آج بنیادی طور پہ ہم ایک رواج کا ذکر کریں گے-کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ قبائل اور برادریوں کے اپنے اپنے رواج ہوتے ہیں اور قبائل اور برادریوں کے افراد ان رواجوں کے پابند ہوتے ہیں-اسی طرح جب ہم صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم)کو ایک برادری اور قبیلے کے طور پہ دیکھتے ہیں تو ان کے ہاں ایک رواج تھا؛ اور ان کے ہاں وہ رواج اتنا قوی و مضبوط تھا کہ اس رواج کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے ہاں ایک ادارے کی حیثیت حاصل تھی-یعنی جو شخص اس رواج میں جتنا زیادہ ماہر اور کامل ہوتا، اتنا ہی زیادہ ممتاز اور منفرد سمجھا جاتا تھا-
صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنھم) کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اُس رواج کوایک ایسا ذریعہ سمجھتے تھے جس سے اولاد، اہل خانہ اور اپنی آئندہ نسل میں محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) کو فروغ دے سکتے ہیں-
آج اگر ہم یہ چاہیں کہ ہمارے اہل و عیال کے سینے بھی عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) سے منور ہوں، ان کے دل و دماغ بھی عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کے متلاشی ہوں، اُن کا مشامِ جام بھی محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے معطر ہو، اُن کی زبانیں بھی ذکرِ مصطفےٰ (ﷺ) سے لبریز و پاکیزہ رہیں اور ان کی زندگیاں بھی محبتِ رسول(ﷺ) کیلئے وقف ہو جائیں تو ہمیں بھی صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم) کے اُسی رواج کو اختیار کرنا چاہیے-ہم میں اس قدر سکت کہاں کہ ہم اس رواج کا احیاء کر سکیں ہمارے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ اس رواج سے ہم خود زندہ ہو جائیں-لیکن میرے نزدیک بالخصوص تربیتِ اولاد اور ان کے دلوں میں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کا جذبہ اجاگر کرنے کیلئے اس سے زیادہ بہتر اور مناسب شائد کوئی طریق نہ ملے-
اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہوئے تمہیدی گزارش بیان کرنا چاہوں گا کہ اپنی ادلاد کے متعلق اپنے آپ کو لاعلمی کا شکار نہ کریں- ایک چیز ہے جسے ’’تجاہل عارفانہ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی جانتے بوجھتے ہوئے بھی لا علمی برتنا بالفاظِ دیگر کسی شئے یا واقعہ کو یا اس کے متعلق آپ جانتے،بوجھتے اور سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے متعلق زبان یا باڈی لیگویج سے ایسا تاثر دینا کہ آپ کو اس بارے کچھ معلوم نہیں- اس کو تجاہلِ عارفانہ کہا جاتا ہے اور اس کے اوپر از روئے کتاب وسنت بندے سے پرسش ہوگی کہ ہم نے تمہیں جن کا ذمہ دار بنایا تھا تم ان کے ذمہ کو کیسا نبھایا؟ اس ذمہ داری سے کیسا سلوک کیا- حدیث نبوی (ﷺ):
’’حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ اَلْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِىْ أَهْلِهٖ وَهْوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِىْ بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُوْلَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَاوَالْخَادِمُ رَاعٍ فِىْ مَالِ سَيِّدِهٖ وَمَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِىْ مَالِ أَبِيْهِ وَمَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ‘‘[1]
’’تم میں سے ہر ایک نگران ہےاور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا-امام نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گااور آدمی اپنے گھربار کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھ ہوگی اور خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور راوی فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ (ﷺ) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آدمی اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا‘‘-
یعنی جو مرد اپنے اہلِ خانہ کا امیر ہوتا ہے اس سے پُرسش کی جائے گی کہ اس نے اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کی تربیت کیسی کی تھی- قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی:
’’یٰٓـاَیَّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ‘‘[2]
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘-
یعنی لوگو! خود کو اور اپنے خاندان کو اُس آگ سے بچانے کا اہتمام کرو جس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر بھی ہوں گے؛ اور وہ آگ اللہ کے عذاب (جہنم)کی آگ ہے-لیکن افسوس! بندہ اس بارے میں تجاہلِ عارفانہ برت کرمحض اپنا خَسَارَہ و نُقصان کرتا ہے -
اسلام ہمیں جو تربیتِ اولاد کا اصول سکھاتا ہے اس کو امام جلال الدین سیوطی نے ’’الجامع الصغیر‘‘ اور ’’جامع الاحادیث‘‘ میں، امام ابن حجر ہیتمی نے ’’فتاویٰ حدیثیہ‘‘ میں اور دیگر آئمہ کرام نے امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان کی-آپ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’أَدِّبُوْا أَوْلَادَكُمْ عَلَى خِصَالٍ ثَلَاثٍ: عَلَى حُبِّ نَبِيِّكُمْ وَحُبِّ أَهْلِ بَيْتِهٖ، وَعَلَى قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ‘‘
’’اپنی اولادوں کو تین چیزوں کا ادب سکھاؤ، اپنے نبی (ﷺ) کی محبت، آپ (ﷺ) کی اہلِ بیت (رضی اللہ عنھم) کی محبت اور تلاوتِ قرآن کی محبت‘‘-
حُبِ نبی(ﷺ) وہ پہلا اور بنیادی بیج ہے جس سے ایمان کا تنآور درخت پھوٹتا ہے- اسی بیج کو اگر بیماری لگ جائے تو ایمان کا سارا درخت مرجھا جاتا ہے-اس میں قرآن پاک سے کثیر استدلال کیا گیا ہے اور کیا جاسکتا ہے کیونکہ قرآن پاک کی بہت سی آیات مبارکہ ہیں جو اسی بات کو بیان کرتی ہیں کہ اگر تمہارےدلوں میں حُبِ مصطفےٰ (ﷺ) اور ادب و تعظیم مصطفےٰ (ﷺ) داخل ہوگئی تو تمہارے ایمان کا پودہ کبھی نہیں مرجھائے گا-اس لیے آقا پاک(ﷺ)نے ارشاد فرمایاکہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے حبِ نبی (ﷺ) سیکھاؤ، اس کے بعد اپنے آقا کریم (ﷺ) کے اہل بیت کی محبت سیکھاؤ اور پھر قرآن کی تعلیم و تلقین سے آشنا کرو-
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حُبِ نبی کو آپ اتنی زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور اس میں تجاوز کرتے ہیں؛اے بندگانِ خُدا! جس کا ادب واحترام، مقام و مرتبہ اللہ بڑھادے، قرآن سُنادے تو دِل میں وسوسے کیوں کھٹکا مارتے ہیں-جاؤ امراضِ قلبی کا علاج کراؤ کسی صاحبِ رُشد و ہدایت مرشدِ کامل سے- قیام، سجود، رکوع یا دیگر عبادات ہوں، ان کا حقیقی لطف اسی وقت مومن کے قلب میں داخل ہوتا ہے جس کا دل مصطفےٰ کریم (ﷺ) کے عشق اور محبت سے جگمگا رہا ہو-
امام بخاری، امام مسلم، امام احمد بن حبنل اور دیگر متعدد آئمہ کرام ؒنے حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے ایک روایت کو نقل کیا ہے-
’’حضرت انس بن مالک () بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی:
یا رسول اللہ (ﷺ) قیامت کب ہوگی؟تو حضورنبی رحمت (ﷺ)نماز کے لیے کھڑے ہوئے -پس جب آپ (ﷺ)نے نماز ادا فرمالی - توآپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ تو اس شخص نے عرض کی میں حاضرہوں یا رسول اللہ (ﷺ)!-آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :
« مَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟
تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟
اس نے عرض کی: یارسول اللہ(ﷺ)!
مَا أَعْدَدْتُ لَهَا كَبِيْرَ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ إِلَّا أَنِّىْ أُحِبُّ اللہَ وَرَسُوْلَهٗ.
میں نے اس کے لئے زیادہ نمازیں اور روزے تو تیار نہیں کیےلیکن میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتا ہوں-
تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ
آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتاہےاور تم اسی کے ساتھ رہو گے جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو-
راوی فرماتے ہیں کہ :
فَمَا رَأَيْتُ فَرِحَ الْمُسْلِمُوْنَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحَهُمْ بِهَذَا
میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد اتنازیادہ خوش نہیں دیکھا جتنا (رسول اللہ (ﷺ) کی زبانِ اقدس سےیہ الفاظ سننے سے )خوش دیکھا-
یعنی صحابئ رسول (ﷺ) کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ میرے دامن میں نمازیں،روزے، صدقات اور دیگر عبادات نہیں ہیں بلکہ اُن کے دامن تو عبادات سے نہ صرف مساجد میں بھرے رہتے تھے بلکہ میدانِ جنگ میں بھی زمین سبحان ربِ الاعلیٰ کی تسبیحات سے گونجتی تھی -مگر صحابئ رسول(ﷺ)کے کہنے کا مقصد اور مدعا یہ تھا کہ یارسول (ﷺ) نمازیں، روزے، صدقات ہیں مگر ایک اور عمل ایسا ہے جس کی قبولیت کا یقین رکھتا ہوں اور وہ عمل آپ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے محبت کا عمل ہے- گویا جسے محبت مصطفےٰ (ﷺ) نصیب ہوجائے اِس عملِ عظیم کی بدولت اُس کے دوسرے اعمال بھی قبولیّت کا درجہ پا جاتے ہیں -
اسی طرح امام بخاری نے امیر المؤمنین سیدنا عُمر (رضی اللہ عنہ) کی روایت سے ایک اور حدیث نبوی (ﷺ) بیان فرمائی ہے:
اَنَّ رَجُلًا عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ (ﷺ) کَانَ اِسْمُهٗ عَبْدَ اللہِ،وَکَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا وَکَانَ يُضْحِکُ رَسُوْلَ اللہِ (ﷺ) وَکَانَ النَّبِيُّ (ﷺ)قَدْ جَلَدَهُ فِيْ الشَّرَابِ، فَاُتِيَ بِهٖ يَوْمًا، فَاَمَرَ بِهٖ، فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَللّٰهُمَّ، الْعَنْهُ مَا اَکْثَرَ مَا يُؤْتٰی بِهٖ
’’عہد نبوی (ﷺ) میں ایک شخص تھا جس کا نام عبد اﷲ تھااور لقب حمارتھااور وہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کو ہنسایا کرتا تھا(ایک بار وہ آپ (ﷺ)کی خدمت میں حالت نشہ میں لایا گیا تو) آپ (ﷺ)نے اس پر شُرْبِ خمر کی حد جاری فرمائی-ایک روز اسے (پھر) آپ (ﷺ) کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ (ﷺ)کے حکم سے اسے (دوبارہ) کوڑے لگائے گئے-لوگوں میں سے کسی نے کہا :اے اﷲ! اس پر لعنت فرما ، یہ کتنی دفعہ (اس جرم میں) لایا گیا ہے-
فَقَالَ النَّبِيُّ (ﷺ) لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَا اللہِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّهٗ يُحِبُّ اللہَ وَرَسُوْلَهٗ‘‘[3]
اس پر اللہ کے نبی (ﷺ)نے فرمایا: اس پر لعنت نہ بھیجو، پس اللہ کی قسم! مجھے صرف یہی علم ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتا ہے‘‘-
یعنی گناہگار ہے تو کیا ہوا، ایسے آدمی کو لعنت نہ کہو کیونکہ اُس آدمی کو لعنت نہیں ہو سکتی جس کا سینہ محبتِ الٰہی اور محبتِ مصطفےٰ (ﷺ)سے روشن ہو جائے-گویا ایمان کی شرطِ اولین محبت ِ مصطفےٰ(ﷺ) ہے - اگر وجود میں حضور نبی کریم (ﷺ)کی محبت کامل طریقے سے جاگزیں نہ ہو تو کحھ بھی باقی نہیں رہتا- پھر تمام چیزیں ’’تنِ بے رُوح‘‘ کی حیثیت میں رہ جاتی ہیں-
اگر آقا کریم (ﷺ) کی محبت سینے میں اتر گئی تو پھر عین ممکن ہے کہ اس محبت کے صدقے تمہارے گناہ بخش دیے جائیں کیونکہ گزشتہ حدیث میں حضور (ﷺ) کے طریقِ مبارک سے واضح ہے کہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے، بھلے گناہگار ہو ایسے گناہگار پہ لعنت نہیں کی جاسکتی-اس لئے ادب وتعظیم ِ مصطفےٰ (ﷺ)، عشق و محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) ایمان کی اولین شرط ہے -
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ وَوَلَدِهٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ‘‘[4]
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک مَیں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘-
گویا جہاں انسان اپنے والدین، بہن بھائیوں، اولاد اور رشتہ داروں سے محبت کرتا ہے وہ تمام محبتیں اپنی جگہ مگر فرمایا کہ محبت ِ مصطفےٰ (ﷺ) ان تمام محبتوں سے اولی و اعلیٰ ہونی چاہیے- اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح سرکارِ دوعالم (ﷺ) کو مقامات اور رفعتوں کی کثرت عطا فرمائی ، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کی محبت کو امت کے دلوں میں بھی کثرت اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے-یعنی جس طرح میرے حبیب مکرم (ﷺ) کی عظمت و رفعت کی کوئی انتہاء نہیں ہے، میرے حبیب مکرم (ﷺ) سے محبت بھی اسی طرح کی جائے کہ اس محبت کا دوسرا کنارہ نہ ہو -
محبت کا اصول بیان کرتے ہوئے امام بیہقیؒ لکھتے ہیں کہ :
حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں :
’’عَلَامَةُ حُبِّ اللهِ دَوَامُ ذِكْرِهٖ لِأَنَّ مَنْ أَحَبَّ شَيْئًا أَكْثَرَ ذِكْرَهٗ‘‘
’’اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت،اس کے ذکر پہ ہمیشگی (استقامت) اختیار کرنا ہے کیونکہ جو جس چیزسے محبت کرتا ہے وہ اس کا ذکر کثرت سے کرتاہے‘‘-
حضرت حَلیمیؒ فرماتے ہیں کہ بعض نے کہا ہے:
’’اَلْحُبُّ اللُّزُوْمُ لِأَنَّ مَنْ أَحَبَّ شَيْئًا أَلْزَمَ ذِكْرَهٗ قَلْبَهٗ فَمَحَبَّةُ اللهِ تَعَالَى لُزُوْمٌ لِذِكْرِهٖ‘‘[5]
’’محبت لزوم ہے کیونکہ جو جس چیزسے محبت کرتا ہے وہ اس کے ذکر کو اپنے دل پہ لازم کرتا ہے- پس اللہ تعالیٰ کی مُحبت کا مطلب ،اللہ تعالیٰ کے ذکرکولازم کرناہے ‘‘-
جیسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان ؒ فرماتے ہیں کہ :
غیظ سے جَل جائیں بے دینوں کے دِل |
دوسرے مصرعہ کا ایک مفہوم اس کے گذشتہ مصرعے سے منسوب ہے، ایک اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر تمہیں سرکار (ﷺ) سے محبت و عشق نصیب ہو تو پھر حضور نبی کریم (ﷺ) کی صفات، نعت اور ذات اقدس پہ درود و سلام کے نذرانے کی کثرت کیا کرو کیونکہ کثرت ِ ذکر مصطفےٰ (ﷺ) محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) کی علامت ہے- تمام آئمہ دین کا یہی منہج ہے کہ محبتِ حضور (ﷺ) کی اوّلین علامات میں سے ہے کہ جو حضور (ﷺ) سے محبت کرتا ہے وہ حضور (ﷺ) کا ذِکر کثرت سے کرتا ہے-
اب آئیں! اُس رِواج کی طرف، جسے سمجھنے کیلئے یہ مقدمہ ضروری تھا کہ واضح ہو جائے کہ حضور(ﷺ) کی محبت ہی اصلِ ایمان ہے-دوسری بات سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) آقا کریم (ﷺ) سے بڑھ کر کسی سے محبت نہیں کرتے تھے-
آپ سب منتظر ہیں کہ ’’صحابہ و اہلِ بیت کا وہ عظیم رواج کیا تھا‘‘؟
ان کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ اپنی محافل، اپنے اہلِ خانہ، بچوں اور رشتہ داروں میں آقا کریم (ﷺ) کی ذات ِ گرامی کا تذکرہ تو کثرتِ سے کرتے ہی تھے اُس میں بالخصوص وہ اپنے دلوں کو مزید سرشار کرنے کیلئے مختلف حیلوں، بہانوں سے حضور نبی کریم (ﷺ) کے اوصاف اور حلیہ مبارک کا ذکر کرتے -
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) آقا کریم (ﷺ) کے چہرہ مبارک، حسنِ مبارک، وجودِ مبارک، لباس مبارک، اعجاز شریفہ، حسنِ سیرت کا اور آپ (ﷺ) کی آنکھوں، گردن، مہرِ نبوت، پیشانی حتی کہ آپ (ﷺ) کے اعضاء شریفہ کا ذکرحلقے بنا کر اور مجلسیں لگا کر کرتے-اس صحابیٔ رسول (ﷺ) کا صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے مابین امتیازی حیثیت اور مقام ہوتا جو جتنی خوبی اور احسن طریقےسے آقا کریم (ﷺ) کے حُسن و جمال کا تذکرہ کیا کرتا-
کیونکہ یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ آپ کو جس سے جتنی محبت ہوتی ہے آپ پھر اس کی چیزیں،اس کی حرکات و سکنات اور طبیعت کے مختلف گوشوں کو شمار کرتے ہیں- جُنبشِ اَبرُو سے لے کر قدموں کی آہٹ تک ہر ایک ادا کو بغور دیکھتے ہیں - اس کی مختلف زیرِ استعمال چیزوں کا ذکر کرتے ہیں، اُن کا تذکرہ کرتے ہیں، اُن کو سنبھال سنبھال کر باربار بیان کرتے ہیں اور جو وقت اور یادیں اس کے ساتھ گزری ہیں ان کو ذوق وشوق سے بار بار، بتکرار اور بااصرار بیان کرتے ہیں- اس لئے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہمارے بچوں اوراہلِ خانہ کے دلوں میں آقا کریم (ﷺ) کی محبت اُتر سکتی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اُن کے سامنے آقا کریم (ﷺ) کے مقام کی بزرگی، وجود مبارک کے اعجاز اورحُسن و جمال کا تذکرہ کیا جائے-
اس رواج میں تھا کہ جس تابعی کو جو صحابی مل جاتا اُس تابعی کے صحابی سے پہلے سوال ہی یہ ہوتے کہ میرے آقا کریم (ﷺ) کا حُسن و جمال کیسا تھا؟ آپ (ﷺ) کی صورت مبارک،چال مبارک، زلفیں مبارک، پیشانی مبارک کیسی تھیں؟ میرے آقا کریم (ﷺ) مازاغ کا سُرمہ لگا کر آنکھیں اٹھاتے تو وہ نگاہ کیسے لگا کرتی تھی؟ بے کسوں، بے بسوں، یتیموں اور غلاموں پہ نگاہِ پاک پڑنے سے ’’دَم میں دَم‘‘ کیسے آتا؟ جب حضور (ﷺ) مسکراتے تو حضور (ﷺ) کے تبسمِ شریف میں نازک ہونٹوں اور منور چہرے مبارک کی کیا کیفیت ہوتی؟ حضور (ﷺ) کے لب اور دندان مبارک کیسے نظر آتے؟ ناخنوں کے دائرے کائنات کو کیسے گھیرتے؟ مبارک ہاتھ جب سوالیوں کو عطا کرتے تو کیسے ہوتے؟ جب دستۂ شمشیر پہ ہوتے تو کیسے لگتے؟ مبارک انگلیوں کی لمبائی کیا تھی؟ انگلیاں جب چاند توڑتیں تو کیسی دِکھتیں؟ جب سورج لوٹاتیں تو کیسی لگتیں؟
اسی طرح آقا کریم(ﷺ) کے حُسن و جمال کے تذکرے کیلئے نعت گوئی و نعت خوانی کا جو رِواج ہے بنیادی طور پر یہ سُنتِ صحابہ ہے-اب ہماری زبان عربی نہیں ہے؛ عامۃ الناس میں جو خطبہ بیان ہو رہا ہے اس پہ اتنی کثیر احادیث موجود ہیں کہ اگر اس میں ایک لفظ بھی اردو کا نہ بولا جائے، سند بھی بیان نہ کی جائے، صرف احادیث مبارکہ کا متن تلاوت کیا جائے اور اگر صرف احادیثِ صحیحہ کا متن تلاوت کیا جائے تو تقریر یا خطاب نہیں اس کے لئے کتب کی ضرورت ہے-کیونکہ مُدّت ہا مُدت تک وہ روایات بیان ہوتی رہیں تو بھی وہ ختم ہونے میں نہ آئیں-لیکن ہم ان روایات کو اپنی زبان میں بیان کرتے ہیں تاکہ اُن کی تاثیر اپنی زبان سے سینے میں اُترے-اس لئے ہمارے ہاں جو ثناء خوانئ مصطفےٰ (ﷺ) اور نعت شریف کو سوز و گداز میں پڑھنے کا رواج ہے؛ یہ سنتِ صحابہ، سنتِ اہل بیت اور سنتِ تابعین ہے-
امام طبرانیؒ اور امام حاکم نیساپوریؒ نے حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے کہ:
عن خُرَيْمَ بْنَ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ (رضی اللہ عنہ) يَقُوْلُ هَاجَرْتُ إِلَى رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) مُنْصَرَفَهٗ مِنْ تَبُوْكَ، فَأَسْلَمْتُ
’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تومیں نے آپ( ﷺ)کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکراسلام قبول کیا اورمیں نے حضرت عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) کویہ کہتے ہوئے سنا کہ :
إِنِّيْ أُرِيْدُ أَنْ أَمْتَدِحَكَ
یا رسول اللہ (ﷺ) میں آپ (ﷺ) کی مِدحَت (نعت) پڑھنا چاہتا ہوں -
تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: قُلْ: کہو (اجازت ہے)پھر آپ (ﷺ) نے ان کو دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لَا يُفَضْفِضُ اللهُ فَاكَ
’’اللہ پاک تمہارے منہ کو کبھی خالی نہ کرے‘‘-
یعنی جو منہ مدحتِ مصطفٰے بیان کرتا ہے وہ کبھی بھی خوشبوئے ایمان ومحبت سے خالی نہیں ہوتا- وہ منہ کبھی بھی انوارِ الٰہی اور برکاتِ وجود مصطفٰے (ﷺ)کے فیض سے خالی نہیں ہوتا- مشک وعنبر سے بھی خوبصورت خوشبو اس کے منہ سے جاری ہو جاتی ہے-
راوی فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) نے (درج ذیل اشعار)پڑھے -
تُنْقَلُ مِنْ صَالبٍ إِلَى رَحِمٍ |
’’آپ (ﷺ)پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوئے ،زمانہ گزرتا رہا اورصدیاں بیت گئیں ‘‘-
حَتَّى اِحْتَوَى بَيْتُكَ الْمُهَيْمِنُ مِنْ |
’’یہاں تک کہ آپ (ﷺ) کی شرافت جوکہ آپ (ﷺ) کے فضل وکمال پر شاہد ہے غالب آگئی ،بڑے بڑے خاندانوں پر ،کہ باقی خاندان اس بلند مرتبے کے نیچے ہیں-
وَ أَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ |
’’اورجب آپ (ﷺ)کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ )ﷺ( کے نور سے) زمین روشن ہوگئی اور آسمان چمک اٹھا‘‘-
فَنَحْنُ فِيْ ذَلِكَ الضِّيَاءِ وَفِي |
’’پس ہم اسی نور اوراسی روشنی میں اورنیکی(ہدایت) کے راستے میں چلتے ہیں ‘‘-
سیّدنا عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) کے اشعار کی تائید میں کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں - مسند امام احمد بن حنبلؒمیں حضرت عِرْبَاض بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ)کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ :
إِنِّي عِنْدَ اللهِ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ ، وَ إِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهٖ وَسَأُنَبِّئُكُمْ بِتَأْوِيْلِ ذَلِكَ دَعْوَةِ أَبِيْ إِبْرَاهِيْمَ وَبِشَارَةِ عِيْسَى قَوْمَهٗ وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِيْ رَأَتْ أَنَّهٗ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَتْ لَهٗ قُصُوْرُ الشَّامِ وَكَذَلِكَ تَرَى أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ‘‘[6]
’’میں اللہ تعا لیٰ کے ہاں اُم الکتاب (لوحِ محفوظ) میں یقیناً اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب آدم (علیہ السلام) اپنے خمیر میں تھے اور عنقریب میں تمہیں اس کی تاویل بتاؤں گا-میں اپنے والد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت ہوں اور وہ خواب ہوں جومیری والدہ ماجدہ (علیھا السلام) نے دیکھا کہ آپ (علیھا السلام)سے ایک ایسا نور نکلا،جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے -اسی طرح انبیاءکرام (رضی اللہ عنھم) کی اُمہات (سلام اللہ علیہن)نے دیکھا‘‘-
یعنی بنوہاشم و قریش کی یہ مشہور روایت تھی جو سینہ بہ سینہ، پشت در پشت حتیٰ کہ سرکار دو عالم (ﷺ)کی والدہ ماجدہ تک بھی آئی کہ یہ وہ نور ہے جب یہ دنیا میں ظہور فرمائے گا تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو روشن فرما دے گا-
امام دارمیؒ اپنی سُنن میں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت سیدہ آمنہ (علیھا السلام)نے فرمایا کہ :
’’إِنِّىْ رَأَيْتُ حِيْنَ خَرَجَ مِنِّىْ تَعْنِىْ نُوْرًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ‘‘[7]
’’مَیں نے دیکھا کہ مجھ سے ایک ایسا نور نکلاجس سے شام کے محلات روشن ہوگئے‘‘-
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتی ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے :
’’قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ، وَمَغَارِبَهَا، فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ (ﷺ) وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِيْ هَاشِمٍ‘‘[8]
’’میں نے تمام مشارق و مغارب کو چھان ڈالا ہے -پس میں نے کوئی شخص حضرت محمد (ﷺ) سے افضل نہیں دیکھا اور نہ بنو ہاشم کے گھرانے سے افضل کوئی گھرانہ دیکھا‘‘-
ایک بات بڑی فرحت آمیز ہے کہ اسلام کے ماننے والے دُنیا کے تقریباً تمام بر اعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں، کئی خطوں میں تعلیم و تربیت اور روایات کے مطابق لوگوں کے اذواق و اشواق مختلف ہوتے ہیں - اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس اُمت کو سارے ذرائع عطا فرما دیے جس کا جیسا ذوق ہو میرے حبیب کریم (ﷺ) کے ذکر و تذکرہ سے باغِ دل کو شاداب و آباد کرتا رہے-اگر مطالعہ کرنا چاہو تو کُتبِ سیرت موجود ہیں، اگر ترنُم سے سننا چاہو تو اللہ تعالیٰ نے خوش الحان نعت خوان پیدا فرما دیئے ، اگر اس کو تحقیقی انداز سے سننا چاہو تو اللہ تعالیٰ کے کرم سے اس اُمت میں ہمیشہ محققین و علماء کی ایک عظیم تعداد موجود رہی ہے -
یعنی ان سب وسیلوں کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا ذکر بلند ہوتا رہے-
یہاں بطورشہادت اور گواہی کے صحیح بخاری کی ایک روایت پیش کرتا ہوں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)کے حسن و جمال کا تذکرہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے ہاں ایک باضابطہ رواج کی حیثیت رکھتا تھا-
’’حضرت اسماعیل بن ابو خالد (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو جحیفہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ:
قَالَ رَأَيْتُ النَّبِىَّ (ﷺ)
میں نے آقا کریم (ﷺ) کی زیارت کی ہے
راوی (حضرت اسماعیل بن ابو خالد (رضی الہ عنہ)نے کہا کہ میں نے حضرت ابو جحیفہ (رضی اللہ عنہ) سے کہا
لِأَبِىْ جُحَيْفَةَ صِفْهُ لِىْ
میرے لئے آپ (ﷺ)کی صفت بیان کریں
انہوں نے فرمایا:
كَانَ أَبْيَضَ قَدْ شَمِطَ‘‘[9]
آپ(ﷺ) گورے رنگ کے تھے‘‘-
یعنی صحابی نے کسی جگہ پہ کہا کہ میں نے حضور (ﷺ) کی زیارت کی تو فطری طور پر تابعی کا صحابی سے پہلا سوال یہ تھا میرے لئے آقا کریم (ﷺ) کے اوصاف اور حسن و جمال کو بیان کریں تو پھر صحابئ رسول(ﷺ) نے آقا کریم (ﷺ) کے چہرے اور آپ (ﷺ) کی رنگت، حسن و جما ل اور خد و خال کو بیان کیا- صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے :
’’عَنْ رَبِيْعَةَ بْنِ أَبِى عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَصِفُ النَّبِىَّ (ﷺ)، قَالَ: كَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَيْسَ بِالطَّوِيْلِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ أَزْهَرَ اللَّوْنِ لَيْسَ بِأَبْيَضَ أَمْهَقَ وَلَا آدَمَ ،لَيْسَ بِجَعْدٍ قَطَطٍ وَلَا سَبْطٍ رَجِلٍ‘‘[10]
’’حضرت ربیعہ بن ابو عبد الرحمٰن (رضی اللہ عنھم) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے سنا وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی صفت (حلیہ مبارک) بیان کر رہے تھے آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:آپ (ﷺ) اپنی قوم کے درمیانے قد کے تھے نہ بہت طویل نہ بہت پست تھے-آپ (ﷺ) کا کِھلتا ہوا رنگ تھا ، میدہ کی طرح سفید تھا اور نہ گندمی- آپ (ﷺ) کے بال سخت نہ گھونگریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے تھے‘‘-
امام الاصبہانیؒ روایت نقل کرتے ہیں حضرت سعید ابن مسیب (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ:
أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ذَرٍّ، يَصِفُ النَّبِيَّ (ﷺ) كَانَ يَطَأُ بِقَدَمَيْهِ لَيْسَ لَهٗ أَخْمَصٌ، يُقْبِلُ جَمِيْعًا، وَيُدْبِرُ جَمِيْعًا، لَمْ أَرَ مِثْلَهٗ (ﷺ)‘‘[11]
’’آپ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) کو حضور نبی کریم (ﷺ)کا وصف (حلیہ مبارک) بیان کرتے ہوئے سنا-حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ آپ(ﷺ) اپنا پورا قدم رکھ کر چلتے اس حال میں کہ آپ (ﷺ) کا نقش مبارک ناتمام نہ رہتا-(یعنی پروقار طریقہ سے)اور (جب آپ (ﷺ) کسی سے کلام فرماتے تو)آپ (ﷺ) مکمل متوجہ ہوتے اور مکمل پیٹھ مبارک پھیرتے میں نے آپ (ﷺ) کی مثل کسی کو نہیں دیکھا‘‘-
امام بیہقیؒحضرت سعید بن مسیبؒ سے روایت نقل کرتےہیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کو اس طرح حضورنبی کریم (ﷺ) کا وصف (حلیہ مبارک) بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’كَانَ رَجُلًا رَبْعَةً، وَهُوَ إِلَى الطُّوْلِ أَقْرَبُ. قَالَ فِيْهِ: وَكَانَ يُقْبِلُ جَمِيْعًا، وَيُدْبِرُ جَمِيْعًا، وَلَمْ أَرَ قَبْلَهٗ مِثْلَهٗ وَلَا بَعْدَهٗ‘‘[12]
’’آپ (ﷺ) کا قد مبارک میانہ تھا اس طرح آپ (ﷺ)کا قد مبارک مائل بہ طول تھااورآپ (ﷺ) کے بارے میں فرمایا کہ اور(جب آپ (ﷺ) کسی طرف متوجہ ہوتے) آپ (ﷺ) مکمل متوجہ ہوتے اور مکمل پیٹھ مبارک پھیرتے -میں نے آپ (ﷺ) کی مثل نہ آپ (ﷺ) سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ بعد میں کسی کو دیکھا-
امام بیہقیؒ دلائل النبوة میں روایت کرتے ہیں:
’’عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قِيْلَ لِعَلِيٍّ: اِنْعَتْ لَنَا النَّبِيَّ، (ﷺ) ،قَالَ كَانَ لَا قَصِيْرٌ وَلَا طَوِيْلٌ، وَهُوَ إِلَى الطُّوْلِ أَقْرَبُ. قَالَ وَكَانَ شَثْنَ الْكَفِّ وَالْقَدَمِ. قَالَ وَكَانَ فِيْ صَدْرِهِ مَسْرُبَةٌ وَكَانَ عَرَقُهٗ لُؤْلُؤًا، قَالَ إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ كَاَنَّمَا يَمْشِيْ فِيْ صُعُدٍ‘‘
’’حضرت عبیداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) اپنے والد سے، آپ (رضی اللہ عنہ) اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے عرض کی گئی ہمیں حضور نبی کریم (ﷺ)کا حلیہ مبارک بیان کریں:تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ:آپ (ﷺ) نہ پست قد اور نہ طویل القامت تھے،بلکہ قدرے درازی مائل جسم مبارک تھا،آپ (رضی اللہ عنہ) نے مزید فرمایا:آپ (ﷺ) ہاتھ مبارک اور قدم مبارک کی انگلیاں بھری ہوئی تھیں ،آپ (رضی اللہ عنہ) نے مزید فرمایا کہ آپ (ﷺ)کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی اورآپ (ﷺ) کا پسینہ مبارک موتی کی مانند تھا،آپ (رضی اللہ عنہ) نے مزیدفرمایا اورجب آپ (ﷺ) چلتے تو جھکے ہوئے معلوم ہوتے گویا آپ (ﷺ) چڑھائی چڑھ رہے ہیں‘‘-
امام ترمذیؒ’’سنن الترمذى، کتاب المناقب‘‘ میں، امام احمد بن حنبلؒ’’مسند احمد‘‘ میں، امام حاکمؒ ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں اور امام بیہقیؒ ’’شعب الایمان میں روایت نقل فرماتے ہیں:
’’حضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:
’’لَمْ أَرَ قَبْلَهٗ وَلَا بَعْدَهٗ مِثْلَهٗ‘‘
’’میں نے آپ (ﷺ) سے پہلے اور بعد میں آپ (ﷺ) کی مثل کوئی نہیں دیکھا‘‘-
محی السُنّہ امام البغویؒ لکھتے ہیں کہ:
عَنْ سَعِيْدٍ الْجُرَيْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ يَقُوْلُ رَأَيْتُ النَّبِيَّ (ﷺ) وَمَا بَقِيَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ رَآهُ غَيْرِيْ قُلْتُ صِفْهُ لِيْ قَالَ كَانَ أَبْيَضَ مَلِيْحًا مُقَصَّدًا‘‘- [13]
’’حضرت سعید جریری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل (رضی اللہ عنہ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے حضور نبی کریم (ﷺ)کی زیارت کی اس وقت زمین پر آپ (ﷺ) کی زیارت کرنے والا میرے علاوہ اور کوئی باقی نہیں ہے- (کیونکہ یہ آخری صحابی رسول (ﷺ) ہیں) میں نے عرض کی مجھے آپ (ﷺ) کا حلیہ، وصف بیان کرو، تو حضرت ابو طفیل نے فرمایا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) سفید، خوبصورت اور مُقَصَّدْ (یعنی جسم مبارک نہ بھاری تھااورنہ کمزور ،نہ پتلا) تھے‘‘-
گویا صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے ہاں یہ رواج اور روایت تھی کہ ایمان کی تازگی و حرارت اور ایمان کوتقویت اور جلا بخشنے کیلئے اپنی محافل اور مجالس میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے حُسن و جمال بیان کرتے-
اسی طرح جیل القدر صحابئ رسول (ﷺ) فاتحِ مِصر سیدنا عمرو ابن العاص (رضی اللہ عنہ)کی بڑی باکمال روایت ہے جسے امام مسلمؒنے ’’صحیح مسلم، کتاب الایمان‘‘ میں بیان فرمایا- راوی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمرو ابن العاص (رضی اللہ عنہ) کا وقتِ وصال آیا، صحابہ ان کی خدمت میں بیمار پُرسی کے لئے حاضر ہوئے تو سیدنا عمرو ابن العاص (رضی اللہ عنہ)اونچا اونچا رو رہے تھے- صحابہ نے ان سے رونے کی وجہ دریافت کی؟
اس میں اب کئی نکات ہیں میں صرف دو نکات بیان کروں گا ایک وہ جو اس گفتگو میں آرہا ہے اور دوسرا وہ جو سیدنا عمرو ابن العاص (رضی اللہ عنہ) اس میں بیان کرتے ہیں -
حضرت عَمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) آپ (ﷺ) کا حسن و جمال یوں بیان کرتے ہیں :
وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَىَّ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) وَلَا أَجَلَّ فِىْ عَيْنِىْ مِنْهُ وَمَا كُنْتُ أُطِيْقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَىَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهٗ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّىْ لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَىَّ مِنْهُ‘‘[14]
’’اس وقت مجھے حضور(ﷺ)سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا اور میری آنکھوں میں آپ (ﷺ) سے زیادہ کوئی شخصیت محبوب نہ تھی اور آپ (ﷺ)کے جلال کی وجہ سے مجھ میں یہ طاقت نہیں تھی کہ میں آنکھ بھر کر آپ (ﷺ) کو دیکھ سکوں- اگر کوئی شخص مجھ سے کہے کہ رسول اللہ(ﷺ) کا حلیہ، وصف بیان کرو تو میں آپ (ﷺ)کا حلیہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ(ﷺ)کو آنکھ بھر کے دیکھ نہیں سکا‘‘-
یعنی میں سرکار دو عالم (ﷺ) کی صحبت و خدمت میں رہا ، مَیں نے حضور (ﷺ) کو اٹھتےبیٹھتے، چلتے پھرتے دیکھا، مصلیِٰ امامت ومنبر پہ خطبہ دیتے دیکھا، گھوڑے پہ جہاد کرتے دیکھا، ہاتھ میں تلوار دیکھی، کتاب کی تلاوت کرتے دیکھا، اپنے صحابہ سے ہنستے ہوئے دیکھا، کھانا تناول کرتے اور پانی نوش فرماتے ہوئے دیکھا-حضور (ﷺ) کوآرام کرتے ہوئے دیکھا اور مجھے آپ (ﷺ) کا اتنا قرب میسر رہا کہ میں نے حضور(ﷺ) کی ہر ہر ادا کو دیکھا؛ لیکن اتنے قرب و رفاقت کے باوجود بھی مجھ میں اتنی ہمت کبھی نہیں ہوئی کہ میں آنکھ بھر کہ آقائے دوعالم (ﷺ) کے چہرے کو دیکھ سکتا-اس لئے مجھے غم یہ ہے کہ اگر کوئی آکر کہَ دے عمر ابن العاص آپ اتنے جلیل القدر صحابی ہیں؛ ہمارے سامنے مصطفےٰ کریم (ﷺ) کا حلیہ بیان کر دیں تو فرماتے ہیں کہ میں نے جی بھر کے حضور کی جلالتِ شان کے پیشِ نظر چہرہ مبارک کو تو دیکھا ہی نہیں تو میں حضور کا حلیہ کیسے بیان کروں گا ؟
جہاں محبت و ادب ہو وہاں نگاہ میں بے باکی کی تاب نہیں رہتی- اس لئے یہاں مجھے حکیم الامت علامہ محمد اقبال مجلسِ مصطفےٰ (ﷺ) کی حضوری میں اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے یاد آتے ہیں کہ:
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا |
یعنی میری نگاہِ بے ادب بہانے تلاش کرتی رہی کہ آنکھیں اٹھا کہ سرکار (ﷺ)کے روئے زیبا کو دیکھ سکوں لیکن ادب نے کہا کہ نہیں یہ مقام آنکھ اٹھانے کا نہیں آنکھ کو حدِ ادب میں رکھ کر آنکھ جھکانے کا ہے-اس لئے جب دل میں ادب ہو تو زبان اور قلم میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوتی، زبان سے الفاظ ہزار مرتبہ سوچ سوچ کر اور چُن چُن کر نکلتے ہیں-کیونکہ جب معرفت نصیب ہوتی ہے کہ میں کس کی بات اور کس کا ذکر و تذکرہ کرنے لگا ہوں تو اس وقت دل ودماغ بھی ادب میں آجاتا ہے اور وجود کی حرکات و سکنات بھی مؤدب ہوجاتی ہیں-
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ یہ الفاظ مبارک ’’وَ لَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ‘‘ واضح کرتے ہیں کہ دورِ صحابہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کا حلیہ مبارک بیان کرنے کا عام رواج تھا اور اتنا پختہ رواج تھا کہ صحابہ کرام کی تابعین سے توقع ہی یہ ہوتی تھی کہ وہ ہم سے مِلیں گے تو سرکارِ دو جہان (ﷺ) کے حُسن و جمال اور وصف و کمال کے بارے ضرور پوچھیں گے -
امام طبرانیؒ نے ’’معجم الکبیر‘‘ میں، امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں،’’محی السنہ ا مام البغویؒ نے ’’شرح السنۃ‘‘ میں، امام ابو عیسیٰ الترمذیؒ نے ’’شمائلِ محمدیہ‘‘ میں اس طویل حدیثِ پاک کو نقل کیا ہے کہ:
’’حضرت حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ (رضی اللہ عنہ) سے پوچھاجو(وَكَانَ وَصَّافًا، عَنْ حِلْيَةِ النَّبِيِّ (ﷺ)) حضور نبی کریم (ﷺ) کا حلیہ مبارک نہایت عمدگی سے بیان کرتے تھے اور (وَأَنَا أَشْتَهِيْ، أَنْ يَصِفَ لِيْ مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهٖ) میں چاہتاتھا کہ وہ (نانا جان) رسول اللہ (ﷺ) کے اوصافِ حمیدہ مجھ سے یوں بیان کریں کہ میرے لوح ِ دل پر اس کا نقش ثبت ہوجائے -
تو حضرت ہند بن ابی ہالہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ (ﷺ) ذیشان اور معزز تھے آپ (ﷺ) کا چہرہ انور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا-آپ (ﷺ) میانہ قد آدمی سے قدرے لمبے اور زیادہ دراز قد سے قدرے پست تھے-(یعنی آپ (ﷺ) درمیانے قد مبارک والے تھے)-آپ (ﷺ) کا سر مبارک بڑا تھا- بال مبارک قدرے (خمیدہ) بل کھاتے ہوئے تھے-اگر آپ (ﷺ) بالوں کو دوطرفہ کرتے تو مانگ نکل آتی ورنہ نہیں آپ (ﷺ) کے بال مبارک کانوں کی لو سے تجاوز کر جاتے، اگرآپ (ﷺ) ان کو چھوڑتے - آپ (ﷺ) چمکدار رنگ اور کشادہ پیشانی والے تھے-آپ (ﷺ)کے ابرو مبارک باریک اورکشادہ تھے جو باہم ملے ہوے نہیں تھے- ان دونوں (ابروؤں) کے درمیان ایک ورید مبارک (رگ)تھی جو جلال کے وقت ظاہر ہو جاتی - آپ (ﷺ) کی ناک مبارک بلندی مائل، نہایت خوبصورت اور روشن تھی - غور سے نہ دیکھنے والا آپ (ﷺ) کو بلند بینی خیال کرتا- آپ (ﷺ) کی داڑھی مبارک گھنی تھی اور آپ (ﷺ) کے رخسار مبارک نرم اور ہموار تھے- آپ (ﷺ) کا دہن مبارک کشادہ تھا اور دانت مبارک چمکدار تھے اور ان میں قدرے فراخی تھی - (سینہ مبارک اور ناف کے درمیان) بالوں کی باریک لکیر تھی آپ (ﷺ) کی گردن مبارک نہایت خوبصورت، گویا چاندی کی خوبصورت صراحی تھی-آپ (ﷺ) کے اعضاءِ مبارکہ نہایت معتدل و موزوں تھے- آپ (ﷺ) کا جسم مبارک نہایت قوی و مضبوط تھا-آپ (ﷺ) کا پیٹ مبارک اور سینہ مبارک ہموار تھا- آپ (ﷺ) کا سینہ مبارک کشادہ اور دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا-آپ (ﷺ) مضبوط جوڑوں والے تھے-آپ (ﷺ) کے بدن مبارک کا کھلا رہنے والا حصہ روشن و تاباں تھا-آپ (ﷺ) کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں نے ایک باریک خط بنایا ہوا تھا-اس لکیر کے سوا چھاتی مبارک اور پیٹ مبارک بالوں سے خالی تھا البتہ دونوں کلائیوں، کندھوں اور سینہ کے اوپر والے حصے مبارک پر کچھ بال تھے- آپ (ﷺ) کی کلائیاں دراز تھیں آپ (ﷺ) کی ہتھیلی مبارک کشادہ اور پیٹھ مبارک ہموارتھی-آپ (ﷺ)کی دونوں ہتھیلیاں اور قدم مبارک پُر گوشت تھے-(ہاتھوں اور پاؤں مبارک کی) انگلیاں مناسب طور پر لمبی تھیں-آپ (ﷺ) کے پاؤں مبارک کے تلوے قدرے گہرے تھے قدم مبارک ہموار اس حال میں کہ ان پر پانی نہیں ٹھہرتا تھا-جب آپ (ﷺ) چلتے تو قوت سے چلتے جھک کر پاؤں اٹھاتے اور کشادہ قدم چلتے اور آپ (ﷺ) عاجزی سے کشادہ قدم چلتے -جب آپ (ﷺ) چلتے تو یوں معلو م ہوتا، گویا بلندی سے اتر رہے ہیں - جب کسی کی طرف دیکھتے تو پوری طرح متوجہ ہو کر دیکھتے -آپ (ﷺ) نیچی نگاہ والے تھے اور آپ (ﷺ) آسمان کی بجائے زمین کی طرف زیادہ دیکھنے والے تھے-آپ (ﷺ) کا دیکھنے کا انداز مبارک بڑا پُر وقار تھا-آپ (ﷺ)اپنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے آگے چلتے اور جو آپ (ﷺ) سے ملتا آپ (ﷺ) اس سے سلام میں پہل فرماتے-
ابو نعیم بن عبد اللہ اصفہانیؒ (المتوفی: 430ھ) نے ’’دلائل النبوۃ‘‘لکھا ہے کہ:
’’سیدنا امام حسن (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عرصہ تک (حضرت ہند بن ابی ہالہ(رضی اللہ عنہ) کی بیان کردہ)اس حدیث پاک کو (اپنے بھائی امام) حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) سے بیان نہیں کیا - بالآخر (ایک دن جب) اُنہیں بتلایا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے حضرت ہند بن ہالہ (رضی اللہ عنہ) سے یہ باتیں پوچھ چکے تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے والد گرامی (سیدناحضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کے معمولات اور آپ (ﷺ) کے خدو خال کے بارے میں پوچھا ہوا ہے جو انہوں نے مکمل طور پرانہیں بتلایا تھا‘‘-
سیدی شیخی امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری (رضی اللہ عنہ) کا ہدیۂ عقیدت ’’سلامِ رضا‘‘جسے سرکار دو عالم (ﷺ)نے شہرتِ و قبولیت دوام عطاکی؛ وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے اسی حسن و بیان کے چرچے پر محیط ہے-اگر اس کو امام حسن (رضی اللہ عنہ) کی روایت جو انہوں نے اپنے ماموں جان سے روایت کی ہے کہ تناظر میں دیکھا جائے تویوں معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرتؒ نے اسی حدیث مبارک کہ پیشِ نظر اپنا یہ سلام مرتب فرمایا ہے-اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں :
حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی (رضی اللہ عنہ) آپ (ﷺ) کے چہرۂ مبارک کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كَانَ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) فَخْمًا مُفَخَّمًا يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهٗ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ،
رسول اللہ (ﷺ) ذیشان اور معزز تھے آپ (ﷺ) کا چہرہ انور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا-
چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں دُرود |
آقا پاک (ﷺ) کے قد مبارک کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
أَطْوَلَ مِنَ الْمَرْبُوْعِ، وَأَقْصَرَ مِنَ الْمُشَذَّبِ،
’’آپ (ﷺ) میانہ قد آدمی سے قدرے لمبے اور زیادہ دراز قد سے قدرے پست تھے-
یعنی آپ (ﷺ) درمیانے قد مبارک والے تھے-کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ(ﷺ) کی ہر ہر صفت میں اعتدال قائم فرمایا اسی طرح آپ (ﷺ) کے قدِ مبارک میں بھی اعتدال کو معتدل تھا-
طائرانِ قُدُس جس کی ہیں قُمریاں |
آقا پاک (ﷺ) کے سرِ اقدس کی تعریف بیان کرتے ہیں کہ حضور کا سرِ مبارک کیسا تھا –
’’عَظِيْمَ الْهَامَةِ‘‘
’’آپ (ﷺ) کا سر مبارک بڑا تھا‘‘-
جس کے آگے سرِ سروراں خم رہیں |
حضور (ﷺ) کی زلفوں مبارک کاحسن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رَجِلَ الشَّعْرِ‘‘
’’بال مبارک قدرے (خمیدہ )بل کھاتے ہوئے تھے‘‘-
وہ کرم کی گھٹا گیسوے مُشک سا |
یعنی جس طرح بادل بَل کھائے ہوئے ہوتا ہے اسی طرح آقا پاک (ﷺ) کی زلفیں مبارک بھی بَل کھائے ہوئے تھیں -
’’إِنِ انْفَرَقَتْ عَقِيْقَتُهٗ فَرَقَ وَإِلَّا فَلَا‘‘
’’اگرآپ (ﷺ) بالوں کو دوطرفہ کرتے تو مانگ نکل آتی ورنہ نہیں‘‘-
یعنی آقائے دو عالم (ﷺ) اپنے سرِ اقدس کے اِدھر کے بالوں کو اُدھر اور اُدھر کے بالوں کو اِدھر فرمادیتے تو مانگ نمایاں ہوجاتی-لیکن اگر آپ(ﷺ) بال مبارک سیدھے رکھے تو مانگ نمایاں نہ ہوتی؛ جب آپ(ﷺ) چاہتے تو اس مانگ کو نمایاں فرما دیتے-
لَیْلَۃُ القدر میں مطلعِ الفجر حق |
شعراء اپنے محبوب کی زلفوں کو رات کی تاریکی سے تشبیہ دیتے ہیں-لیکن یاد رکھیں! راتوں کی بھی اقسام ہیں- ہر رات ایک جیسی نہیں ہوتی، کئی راتیں ہیں جن میں مصائب و آلام اترتے ہیں،کئی اقسام کی مخلوقات اترتی ہیں-اس لئے اعلیٰ حضرت () محبوبِ کبریا (ﷺ)کی زلفوں مبارک کو ’’لَیْلَۃُ الْقَدْرِ‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ آپ (ﷺ) کی زلفوں مبارک کو عام رات سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی،کیونکہ اس رات آلام اور مصائب نہیں اترتےبلکہ اس ساری رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے یہاں تک کہ ’’مَطْلَعِ الْفَجْرِ‘‘ ہو جائے -
آپ ()’’مَطْلَعِ الْفَجْر‘‘ کی تشبیہ سے فرماتےہیں کہ جب سرکار ِدو عالم (ﷺ)کی مانگ نکلنے کی وجہ سے سرِ اقدس کی جلد نمایاں ہوتی تویوں محسوس ہوتا ہے جیسے ’’لَیْلَۃُ الْقَدْر‘‘کے بعد صبح کا آفتاب طلو ع ہوتا ہے-
حضرت ہند بن ہالہ () مزید فرماتے ہیں کہ:
أَزْهَرُ اللَّوْنِ، وَاسِعُ الْجَبِيْنِ،
آپ (ﷺ) چمکدار رنگ اور کشادہ پیشانی والے تھے-
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے |
وہ جبین (پیشانی) عام جبین نہیں تھی، وہ ماتھا عام ماتھا نہیں تھا بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے شب اسری کے دولہا اور نوشۂ بزمِ جنّت کو تیار فرمایا تو اس کی جبینِ سعادت پر شفاعت کا سہرا باندھا گیا -
أَزَجُّ الْحَوَاجِبِ سَوَابِغَ فِي غَيْرِ قَرَنٍ،
’’آپ (ﷺ)کے ابرو مبارک باریک اورکشادہ تھے جو باہم ملے ہوئے نہیں تھے‘‘-
آپ (ﷺ) کے ابرو مبارک آپس میں ملے ہوئے نہ تھے بلکہ ان میں فاصلہ تھا-یوں محسوس ہوتا تھا جس طریقے سے کمان ہوتی ہے -
جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی |
آپ ()مزید فرماتے ہیں کہ:
’’بَيْنَهُمَا عِرْقٌ يُدِرُّهُ غَضَبٌ‘‘
’’ان دونوں (ابروؤں )کے درمیان ایک ورید مبارک (رگ )تھی جو جلال (غصے) کے وقت ظاہر ہو جاتی-
بنیادی اصول ہے کہ محبوب کے چہرہ کی کیفیت سے اس کے جلال و جمال کا اندازہ ہوتا ہے- صحابہ کرام () سرکارِدو عالم(ﷺ) کے چہرۂ اقدس کی کیفیات سے اس قدر شناسا تھے کہ ان کو معلوم ہو جاتا کہ حضور (ﷺ) جمال میں ہوں تو چہرۂ مبارک کی کیفیت کیسی ہوتی ہے اور جلال میں ہوں تو کیفیت کیسی ہوتی ہے- اس لئے اگر آپ (ﷺ)کسی بات کو ناپسند فرماتے تو آپ(ﷺ) کی پیشانی مبارک میں وہ رگ نمایاں ہوجاتی- بقول اعلیٰ حضرت ():
چشمۂ مِہر میں موجِ نورِ جلال |
چشمۂ مِہروہ مقام ہے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے گویا سرکار(ﷺ)کی پیشانی وہ مقام ہے جہاں سے دنیا کو روشنی اور بصارت و بصیرت نصیب ہوتے ہیں -
’’أَقْنَى الْعِرْنِيْنَ، لَهٗ نُوْرٌ يَعْلُوْهُ يَحْسِبُهٗ مَنْ يَّتَأَمَّلُهٗ أَشَمَّ كَثَّ الْلِّحْيَةِ‘‘
’’اور آپ (ﷺ) کی ناک مبارک بلندی مائل، نہایت خوبصورت اور روشن تھی-غور سے نہ دیکھنے والا آپ (ﷺ) کو بلند بینی خیال کرتاآپ (ﷺ) کی داڑھی مبارک گھنی تھی‘‘-
رِیشِ خوش معتدل مرہمِ رَیش دل |
یعنی دل جتنا غمگین اور اداس ہوتا جب آپ(ﷺ) کی ریش مبارک کی زیارت ہوتی تو دل کی مرہم ہو جاتی-
’’سَهْلَ الْخَدَّيْنِ ضَلِيْعَ الْفَمِ‘‘
’’آپ (ﷺ) کے رخسار مبارک نرم اور ہموار تھے- آپ (ﷺ) کا دہن مبارک کشادہ تھا‘‘-
اگر فقط سرکار دو عالم (ﷺ)کے دہن مبارک کی فضیلت بیان کی جائے تو بیسیوں نشستیں درکار ہوں-آپ (ﷺ) کے دہن مبارک کا ایک وصف بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا |
اس دہن مبارک کے اسرار و اوصاف میں پہلی اور بنیادی بات اتنی ہے کہ اس دہنِ اقدس سے وحی خدا کے علاوہ کچھ برآمد ہی نہیں ہوا-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘[15]
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے،اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے-
زبانِ مبارک کا اعجاز تھا کہ جب دُکھی دلوں سے مخاطب ہوتے تو شیرینی ہوتی جب خطبہ ارشاد فرماتے تو زمانے ٹھہر جاتے -
اُن کی باتوں کی لذت پہ بے حد درود |
’’أَشْنَبَ مُفْلَجَ الْأَسْنَانِ كَاَنَّ عُنُقَهٗ جِيْدٌ دُمِيَتْ فِيْ صَفَاءِ الْفِضَّةِ، مُعْتَدِلَ الْخَلْقِ بَادِنَ مُتَمَاسِكَ سَوَاءَ الْبَطْنِ وَالصَّدْرِ‘‘
’’دانت مبارک چمکدار تھے اور ان میں قدرے فراخی تھی آپ (ﷺ) کی گردن مبارک نہایت خوبصورت، گویا چاندی کی خوبصورت صراحی تھی-آپ (ﷺ) کے اعضاءِ مبارکہ نہایت معتدل وموزوں تھے آپ (ﷺ) کا جسم مبارک نہایت قوی و مضبوط تھا-آپ (ﷺ) کا پیٹ مبارک اور سینہ مبارک ہموار تھا ‘‘-
یعنی گردن مبارک نہ اتنی چھوٹی تھی نہ بڑی کہ گردن کے چھوٹا یا بڑا ہونے کا نقص پیدا ہو بلکہ جس طرح ایک صراف چاندی کی معتدل صراحی تیار کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ)کی گردن مبارک اعتدال قائم فرمایا -اسی طرح آپ (ﷺ) کا شکم مبارک سینۂ اقدس سے زائد نہ تھا بلکہ بالکل ہموار تھا-کیونکہ اگر کسی کے پاس کوئی چیز وافر ہو جائے تو بندہ اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور قناعت کو ترک کر دیتا ہے-جبکہ آپ (ﷺ) کی ذات گرامی وہ ذات ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کل عالم کے خزائن عطا فرمائے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم (ﷺ)کو قناعت عطا فرمائی-اس لئے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ:
کُل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غذا |
’’عَرِيْضَ الصَّدْرِ بَعِيْدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ أَنْوَرَ الْمُتَجَرَّدِ مَوْصُوْلَ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَالسُّرَّةِ بِشَعْرٍ يَجْرِيْ كالْخَطِّ عَارِيَ الثَّدْيَيْنِ وَ الْبَطْنِ مِمَّا سِوَى ذَلِكَ أَشْعُرَ الذِّرَاعَيْنِ وَالْمَنْكِبَيْنِ وأَعَالِيْ الصَّدْرِ، طَوِيْلَ الزَّنْدَيْنِ‘‘
’’آپ (ﷺ) کا سینہ مبارک کشادہ اور دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا آپ (ﷺ) مضبوط جوڑوں والے تھے-آپ (ﷺ) کے بدن مبارک کا کھلا رہنے والا حصہ روشن و تاباں تھا آپ (ﷺ) کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں نے ایک باریک خط بنایا ہوا تھا-اس لکیر کے سوا چھاتی مبارک اور پیٹ مبارک بالوں سے خالی تھاالبتہ دونوں کلائیوں، کندھوں اور سینہ کے اوپر والے حصے مبارک پر کچھ بال تھے- آپ (ﷺ) کی کلائیاں دراز تھیں ‘‘-
یعنی وہ حصہ جو لباس مبارک سے باہر رہتا ہے مثلاً چہرۂ اقدس،ہاتھ، پاؤں اور گردن مبارک درخشاں اور روشن تھا -مزید فرماتے ہیں کہ آپ(ﷺ) کے سینۂ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی ایک لکیر تھی جس طرح شمشیر ہوتی ہے یعنی چھاتی مبارک یا پیٹ مبارک پہ کسی بھی جگہ بال نہ تھے- اس اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ آپ (ﷺ)کوحسن وجمال عطا فرمایا تھااورآپ (ﷺ) کی دونوں کلائیاں دراز تھیں-بقول اعلیٰ حضرت (رضی اللہ عنہ):
جس کو بارِ دو عالم کی پروا نہیں |
’’رَحْبَ الرَّاحَةِ سَبْطَ الْقَصَبِ شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، سَائِلَ الْأَطْرَافِ‘‘
’’آپ (ﷺ) کی ہتھیلی مبارک کشادہ اورپیٹھ مبارک ہموارتھی آپ (ﷺ)کی دونوں ہتھیلیاں اور قدم مبارک پُر گوشت تھے- (ہاتھوں اور پاؤں مبارک کی) انگلیاں مناسب طور پر لمبی تھی‘‘-
یعنی آپ (ﷺ) کی ہتھیلیاں مبارک کشادہ تھیں اور ہتھیلیوں مبارک کی پشت ہموار تھی جس طرح آقا دو عالم (ﷺ)کا شکم اقدس سینۂ اقدس کے برابر تھا-اسی طرح آپ (ﷺ) کی دونوں ہتھیلیاں اور قدم مبارک سوکھے ہوئے بھی نہ تھے بلکہ گوشت سے بھرے ہوئے تھے -ہاتھوں اور پاؤں مبارک کی انگلیاں بھی نہ بہت چھوٹی تھی اور نہ بہت طویل بلکہ مناسب طور پر معتدل و حسین طوالت رکھتی تھیں- اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی انگلیوں مبارک کو یہ کمال عطا کیا تھا اگر وہ اشارہ کرتیں تو چاند دو ٹکڑے ہو جاتا، ڈوبتا سورج بھی واپس لوٹ آتا، سنگلاخ چٹانوں سے پانی کے چشمے اُبلنے لگتے -
صاحبِ رَجعتِ شمس و شقُ القمر |
’’خُمْصَانَ الْأَخْمَصَيْنِ، مَسِيْحَ الْقَدَمَيْنِ يَنْبُوْ عَنْهُمَا الْمَاءُ، إِذَا زَالَ زَالَ قُلْعًا يَخْطُوْ تَكَفِّيًا وَ يَمْشِيْ هَوْنًا، ذَرِيْعَ الْمِشْيَةِ إِذَا مَشَىْ كَاَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيْعًا
’’آپ (ﷺ) کے پاؤں مبارک کے تلوے قدرے گہرے تھے قدم مبارک ہموار اس حال میں کہ ان پر پانی نہیں ٹھہرتا تھا-جب آپ (ﷺ) چلتے تو قوت سے چلتے جھک کر پاؤں اٹھاتے اور کشادہ قدم چلتے اور آپ (ﷺ) عاجزی سے کشادہ قدم چلتے -جب آپ (ﷺ) چلتے تو یوں معلو م ہوتا، گویا بلندی سے اتر رہے ہیں جب کسی کی طرف دیکھتے تو پوری طرح متوجہ ہو کر دیکھتے‘‘-
یہ اس بات کا استعارہ تھا کہ لاہوت کا نور ناسوت میں جگمایا اس لیے اللہ تعالیٰ نے چال میں بھی اعتدال رکھا کہ دیکھنے والوں کو محسوس ہو جائے کہ لاہوت سے ناسوت کی طرف آنے والا نور اپنی مناسب چال اور روانی سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرتا جا رہا ہے-اسی طرح آپ (ﷺ) کی نگاہ مبارک کا یہ کمال تھا کہ جب کسی کی طرف توجہ سے دیکھتے یا کسی کو مخاطب کرتے تو پوری طرح اسی کی طرف متوجہ ہو جاتے- بقول اعلیٰ حضرت (رضی اللہ عنہ):
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آ گیا |
یعنی آپ (ﷺ) کی نگاہ مبارک کا یہ کمال تھا کہ جدھر دیکھتے اس طرح دیکھتے کہ ایک تشنگی مٹ جاتی اور ایک تشنگی پیدا ہو جاتی-یاد رکھیں! جو نگاہ تشنگی مٹانے اور بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی وہ نگاہِ دل نواز نہیں ہوتی-تشنگی دو اقسام کی ہوتی ہے؛ایک تشنگی حسن کو دیکھنے کی ہوتی ہے کہ ایسا حسن دیکھنا کہ جس سے دل مطمئن ہو جائے- اس لئے سرکار دو عالم (ﷺ) جس کی طرف نظر مبارک فرمادیتے اس کے دل کو اطمینان ہو جاتا کہ یہی حسن ہے جو کل جہان کے حسن کا منبع بنا دیا گیا ہے-دوسرا تشنگی اس وقت بڑھتی ہے کہ جب حسن کو دیکھ کے دل اپنے قابو میں نہیں رہتا اور بار بار باتکرار اُس حسن کو دیکھنے کی حسرت کرتا رہتا ہے-بزبانِ عرفی شیرازی:
ز نقص تشنه لبی دان، به عقل خویش مناز |
’’اگر تمہیں صحرا کو دیکھ کر سمندر کا گمان نہیں ہوا تو یہ اپنی پیاس کی کمی سمجھواپنی عقل کا کمال نہ سمجھو‘‘-
اہل رمز و سخن اس بات کو سمجھیں گے کہ یہ تشنگی کا کمال نہیں بلکہ تشنگی کا نقص ہے کہ سراب سمندر نظر نہ آئے، یعنی مجاز میں اگر حقیقت کا جلوہ نظر نہ آئے، لباسِ بشر میں نُورِ سرمدی کی شناخت نہ ہو تو یہ طلب کا نقص ہے کمال نہیں ہے-کیونکہ طلبِ کامل ہوتی ہی وہ ہےجو جلوے کو حجاب میں مستور نہیں رہنے دیتی- بلکہ عارفانِ کامل کے نزدیک تو حقیقت یہ ہے کہ حُسن پہ تو حجاب ہے ہی نہیں، حجاب تو در اصل ہماری اپنی آنکھوں پہ ہے، سالکانِ راہ کو جب جلوۂ یار نصیب ہوتا ہے تو یوں نہیں کہا جائے گا کہ محبوب نے خود کو مجھ سے چھپایا ہوا تھا اب بے حجاب ہو گیا ہے - بلکہ اسے یوں کہا جائے گا کہ وہ محبوب جس کے جلوے کائنات کے ذرے ذرے سے عیاں ہیں اس نے میری آنکھوں پر پڑے پردے اور حجاب اتار دیئے ہیں- ابو المعانی عبد القادر بیدل دہلویؒ فرماتے ہیں :
زِ موج، پردہ بہ روئے مُحیط نتواں بست |
’’موج سمندر کے چہرے کو نہیں ڈھانپ سکتی - اے بے خبر! تو نے ہی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں وگرنہ (حُسنِ ازل کے چہرے پہ) نقاب کہاں ہے؟ ‘‘
اِسی موضوع پہ امیر مینائی نے بھی بہت کمال کا سخن فرمایا ہے :
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں |
نگاہِ مصطفےٰ (ﷺ) کا کمال یہ ہے کہ جہاں رُخِ انور دیکھنے سے عاشقوں کی دعائیں مستجاب ہو جاتیں یعنی طلب پوری ہو جاتی وہیں طلب دوگنی بھی ہو جاتی -
مُستجاب آمد دُعائے عاشقاں |
’’خَافِضَ الطَّرْفِ، نَظَرُهٗ إِلَى الْأَرْضِ أَطْوَلُ مِنْ نَظَرِهٖ إِلَى السَّمَاءِ‘‘
آپ (ﷺ) نیچی نگاہ والے تھےاور آپ (ﷺ) آسمان کی بجائے زمین کی طرف زیادہ دیکھنے والےتھے-
گو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ(ﷺ)کو انتہاء کی رفعت و بلندی عطا فرمائی ہے کہ اگر میں اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کے قد کو دیکھنے لگوں تو دیکھتے دیکھتے میری نگائیں عالم بالا میں جا پہنچتی ہیں حضرت بیدل کے بقول (رہبرِ عالمِ بالاست خیالِ قدِ یار) - لیکن اتنی رفعت کے باوجود جب وہ چلتے ہیں تو اونچا دیکھ کے نہیں بلکہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے زمین کی طرف دیکھ کر چلتے ہیں –بقول اعلیٰ حضرت(رضی اللہ عنہ):
نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر دُرود |
سیّدنا امام حسن (رضی اللہ عنہ) اور حضرت ہند بن ابی ہالہ (رضی اللہ عنہ) کی اس طویل روایت سے جہاں حلیہ مبارکہ کا علم نصیب ہوتا ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ صحابہ کرام جو آقا کریم (ﷺ) کی ظاہری حیات مبارکہ میں کم سن تھے یعنی صِغار صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اپنےدلوں میں محبتِ مصطفےٰ (ﷺ) پیدا کرنے کے لئے جلیل القدر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کا حلیہ مبارک اور حسن و جمال کا تذکرہ سنا کرتے تھے-
کیونکہ آپ کے دل میں جس کی عزت اور عظمت ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی ایک پہلو سے ہوتی ہے-اب کسی کا والد خوبصورت ہو یا خوبصورت نہ ہو، گندمی رنگ کا ہو یا سیاہ رنگ کا ہو- اُس کو والد کی رنگت، صورت، دولت،تعلیم اور تدریس اور شان و شوکت سے پہلے اُسے اپنے والدسے اس لئے محبت ہوگی کہ وہ اُس کا والدہے کیونکہ یہ ایسی محبت ہے جو شائد اس سے کوئی نہ چھین سکے- لیکن محبت کے بعد دیگر تقاضے پیدا ہوتے ہیں جب ایک بیٹے کو یہ معلوم ہو کہ حسن وجمال میں بھی میرا والد اپنے وقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تو اس کے دل میں اپنے والد کاحترام اور بڑھ جاتا ہے-اسی طرح اگر اسے پھر یہ معلوم ہو کہ درس و تدریس، تعلیم وتلقین میں بھی میرا والد فلاں درجہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں اپنے والد کا احترام اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے- جیسے جیسے کسی کے آباو اجداد کا تذکرہ کسی کے بزرگوں کا تذکرہ اس کے سامنے جتنا زیادہ کیا جائے ان کے حسن و جمال، دلیری و شجاعت، ایمانداری و صداقت اور ذہانت و حِکمت کے بیان سے اس کے اندر اتنی زیادہ رغبت اور محبت بڑھتی چلی جاتی ہے-اب یہاں ایک بات سمجھ لیں کہ بعض انسانی مجبوریاں اور حدیں ہیں-یعنی کسی انسان میں تمام اوصاف یکجا نہیں ہو سکتے اس لیے کہ وہ ایک مادی ترجیحات کے معاشرے میں پلنے والا بشر ہے-ایسی ترجیحات کے معاشروں میں رہنے والا بشر کسی نہ کسی جگہ پہ اپنے نقص کو ظاہر کرے گا، یعنی کہیں تربیت و نفسیات، دنیاوی و روحانی اعتبار میں کوئی نقص رہ گیا تو وہ ظاہر ہوگا جہاں اس کی جلالتِ شان ایک مقام پہ آکے رُک جائے گی-مگر اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ایک نفس ِ قدسیہ ایسا پیدا فرمایا ہے جس کے حسب و نسب،حسن و جمال، جس کی صوت و سیرت، فصاحت و بلاغت، شان و شوکت میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں رکھا (خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ) - اس لئے جب ایک اُمتی کو پتہ چلتا ہے کہ میں ایسی ذاتِ گرامی کا کلمہ پڑھتا ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہر نقص و عیب سے مبرہ پیدا کیا ہے تو امتی کی اپنے آقا کریم (ﷺ) سے محبت انتہاء کوجا پہنچتی ہے-
میرے بھائیو اور بزرگو! ہم پر لازم ہے کہ حسن مصطفےٰ (ﷺ) کا چرچہ عام کیا جائے تا کہ امت کو معلوم ہو کہ جو کاسمیٹک حُسن کا معیار تم نے طے کر رکھا ہے وہ فریب ِ نظر ہے کیونکہ وہ حُسن کاہے کا حسن جو گہنوں کا محتاج ہو-حُسن تو وہ ہوتا ہے کہ جس پہ کوئی گہنا نہ بھی ہو تو بھی وہ بے مِثل لگے بلکہ وہ اپنے نو ر کے ظہور کے یومِ اول سے لے کر اپنی عمر کے ساتھ بڑھتا چلا جائے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کے حُسن اور کمالات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’وَ لَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘[16]
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے‘‘-
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے جس طریق سے چہرۂ مصطفےٰ (ﷺ) کی تعریف بیان فرمائی ہے؛ خدا کی قسم! کائنات میں ایسا حسین نہ پیدا ہوا، نہ ہوگا، نہ ہو سکتاہے جیسا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو پیدا فرمایا ہے- اس لئے جب آپ سیرت النبی (ﷺ) کا مطالعہ کریں تو جہاں خصائل مصطفےٰ (ﷺ) پڑھتے ہیں کہ حضور (ﷺ) جیسا کوئی قائد، سربراہِ خاندان، سپہ سالار، ، عادل و منصف، تبلیغ فرمانے اور ریاست کی تشکیل کرنے والا نہ تھا؛تو یاد رکھو مسلمانوں! تم نبیٔ مختا ر شہِ لولاک (ﷺ) کے محض سیاسی پیروکا رہی نہیں ہو کہ اسلام کو ایک ایمپائر بنانے کیلئے پولیٹیکل اسلام کا نعرہ لگا کے محض اپنے ایمپائر کے حصول کے لئے اپنے نقطہ نظر اور طبقۂ فکر کی بالادستی کے لئے اسلام کے سیاسی نظام کو ڈھال بنا کے پیش کرو اور آگے بڑھو-
یاد رکھو! انصار اور مہاجرین جتنے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) تھے وہ اولاً عظمت وحُسنِ مصطفےٰ (ﷺ) کے اسیر تھے-ریاست کی تشکیل تو 13 سال بعد شروع ہوئی؛ اس لئے ہم اولاً سرکارِ دوعالم(ﷺ) کے حُسن ازلی و ابدی کےقیدی ہیں، اور آقا کریم (ﷺ) کے مقام و فضائلِ روحانی کے جانثار ہیں- جب یہ ساری معرفتِ عظمت ومحبت وجود میں اُتر جاتی ہے تو پھر اس کے بعد لازم آتا ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے جو نظام زندگی عطا فرمایا ہے اس کی عملی جدوجہد کی جائے-
اسی طرح اگر آپ اپنی محبت میں مزید استحکام حاصل کرنا چاہتے ہیں آپ اُس کا ذکر کثرت سے کرتے ہیں کیونکہ جس کا جتنا ذکر کیا جائے اُس کی اتنی محبت دل میں فروغ پاتی ہےجس میں زبان، دل اور دماغ کثرت سے اُس محبت کا ذکر کرنے لگتے ہیں؛ اور اس ذکر میں صرف اس محبت کا ایک پہلو ہی نمایاں نہیں ہوتا بلکہ اس کی شخصیت و کردار اور حسن و جمال کے ہر ہر پہلو پہ ذکر کثرت اختیار کر لیتا ہے-
اسی طرح جب ہم صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی حضور نبی کریم (ﷺ) سے محبت کےپہلوؤں کا مطالعہ کرتے ہیں تو احادیث مبارک کی کتب میں بکثرت ہمیں یہ موضوع نظر آئے گا کہ صغار صحابہ،جن کی کم سنی میں سرکارِ دو عالم (ﷺ) کا وصال ہوگیا، یا تا بعین جو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی خدمت میں حاضر ہوتے اُن کے اکثرسوالات یہی ہوتے کہ ہمارے لئے سرکارِ دوعالم (ﷺ) کا حلیہ شریفہ بیان کیجئے-یعنی سرکار (ﷺ) کا چہرہ مبارک کیسا تھا؟ سرکار(ﷺ) چلتے کیسے تھے، سرکار (ﷺ) لباس کس طرح کا پہنتے تھے؟یہاں سے ہمیں اس رواج کا سراغ ملتا ہے کہ صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) اپنی اولاد، اپنے اہل خانہ،اپنے رشتہ دار اور اپنی محافل و مجالس میں بیٹھنے والے مسلمانوں کے دلوں میں عظمتِ مصطفےٰ(ﷺ) پیدا کرنے کیلئے سرکار دو عالم (ﷺ)کے حلیہ مبارک کا تذکرہ کیا کرتے تھے-کیونکہ یہ حضور (ﷺ) کے وجود اقدس کا اعجاز بھی تھا جس نے انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا کہ اس کے بعد کسی دولت مند کی دولت، صاحب ثروت کی ثروت، کسی حسین کا حسن ان کے دلوں کو اپنی جانب کھینچ نہ سکا-اس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں کہ کس محبت سے جلیل القدرصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) حضور نبی کریم (ﷺ) کا حلیہ شریف بیان کرتے ہیں-
(1) حضُور نبی کریم (ﷺ) کا حسن بیان کرتے ہوئے حضرت حسان بن ثابت (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :
’’وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ |
’’آپ (ﷺ)سے حسین تر کسی آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ (ﷺ) سے بڑھ کر کوئی حسین جنم دیا ہے-آپ(ﷺ) ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں-گویا کہ آپ (ﷺ) کو آپ (ﷺ) کی خواہش کے مطابق پیداکیا گیا‘‘-
(2)امام ترمذیؒ لکھتے ہیں، حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ :
’’مَا بَعَثَ اللهُ نَبِيًّا إِلَّا حَسَنَ الْوَجْهِ، حَسَنَ الصَّوْتِ، وَ كَانَ نَبِيُّكُمْ (ﷺ) حَسَنَ الْوَجْهِ، حَسَنَ الصَّوْتِ‘‘[18]
’’اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا وہ خوبصورت چہرے والا اور خوبصورت آواز والا تھا اور تمہارے نبی مکرم (ﷺ) بھی خوبصورت چہرے والے اور خوبصورت آواز والے ہیں ‘‘-
(3)حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :
’’كَانَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) حَسَنَ الْجِسْمِ‘‘
’’رسول اللہ (ﷺ) خوبصورت جسم والے ہیں‘‘-
(4)حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ:
’’أَزْهَرَ اللَّوْنِ كَاَنَّ عَرَقَهُ اللُّؤْلُؤُ ‘‘[19]
’’رسول اللہ(ﷺ)کا رنگ مبارک سفید چمکدار تھا، گویا کہ سفیدچمک دار موتی ہے‘‘-
(5)امام ترمذیؒ نے ’’سنن الترمذى، کتاب المَنَاقِبْ‘‘، امام احمد بن حنبلؒ نے ’’مسنداحمد‘‘اور امام ابن حبانؒ نے ’’صحيح ابن حبان، كتاب التاريخ‘‘ میں حدیث پاک نقل فرمائی ہے :
’’حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَّسُوْلِ اللہِ(ﷺ) كَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِىْ فِىْ وَجْهِهٖ‘‘
’’میں نے رسول پاک (ﷺ) سے زیادہ حسین و جمیل کوئی شئے نہیں دیکھی(جب میں آپ (ﷺ) کی طرف دیکھتا تو یوں لگتا) گویا کہ آفتاب آپ (ﷺ) کے چہرے مبارک میں چل رہا ہے ( یعنی اُتر آیا ہے) ‘‘-
(6)حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :
’’مَا شَمَمْتُ عَنْبَرًا قَطُّ، وَلَا مِسْكًا، وَلَا شَيْئًا أَطْيَبَ مِنْ رِيْحِ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) وَلَا مَسِسْتُ شَيْئًا قَطُّ دِيْبَاجًا، وَلَا حَرِيْرًا أَلْيَنَ مَسًّا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ)‘‘[20]
’’میں نے کسی عنبر، کستوری، یاکسی اورچیز کو نہیں سونگھا جو رسول اللہ (ﷺ) کی خوشبو سے بہتر ہو اور نہ میں نے دیباج یا ریشم کو چھوا جو چُھونے میں رسول اللہ (ﷺ) کے جسم مبارک سے نرم ہو‘‘-
(7)حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’كَانَ رَسُوْلُ اللہِ (ﷺ) إِذَا مَرَّ فِيْ الطَّرِيْقِ مِنْ طُرُقِ الْمَدِيْنَةِ وُجِدَ مِنْهُ رَائِحَةُ الْمِسْكِ ‘‘
’’جب حبیب خدا(ﷺ)مدینہ طیبہ کے کسی راہ پر گزر فرماتے تو لوگ اس راہ میں خوشبو پاتے (یعنی سارا دن خوشبو اس گلی سے آتی رہتی ) ‘‘-
(اور لوگ پوچھنے والوں کو بتاتے کہ ):
’’مَرَّ رَسُوْلُ اللہِ (ﷺ) فِيْ هَذَا الطَّرِيْقِ الْيَوْمَ‘‘[21]
’’آج رسول اللہ (ﷺ)اس راہ سے گزرے ہیں‘‘-
(8)حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
’’أَنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) لَمْ يَسْلُكْ طَرِيْقًا أَوْ لَا يَسْلُكُ طَرِيْقًا فَيَتْبَعُهٗ أَحَدٌ إِلَّا عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ سَلَكَهٗ مِنْ طِيْبِ عَرْفِهٖ ‘‘[22]
’’حضور نبی اکرم (ﷺ)کسی بھی راستے پر نہیں چلے یا کسی راستے پر نہیں چلتے تھے-پس جو کوئی آپ (ﷺ) کو تلاش کرتا مگر یہ کہ وہ آپ (ﷺ) کی خوشبو سے پہچان لیتا کہ آپ (ﷺ) اِس راستے پر تشریف لے گئے ہیں‘‘-
راوی نے کہا :’’ مِنْ رِيْحِ عَرَقِهٖ‘‘
’’آپ (ﷺ) کے پسینہ مبارک کی مہک سے پہچان لیتا‘‘-
(10)حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)بیان فرماتے ہیں :
ہمارے پاس حضور نبی اکرم (ﷺ) تشریف لائےاور دن میں سو گئے:
فَعَرِقَ وَجَاءَتْ أُمِّى بِقَارُوْرَةٍ فَجَعَلَتْ تَسْلُتُ الْعَرَقَ فِيْهَا فَاسْتَيْقَظَ النَّبِىُّ (ﷺ) يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا هَذَا الَّذِىْ تَصْنَعِيْنَ
’’پس آپ (ﷺ) کو پسینہ مبارک آیا-میری والدہ ایک شیشی لے کر آئیں اور آپ (ﷺ) کا پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں-حضور نبی پاک (ﷺ) بیدار ہوئے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے اُم سُلَیم !یہ کیا کر رہی ہو ؟
میری امی جان نے عرض کیا:
’’هَذَا عَرَقُكَ نَجْعَلُهٗ فِىْ طِيْبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيْبِ‘‘[23]
یہ آپ(ﷺ) کا پسینہ مبارک ہےجس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے‘‘-
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:
’’ایک شخص حضور نبی اکرم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی: ’’یارسول اللہ (ﷺ)! میری بیٹی کی شادی ہے‘‘
وَإِنِّيْ أُحِبُّ أَنْ تُعِيْنَنِيْ بِشَيْءٍ
’’اور میری یہ خواہش ہے کہ آپ(ﷺ) میری کسی طرح مدد فرمائیں‘‘-
آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: تم کل ایک کھلے منہ والی شیشی اور ایک لکڑی لے کر آنا-
حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ:
فَأَتَاهُ بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ وَعُوْدِ شَجَرٍ فَجَعَلَ يَسْلُتُ الْعِرْقَ مِنْ ذِرَاعَيْهِ حَتَّى اِمْتَلَاتِ الْقَارُوْرَةُ خُذْ وَأْمُرْ بِنْتَكَ إِذَا أَرَادَتْ أَنْ تَطَيَّبَ أَنْ تَغْمِسَ هَذَا الْعُوْدَ فِي الْقَارُوْرَةِ وَتطَيَّبَ بِهٖ
’’ وہ شخص اگلے دن کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی لے کر آیا -آپ (ﷺ) نے (لکڑی سے) اپنے بازوؤں پر سے پسینہ اکٹھا کر کے اُس شیشی میں ڈالنا شروع کردیا -یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی- آپ (ﷺ) نے اس شخص کو شیشی دیتے ہوئے فرمایا :اس کو پکڑ ( لے اور اس کو اپنے گھر لے جا ) اور اپنی بیٹی سے جا کر کہو کہ اس لکڑی کو اس شیشی میں ڈبو کر نکالے اور پھر اپنے آپ کو اس سے خوشبو لگائے
(حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں):
’’ فَكَانَتْ إِذَا تَطَيَّبَتْ شَمَّ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ رَائِحَةَ ذَلِكَ الطِّيْبِ، فَسُمُّوْا بَيْتَ الْمُطَيَّبِيْنَ‘‘[24]
’’پس جب وہ خوشبو لگاتی تو پورا شہر مدینہ اس کی خوشبو سے مہک اُٹھتا‘‘اور اِسی بناء پر اُنہوں نے اُس گھر کا نام ’’خوشبوؤں والا گھر‘‘ رکھا‘‘-
(11)حضرت ابو اسحاق (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت البراء(رضی اللہ عنہ)سے سنا ہے وہ بیان فرماتے تھے :
’’كَانَ النَّبِيُّ(ﷺ) مَرْبُوْعًا، وَقَدْ رَأَيْتُهٗ فِيْ حُلَّةٍ حَمْرَاءَمَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْهُ‘‘[25]
’’حضور نبی پاک (ﷺ)متوسط قامت کے تھےاور میں نے آپ (ﷺ)کو سرخ رنگ کے حلہ میں دیکھا اور میں نے آپ(ﷺ) سے زیادہ حسین چیز کوئی نہیں دیکھی‘‘-
اس لئے ضروری ہے حضور نبی کریم (ﷺ)کی ذاتِ گرامی سے اپنے تعلقِ روحانی کو مضبوط کیا جائے جس کی بنیاد آقا کریم (ﷺ) کے شمائل اور فضائل پہ ہے- جس کے لئے ہمیں چاہیے کہ خالق کائنات نے جو خود عظمت و رفعتِ مصطفےٰ(ﷺ)قائم فرمائی ہے کل مخلوقات پہ اس کا چرچا عام کیا جائے- کیونکہ امت کےدلوں میں جب محبت و عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) پیدا ہوگا تو پھر یہ خود بخود حضور نبی کریم (ﷺ) سے وفا کا عزم پورا کرے گی کیونکہ آقا کریم (ﷺ) سے محبت ایمان کی ابتداء بھی ہے اور انتہاءبھی-
اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی یہی دعوت ہے کہ آؤ! اور اپنے دلوں کو عشقِ مصطفٰے(ﷺ) سے منور و معطر کرو- بالخصوص نوجوان ساتھیوں کو یہ دعوت دینا چاہوں گا کہ آپ آئیں اور تحریک میں شامل ہو کر اس کے شانہ بشانہ اس پیغام محبت و عشقِ مصطفٰے کو عام کریں کیونکہ اس اُمت کا ڈوبتا بیڑہ عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کے وسیلہ سے ہی پار ہوگا-
٭٭٭
[1](صحیح بخاری : کتاب الجمعہ)
[2](التحریم:6)
[3](صحيح بخاری، کتاب الحدود)
[4](صحيح البخارى، کتاب الایمان)
[5](شعب الإيمان)
[6](مسند احمد بن حنبل)
[7]( سُنن الدارمى، باب كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِ النَّبِىِّ ؐ)
[8](المعجم الاوسط، رقم الحدیث: 6285)
[9](صحيح البخارى ، کتاب المناقب)
[10]( ایضاً)
[11](اخلاق النبی (ﷺ)
[12]( دلائل النبوة)
[13]( الأنوار فی شمائل النبی المختار)
[14](صحيح مسلم ،کتاب الايمان)
[15](النجم:3-4)
[16](الضحیٰ:4)
[17](ديوانِ حسان بن ثابتؓ)
[18](اَلشَّمَائِلُ الْمُحَمَّدِيَّة وَالْخَصَائِلُ الْمُصْطَفْوِيَّةؐ)
[19](صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
[20](صحيح مسلم ، باب طِيبِ رَائِحَةِ النَّبِىِّ (ﷺ)
[21](مسند ابی یعلی الموصلی ، رقم الحدیث : 3125)
[22](سُنن الدارمی، المقدمہ، بَابٌ فِي حُسْنِ النَّبِيِّ ؐ)
[23](صحیح مسلم ،کتاب الفضائل)
[24](المعجم الکبیر/ المعجم الاوسط)
[25](صحیح بخاری، کتاب اللباس)