سالانہ ملک گیردورہ"اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین" (رپورٹ)

سالانہ ملک گیردورہ

سالانہ ملک گیردورہ"اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین" (رپورٹ)

مصنف: ادارہ مارچ 2020

عصرِ حاضر کے اخلاقی بحران سے نبرد آزما ہونےکی خاطر ، لوگوں کو کتاب اللہ و سنتِ رسول (ﷺ) کی پاکیزہ تعلیمات کی طرف بلانے کیلئے اور صوفیا کی تربیتِ ظاہری و باطنی عام کرنے کیلئے   ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘شہر شہر،نگر نگر،قریہ قریہ جا جا کر ہر صاحبِ قلب کے دل پر دستک دے رہی ہے - یہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جس کی آواز کو کسی تعصّب، تفریق اور تقسیم کے بغیر لوگ سنتے اور تسلیم کرتے ہیں-اس جماعت کے اس اعلیٰ معیار کا سہرا جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کے سَر ہے جو اپنے مرشد اور اِس تحریک کے بانی سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) (1947ء-2003ء) کے مشن پر حقیقی معنوں میں گامزن ہیں-آپ مدظلہ الاقدس کی قیادت میں سالانہ میلادِ مصطفےٰ و حق باھُو کانفرنسز کے ہر شہر میں کامیاب انعقاد ہوتا ہے اور ہر ہر شہر سے ہزاروں افراد کی شرکت اور آپ مدظلہ الاقدس کے دستِ حق پر تجدیدِ عہد کرنا نہ صرف آپ مدظلہ الاقدس کی قیادت پر اطمینان کا اظہار ہے بلکہ راہِ حقیقت کے متلاشیوں کے قلبی و روحانی سکون کا بھی ضامن ہے-

ہر شہر میں پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول (ﷺ)سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قَدَّسَ اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی و تحقیقی خطاب جنرل سیکریٹری ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا ہوتا ہے-صاحبزادہ صاحب کے خطابات تحقیقی و عِلمی نوعیّت کے ہوتے ہیں اور تقریباً تقریباً ہر مقام پہ ایک نئے موضوع پہ نئی تحقیق کے ساتھ خطاب ہوتا ہے-بعض دیگر تحریکی مصروفیات کی وجہ سے جہاں صاحبزادہ سُلطان احمد علی صاحب تشریف نہ لا سکیں وہاں پر ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب اور مفتی منظور حسین صاحب خطاب کرتے ہیں-

پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (مُدّ ظِلُّہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت و تجدیدِ عہد کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت و تجدیدِ عہد کرنے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-

اس سال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں-

وہاڑی:                                        2020-01-01                  سلطان باھوا سٹیڈیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب

خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’مسلمان جہاں بھی ہیں وہ اضطراب میں ہیں- جس کی وجہ اُن میں علم کا اُٹھ جانا اور اُن میں سے اخلاقی اقدار کا ختم ہو جاناہے- مسلمان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قیامت کا دن ضرور آئے گا- حضور اکرم(ﷺ)نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں فرمایا جب تم دیکھو کہ حیاء و ایمان اُٹھ جائے، شراب و زنا عام ہو جائے،گانا بجانے والی لڑکیاں اور آلات عام ہو جائیں،لو گ اپنے اولین آئمہ کرام پر زبان درازی کریں،جب علمِ دنیاکو علمِ دین پہ ترجیح دی جانے لگے تو اپنے  آپ کو قیامت کے لئے تیار کرلو- آج والدین اپنے بچے کو ڈاکٹر، وکیل اور افسر بنانے پر تو فخر کرتے ہیں لیکن کوئی باپ اپنے بیٹے کو عالمِ دین بنانے کو ترجیح نہیں دیتا-ہمارے ہاں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کلچراور ہم جنس پرستی جیسے قبیح عمل کوانٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعے فروغ دیا جارہا ہے-

ہماری بیٹی یا بیٹا میٹرک یا ایف ایس سی میں 80فیصدنمبر حاصل کر لے تو اس کی پہلی،دوسری،تیسری،چوتھی یا پانچویں ترجیح میں شامل ہے کہ وہ علم دین حاصل کرے؟ کیونکہ ہم نے بطور باپ بھائی اس کے ذہن میں یہ ڈال دیا ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر،افسر اور تاجر بننا عزت کا پیشہ ہے لیکن ہم میں سے کسی نے بطور باپ اوربھائی اس کے ذہن میں یہ نہیں ڈالا کہ عالم دین ہونا بھی عزت کا پیشہ ہے-

’’حضرت أَبِی مُطِيْعٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ ایک لوہے کا جوتا اور لوہے کاعصا لو اورعلم کی تلاش میں نکلویہاں تک کہ وہ عصا ٹوٹ جائے اور جوتا پھٹ جائے ‘‘-[1]

ملتان:                                                     2020-01-02                  اسٹیڈیم قلعہ کہنہ- ملتان

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب

خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’انسان کو تکلیف و راحت میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے-آج انسان راحت کی چیزوں میں تو شکر ادا کرتا ہے لیکن تکلیف کی چیزوں میں شکر ادا کرنے میں غفلت برتا ہے جو کہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے-صاحبزاد ہ صاحب نے مزید فرمایا کہ جس طرح حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی عظیم ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کے اخلاق کو بھی عظیم قرار دیا ہے-آقا کریم (ﷺ) کا اخلاق بھی آپ (ﷺ) کا معجزہ ہے کیونکہ باقی حکمران اپنی تلواروں اور لشکروں سے غالب آتے تھے جبکہ میرے آقا کریم (ﷺ)اپنے اخلاق سے غالب آئے اور اس کی عظیم مثال مدینہ و حبشہ کی بغیر تلوار کے فتوحات ہیں-آج امت مسلمہ اخلاقی حوالے سے زوال کا شکار ہے اوراس زوال کی بنیادی وجہ تہذیبی زوال ہےا ور اس تہذیب کو بگاڑنے میں استعماری سازشیں کارفرما ہیں جنہوں نے ہماری نوجوان نسل کے اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے- آج نوجوان نسل جنسی بے راہ روی ، فحاشی و عریانی میں مبتلا ہوگئی ہے جس میں سوشل میڈیا کا بے تحاشہ غیر اخلاقی استعمال ہے-آج کانوجوان جنسی تسکین کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتاہے لیکن ان جدید ذرائع سے قرآن و حدیث، تصوف و روحانیت جیسے علمی خزانے سے محروم ہے-پچھلے 200سال سے جس جنسی بے راہ روی کے لٹریچر کو عام کیا گیا اس کو سوشل میڈیا نے عروج تک پہنچایا-صاحبزادہ صاحب نے مزید فرمایا کہ اس سارے انتشار کا حل قرآن مجید کی تعلیم کی بنیاد پر تربیت میں ہے-عورت کا زیور حیاء ہے یہ ظاہری زیورات کی نمائش اس کی عزت نہیں- آج ہمارے معاشرے میں عورت کو علم سے دور رکھا گیا ہے اور یہ علم قرآن وحدیث ہے جس  کا حاصل کرنا ہر مرد وعورت پہ فرض ہے- ہمارا معاشرہ تب ہی سنور سکتا ہے جب ہماری عورتیں دینی تعلیم سے مزین ہوں گی کیونکہ انسان اس وقت تک کوئی مقام حاصل نہیں کرسکتا جب تک اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ نہیں کرتا‘‘-

تقریب میں حضرت شاہ رکنِ عالمؒ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی (وزیرِ خارجہ اسلامی جمہوریہ پاکستان) نے بھی بطورِ خاص شرکت کی اور خیالات کا اظہار کیا-

خانیوال:                                      2020-01-03                  میونسپل اسٹیڈیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب

خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سب سے مختصر سورۃ’’العصر‘‘ میں ہدایت کے تمام اصول واضح کر دیے ہیں-جیسا کہ امام شافعی (﷫) کا قول نقل کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:

’’لَوْ تَدَ بَّرَ النَّاسُ هَذِهِ السُّوْرَةَ لَكَفَتْهُمْ‘‘       

’’اگر لوگ اس سورت کو ہی غور و فکر سے پڑھیں تو یہی ان کیلئے کافی ہو جائے‘‘-

یہ تو مالک پاک کاہم پر خاص کرم ہے کہ اس نے ہمارے لئے قرآن مجید کو نازل فرمایالیکن بقول امام شافعی (﷫) امت کی ہدایت کے لئے یہی ایک سورۃ ہی کافی ہے کیونکہ اس میں اس قدر عظیم پیغام ہے کہ اگر بندہ اس پر عمل کرے تو صراط مستقیم پر قائم رہے- فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ الْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo‘‘[2]

 

زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)-بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)-سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے-

اس لئے ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم حق کی وصیت کریں، صبر کی تلقین کریں اور عمل صالح کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنائیں-

لودھراں:                                     2020-01-04                  ماڈل ویو کالونی

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’صاحبزادہ صاحب نے اپنے دلنواز اور جاں پُرسوز خطاب میں بدنظری کو ترک کرنے اور آنکھ میں حیاء پیداکرنے کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے خوف سےاور اللہ تعالیٰ کی محبت میں بد نظری کو ترک کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں اس کے ایمان کو ایسی تقویت بخشتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کےدن انسان سےحساب لے گا کہ اس نے آنکھ، دل، کان اور جسم کے دیگر اعضاء کو کن کن کاموں میں لگائے رکھا-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا‘‘[3]

’’بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی‘‘-

صاحبزادہ صاحب نے مزید فرمایا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ان چھ چیزوں کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں :

  1. سچ بولو
  2. وعدہ پورا کرو
  3. امانت میں خیانت نہ کرو
  4. اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو
  5. اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکو
  6. اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو
   

رحیم یار خان                                    2020-01-05                  مرکزی عید گاہ

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’صاحبزادہ صاحب نے مسلمانوں کو تمام تفریقات کو ختم کر کے دلی نفرت کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے محبوب کریم (ﷺ) کی محبت میں ایک ہوجانے کے متعلق واعظ کرتے ہوئے فرمایا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْ‘‘[4]              

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘-

صاحبزادہ صاحب نے مزید حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو حکم دیا کہ میرے محبوب کریم (ﷺ) کی آواز سے اپنی آوازیں بھی پست رکھنا-کیونکہ جو ایسا کرے گا اللہ پاک اس کے دل کو اپنے تقویٰ کے لئے خالص فرما لے گا-آخر میں صاحبزادہ صاحب نے اصلاحِ معاشرہ پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ شرعی احکام جبر سے نہیں بلکہ تربیت سے نافذ کئے جاتے ہیں-اس لئے اگر علماء و مشائخ چاہتے ہیں کہ لوگ سنور جائیں تو پھر پہلے نرم دلی کے ساتھ پیار اور محبت سے لوگوں کی تربیت کرنی ہوگی-

گھوٹکی:                                        2020-01-06                             

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’کلام اللہ کی برکت یہ ہے کہ حضرت انسان اپنے مالکِ حقیقی سے ملنے کا پتہ جان لیتا ہے- بشرطیکہ قرآن مجید فرقان حمید کے اسرار و رموز کو جاننے کیلئے قاری کو عشقِ مصطفٰے (ﷺ)کا لبادہ اوڑھ کر صحیفہ ربانی میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے- قرآن کا ظاہر 1400 سال پہلے کے حالات و واقعات کو بیان کرتا ہے لیکن درحقیقت یہ ماضی کیلئے بھی تھا، یہ حال کیلئے بھی ہے اور یہ مستقبل میں آنے والے لوگوں کیلئے بھی رشد و ہدایت کا سامان رکھتا ہے- قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ہر شے کا علم رکھاہے- فرمان حق تعالیٰ ہے:

’’وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘[5]       ’’اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)‘‘-

مگر آج مسلمانوں کا خسارہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن سے اپنا رشتہ استوار نہیں رکھا- میرے بھائیو! قرآن مجید ہی میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا راز پوشیدہ ہے- اسی لیے آقا کریم (ﷺ) نے قرآن مجید سیکھنا ہر مسلمان مرد و عورت کیلئے فرض فرمایا ہے- آج اصلاحی جماعت یہی فکر اور دعوت لےکر آپ کے پاس آئی ہے کہ آئیں اور اللہ کی کتاب سے اپنا ٹوٹا رشتہ استوار کریں تاکہ ہمیں اپنے مالک تک رسائی مل سکے‘‘-

شہداد کوٹ:                                               2020-01-07                 

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’الحمد للہ! ہر مسلمان کلمہ گو کے گھر میں اُم الکتاب موجود ہے جس میں تمام خشکی و تری کی تمام معلومات درج ہیں- یہ علمِ دنیا بھی مسلمانوں کا ورثہ ہے لیکن یہ ورثہ آج ہمارے پاس نہیں ہے کیونکہ اس سے مشروط عمل ہم نے ترک کردیا- قرآن کے باطنی پہلو اس وقت تک نہیں کھل سکتے جب تک حضرت انسان اس مشروط عمل کو پورا نہ کرے- یعنی ذاتِ حق تعالیٰ تک رسائی کیلئے کوشاں رہے- میرے دوستو!  علم کا عین عشقِ باری تعالیٰ ہے- اگر وہاں تک رسائی مل جائے تو افلاطون ارسطو بھی مسلمانوں کی تسخیرِ کائنات پر رشک کریں- جیسا کہ سلطان العارفین قدس اللہ سرہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں:

اَفلاطون اَرسطُو جیہیں میرے اَگے کِس کَم دے ھو

عاشقانِ اِلٰہی اولیاء اللہ ہی ہیں جو اللہ اور اس کے محبوب علیہ السلام کی معرفت و قرب کا سامان کرتے ہیں- آج اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین آپ کے پاس یہی پیغام لے کر آئی ہے کہ آئیں وہ راستہ اور رسائی حاصل کریں جسے قرآن مجید نے صراطِ مستقیم کہا ہے‘‘-

جیکب آباد:                                                2020-01-08                  حمیدیہ ہائی سکول

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’آج کے اس دورمیں مسلمانوں کے خسارے کی وجہ اپنے آپ کو مادیت تک محدود کرنا ہے اور اپنے قلب و رُوح کی  حقیقت سے غافل ہونا ہے- مادیت کے اس زوال کے خاتمے کیلئے اولیائے کاملین نے پیغمبروں کی سنت زندہ کی ہے اور اللہ کی زمین پر اسکے بندوں کو رجوع الی اللہ کی دعوت دی ہے- اولیاء کاملین اپنے آپ کو صرف قال تک محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ پہلے خود عمل کرتے ہیں اور بعد میں لوگوں کو اس کی تلقین کرتے ہیں- انہی کے بارے میں قرآن کہتاہے:

’’اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘[6]               ’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘-

 اولیائے کاملین کا پیغام صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ عالم انسانیت کیلئے ہے- وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو صرف ایک مقام تک محدود نہ کرے بلکہ آگے بڑھے‘‘-

کندھ کوٹ:                                               2020-01-09

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء کرام (علیھم السلام)بھیجے اور آخر میں اپنے محبوب کریم (ﷺ) کی وساطت اور وسیلے سے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید انسان تک پہنچائی- انسان اور قرآن کا بہت ہی گہرا تعلق ہے- ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کی فقط تلاوت تک نہ رک جائیں بلکہ اسے پڑھیں بھی، سمجھیں بھی اور اس پر عمل پیرا ہوکر کامیاب بنیں-

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مقدس ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی امت کے اکہتر فرقے تھے جن میں صرف ایک نجات والا تھا اور باقی گمراہ ہوگئے تھے-حضرت عیٰسی علیہ السلام کی امت کے بہتر فرقے تھے جس میں ایک نجات والا تھا اور باقی سب گمراہ ہوگئے-میری امت کے تہتر فرقے بنیں گے جن میں سے ایک نجات والا ہوگا اور باقی گمراہ ہوں گے-صحابہ کرام (علیھم السلام) نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)وہ کون سا فرقہ ہے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’ مَآاَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘[7]           ’’جس پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں‘‘-

راجن پور:                                                 2020-01-10                  مین اسٹیڈیم

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اصلاحی جماعت اولیاءِ کرام کی تعلیمات کو قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کر رہی ہے جن کے بارے میں مولانا رومؒ نے فرمایاکہ:

یک زمانہ صحبت با اولیاء

 

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

اولیاءِ کاملین فرماتے ہیں کہ انسان کے بنیادی تین پہلو ہیں (1) انسان کا ظاہری جسم (2) انسان کا باطن ،دل (3) انسان کی حقیقت رُوح- اولیاءِکاملین ان تینوں کو سنوارنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ انسان کی انسانیت کی تکمیل ہو اسی لیے فرمایاگیا کہ :

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ‘‘[8]

 

’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤاور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘-

اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ اور کامل داخلہ یہی ہے کہ ظاہری، باطنی اور حقیقی طور پر اسلام کواپنے اوپر نافذ کرکے کامل ہدایت اور معرفتِ الٰہی کو حاصل کیا جائے یعنی جسمانی لحاظ سے عبادت میں،قلبی لحاظ سے ذکر الٰہی میں اور رُوح کے لحاظ سے معرفتِ الٰہی میں مشغول ہو کر زندگی کا مقصد حاصل کرے‘‘-

مظفر گڑھ:                                     2020-01-11

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو کامیابی وکامرانی کی سندعطا فرمائی جنہوں نے اپنا تزکیۂ نفس کیا-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ‘‘[9]                      ’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا‘‘-

یعنی کامیاب وہ ہوا جو خوب ستھرا ہوا-دوچیزیں غور طلب ہیں،پہلی چیز طہارت ہے اور دوسری چیز تزکیہ ہے- اگرقرآنِ کریم میں غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے طہارت کے لیے ارشاد فرمایا:-

’’وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا‘‘[10]                              ’’اور اگر تم حالت جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ‘‘-

جسمانی طہارت کیلیے پانی کی ضرورت ہے اور اگر پانی موجود نہ ہوتو تیمم سے بھی طہارت حاصل ہوجاتی ہے-تزکیۂ باطن کیلیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم  (ﷺ)  کے متعلق ارشاد فرمایا :

’’لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃ‘‘[11]

 

’’بے شک اللہ کابڑاحسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول ؐ بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے‘‘-

حضور نبی کریم  (ﷺ)کی ایک صفت تزکیہ فرمانا بھی ہےآپ (ﷺ) نے صحابہ کرام کاتزکیہ فرمایا-چونکہ تزکیہ کیلیے صحبت اورنگاہ کی ضرورت ہے لیکن یہ حتمی حقیقت ہے کہ نبوت کادروازہ ہمیشہ کے لیے بندہوگیا-

چنیوٹ:                                       2020-01-13                  ہاکی اسٹیڈیم

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’آقا پاک (ﷺ) کی وِلادت باسعادت کی مقصدیت بیان کرتے ہوے کہاکہ آپ (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ کے حوالہ سے تین چیزوں کی اہمیت مسلمہ ہے (1)وِلادت باسعادت (2)عظمت ومقامت (3)پیغامِ مصطفٰے (ﷺ)-وِلادت باسعادت اورعظمت ومقام کے ساتھ ساتھ پیغام ِمصطفےٰ (ﷺ)  کاتجزیہ بھی ضروری ہے کہ آپ (ﷺ)کوکس کی طرف بھیجا گیا ؟کیا بنا کے بھیجاگیا؟اورکیوں بھیجاگیا؟اگر ہم اِن تین باتوں کوسمجھ لیں اور اِن پہ عمل پیرا ہوجائیں توہمیں فلاح وکامرانی نصیب ہوگی-آپ (ﷺ) کوتمام مخلوقات کی طرف بھیجا گیا،آپ (ﷺ) کو ہادی بنا کربھیجاگیا،جس کی شہادت قرآن مجید میں یوں ہے کہ :

’’ہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖط وَکَفٰی بِاللہِ شَہِیْدًا‘‘[12]

 

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اوراﷲ کافی ہے گواہ‘‘-

منڈی بہاؤ الدین:                              2020-01-14     

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اولیاء اللہ کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسان کو اس حقیقت سے روشناس کرانا ہے کہ انسان کی تکمیل محض ظاہر پہ اکتفا کرنے سے نہیں بلکہ ظاہر اور باطن دونوں کو مرتبہ کمال تک پہنچانے میں ہے ظاہر کی تکمیل شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہونے اور باطن کی تکمیل قلبی ذکراللہ کے ذریعے معرفت حق تعالیٰ سے ہوتی ہے-قرآن پاک بندے اور اللہ پاک کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے جس طرح انسان کا بنایا ہوا موبائل فون دو آدمیوں کے درمیان مکالمے اور مشاہدے کا ذریعہ ہے اسی طرح قرآن پاک انسان اور رب کے درمیان مکالمے اور مشاہدے کا ذریعہ ہے قرآن پاک میں ہم انسانوں کی عظمت و توقیر کا راز پنہاں ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ‘‘[13]                          ’’بیش ہم نے اولاد آدم کو عزت عطا کی ‘‘-

سرگودھا:                                     2020-01-15                  مرکزی عید گاہ

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’انسان اور قرآن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے-لیکن افسوس! کہ آج ہم نے اس تعلق کو ترک کر دیا ہےکیونکہ یہ ایک اٹل قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی کسی قوم کو ترقی عطا فرماتا ہے تو قرآن پاک کے ذریعے ہی عطا فرماتا ہے-جو قومیں زوال پذیر ہیں ان کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہی یہی ہے کہ ان قوموں نے قرآن کے اصول کو چھوڑ کر غیروں کے اصولوں کو اپنایا ہے-

یاد رکھیں! کل قیامت کے دن حضور رسالتِ مآب (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالیہ میں یہی عرض کریں گے کہ:

’’وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِیِ اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا‘‘[14]

 

’’اور رسولِ (اکرمﷺ) عرض کریں گے کہ:اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘-

اسی طرح ہی حضرت علامہ اقبالؒ فرماتےہیں:

وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر

 

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر[15]

اگر آج ہم!دنیا و آخرت میں بلندی و کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کے ساتھ پھر سے اپنا رشتہ قائم کرنا ہوگا‘‘-

لیہ:                                                        2020-01-17

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’صاحبزادہ صاحب نے جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر پر مدلل گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ جہاد اصغر وہ جہاد ہے جس میں وقت کی قید ہوتی ہے لیکن جہادِ اکبر وہ جہاد ہے جس میں وقت کی قید نہیں ہوتی-اس لئے اکثر صوفیاء کرام  کی تعلیمات میں ہمیں جہادِ اکبر کا ذکر زیادہ ملتا ہے-مزید صاحبزادہ صاحب نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی حسنِ اخلاق کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے دوستو آقا کریم (ﷺ) کی  وہ صفات جنہیں امت نے اختیار کرنا ہے ان میں سے  آقا کریم (ﷺ) کا حسن اخلاق سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ہے-کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق کو پوری خَلق میں سے عظیم بنایا ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘[16]            ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) کا اخلاق روشنی کی وہ کرن ہے جس میں مسلمان ہزاروں میل کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی اپنا راستہ نہیں کھو سکتا اگر اس کے پاس شمعِ اخلاقِ مصطفےٰ (ﷺ) ہے-اس لئے میرے دوستو! جہاں ہم اپنی اولاد کو بننا سنورنا سکھاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم سکھاتے ہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ’’لا الہ الا اللہ  محمد رسول اللہ‘‘ کی تسبیح میں دانوں کی طرح پروئے ہوئے ہیں-ہمارے لئے یہ اہم نہیں ہے کہ ہم دنیاوی شعبوں میں سے کسی شعبہ میں اعلیٰ منصب پر فائز ہوجائیں بلکہ ہمارے لئے یہ سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہم اخلاق و آداب میں کتنے پختہ ہیں-کیونکہ کوئی اگر بداخلاق اور بد کردار شخص جتنے بھی بڑے عہدے پہ فائز ہوجائے لوگ اس سے سلام کرنا بھی گوارا نہیں کرتے- اس لئے ضروری ہے کہ خاص کر تعلیمی اداروں میں یہ رویہ اپنایا جائے کہ والدین اساتذہ سے تقاضا کریں کہ ہمارے بچے جب یہاں سے فارغ التحصیل ہوں تو ان کے وجود سے اخلاقِ مصطفےٰ (ﷺ) کا نُور نمایاں ہو- کیونکہ  اخلاق کی بہتری میں ہی ہماری ظاہری وباطنی کامیابی  ہے-

بھکر:                                                       2020-01-18                 

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’صاحبزادہ صاحب نے مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی پر سیر حاصل گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ قائد اعظمؒ اور آپ کی سیاسی بصیرت برصغیر کے مسلمانوں کے لئے نجات دہندہ ثابت ہوئی-موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو مودی پیشرؤں سے ہر گز ہر گز مختلف نہیں ہے بلکہ گاندھی، نہرو اور اندرا گاندھی کا تسلسل ہے -قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہندو کبھی مسلمانوں کو ہندوستان میں قبول نہیں کرے گا اور آج یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے-

ایک صاحب مجھے کانگریس کے ایک سر کردہ لیڈر کی پاکستان سے متعلق پیشین گوئیوں کا بتانے لگے کہ ان کی اکثر پیشین گوئیاں سچ ہوئی ہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ ان کی ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے مستقبل پہ کوئی پیشین گوئی ہے تو بتائیں؟ کیونکہ آج پاکستان کو تو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ خطرہ تو بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے سر پہ ہے-تو وہ لاجواب ہو گئے کیونکہ وہ جس کانگریسی لیڈر کی بات کر رہے تھے انہوں نے پیشین گوئیاں حُبِ اسلامیان میں نہیں بلکہ بُغضِ پاکستان میں کی تھیں، اگر حُبِ مسلمانان میں کی ہوتیں تو بھارت کی مسلمان اقلیت کا مستقبل نہ بھولتے-

یاد رکھیں! تاریخ ہمیں اپنی غلطی سے سیکھنے کا ایک موقع ضرور دیتی ہے اگر ہم اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو تباہی مقدر ہوتی ہے-جیسا کہ سیدنا رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:

’’قریب ہے کہ دیگر اقوام(امتیں) تم پر یوں ٹوٹ پڑیں جیسا بھوکا کھانے سے بھرے ہوئے پیالے پر ٹوٹ پڑتا ہےایک شخص عرض گزار ہوا کہ ایسا ان دنوں ہماری قلت کے باعث ہوگا؟فرمایا بلکہ ان دنوں تم کثرت میں ہو گےاور لیکن ایسے بیکار ہو گے جیسے سمندر کی جھاگ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب کو نکال دے گااور تمہارے دلوں میں ’’وَھن‘‘ ڈال دے گاسائل عرض گزار ہوایا رسول اللہ (ﷺ)!وَھْن ( بزدلی) کیا ہے؟آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا‘‘-[17]

آج ہماری بھی اجتماعی حالت زمانہ قدیم کے یہود و نصاریٰ سے مختلف نہیں ہے اس لئے ہمیں بھی تاریخ سے اپنی بہتری سیکھنے کی ضرورت ہے‘‘-

میانوالی:                                                   2020-01-19                  جناح فٹ بال گراؤنڈ

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’یاد رکھیئے! اسلام ہمیشہ انسان کے خاندان(چاہے نسبی ہو یا سسرالی) کو مضبوط و خوشحال اورانسان کی معاشرت کو پاک اور محفوظ دیکھنا چاہتا ہے-جبکہ خاندان (نسبی اور سسرالی ) اور معاشرت کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے اگر ان ستونوں کی حفاظت کی جائے تو اس گِرتی عمارت کو محفوظ کیا جا سکتا ہے-پہلا ستون : ایک دوسرے کو معاف کرنا ہے اور دوسرا ستون : دو کے مابین صلح کروانا ہے- قرآن و حدیث کی روشنی میں ان دو ستونوں کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ ‘‘[18]

 

’’ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں‘‘-

حضرتِ ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سےروایت ہےکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ،وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ، إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ‘‘[19]

 

صدقہ مال کو کم نہیں کرتااور اللہ تعالی معاف کرنے والے ہی کی عزت کو معاف کرنے کی وجہ سے بڑھاتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع کرتا ہے  اللہ تعالیٰ اس کو اونچا ہی کرتا ہے-

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَ یْکُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘[20]

 

بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں- سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے-

سیدنا ابو درداء (رضی اللہ عنہ) روایت ہےکہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :کیا میں تمہیں روزے،نمازاور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں؟صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول (ﷺ)!آپ (ﷺ) نے فرمایا : ’’آپس کے میل جول اور روابط کو بہتر بنانا ‘‘-[21]

خوشاب:                                       2020-01-20                  پرانا میلہ گراؤنڈ

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’اصلاحی جماعت کامشن اس پیغام کو عام کرنا ہے جو پیغام اس خطے میں یعنی ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں کو کئی سالوں سے اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول (ﷺ) کے نور سے منور کئے ہوئے ہیں-صاحبزادہ صاحب نے شکر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ حق تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:

فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ[22]      ’’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘-

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’مَا یَفْعَلُ اﷲُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ‘‘ [23]                         اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ -

شکر کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتےہوئے صاحبزادہ صاحب نے حدیث پاک بیان فرمائی کہ جب حضور نبی کریم (ﷺ) کے پاؤں مبارک طویل قیام و سجود کے باعث سوج جاتے تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) عرض کرتے کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! ہمارے ماں باپ آپ پر قربان! آپ(ﷺ) اتنا طویل قیام و سجود کیوں فرماتے ہیں تو رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘-[24]

اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ:

’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘[25]

 

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے-

پاکستان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ہمیں اس کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے-

جہلم:                                                      2020-01-21                  مین اسٹیڈیم

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے،امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ(ﷺ)،انبیاء کرام (علیھم السلام)اور اَولیاء کرام بھی انسانیت کی ہدایت کے لئے تشریف لائے-انسان نے ان سے راہنمائی و ہدایت حاصل کرنی ہے مگر آج! انسان اس سے دور نظر آتے ہیں -دور ہی نہیں بلکہ آج کا انسان مادیت پرستی میں کھو کر اس چیز  سے بالکل بے ہوش و بے خبر ہے- اسی لئے حضرت علامہ اقبال صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:

ہر درد مند دل کو ، رونا مِرا رُلا دے

 

بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے[26]

یعنی جسم کے اندر جو روح مردہ ہے اسے زندگی نصیب ہو اور روح کی زندگی ذکر اللہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللہِ تَعَالٰی‘‘[27] ’’ ہر چیز کو صاف کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘-

آج! ’’اصلاحی جماعت‘‘ اسی اللہ پاک کے ذکر کو عام بھی کر رہی ہے اور اسے حاصل کرنے  کی دعوت بھی دے رہی ہے تاکہ لوگ  ذکراللہ کے ذریعے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرسکیں‘‘-

چکوال:                                        2020-01-22                              میونسپل اسٹیڈیم

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اصلاحی جماعت کا مقصد انسانیت کو اس کی حقیقت سے آشنا کروانا ہے کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کو تمام مخلوقات کو سجدہ ریز ہونے کو کیوں کہا؟یادرکھیں! انسان کے دو وجود ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی-ظاہری وجود کی پاکیزگی کے لئے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جبکہ روح کی غذا ذکر اللہ ہے- جب انسان دنیا میں آتا ہے تو شیطان اسے ظاہری دنیا کی آسائش و آرام کی طرف ورغلاتا ہے مگر اللہ کے برگزیدہ بندے اس کے بہکاوے میں نہیں آتے اور حق تعالیٰ کے طالب رہتے ہیں- مرشد کامل اپنی نگاہ کرم سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کے دیدار کا راستہ دکھاتا ہے بلکہ اس کی ذات کو پہنچاننے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں رہتا ہے اس تک پہنچنے کے لئے اسم اللہ ذات عطا کر کے مقصد حیات دیتا ہے‘‘-

اٹک:                                          2020-01-23                              کرکٹ اسٹیڈیم

صدارت: عکس سلطان الفقرؒ حضرت حاجی سلطان محمد بہادر عزیز صاحب

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو جگانے کیلئے اپنے محبوب (ﷺ) کو بھیجا ، قرآن نازل کیا، اولیاء اللہ بھیجے-انسان کا سب سے پہلا دشمن شیطان ہے ہماری دشمن کے ساتھ دوستی ہو چکی ہے- دنیا کی ناجائز محبت ، مال و دولت یہ بھی انسان کی دشمن ہے- ہم نے قرآن کی جانب سے اللہ کی دعوت کو بھلا دیا اور صرف جنت، اس میں حوریں اور باغات کو یاد رکھتے ہیں- منافق کافر سے بدتر ہیں، کئی منافقین نے کلمہ پڑھا تاہم دل سے اسلام قبول نہیں کیا اور منافق ٹھہرے خدا بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے امت مسلمہ کی نجات شریعت محمدی (ﷺ) اور نفاذ اسلام میں ہے- طاقتور ہونے کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ اسلام سے دوری، رحمتِ کائنات (ﷺ)کے اسوہَ حسنہ پر عمل نہ کرنے میں ہے- آج بھی امت مسلمہ اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کر کے حضرت عمر کے دور میں 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی حکومت کی یاد تازہ کر سکتی ہے- آج بھی مسلمان کاروبار میں امانت، دیانت، جھوٹ سے پرہیز، قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو کر اور نماز پنجگانہ کی پابندی کر کے خلفائے راشدین کے دور کی یاد تازہ کر سکتے ہیں ‘‘-

ہری پور:                                                  2020-01-24                  کھلا بٹ اسٹیڈیم

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’صاحبزادہ صاحب نے ’’علمِ دین کی اہمیت‘‘ پر گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ علمی ورثہ سے رشتہ کمزور ہونےکے باعث ہم بطور قوم بہت سی مشکلات سے گزر رہے ہیں-ہماری سوچ علم دین کی طرف دلاتے ہوئے فرمایا کہ دین اصل میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی پیروی اور اتباع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے حبیب کو ایسے مت پکارو جیسے تم عام لوگوں کو بلاتے ہو ورنہ تمہارے اعمال ضائع کر دیے جائیں گے-

 آج ہمیں اپنے آپ کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے اپنے اخلاق اور ایمان کی حفاظت کی ضرورت ہے-کیونکہ آج کے معاشرے میں جو مالی طور پر خوشحال طبقے ہیں وہ مالی طور پہ تودین اسلام کی مدد کرتے ہیں لیکن جہاں تک دین کے علمی سرمائے کے تحفظ کی بات ہےتو اس میں عملی طور پر نہ خود کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو ایسی علمی کاوش کی ترغیب دیتے ہیں-اس لئے جہاں ہم اپنے بچوں کو سائنسی اور دیگر علوم کی طرف متوجہ کرتے ہیں وہاں ہمیں اپنے بزرگانِ دین کی تعلیمات پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اسی علمی روایت کے کمزوری ہونے کے باعث ہمارے ایمان کی دیواریں بھی کمزور ہوکر گرنےلگی ہیں-لہذا! اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ایمان مضبوط ہو ، اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات گرامی سے ہمارا تعلق مضبوط ہو تو ہمیں چاہیے کہ علم دین حاصل کریں اور جیسا اس پر عمل پیرا ہونے کا حق ہے اس حق کو ادا کریں‘‘-

ایبٹ آباد:                                     2020-01-25                  کامرس کالج گراؤنڈ

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’ گفتگو کا موضوعِ سخن ’’حُسنِ خلق‘‘ رہا جس میں صاحبزادہ صاحب نے زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کے بارے میں مدلل گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ:’’انسان اپنی زبان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے-جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ :تمہارے دل ہانڈی کی مثل ہیں اور تمہاری زبان اس ہانڈی کا ڈھکن ہے جب تک ہانڈی پر ڈھکن رہتا ہے کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ ہانڈی میں کیا پَک رہا ہے لیکن جیسے ہی ڈھکن ہٹتا ہے ہر شخص اس کی خوشبو سے جان لیتا ہے کہ ہانڈی کے اندر کیا پک رہا تھا-امام غزالیؒ’’احیاء العلوم‘‘ میں یہ حدیث پاک نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اسی طرح جب انسان کی زبان کھلتی ہے تو لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے اس کے اندر کس طرح کی شخصیت رہتی ہے-اس لئے ضروری ہے کہ زبان کو بے لگام کرنے کی بجائے اس کو اخلاقِ مصطفےٰ (ﷺ) کی لگام چڑھا دی جائے تو دنیا میں نفرتیں ختم ہوجائیں –صاحبزادہ صاحب نے مزیدفرمایا کہ اس دور میں جس میں برائی کا ہر راستہ کھل چکا ہے، فحاشی سے دور رہنے کا احتساب ناممکنات میں شامل ہوگیا ہے تو اگر کوئی شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہےتو اگر وہ ولی نہیں ہے تو ولایت کے قریب ترکسی درجے پر فائز ہے-کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ’’سورۃ المومنون‘‘ میں ان دونوں چیزوں پر قابو پانے کو مومن کی نشانی بتایا ہے‘‘-

اسلام آباد:                                     2020-01-26                  جناح کنونشن سنٹر

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب

خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’یاد رکھئیے! اسلام سراپا امن اور سلامتی کا دین ہے اور اپنے ماننے والوں کو امن و سلامتی کی ضمانت دیتا ہے اسلام خود صاف ستھرا اور پاکیزہ ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی صاف ستھرا اور پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہے- پاکیزگی اور قیامِ امن کے حصول کیلئے ہر اُس راستے کو بند کرتا ہے جس سے معاشرے کی بے راہ روی ،انتشار اور بدامنی کے پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہو-معاشرتی برائیاں فحاشی کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالی نے فحاشی کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

’’قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ ‘‘[28]

 

فرما دیجیے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو)

اسی طرح اِسلام نے صرف فحاشی کو حرام ہی قرار نہیں دیا بلکہ اس کے کرنے سے بھی روکا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

’’وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِـنْـھَا وَمَا بَطَنَ‘‘[29]          ’’اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں‘‘-

اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں زنا، فحاشی و عریانی جیسی بے حیائی ختم ہوجائے تو ہمیں معاشرے میں نکاح کے راستے آسان کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ جہیز ہے- اس لئے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کی ذہن سازی کی جائےاور انہیں اخلاقی و روحانی تربیت سے ملی زندگی میں واپس لایا جائے‘‘-

سیالکوٹ:                                      2020-01-27                  ہاکی اسٹیڈیم

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’آج کے اس پرفتن دور میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین اولیاء کاملین کی تعلیم کو عام کر رہی ہے کہ صوفیاء کرام اور ہمارے اسلاف نے ہمیں روحانیت اور اعلیٰ اخلاق و کردار کا درس ہے- اس لئے ہماری نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہ کتاب و سُنت کی صحیح ترجمان و عکاس اولیاء کرام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے-کیونکہ معاشرے کی بربادی کے اسباب میں سے ایک سبب اخلاص اور اخلاق کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ہے-کیونکہ مولانا رومؒ فرماتےہیں کہ جب بندہ اخلاق سے عاری ہوجائے تو تب انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا کیونکہ انسان اور حیوان میں فرق قائم کرنے والی چیز اخلاق ہے-اس لئے آج ہم پر سب سے بڑا حملہ ہماری اخلاقی تہذیب پہ ہو رہا ہے اس لئے کہ مسلمانوں کا عظیم ورثہ اخلاق اور اخلاص ہی ہے-کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے پوری دنیا میں جو اسلام پھیلایا ہے وہ اخلاق ہی کا نتیجہ ہے-صاحبزادہ صاحب نے مزید فرمایا کہ علم کا مقصد حق تعالیٰ تک پہنچنا ہے اگر علم بندے کو حق تعالیٰ تک رسائی نہ بخشے تو وہ علم وبالِ جان بن جاتا ہے اور علم، حق تک رسائی اس وقت دلائے گا جب انسان کے پاس علمِ ظاہری اور علمِ باطنی دونوں ہوں گے-لہذا علم ظاہری کے ساتھ ساتھ علم باطن حاصل کرنے کے لئے ہمیں اولیاء کاملین کی طرف رجوع کرنا ہوگا تاکہ ہمارا علم ہمیں حق تک پہنچا دے‘‘-

حافظ آباد:                                     2020-01-28                 

صدارت و خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’صاحبزادہ صاحب نے فکر انگیز خطاب میں نوجوانان ملت کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ کسی بھی قوم کا سرمایہ اس کی دولت نہیں ہوتی بلکہ قوم کا سرمایہ اس کی آئندہ نسل ہے میرے نوجوان بھائیو! آپ اپنی قوم کا مستقبل ہیں آپ کی اور ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے-اللہ پاک نے ہمارے درمیان کسی بھی چیز کی کمی نہیں چھوڑی لیکن اس وقت سماج میں  بحران نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں دین کی تعلیم کا ذوق و شوق نہیں ہے-کیونکہ ایک مومن اگر اس دین کا محافظ نہیں ہے تو پھر کون آکر اس دین کی حفاظت کرے گا-آپ نے نوجوانانِ ملت کو دین کی تعلیم کی طرف رغبت دلائی اور اپنے اندر اخلاقیات کو اجاگر کرنے کادرس دیا کیونکہ معاشرے میں کرپشن چوری اور دیگر جرائم ہیں یہ سب اخلاقیات کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے-بزبانِ حکیم الامت :

نوجوانے را چو بینم بے ادب

 

روزِ من تاریک می گردد چو شب

’’ جب میں کسی نوجوان کو اخلاق سے عاری دیکھتا ہوں میرا دل سیاہ رات کی طرح ہوجاتا ہے ‘‘-

شیخوپورہ:                                      2020-01-29                  مین اسٹیڈیم

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب

خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’ہمارا مقصد حضور نبی کریم (ﷺ) کی اتباع، محبت اور آپ (ﷺ) کی رضا کی تلاش ہے اور اپنے درمیان ان افعال و اعمال کو فروغ دینا ہے جس سے ہم اپنی دینی اور ملی خدمات کا احیاء کر سکیں-کیونکہ سب جانتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی آمد مبارک سے پہلے عرب کی فصاحت و بلاغت اپنی جگہ لیکن افعال اور افکار میں اس قدر جہالت واقع ہوچکی تھی کہ جس جہالت نے ان کے معاشرے کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا تھا-لیکن آقا کریم (ﷺ) کے جلوہ افروز ہونے سے حالات یکسر امن میں تبدیل ہوگئے جس کے بارے میں مولانا حالی فرماتے ہیں کہ:

اُتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا

 

اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

پھر آقا کریم (ﷺ) نےجس طرح صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی تربیت فرمائی تو اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اگر اسلام کو سمجھنا ہے تو اس کا راستہ علم ہے اسی لئے مسلمان ہر دور میں نگہبان رہے اور علم کے متلاشی رہے-آج ہمارے زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہماری علمی میراث غیر محفوظ ہوگئی ہے-اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی تعلیمی وراثت کی نگہبانی کریں کیونکہ بزبانِ حکیم الامت:

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

 

ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا

گجرانوالہ:                                     2020-01-31     

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب

خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’گفتگو کا بنیادی موضوع سخن ’’سورۃ الکوثر کی تفسیر‘‘ رہا جس کو بیان کرتے ہوئے صاحبزادہ صاحب نے متعدد آئمہ و مفسران کرام کی روشنی میں مدلل اور پر مغز گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا کہ امام رازیؒ ’’سورۃ الکوثر‘‘ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اِعْلَمْ أَنَّ هَذِهِ السُّوْرَةَ عَلَى اِخْتِصَارِهَا فِيْهَا لَطَائِفُ أَنَّ هٰذِهِ السُّوْرَةَ كَالتَّتِمَّةِ لِمَا قَبْلَهَا مِنَ السُّوَرِ، وَكَالْأَصْلِ لِمَا بَعْدَهَا مِنَ السُّوَرِ‘‘[30]

 

جان لے کہ یہ سُورۃ مختصر ہونے کے باوجود اس میں لطائف و نکات بیان کئے گئے ہیں بے شک یہ سُورۃ پہلی تمام سورتوں کیلئےبہ منزلہ تتمہ کا درجہ رکھتی ہے اور مابعد والی سورتوں کے لئے بہ منزلہ مقدمہ کے ہے‘‘-

امام رازیؒ مزید فرماتے ہیں کہ سورۃ کوثر کی آیاتِ مبارکہ سے پہلے حضور نبی کریم (ﷺ) کے اوصافِ مبارکہ میں سے چند کمالات نبوت و رسالت متعدد سورتوں (سورۃ والضحی سے لےکر ماعون تک ) میں بیان فرما کر سورۃ کوثر پر آن کر تکمیل فرما دی-یعنی سورۃ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس کائنات کے تمام خزانے عطا کیے ہیں جن میں بھی جتنی بھی کثرت کی جائے وہ کم پڑ جائے ‘‘-

لاہور:                                                     2020-02-01                  منہاج کرکٹ گراؤنڈ

صدارت: سرپرستِ اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب

خطاب: مرکزی جنرل سیکریٹری اصلاحی جماعت، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

’’کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن اس کے اپنے نظریات پہ قائم ہوتی ہے اور انہی نظریات پہ ٹوٹتی ہے-اس لئے اپنی ثقافت و روایت سے سمجھوتہ کرنا اپنے عقیدے سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے-ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کریں-اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت کو برقرار رکھنے کے لئے صرف تبلیغ کی ضرورت ہے یا صرف تلوار کی ضرورت ہے-اسلامی تہذیب و ثقافت پھیلتی ہی تب ہے جب اس قوم کا ہر فرد اپنے اپنے ہنر کے مطابق اسلام کو پھیلانے کی کاوش کرتا ہے اور تاریخ اس طریق سے بھری ہوئی ہے کہ جہاں ضرورت پڑی مجاہد صوفی بن گئے اور جہاں ضرورت پڑی صوفی مجاہد بن گئے-اس لئے آج ہم سب کو ایک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ بقول حکیم الامت:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

 

 نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

صاحبزادہ صاحب نے مزید فرمایا کہ اس وقت پوری دنیائے اسلام بہت سنگین حالات سے گزر رہی ہے پھر چاہے وہ تہذیبی لحاظ سے ہو یا سماجی-مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کے لئے بڑا درد ناک مسئلہ ہے جبکہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو فقط احتجاج اور لانگ مارچ تک محدود کیا ہوا ہے حالانکہ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں ، بیٹیوں اور بہنوں کی آواز بن کر ان کی عملاً مدد کرنی چاہیے جو کہ ہمارا حقیقی فریضہ ہے-کیونکہ مسئلہ کشمیر اتنی طوالت اختیار کرچکا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی-لوگ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر 1947ء سے شروع ہوا جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا لیکن کشمیر کا مسئلہ تب سے شروع ہوا جب برطانوی سامراج نے وہاں پہ قدم رکھا اس وقت سے لے کر اب تقریباً 200 سال ہو گئے ہیں کشمیری مسلمان اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں-اس سے بڑھ کر کرب انگیز مسئلہ عالمی برادی کی خاموشی ہے‘‘-

(جاری ہے)


[1](اَلرِّحْلَةُ فِی طَلبِ الْحَدِيث)

[2](سورۃ العصر)

[3](الاسراء:36)

[4](آلِ عمران:103)

[5](الانعام:59)

[6](الیونس:62)

[7](مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الایمان)

[8](البقرہ:208)

[9](الاعلی:14)

[10](المائدہ:6)

[11](آل عمران:164)

[12](الفتح:28)

[13](الاسراء:70)

[14](الفرقان:۳۰)

[15](بانگِ درا)

[16](القلم:4)

[17](سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم)

[18](الاعراف:199)

[19](صحیح مسلم/ سنن ترمذی)

[20](الحجرات:10)

[21](سنن ابی داؤد / سنن ترمذی)

[22](البقرۃ:152)

[23](النساء:147)

[24](صحیح بخاری : كِتَابُ الجُمُعَةِ )

[25](ابراہیم:7)

[26](بانگِ درا)

[27](مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الدعوات، ص:201)

[28](الاعراف:33)

[29](الانعام:151)

[30](تفسیرکبیر)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر