ہر سال کی طرح اس سال بھی آستانہ عالیہ شہازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) پر عظیم الشان میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) اور عرس مبارک کی پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت جانشین ِ سلطان الفقرسرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین،جگر گوشہ بانی اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)نے فرمائی-اس پروگرام میں جہاں ملک بھر سےطالبانِ مولیٰ و عُشّاقانِ مُصطفےٰ عامۃ الناس ، علمائے کرام ، مشائخ عظام، اہلِ فکر و دانش ، دانشوروں، صحافیوں، اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی،صوبائی و وفاقی وزراء وغیرہ نے شرکت کی وہاں ہر سال کی طرح بیرون ممالک سے بھی بڑی تعداد میں لو گ اکتساب ِ فیض کے لیے حاضر ہوئے چونکہ یہ ایک عالمی اجتماع تھا اس لیے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی-اس پروگرام میں لاکھوں شرکاء کے والہانہ شوق کا عالَم دیدنی ہوتا ہے دنیاوی اغراض و مقاصد سے بے نیاز تا حدِ نظر لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے-ملک کے تمام صوبوں سےکئی لوگ قافلوں کی شکل میں وقت سے پہلے ہی پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں-اس مختلف رنگ و نسل کے اجتماع میں جو چیز مشترک ہوتی ہے وہ ہے اللہ پاک کی رضا کیلیے جذبہ صادق اور عشقِ مُصطفےٰ (ﷺ) -تمام شرکاء اسی جذبہ کو مزید اجاگر کرنے کیلیے حاضر ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو دور دراز سے آنے والے زائرین کو سفر کی طوالت اور تھکاوٹ کا احساس نہیں ہونے دیتا-
12 اپریل کو صبح کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کے شہدا سے اظہارِ یکجہتی کیلئے دنیا کی پہلی بولتی انسانی مسجد تشکیل دی گئی ( جس کی رپورٹ اسی شمارہ میں الگ شامل کی گئی ہے - )
12اپریل بروز جمعۃ المبارک بعد از نماز مغرب پہلی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں قاری محمد ریاض قادری صاحب نے احسن انداز میں تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل کیا-اس کے بعدصوفی غلام شبیر صاحب اور محمد رمضان سلطانی صاحب نے نعتیہ کلام اور ابیاتِ باھو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کئے اور مفتی محمد منظور حسین صاحب نےاپنے خطاب سے لوگوں کے دلوں کو محظوظ کیا-اس کے بعد 13 اپریل کو دوسری نشت کے آغاز میں صاحبزادہ میاں محمدضیاء الدین صاحب نے خطاب فرما کر لوگوں کے قلوب و اذہان کو مزید جلا بخشی-اس کے بعد ساڑھے تین گھنٹے کا طویل تحقیقی و خصوصی خطاب شہزادۂ بانی اصلاحی جماعت، چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ،سیکریٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا-
اپریل 2019ء میں منعقدہ اجتماع کی مختصر جھلک:
سالانہ اجتماع کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ ملک بھر سے قافلے اس مبارک محفل میں شرکت کے لئے حاضر ہوتے ہیں-گڑھ مہاراجہ شہر سے دربار عالیہ حضرت سلطان باھُو صاحب قدس اللہ سرّہ کی طرف آنے والے مین روڈ سے آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ تک عالمی تنظیم العارفین کے کارکن اور محافظ فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف یونیفارم میں ہر ہر مرحلے پر راہنمائی کے لئے موجود ہوتے ہیں-ابتدائی مرحلے میں پارکنگ سٹاف،انتظامیہ کے احکامات کے مطابق پروگرام میں شرکت کرنے والی ہزاروں گاڑیوں کو اُن کے حجم کے اعتبار سے پارکنگ کا اہتمام کرتے ہیں-اس نظم و ضبط کی وجہ سے پروگرام کے شرکاء کو واپسی پر اپنی گاڑی تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا-گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد سیکیورٹی چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں تین مختلف چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے-نشست کے بعد پنڈال میں موجود لاکھوں کا مجمع نمازِ ظُہر کی ادائیگی کے بعد تقریباً نصف گھنٹہ میں لنگر شریف تناول کرنے کے بعد واپسی کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے، دیکھنے والے اور شُرکا اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان کے حُسنِ انتظام پہ متحیر و ششدر رہ جاتے ہیں کہ کیسے اتنے بڑے انسانی سمندر کو صرف آدھ گھنٹے میں کھانا پیش کر کے فارغ ہو جاتے ہیں-پروگرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک تنظیم العارفین کے سیکیورٹی رضا کاروں کے علاوہ علاقے کی حکومتی انتظامیہ بھی بھر پور تعاون کرتی ہے-کسی حادثہ کی صورت میں ایمبولنسز، فائر بریگیڈ کی فراہمی سے لے کر موبائل سروسز کا گشت اس پروگرام کے اختتام تک جاری رہتا ہے-
خصوصی خطاب کا مختصر خلاصہ:
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے اپنے خصوصی خطاب کے ابتداء میں فرمایا کہ جہاں اہل اللہ مدفن ہوتے ہیں وہاں اردگرد اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور وہاں پر بیٹھنے والوں کے ایمان، یقین اور توکل میں پختگی پیدا ہوتی ہے-اس کے بعد وجودِ باری تعالیٰ کے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اس کائنات اور مخلوق کا موجود ہونا یہ سب اللہ تعالیٰ کے وجود پر سب سے بڑی دلیل ہے جس میں امام ابو حنیفہؒ کے اس واقعہ کو ذکر کیا گیا کہ جب لوگوں نے آپ سے وجودِ باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ ایک کشتی ہے اور اس میں ملاح اور سواریاں بھی نہیں ہیں-لیکن وہ پھربھی صحیح سلامت اپنی سمت چل رہی ہے کیا یہ چیز عقل میں آسکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں تو امام صاحب نے فرمایا کہ جب ایک چھوٹی سی کشتی بغیر چلانے والے کے نہیں چل سکتی تو اس کائنات کا بہت بڑا نظام بغیر چلانے والے کے کیسے چل سکتا ہے-آپ نے مزید فرمایا کہ وجود باری تعالیٰ کے اثبات کے بعد ضروری ہے کہ اس کےواحد ہونے کا اثبات کیا جائے اور قرآن مجیدمیں اس کی وحدانیت پر بے شمار دلائل موجود ہیں-اس کے بعد ارادہ خداوندی پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ اتنی بڑی کائنات محض اس کے ایک ارادہ سے وجود میں آئی ہے-اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں باقی ہے وہ مخلوق کو پیدا کرنے سےپہلے بھی خالق تھا اور پالنے سے پہلے بھی رب تھا-جیسا کہ امام طحاویؒ اپنے رسالہ ’’عقیدۃ الطحاویہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:
مَا زَالَ بِصِفَاتِهِ قَدِيْمًا قَبْلَ خَلِقِهِ، لَمْ يَزْدَدْ بِكَوْنِهِمْ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ قَبْلَهُمْ مِنْ صِفَتِهِ، كَمَا كَانَ بِصِفَاتِهِ أَزَلِيًّا، كَذَلِكَ لَا يَزَالُ عَلَيْهَا أَبَدِيًّا‘‘ |
|
’’وہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ہمیشہ سے اپنی تمام تر صفات کے ساتھ قدیم ہے مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے کسی وصف میں اضافہ نہیں ہوا وہ جس طرح جملہ صفات کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اسی طرح ہمیشہ تمام صفات کے ساتھ متصف رہیں گے‘‘- |
اس کےبعد صاحبزادہ صاحب نے نوجوانوں کو علمی ورثہ حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ ہم جس خطے میں بیٹھے ہیں یہ خطہ اہل علم کا مرکز رہا ہے-علامہ عبد العزیز پرہاڑوی جن کا مزار مظفر گڑھ میں ہے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام مرتبہ عطا کیا تھا کہ وہ بیک وقت دونوں ہاتھوں سے دو مختلف تحریریں لکھتے تھے-اس لئے یہ وہ خطہ ہے جس کے بارے میں آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے ہند سے پاکیزہ خوشبو آتی ہے اور وہ خوشبو اہل علم اور اہل عشق کی ہے-
پھر آپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس چیز کو واضح فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان اور قرآن پر یقین رکھتا ہے وہ کسی بھی ٹیکنالوجی کا انکار نہیں کرتا کیونکہ یہ ایسا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے انبیاء کرام (علیھم السلام) کو سکھایا جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا طریقہ سکھایا-گویا یہ ایک ایسا علم ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں پر منکشف کرتا ہے اور اس سے لوگوں کو نفع ہوتا ہے-اس ملک پاکستان کو بھی اسی ٹیکنالوجی سے دشمنوں سے محفوظ کردیا گیا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اصلی علمی ورثہ کی حفاظت کرنی چاہیے جو کہ سوشل سائنسز ہیں -اگر ہم نے اس دین کی حفاظت نہ کی تو اللہ تعالیٰ یہ ذمہ داری کسی اور سے بخوبی سرانجام کروالے گا اور ہم اس سعادت سے محروم ہوجائیں گے-اس لئےقدم اٹھائیں، استقامت کا مظاہرہ کریں اور اللہ رب العزت کی فتح ونصرت پر کامل یقین رکھیں کیونکہ استقامت پر فتح و نصرت کی بشارت اللہ رب العزت کے ذمہ کرم ہے-اللہ پاک ہم سب کے دلوں کو عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) سے منورفرمائے اورصحیح معنوں میں آقاکریم (ﷺ) کااُمتی بنائے-
پروگرام کے آخر میں لوگوں نے اولیاء کرام بالخصوص حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کا تجدید عہد کیا-ہزاروں افراد نے حضور جانشین سلطان الفقرسرپرست اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کر کے سلسلۂ قادریہ میں شمولیت اختیار کی اور ’’اسم اعظم‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوئے-
٭٭٭