اس دنیا میں بعض لوگ اپنی کوئی صفت اور وصف پیدا نہیں کر سکتے، اس لئے ان کا تعارف فقط ان کی پیدائش پہ والدین کی طرف سے رکھے جانے والے نام سے ہوتا ہے- بعض لوگوں کا تعارف اس نام سے بڑھ کر اُس منصب تک محدود رہ جاتا ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی پیشے کے اعتبار سے حاصل کیا ہو-کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم و تربیت اور اپنی تحقیق میں کچھ نمایاں خدمات سرانجام دے جاتےہیں تو ان کو ملنے والا لقبِ اعزاز بھی ان کے پیشہ ورانہ منصب کے ساتھ ان کے تعارف میں شامل ہوتا ہے-زیادہ سے زیادہ کسی کو تین یار چار القاب سے یاد کیا جاتا ہے اور کوئی بہت ہی ذہین قسم کا آدمی ہو، کسی شعبے میں کوئی نابغہ روزگار پیدا ہوجائے تو اس کو چھ یا سا ت القاب دے دیئے جاتے ہیں- اس سے زائد لوگوں کیلیےممکن بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو اتنے زیادہ القاب اور تعارفی اسماء سے یاد رکھ سکیں-
کسی کے زیادہ القاب اور اسماء اس کے اوصاف کی کثرت کو ظاہر کرتے ہیں-جس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ اس سے کتنی زیادہ محبت کرتے ہیں، اس کے کتنے زیادہ پہلوؤں کو جانتے ہیں اور وہ آدمی اپنی شخصیت کے اعتبار سے کتنا ہمہ جہت ہے-فرض کریں اگر زید میڈیکل ڈاکٹر ہے تو اس کو ڈاکٹر کہا جائے گا ؛ اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہو جائے تو اس کوپروفیسر کہا جائے گا؛ اسی طرح اگر وہ کسی فوجی ادارے میں ڈاکٹر اورپروفیسر تھا تو اس کے ساتھ وہ فوجی اعزاز کرنل ڈاکٹر پروفیسریا جنرل ڈاکٹر پروفیسر بھی لگ جائیں گے-
بزرگانِ دین نے القاب اور تعارفی اسماء پہ بڑا خوب صورت کلام کیا ہے-وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے القاب و اسماء کثرت اختیار کر جائیں یعنی دو سے چار، چار سے چھ ہو جائیں یا جتنے زیا دہ بڑھتے جائیں اتنی زیادہ اس شخص کی اہمیت، قدر و منزلت، عظمت و بزرگی، عالی مقامت اور رفعت لوگوں میں واضح ہوتی ہے- مثلاً ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں کہ:
’’ابن فارس فرماتے ہیں کہ :
’’كَثْرَةُ الْاَسْمَاءِ تَدُلُّ عَلَى شَرْفِ الْمُسَمّٰى الْمُشْعِرَةِ بِكَثَرَةِ النَّعُوْتِ وَالْأَوْصَافِ ‘‘[1]
’’اسماء کی کثرت مسمی کے شرف پر دلالت کرتی ہے جو کثرت اوصاف اور کثرت خصائل حمیدہ کا شعور دیتے ہیں‘‘-
ملا علی قاریؒ دوسرے مقام پہ فرماتے ہیں کہ:
’’اَلْقَوَاعِدُ الْمُقَرِّرَةُ أَنَّ كَثْرَةَ الْأَسْمَاءِ تَدُلُّ عَلَى عَظَمَةِ الْمُسَمَّى‘‘[2]
’’یہ مسلمہ قواعد ہیں کہ اسماء کی کثرت مسمیٰ کی عظمت پر دلالت کرتی ہے‘‘-
عبد الملك بن محمد بن ابراہيم النيسابوری الخركوشی (المتوفى: 407ھ) فرماتے ہیں کہ:
’’وَاعْلَمْ أَنَّ كَثْرَةَ الْأَسْمَاءِ تَدُلُّ عَلَى شَرْفِ الْمُسَمّٰى وَعلُوِّ مَقَامِهٖ‘‘[3]
اور تو جان لے کہ اسماء کی کثرت مسمٰی کے شرف اور اس کے عالی مقام ہونے پر دلالت کرتی ہے-
محمد بن يوسف الصالحی الشامی (المتوفى: 942ھ) لکھتے ہیں کہ علمائے کرامؒ نے فرمایا کہ :
’’كَثْرَةُ الْأَسْمَاءِ دَالَّةً عَلَى عَظْمِ الْمُسَمّٰى وَ رِفْعَتِهٖ‘‘[4]
’’اسماء کی کثرت مسمیٰ کی عظمت اور اس کی رفعت و بلندی پر دلالت ہے‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ) کے اسماء شریف فقط بطور ’’عَلم‘‘ کے نہیں ہیں بلکہ آپ (ﷺ) کے اسماء مبارک بطور آپ (ﷺ) کے وصف کے ہیں یعنی جتنے آپ (ﷺ) کے اسماء مبارک ہیں وہ حقیقت میں آپ (ﷺ)کے اوصاف مبارک ہیں-
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ:
’’فَإِنَّهُ (ﷺ) لَيْسَ لَهٗ اِسْمٌ جَامِدٌ نَعَمْ لَهٗ أَسْمَاءٌ نُقِلَتْ مِنَ الْوَصْفِيَّةِ إِلَى الْعَلَمِيَّةِ، كَاَحْمَدَ وَمُحَمَّدٍ وَغَيْرِهِمَا وَلَهُ صِفَاتٌ بَاقِيَةٌ عَلَى أَصْلِهَا مُخْتَصَّةٌ بِهٖ‘‘[5]
’’پس رسول اللہ (ﷺ) کا اسم مبارک جامد نہیں ہے ہاں آپ (ﷺ) کے اسماء مبارک ایسے ہیں جنہیں وصفیت سے علمیت کی طرف نقل کیا گیا ہےجس طرح احمد (ﷺ) اور محمد (ﷺ) اور ان دونوں کے علاوہ بھی-آپ (ﷺ) کی اس کے علاوہ بھی باقی کئی صفات ہیں جو اپنے اصل پہ آپ (ﷺ) کے ساتھ خاص ہیں‘‘-
عزیزانِ گرامی! اندازہ لگائیےاس شخصیت کی عظمت و رفعت، ہمہ جہتی اورکثرت ِاوصاف و کمالات کا کہ جس کی انتہاء نہیں ہے- کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنے اسماء اور صفات کی کثرت رکھی ہے اسی طرح اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو بھی کثرتِ اسماء اور صفات عطا کیں اور آقا کریم (ﷺ) کو کثیر الاوصاف اور کثیرالصفت شخصیت کا مالک بنایا - اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی تاریخِ انسانی میں وہ واحد ہستیٔ مبارکہ ہیں جن کو کثرتِ اوصاف کی وجہ سے کثرتِ اسماء عطا فرمائی گئی-
آج کی گفتگو کا موضوعِ سخن سیرت مبارکہ (ﷺ) کے ایک مخصوص پہلو خاتم النبیین (ﷺ) کے کثرتِ اسمائے گرامی اور کثرتِ اوصاف کے متعلق ہے-
اگر آپ کتبِ احادیث مثلاً امام بخاریؒ کی ’’الجامع الصحیح‘‘ جسے عرفِ عام میں ’’بخاری شریف‘‘ کہتے ہیں، ’’صحیح مسلم‘‘، ’’سنن الترمذی‘‘،امام بیہقیؒ کی ’’شعب الایمان‘‘، امام ہیثمیؒ کی ’’مجمع الزوائد‘‘، امام مالکؒ کی ’’مؤطا امام مالک‘‘،امام ابن حبانؒ کی ’’صحیح ابن حبان‘‘، امام بغویؒ کی ’’شرح السنہ‘‘،علامہ ابن اثیرؒ کی ’’جامع الاصول‘‘، خطیب تبریزیؒ کی ’’مشكاة المصابيح‘‘، ملا علی قاریؒ کی ’’جمع الوسائل فی شرح الشمائل‘‘،قاضی عیاض مالکیؒ کی ’’الشفا بتعريف حَقُوقِ الْمُصْطفےٰ (ﷺ)‘‘ اور الغرض سیرت اور احادیثِ مبارکہ کی کتب کا جائزہ لیں ہر امامِ حدیث اور امامِ سیرت نے سرکار دو عالم (ﷺ) کے اسمائے سیرت پر الگ دلائل قائم کیے ہیں اور کئی محدثین اور آئمۂ سیرت نےآقا کریم (ﷺ) کے اس خاص پہلوئے سیرت پر مستقل کتب لکھی ہیں-
مثلاً امام سیوطیؒ کی دو کتب ہیں:
- اَلْرِّيَاضُ الْأَنِيْقَةُ فِيْ شَرْحِ أَسْمَاءِ خَيْرِ الْخَلِيْقَةِ
- الْبَهْجَةُ السَّوِيَّةُ فِي الْأَسْمَاءِ النَّبَوِيَّةِ
امام ابن فارس اور امام قرطبیؒ نے ’’اَسماء النبی (ﷺ) ‘‘ کے نام سےمستقل کتب تصنیف فرمائی ہیں-
جس طرح ہمارے ہاں قبیلوں اور برادریوں میں مختلف رواج ہوتے ہیں اسی طرح صحابہ کرام، تابعین اورتبع تابعین (رضی اللہ عنھم)کے ہاں بھی ایک رواج تھا جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دین، محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول (ﷺ) میں خالص کیا کرتے تھے؛اور وہ یہ رواج یہ تھا کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) آقا کریم (ﷺ) کے اسمائے صفات کو یاد کیا کرتے اور لوگوں کو یاد کروایا کرتے کہ مالک کریم نے میرے محبوب کریم (ﷺ) کو کتنا جامع شخصیت کا مالک بنایا ہے کہ انسان جس تہذیب و تمدن، جس زمانے اور عہد، جس جدت اور ایجاد کے ساتھ بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے فیض حاصل کرنا چاہتا ہے وہ فیض پاسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو صفات و کمالات کی کثرت عطا فرمائی ہے-اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رواج کو اپنے ہاں رائج کریں اور فروغ دیں-
امام ابو جعفر الطحاویؒ نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں، امام حاکمؒ نے ’’ المستدرك على الصحيحين ‘‘ میں، علامہ ابو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرّي البغدادیؒ (المتوفى: 360ھ) نے ’’الشریعہ‘‘ میں حدیث پاک نقل فرمائی ہے کہ:
’’حضرت عُتْبَہ بن مُسْلِم، (رضی اللہ عنہ) حضرت نافع بن جُبَيْر (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عبد المالک بن مروان کے پاس آئے اور فرمایا :
أَتَحْصِيْ أَسْمَاءَ رَسُوْلِ اللّهِ (ﷺ) الَّتِيْ كَانَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، يَعُدُّهَا؟
کیا تم رسول اللہ (ﷺ) کے وہ اسماء مبارکہ شمار کرسکتے ہو؟ جو حضرت جبیر بن مُطعِم (رضی اللہ عنہ) شمار فرمایا کرتے تھے؟
تو انہوں نے کہا :
نَعَمْ، هِيَ سِتٌّ: مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَخَاتَمٌ وَحَاشِرٌ وَعَاقِبٌ وَمَاحٍ،
ہاں وہ چھ ہیں’’محمد(ﷺ)، احمد(ﷺ)، خاتم (ﷺ)، حاشر(ﷺ)، عاقب(ﷺ)، ماح (ﷺ) ‘‘
پس جہاں تک ’’حاشر(ﷺ)‘‘ کا تعلق ہے تو اس کا اظہار قیامت کے روز ہوگا جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے ’’نَذِيْرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ‘‘ اور جہاں تک ’’عاقب (ﷺ)‘‘ کا تعلق ہے کہ آپ (ﷺ) تمام انبیاء کرام (علیھم السلام) کے بعد تشریف لائے اور جہاں تک ’’ماح ‘‘کا تعلق ہے تو بے شک اللہ تعالیٰ آپ (ﷺ) کے ذریعے ان تمام کی خطاؤں کو مٹاتا ہے جو آپ (ﷺ) کی پیروی کرتا ہے‘‘-
اس حدیث مبارکہ کے دو الفاظ ’’أَتَحْصِيْ أَسْمَاءَ‘‘ اور ’’يَعُدُّهَا‘‘ سے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا طریق اور رواج واضح ہوتا ہے کہ وہ آقا کریم (ﷺ) کےاسماء مبارک کو گنتے اور یاد کرتے تھے جس کی بناء پر وہ اپنے خاندان، کنبہ اور اپنی خدمت میں آنے والے تابعین کی عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) میں تربیت سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے اسمائے گرامی اور اوصاف مبارکہ سے کیا کرتے تھے- اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں، اپنے بچوں، اپنی قربت اور رفاقت ،اپنی مجلسوں میں اور جہاں جہاں ہو سکے وہاں سرکار دو عالم (ﷺ) کے اسماء اور اوصاف مبارکہ کا تذکرہ کیا جائے-
اب اس سے اگلے مرحلے میں آئیں کے سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے اسماء مبارک کتنے ہیں؟یہاں چند روایات ذکر کرنے سےقبل ایک بات ذہین نشین کروانا چاہوں گا کہ اہل ایمان اپنے ایمان کی پوری توجہ اور حضوری کےساتھ ان روایات کا مطالعہ کریں-
امام قرطبیؒ’’تفسير القرطبی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
حضرت ابن عباسؒ سے روایت ہےکہ:
’’أَنَّ لِمُحَمَّدٍ (ﷺ) مِائَةً وَثَمَانِيْنَ اِسْمًا‘‘
’’سیدنا محمد (ﷺ) کے 180 اسماء مبارک ہیں ‘‘-
بعض نے کہا ہے کہ :
أَسْمَاءُ النَّبِيِّ (ﷺ) تِسْعَةٌ وَّتِسْعُوْنَ اَسْمًا عَدَدُ أَسْمَاءَ اللهِ الْحُسْنٰى،
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کے ننانوے اسماء مبارک ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنٰی کی تعداد ہے‘‘-
پھر مزید امام قرطبیؒ نے ارشاد فرمایا :
وَلَوْ بُحِثَ عَنْهَا بَاحِثٌ لَبَلَغَتْ ثَلَاثَمِائَةِ اِسْمٍ
’’اگر ان اسماء مبارک کے بارے میں مزید تحقیق کی جائے تو ان کی تعداد 300 تک پہنچ جائے گی‘‘-
ملا علی قاریؒ نے امام سیوطیؒ کے رسالہ ’’اَلْبَهْجَةُ السَّوِيَّةُ فِي الْأَسْمَاءِ النَّبَوِيَّةِ‘‘ کی تلخیص لکھی جس میں انہوں نے فرمایا کہ:
’’وَقَدِ اشْتَمَلَتْ عَلَى بِضْعَةٍ وَّخَمْسِمِائَةٍ مِنَ الصِّفَاتِ الْمُصْطَفَوِيَّةِ، وَلَخَّصْتُهَا بِإِخْرَاجِ تِسْعَةٍ وَّتِسْعِيْنَ اِسْمًا مِنْ صِفَاتِهِ الْعُلْيَا عَلَى طِبْقِ عَدَدِ أَسْمَاءِ اللهِ الْحُسْنَى‘‘[6]
’’اور یہ حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کے 500سے زائد صفاتی ناموں پر مشتمل ہے - (ملا علی القاری فرماتے ہیں ) اور میں نے ان کو مختصر کرکے ننانوے نام وہ لکھیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء الحسنی کی تعداد کے برابر ہیں-
حافظ الحدیث، شارح بخاری علامہ ابن حجر العسقلانی الشافعیؒ لکھتے ہیں کہ بعض علمائے کرام نے کہا ہے کہ :
’’أَسْمَاءُ النَّبِيِّ (ﷺ) عَدَدُ أَسْمَاءِ اللّهِ الْحُسْنَى تِسْعَةٌ وَّ تِسْعُوْنَ اِسْمًا وَ نَقَلَ اِبْنُ الْعَرَبِيِّ فِي شَرْحِ التِّرْمَذِيِّ عَنْ بَعْضِ الصُّوفِيَّةِ أَنَّ لِلهِ أَلْفَ اِسْمٍ وَ لِرَسُوْلِهٖ أَلْفَ اِسْمٍ‘‘[7]
’’اسماءُ النبی (ﷺ) کی تعداد اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنی جتنی ہے یعنی ننانوے اسماءِ مبارک ہیں؛اور ابن عربیؒ نے شرح ترمذی میں بعض صوفیاء کرام سے یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہزار نام ہیں اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کے بھی ہزار نام ہیں‘‘-
اسی قول کی تائید میں شارح بخاری حافظ بدر الدین عینیؒ لکھتے ہیں کہ بعض علمائے کرام سے منقول ہے کہ
’’أَن لِلهِ تَعَالیٰ أَلْفَ اِسْمٍ وَكَذَا لِلرَّسُوْلِ(ﷺ)‘‘[8]
اللہ تعالیٰ کے ہزار اسماء مبارکہ ہیں اور اسی طرح حضور نبی کریم (ﷺ) (کے بھی ہزار اسماء مبارکہ ہیں) ‘‘-
امام سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ:
’’اور بعض علمائے کرام نے کہا ہے کہ :
’’لِلنَّبِيِّ (ﷺ) أَلْفُ اِسْمٍ بَعْضُهَا فِي الْقُرْآنِ وَ الْحَدِيْثِ وَبَعْضُهَا فِي الْكُتُبِ الْقَدِيْمَةِ‘‘[9]
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کے ہزار اسماء مبارک ہیں ان میں سے بعض قرآن مجید ا ور حدیث پاک میں ہیں اوران میں سے بعض کتب قدیمہ میں ہیں‘‘-
یعنی بعض اسماء مبارک قرآن مجید میں بیان ہوئے، بعض اسماء حدیثِ رسول (ﷺ) میں بیان ہوئے اور بعض اسماء سرکار دو عالم (ﷺ)کے ایسے ہیں جن کا ذکرقبل اسلام آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں بیان ہوا ہے- گویا اگر یہ لٹریچر اکھٹا کیا جائے تو اس میں خاتم النبیین (ﷺ) کے اسماء مبارک کی تعداد گنتی اور شمار سے باہر ہو جائے- یعنی سرکار دو عالم (ﷺ) کے اسماء 99 یا 180 یا 300 یا 500 تک محدود نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور حبیب مکرم (ﷺ) کے اسماء الحسنیٰ کی حقیقی تعداد کا شمار ممکن ہی نہیں لیکن جو شمار ہوئے ہیں ان کی تعداد 1000 ہے-
مقامِ توجہ یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم(ﷺ)کے اسماء آپ (ﷺ)کے کمالات اوراوصاف کو بیان کرتے ہیں- حالانکہ عام طور پر کوئی بھی شخص کتنا جامع الصفات کیوں نہ ہو جائے اس کے القاب اور اسماء کی تعداد 5 یا 6 سے زائد نہیں ہے اور اگر اس میں مبالغہ آرائی بھی کر دیں تو 10 یا 12 سے تجاوز نہیں کرتی- لیکن اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے اسماء کو کثرت عطاء فرمائی ہے کیونکہ یہ ’’اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ‘‘ کے اوپر دلیل ہے کہ جس طرح سرکار دو عالم (ﷺ) کو آل، امت، عبادت، مقامات و اوصاف، معجزات اور فضائل کی کثرت عطاء فرمائی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو اسماء کی بھی کثرت عطاء فرمائی-
اب آ ئیں! اس سے بھی آگے اس کے ایک مزید لطیف اور نازک پہلوپہ کہ آقا کریم(ﷺ) کے اسماء آپ (ﷺ) کی صفات اور کمالات کا بیان ہے-جبکہ کمالاتِ مصطفوی (ﷺ) کا شمار ہے ہی نہیں اورممکن بھی نہیں- لہٰذا حقیقتاً اسماء ِ مصطفٰے (ﷺ) کا شمار بھی اللہ جانتا ہے کہ کتنے ہیں- جس طرح اس کی صفات اَن گنت ہیں اسی طرح محمد مصطفٰے احمد مجتبیٰ (ﷺ)کے کمالات بھی ان گنت ہیں اور اسماء بھی اَن گِنت ہیں- یعنی جب اس نے اپنے لیے ایک جامع صفت کا اظہار کیا ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کہ اس کی ربوبیت عالمین کو محیط ہےتو عالمین اور ربوبیت میں جہاں بھی تعلق اور رشتہ قائم ہوگاتو نئی سے نئی صفات اپنا اظہارکرتی جائیں گی-اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کے لیے بھی قرآن میں فرمایا ’’وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ یعنی جس طرح اس کی ربوبیت عالمین کےلیے ہے اسی طرح مصطفےٰ (ﷺ) کی رحمت بھی عالمین کے لیے ہے-اس لئے جہاں جہاں جہانوں کا رحمت سے رابطہ جڑتا جائے گا وہاں وہاں حضور نبی کریم (ﷺ) کی صفات کا اظہار ہوتا جائے گا-
جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے تو اس دنیا کو قرآن ’’متاعِ قلیل‘‘کہتا ہے- لہٰذا متاعِ قلیل میں عقل بھی متاعِ قلیل ہے اس لئے قلیل کے بس میں ہی نہیں ہے کہ کثیر کا شمار کر سکے-
مومنو! یاد رکھو! دنیا اور عقل قلیل ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان کثیر نہیں بلکہ کوثر ہے، اکثر میں بھی مبالغہ ہے- اس لیےقلیل کی بساط نہیں کثیر کا شمار کر سکے لہٰذا جب بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی عظمت و رفعت کو دیکھنے لگو تو اپنے عقل کی محدودیت سے نہیں بلکہ مصطفٰےکریم (ﷺ) کی عظمت کی لا محدودیت سے دیکھا کرو-
سرکار دو عالم (ﷺ) کی بعض صفات علماءِ کرام نے ایسی بیان کیں ہیں جو صفاتِ باری تعالیٰ کا اظہار ہیں-اس پہ امام جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض مالکی اندلسیؒ نے فرمایا کہ:
’’قَدْ خَصَّ اللهُ نَبِيَّهٗ (ﷺ)بِأَنْ سَمَّاهُ مِنْ اِسْمَائِهٖ بِنَحْوِ مِنْ ثَلَاثِيْنَ إسْمًا قُلْتُ قَدْ وَقَعَ لَنَا عِدَّةُ أَسْمَاءٍ أُخْرَ زِيَادَة عَلَى ذَلِكَ‘‘[10]
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (ﷺ) کو خاص فرمایا ہے کہ آپ (ﷺ) کو تیس نام ایسے عطا فرمائے ہیں (جو اللہ تعالیٰ کے خود اپنے اسماء مبارک ہیں)- (امام سيوطیؒ فرماتے ہیں کہ) مَیں کہتا ہوں کہ ہمارے نزدیک ان اسماء کی تعداد ان (30) سے زیادہ ہے‘‘-
یعنی امام جلال الدين السيوطی ؒنے’’الخصائص الکبریٰ‘‘ میں قاضی عیاضؒ کے حوالہ سے تیس اسماء مبارک لکھے ہیں اور پھر اپنی طرف سے ان تیس سے بھی زیادہ لکھے ہیں-
قاضی عیاضؒ نے ’’الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے (ﷺ)‘‘ میں ان تیس اسماء کا ذکر فرمایا ہے-یہاں اس کتاب ’’الشفاء‘‘ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے بتانا چاہوں گا جسے میں اکثر کئی دیگر مقامات پر ذکر کر چکا ہوں کہ اس کتاب کا نام قاضی عیاض ما لکیؒ نے شفاء نہیں رکھا-اس کتاب کا نام انہوں نے ’’بتعریف حقوق المصطفٰے(ﷺ) رکھا لیکن یہ کتاب جیسے جیسے اندلس، قرطبہ، غرناطہ، مغرب، افریقہ، عرب و عجم،ہند اور جہاں جہاں تک پہنچی وہاں کےعلماء اور محدثین کرام نے اس کا مطالعہ کیا اور فرمایا کہ اس کو کتاب نہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ تو حقیقتاً شفاء ہے اور ایسی شفا ہےجس سے دلوں کے وسوسےزائل ہوتے ہیں جوشیطان مسلمانوں کے دلوں میں ڈالتا ہے- ان میں بعض وسوسے ایسے ہیں جو تاجدارِ انبیا ء (ﷺ) کی ذات گرامی سے پیدا ہوتے ہیں-اس لئے جس طرح دھوبی کپڑوں سے میل کو دھو دیتا ہے قاضی عیاض مالکی ؒ کی یہ کتاب ان وسوسات کو دھو ڈالتی ہے- اسی بناء پر علماءِ کرام نے اس کا نام ’’الشفاء‘‘ رکھا-اسی لیے ’’الشفاء‘‘ علمائے حق کے نزدیک سیرت النبی (ﷺ) کا محفوظ ترین منہج ہے-
قاضی عیاضؒ نے جو آپ (ﷺ) کے تیس اسماء مبارک ذکر فرمائے ہیں ہم ان میں سے برکت کے لئے بارہ اسمائے مبارکہ کا ذکر کرتے ہیں-جس میں قاضی عیاض مالکیؒ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نےان اسماء مبارکہ میں اکثر کی دلیل قرآن پاک سے فراہم کی کہ سرکار دو عالم (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نےکس طرح اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے کہ ان کو اپنے اسمائے مبارک کا نورعطا فرمایا-
- اَلْحَمِيْد/ مَحْمُوْد
آپؒ فرماتے ہیں کہ:
’’فَمِنْ أَسْمَائِهٖ تَعَالٰى ’’اَلْحَمِيْدُ‘‘ وَمَعْنَاهُ الْمَحْمُوْدُ لِأَنَّهٗ حَمِدَ نَفْسَهٗ وَ حَمِدَهٗ عِبَادُهٗ وَ يَكُوْنُ أيْضًا بِمَعْنَي الْحَامِدِ لِنَفْسِهٖ وَ لِأَعْمَالِ الطَّاعَاتِ وَسَمَّى النَّبِيَّ (ﷺ) مُحَمَّدًا وَأَحْمَدَ فَمُحَمَّدٌ بِمَعْنَي مَحْمُوْدٍ وَكَذَا وَقَعَ اِسْمُهٗ فِيْ زُبُرِ دَاوٗدَ‘‘[11]
’’پس اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام حمید ہے اس کے معنی محمود ہیں کیونکہ اللہ نے اپنی تعریف کی ہے اور اس کے بندوں نے بھی اس کی تعریف کی ہے-نیز اس کے معنی حامد کے بھی ہیں- یعنی وہ اپنی خود تعریف کرنے والا اور اپنے بندوں کے نیک اعمال کی تعریف کرنے والا ہےاور اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم(ﷺ) کا نام نامی محمد (ﷺ) اور احمد (ﷺ) رکھا ہے- پس ’’محمد (ﷺ)‘‘ بمعنی محمود ہے-جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور میں آپ (ﷺ) کے اس نام مبارک کا ذکر ہے‘‘-
یہاں قاضی عیاضؒ نےسیدنا حسان بن ثابت کا یہ شعر بھی لکھا ہے کہ:
وَ شَقَّ لَہٗ مِنْ اِسْمِہٖ لِیُجِلَّہٗ |
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نام سے آپ (ﷺ) کا نام نکالا تاکہ آپ (ﷺ) کی عزت ہو-پس صاحب عرش اللہ تعالیٰ محمود ہے اور آپ محمد (ﷺ) ہیں‘‘-
- الرؤف الرَّحِيْمُ
اسی طرح قاضی عیاضؒ نے دو اور اسماء شمار کیے- یہ دونوں اسماء اللہ تعالیٰ کے ہیں- قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں صفات اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃ التوبہ‘‘ میں خود اپنے حبیب مکرم(ﷺ) کے لیے بیان فرمائے:
’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘[12]
’’(آپ (ﷺ)مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘-
گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم (ﷺ) کو اپنی صفات کا مظہر بنایا-
- اَلْحَقُّ الْمُبِيْنُ
آپؒ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک ’’اَلْحَقُّ الْمُبِيْنُ‘‘ بھی ہے، حق کا معنی موجود ہے یعنی جس کا امر متحقق ہے اسی طرح ’’مبین‘‘ یعنی جس کا امر واضح ہے- پس یہ اس طرح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے ان کے دین کے امر اور ان کے روزِ جزاء کو واضح کرنے والے ہیں-
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو بھی قرآن مجید میں انہی اسماء مبارک سے موسوم فرمایا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
«حَتَّى جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ‘‘[13]
’’یہاں تک کہ اِن کے پاس حق (یعنی قرآن) اور واضح و روشن بیان والا رسول (ﷺ) تشریف لے آیا‘‘-
اللہ تعالیٰ نے (دوسرے مقام پر) ارشاد فرمایا:
’’وَقُلْ إِنِّيْ أَنَا النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ‘‘[14]
’’اور فرما دیجیے کہ بے شک (اب) میں ہی (عذابِ الٰہی کا) واضح و صریح ڈر سنانے والا ہوں ‘‘-
- النُّوْرُ
قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک ’’النُّوْر‘‘ ہے جس کا معنی ہے نور والا- یعنی نور کا خالق اور زمین و آسمان کو انوار و تجلیات سے منور کرنے والا اور مؤمنین کے دلوں کو ہدایت سے منور کرنے والا-
’’وَسَمَّاهُ: «نُوْرًا‘‘
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بھی نور کے اسم مبارک سے موسوم فرمایا‘‘-
جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِيْنٌ ‘‘[15]
’’بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد(ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)‘‘-
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
’’وَسِراجًا مُنِيْرًا‘‘[16]
’’اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)‘‘-
’’سُمِّيَ بِذَلِكَ لِوُضُوْحِ أَمْرِهٖ وَ بِيَانِ نَبُوَّتِهٖ تَنْوِيْرُ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْعَارِفِيْنَ بِمَا جَاءَ بِهٖ‘‘
’’یہ نام اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس لیے عطا فرمایا ہے کیونکہ آپ (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے امر کی وضاحت کرنے والے، اپنی نبوت کو بیان فرمانے والے ہیں اور مومنین اور عارفین کے قلوب کو اُس پیغامِ ہدایت کے ساتھ منور فرمانے والے ہیں جو آپ (ﷺ) لے کر تشریف لائے‘‘-
(جاری ہے)
[1](شرح الشفاء)
[2](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)
[3](شَرْفُ الْمُصْطَفٰے(ﷺ)
[4](سُبُلُ الْهُدٰى وَالرِّشَادِ)
[5](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، باب اسماء النبی (ﷺ) و صفاتہ)
[6](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح)
[7](فتح الباری شرح صحيح البخاری)
[8](عمدة القاری شرح صحيح البخاری)
[9](الخصائص الكبرى)
[10](خصائص الکبرٰی)
[11](الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے ؐ)
[12](التوبہ:128)
[13](الزخرف:29)
[14](الحجر:89)
[15](المائدہ:15)
[16](الاحزاب:46)