لیکن یہ تمام ٹیکنالوجیز اور سٹریٹیجیز 2019ء کی نہیں ہیں یہ سب ٹیکنالوجیز 2015ء سے پہلے کی ہیں-اس لئےاب میدانِ جنگ اور جنگ کے ہتھیار تبدیل ہوگئے ہیں کیونکہ اب جنگ کا ہتھیار سمارٹ فونز ہیں -اب میدانِ جنگ، صحراءوں، پہاڑوں میں نہیں سجتے بلکہ اب جنگ گھروں، دکانوں، تھڑوں، ریڑھیوں، سکولز، کالجز، گلیوں اور محلوں میں انتشار اور جھوٹے پروپیگنڈے پہ مبنی فوٹوشاپ تصاویر، آڈیو اور ویڈیو کے ذریعےلڑی جاتی ہے - آپ پچھلے تین چار برس میں دیکھیں کہ پاکستان، ریاست ِ پاکستان، پاکستان کی سالمیت و استحکام، قومی یکجہتی اور حفاظتی اداروں کے متعلق نامعلوم ذرائع سے خبریں پھیلا کر اس ملک میں جو انتشار پیدا ہوا ہے یہ فساد و انتشار دشمن اپنی توپوں، ٹینکوں، جہازوں اور فوجیوں کے ذریعے نہیں کرسکتا تھا-

افسوس! یہ ہے کہ دشمن کی اس آگ کا ایندھن لکڑی ، لوہا ، اینٹیں، پتھر اور اس کی فیکڑیوں میں بننے والا میڑیل نہیں ہے بلکہ اس کا ایندھن ہم پاکستانی بنے ہیں؛ اور اس آگ کو پھیلانے میں ہماری قوم کے ناسمجھ لوگوں نے مدد کی ہے- اس لئے ہمیں اس ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کا ادراک کرنا ہوگا؛ جس کیلئے ہمیں پاکستان اور پاکستان کی سالمیت و بقاء اور استحکام کے ضامن اداروں کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کرنی ہوگی-کیونکہ ہمارا یہ نظریہ اور سوچ ہے کہ پاکستان سے وفاگنبدِ خضریٰ سے وفا ہے اور پاکستان سے بے وفائی گنبد خضریٰ سے بے وفائی ہے- پاکستان کا نظریہ بھی ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ہے اور پاکستان کے پرچم میں سبز رنگ گنبد خضریٰ کی خیرات سے شامل کیا گیا ہے-اس لئےہم کہتے ہیں کہ پاکستان ہمارا سیاسی عزمِ وفا نہیں بلکہ روحانی عزمِ وفا ہے ؛ اور انسان اپنے دنیاوی مفاد پہ سمجھوتہ کرسکتا ہے لیکن اپنے روحانی مستقبل پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا-

کوئی کہتا ہے کہ ہم اپنے جغرافیہ کی قوم ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ہم اپنےرنگ کی قوم ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ہم اپنی زبان کی بنیاد پہ قائم قوم ہیں، کوئی اپنے افغانی النسل اور افغانی الوطن ہونے پر اتراتا ہے-کوئی ایرانی النسل اور ایرانی الوطن ہونے اور کوئی یورپی الوطن ہونے پر اتراتا ہے، ہرکوئی اپنے آپ کو کسی شناخت سے منسوب کرتا ہے-لیکن یاد رکھیں! پاکستانی وہ واحد قوم ہے جو اپنے آپ کو محمد الرسول اللہ (ﷺ) سے منسوب کرتی ہے -

اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ سعادت بخشے؛ اگر کسی کو یہ سعادت نصیب ہے تو وہ اس بات کا بخوبی مشاہدہ کر سکتا ہے کہ نمازِ عصر سے تھوڑا پہلے مسجد نبوی شریف میں سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے حجرۂ شریفہ کے قدمین کی طرف جو جگہ ہے وہاں کیلئے راستہ کھولا جاتا ہے - وہاں 200 افراد بمشکل بیٹھتے ہیں-یہ 200 افراد دنیا بھر مثلاً انڈونیشا، ترکی، سومالیہ، مصر، یورپ اور بلاد اسلامیہ سےآئے ہوئے ہوتے ہیں؛ اور آقا دو عالم (ﷺ) نے اپنے قدموں میں پاکستانی قوم کو اکثریت سے جگہ عطا کی ہے-مثلاًاگر 200 افراد ہیں تو ان میں 150 پاکستانی، 25 ترکی اور باقی 25 پوری دنیا کے مسلمان ہوں گے-اس لیے کہ پاکستان وہ واحد قوم ہے جو مدینہ منورہ کے بعد’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ)‘‘ کے نظریہ پہ وجود پہ آئی جس کی وجہ سے اس قوم کو دنیا بھر کے مسلمانوں سے عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) میں امتیاز حاصل ہے-اس وجہ سے پاکستانی سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی عطا سے حضور کی قوم ہے اور اپنی شناخت گنبد خضریٰ سے منسوب کرتے ہیں- اس لئے ہمارا عزمِ وفا آپ (ﷺ)کے ساتھ منسوب ہے،ہمارا عنوانِ شناخت آپ (ﷺ) کی محبت سے شروع ہوتا ہے، آپ (ﷺْ) کے اسم مبارک سے ہماری نسبت شروع ہوتی ہے اگر آپ (ﷺ) کا حوالہ نہ ہو تو ہم کچھ بھی نہیں-یہی وجہ ہےکہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خواہ، کشمیر اگر تمام نفرتوں کو بھلا کر کسی ایک نام پر یکجا ہیں تو وہ ایک نام تاجدارِ انبیاء (ﷺ) کا اسم مبارک ہے-اس لئے ہمیں ایسے قول وفعل سے گزیز کرنا ہے جس سےپاکستان کا وقار ، سالمیت اور استحکام مجروح ہو-بلکہ اپنے گھروں ، اہل خانہ، محلہ گرد و نواح ، سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں رسول اللہ (ﷺ) کی محبت اور عشق کی دعوت نوجوانوں کو دینی چاہیےتاکہ اس قوم کے دلوں میں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) پیدا ہو-

اپنےموضوع کی طرف بڑھتے ہوئے دو باتیں تمہیداً بیان کرنا چاہوں گا-پہلی یہ کہ کوئی بھی چیز جس دوسری چیز کا ادراک یا شناخت رکھتی ہے تو اس کے لئے کچھ شرائط ہیں-ایک تو یہ کہ اس کا تعارف اور اس کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے-کیونکہ بغیر علم اور معلومات کے کسی کو پہچانا نہیں جاسکتا-اب یہ ایک ایسا سوال ہے جو میں قارئین پرچھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہوں جس کا جواب قارئین کو آئندہ گفتگو میں ملے گا-

کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میری اور آپ کی رائے ہے کہ یہ ادراک اور شعور رکھنے کی اہل ہیں-جیسے انسان، مرد و عورت، بچہ و بوڑھا-اب اگر میں کہوں کہ آپ اس کے بارے میں ادراک یاشعور رکھتے ہیں تو آپ کہیں گے کہ ہم رکھتے ہیں کیونکہ آپ کے ذہن میں اسباب پیدا ہوگئے-اس لئے کہ اس کے کان، آنکھیں، زبان، دل و دماغ،روح ہے اور اس میں یہ شعور ہے کہ یہ علم حاصل کرسکےاوراُس علم کے ذریعے کسی چیز کو پہچان سکے-اسی طرح بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق ہم انسانوں نے اپنے علم کے نقص اور علم کی کمی کی وجہ سے یہ مان لیا ہے کہ شاید یہ چیزیں علم، شعور اور ادراک نہیں رکھتیں-اس لئے کہ ان کے کان، ان کی آنکھیں، اس کی زبان ہماری طرح نہیں ہیں-مثلاً پرندے، حیوانات، نباتات و جمادات، درخت، پتے ، ریت اور پہاڑ وغیرہ-ان کےمتعلق ہمارا گمان یہ ہوتا ہے کہ شاید یہ چیزیں اس طرح شعور نہیں رکھتیں جس طریق سے انسان شعور رکھتا ہے-یہ سارے سوالات آپ اپنے ذہن میں رکھیں کیونکہ جب ہم گفتگو کے اختتام پہ پہنچے گیں تو پھر آپ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس کس چیز کو کس طریق سے کس چیز کی پہچان و معرفت عطا فرمائی ہے-

اس تمہید کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذات گرامی اس کائنات کے اس مرکزی نکتہ کی حیثیت رکھتی ہے جس کےگرد پوری کائنات کی پرکار گھومتی ہے- آقا دو عالم (ﷺ) کائنات کا مرکزِ توجہ و نگاہ ہیں-کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین، سید الانبیاء، احمد المجتبیٰ، حضور نبی کریم (ﷺ) کو وہ اوصاف و کمالات، رفعتیں اور بلندیاں عطا فرمائی ہیں جن کا ادراک انسان کے افہام اور وہم و گمان سے بھی بالا تر ہے-ان کمالاتِ مصطفویٰ (ﷺ) میں جو عظیم اور نمایاں ترین پہلو ہے وہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کےمعجزاتِ شریفہ ہیں-

ان دونوں باتوں، اولاً حضور نبی کریم (ﷺ) کی وریٰ الوریٰ عظمت اور ثانیاً کثرتِ معجزات پر پوری امت کا اجماع ہے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور سلف صالحینؒ کا یہ طریق تھا کہ وہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے معجزاتِ شریفہ کو یاد کیا کرتے، اپنی صحبتوں، مجلسوں اور نشستوں میں - اور اپنے پاس بیٹھنے والوں کو آقا کریم (ﷺ) کے معجزاتِ شریفہ سےآگاہ کیا کرتے- اس لئے کہ جب آپ کسی کے بارے یہ معلوم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کیا کیا خاصیتیں، رفعتیں، بلندیاں اور اوصاف و کمالات عطا کیے تو آپ کا دل عموماً اس کی طرف راغب و مائل ہوتا رہتا ہے یہاں تک کے اس شخص کے متعلق آپ کی محبت اپنے درجۂ انتہاء کو جاپہنچتی ہے جسے صوفیاء عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کا نام دیتے ہیں-اس لئے جو صوفیاء کرام کا بیان ہے وہ چاہے اپنے خطبات یا محافل میں کریں،اس سے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذات اقدس کی محبت بندے کے دل میں فروغ بھی پاتی ہے اور تقویت بھی پاتی ہے-

معجزاتِ مصطفےٰ کی کثرت پہ امام شمس الدين السفارينی الحنبلی (المتوفى: 1188ھ) علماء کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ: مُعْجِزَاتُ نَبِيِّنَا كَثِيْرَةٌ لَا تَنْحَصِرُ، وَفِيْ كَلَامِ بَعْضِهِمْ أَنَّهُ (ﷺ) أُعْطِيْ ثَلَاثَ آلَافِ مُعْجِزَةٍ يَعْنِيْ غَيْرَ الْقُرْآنِ فَإِنَّ فِيْهِ سِتِّيْنَ أَوْ سَبْعِيْنَ أَلْفَ مُعْجِزَةٍ تَقْرِيْبًا‘‘

’’بعض علماء نے کہا ہے کہ ہمارے نبی پاک (ﷺ) کے معجزات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا ، حصر ممکن نہیں ہے (یعنی ان کا شمار ممکن نہیں ہے)اور بعض کے کلام میں ہے کہ آپ (ﷺ) کو تین ہزار معجزات عطا فرمائے گئے یعنی (وہ بھی) قرآن پاک کے علاوہ -پس بے شک اس (قرآن مجید) میں تقریباً 60 یا 70 ہزار معجزات ہیں‘‘-

مزید فرماتے ہیں:

’’وَ لَمْ يَبْلُغْ أَحَدٌمِّنَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ كَثْرَةِ الْمُعْجِزَاتِ مَا بَلَغَهٗ نَبِيُّنَا (ﷺ)‘‘ [1]

’’اور انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے کسی نبی (علیہ السلام) کے معجزات کی کثر ت اس حد تک نہیں پہنچی جس حدتک ہمارے حضور نبی کریم (ﷺ) (کے معجزات مبارکہ کی کثرت)پہنچی ہے ‘‘-

یعنی حضور نبی کریم (ﷺ) کے معجزات 3000 یا 70000 تو ہمارا شمار ہے لیکن آپ (ﷺ)کے معجزات اتنے کثیر ہیں کہ ان کا شمار انسانی گنتی اور اعداد کے بس میں ہی نہیں ہے-

علمائے کرام نے معجزات النبی (ﷺ) کی چھ اقسام بیان کی ہیں:

1-     بعض وہ ہیں جو حضور نبی کریم (ﷺ) سے پہلے گزشتہ نبیوں اور امتوں نے دیکھے-

2-     بعض وہ ہیں جو ولادت پاک سے پہلے آپ (ﷺ) کی والدہ ماجدہ اور اہل عرب نے دیکھے -

3-     بعض وہ ہیں جو ولادت پاک کے وقت دیکھے گئے-

4-     بعض وہ ہیں جو بچپن شریف میں دیکھے گئے-

5-     بعض وہ ہیں جو ظہور نبوت کے بعد سے وفات پاک تک دیکھے گئے-

6-     بعض وہ ہیں جو بعد وفات سے قیامت تک دیکھے جائیں گے-

فرقہ ناجیہ (یعنی نجات والا گروہ) کی بحث جہاں بھی سلف صالحین نے کی ہے ، انہوں نے بڑی وضاحت سے یہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی گروہ معجزاتِ مصطفےٰ کریم (ﷺ) کا انکار کرتا ہے تو وہ نجات والے گروہ سے خارج ہے - مثلاً امام عبد القاہر ابو منصور البغدادیؒ  (المتوفى: 429ھ ) عقیدہ اشعریہ اور فقہۂ شافعیہ کے عظیم ترین علماء میں سے گزرے ہیں امام غزالی سے بھی پہلے گزرے ہیں ، ان کی ایک بہت ہی عظیم معرکۃ الآرا کتاب ہے ’’اَلْفَرَقُ بَيْنَ الْفِرَق‘‘، جس کا انگریزی ترجمہ بھی کافی معروف ہے (Moslem Schisms and Sects) کے نام سے- اس کتاب کی بنیاد انہوں نے تہتر فرقوں والی حدیث کو بنایا ہے کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا میری اُمت کے تہتر فرقے ہونگے جس میں سے ایک نجات والا ہو گا - امام ابو منصور البغدادی نے اِس میں فرقہ ناجیہ (نجات والے گروہ) پہ راہنمائی فراہم کی ہے کہ ناجی گروہ کی کیا علامات اور کیا نشانیاں ہونگی؟ اس کتاب میں آپؒ نے ایک فصل قائم کی جس فصل کا عنوان ہے:

’’الْفَصْل الثَّالِث من فُصُول هَذَا الْبَاب فِي بَيَان الاصول الَّتِى اجْتمعت عَلَيْهَا اهل السّنة‘‘

’’اس باب کی فصول میں سے تیسری فصل ان اصول کے بیان میں جن پر اہل سنت و الجماعت کا اجماع ہے‘‘-

یعنی اس فصل میں ان اصولو ں کا بیان ہےجس پر آئمہ اہل سنت و جماعت کےجتنے بھی طبقات ہیں مثلاً طحاویہ، ماتریدیہ، عشریہ، حنبلیہ، شافعیہ ان سب کا اُن صفات، شرائط اور ان ارکان پر اتفاق و اجماع ہے-

آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’قَدْ اِتَّفَقَ جُمْهُوْرُ اَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ عَلَى اُصُوْلٍ مِّنْ اَرْكَانِ الدِّيْنِ كُلُّ رُكْنٍ مِّنْهَا يَجِبُ عَلٰى كُلٍّ عَاقِلٍ بَالِغٍ مَعْرِفَةُ حَقِيْقَتِهٖ وَلِكُلِّ رُكْنٍ مِّنْهَا شُعُبٌ وَّفِيْ شُعُبِهَا مسَائِلٌ ‘‘

’’تحقیق جمہور اہلسنت و جماعت ارکانِ دین کے اس اصول پر متفق ہیں کہ ان ارکان ِ دین کے ہر رکن کی ہر عاقل بالغ پر اس کی حقیقت کی معرفت (کا حصول) واجب ہےاور اس میں سے ہر رکن کے کئی شعبہ جات ہیں اور ہر شعبے میں کئی مسائل ہیں ‘‘-

انہوں نےاس کے 15 ارکان نقل کیے ہیں اور اُن 15 میں سے آٹھواں رکن یہ ہے :

’’وَالرُّكْنُ الثَّامِنُ فِيْ مَعْرِفَةِ مُعْجِزَاتِ الْاَنْبِيَاءِ وَكَرَامَاتِ الْاَوْلِيَاءِ‘‘

’’آٹھواں رکن : انبیاء کرام علیہ السلام کے معجزات اور اولیاء کرام کی کرامات کی معرفت کے بارے میں ہے ‘‘-

یعنی ہر عاقل و بالغ جو اہل سنت و جماعت ہونے کا اعلان کرتا ہے یا اس جانب اپنی نسبت کو منسوب کرتا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہم السلام)کے معجزات اور اولیاء کرام کی کرامات کی معرفت حاصل کرے-

ان تمام ارکان کو لکھنے کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ:

’’فَهٰذِهٖ اُصُوْلٌ اِتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ عَلٰى قَوَاعِدِهَا وَ ضَلَّلُوْا مَنْ خَالَفَهُمْ وَّهُمْ يَجْمَعُوْنَ عَلَى اُصُوْلِهَا‘‘[2]

’’پس یہ اصول ہیں جن کے قواعد پہ اہل سنت متفق ہیں اور وہ گمراہ ہوئے جنہوں نے اس کے بارے میں ان کی مخالفت کی اور وہ سب (اہل السنۃ) اس کے اصول پہ جمع ہیں ‘‘-

اس لئے حضور نبی کریم(ﷺ) کےمعجزات شریفہ پر اعتقاد و ایمان رکھنا، ان کی معرفت حاصل کرنا، ان کے ذکر کی کثرت کرنا، اپنی اولاد کے سامنے حُبِ نبی میں کثرت و شدت اختیار کرنے، دلوں میں شان و عظمتِ مصطفےٰ (ﷺ) اجاگر کرنے، آپ (ﷺ) کا قرب و وصال حاصل کرنے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے فیضِ روحانی سے اس کے حصول کے لئے آپ (ﷺ) کےمعجزات کا بیان کرنا اور سننا اولیاء کرام،آئمہ اور صالحین کرامؒ کے نزدیک ایک مقبول ترین عمل ہے-

صحیح بخاری و مسلم، جامع ترمذی، مؤطا امام مالک حتی کہ کُل ذخیرۂ حدیث کا جائزہ لیں تو آپ کو محدثین کرام کا یہ طریق نظر آئے گاکہ کہیں معجزات النبی (ﷺ)، کہیں مناقب و فضائل اور کہیں حضور نبی کریم (ﷺ) کے شمائل کا تذکرہ ملے گا- کیونکہ محدثین کرام نے جہاں جہاں بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی سنت، سیرت اور حدیث کو جمع کیا ہےوہاں معجزات النبی (ﷺ) کو بیان بھی کیا ، شامل بھی کیا- اس لئے کہ اہل عالم پر یہ واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو کس شانِ امتیاز کے ساتھ اس زمین پر جلوہ گر فرمایا ہے کیونکہ آپ (ﷺ) کووہ کمالات و اوصاف عطا کئے جو نہ عام لوگوں میں کسی کو ملے، نہ اولیاء میں کسی کو ملےاور نہ انبیاء کرام(علیہم السلام) میں سے کسی نبی کو اس کثرت سے عطا ہوئے-اسی لئے اعلیٰ حضرتؒ فرماتے ہیں کہ:

خلق سے اولیاء، اولیاء سے رُسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

یہاں لٹریچر ریویو کے طور پہ چند مثالیں بیان کرنا چاہوں گا تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ شروع سے آج تک محدثین کرام اور سلف صالحینؒ کا یہی عقیدہ اور طریقہ رہا !!!

امام بخاریؒ نے ’’صحیح بخاری، کتاب المناقب‘‘ میں ’’بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِى الْإِسْلاَمِ‘‘ قائم کیا ہے جس کے تحت انہوں نے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے چار معجزات جمع فرمائے جبکہ صحیح بخاری شریف میں بکثرت معجزات ہیں جو عام طور پر بھی آپ کو مل جاتے ہیں لیکن اس باب میں بطور خاص امام بخاری نے چار معجزات بیان کیے-مثلاً

1)      آپ (ﷺ) کو حوض کوثر کا ملاحظہ فرمانا

2)      قیصر و کسرٰی کی فتوحات کا خبر دینا

3)      آپ (ﷺ) کی انگلیوں مبارک سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا

4)      ستون حنانہ کا واقعہ

1-امام مسلمؒ نے ’’مسلم شریف‘‘ میں ’’کتابُ الْفَضَائِل، بَابٌ فِی مُعْجِزَاتِ النَّبِيِّ (ﷺ)‘‘ کے عُنوان سے حضور نبی کریم (ﷺ) کےمعجزات پر ایک الگ باب قائم کیا ہے -

2- امام علی بن ابراہيم بن احمد الحلبی (المتوفى:1044ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’’السِيرةُ الحلبية‘‘ میں ’’مُعجِزاتُهٗ (ﷺ) ‘‘ کے نام سے باب قائم کیا ہے-

3-امام ابو الفضل زين الدين العراقیؒ (المتوفى: 806 ھ) کی کتاب ’’أَلْفِيَّةُ السِّيْرَةِ النَّبْوِيَّةِ‘‘ جو کہ سیرت النبی (ﷺ) پر ایک ہزار اشعار پر مشتمل ہے اس میں انہوں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے معجزات پر پورا ایک الگ باب قائم کیا-

4-امام حمد بن حسين بن علی بن الخطيب، ابو العباس القسنطينی، ابن قنفذؒ(المتوفى: 810ھ) نے ’’وَسِيلةُ الإِسلامِ بالنبيِّ عليه الصلاة و السلام‘‘ میں ’’مُعجِزاتُهٗ (ﷺ) ‘‘ سے متعلق فصل قائم کی ہے-

5-امام احمد بن علی بن عبد القادرتقی الدين المقريزی (المتوفى: 845ھ) نے ’’إمْتَاعُ الْأَسْمَاع ِ بِمَا لِلنَّبِی مِنَ الأحوالِ والأموالِ‘‘ میں ایک فصل: جَامِعٌ فِي مُعجزاتِ رَّسُوْلِ اللّه(ﷺ)‘‘ کے نام سے قائم کی ہے-

6-امام احمد بن محمد بن ابى بكر بن عبد الملك القسطلانی (المتوفى: 923ھ) جو کہ شارح بخاری ہیں انہوں نے ’’ اَلْمَوَاهِبُ الَّلَدُنْيَة‘‘ میں پہلی فصل ہی معجزات النبی (ﷺ) پر قائم کی-

7-امام محمد بن عمر بن مبارك الحضرمی الشافعی (المتوفى: 930ھ) نے ’’حَدائِقُ الْأَنْوَارِ وَمُطَالِعُ الأَسرارِ في سِيرَةِ النَّبِيِّ الْمُختارِ‘‘ میں ایک طویل اور جامع باب معجزات النبی (ﷺ) پر ’’الباب السّادس: فِی ذِكْرِ بَعْضِ مَا اشْتَهَرَ مِن مُّعْجِزَاتِهٖ، وَظَهَرَ منْ عَلَامَاتِ نَبُوَّتِهٖ فی حَيَاتِهٖ (ﷺ)‘‘ کے نام سے قائم کیا-

8-امام عبد الرحمن بن ابی بكر جلال الدين السيوطی (المتوفى: 911ھ) کی پوری کتاب ’’الخصائص الكبرى‘‘ حضور نبی کریم (ﷺ) کے معجزات اور اخلاق شریف کا بیان کرتی ہے-

9- عبد الرحمن بن احمد بن عبد الغفار ابو الفضل عضد الدين الإيجی (المتوفى: 756ھ) نے ’’كتاب المَواقِف‘‘ جو کہ علم الکلام کی کتاب ہے اس میں دو باب قائم فرمائے:

       I.            الْمَقْصد الثَّانِي فِي حَقِيقَة المعجزة

    II.            الْكَلَام فِي سَائِر المعجزات

10-ابو الحسن علی بن محمد بن محمد بن حبيب البصری البغدادی، الشہير بالماوردی (المتوفى: 450ھ) نے ’’أَعْلَامُ النَّبُوَّةِ‘‘ میں تین باب قائم کئےہیں:

       I.            البابُ الثَّامِنُ: في معجزاتِ عِصْمَتِهٖ (ﷺ)

    II.            البابُ التَّاسِعُ: فيما شُوْهِدَ مِن مُّعجزاتِ أفعالِه (ﷺ)

 III.            البابُ العَاشِرُ: فيما سَمِعَ من مُّعجزاتِ أقوالِه (ﷺ)

11-مجد الدين ابو السعادات المبارك ابن الاثير الشيبانی الجزری (المتوفى : 606ھ) نے ’’جامع الأصول فی أحاديث الرسول (ﷺ)‘‘ میں دو باب قائم کیے ہیں:

       I.            الباب الخامس: في معجزاته ودلائل نبوته (ﷺ)وفيه سبعة فصول

    II.            الفصل السابع: في معجزات متفرقة

12-علاء الدين علی بن حسام الدين ابن قاضی خان القادری الشاذلی الہندی البرهانفوری ثم المدنی فالمکی الشہير بالمتقی الہندی (المتوفى: 975ھ) نے ’’كنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال‘‘ میں’’الفصل الأول: فی معجزاته (ﷺ) کے نام سے فصل قائم کی ہے-

13-محمد فواد بن عبد الباقی بن صالح بن محمد (المتوفى: 1388ھ) نے ’’اللؤلؤ والمرجان فيما اتفق عليه الشيخان في معجزات النبيّ (ﷺ)‘‘ میں معجزات النبی (ﷺ)پر تفصیلاً بحث کی ہے-

14-شمس الدين ابو العون محمد بن احمد بن سالم السفارينی الحنبلی (المتوفى: 1188ھ) نے ’’لوامع الأنوار البهية و سواطع الأسرار الأثرية لشرح الدرة المضية في عقد الفرقة المرضية‘‘ میں دو فصلیں قائم کی ہیں:

       I.            فَصْلٌ في التَّنْبِيهِ عَلَى بَعْضِ مُعْجِزَاتِهِ (ﷺ)

    II.            معجزات النبي (ﷺ) كثيرة لا تنحصر

حتی کہ سینکڑوں کے اعتبار سے فہرست موجودہے جس میں محدثین کرام اورسیرت نگاروں نے جتنی بھی کتب لکھیں ان میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے معجزات شریفہ کا بیان کیا ہے-جس کا مقصد یہ ہے کہ امتی کے دل میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی عظمت و شان اور وہ امتیاز جو آپ (ﷺ) کو عام بشر سے ممتاز کرتا ہے ؛ وہ انسان کےدل میں راسخ ہوجائے کہ آقا کریم (ﷺ) کو نہ صرف انسانوں میں بلکہ کل مخلوقاتِ عالم میں ممتاز اور بےمثل و بے مثال پیدا فرمایا گیا ہے-

اگر آپ کو یاد ہو تو ہم تمہید کے پہلے حصے میں اس کو بیان کر چکے ہیں کہ ایک بنیادی اصول ہے انسانوں میں جن کی عقل قائم ہو وہ شعور، علم اور معلومات رکھتےہیں، کسی چیز کو جاننے یا پہنچاننے کے اہل ہوتے ہیں؛ شائد پرندوں اور جانوروں میں بھی بعض ایسے جانور ہیں جن میں ایسی صفات پیدا ہوجاتیں ہیں کہ جو کسی سے اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ وہ اس کو جانتے، پہچانتے اور معرفت رکھتے ہیں- لیکن نباتات و جمادات کے متعلق عمومی گمان یہ ہوتا ہے کہ ان میں شعور و علم نہیں کہ یہ کسی کی شناخت کر سکیں- لیکن احادیثِ صحیحہ ہمارے اس گمان کو غلط ثابت کرتی ہیں ، جن کے مطابق پتھروں کو بھی یہ احساسِ نصیب تھا کہ اُن کے قریب سے کون صاحبِ شفاعت و رحمت (ﷺ) گزرا ہے ؟

امام ترمذیؒ’’جامع ترمذی ‘‘ میں روایت کرتے ہیں کہ :

’’حضرت جابر بن سمرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ إِنَّ بِمَكَّةَ حَجَرًا كَانَ يُسَلِّمُ عَلَىَّ لَيَالِىَ بُعِثْتُ إِنِّىْ لَأَعْرِفُهُ الْآنَ ‘‘[3]

’’مکہ میں ایک پتھر ہے وہ مجھے ان راتوں میں سلام کیا کرتا تھا جب مجھے مبعوث کیا گیا-بے شک میں اسے اب بھی پہنچانتا ہوں‘‘-

یعنی میرا جب بھی وہاں سے گزر ہوتاوہ پتھر مجھے سلام کرتا -

اسی سے اگلی حدیث پاک ’’ابواب المناقب‘‘ میں رقم ہے جسے امیر المشارق و المغارب اسد اللہ غالب حضرت علی المرتضیٰ (کرم اللہ وجہہ الکریم)روایت کرتے ہیں کہ :

’’كُنْتُ مَعَ النَّبِىِّ (ﷺ) بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِىْ بَعْضِ نَوَاحِيْهَا فَمَا اِسْتَقْبَلَهٗ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلاَّ وَهُوَ يَقُوْلُ اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘[4]

’’میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا تو ہم مکہ کے کسی گوشہ میں تشریف لے گئےتو کوئی درخت اور کوئی پہاڑ ایسا نہ تھا جس نے آپ (ﷺ) کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘نہ کہا ہو‘‘-

قابل غور! بات یہ ہے کہ پتھرو درخت کے کان، آنکھیں، زبان نہیں ہیں -لیکن پہلی بات پتھر کو یہ ادراک و شعور ہے کہ میرے پاس سے کوئی گزرا ہے- دوسری بات اگر اس پتھر نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ پتھر میں ایک صلاحیت بصارت کی بھی ہے- تیسری بات اگراس پتھر نے کلام کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ پتھر کی کوئی اپنی ہیت تھی ، کوئی اس کی اپنی مخلوقات کی قسم و نوع کےمطابق پتھر کی بولنےکی زبان بھی ہے-

اب پتھر نےدیکھا، محسوس کیا، کلام کیا؛ لیکن سب سے اہم بات! کہ پتھر کو یہ معلوم ہے کہ جو ذات گرامی میرے پاس سے گزر رہی ہے یہ کوئی غیر و عام نہیں بلکہ یہ وہی ذات گرامی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نےنبوت کا اختتام فرما دیا ہے-

بنیادی اصول ہے کہ اگر میں آپ کو جانتا ہوں، آپ کےمتعلق میرے پاس معلومات ہوں-اسی طرح آپ مجھے جانتے ہیں،آپ کے پاس میرےمتعلق معلومات ہوں تو انسانوں کو انسان تبلیغ کرتے ہیں-انسانوں کی تبلیغ اور معلومات کےلئے کتب لکھی جاتی ہیں، وعظ کیے جاتے ہیں اور اس طرح کے ذرائع ہیں جن کے ذریعے انسان اشیاء کا علم رکھتے ہیں - لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پتھروں کی طرف کس نے علم بھیجا؟ وہ تو کتاب پڑھنے اور درس و تدریس کےعمل سے قاصر ہیں - اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ذریعہ ایسا ہے جس ذریعہ سے پتھر کے دل اور اس کی نوع میں یہ شعور پیدا کردیا گیا ہے کہ نبوت و رسالت بھی کوئی چیز ہے-

اب یہ کیسا علم ہے جس ذریعے سے پتھر کویہ علم ہو جاتا ہے کہ نبی پاس سے گزرے تو کہنا ہے’’ اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘-ذریعہ تلاش کروں تو کئی ذرائع سامنے آئیں گے؛اس لئے سب سے اہم اور قابل غور ذرائع کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا- وہ ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جبرائیل (علیہ السلام)کو حکم فرماتا ہے کہ اے جبرائیل! میں زمین پر فلاں بندے سے محبت کرتاہوں؛ اہل آسمان میں منادی کر دی جائے کہ اللہ فلاں سےمحبت کرتا ہے لہٰذا تم سب بھی اس محبت کرو-پھر جبرائیل (علیہ السلام)کو حکم ہوتا ہے کہ اے جبرائیل ! جائیے زمین کی طرف اور زمین میں یہ منادی کردی جائے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہذا تم سب بھی اس فلاں بندے سے محبت کرنےلگ جاؤ- اس طرح اس بندے کی محبت پہلے اہل آسمان اور پھر اہل زمین میں پیدا کردی جاتی ہے-

یہ حکم اس بندہ کے لئے ہے جو عبادت و ریاضت اور رغبتِ الی اللہ کے ذریعے اطاعتِ الٰہی میں پختہ ہوجاتا ہے-جب وہ اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس بندے سے پیار کرتا ہے کیونکہ وہ بندہ پہلے فرائض و نوافل ادا کرتا ہے، ذکر الٰہی کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ رب کے قریب ہوتا جاتا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے اور جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ اے جبرائیل اب جا اور زمین و آسمان میں منادی کردے کہ اس سے محبت کرو کیونکہ اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے-

اگر کسی عام آدمی کے متعلق محبت کو پیدا کرنا ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ قائدہ بیان کیا کہ جبرائیل کے ذریعے محبت کو پیدا کیا جاتا ہے- اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے متعلق فرمایا کہ ہم شہد کی مکھی کو بھی الہام کرتے ہیں- معلوم ہوا کہ حیوانات ، نباتات اور جمادات پیغام وصول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں گو کہ وہ نوعِ ادراک انسانوں کی نوعِ ادراک سے مختلف ہو سکتی ہے - جب جبریلِ امین و دیگر ملائک نے منادی کر دی کہ فلاں سے محبت کرو تو ہر شئے محبت کرنے لگتی ہے - رسول اللہ (ﷺ) سے محبت کی منادی، اعلام و اعلان کا طریقہ عام مؤمنین سے یقیناً مختلف بھی ہوگا اور زیادہ لطیف بھی - اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ درخت، پتھر، نباتات ہوں یا جمادات ان میں اللہ تعالیٰ نےفطری طور پر یہ شعور رکھ دیا ہے کہ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی معرفت و پہچان بھی رکھتے ہیں اور آپ (ﷺ)پر درود و سلام بھی پڑھتے ہیں-

قاضی عیاض مالکی اندلسیؒ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سےروایت کرتے ہیں کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جب جبرائیل (علیہ السلام) میری طرف رسالت کی وحی لائے تو اس وقت سے میں کسی بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتا ہوں تو وہ کہتا ہے:

’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘[5]

امام أبو بكر البيہقی (المتوفى: 458ھ) ’’دلائل النبوة‘‘ میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم (ﷺ)کی معیت میں ایک وادی میں داخل ہوا:

’’فَلَا يَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إِلَّا قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ وَأَنَا أَسْمَعُهٗ‘‘[6]

’’آپ (ﷺ) جس پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ عرض کرتا ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘اس حال میں کہ میں اس کو سن رہا ہوتا‘‘-

امام ترمذیؒ نے ’’سنن الترمذی، ابواب المناقب‘‘ میں ایک اور حدیث پاک نقل فرمائی ہے کہ:

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام میں گئے -حضرت ابو طالب اور دیگر شیوخ بھی ساتھ تھے- وہاں ایک عیسائی راہب تھا جوکبھی ان کی طرف توجہ نہیں کرتا تھا- لیکن اس دن وہ راہب آگے بڑھ آیا:

’’فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللهِ (ﷺ) قَالَ هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ‘‘

’’اور اس نے حضور نبی کریم (ﷺ) کا ہاتھ پکڑ لیا اور (اہل مکہ سےمخاطب ہوکر) کہا یہ عالمین کا سردار ہے یہ رب العالمین کا رسول ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا‘‘-

قریش کے مشائخ اس راہب کو کہنے لگےکہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ رسول اللہ (ﷺ)ہیں؟ تو اس نے کہا :

’’إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلاَ حَجَرٌ إِلاَّ خَرَّ سَاجِدًا وَلاَ يَسْجُدَانِ إِلاَّ لِنَبِىٍّ‘‘[7]

’’لوگو! جب تم اس گھاٹی سے اتر رہے تھے تو اس گھاٹی کے جتنے درخت اورپتھر تھے وہ اس ہستی کے سامنے سجدہ کر رہے تھے- کیونکہ درخت اور پتھر نبی کے بغیر کسی کو سجدہ نہیں کرتے‘‘-

قاضی عیاض مالکی اندلسیؒ ’’الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے(ﷺ)‘‘ میں حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ:

حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ :

’’لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ (ﷺ) يَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إلَّا سَجَدَ لَهٗ‘‘

’’آپ (ﷺ) جس پتھر اور درخت پر سے گزر فرماتے تو وہ آپ (ﷺ) کو سجدہ کرتا‘‘-

یعنی پتھر ہوں یا درخت، نباتات ہوں یا جمادات ان کو یہ شعور عطا ہواہے کہ وہ نبی کو جانتے اورپہنچانتے ہیں-

اُحد پہاڑ کے متعلق سب جانتے ہیں لیکن کسی نے آج تک اس کے کان،اس کی آنکھیں، زبان، اس کا دل، اس کی رگوں سے بہتا ہوا خون نہیں دیکھا-یعنی وہ تمام چیزیں جسے انسانی احساس پہ منطبق کر کے سمجھا جاتا ہےکہ محبت ایک ایسا جذبۂ غیر مرئی ہے جس کیلئے دل و دماغ اور شعور کا ہونا ضروری ہے –انسانی اعضا کی مثل چیزیں کسی نے بھی احد پہاڑ میں نہ دیکھیں نہ سنیں- لیکن حدیث پاک میں ہے جسے امام بخاری (رضی اللہ عنہ) نے حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا:

’’أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ (ﷺ) طَلَعَ لَهٗ أُحُدٌ فَقَالَ هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ اَللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيْمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَإِنِّيْ أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا‘‘[8]

’’رسول اللہ (ﷺ) کو اُحد پہاڑ نظر آیا(یعنی جب آپ (ﷺ) احد پہاڑ پر تشریف لے گئے)تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں - (پھر آپ (ﷺ) نے بارگاہِ الہی میں دعا مانگی) اے اللہ عزوجل!بے شک حضرت ابراہیم (علیہ السلام)نے مکہ کو حرم بنایاتھا اورمَیں دو وادیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں (یعنی مدینہ منورہ کو)-

شرائطِ محبت کے لئے تو علم لازم ہے تو پہاڑ کو حضور (ﷺ) سے محبت کرنے کا علم کس نے دیا؟ پس ثابت ہوا کہ بندہ جانے یا نہ جانے لیکن پتھر یہ سمجھتا اور جانتا ہے کہ یہ نبی آخر الزماں (ﷺ) ہیں-کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کل موجودات اور مخلوقات کو یہ علم عطا کیا ہے کہ سرکارِ انبیاء (ﷺ)خاتم النبیین ہیں-

قابل غور بات یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ یہ پتھر ہم سےمحبت کرتا ہے ہم اس پتھر سے محبت کرتے ہیں- اگر ایک پتھر کو مصطفےٰ کریم(ﷺ) سے محبت ہو جائے تو اس پتھر کو بھی صلہ میں آقا کریم (ﷺ) کی محبت نصیب ہوتی ہے؛تو خدا کے بندو!یہ کیسےممکن ہے کہ اگر امتی اپنے نبی سے محبت کرے تو سرکارِ دو عالم (ﷺ) اپنے امتی سے محبت نہ فرمائیں؟؟؟ بلکہ آپ (ﷺ) تو بطریق اولیٰ اپنے امتی سے محبت فرمائیں گے-اس لئے کئی اعمال ایسے ہیں جن کی جزا بروزِ حشر ملے گی، لیکن محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) ایسا عمل ہے جس کا صلہ اس دنیا میں نصیب ہوتا ہے-

امام بخاریؒ نے ’’صحیح بخاری،كتاب فضائل الصحابۃ (رضی اللہ عنھم)‘‘ میں اُحد پہاڑ کے متعلق ایک دوسری حدیث پاک روایت فرمائی ہے :

’’حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنھم) نے انہیں بتایا کہ : ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) احد پہاڑ پہ تشریف لے گئے ،

وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ

اور آپ (ﷺ) کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمرفاروق اورحضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنھم)تھے

فَرَجَفَ                        ’’تو احد پہاڑ کانپنے لگا ‘‘

 حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

اُسْكُنْ أُحُدُ ’’اے اُحد! ٹھہر جا ‘‘

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) فرماتے کہ میرا گمان ہے کہ آپ (ﷺ)نے اپنا قدم مبارک بھی اس پر مارا-

پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَصِدِّيْقٌ وَشَهِيْدَانِ ‘‘ [9]

’’تیرے اوپر ایک نبی (ﷺ)،ایک صدیق اوردو شہید ہیں ‘‘-

اس حدیث پاک میں دو نکات قابل غور ہیں:

  1. حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت عمر اور حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کی خبردے دی، اپنے لئے نبی کہا اور حضرت ابو بکر(رضی اللہ عنہ) کے لئےصدیق فرمایا-
  2. اُحد پہاڑ پر بھی اللہ تعالیٰ نے حبیب مکرم (ﷺ) کی اطاعت کو لازم کر دیا ہے-

امام ترمذیؒ نے ’’ ابواب المناقب‘‘ میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں:

’’حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ:

’’ بِمَ أَعْرِفُ أَنَّكَ نَبِيٌّ ‘‘

’’ مجھے کیسے معلوم ہو کہ آپ (ﷺ) نبی ہیں ؟

آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاؤں تو وہ گواہی دے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں پھر آپ (ﷺ) نے اس گچھے کو بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاس آگِرا-پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا’’واپس ہو جاؤ‘‘ تو وہ گچھا درخت پہ واپس ہو گیا تو اس اعرابی نے کہا ’’لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ‘‘ اور اسلام قبول کرلیا-

امام الماوردیؒ نے ’’أعلام النبوة ‘‘ میں، قاضی عیاض مالکیؒ نے ’’الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ (ﷺ)‘‘ میں اور ملا علی قاری نے ’’شرح الشفا‘‘ میں اسی روایت کو بالفاظ دیگر نقل کیا ہے :

حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نے نبی کریم (ﷺ) سے (نبوت کی) کوئی نشانی مانگی آپ (ﷺ) نے فرمایا ’’وہ سامنےکے درخت سے کہو کہ تجھ کو رسول اللہ (ﷺ) بلاتے ہیں‘‘ - وہ گیا اور پیغام دیا تو راوی کہتے ہیں کہ وہ درخت اپنے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہلا اور اُس کی جڑیں ٹوٹیں پھر زمین چیرتا ہوا شاخوں کو گھسیٹتا ہوا حاضر خدمت ہوا ،

حَتَّى وَقَفَتْ بَيْنَ يَدَيْ رَسُوْل اللهِ (ﷺ) فَقَالَت

یہاں تک کہ رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے کھڑے ہو کرعرض کیا:

’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘-

پھر اس اعرابی نے کہا ’’اس کو حکم دیجیے کہ وہ اپنی جگہ واپس چلا جائے‘‘ - پس وہ واپس ہوا اور اس کی جڑیں زمین میں داخل ہوگئیں اور وہ سیدھا کھڑا ہوگیا-

فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ ائْذَنْ لِيْ أَسْجُدْ لَكَ قَالَ لَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا

پس اعرابی نے عرض کی (یارسول اللہ (ﷺ) مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں آپ (ﷺ) کو سجدہ کروں-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اگر میں کسی کو بھی حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرےتو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے-

قَالَ فَأَذِنْ لِيْ أَنْ أُقَبِّلَ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ فَأذِنَ لَهٗ

اعرابی نےعرض کی (یا رسول اللہ (ﷺ) مجھے اجازت دیجیئےتاکہ میں آپ (ﷺ) کے دستِ اقدس اور قدم مبارک کو بوسہ دوں تو اس کو اجازت دے دی گئی‘‘-

اس حدیث پاک کے آخر سے سامنے آنے والے حصے سے ایک وضاحت عرض کرتا چلوں کہ دو چیزیں یہاں خود بخود واضح ہوگئیں کہ پاؤں چومنا سجدے کےزمرے میں نہیں آتا اگر آتا ہوتا تو جس طرح آقا کریم (ﷺ)نے سجدہ سے منع کر دیا تھا پاؤں چومنے سےبھی منع فرما دیتے-

امام ابو داؤدؒ حضرت عبدالرحمٰن بن ابولیلیٰ سے روایت کرتے ہیں:

’’حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا؛ ہم حضورنبی کریم (ﷺ) کے نزدیک ہوئے

’’فَقَبَّلْنَا يَدَهُ‘‘[10]

’’آپ (ﷺ) کے دستِ اقدس کو بوسہ دیا‘‘-

امام ابو داؤدؒ نے ’’سُنن أبى داود، کتاب الأدب‘‘ میں، امام بیہقیؒ بنے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں، امام طبرانیؒ نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اور دیگر کئی محدثین کرام نے اس حدیث پاک کو روایت کیا کہ:

’’حضرت ام ابان بنت وازع بن زارع (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دادا جان حضرت زارع (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے جو عبد القیس کے وفد میں شامل تھے، انہوں نے فرمایا کہ جب ہم مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے

فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا فَنُقَبِّلُ يَدَ النَّبِىِّ (ﷺ) وَرِجْلَهٗ

تو تیزی سے اپنی سواریوں سے اتر کر رسول اللہ (ﷺ) کےدستِ اقدس اور آپ (ﷺ)کے پاؤں مبارک کو بوسہ دینے لگے-

یاد رکھیں، سجدہ اور قدم بوسی میں فرق ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے سجدہ سے منع کیا مگر قدم چومنےکی اجازت عطا فرمائی- آج بھی اہل عرب مثلاً سعودیہ ، امارات، لبنان، شام، مصر اور افریقی عرب ممالک میں عام رواج ہے کہ وہ اپنے والدین و شیوخ کے ہاتھ اور قدم چومتے ہیں- یہ ضمناً موضوع آ گیا اس لئے اس پہ وضاحت دینا ضروری سمجھی ، کیونکہ بعض گمراہ کن گروہ قدم چومنے اور سجدہ کو یکساں گردانتے ہوئے اہلِ حق کی تکفیر کرتے ہیں -

آمدم بر سرِ مطلب!

گو کہ نباتات و جمادات کا سرکار علیہ السلام سے محبت کرنا اور احکامِ مصطفےٰ(ﷺ) کی اطاعت ایسا موضوع ہے جس کا کوئی اختتام نہیں-کیونکہ جس طرح سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے معجزات کی کثرت کی حد نہیں اسی طرح آپ (ﷺ)کے معجزات کے بیان کی کیا حد ہوسکتی ہے- لیکن تبرک و برکت کے لئے چند مشہور معجزات بیان کرنے کی سعادت حاصل کروں گا:

ابو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّی البغدادی (المتوفى: 360ھ) ’’الشريعة‘‘ میں، ابو نعيم الأصبہانی (المتوفى: 430ھ)   ’’دلائل النبوة‘‘ میں اور جلال الدين السيوطی (المتوفى: 911ھ) ’’الخصائص الكبرىٰ‘‘ میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ:

’’حضرت ابو أُسَيْد السَّاعِدِی عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ سے روایت ہے: فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کل صبح تم اور تمہارے فرزند اپنے گھر سے کہیں نہ جائیں جب تک کہ میں تم لوگوں کےپاس نہ آجاؤں کیونکہ مجھے تم سے ایک کام ہے پس حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) نے اپنے تمام اہل خانہ کو گھر میں جمع کرلیا تو حضور نبی کریم (ﷺ) ان کے ہاں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:

اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ !كَيْفَ أَصْبَحْتُمْ؟

 اسلام علیکم ! تم نے کیسے صبح کی؟

 تو انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ) ہمارے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں پس رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ تم سب قریب آجاؤ ، تم سب قریب آجاؤ-

 پس وہ سب جمع ہوئےتو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ان سب پر اپنی چادر شریف ڈالی اور آپ (ﷺ) نے دعا فرمائی کہ:

اَللَّهُمَّ هَذَا الْعَبَّاسُ عَمِّي وَهَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِيْ فَاسْتُرْهُمْ مِنَ النَّارِ كَسَتْرِيْ إِيَّاهُمْ بِمُلَاءَتِيْ هٰذِهٖ

اے رب! یہ عباس میرے چچا ہیں اور یہ ان کے گھر والے ہیں ان سب کو آگ سے اس طرح چھپالے جس طر ح میں نے ان سب کو اپنی اس چادر سے ڈھانپ دیا ہے-

فَأَمَّنَتْ أُسْكُفَّةُ الْبَابِ وَحَوَائِطُ الْبَيْتِ آمِيْنَ آمِيْنَ آمِيْنَ ثَلَاثًا

تو دروازے کی چھوکھٹ اور گھر کے در و دیوار سے آمین !آمین ! آمین! کی تین مرتبہ آوازیں آئیں-

امام ابو نعیم نے حضرت عباد بن عبد الصمد سے روایت کی ہے:

’’انہوں نے کہا ہم حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا اے کنیز! دستر خوان لگاؤ تاکہ ہم کھانا کھا ئیں-تو وہ دستر خوان لائی پھر آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ رومال لاؤ تو وہ رومال لائی جو میلا تھا آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ تنور گرم کرو تو اس نے تنور گرم کیا اور حکم دیا کہ رومال کو تنور میں ڈال دو رومال تنور میں ڈال دیا گیا جب رومال کو تنور سے نکالا گیا تو وہ دودھ کی مانند سفید تھا ہم نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ تنور نے کپڑے کو نہیں جلایا بلکہ اسے خوب صاف کردیا-انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (ﷺ) اس رومال سے اپنا چہرۂ انور اور دستِ اقدس خشک فرمایا کرتے تھے تو جب یہ میلا ہوجاتا ہے ہم اس کو ایسا ہی کرتے ہیں کیونکہ آگ اس چیز کو نقصان نہیں پہنچاتی جو انبیاء(علیھم السلام) کے چہروں سے مس ہوجاتی ہے‘‘-[11]

حضرت عمر و بن مامون (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ مشرکین نے عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) کو آگ میں جلانا چاہا تو رسول اللہ (ﷺ) ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سرپہ اپنا دستِ اقدس پھیرا اور ارشاد فرمایا:

’’یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّ سَلَامًا عَلیَ عَمَّارٍ کَمَا کُنْتَ عَلَی اِبْرَاہِیْمَ‘‘

’’اے آگ تو عمار پر ایسی سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو جا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہوئی تھی‘‘-

پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اے عمار تجھ کو باغی گروہ شہید کرے گا‘‘-[12]

امام بخاریؒ ’’صحیح البخاری، کتاب التفسیر‘‘ میں حدیث پاک نقل کرتے ہیں:

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

’’اِنْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) فِرْقَتَيْنِ فِرْقَةً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَةً دُوْنَهٗ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّهِ (ﷺ)اِشْهَدُوْا‘‘

’’رسول اللہ (ﷺ) کے عہد مبارک میں چاند دو ٹکڑے ہو گیا چنانچہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا اور دوسرا پہاڑ کے پیچھے؛تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ (اس پر) گواہ رہنا‘‘- 

حافظ ابن کثیر اسی حدیث مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے ’’السيرة النبویہ (ﷺ)‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’وَقَدْ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَى وُقُوْعِ ذَلِكَ فِيْ زَمَنِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ السَّلَامُ وَ جَاءَتْ بِذَلِكَ الْأَحَادِيْثُ الْمُتَوَاتِرَةُ مَنْ طُرُقٍ مُتَعَدِّدَةٍ تُفِيْدُ الْقَطْعَ عِنْدَ مَنْ أَحَاطَ بِهَا وَنَظَرَ فِيْهَا‘‘

’’تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے زمانہ اقدس میں شق القمر ہوا ہے اس کے ثبوت میں کئی طرق سےاحادیث متواترہ منقول ہیں جو قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں ہر اس شخص کو جو ان کا احاطہ کرے اور ان میں غور و فکر کرے‘‘-

ابو زكريا محی الدين يحیٰ بن شرف النووی (المتوفى: 676ھ) ’’المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

قَالَ الْقَاضِيْ اِنْشِقَاقُ الْقَمَرِ مِنْ أُمَّهَاتِ مُعْجِزَاتِ نَبِيِّنَا (ﷺ) وَقَدْ رَوَاهَا عِدَّةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ مَعَ ظَاهِرِ الْآيَةِ الْكَرِيْمَةِ وَسِيَاقِهَا

’’قاضی عیاضؒ نے فرمایا ہے کہ چاند کا شق ہونا ہمارے نبی مکرم (ﷺ) کے نہایت عظیم معجزات میں ہے-اس معجزہ کو بہت سے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے بیان کیا ہے-اس کے ساتھ آیت کریمہ کا ظاہر اور اس کا سیاق بھی (اس بات پر دلالت کرتا ہے)‘‘ -

اس کے بعد امام نَوَوِی رحمہ اللہ نے حضرت زجاج کا بہت ہی معنیٰ خیز قول نقل فرمایا ہے :

قَالَ الزَّجَّاجُ وَقَدْ أَنْكَرَهَا بَعْضُ الْمُبْتَدِعَةِ الْمُضَاهِيْنَ الْمُخَالِفِي الْمِلَّةِ وَذَلِكَ لَمَّا أَعْمَى اللهُ قَلْبَهٗ وَلَا إِنْكَارَ لِلْعَقْلِ فِيْهَالِأَنَّ الْقَمَرَ مَخْلُوْقٌ لِلهِ تَعَالَى يَفْعَلُ فِيْهِ مَا يَشَاءُ كَمَا يُفْنِيْهٖ

حضرت زجاج نے فرمایا کہ بعض بدعتی سرکش اور ملت کے مخالفین نےاس (معجزۂ شق القمر) کا انکار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل کو (نورِ بصیرت سے) اندھا کردے حالانکہ عقلی طور پر اس میں انکار کی گنجائش نہیں ہےکیونکہ چاند اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جوچاہتا ہے تصرف فرماتا ہے- جیسا کہ اسے فنا فرما دے گا‘‘-

اِس قول سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ معجزاتِ رسول (ﷺ) پہ یقین رکھنا عین ایمان ہے ، جبکہ اُن کا انکار کرنا سرکشوں اور بد عتیوں کی نشانی ہے جن کے دل اندھے ہو چکے ہیں - لہٰذا جسے بھی معجزاتِ مصطفےٰ (ﷺ) کا انکار کرتے دیکھیں سمجھ جائیں وہ بد عتی ، سر کش اور مُخالفِ مِلت ہے -

قاضی القضاۃ علامہ بدر الدین العینی الحنفی المصریؒ لکھتے ہیں:

’’چاند کا شق بہت عظیم معجزہ تھا یہ معجزات کی عادت سے خارج تھا علامہ خطابی نے کہا ہے کہ چاند کا شق ہونا بہت عظیم معجزہ تھا انبیاء کرام (علیھم السلام) میں سے کوئی معجزہ اس کے برابر نہیں ہے کیونکہ یہ معجزہ اس عالم طبعی سے خارج میں واقعہ ہوا ہے اور کسی شخص کی قدرت میں یہ نہیں ہےکہ وہ اس معجزہ کی نظیر لاسکیں لہذا اس معجزہ کے ساتھ نبوت کو ثابت کرنا بہت واضح ہے‘‘-[13]

مزید فرماتے ہیں کہ:

’’بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر معجزہ شق القمر کا وقوع ہوا ہوتا ، تو ، تمام روئے زمین کے لوگوں سے یہ واقعہ منقول ہوتا اس کا جواب یہ ہے کہ تمام روئے زمین کے لوگوں کے لئے چاند ایک حد پر واقع نہیں ہے کیونکہ چاند ایک قوم سے پہلے دوسری قوم پر طلوع ہوتا ہے اور کھبی وہ زمین کے اطراف میں سے دوسری زمین کی ضد پر واقع ہوتا ہے اور کبھی ایک قوم اور چاند کے درمیان بادل حائل ہوجاتا ہے یا پہاڑ حائل ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی ملک میں چاند گرہن ہوتا ہے اور دوسرے ملک میں نہیں کسی ملک میں جزوی گرہن لگتا ہے اور دوسرے ملک میں کلی گرہن لگتا ہے‘‘-[14]

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ:

’’ قاضی عیاضؒ نے فرمایا ہے کہ:یہ واقعہ منیٰ میں ہوا تھا حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ جس وقت چاند شق ہوا ہم اس وقت حضور نبی کریم (ﷺ) کے ہمراہ تھے حضرت حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے‘‘-[15]

اب آئیں میرے نبی کے ایک انوکھے عاشق کے عشق کی لازوال داستان کی جانب ، جس کی یاددل پگھلا دیتی ہے -

امام ابن ماجہ، امام ابن حنبل، امام ابن حبان، امام دارمی، ابن ابی یعلی الموصلی، امام بیہقی اور دیگر کئی محدثین کرامؒ نے اس حدیث پاک کو روایت کیا ہے کہ مسجد نبوی میں لکڑی کا ایک ستون تھاجس کےساتھ ٹیک لگا کر آقا کریم (ﷺ) خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے آپ (ﷺ) کے لئے ایک نیا منبر تیار کروایا؛ جب منبر تیار ہوگیا تو وہ ستون اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا- آقا کریم (ﷺ) اس سوکھی لکڑی اور بظاہر دکھنے میں ’’کھوکھلے تنے‘‘ سے ٹیک لگانے کی بجائے منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے- اب آپ کے اور میرے نزدیک کھوکھلے تنے کی کیا حیثیت ہے؟اس میں بولنے اور سمجھنے کی کیا صلاحیت ہوگی ؟ لیکن محدثین کرام لکھتے ہیں کہ جیسے سرکارِ دو عالم (ﷺ) نے اس ستون کو ترک کرکے منبر پر تشریف لائے تو اس ستون سے آقا (ﷺ) کا ہجر برداشت نہ ہوا، اور وہ یوں رونے لگ گیا جس طریقے سے اونٹنی کا بچہ روتا ہے- سرکار دو عالم (ﷺ) کی پوری مجلس نے اس کو روتے ہوئے سنا-بعض صحابہ کہتے ہیں کہ اس کی آواز یوں تھی جیسے بیل روتا ہے، بعض صحابہ کہتے تھے کہ اس کی آواز اونٹی کے بچے کے رونے کی طرح تھی-آقا کریم (ﷺ) ستون کے پاس تشریف لے گئے اور آپ (ﷺ) نے اس پر اپنا مبارک و متبرک ہاتھ پھیرا تو ستون اپنے آقا کے ہاتھ کا لَمس پا کر خاموش ہوگیا-

امام ترمذی کے الفاظ ہیں :

’’فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ فَنَزَلَ النَّبِيُّ (ﷺ) فَمَسَهٗ فَسَكَنَ‘‘

’’وہ کھجور کا تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اونٹنی (اپنے بچے کے پیچھے) روتی ہے-پس حضور نبی کریم(ﷺ) منبر شریف سے نیچے تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا‘‘-

ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

« لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»[16]

’’اگر مَیں اُس کو گلے سے نہ لگاتا تو وہ قیامت تک روتا رہتا‘‘-

حضور کے ہاتھ اور سینہ مبارک کی برکت نے اس ستون کے ہجر کو صبر و قرار بخشا اور آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اب اس ستون کو دفن کردو - اس ستون کو دفن کردیا گیا-

ہم انسانوں کے نزدیک تو وہ ایک سوکھی لکڑی، کھوکھلا تنا ہے؛ مگر اسے بھی یہ شعور ہے کہ میرے ساتھ کس کا جسد اقدس مس ہوتا تھا، کس کے لمس کی چاشنی و لذت میرے وجود میں اترا کرتی تھی- اب چونکہ لمسِ وجودِ مبارک (ﷺ) اسے نصیب نہیں ہے تو وہ ایک طرف پڑا آہ و زاری کر رہاہے-

امام ابن حبانؒ نے’’صحيح ابن حبان‘‘ میں، امام ابو یعلی الموصلیؒ نے ’’مسند أبی يعلى‘‘ میں نقل فرمایا ہے کہ:

فَكَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيْثِ بَكَى ثُمَّ قَالَ: يَا عَبَّادَ اللّهِ الْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلَى رَسُوْلِ اللّهِ (ﷺ) شَوْقًا إِلَيْهِ لِمَكَانِهٖ مِنَ اللهِ، فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوْا إِلَى لِقَائِهٖ

’’پس حضرت حسن بصریؒ ا س حدیث پاک کو بیان کرتے ہوئے رو پڑتے اور فرماتے:اے اللہ کے بندوں! لکڑی تو رسول اللہ (ﷺ) کے اس اشتیاق میں جو آپ (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مقام و مرتبہ حاصل تھااس کی آرزو مند تھی اور اب تم اس سے زیادہ حق رکھتے ہو کہ آپ (ﷺ) کے لقاء کا شوق کرو‘‘-

یعنی اے لوگو! کیا تم سوکھے تنے ہو؟ اگر تم سوکھے تنے بھی ہوتے تو تم پر پھر بھی یہ لازم تھا کہ تم حضور نبی کریم (ﷺ) کا اشتیاق رکھتے کیونکہ سوکھا تنا بھی حضور (ﷺ) کی ذات کا ادراک رکھتا ہے-اے لوگو! کیا تمہارے اندر اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کے ہجر وفراق میں اور شوقِ ملاقات میں تمہاری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں-اپنے آقا کریم (ﷺ) سے محبت کے لئے تم تڑپتے رہو-جب بندہ یہ باتیں دیکھتا ہے تو یقین کریں کہ ستون کے تنوں سے بھی محبت ہوجاتی ہے کیونکہ وہ سرکار دو عالم (ﷺ)سے محبت کرتا تھا- خوش بخت ، خوش نصیب اور سعادتمند ہے وہ سینہ جس میں شوقِ لقائے مصطفےٰ (ﷺ) ہے - لیکن جس بشر کا سینہ عشق و محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے خالی ہو،آپ (ﷺ) کےہجرو فراق اور زیارت کی تمنا میں نہ تڑپتا ہواس سے وہ تنا بہتر ہے-بقول حضرت سلطان باھوؒ:

اُس دل تھیں سَنگ پَتھر چنگے جو دِل غَفلت اَٹی ھو

اَرے! اس دل سے پتھر اچھے ہیں جس دل پر غفلت کے پردے پڑے ہوں-

میرے بھائیو اور بزرگو! سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذات گرامی قبلۂ ایمان ومحبت ہے، جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ کے جسد کا قبلہ مسجد حرام ہے اور مومن کے ایمان اور محبت کا قبلہ گنبد خضریٰ ہے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذات گرامی ہے-اس لئے مسلمان ہر ایک بات پر سمجھوتہ کر سکتاہے مگر محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا-

ہمارے آباؤ اجداد صوفیاء کرام سے کس لئے انس و محبت رکھتے تھے؟ اس لئے کہ ان کی تربیت اور صحبت سے حضور نبی کریم (ﷺ) کے مقام، عظمت و جلالت کی معرفت پیدا ہوتی تھی کیونکہ یہ ایمان کا جز اولین ہے-بقول اقبال:

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
 

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العافین یہی دعوت و پیغام لے کر آپ کے پاس آتی ہے کہ آئیں اپنے سینوں کو عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے منور کرلیں، دل میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی محبت کا چراغ روشن کر لیں، یہ چراغ تمہاری قبر کو بھی روشن کر دےگا کیونکہ قبر اندھیری اور کالی ہے-حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ:

قَبراں دے وچ اَن ناں پانی اُتھے خرچ لوڑِیندا گھَردا ھو
اِک وچھوڑا مَا پِیو بھَائیاں دُوجا عذاب قَبر دا ھو

یعنی وہاں کوئی روشنی نہیں، کوئی بلب ، دیا اور چراغ نہیں ؛اجالا ان کی قبروں میں ہوگا جن کے دلوں میں حضور نبی کریم (ﷺ) کا عشق ہوگا- اس لئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادریؒ نے فرمایا:

لحد میں عشقِ رخ ِ شاہ کا داغ لے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے چلے

دل میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی کے حسن و جمال کا چراغ روشن کر لیا ہے کیونکہ سنا تھا کہ قبر اندھیری ہوگی اس لئے ہماری قبر میں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے اجالا ہو جائے - مسلمانو! ہمارے سیاسی، سماجی، تہذیبی، تمدنی، معاشرتی، مذہبی و دینی مسائل ہوں، حق و باطل کے معرکوں کا مسئلہ ہو، مسلمان قوم اگرفتح یاب ہوسکتی ہے تو صرف و صرف عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے ہوسکتی ہے-عشق و محبت ، معرفت و عظمتِ مصطفےٰ (ﷺ) اور حضور (ﷺ) کی اس شان کے اعتراف کے بغیر جو اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو عطا کی؛مسلمانوں کی کشتی کا کوئی نگہبان نہیں ہے جو اس کو بچا سکے-

دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور ہوا
سَر ہے وہ سَر جو تِری راہ میں قُربان گیا

 

آج لے اُن کی پناہ، آج، مدد مانگ اُن سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
 

٭٭٭


[1](لَوَامِعُ الْأَنْوَارِ الْبَهِيَّةِ وَسَوَاطِعُ الْأَسْرَارِ الْأَثْرِيَّةِ)

[2](اَلْفَرَقُ بَيْنَ الْفِرَق)

[3](سُنن الترمذى ، ابواب المناقب)

[4](ایضاً)

[5](الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے(ﷺ)

[6]( دلائل النبوة)

[7]( سنن الترمذی، ابواب المناقب)

[8]( صحیح بخاری ،کتاب الانبیاء (علیھم السلام)

[9](صحیح بخاری ،كتاب فضائل الصحابۃ(رضی اللہ عنھم)

[10] ( سنن اب داؤد، کتاب الادب)

[11](خصائص الکبری، ج:2، ص:133)

[12](ایضاً)

[13](عمدۃ القاری، ج:16، ص:224)

[14](ایضاً، ص:225)

[15](ایضاً، ص:226)

[16](سنن ابن ماجہ، کتاب إقامة الصلاة والسنة)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر